دوسری قسط
(مسلکی شدت پسندی کے اس دور میں یہ مضمون علمائے سلف کی لچک دار روش اجاگر کرتا ہے)
نادر مثالیں
2۔ حنفی مسلک کی طرف منتقلی: شافعی اور حنبلی مسلک کے علما و ائمہ کے حنفی مسلک اختیار کرنے کی مثالیں تو متعدد ہیں لیکن مالکی مسلک سے حنفی مسلک جانے کے واقعات بہت ہی کم ہیں۔ تاہم حنفی مسلک کی طرف کوچ کرنے کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں۔
حنبلیوں کا حنفی مسلک اختیار کرنا: کمال الدین انباری کی کتاب نزهة الألبّاء فی طبقات الأدباء میں عبد الواحد بن علی عکبری کے تذکرے میں آیا ہے کہ ’’وہ پہلے علم نجوم سے مناسبت رکھتے تھے پھر نحو میں مہارت حاصل کرلی۔ حنبلی تھے پھر بعد میں حنفی مسلک اختیار کر لیا‘‘
ایسا لگتا ہے کہ عکبری بہت سی گہری فکری اور منہجی تبدیلیوں سے گزرے تھے کیوں کہ انھوں نے صرف مسلک نہیں تبدیل کیا بلکہ اپنا علمی میدان بھی تبدیل کیا اور نجومی سے نحوی بن گئے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں علمی و نفسیاتی سفر میں مختلف مراحل سے گزرے تھے۔ وہ دراصل ایسے علما کے پورے ایک گروپ کی نمائندگی کرتے ہیں جن کی مسلکی تبدیلی بہت گہرے اور وسیع معانی پر دلالت کرتی تھی کیوں کہ وہ ایک خالص روایت پسند مسلک یعنی حنبلیت سے ایک ایسے مسلک کی طرف منتقل ہوئے تھے جو اپنی اپروچ میں عقل کی کارفرمائی کے لیے معروف تھا یعنی حنفی مسلک۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کے علما بیشتر حنبلی مسلک سے نکل کر پہلے متوسط مسلک یعنی شافعی مسلک کی طرف کوچ کرتے تھے اور اس طرح وہ اپنے آپ کو آگے کی بڑی تبدیلی یعنی حنفی مسلک اختیار کرنے کے لیے تیار کرتے تھے اور یہ بھی گویا ایک دلیل ہے کہ فقہی مسالک میں شافعی مسلک زیادہ معتدل اور وسطیت پر مبنی تھا۔ یہاں تک کہ جو لوگ اس مسلک کی اس ثلاثی (حنبلی/ شافعی/ حنفی) تبدیلی سے گزرتے تھے ان کے لیے ایک خاص لقب ایجاد کیا گیا اور وہ تھا ’’حَنْفَشَ۔‘‘ چناں چہ امام ذہبی اپنی کتاب ’’السِّیر‘‘ میں بندنیجی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وہ پہلے حنبلی تھے پھر حنفی مسلک اختیار کیا اور پھر شافعی ہوگئے‘‘، اور اسی لیے وہ حَنْفَشَ کے لقب سے مشہور ہوگئے!!
حَنْفَشَ کے لقب سے مشہور ہونے والے دوسرے حنبلی علما میں ایک نام امام أبو الیمْن زید بن حسن كِنْدی بھی ہے جن کے بارے میں امام ذہبی ’’السیر‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’وہ ایک بڑے شیخ، امام اور علامہ تھے، حنفی فقہ کے شیخ تھے، عربی ادب کے ماہر تھے، علم قراءات پر بڑی دسترس رکھتے تھے اور شام کے مشہور محدث تھے۔ حنبلی تھے پھر حنفی مسلک اختیار کرلیا تھا۔ وہ اپنے بلند مرتبے اور رکھ رکھاؤ کی وجہ سے عالم سے زیادہ وزیر نظر آتے تھے۔‘‘
پھر امام ذہبی نے حنبلی امام ابن قدامہ مقدسی کے حوالے سے کندی کے بارے میں نقل کرتے ہوئے لکھا کہ:
’’وہ دنیاوی غرض سے حنفی مسلک میں چلے گئے تھے البتہ وہ اہل سنت ہی کے منہج پر باقی رہے اور انھوں نے مجھے وصیت کی کہ ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں اور ان کی تدفین میں شامل رہوں چناں چہ میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ یہ ایک اور مثال ہے کہ بہت سے علما کے مسلک کی تبدیلی کا محرک مادی منافع کا حصول تھا تاکہ وہ ’’علما سے زیادہ وزرا کے مانند دکھنے لگیں‘‘
اس قسم کے علما میں حسن بن مبارک زبیدی بھی ہیں جو ایک بڑے امام تھے اور انھوں نے اکثر مسالک کا مزہ چکھا اور پھر آخر میں حنفی مسلک پر پڑاؤ ڈال دیا۔
سیوطی نے بغیة الوعاة میں لکھا ہے کہ:
’’وہ ایک عالم و فاضل ہستی تھے، اپنے ہاتھ سے بہت کتابت کی اور اپنے اوقات کی پوری حفاظت کرتے تھے۔ حنبلی تھے پھر شافعی ہوگئے اور پھر حنفی مسلک پر جم گئے۔‘‘
حنبلی مسلک سے شافعی اور پھر حنفی مسلک کا یہ سفر اکثر سنجیدہ غور و فکر اور مستقل اجتہاد کا نتیجہ ہوتا تھا خاص کر ان علما کے حوالے سے جو اپنے علم و اجتہاد کے نتیجے میں حقیقت تک پہنچنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ مسلکی تبدیلی اس وقت کی علمی اور اجتہادی زندگی کی تصویر بھی پیش کرتی ہے کیوں کہ تبدیلی اجتہاد کا لازمی تقاضا ہے اور بنا اجتہاد کے تبدیلی سمجھ داری کے خلاف ہے۔
مسلکی استقرار
شافعیوں کا حنفی مسلک اختیار کرنا: یہ بات عجیب و غریب لگے گی کہ شافعیوں کے مقابلے میں حنبلیوں کے حنفی مسلک اختیار کرنے کے واقعات کہیں زیادہ ہیں۔ اس کا سبب شاید شافعی مسلک کا ادارہ جاتی سطح پر مضبوط ہونا اور اس کے منہج میں اعتدال ہونا ہو۔ اس کے باوجود ہم کو شافعی علما کے حنفی مسلک اختیار کرنے کے کچھ واقعات مل جاتے ہیں گرچہ ہم کو ملی مثالوں میں سے زیادہ تر اس زمانے سے تعلق رکھتی ہیں جب عثمانی سلطنت کی بساط عراق و شام اور مصر تک پھیل گئی تھی اور عثمانی سلطنت اور حنفی مسلک کے درمیان باہمی رشتے کسی سے مخفی نہیں ہیں۔
شافعی علما میں سے حنفی مسلک کوچ کرنے والوں میں ایک نام سعد الله بن حسین فارسی سَلْماسی حنفی مقرئ ہے۔ سخاوی نے الضوء اللامع میں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ:
’’بیت المقدس میں مقیم تھے، مسجد اقصی میں حنفی امام تھے۔ پہلے شافعی تھے پھر حنفی مسلک اختیار کر لیا تھا۔‘‘
اسی طرح ایک نام قاضی معین الدین أشرف محمد تبریزی کا ہے جو مرزا مخدوم حسنی کے نام سے زیادہ مشہور ہوئے۔ حاجی خلیفہ نے سلم الوصول میں ان کا تذکرہ ان لفظوں میں کیا ہے:
’’وہ سن 953 ہجری میں قسطنطنیہ تشریف لائے۔ پہلے شافعی تھے پھر حنفی ہو گئے تو سلطان (سلیمان قانونی) اور ان کے ماتحتوں نے ان کو خوب نوازا، اور وہ بڑے بڑے علمی مناصب پر فائز رہے۔‘‘
وہ مکہ مکرمہ سمیت کئی بڑے شہروں کے قاضی بھی رہے۔
اسی طرح ایک نام إسماعیل بن عبد الغنی نابلسی حنفی کا بھی ہے۔ محدث محمد بن عبد الباقی حنبلی بَعْلی کی کتاب مشیخة أبی المواهب الحنبلی میں ان کا تذکرہ کچھ اس طرح ہے:
’’وہ مسائل کی تحریر و تدقیق میں ماہر تھے، تاریخ و ادب کا گہرا علم رکھتے تھے۔ شافعی تھے لیکن پھر ابو حنیفہ کا مسلک اختیار کر لیا تھا۔‘‘
اس کی ایک اور مثال بڑے امام ابن عابدین حنفی بھی ہیں۔ عبد الرزاق میدانی نے اپنی کتاب حلیة البشر میں ان کے تعارف میں لکھا ہے کہ:
’’امام شافعی کی فقہ کی تعلیم لی اور اس وقت تک شافعی مسلک ہی سے وابستہ تھے، پھر اپنے ٹیچر شیخ شاکر عقاد سے قریب ہوگئے اور ان سے معقولات کی تعلیم حاصل کی اور پھر ان کے ٹیچر نے انھیں امام اعظم ابو حنیفہ نعمان کے مسلک میں داخل کرلیا۔‘‘
مالکیوں کا حنفی مسلک اختیار کرنا: مسلکی تبدیلی کی یہ صورت بہت ہی نایاب رہی ہے اور شاید اس کی وجہ دونوں مسالک کے درمیان جغرافیائی دوری تھی جس کے نتیجے میں دونوں مسلک کے علما کے درمیان میل جول بہت کم تھا سوائے عراق اور تیونس میں وہ بھی پانچویں صدی ہجری کے اوائل تک اور ایک چھوٹی مدت کے لیے۔
تاہم قدیم زمانے میں اس قسم کی تبدیلی کی ایک مثال شهاب الدین احمد بن عبد الله وادی آشی اندلسی ہیں جن کے بارے میں ابن حجر الدرر الکامنہ میں لکھتے ہیں: ’’انھوں نے اپنے شہر (وادی آش غرناطہ) میں فقہ اور ادب کی تعلیم حاصل کی اور پھر مشرق کا سفر کیا، حج کیا اور پھر پہلے طرابلس اور بعد میں حلب میں سکونت اختیار کی اور حنفی مسلک سے منسلک ہوگئے اور وہاں کے قاضی ناصر الدین ابن العدیم کی صحبت اختیار کی، وہ ان کے امالی ان کو گا کر سناتے تھے۔ متعدد مدارس اور مناصب پر ان کی بھی نیابت کی۔‘‘
اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان صاحب کے مالکی مسلک سے حنفی مسلک منتقل ہونے کے پیچھے متعدد عوامل کار فرما تھے۔ جیسے مسلکی ماحول کی تبدیلی، بڑی شخصیات کی تاثیر، مناصب پانے کی خواہش جو حنفی علاقے میں ہونے کی وجہ سے حنفی مسلک اختیار کرنے پر موقوف تھے۔ ٹھیک یہی واقعہ اس سے ایک صدی قبل انھی کے ہم وطن اندلسی عالم محمد بن مالك نحوی کے ساتھ پیش آیا تھا جو مالکی فقہ کے طور پر مشرق آئے اور یہاں شافعی مسلک اختیار کر لیا۔ چناں چہ سیوطی نے بغیة الوعاة میں ان کے بارے لکھا ہے کہ: ’’وہ اہل مغرب کے مسلک کو چھوڑ کر امام شافعی کے مسلک سے وابستہ ہوگئے تھے۔‘‘
متاخرین میں اس کی ایک مثال مصر کے مشہور مفتی عام امام محمد عبدہ ہیں۔ احمد حسن الزیات نے مجلہ الرسالہ میں شیخ الازہر حسونہ نواوی حنفی کے تذکرے میں لکھا ہے کہ خدیوی عباس دوم نے نواوی کو شیخ الازہر اور مفتی مصر دونوں عہدوں سے برطرف کرنے کا فیصلہ صادر کیا اور ان کے چچا زاد بھائی شیخ عبدالرحمن قطب نواوی کو شیخ الازہر بنایا اور شیخ محمد عبدہ کو ان کے مالکی مسلک سے حنفی مسلک تبدیل کرنے کے بعد مفتی عام کے عہدے سے سرفراز کیا۔
خوب صورت توازن
3۔ مالکی مسلک کی طرف منتقلی: دوسرے مسالک کے متعدد علما نے امام مالک بن انس کا مسلک اختیار کیا۔ ہم یہاں چند مثالیں پیش کرتے ہیں:
شافعیوں کا مالکی مسلک اختیار کرنا: قاضی عیاض نے ترتیب المدارک میں صالح بن سالم خولانی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’پہلے شافعی فقہ اختیار کی پھر مالکیت کی طرف مائل ہوگئے۔‘‘ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں لغت کے امام احمد بن فارس کے حوالے سے ایک دل چسپ بات نقل کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’وہ شافعی فقیہ تھے پھر مالکی مسلک اختیار کر لیا اور کہا: مجھے اس شہر (ری یعنی آج کا طہران) کے حوالے سے غیرت آگئی کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ اس پورے شہر میں ایک شخص بھی اتنے عظیم اور مشہور امام کے مسلک کا پیروکار نہ ہو!!‘‘
اسی طرح امام ذہبی کی السِّیر میں حافظ ابن عبد البر اندلسی کے بارے میں آیا ہے کہ: ’’کہا جاتا ہے کہ پہلے وہ ظاہری مسلک پر تھے پھر مالکی مسلک اختیار کر لیا جب کہ بہت سے مسائل میں شافعی فقہ کی طرف مائل رہے، اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے کیوں کہ وہ مجتہد ائمہ کے مرتبے تک پہنچ چکے تھے۔‘‘ اسی طرح علما کے خاندانی اثرات کی بنا پر مسلک تبدیل کرنے کی ایک مثال مشہور فقیہ ابراہیم بن محمد اِخنائی کی ہے جن کا تذکرہ ابن حجر نے إنباء الغُمْر میں اس طرح کیا ہے: ’’پہلے اپنے والد کے ساتھ شافعی مسلک پر عمل پیرا تھے پھر اپنے چچا کے ہم راہ مالکی مسلک اختیار کر لیا۔‘‘
حنفیوں کا مالکی مسلک اختیار کرنا: جس طرح مالکیوں کا حنفی مسلک اختیار کرنا نادر تھا بالکل اسی طرح اس کے برعکس حنفیوں کا مالکی مسلک منتقل ہونا بھی نایاب ہی تھا اور اس کی وجہ ہم پیچھے ذکر کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود ہم کو اکا دکا مثالیں مل ہی جاتی ہیں۔ چناں چہ مالکیوں کہ بارے میں لکھنے والے مشہور مؤرخ علامہ احمد بابا نُبُكتی نیل الابتہاج میں فقیہ فتح الدین عبد الرحمن بن الشِّحنة حلبی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وہ حنفی فقیہ تھے پھر مالکی مسلک کی طرف کوچ کرگئے اور مالکی قضا کی ذمہ داری سنبھالی۔ وہ صاحب علم و فضل اور ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھنے والے ذہین و روشن دماغ شخص تھے۔‘‘
حاصل کلام یہ ہے مالکی مسلک غالباً ایسا مسلک تھا جس سے نکلنا اور جس کی طرف کوچ کرنا دونوں سب سے کم تھا اور اس کی وجہ اس کا جغرافیائی محل وقوع تھا یعنی مغرب اور اندلس۔ ظاہر ہے وہاں تک سفر بہت مشکل اور محنت طلب تھا۔ چناں چہ عام قاعدہ یہ بن گیا جیسا کہ تقی الدین فاسی نے العِقد الثمین میں ذکر کیا ہے: ’’اہل مغرب تمام کے تمام مالکی مسلک پر ہوتے ہیں سوائے ایک دو نادر مثالوں کے۔‘‘
4۔ حنبلی مسلک کی طرف منتقلی: رہی بات حنبلی مسلک کی تو مختلف مسالک کے بہت سے علما نے اس کی طرف کوچ کیا سوائے حنفی علما کے جن میں ہم کو حنبلی مسلک اختیار کرنے کی کوئی مثال نہیں ملی۔ حنبلی مسلک نسبتاً دوسرے مسالک کے علما کے لیے سب سے کم کشش والا مسلک رہا ہے اور حاصل شدہ مثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حنبلی مسلک اختیار کرنے والے یا تو مالکی تھے یا شافعی کیوں کہ منہجی حوالے سے یہ دونوں حنبلی مسلک سے قریب تر ہیں اس طور سے کہ یہ تینوں مسالک مل کر ہی اثری مکتب فکر کی تشکیل کرتے ہیں۔
حنبلی مسلک میں کشش کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس مسلک کو عام طور سے فقہی مسلک کے طور پر دیکھا ہی نہیں گیا بلکہ اس کی عام پہچان حدیث کے مسلک کے طور پر رہی۔ یہاں تک کہ اس بات کے پورے امکان تھے کہ یہ بھی ناپید ہونے والے فقہی مسالک کے قافلے میں شامل ہوجاتا اگر اس کے اولین ائمہ میں سے ابو بکر خَلّال نے آخری عمر میں ہمت باندھ کر اس کی فقہی آرا کی تدوین کا کارنامہ انجام نہیں دیا ہوتا۔ چناں چہ امام ذہبی السِّیر میں لکھتے ہیں: خَلّال سے پہلے امام احمد کے نام سے کوئی مستقل مسلک موجود ہی نہیں تھا یہاں تک کہ خَلّال نے تیسری صدی ہجری کے بعد امام احمد کی آرا و اقوال کو جمع کیا، ان کو مدون کیا اور ان کے لیے دلائل اکٹھا کیے۔‘‘
تراجم کی کتابوں میں شافعی اور مالکی علما کے حنبلی مسلک اختیار کرنے کی بہت سی مثالیں ذکر ہیں۔ ہم بعض مثالوں کو یہاں پیش کرتے ہیں:
شافعیوں کا حنبلی مسلک اختیار کرنا: غالباً سب سے پہلے دوسرے مسالک کے جن علما کو حنبلی مسلک نے اپنی طرف متوجہ ان میں ایک نام ابو الخطاب علی بن أحمد بغدادی مؤدِّب ہے جن کے بارے میں ابن العماد حنبلی نے شذرات الذهب میں لکھا ہے کہ: ’’وہ بغداد کے مشہور شیوخ قراءات میں سے تھے اور حنبلی مجتہد علما میں شمار ہوتے تھے۔ پہلے شافعی تھے پھر خواب میں امام احمد بن حنبل کو دیکھا اور ان سے کچھ مسائل پوچھے اور صبح ہوتے ہی حنبلی مسلک اختیار کر لیا اور اسی مسلک پر کتابیں لکھیں۔‘‘ اور یہ ایک دل چسپ طریقہ تھا اپنی مسلکی تبدیلی کی توجیہ کا جو بہت سے علما کے یہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنا مسلک تبدیل کیا اور خواب کو نیا مسلک راجح قرار دینے اور اس کو قبول کرنے کی بنیاد بنایا۔
ابن العماد ہی نے امام محمد بن ناصرسَلامی بغدادی کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ: ’’انھوں نے شافعی مسلک چھوڑ کر حنبلی مسلک اختیار کرلیا اور حنابلہ کے ساتھ مل گئے اور اصول و فروع میں ان کی طرف مائل ہوگئے اور اسی مسلک پر وفات پائی۔‘‘ شافعیوں میں حنبلی مسلک کوچ کر جانے والوں میں ایک نام اپنے زمانے میں ںحو کے امام ابن ہشام المصری کا بھی ہے۔ سیوطی نے بغیۃ الوعاۃ میں ان کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا ہے: ’’پہلے شافعی فقہ اختیار کی پھر حنبلی مسلک کی طرف کوچ کرگئے، طالبین علم کو فیض پہنچانے کے لیے اپنی ذات کو وقف کردیا اور دقیق مباحث اور انوکھے نکتوں کے حوالے سے اپنی ایک منفرد شان بنائی۔‘‘
مالکیوں کا حنبلی مسلک اختیار کرنا: سخاوی نے الضوء اللامع میں عبد اللطیف بن محمد حسنی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ان کے والد مالکی تھے پر وہ حنبلی مسلک میں چلے گئے اور مکہ میں حنبلی مقام پر امامت کی ذمہ داری سنبھالی حالاں کہ ان کے پیش رو سب مالکی فقہا ہی رہے۔ پھر جب مملوکی سلطنت نے مکہ میں ایک حنفی اور ایک مالکی قاضی مقرر کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح وہاں تین قاضی متعین ہوگئے تو ان کی خواہش ہوئی کہ چوتھے قاضی وہ بن جائے۔ چناں چہ انھوں نے کہا میں حنبلی ہوں اور مکہ میں حنبلی قاضی بننے کی تگ و دو میں لگ گئے۔‘‘
اس مسلکی تبدیلی سے جڑے دل چسپ پہلوؤں میں ایک پہلو یہ ہے کہ جب کوئی عالم اپنے خاندان سے ہٹ کر کوئی دوسرا مسلک اختیار کرتا اور اس کے پیچھے ایک اہم عامل مناصب کی چاہت رہتی تو بسا اوقات وہ نئے مسلک کے علما سے مخالفت کا سامنا کرتا کیوں کہ ان کو یہ ڈر لگتا کہ نئے آنے والے کی وجہ سے ان کے اپنے مناصب اور تنخواہیں متاثر ہو جائیں گی۔ حالاں کہ بظاہر ہونا یہ چاہیے کہ ان کا بھر پور استقبال ہو کیوں کہ نئے عالم کا آنا ایک بڑا علمی اضافہ ہوگا جس سے ان کے مسلک کو تقویت ملے گی اور مسلک مزید مال دار ہوجائے گا۔
اس طرح کی ایک مثال سخاوی نے شهاب الدین احمد بن احمد كنانی شامی کے حوالے سے دی ہے کہ: ’’انھوں نے حنبلی مسلک اختیار کرنے کا ارادہ کیا تو حنبلی قاضی العزّ نے ان سے کہہ دیا کہ ان کو یہ ناپسند ہے کیوں کہ ان کا گمان تھا وہ مناصب وغیرہ میں ان سے مزاحمت کرنے کی غرض سے ہی اپنا مسلک تبدیل کر رہے ہیں۔ ان کے گمان کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کنانی شدید فقر سے دوچار تھے اور ساتھ ہی ان کے اپنے مسلک میں ان کی کوئی خاص مقبولیت بھی نہیں تھی۔‘‘
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ امام احمد کے مسلک کی طرف منتقل ہونے والوں میں اکثریت شافعیوں کی تھی جس کی ایک بڑی وجہ دونوں مسلک کے منہج میں قربت اور اسی طرح دونوں کا ایک ہی جغرافیائی علاقے یعنی عراق و شام میں باہم ساتھ رہنا تھا اور یہ علاقہ زیادہ تر انھی دونوں کے لیے خاص رہا۔ اور قریب تر مسلک کی طرف منتقلی آسان بھی ہوتی ہے اور ایک حد تک فکری تغیرات سے موافقت بھی رکھتی ہے۔
اس کے علاوہ ایک اہم پہلو حنبلی مسلک کی بنیاد گذاری اور فقہی مسلک کے طور پر نشو و نما میں تاخیر بھی تھا، کیوں کہ جب تک یہ پروان چڑھا اور تناور درخت کی شکل میں آیا تب تک عالم اسلام میں مشرق و مغرب تک تینوں مسالک اپنی جڑیں مضبوط کر چکے تھے۔ ایسے میں حنبلی مسلک کے لیے مقابلہ بہت سخت اور مشکل ہوگیا، کیوں کہ کوئی خالی جگہ باقی ہی نہیں تھی اور یہ حالت طویل عرصے تک باقی رہی یہاں تک کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے محاذ سنبھالا اور حنبلی مسلک کو غیر معمولی تبدیلیوں سے روشناس کرایا اور فتوحات کی ایک نئی دنیا سے ہم کنار کیا۔
مسالک کو جمع کرنے کی کوششیں
بہت سے علما نے صرف ایک ہی مرتبہ ایک مسلک سے دوسرے مسلک کا سفر نہیں کیا بلکہ دو مرتبہ یا اس سے بھی زائد بار اپنا مسلک تبدیل کیا۔ جیسا کہ ہم نے حَنفَشَة والے مسئلے میں دیکھا تھا اور اس کے کچھ اسباب کا تذکرہ شروع ہی میں ہو چکا ہے۔ ساتھ ہی ایک اہم سبب ایک عالم کا مستقل اجتہاد اور اس کے آرا اور مواقف میں مسلسل تبدیلی بھی تھی۔ بہر کیف کچھ لوگوں نے متعدد بار مسلکی تبدیلی پر تنقید بھی کی ہے!
ابن خلکان وفیات الأعیان میں ابو بکر المبارك ابن الدهان ضریر کے جو وجیہ کے لقب سے جانے جاتے ہیں، تذکرے میں لکھا کہ:
’’انھوں نے حنبلی مسلک سے ابو حنیفہ کے مسلک کی طرف کوچ کیا پھر مدرسہ نظامیہ میں تدریس نحو کے منصب کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ وقف کرنے والوں نے یہ شرط لگا رکھی ہے کہ یہ منصب صرف شافعی مسلک کے علما کو سونپا جاسکتا ہے تو وجیہ نے شافعی مسلک اختیار کر لیا اور اس منصب پر فائز ہوگئے۔‘‘
سیوطی نے بغیۃ الوعاۃ میں ابن الدھان وجیہ کے بعض شاگردوں کی اپنے ٹیچر کی مسلکی تبدیلیوں پر تنقیدوں کو درج کیا ہے۔
اسی طرح کچھ علما ایسے بھی رہے ہیں جو بیک وقت ایک سے زائد مسلکوں سے منسلک رہے ہیں۔ ابو الفداء قاسم بن قُطْلُوبُغَا حنفی اپنی کتاب ’الثقات ممن لم یقع فی الكتب الستة‘میں ابو بکر محمد بن رمضان حُمَیدی مصری کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وہ بیک وقت مالکی و شافعی مسلک پر عمل پیرا تھے البتہ مالکیت ان پر زیادہ غالب تھی۔‘‘
اسی طرح جب ابن فرحون مالکی نے الدیباج المُذْهَب میں امام ابو العباس عبد الله اِبیانی کا تذکرہ کیا تو لکھا کہ: ’’وہ افریقا (تیونس) کے عالم تھے البتہ اہل علم اور مالکی مسلک کے حفاظ نے ان کا دفاع نہیں کیا— اور وہ شافعی مسلک کی طرف میلان رکھتے تھے۔‘‘ اسی طرح سخاوی الضوء اللامع میں امام ابن الملقن کا تذکرہ یوں کرتے ہیں: ’’انھوں نے ہر فن میں دل چسپی لی یہاں تک کہ انھوں نے ہر مسلک کی کتابیں پڑھیں اور ان کو ہر مسلک میں افتا کی اجازت بھی دی گئی۔‘‘
اسی طرح فقیہ علی بن محمود حموی کے تذکرے میں آتا ہے کہ: ’’کسی نے ان کے بارے میں کہا کہ ان کو چاروں مسالک کی فقہ پر دسترس حاصل تھی تو ان سے کہا گیا: نہیں، کہو تمام کے تمام مسالک پر دسترس تھی!!۔‘‘ اسی طرح کسی نے کہا کہ ’’وہ حنفی مسلک کے عالم ہیں تو کہا گیا: نہیں، تمام مسالک کے شیخ ہیں!!‘‘ جب کہ ابن حجر الدرر الکامنۃ میں ان کے بارے میں کہتے ہیں: پہلے وہ حنفی تھے پھر قاضی تاج الدین سبکی کے پاس شافعی مسلک اختیار کر لیا۔‘‘
محدث محمد عبد الحی كتانی مغربی نے فهرس الفهارس میں لکھا ہے کہ: شیخ الازہر احمد دمنھوری اپنے نام میں شافعی کے بعد حنفی، مالکی اور حنبلی بھی لگاتے تھے اور انھوں نے باقاعدہ اپنے شیوخ سے اس کی اجازت لے رکھی تھی۔‘‘
یہ بہت ہی اہم پہلو ہے کہ علما میں مسلکی انتساب کو لے کر مختلف سطحیں اور تنوع موجود رہا ہے، اسی طرح جس طرح بہت سے علما حدیث و فقہ اور تصوف کے علوم کو جمع کرلیتے تھے۔ یہ ایک متبادل بھی تھا مکمل مسلکی تبدیلی یا مکمل منتقلی کا۔ شاید بہت سے علما نے اس کو اس قاعدے کے حوالے سے بھی اختیار کیا ہو کہ ’’ترجیح کے مقابلے میں جمع کرنا زیادہ بہتر ہے‘‘! اس قسم کی مثالیں تراجم اور طبقات کی کتابوں میں بہت سی موجود ہیں۔ بہت دفعہ شخصیات کے تذکروں میں یہ جملہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے: وہ حنفی تھے لیکن شافعی مسلک کی طرف مائل تھے یا اس کے بر عکس اور اسی طرح دوسرے مسالک کے حوالے سے بھی۔
کلامی فرقوں کے درمیان بھی چہل قدمیاں
مسلکی تبدیلی کا معاملہ صرف فقہی مسالک تک محدود نہیں تھا بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ فکری اور کلامی فرقوں کے درمیان بھی فرقہ بدلی کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔ ہم بعض مثالوں کو نمونے کے طور پر یہاں پیش کریں گے۔ آغاز ہی میں یہ بتانا دل چسپ ہوگا کہ اس فکری اور کلامی تبدیلی میں کبھی کبھی عورتوں کا کردار بہت ابھر کر سامنے آتا ہے اور یہ چیز ہم کو فقہی مسالک کی تبدیلی میں دیکھنے کو نہیں ملی!
حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں لکھا ہے کہ:
’’خارجیوں کے سرخیل عمران بن حِطَّان سَدُوسی کو نبیﷺ کے بعض صحابے کا ساتھ ملا اور آخر میں وہ خوارج میں سے ہوگئے اور اس کا سبب جو ہم تک پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی چچا زاد بہن خوارج کے مسلک پر چلی گئی تو انھوں نے اس سے شادی کرلی تاکہ اس کو خوارج سے واپس لاسکیں لیکن اس نے انھی کو اپنے مسلک میں گرفتار کرلیا۔‘‘
امام ذہبی نے السِّیر میں فاطمی دور کے قاضی القضاة اور ان کی حکومت کے سب سے بڑے نظریہ ساز ابو حنیفة النعمان بن محمد مغربی کے تذکرے میں لکھا ہے کہ: ’’وہ مالکی تھے پھر باطنی مسلک سے وابستہ ہوگئے اور اس کے حق میں أسّ الدعوة کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔‘‘
امام صفدی الوافی بالوفیات میں لکھتے ہیں کہ:
’’ابن زیتونی معتزلی پہلے ابو الوفاء ابن عقیل کے ساتھیوں میں سے تھے اور حنبلی مسلک کے پیروکار تھے پھر ابو حنیفہ کے مسلک کی طرف کوچ کرگئے— معتزلی مسلک اختیار کیا۔ متکلمین کے مباحث کی ان کو اچھی معرفت تھی۔‘‘
فکری اور کلامی منتقلی کی کچھ ایسی عجیب و غریب مثالیں بھی ہیں جہاں طرز فکر، رائے اور مقصد میں دو باہم مخالف اور متعارض مسلکوں کے درمیان منتقلی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کی ایک مثال مؤرخ جمال الدین قِفطی نے إنْباه الرُّواة میں ذکر کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’شُبَیل بن عَزرَة ضُبَعی خوارج کے خطیبوں اور علما میں شمار کیے جاتے ہیں— وہ پہلے تقریباً ستر سال تک شیعہ رہے پھر خوارج کا مسلک اختیار کر لیا‘‘ اسی طرح ابن کثیر نے ابو الحسن ابن العریف کا تذکرہ ان لفظوں میں کیا ہے: وہ حنبلی تھے پھر شافعی مسلک پر عمل کرنے لگے— اور کہا جاتا ہے کہ ان سب کے بعد وہ امامیوں (شیعہ) کے مسلک سے وابستہ ہوگئے۔ واللہ اعلم!!‘‘
فقہی مسالک کا معاملہ ہو یا فکری و کلامی فرقوں کا، دل چسپ بات یہ ہے کہ کبھی کبھار ہی سہی لیکن بہت ہی ہم آہنگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ وہ ایک ہی خاندان میں جمع ہوجاتے تھے۔ فرقوں کے حوالے سے اس کی ایک مثال ابن قتیبہ دینوری نے المعارف میں ذکر کی ہے: ’’مشہور اور ثقہ محدث ابو الجعد اشجعی کے چھ بیٹے تھے جن میں سے دو شیعہ تھے، دو مرجئہ تھے اور دو خوارج تھے۔ ان کے والد ان سے کہتے تھے: اے میرے بیٹو! اللہ نے تم سب کو ایک دوسرے کے خلاف کردیا ہے۔
فقہی مسالک کے ایک ہی خاندان میں جمع ہونے کی مثال کا ذکر پیچھے ہوچکا ہے کہ شیخ ابراہیم بن مسلم صمادی شافعی کے چار بیٹے تھے اور وہ چاروں اپنے باپ کی منشا اور دعا کے مطابق چاروں مسلک میں سے ایک ایک مسلک سے منسلک ہو گئے۔ مسلم مالکی ہوگئے، عبد اللہ حنبلی ہوگئے، موسی شافعی ہوگئے اور محمد حنفی ہوگئے۔
کچھ گہری دلالتیں
بڑے علما کے ایک مسلک سے دوسرے مسلک کے سفر میں کچھ اہم اور گہرے معانی پوشیدہ ہوتے ہیں جن پر ٹھہرنا اور غور کرنا مفید ہوگا۔ ہم یہاں صرف ان دلالتوں کا ذکر کریں گے جن کی تائید میں مثالیں ہم پیچھے ذکر کر چکے ہیں:
1۔ اجتہادی تحریک میں دوام اور تسلسل: سب سے پہلے، یہ تبدیلیاں خاص کر ان احوال میں جب تبدیلیوں کے محرکات بہت مرکب اور پیچیدہ ہوں علمی تحریک کی فعالیت اور اس میں موجود ڈائنامک حالت پر دلالت کرتی ہیں اور مسلمانوں میں فقہی اجتہادات کو لے کر ایک مستقل اور مسلسل زندگی کی علامت ہیں۔ کیوں کہ اگر ایک عالم اجتہاد نہ کرے اور مختلف مسالک کے مناہج اور اصولوں کے درمیان موازنہ نہ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنا مسلک تبدیل کرے۔ مسلکی منتقلی اور تبدیلی تو اجتہاد کی پیداوار اور اس کے ثمرات میں سے ہے۔ اور اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اجتہاد اور مسلکی انتخاب کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے اور اس کی دو قسمیں رہیں: مسلک کے اندر رہتے ہوئے اجتہاد اور مسلک کے باہر جاکر اجتہاد۔
ان تبدیلیوں میں اجتہادی زندگی اور اس کے اثرات کو ثابت کرنے والا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ علما اپنا مسلک تبدیل کرنے کے بعد واپس اپنے پرانے مسلک پر لوٹ آتے تھے۔ اس کی ایک مثال سیوطی نے حسن المحاضرة میں ذکر کی ہے کہ امام ابن عبد الحکم مصری امام مالک کے مسلک کے پیرو کار تھے— پھر جب امام شافعی مصر تشریف لائے تو ان کے ساتھ ہوگئے اور ان کی فقہ اختیار کرلی اور جب امام شافعی کی وفات ہوگئی تو وہ واپس امام مالک کے مسلک پر لوٹ آئے۔
2۔ مسلکی تعصب سے دوری: مسلکی تبدیلی کے یہ واقعات اسلامی علمی ماحول میں غالب مسلکی کشادہ و خوشگوار فضا پر بھی دلالت کرتے ہیں۔ فقہا ان تبدیلیوں کے ذریعے مخالف مسلکوں کے نقطہ نظر کو سمجھتے تھے اور اس طرح ایک دوسرے کے لیے عذر تلاش کرتے تھے۔ اس کی تائید ان مثالوں سے بھی ہوتی ہے جن میں ہم نے دیکھا کہ مختلف مسالک کے فقہا کے درمیان طلبہ کا تبادلہ ہوتا تھا جس کے نتیجے میں کچھ طلبہ اپنے مسلک کو چھوڑ کر ٹیچر کا مسلک اختیار کر لیتے تھے اور کچھ کھلے دل اور کھلے دماغ کے ساتھ اپنے مسلک پر باقی رہتے تھے اور دوسروں کے فضل اور وجاہت رائے کا اعتراف کرتے تھے۔
3۔ جغرافیائی حدود کی مرکزیت: جس طرح جغرافیائی حدود مسلکی تبدیلی کے محرکات کے طور پر سامنے آتے تھے اسی طرح وہ مسلکی تبدیلی کی رکاوٹ کے طور پر بھی رول ادا کرتے تھے۔ چناں چہ بہت سے علاقے اور شہر کسی ایک متعین مسلک کے زیر اثر ہونے کے سبب کسی بھی مسلکی تبدیلی یا منتقلی کے روادار نہیں ہوتے تھے۔ جیسے وسط ایشیا، ہندوستان اور خراسان کے زیادہ تر حصے پر حنفی مسلک کچھ اسی طرح غالب تھا۔ اسلامی مغرب کے شہروں میں مالکی مسلک کا تسلط تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہاں جانے والے کچھ علما وہاں کی علمی فضا کو دیکھتے ہوئے وہاں کے غالب فقہی مسلک سے منسلک ہوجاتے تھے۔
4۔ ذاتی محرکات کی کارفرمائی: ہر فقیہ اور عالم کی اپنی ایک فضا ہوتی ہے جس میں وہ نشو و نما پاتا ہے اور اپنی ایک ثقافت ہوتی ہے جس میں وہ تربیت پاتا ہے۔ اسی طرح ان میں سے ہر ایک کا اپنا خاص ذوق اور مزاج ہوتا ہے جو اس کے بشری میلانات اور مسلکی انتخاب کے لیے معیار تشکیل دیتا ہے۔ ہم نے دیکھا کس طرح یہ سب ایک عالم کے ایک مسلک سے دوسرے مسلک کی طرف منتقلی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، کبھی خاندانی اثرات کی شکل میں، کبھی کسی ٹیچر سے متاثر ہونے کی صورت میں اور کبھی اپنے مادی مصالح کے پیش نظر جو زندگی کے حالات کے نتیجے میں اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2023