جناب محمد اسلم غازی کا مضمون ’’تکثیری سماج اور دعوت ۔ چند اہم پہلو ‘‘ ماہنامہ ’زندگی نو‘ جولائی ۲۰۱۵ء میں شائع ہوا۔ مضمون میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ان کا قرآن و حدیث ’ سیرت انبیاء اور اسوہ نبی کریم ؐ کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ صاحب قلم نے اپنے خاص نقطہ نظر پر اس حدتک زور دیا کہ شرک قابل قبول نظر آنے لگا ہے اور اسلام کی دعوت بجائے ایک ’’دین‘ ‘محض ’فلاح انسانیت‘ اور’ سماجی خدمت‘ کے وسیلہ کے طور پر باقی رہ جاتی ہے۔ موصوف نے بڑی جرأت کے ساتھ کہا ہے کہ دورِ نبوت اور موجودہ بھارت کے حالات میں جو زبردست فرق پایا جاتا ہے (جس کی انھوں نے مضمون میں نشاندہی کی ہے) اس کا تقاضہ ہے کہ طریقہ دعوت میں بھی فرق ہونا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ دورِ نبوت کایعنی خود نبیؐ کا طریقہ دعوت اب بھارتی تناظر میں قابل قبول نہیں گویا دعوت دین کے لئے نبیؐ کے اسوہ کو ترک کرنا پڑے گا۔ اگر اس مفروضہ کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کا تقاضہ تو یہ ہوگا کہ رسول اللہ ؐ کے اسوہ کے بعض پہلو موجودہ دور میں قابل قبول نہیں (نعوذ باللہ) ۔ جناب اسلم غازی نے دعوت کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کے لئے کہا ہے کوئی اور اذان و نماز کے طریقہ میں تبدیلی کی بات کرے گا اور ہوسکتا ہے کہ بحث کا حاصل یہ ہو کہ جن ممالک میں روزہ رکھنے سے وہاں کی اکثریت کو اعتراض ہو وہاں روزہ کا طریقہ تبدیل کردیا جائے اسی طرح دیگر عبادات بلکہ حلال و حرام کا بھی معاملہ ایک نئے پُر فتن اجتہادی مرحلہ کی زد میں آجائے گا۔ بھارت میں پہلے ہی علماء کے ایک طبقہ نے سود کو حلال قرار دے دیا ہے ۔ گائے کو اللہ تعالیٰ نے حلال قراردیا لیکن بھارتی قوم اسے ماتا سمجھتی اور پوجتی ہے۔ کیا اس قوم کا دل جیتنے کیلئے گائے کو حرام قرار دے دیا جائے؟ حکومت اس کے ذبیحہ پر امتناع عائد کرسکتی ہے یہ اس کا اختیار ہے لیکن ایک مسلمان اسے حرام سمجھنے یا دوسروں کے جذبات کا لحاظ کرنے کے لئے اسے ترک کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اس مفروضہ کی سب سے بڑی ضرب شان رسالت مآبؐ پر پڑتی ہے کہ آپؐ کو تاقیامت‘ تمام عالم کے لئے نبیؐ بنایاگیا ہے۔ اگرہرملک کے ’’مسلم دانشور‘‘اپنے علاقہ کے تناظر میں آپؐ کے اسوہ کا جائزہ لینا شروع کردیں اور اسے موجودہ دور و سماج میں ناقابل عمل تسلیم کرلیں اور ’’دور نبوت اور اپنے ملک کے حالات میں زبردست فرق ‘‘ کی دریافت کرنے لگیں تو ختم نبوت کا عقیدہ باقی نہیں رہے گابلکہ ہر ملک و قوم میں جس طرح اُس دور کے تقاضوں کے مطابق نبی بھیجے جاتے رہے تھے ‘ وہ ضرورت اب بھی باقی نظر آئے گی۔ موصوف نے کہا ہے ’’ دعوت کے ابتدائی مرحلہ میں عمومی طور پر بڑا پُرحکمت طریقہ دعوت اختیار کیا گیا ‘‘لیکن اسی سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا بعد کے مرحلوں میں حکمت کا دامن چھوڑ دیا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ؐ کی حیات طیبہ تمام کی تمام حکمت سے عبارت تھی۔مکی ہی نہیں مدنی زندگی میں بھی خواہ بدر و حنین کے معرکے ہی کیوں نہ ہوں نبی ؐ نے اپنی امت کے لئے حکمت کے عظیم نقوش چھوڑے ہیں۔ یوں تو پورا مضمون ہی قابل نظر ثانی ہے لیکن آیئے اس کے چند سنگین پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
مکی دور کی حکمت دعوت بتاتے ہوئے جناب غازی نے لکھا کہ خاموش دعوت کے 3 سالہ دور میں نازل شدہ 32 سورتوں میں شرک کی مذمت نہیں کی گئی پھر انھوں نے ’شرک پر تنقید نہیں ‘ اور ’شرک پر ہلکی پھلکی تنقید‘ جیسے عناوین کے تحت چند سورتوں کے نام گنوائے۔ اسی طرح اعلانیہ دعوت کا دور 2 سال بتایا جس میں شرک پر تنقید نہیں ‘اشارۃً تنقید اور شرک پر واضح تنقید جیسے عنوانات کے تحت سورتوں کے نام گنوائے۔ اس تحریر سے یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ بھارت میں شرک کی مذمت کے بغیر دعوت کا کام کیا جائے یا پھرہلکی پھلکی غیر محسوس تنقید کی جائے ۔ طریقہ کار کی تبدیلی کے استدلال کے لئے انھوں نے ترتیب نزول وحی الٰہی کی ایسی تاویل نکالی ہے کہ الامان والحفیظ!جناب غازی کے استدلال سے قرآن فہمی کا سقم صاف طور پرظاہر ہوتا ہے۔ وحی الٰہی کا بنیادی مقصد بندگی رب کی تعلیم اور شرک سے منع کرنا ہوتا ہے ہر نبی نے بعثت کے بعد پہلا کام شرک پر کاری ضرب لگائی اور اس کے لئے دشمنوں کی ہر ضرب برداشت کی۔ کسی نبی کی بعثت کا مقصد ہی یہ بتایا گیا ’’ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا‘ اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کردیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو’‘۔ (النحل۔ ۳۶) درحقیقت ابتدائی دور میں جتنی سورتیں نازل ہوئیں ان میں زندگی بعد موت‘ حساب کتاب‘ دوزخ کے عذاب اور پچھلی قوموں کے انجام بد سے ڈرایا گیا ہے۔ بت پرستی ترک کرکے وحدت کو اختیار کرنا اسی وقت ممکن تھا جب انہیں بت پرستی کے بھیانک انجام سے خبردار کیا جائے اور اس انذار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ جناب غازی نے جن ابتدائی صورتوں کا ذکر کیا ہے ان ہی کے حوالہ سے دعوت کو سمجھئے ۔سورہ دھر میں کافروں کو دوٹوک انداز میں ڈرایا گیا ’’کفر کرنے والوں کے لئے ہم نے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کررکھی ہے۔‘‘ (۷۶:۴) مرسلات میں قیامت کا ایسا بھیانک نقشہ کھینچاگیا کہ دل دہل جاتا ہے’’ پھر جب ستارے ماند پڑجائیں گی اور آسمان پھاڑ دیا جائے گا اور پہاڑ دھنک ڈالے جائیں گے۔‘‘ (۷۷:۸۔۱۰)ابتدائی مکی سورتوں میں بار بار انسان کی حقیقت بتاتے ہوئے کہا گیا کہ ’’وہ حقیر نطفہ سے پیدا ہوا ہے۔ ‘‘ موجودہ بھارتی داعی حضرات کہہ سکتے ہیں کہ اس سے تحقیر کا پہلو نکلتا ہے۔ حساب کتاب اور آیات کو جھٹلانے کا انجام دیکھئے ’’درحقیقت جہنم ایک گھات ہے ‘ سرکشوں کا ٹھکانا ‘ جس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے اس کے اندر کسی ٹھنڈک اور پینے کے قابل کسی چیز کا مزہ وہ نہ چکھیں گے‘ کچھ ملے گا تو بس گرم پانی اور زخموں کا دھوون۔‘‘(النبا:۲۱۔۲۵)دوسری ہی وحی سورہ مدثر کی ابتدائی آیات ہیں ’’اٹھ کھڑے ہوجایئے اور ڈرایئے اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجئے‘‘ اس میں تین باتوں کا حکم دیا گیا ۔ پیغام الٰہی لے کر اٹھ کھڑے ہوں‘ قوم کو ایمان نہ لانے یعنی بت پرستی ترک کرتے ہوئے اللہ کو معبود تسلیم نہ کرنے اور آخرت کے انکار پرانجام بد سے ڈرائیں‘ تیسرے رب کی بڑائی بیان کریں ۔اس میں شرک کی کھلی مذمت ہے کہ لات و ہبل اور عزی کی بڑائی کے گن گانے والوں کے سامنے رب کی بڑائی اس طرح بیان کریں کہ روئے زمین پر کسی کی کبریائی باقی نہ رہنے دی جائے۔یہ کہنا کہ بتوں کی راست توہین نہیں کی گئی بتوں کو بچانے کی فکر ہے یا بت پرستوں سے اظہار محبت و ہمدردی کی کوشش! جب کہ نبیؐ نے روز اول سے ہی توحید کو دوٹوک انداز میں پیش کیا۔ ایسا نہیں تھا کہ ایک لکیر کے مقابل بڑی لکیر کھینچ کر اس کے چھوٹے ہونے کو ظاہر کردیا گیا بلکہ توحید کی لکیر کھینچ کر کہا گیا کہ باقی سب لکیری فرضی اور خیالی ہیں۔رب کی بڑائی ایسی نہیں ہے کہ دیگر معبودان میں اللہ بڑا معبود ہے بلکہ اللہ ہی معبود ہے اور دوسرے کسی معبود کا تصور ہی نہیں ہے۔ جناب غازی نے ابتدائی دور نبوت کی اس تعلیم کو فراموش کردیا کہ آپؐ کا اپنی قوم سے ایک ہی مطالبہ تھا ’’قولوا لاالہٰ الااللہ تفلحون‘‘ ۔ حیرت و تعجب ہے کہ نبی کریمؐ کی اس دعوت کو ’علم و دانش ‘رکھنے والے غازی صاحب سمجھنے سے قاصر رہے حالانکہ اس دور کے ’’ابوجہل‘‘ اس دعوت کو خوب سمجھ چکے تھے۔ جس کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعات سے ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو روکنے کی پہلی کوشش قریش کے سرداروں کے ایک وفد کی ابوطالب کی خدمت میں حاضری اور محمدؐ کو اس کوشش سے باز رکھنے کی درخواست تھی جس میں انھوں نے سماجی خدمت اور فلاحی و رفاہی کاموں کا نہیں بلکہ شرک سے روکے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے اپنے حق میں توہین قرار دیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اشراف قریش سے چند آدمی ابو طالب کے پاس گئے اور بولے ’’ اے ابو طالب! آپ کے بھتیجے نے ہمارے خدائوں کو برابھلا کہا ہے‘ ہمارے دین کی عیب چینی کی ہے‘ ہماری عقلوں کو حماقت زدہ کہا ہے ‘ اور ہمارے باپ دادا کو گمراہ قرار دیا ہے۔ لہذا یا تو آپ انہیں اس سے روک دیں یا ہمارے اور ان کے درمیان سے ہٹ جائیں کیونکہ آپ بھی ہماری ہی طرح ان سے مختلف دین پر ہیں‘‘۔(الرحیق المختوم) جناب غازی صاحب ! اگر شرک پر تنقید نہیں‘ ہلکی پھلکی تنقید اور اشارۃ تنقید والی سورتیں نازل ہورہی تھیں تب وہ کیا بات تھی جسے اس دور کے ’’ابو جہل‘‘ سماجی برائیوں پر نہیں بلکہ اپنے عقیدہ پر ضرب سمجھتے تھے اور شکایت کررہے تھے کہ ان کے دیوتائوں کو برا بھلا کہا گیااور ان کے دین میں عیب چینی کی گئی۔
ایک اور موقع پرقریش نے ابوطالب کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا ’’اے ابو طالب! اپنے بھتیجے کو روکئے ورنہ ہم برداشت نہیں کریں گے کہ ہمارے آباء و اجداد کو گالیاں دی جائیں ‘ ہماری عقل و فہم کو حماقت زدہ قرار دیا جائے اور ہمارے خدائوں کی عیب چینی کی جائے ورنہ ہم آپ سے جنگ چھیڑ دیں گے۔‘‘ بھلا وہ کون سی گالیاں تھیں جس پر قریش برہم تھے ‘ دراصل وہ توحید کی برملا اور صاف صاف دعوت تھی جس سے معبودان باطل کی خود بخود ہجو نکلتی ہے۔ کیا جنگ کی دھمکی پر آپؐ نے نرمی اختیار کی؟ نہیں! بلکہ وہ تاریخی الفاظ جو صرف کتابوں میں محفوظ ہیں اور بھارتی داعی حضرات تو صرف تقریری لذت اور زور بیان کے لئے ہی انہیں دہراسکتے ہیں۔ آپؐ نے ابوطالب سے کہا ’’چچا جان! خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں تب بھی میں اس کام کو اس حد تک پہنچائے بغیر نہیں چھوڑوں گاکہ اللہ اسے غالب کردے یا میں اسی راہ میں فنا ہوجائوں ۔‘‘ غور فرمائیں آپؐ کہتے ہیں ’’اللہ اسے غالب کردے یا میں فنا ہوجائوں‘‘ ۔ کیا جناب غازی اسے حکمت سمجھتے ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو فنا ہونے کے لئے تیار ہوجائے۔ ادھر ہم بھارتی تناظر میں سورج و چاند یعنی تمام دنیا کی دولت سے بے زاری تو درکنا ر صرف ریزرویشن پر راضی ہیںاور پارلیمنٹ میں داخلہ کے لئے ’’دین کو غالب ‘‘کرنے یا ’’اقامت دین‘‘ کی جدوجہد حتیٰ کہ فکر سے بھی دستبردار ہوکر ’’فنا ہونے‘‘ سے بچنے کی تدابیر اور حکمت عملی اختیار کرنے کی بات کررہے ہیں۔ پہلی ہجرت حبشہ کو ہوئی جو ۵ نبوی کا واقعہ ہے۔نجاشی کے دربار میں حضرت جعفرؓ نے جو تقریر کی ملاحظہ ہو ’’اے بادشاہ ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے ‘ بت پوجتے تھے‘ مردار کھاتے بدکاریاں کرتے تھے‘ ہمسایوں کو ستاتے تھے ‘ بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا۔ اس اثناء میں ہم میں ایک شخص پیدا ہوا جس کی شرافت اور صدق و دیانت سے ہم لوگ پہلے سے واقف تھے‘ اس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی اور یہ سکھلایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑ دیں …‘‘ پہلی تعلیم بت پرستی سے اجتناب تھی۔ دعوت کے ابتدائی مرحلہ میں سورہ نجم نازل ہوئی جس کے آخر میں آیت سجدہ ہے جس کی سماعت کے بعد بیشتر کفار بے اختیار سجدہ میں گرپڑے۔ یہ اطلاع اس غلط فہمی کے ساتھ حبشہ پہنچی کہ اہل مکہ مسلمان ہوگئے چنانچہ وہ مکہ واپس لوٹ گئے۔ اسی سورہ میں جبریل ؑ کی زبردست ہستی اور قوت کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ محمد ؐ نے ان سے ملاقات کی ہے پھر لات و منات اور عزی کے نام لیتے ہوئے کہا گیا ’’بھلا تم نے انہیں دیکھا‘‘ یعنی ان کی حیثیت کیا ہے؟ پھر خود ہی بتایا ’’وہ تو صرف نام ہی نام ہیںجو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ لئے ہیں‘‘۔ جناب غازی اس بلیغ انداز کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں جس میں صاف اور صریح انداز میں بتوں کی حقیقت پر تنقید کی گئی۔ ادھر ہم ہیں کہ بھارت میں پوجے جانے والے بھگوانوں کی افسانوی و خیالی حیثیت تاریخی اعتبار سے واضح اور مسلمہ ہونے کے باوجود ’برادران وطن‘ کی محبت میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہوسکتا ہے یہ بھی ماضی کے پیغمبر ہوں جنہیں لوگوں نے خدا بنالیا۔ حالانکہ مہابھارت کے کرداروں کے افسانوی ہونے کی حقیقت سے ساری دنیا واقف ہے۔ اسی سورہ میں ایک اور ستارہ شعریٰ کا جس کی کفار پوجا کرتے تھے‘ نام لے کر کہا گیا کہ اس شعریٰ کا مالک بھی وہی اللہ ہے۔ سورہ میں پروردگار حقیقی کے بارے میں بتایا گیا وہ رلاتا ہنساتا‘ مارتا جلاتا‘ نر و مادہ کو پیدا کرتا‘ دولت مند اور مفلس بناتا ہے۔ پھر اصل بات جس کی جانب متوجہ کرنا ہے کہ بروزقیامت تمہارا اٹھایا جانا اسی کے ذمہ ہے۔ پچھلی قوموں کی تباہی کا تذکرہ پھر سجدہ کا حکم اس روانی و تسلسل کے ساتھ آیا کہ مشرکین بے اختیار سجدہ میں گرپڑے۔ دعوت کا حقیقی اور نبوی طریقہ کار تو یہی ہے کہ قوم کے سامنے برملا اور ببانگ دہل کہا جائے کہ جو نام تم نے رکھ لئے ہیں وہ محض نام ہی ہیں حقیقی مالک اور پوجا کے لائق ذات تو اللہ ہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ جناب غازی نے پچھلے انبیاء کے حوالہ سے مثالیں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے اپنے اپنے دور کی نمایاں برائیوں سے قوم کو روکا اور سماجی بیماریوں کی اصلاح کی کوششیں فرمائیں۔ یہ حقیقت ہے لیکن کیا وہ سماجی مصلح بن گئے تھے ؟ نہیں بلکہ توحید کی دعوت کے ساتھ ساتھ ان برائیوں کی نشاندہی فرماتے جس سے قوم و ملک کا نقصان تھا اور یہ بتاتے کہ توحید قبول کرنے کے نتیجہ میں ان کی زندگیاں پاکیزہ ہوسکتی ہیں۔ مضمون نگار کا طرز استدلال حیرت انگیز ہی نہیں بلکہ قابل افسوس بھی ہے وہ کہتے ہیں ’’حضرت عیسیٰؑ نے تو کوڑھیوں اور اندھوں کی اتنی زبردست خدمت کی تھی کہ خدمت کا دوسرا نام ہی مسیحائی پڑگیا۔‘‘ یہ حضرت عیسیٰؑ کا معجزہ تھا نہ کہ شفاخانہ عام جس کے وہ منتظم اعلیٰ تھے۔ وہ لکھتے ہیں’ ’دائودؑ و سلیمانؑ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ بادشاہ بھی تھے جن کے ذمہ اپنی رعایا اور اطراف میں رہنے والے انسانوں کے لئے رفاہی سلطنت کا قیام بھی تھا یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تمام انبیائے کرامؑ کے پیش نظر ایک رفاہی و فلاحی اسلامی ریاست کی تشکیل ہی رہا ہے۔‘‘ سلیمانؑ کی دعوت جناب غازی کی نظروں سے اوجھل ہوگئی جو انبیائی دعوت میں رفاہی و فلاحی ریاست کے پہلوئوںکی تلاش میں مصروف ہیں۔ سلیمانؑ نے اپنے اطراف کے ایک ملک میں ملکہ اور قوم کے شرک یعنی سورج کی پوجا کی اطلاع ملی تو سلیمان نے جو خط ملکہ سبا کو بھیجا اس میں لکھا ’’مسلم ہوکر میرے پاس حاضر ہوجائو۔‘‘ جناب غازی نے نوحؑ کی دعا کو بھی ’’رفاہی و فلاحی ‘‘ کے خانہ میں ڈال دیا کہ انھوں نے بارش ‘ اولاد اور دولت کی فراوانی کا قوم کو یقین دلایا تھا حالانکہ نوحؑ کی دعا کا آغاز ہوتا ہے ’’اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک و بڑا معاف کرنے والا ہے۔‘‘ گویا رب کو ماننے کے بعد ہی معافی کا مانگنا ممکن تھا چنانچہ نوحؑ فلاحی خدمت انجام نہیں دے رہے تھے بلکہ قوم کو شرک سے منع کررہے تھے، قوم کا نوحؑ کو جواب اس کا ثبوت ہے ’’ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو ، اور نہ چھوڑو ود و سواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو‘‘ ۔ الغرض جناب غازی کے مضمون میں انبیائی دعوت میں welfare stateکے عناصر تلاش کرنے کی کوشش میں توحید کی خالص تعلیم کو نظر انداز کرتے ہوئے شرک کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بجائے خود ایک سنگین جرم اور دعوتی فکر و نظر کو ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اعلانیہ ہو کہ خفیہ‘ دعوت کا انداز بدل سکتا ہے لیکن دعوت نہیں بدل سکتی ۔ ہوسکتا ہے دور حاضر کے وسائل پرنٹ و الکٹرانک میڈیا ‘ سوشیل میڈیا فیس بک اور واٹس اپ کا استعمال نئے طریقہ کار کی وضاحت کے دائرہ میں آئے لیکن ان کے ذریعہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ داعیان حق مدعو قوم کو دوست بنانے اور قریب کرنے کی ایسی کوششوں میں لگ جائیں کہ شرک سے منع کرنے اور بتوں کی پوجا سے روکنے کا کام چھوڑ دیں۔ کسی میں ہمت نہ ہو یہ اور بات ہے لیکن اپنی کم ہمتی کو دعوت کے نئے انداز سے تعبیر کرنا غیر اخلاقی اور غیر اصولی بات ہے۔ محمدؐ جب تک نبی نہیں بنے تب تک تمام مکہ آپ کا دوست تھا اور آپ کا احترام کرتا تھا لیکن جیسے ہی نبی بنے دشمن ہوگیا حتیٰ کہ گھر بار ‘ وطن سب کچھ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ حکمت کا تقاضا تھا کہ اہل مکہ کے دلوں میں جو احترام تھا اسے بقول غازی ’cash‘ کیا جاتا اور ’’غیر محسوس‘‘ انداز میں توحید کی بات ان کے دل میں اتاردی جاتی لیکن محمد ؐنے عام اہل مکہ تو دور دشمنوں کے آگے سپر بن جانے والے ابوطالب کی بھی رعایت نہیں فرمائی اور ان سے کہا کہ اگر آپ میرا ساتھ دینا نہیں چاہتے تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے میرا رب میری کفالت کے لئے کافی ہے۔ آخری لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے رب کی کفالت پر مطمئن نہیں ہیں ۔ ضرورت ہے کہ اپنے رب پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں برادران وطن کو شرک سے روکیں اس میں ہندوستانی قوم کی بھی بھلائی اور ملک کا بھی بھلا اور اسی میں بھارتی مسلمانوں کی عزت و شان اور وقار بھی مضمر ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2016