ہرسال ۸مارچ کو دنیا کے ہرچھوٹے بڑے شہر میں چھوٹی بڑی تنظیمیں بڑے جوش و خروش کے ساتھ عالمی یوم خواتین منانے کا اہتمام کرتی ہیں۔ خواتین کے حقوق ان کی عزت وعصمت کی حفاظت اور ا ن کو زیادہ سے زیادہ رعایتیں دینے کے اعلانات کیے جاتے ہیں۔ تقریباً پورا مارچ کامہینا اسی کی نذر ہوجاتاہے۔
یہ ایک حقیقت کہ مرد اور عورت انسانی معاشرے کے دو اہم ستون ہیں۔ انھی کے سہارے انسانی زندگی کا پروقار اور قابل عزت معیار قائم ہے۔ ہم دنیا میں کسی ایسے سماج کا تصورنہیںکرسکتے جو صرف مردوں پر مشتمل ہو۔ہم دیکھتے ہیں عورت کے مقام اور مرتبے کا پاس و لحاظ کم ہی پایاجاتا ہے۔ رومی تہذیب کے عروج میں لوگوں کاخیال یہ تھا کہ عورت کے پائوں کی بیڑی کسی بھی حالت میں نہیں کاٹی جاسکتی اس تہذیب میں ایک بار عورت کسی مرد کے نکاح میں دے دی جاتی تو پھر زندگی اس سے چھٹکارا پانا ناممکن تھا اور عورتوں کو جایداد کے حقوق سے محروم رکھاجاتاتھا، سرزمین روم کی عیسائی عورتوں کے جسم پر کھولتا ہوا پانی ڈالاجاتاتھا اور تیز رفتار گھوڑوں کی دُم سے باندھ کر گھسیٹاجاتاتھا۔ یہاں تک کہ عورت کو کسی کھمبے سے باندھ کر زندہ جلادیاجاتاتھا۔ اس طرح رومی تہذیب نے عورت کو ظلم کی چکّی میں پیس کر رکھ دیاتھا۔ اس کے بعد بابل کی تہذیب کے عروج کے دوران بھی عورت کو خریدا اور بیچاجاتاتھا۔ اس کو جایداد کے حق سے بھی محروم رکھاجاتاتھا۔ اس تہذیب میں عورتیں چھپ کر بیٹھتی تھیں اور باپ ضرورت پڑنے پر اپنی بیٹیوں کو فروخت کردیتے تھے۔ مصری تہذیب نے عورتوں کو گناہ کی دیوی کہا۔ اس طرح یہودیوں کے عروج کے دوران عورت کے متعلق یہ تصور تھا کہ عورت گناہ و بدی اور بربادی ومصیبت کا مجسّمہہے۔ عہدنامۂ قدیم ﴿انجیل﴾ کے جس حصے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کے واقعات درج ہیں اس میں لکھاگیاہے کہ جب خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے دریافت کیاکہ کیا تو نے اس درخت کاپھل کھایا ،جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم دیاتھا کہ اسے نہ کھانا تو آدم علیہ السلام نے جواب دیاکہ جس عورت کو تونے میرے ساتھ کیاہے، اس نے مجھے اس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حوّا علیہا السلام سے کہا: میں تیرے درد حمل کو بڑھائوںگا، تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری توجہ، خواہش اور پیار اپنے شوہر کی طرف ہوںگے اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔ دوسرے الفاظ میں حواعلیہاالسلام نے آدم علیہ السلام کو گمراہ کرکے ان سے جرم کاارتکاب کروایاتھا۔ اس لیے اس کی پاداش میں قیامت تک مرد عورت پر حکومت کرتا رہے گا۔ اس دور میںعورت کو دوسری شادی کرنے کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔ یہودیوں نے عورت کے مرتبہ و مقام کو ذلّت و پستی کی طرف دھکیل دیاتھا۔
یونانی تہذیب کے دور میں عورت کو ادنیٰ درجے کی مخلوق سمجھاجاتاتھا۔ معاشرت کے ہر پہلو میں اس کا مرتبہ گراکر رکھاگیاتھا اور عزت کا مقام مرد کے لیے مخصوص تھا۔ ان کا قول تھا ’’آگ سے جلنے اور سانپ کے ڈسنے کاعلاج ممکن ہے، لیکن عورت کے شر کا علاج ناممکن ہے۔‘‘ عام طورپر یونانی لوگ نکاح کو ایک غیرضروری رسم سمجھتے تھے۔ نکاح کے بعد عورت اور مرد کا تعلق بالکل صحیح اور درست سمجھاجاتاتھا۔ اِس طرح اس دور میں عورت کی عزت و عصمت کو پامال کرکے رکھ دیاتھا۔ عیسائی مذہب کااور بنیادی نظریہ یہ تھا کہ، عورت گناہ کی ماں اور بدی کی جڑ ہے اور جہنم کادروازہ ہے۔ تمام انسانی مصیبتوں کا آغاز اسی سے ہواہے۔ پاپائیت دوران برطانیہ میں تقریباً نوے لاکھ عورتوں کو جلاکر مارڈالاگیاتھا۔ کیونکہ عورتوں کو فتنہ و شر کی جڑ سمجھاجاتاتھا۔ چرچ کی ننوں کو شادی کرنے کاحق نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔ پادریوں نے عورت کو اتنا گنداسمجھاکہ تنہائی کی زندگی کو ترجیح دی اور اُنہوں نے اپنی مائوں سے صرف اس لیے رشتہ توڑلیاکہ وہ بھی ایک عورت ہی ہے۔ عورت کو خلع کی اجازت نہ تھی جائداد میں اِس کا حق نہ ہونے کے برابر تھا۔ اِس طرح عیسائی مذہب نے عورت کو ایک کھلونا بنایا اور جس قدر اور جتنا پستی میں پھینکاجاسکتاتھا اُسے پھینک دیا۔ زمانۂ جاہلیت میں عرب کی حالت پر اگر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ وہاں عورت کاوجود خاندان کے لیے باعث شرم سمجھاجاتاتھا۔ان کی حیثیت زرخریدباندی سے بھی کم تھی۔ انہیں دوزخ کا ایندھنسمجھاجاتاتھا۔ وہ بیٹی کی پیدایش کو اپنے لیے عیب سمجھتے تھے۔ جب ہم اپنے اِس مہان دیش ہندستان میں عورت کے مقام و مرتبہ کا جائزہ لیں تو دیکھتے ہیں کہ مذہب پرست کہلانے والا اور عورت کو ستی ساوتری اور نہ جانے کون کون سی ناری سمجھنے والا یہ ملک عورت کو کون سے مقام پر کھڑا کرتاہے۔ ہندئوں کے مذہبی قانون دھرم شاستر کے مصنف منوجی مہاراج سمرتی ۱۴۷/۵ میں عورت کے متعلق لکھتے ہیں:
﴿۱﴾ عورت لڑکپن میں اپنے باپ کے اختیار میں رہے اور جوانی میں اپنے شوہر کے اختیار میں رہے اور بیوہ ہونے کے بعد اپنے بیٹوں کے اختیار میں رہے خودمختار ہوکر کبھی نہ رہے۔
﴿۲﴾ عورت کے لیے قربانی اور برت گناہ ہے۔ صرف شوہر کی خدمت کرناچاہیے۔
﴿۳﴾ عورت کو چاہیے کہ شوہر کے مرنے کے بعد دوسرے شوہر کا نام بھی نہ لے اور کھاناپینا کم کرکے اپنی زندگی کے دن پورے کرے۔
﴿۴﴾ جھوٹ بولنا عورتوں کی خصلت ہے۔
دوسرے مہاراج لکھتے ہیں : ’’دنیا میںعورت سے زیادہ گناہ گار کوئی چیز نہیں،عورت تمام خرابیوں اور برائیوں کی جڑ ہے۔‘‘ مہابھارت کے دور میں ایک عورت کے کئی شوہر ہوسکتے تھے۔ اس کے علاوہ ماہواری اور زچگی کے سلسلے سے عورت کے ساتھ گندگی کا تصور وابستہ کردیاگیاتھا۔ وہ آج بھی ہورہاہے۔ جس کی وجہ سے وہ مرد کے مقابلے میں کمتر سمجھی جاتی تھی۔ ان دنوں میں گھر کاکوئی فرد اس سے بات کرناپسند نہ کرتاتھا۔ پھر شوہر کے مرجانے پربیوی کو اس کے ساتھ زبردستی ستی ہونے یعنی آگ میں جل کر مرجانے کے لیے مجبور کیاجاتاتھا، یہ کسی نہ کسی درجے میں آج بھی ہورہاہے۔ بیوہ عورت کو کسی بھی سماج ومذہبی جلوس میںحصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ کیونکہ اس کو پاپ کی پوٹلی سمجھاجاتاتھا۔ اس کو گھر والوں سے دور رکھاجاتاتھاکہ کہیں اس کی نحوست دوسری عورتوں کو نہ لگ جائے۔ یہ آج بھی ہورہا ہے۔ ویسے بھی بیوہ عورت کاسر مونڈھ کر اسے بدشکل بنادیاجاتاتھا۔ اسے گندے کپڑے پہننے کو دیے جاتے تھے۔ نہانے دھونے پر سخت پابندی ہوتی تھی۔ وہ بالوں میں کنگھی نہیں کرسکتی تھی۔
بدھ مذہب جدید مذہب میں شمار کیاجاتا ہے۔ اس کے باوجود اس نے بھی عورتوں کو نجس ہی قرار دیا۔ اس کاثبوت ہمیں گوتم بدھ کے تعلیمات میں ملتا ہے۔ گوتم بدھ نے اپنے پیرئوںسے کہاتھاکہ ’’اگر تم نجات پاناچاہتے ہو تو تمہیںاپنی عورتوں سے رشتہ توڑلیناچاہیے اور سب سے پہلے موصوف نے خود اس پر عمل کرکے دکھایا۔ چنانچہ انہوںنے اپنی عورتوں سے رشتہ توڑلیا۔
۱۹۹۴ میں صرف ریاست گجرات میں ۸۵ ہزار حمل اس لیے گرائے گئے کہ وہ لڑکی کو جنم دینے والے تھے۔ مردم شماری کے ذریعے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ پنجاب، ہریانہ، دہلی، گجرات اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد بالترتیب ۸۵۰، ۶۵۰ اور ۷۵۰ بتائی گئی ہے۔ حال ہی میں ریاست اڑیسہ اور کرناٹک میں نوزائیدہ بچوں ﴿لڑکیوں﴾ کے جسمانی اعضاپولیتھین تھیلوں میں کچرے کے ڈبّوں اور گٹروں میں پائے گئے۔ حمل کے دوران لڑکیوں کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی ماردینا اب ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ وبا سارے ہندستان کو اپنے لپیٹ میں لے چکی ہے۔
ریاست تمل ناڈو کے ضلع مدورائی میں لڑکی کو پیداہوتے ہی گلاگھونٹ دیاجاتا ہے۔ یا پھر زندہ دفن کردیاجاتا ہے۔دوسری طرف ریاست کرناٹک ضلع بیلگام کے قریب یلمّا نام کا ایک ڈونگر ﴿چوٹی ﴾ ہے۔ وہاں پر یلما کا مندر ہے۔ ماں باپ اپنی جوان لڑکیوں کو وہاں لے جاتے ہیں اور مندر پر چڑھاوے کی طرح چڑھادیتے ہیں۔ یعنی اسے دیوداسی یا دیوتا کی کنیز بنادیتے ہیں۔ اس کے بعد والدین کا اس پر سے حق ختم ہوجاتاہے۔ آیندہ کی زندگیوں کے متعلق دیوداسیوں کاحال یہ ہوتاہے کہ یا تو وہ فحاشہ بن جاتی ہیں یا پھر قحبہ خانوں کی پری بن کر رہ جاتی ہیں۔ والدین اپنی لڑکیوں کو یلما کے حوالے کرنا ایک مقدس فعل سمجھتے ہیں۔ ضلع گلبرگہ اور داونگرہ میں یہ رسم اب بھی جاری ہے۔ ریاست بہار، آسام، جھاڑکھنڈ اور ہماچل پردیش میں اب بھی عورتوں کو بھیڑبکریوں کی طرح فروخت کیاجاتا ہے۔ خریدی ہوئی لڑکیوں کا انتہائی حد تک جنسی و جسمانی استحصال کیاجاتاہے اور بعض اوقات نہ صرف شوہر بلکہ گھر کے دوسرے افراد بھی جسمانی و جنسی استحصال میں پیچھے نہیں رہتے۔ یونین ہوم سکریٹری اور ڈائرکٹر آف سی بی آئی نے کہاہے کہ انسانوں کی خرید و فروخت کامعاملہ روز بروز بڑھتاہی جارہا ہے۔ گائوں جہاں زیارت گاہ ہوتے ہیں، وہاں سے اور پڑوسی ممالک سے طوائف کا کاروبار زوروں پر ہے۔ ان کا کہناہے کہ تیس لاکھ طوائفوں میں ۰۴ فیصد طوائفوں کی تعداد بچوں کی ہے۔ دنیا کا سب سے زیادہ اور منظم طریقے سے کیاجانے والا تیسرا بڑا جرم انسانوں کی خرید وفروخت کا ہی ہے۔ حال ہی میں سی بی آئی والوں نے ممبئی کے مختلف مقامات پر اچانک دھاوا بول دیا اور انسانوں کی خرید و فروخت کرنے والی ٹولی کو گرفتار کیا۔ جن کے قبضے میں چونتیس عورتیں ملیں جو آسام، کلکتہ، اترپردیش اور نیپال سے لائی گئی تھیں۔ جن میں آٹھ کم سن لڑکیاں بھی تھیں۔
ہمارے اس ملک میں ایک کروڑ سے بھی زائد عورتیں جسم فروشی پر مجبور ہیں۔ اپنے گھروالوں کا پیٹ بھرنے کے لیے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اخلاقی گراوٹ کامعاملہ اتنا سنگین ہوگیا ہے کہ بھارت سرکار کے پالیسی ساز اداروں کے ذمے دار اب جسم اور عزت و عصمت کے خریدو فروخت کو باقاعدہ ایک پیشے کے طورپر قبول کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ نیدرلینڈ میں جب اس پیشے کو قانونی اجازت دی گئی تو ۱۹۹۶ سے ۲۰۰۱ تک طوائف کے دھندے میں بچوں کا گراف ۳۰۰ فیصد تک بڑھ گیا۔ جو چار ہزار تا پندرہ ہزار تک بنتاہے۔ اور اس میں سے پانچ ہزار بچوں کو دوسرے ممالک سے ناجائزتجارت کے ذریعے لایاگیا۔ حالیہ دنوں کے سیکس اسکینڈل اور موبائل کیمروں کے ذریعے عورتوںکے فحش مناظر کی فروخت میں سماجی کارکن ، عدلیہ ، پولیس، بی ایس ایف سرمایہ دار اور وزرائ تک ملوث پائے گئے۔ اب یہ وبا راج بھون تک پہنچ چکی ہے۔ ٹائمس آف انڈیا کے ایک جائزے کے مطابق ۶۵ فیصد نوجوان لڑکیوں نے رائے دی کہ اگر انہیں اپنا کام نکالنے کے لیے کسی کو اپنا جسم پیش کرناپڑے تو اس میںکوئی مضائقہ نہیں۔ کرناٹک کے شہر منگلور میں پب کلچر کاانجام اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ عورتوں کی آزادی نے کیا گل کھلائے۔
دہلی میں خواتین سے متعلق جرائم کاریکارڈ نمبر ایک پر ہے۔ قتل و اقدام قتل کے واقعات ۱۸.1۱ فیصد ، چھیڑخانی، لوٹ مار ، استحصال ۷۰.۵ فیصد، اغوا ۲۵.۶ فیصد، خودکشی ۴۲.۷فیصد، جہیز کے لیے جلانے اور گھر سے نکالنے کی خبریں ۴۸.۸۱ فیصد، عصمت دری کی خبریں ۶۳.۵۲ فیصد دیگر متفرق خبریں ۴۸.۸۱ فیصد ۔ یہ اعداد وشمار یکم ستمبر۲۰۰۷ سے ۰۳/ستمبر ۲۰۰۷ تک کے ہیں۔ ﴿راشٹریہ سہارا، دہلی﴾ دوسرے نمبر پر حیدرآباد آتا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ کے نیشنل کرائم برانچ ریکارڈ بیورو ﴿این سی آر بی﴾ کے مطابق آندھرا پردیش میں گزشتہ سال ۴۸۴۱۲ خواتین سے متعلق مقدمات درج کروائے گئے۔ جو قومی شرح کا ۳۱ فیصد ہے۔ این سی آر بی ہی کے مطابق کل ہند سطح پر عورتوں کے خلاف جرائم ۲۰۰۷میں ۳.۶۱ فیصد تھے۔ عورتوں کو اتنی آزادی دی گئی ہے۔ بھلا وہ اب پیچھے کیوں رہے۔ پیاز،آلواور گاجر مولی کاٹنے والے ہاتھ اب شہر گورکھپور میںہزارو ںکی تعداد میں عورتوں نے درخواست دی ہے کہ انہیں اسلحہ کالائسنس چاہیے۔
امریکہ اور برطانیہ کی تصویر بھی ملاحظہ کیجیے۔ ۱۹۵۰ئ میں ڈاکٹر گڈوج۔ سی شوکر۔ جنھوں نے میڈیکل اسوسی ایشن آف امریکہ کے سامنے ایک لیکچر میں ایک Staticsپیش کیاتھا کہ امریکہ میں ایک لاکھ بیالیس ہزار ناجائزبچے پیدا ہوے ان میں مائوں کی عمریں بیس سال سے کم تھیں۔ یہ ۵۷ سال پرانی بات ہے۔ آج تو وہاں اتنی حیرت ناک اور بھیانک صورت حال ہے جس کاہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ عورتوں سے متعلق جرائم فی منٹ ایک زنا، ایک اسقاط حمل، ایک طلاق، ایک خودکشی، ایک اغوا۔ Guttmache Instituteکی حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ سن ۲۰۰۶ میں امریکہ میں ایک ہزار لڑکیوں کے مقابلے میں ۱۷لڑکیاں حاملہ ہوئیں، جن کی عمریں پندرہ سے انیس سال کے درمیان تھی۔ امریکہ جنسی بے راہ روی میں صرف عام لڑکیاں ہی نہیں سوسائٹی میں جو خاص ہیں جن کے نام اور کام کے چرچے ہیں، اُن کی اولاد بھی اس فعل میں ملوث ہے۔ امریکہ کی ری پبلکن پارٹی کے لیے نامزد کیے گئے نائب صدر محترمہ کی ۱۸ سالہ دختر نے ایک لڑکے کو جنم دیا اور جب پوچھاگیاکہ شادی کب کروگی؟ کہنے لگیں کہ اگلے سال کرنے کاپلان ہے۔ برطانیہ کا ایک جائزہ یہ بتاتاہے کہ برطانیہ میں ہر سال اوسطاً تین ہزار عورتوں کو حاملہ ہوجانے کی وجہ سے ملازمت سے فارغ کردیاجاتا ہے۔ بدکاری کے تیزرفتار کاروبار کے لیے ہر سال لگ بھگ چارہزار عورتوں کی خریدو فروخت ہوتی ہے۔ جیلوںمیں عورتوں کی تعدادمسلسل بڑھ رہی ہے اور گھروں میں عورتوں پر مردوں کے ہاتھوں ہونے والے تشدد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ برطانیہ میں چار بچوں میں سے ایک بچہ سنگل پیرنٹ فیملی کی زندگی گزار ہاہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ چرچ گائیڈ انگلینڈ کی رپورٹ کے مطابق ۱۹۷۲سے یہ تعداد چالیس لاکھ سے بڑھتے بڑھتے ایک کروڑ بیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ چین جو اقتصادی دوڑ میںترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے بہت آگے نکل چکاہے، وہاں کے معاشرتی اختیارات کے ڈھیلے پن اور دولت کی ریل پیل کی وجہ سے قدیم داشتائوں کاعمل پھر سے اُمنڈ کرآچکا ہے۔ ارینئے “Ernai” یعنی (Lifterally Second Wife, Mistress of Married Man) شادی شدہ مرد کی دوسری محبوبہ کاسلسلہ لاکھوں کی تعداد میں بڑھ رہاہے۔ خواتین کی انجمنیں اور ماہرین نے حکومت کا دروازہ کھٹ کھٹایاہے اور مانگ کی ہے کہ میرج ایکٹ کے قوانین میں ردو بدل کیاجائے۔ کیوں کہ ارینئے کے رجحان کی وجہ سے خاندانی قدریں بکھر رہی ہیں اور طلاق کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ دنیابھر میں ہر سال عورتوں کی خریدو فروخت کاتخمینہ ۲۳ بلین ڈالر لگایاجاچکا ہے۔ U.Sاسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ظاہر کرتا ہے کہ ہر سال چھ لاکھ سے آٹھ لاکھ انسانوں کی خریدو فروخت بین الاقوامی سرحدوں پر ہوتی ہے، جس میں ۷۰ فیصد عورتیں ہوتی ہیں، ان میں اکثر عورتوں کا مقدر جنسی کاروبار ہوتا ہے۔ مثلاً برطانیہ میں تخمینہ لگایاگیاہے کہ اسی ہزار میں ۸۰ فیصدطوائف غیرملکی باشندے ہوتی ہیں، جو ناجائزتجارت کے ذریعے لائی جاتی ہیں۔ دنیابھر میں عورتوں کی خرید وفروخت اور جنسی کاروبار کاایک طاقتور جال بچھاہوا ہے۔ جو گھانا، نائیجریا، مراکش، برازیل، کولمبیا، ڈومنک ریپبلکن، فلپائن، تھائی لینڈ، مشرقی یورپ، پولینڈ، جرمنی، ہنگری، اٹلی اور آسٹریا سے عورتوں کو سمگل کرتاہے۔ اقوام متحدہ کا مانناہے کہ دنیا کے کل چار عورتوں میں سے کم سے کم ایک عورت مارپیٹ یا جنسی استحصال یا زناکاشکار ہورہی ہے۔ W.H.Oکی جانکاری کے مطابق پتاچلاہے کہ بنگلہ دیش، ایتھوپیا، پیرو، تنزانیہ کی ۵۰فیصد سے زیادہ عورتیں اپنے گہرے تعلقات رکھنے والے مردوں کے ذریعے جسمانی و جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی حمایت والے ٹیلی ویژن سیریز جس کو BBCٹیلی ویژن کے ذریعے نشر کیاگیایہ کہاگیاہے کہ اندیشہ ہے کہ دنیا کے اطراف ۳/۱ عورتیں دورانِ زندگی گھروں میں اور کام کرنے کی جگہ پر جسمانی وجنسی تشدد کا شکار ہوگی۔ اس سیریز میں بات رکھتے ہوئے ایگزی کیٹیو ڈائرکٹر براے U.N. Fund for Population Activities کاکہنا ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں عورتوں کی حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کاعمل بڑھے گا۔ افریقہ نے جنسی تشدد کاریکارڈ قائم کیا ہے۔ افریقہ کے شہر کانگو میں ہتھیار سے لیس ٹولیاں بے قاعدہ فوج اور حکومتی فوج نے مل کر اجتماعی عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کرتے ہوئے ملوث پائے گئے۔ اب تک تقریباً تین لاکھ عورتوں کی عصمت دری کی جاچکی ہے۔ ماہ اگست میں بالی (Indonesia)میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں ماہرین صحت نے تشویش ظاہر کی اور کہاکہ ایشیائ میں بسنے والی پچاس ملین خواتین Aidsجیسی خطرناک بیماری کاشکار ہوچکی ہیں۔
اِس بھیانک اور تشویش ناک صورت حال میں مجموعی طورپر عورت کے مقام ومرتبے کی جو تصویر ابھررہی ہے وہ اس طرح ہے کہ آج ساری دنیا کے اندر آزادیٔ نسواں ، حقوق نسواں، یوم نسواں، سال نسواں کے نام پر عورت کو بے شرم وبے حیا اور برہنہ ہونے پر مجبور کیاجارہا ہے۔ اس کی عزت و احترام کو پامال کیاجارہا ہے ، اس کی قدرو قیمت کو گھٹایاجارہا ہے، اس کے جائز حقوق کو چھین کر اس پر ظلم وزیادتی کی جارہی ہے۔
’’عالمی یوم خواتین’’ منانے والوں اور اس تقریب کے ایجاد کرنے والوں سے بڑی دردمندی سے سوال کرتاہوں کہ کیا عورت کے مرتبے اور مقام کو صحیح رخ دینے کے لیے یہ صورت حال ایک لمحۂ فکریہ نہیں ہے؟ آج سے ۱۴سو سال پہلے کا دور جب حضور اقدس حضرت محمد مصطفی ﷺ تشریف لائے تو آپﷺنے عورت کی مظلومیت کو ختم کیا اور علی الاعلان دنیا والوں سے کہا۔ عورت بھی اللہ تعالیٰ کی ایسی ہی مخلوق ہے جیسے مرد۔ زندگی کے میدان میں اس کی بھی وہی حیثیت ہے، جو ایک مرد کی ہے۔ چنانچہ اسی بات کو قرآن پاک کے سورۃ النسائ میں اس طرح فرمایاگیا ہے کہ : ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کوایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کاجوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت دنیا میں پھیلادیے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔ رشتے اورقرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیزکرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہاہے۔‘‘ اسلام انسان کی عظمت اور پاکیزگی کی دعوت لے کر آیا، انسان اور انسانیت کو اس کے صحیح مقام سے واقف کرانے کے لیے دنیا میں ایک مینارۂ نور بن کر چمکا ، اس نے اپنی روشنی سے دنیا کے ہر خطے کو روشن کردیا، اس نے انسان کے دلوں میں چھپی جہالت کی تاریکی اور آنکھوں پر چھائی تنگ نظری کی گرد کو صاف کردیا، عورت انسانی معاشرے کاایک اٹوٹ حصہ ہے۔ اسلام بھلا اسے کیسے نظرانداز کرسکتا ہے۔ چنانچہ اس نے عورت کی پاکیزگی اس کے حقوق اور فرائض اس کی عظمت واہمیت کا احساس دلاکر اسے ذلت و پستی کی دلدل سے نکالا اور اسے عزت و وقار کے مقام تک پہنچادیا۔ عرب کا وہ ۳ ۲ سالہ پرنور دور ا س بات کی شہادت دیتاہے حضور ﷺنے فرمایاکہ جب کسی کے گھر میں لڑکی کی پیدایش ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس گھر میں فرشوں کو بھیجتا ہے۔ وہ السلام علیکم کہہ کر گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں میں لے لیتے ہیں۔ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کم زور جان ہے جو کم زور جان کے ذریعے پیدا ہوئی اور جو بھی اس کی پرورش کرے گا قیامت تک کے لیے اس کی مدد کی جاتی رہے گی۔ اورفرمایا: ‘‘جس نے تین یا دو لڑکیوں کی پرورش کی اچھی طرح سے ان کی تعلیم و تربیت کی پھر ان کی شادی کردی تو وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔’’حضور ﷺنے کتنی بہترین بات فرمائی ہے : ‘‘دنیا ایک متاع ہے اور اس کاسب سے بہترین سرمایہ نیک بیوی ہے۔’’ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے مرد اور عورت آپس میں ایک دوسرے کے لیے لباس کے مانند ہیں۔ جس طرح لباس جسم کو ڈھانپتا ہے اور سردی و گرمی سے محفوظ رکھتا ہے، اسی طرح عورت مرد کے لیے زندگی کی رفیق بھی اور دل و دماغ کے لیے سکون بھی ہے۔ وہ گھر کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے اور دینی و دنیوی فکر میں مرد کے ساتھ ہمدردی و خیرخواہی کافرض بھی انجام دیتی ہے۔ مرد اپنی عورت کاخیال رکھتا ہے اور جو کھاتا ہے اس کو کھلاتا ہے اور جو پہنتا ہے اس کو پہناتا ہے۔ اسلام نے بیوی کے فرائض اس کے حقوق ازدواجی زندگی کے طورطریقوں کی تعلیم واحکام جاری کرکے ایک پاکیزہ اور مثالی معاشرے کو قائم کیا۔
اسلام میں خدا کے بعد سب سے بڑا حق والدین کو عطا کیاگیا ہے۔والدین میں بھی ماں کے درجے کو بلند ٹھہرایا۔ حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے پوچھااے خدا کے رسول ﷺمیرے نیک سلوک کا سب سے بڑا مستحق کون ہے؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا: تیری ماں، اس نے دوبارہ پوچھا پھرکون؟ تو آپ ﷺنے فرمایا تیری ماں، اس نے تیسری بار پوچھاپھر کون؟ آپﷺنے فرمایا تیری ماں، اس نے پوچھا پھر کون؟ تو آپﷺنے فرمایا: تیرا باپ۔ تین مرتبہ ماں کاذکر کے اللہ کے رسول ﷺنے ماں کے مقام ومرتبے کو اس کی عزت و وقار کو بلندیوں تک پہنچادیا۔ ایک اور جگہ اللہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: ‘‘ماں کے قدموں کے نیچے جنّت ہے’’ اگر ماں راضی ہے تو وہ شخص جنت کا مستحق ہوگا۔
اسلام نے عورت کو عزت و شرف کاجو بلند مرتبہ عطاکیا۔ اس کی مثال دنیا کے کسی قدیم اور جدید معاشرے میں نہیں ملتی۔ ایک مرتبہ حضور ﷺ حضرت صفیہؓ کے ساتھ اونٹ پر جارہے تھے کہ اُونٹ کاپائوں پھسلا ۔ آپﷺاور حضرت صفیہؓ دونوں گرپڑے۔ حضرت ابوطلحہؓ آپ کو اُٹھانے کے لیے دوڑے تو آپ نے فرمایا: پہلے عورت ﴿صفیہؓ کی خبر لو۔ ایک مرتبہ ازواج مطہرات اونٹوں پر سفر کررہی تھیں، آپ ﷺنے شتربان سے فرمایا: آبگینوں کوذرا سنبھال کرلے چلو۔ اسلام نے عورت کو پردے کا حکم دے کر اس کی عزت و عصمت کی گارنٹی دی ۔ تعلیم کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ ارشاد فرمایا: ہرمومن مرد و عورت کو علم حاصل کرنا فرض ہے۔
عورت کو خلع کا بھی حق دیاگیا، اورتجارت وصنعت وحرفت، اظہار حق کی آزادی رائے اور مشورہ کا حق معاشرے کی اصلاح میں اس کا رول ان تمام امور میں اسلام نے عورت کے وجود کو بامقصد بنایا۔ الغرض دنیا میں دین اسلام وہ واحد دین ہے، جس نے عورت کو زندگی کے ہر میدان میں اس کے مرتبہ و مقام کو اس کے جائز و جملہ حقوق کو متعین کرنے کے ساتھ ساتھ رہ نمائی کرکے اسے عزت و وقار کی بلندی پر پہنچایا۔
مشمولہ: شمارہ جون 2010