/مئی ۲۰۱۱کو فیکلٹی آف دینیات کے ڈین پروفیسر علی محمد نقوی نے راقم الحروف کو یہ مژدہ سنایاکہ مجھے ایران کے مایہ ناز عالم دین آیت اللہ شیخ محمد علی تسخیری کی دعوت پر کلچرل کاؤنسلر سفارت جمہوری اسلامی ایران،نئی دہلی کی جانب سے ایران میں منعقد ہونے والے عالمی بین المذاہب ورکشاپ میں مدعوکیاگیا ہے ۔میں نے حامی بھرلی اور سفرکی تیاری میں لگ گیا۔
چوںکہ ۲۴/جون کو ۲ بجے رات میں تہران کے لیے پرواز تھی، اس لیے تقریباً ساڑھے بارہ بجے رات ہم لوگ اندراگاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ پر پہنچ گئے اور پرواز سے قبل رسمی کارروائیوں سے فراغت کے بعد ٹھیک پونے دو بجے طیارے میں تھے اور تین گھنٹے کے بعد ایران کے وقت کے مطابق ۵۲/جون کو ساڑھے پانچ بجے ہم تہران ہوائی اڈے پر وارد ہوئے، جہاں ہمارے میزبان آیت اللہ تسخیری صاحب کی جانب سے متعدد شخصیات کی نگاہیں ہندی علمائ اور دانش وروں کے وفد کے استقبال کے لیے فرش راہ بنی ہوئی تھیں۔ پرتپاک استقبال اور مخصوص اندازسے معانقہ کے بعد تمام دوریاں ختم ہوگئیں اور دیار غیر میں ہونے کا احساس کافورہوگیا۔ ہم لوگ تہران کے ایک عالی شان ہوٹل ’ہوٹل امیر‘ میں قیام پذیر ہوئے ۔ حوائج ضروریہ سے فراغت اور تروتازہ ہونے کے بعد ناشتے کامرحلہ بھی طے ہوا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنے معزز میزبان آیت اللہ شیخ محمدعلی تسخیری سے ملاقات اوران کے ساتھ ہی ظہرانے کااہتمام تھا۔ موصوف نے خیر مقدمی کلمات میں ہندستانی وفد کی ایران آمد کو فال نیک سے تعبیر کیا اور اتحاد بین المسلمین پر زور دیتے ہوئے اس حقیقت کو علی رؤس الاشہاد پیش کیا کہ باطل طاقتیں آپس میں مفادات کی بنیاد پر، اقتدار کی چاہت میں، غیر فطری آزادی کے اختیار واستعمال میں اور جغرافیائی حدودوقیود کی اسیر ہوکر تشتت وانتشار کا شکار ہیں اوران کے دل آپس میں تو ’وقلوبہم شتیٰ‘ کے مصداق ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ وہ اسلام اور عالم اسلام کے خلاف متحد ہیں۔امت مسلمہ کے لیے نسخہ شفا کے طور پر میزبان محترم نے فرمایا کہ ایسی سنگین صورت حال میں وقت کی اہم ضرورت ہے کہ امت مسلمہ اپنے تمام فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر وحدت واتفاق کی لڑی میں پروجائے اور اعدائے اسلام کو ’’کانہم بنیان مرصوص‘‘ کی تصویر بن کر مسکت جواب دے۔
پروگرام کے مطابق ۲۶/جون بروز یکشنبہ بذریعہ طیارہ ایک گھنٹے کی مسافت طے کرکے ایران کے مشہور تاریخی شہر مشہد کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔اس شہر میں امام علی ابن موسیٰ رضا کامزار مقدس ہے، جو اہل تشیع کے فرقہ اثنا عشریہ کے آٹھویں امام ہیں اور جن سے عباسی خلیفہ مامون رشیدکو بے حد محبت وعقیدت تھی۔ مامون اہل بیت کی محبت کا اسیر تھااور اسے حضرت علی بن موسیٰ رضا سے شیفتگی کی حد تک محبت تھی جس کی بناپر ۱۰۲ھ میں اس نے اپنا ولی عہد متعین کیااور تمام ممالک محروسہ میں اس کا اعلان کرادیا۔ مقبرہ امام ابن موسیٰ رضا مشہد میں روحانیت کاخاص مرکز ہے، جہاں ستائیس ہزار خدام تین شفٹوں میں کام کرتے ہیںاور دن ہو یا رات لاکھوں زائرین امام شہید ؒ پر عشق وعقیدت کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ مشہد میں بعض اہم عبقری شخصیات سے ملاقاتیں بھی ہوئیں اور مذاکرے بھی۔امت مسلمہ کے اتحاد باہمی کے فکری اور عملی پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
شہر مشہد میں ایک شب قیام کے بعد امام شیخ احمد جام کے مزار پر حاضری ہوئی اور علم وفضل اور احسان وتصوف کی بہت سی یادیں دلوں پر نقش ہوگئیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں خاصی تعداد میں اہل سنت رہتے ہیں۔ یہاں کے موقر اور جید علمائ اور فضلائ نے پُرجوش استقبال کیا۔ مصافحہ اور معانقہ کے بعد اس مدرسے کاعینی مشاہدہ کیا جو علمائ اہل سنت کی سرپرستی میں چلتا ہے۔ ہزاروں مربع میٹر میں قائم مدرسہ اور کم وبیش ایک ہزار سال پرانی مسجد ملت اسلامیہ کی درخشاں ماضی کی یادگار ہے۔
متعدد اساتذہ کرام اور علمائ عظام سے ملاقات وگفتگو میں راقم الحروف کو یہ ناخوشگوار احساس ہوا کہ علمائ اہل سنت پر حکومت ایران کی جانب سے بعض بے جا بندشیں ہیں اور وہ زبان وبیان کی آزادی سے بہت حد تک محروم ہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک کے شایان شان یہ نہیں ہے کہ وہ رعایا یاماتحتین سے مذہبی اور لسانی آزادی کاحق چھین لے۔ اس صورت میں یہ اقدام اور بھی سنگین ہوجاتا ہے جب کہ اس قسم کی آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منفی اقدامات نہ کیے جاتے ہوں، نہ عوام میں حکومت کے خلاف جذبات بھڑکائے جاتے ہوں اور نہ حکومت کے مذہب ومسلک سے تعرض کیاجاتا ہو۔ انقلاب کے لیے امام خمینیؒ نے وحدت اسلامی کو اپنی خصوصی توجہات کا ہدف بنایاتھا اور آج بھی اس ملک میں سیکڑوں تنظیمیں اورتحریکیں اتحاد بین المسلمین کاعلم اٹھائے ہوئے دامے، درمے، قدمے ،سخنے رواں دواں ہیں۔ تاہم ضرورت اتحاد کی عملی صورتوں کو بروئے کار لانے کی ہے۔ رواداری، وسعت قلبی، اور دوسروں کے مذہبی، ثقافتی اور سماجی خیالات وجذبات کی قدردانی نہ ہو تو بڑی بڑی حکومتیں بے تخت وتاج ہوجاتی ہیں اور تحریکوں اور تنظیموں کے منصوبے اور عزائم پامال ہوجاتے ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سفر میں اتحاد بین المسلمین وقت کی ایک ناگزیر ضرورت کے موضوع پر ایک دلچسپ علمی مذاکرے کاانعقاد عمل میں آیا۔ اس مذاکرۂ علمی کی صدارت میزبان آیت اللہ تسخیری کے نائب رفیق کار اور اتحاد بین المسلمین کے پلیٹ فارم سے کام کرنے والے سرگرم اور فعال کارکن جناب ڈاکٹر حجت الاسلام علم الہدیٰ کررہے تھے۔ پروفیسر علی محمد نقوی، مولانا مفتی سید صادق محی الدین، ڈاکٹر سید لیاقت حسین معینی چشتی، مولانا نثار احمد مدنی، ڈاکٹر حسین محمد ثقفی کے علاوہ خاکسار بھی اس مذاکرے میں شریک ہوا جس کا لب لباب یہ تھا کہ آج باطل طاقتیں اسلام اور علمبردارن اسلام کی مخالف ومعاند ہیں اور اسلام کی شمع فروزاں کو ’لیطفؤا نور اللہ بافواہہم‘ کے اعلامیے کے مطابق گل کردینا چاہتی ہیں۔ لیکن صداقت اس امر میں ہے کہ اگر آج امت مسلمہ اپنا منصب ومقام پہچان لے، قرآن وسنت کو اپنا مرجع وماویٰ بنالے اور اتحاد واتفاق کو کفرواسلام یا حق وباطل کی لڑائی میں ایک حربے کے طور پر اختیار کرلے تو یقینا اس سلسلے میں اہل باطل کی ساری کوششیں منھ کی پھونک ثابت ہوں گی اور منھ کی پھونکوں سے کوئی مادی چراغ یا شمع تو بجھائی جاسکتی ہے، لیکن اسلام کی درخشاں اور تابندہ حقیقت کو نہیں بجھایا جاسکتا۔
اس مسکن علم وتصوف کے دیدار کے بعد ہم لوگ تہران واپس آگئے ۔یہاں جن اہم شخصیات اور اداروں سے ملاقات کابیش قیمت موقع ملا ان میں ’سازمان فرہنگ وارتباطات اسلامی‘ مہتم بالشان ہے، جس کے ذریعہ خود اپنے ملک میں اور دنیا کے گوشے گوشے میں ملت اسلامیہ کے باہمی تعلقات کو خوشگوار اور ثقافت اسلامی کو مضبوط وپائیدار اورروشن وتابندہ بنانے کے لیے مراکز قائم کیے جاتے ہیں۔ اس مرکز علم وثقافت میں مرکز کے ڈائریکٹر کی صدارت میں ایک علمی مذاکرے کاانعقاد عمل میں آیا۔ صدر نشست کی وقیع اور علمی گفتگو کے بعد ہندی علمائ کے وفد میں سے جن تین حضرات کو اظہار خیال کے لیے مدعو کیاگیا ان میں خاکسار کانام بھی شامل تھا۔ اس مذاکرے کا ماحصل یہ تھا کہ کسی بھی قوم وملت کا معنوی وجود در اصل اس کی زندگی کی ضمانت بنتا ہے۔ اس معنوی وجود کی بقا واستحکام کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس قوم کی تہذیب وثقافت محکم ومضبوط اور واضح ودرخشاں ہو اوراس قوم و ملت کے اندر اتحاد واتفاق کو عظیم ترین سرمایہ سمجھا جاتا ہو۔ امت مسلمہ اگر عروج واقبال کی بلندیوں کی خواہاں ہے اور اپنی تہذیب وثقافت کو روشن شکل میں دیکھنا چاہتی ہے تو قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا، دنیاسے بے جامحبت اور موت سے وحشت وخوف کے مذموم جذبات کاقلع قمع کرنا ہوگا اور ’واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولاتفرقوا‘ کے پیغام اتحاد کو وطیرۂ حیات بنانا ہوگا۔ پروگرام کے اختتام پر شیعہ اور سنی دونوں ہی مکتبہ فکر کے عوام وخواص نے ایک ہی مصلے پر مغرب کی نماز باجماعت کااہتمام کیا اور اس کے بعد سازمان فرہنگ وارتباطات اسلامی کے ہی سبزہ زار میں پرتکلف عشائیہ پیش کیا گیا۔
اس کے بعد ہم تہران ریڈیو اسٹیشن گئے۔فارسی، اردو، ہندی، عربی اور انگریزی کے مختلف شعبہ جات کانظم وانصرام اور ان کے متعلقین کا اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی میں انہماک واستغراق لائق ستائش تھا۔ دوسرے دن اسی مرکز میں بعض اہم شخصیات سے ملاقاتیں تھیں۔ کشادہ اور شاندارہال میں ایک مجلس مذاکرہ کاانعقاد ہوا جس میں اس ادارہ کی مقتدر شخصیات کے علاوہ پروفیسر علی محمد نقوی اور ڈاکٹر سید لیاقت معینی نے بالخصوص اپنے فکر انگیز خیالات کا اظہار کیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد انواع واقسام کے کھانوں اور پھلوں سے سجا ہوا کشادہ دسترخوان ہندی علمائ اوردانشوروں کی اس کہکشاں کو دعوت اکل وشرب دے رہا تھا اور منتظمین ضیافت کے لیے سراپا اشتیاق بنے ہوئے تھے۔
اس مہم سے فراغت کے بعد ایران کے اس شہر کاد ورہ تھا جسے علم وفن اور تہذیب وثقافت کاشہر کہا جاتا ہے۔ اس مخزن علم وثقافت سے میری مراد شہر ’قُم‘ہے۔ چنانچہ ۲۸/تاریخ کو نماز عصر ادا کرنے کے بعد ہی کاروان ہندی نے علم وادب کے اس شہر کی سمت رخت سفر باندھا اور آرام دہ کار سے تقریباً دو گھنٹہ کی مسافت طے کرنے کے بعد اس شہر میں جلوہ گرہوا ۔ عالیشان ہوٹل اولمپک میں جو اپنے میزبان آیت اللہ تسخیری کے بھائی کی ملکیت ہے، گرمجوشی سے استقبال کیا گیا۔ یہ وہ مسکن علم وادب ہے، جہاں گلی کوچوں میں بھی بڑے بڑے دانش گاہ اور اکیڈمیاں نظر آتی ہیں۔ ازہر یونیورسٹی کے بعد غالباً دنیا کی واحد یونیورسٹی ہے جو آب وتاب کے ساتھ اپنی خدمات جلیلہ میں مصروف ہے اور کم وبیش ساٹھ ممالک کے اسی ہزار طلبہ وطالبات اس چشمۂ صافی سے اپنی علمی تشنگی بجھارہے ہیں۔ اس عظیم الشان دانش کدے سے میری مراد شہر قُم کی قُم یونیورسٹی ہے۔ یہاں دو روزہ قیام کے دوران متعدد علمی شخصیات سے ملاقات کاشرف حاصل ہوااور متعدد دانش گاہوں اور علمی اداروں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ قُم میں آیت اللہ العظمی المرعشی کاذاتی کتب خانہ دنیا کے نادر کتب خانوں میں ہے۔ یہ مختلف مذاہب ومسالک پر کم وبیش دو لاکھ کتابوں پر مشتمل ہے، اوریہاں مختلف زبانوں میں چالیس ہزار مخطوطات کاخزینہ بھی محفوظ ہے۔ متعدد صحابہ کرام کے دست مبارک سے لکھے ہوئے قرآن کریم کے نسخوں کے علاوہ ہزار سال قبل سے قرآن کریم کی بتدریج خطاطی کے نادرنمونے موجود ہیں۔ جلد سازی، کتابوں پر نقاشی اور ہزاروں سال قبل کی کتب کو محفوظ رکھنے کے جدید آلات ومشینوں کودیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اخلاص ، عزم اور جہد مسلسل کسی بھی فرد یا کسی بھی جماعت کے لیے سرمایۂ افتخار ہوا کرتا ہے۔ آیت اللہ المرعشی کا لگایا ہوا علم وادب کا یہ پودا فی الواقع شجر طیب کی شکل اختیار کرچکاہے جو علم و فن کے متوالوں کے لیے کافی وشافی روحانی غذا فراہم کرتاہے۔چنانچہ شب وروز ہزاروں تشنگان علم وفن اور جویائے تحقیق اس مرکز علم وفن سے گوہر مقصود حاصل کرتے ہیں۔ قوم وملت کے لیے ایسا نادر خزینہ محفوظ کرلینے والی یہ مایہ ناز ہستی اسی کتب خانہ کے دروازے پر مدفون ہے۔
ایران کے مختلف شہروں میں ایک ہفتہ شب وروز گزارنے کے بعد راقم نے ایران اور اہل ایران کو گہری نظر کے ساتھ دیکھنے کی کوشش کی۔ چند حقائق تاثرات سپرد قلم کیے جاتے ہیں:
یقینا مردآہن آیت اللہ خمینیؒ کو انقلاب کے لیے مصائب وشدائد کی بھٹیوں سے گزرنا پڑا۔ اس راہ میں سنگلاخ وادیاں سر کرنا پڑیں اور جلاوطنی کی پندرہ سالہ مدت گزارناپڑی۔ آیت اللہ خمینیؒ کااخلاص تھا کہ وہ وطن سے ہزاروں میل دور رہ کر بھی ایرانیوں کے دلوں کی دھڑکن بنے رہے اور شاہ اپنے وطن میں رہ کر بھی مذموم ومغضوب ہوگیاتھا۔ انقلاب ایران صرف شاہی حکومت کی تبدیلی کانام نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی شخصیت کے ذریعہ رونما ہوا تھا جو دین کا فہم وتدبر بھی رکھتاتھا، اخلاق فاضلہ کے زیور سے بھی آراستہ تھا اور سیرت مصطفوی ﷺ اس کے لیے آئیڈیل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب نے عوام کے دلوں کو اپیل کیا او ر انھوں نے ہرچہار جانب سے اس کا استقبال کیا۔ آج جب کہ انقلاب کے تینتیس سال گزر چکے ہیں، ایک نئی نسل تیار ہوچکی ہے تاہم آج ایرانی عوام کے رہن سہن ، گفت وشنید اور اخلاق وکردار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ انقلاب ان کے لیے اذکار رفتہ قسم کی کوئی چیز نہیں ہے اور نہ کوئی نامانوس چیز ہے، بلکہ متاع محبوب اور گوہر مقصود ہے۔باوجودیکہ یورپین ممالک کی نگاہ میں اس ملک کی ترقی شہتیر بن کر کھٹک رہی ہے اور انھوں نے اس کا حتی الامکان مقاطعہ کررکھا ہے، تاہم ایرانی عوام کے چہروں پر بشاشت اور طمانیت ہے۔ یہ اقتصادی خوشحالی اور سائنسی ترقیوں کے لحاظ سے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں۔’الطہور شطرالایمان‘ کی تعلیم محض زیب داستاں کے لیے نہیں یا اپنی خطابت کی زینت کے لیے نہیں ہے، بلکہ سڑکیں، شاہراہیں، پارک، ہوٹل، شفاخانے، دانش گاہیں، ہرجگہ اس تعلیم نبوی ﷺکے عملی مظاہرے ہوتے ہیں۔ ہوٹل ہو یا شفاخانہ، سڑک ہو یا گلی کوچہ ،گندگی اور غلاظت تودورکی بات ہے راقم الحروف نے کہیں پر کوئی کاغذ کاٹکڑا تک نہیں پایا۔ یہی وجہ ہے کہ گردوغبار اور تمام قسم کی آلائشوں اور آلودگیوں سے پاک اس شہر میں ایک کپڑا بلامبالغہ ایران میں کئی دنوںتک پہنا جاسکتاہے۔ خاص طور سے سڑکوںاور شاہراہوں کے دونوں سمت پیڑپودوں کی مخصوص انداز سے تراش وخراش اور تزئین وآرائش کادیدہ زیب منظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تہران کے حسن کو دوبالا کرنے میں قدرت کی خاص نگاہ کرم ہے۔
ایک اور چیز جس نے راقم کو متاثر کیا، وہ ہے وہاں کاٹریفک سسٹم۔ہرسڑک یاہر شاہراہ پر مخصوص رفتار سے گاڑیوں کا چلنا اور چلانا ہی معروف ومقبول طریقہ ہے۔ تھوڑی تھوڑی دوری پر الیکٹرانک مشینیںکام کرتی ہیں جن سے گاڑیوں کی رفتار کی جانکاری ہوتی ہے۔ ٹریفک سسٹم کی خلاف ورزی پر قابل ذکر جرمانہ عائد کیاجاتاہے۔ ہزارہا گاڑیاں سڑکوں پر متعین رفتار سے دوڑتی ہیں لیکن بالکل سکوت کا عالم ہوتاہے۔ دیگر مشرقی ممالک میں خاص طور پر سارک ممالک میں تو صوتی آلودگی اس قدرہے کہ بسا اوقات کانوں میں انگلیاں ڈالنی پڑتی ہیں۔لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں ایک ہفتہ تک قیام پذیر رہا لیکن سڑکوں پہ گاڑیوں کا ہارن تک نہیں سنائی دیا۔
تہران ہو یامشہد، تربت جام ہو یا قم ایران کے جن شہروں کو بھی دیکھنے اور وہاں کے لوگوں سے ملنے کااتفاق ہوا، تقریباً مشترک صفات کامشاہدہ ہوا خواہ اسلامی انقلاب کے تئیں جذباتی وابستگی ہو، پردہ کااہتمام ہو، صفائی ستھرائی کا نظم وڈسپلن ہو، اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں جہدوکاوش ہو، غریب الوطن بھائیوں سے ملنے کا جذبۂ مستحسن ہویاپھر ان کامخصوص انداز ضیافت۔خاکسار کو اور جگہوں کے مقابلے میں تہران میں زیادہ قیام کاموقع ملا ۔ دوسری جگہوں کے بالمقابل یہاں متعدد بلند پایہ علمی شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں، نسبتاً زیادہ جامعات ، اداروں اور تاریخی مقامات کو دیکھنے کااتفاق ہوا، یہاں کے بازاروں کو بھی قریب سے دیکھا اور یہاں کے لوگوں سے بھی براہ راست بعض معاملات میں سابقہ پڑا، اس لیے تاثرات تجربات اور مشاہدات کا غالب حصہ اسی شہر سے متعلق ہے۔
انقلاب اسلامی کے نقوش پورے ایران بالخصوص تہران کے چپے چپے پر مرتسم ہیں۔ تینتیس سال کا طویل عرصہ کے گزرنے کے باوجود ایرانی عوام انقلاب اسلامی اور اس کے اثرات ونتائج کے تئیں بیدار ہیں، تہران کی سڑکوں اور شاہراہوں پر اسلامی انقلاب میں کام آنے والے شہیدوں کے نام اور ان کی تصویریں ایرانی عوام کے جذبات کو تروتازہ رکھتی ہیں اور بچہ، جوان، ادھیڑ اور ضعیف العمر خواہ عورت ہو یا مرد انقلاب اسلامی کے تئیں تعلق خاطر کا ثبوت دیتا ہے اور بالعموم اس کے اثرات و نتائج کو اپنے لیے فال نیک سمجھتاہے۔ ان کے یہاں آپس میں بعض اختلافات ہیں اور کسی بھی جمہوری ملک یاآئیڈیل ریاست کے لیے یہ پہلو خلاف شان نہیں ہوتا۔تاہم اعدائے اسلام کے لیے وہ متحد نظرآتے ہیں اور دشمن کو کسی بھی قیمت پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
تہران کے ایک بازار میں جو ہمارے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا اس کی روشنی میں ایرانی عوام کی دینداری، اخلاق اور ایمانداری کی روشن مثال سامنے آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ میںشعبہ تاریخ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے موقر استاذ اور اجمیر شریف کے سجادہ نشین ڈاکٹر لیاقت حسین معینی اور کشمیر کے ایک عالم دین مولانا نثار احمد صاحب مدنی کی رفاقت میں واپسی کے روز یعنی ۰۳/جون کوجمعہ کے دن بچوں کے بازار میں کچھ خریداری کے لیے گیا۔ میں نے ایک خوبصورت سی ٹی شرٹ اپنے بیٹے فیصل کے لیے خریدی تھی جو ایرانی کرنسی تو مان کے لحاظ سے سترہ ہزار کی تھی جوہندوستانی کرنسی میں ساڑھے آٹھ سو روپے ہوتے ہیں۔ کشمیری دوست مولانا نثار احمد صاحب نے ایک بیگ خریدا تھا، اس ٹی شرٹ کو غیر شعوری طور پر اس بیگ میں رکھ دیا گیا تھا اور بیگ کو اسی دوکان میں بطور امانت چھوڑ دیا گیاتھا تاکہ دیگر اشیائ خرید کر آخر میں بیگ کو لے لیا جائے۔ اسی دوران میں نے اپنے چھوٹے بیٹے حمزہ کے لیے ایک ٹی شرٹ خریدی۔ اسی دوران پہلے خریدی ہوئی ٹی شرٹ کی طرف دھیان گیاجو میرے ہاتھ میں نہیں تھی اور پھر مجھے تشویش ہوئی کہ وہ کسی دوکان میں چھوٹ گئی۔ اس ٹی شرٹ کے ساتھ دس ہزار کے کچھ اور سامان بھی تھے، گویا ۷۲ہزار کااثاثہ کھوجانے پر پسینہ آگیا۔ پریشانی میں ادھر ادھر بھٹکتا رہا، جن جن دکانوں میں گیا تھا سب کی خاک چھانتا رہا اور دکانداروں سے پوچھتا رہا ،لیکن کہیں پتہ نہیں چلا۔ ہم لوگ ایک دوکان میں جھانک ہی رہے تھے کہ دوکان کامالک باہر نکل کر آیا اور ہم لوگوں کو ہراساں وپریشاں دیکھ کر مزاج پرسی کی۔ حسن اتفاق کہ وہ صاحب انگریزی زبان سے واقف تھے، چنانچہ میں نے حقیقت حال پوری طرح ان کو بتادی۔ وہ بہت پریشان ہوئے اور اپنی دکان کو سامنے والی دکان کے مالک کے حوالے کرکے ہم لوگوں کو تقریباً ۱۰۰ میٹر دور ایک دوکان میں لے گئے جہاں سے گم شدہ چیزوں کے بارے میں باضابطہ اعلان ہوتاتھا اور پھر ہم لوگوں کے یہ خضر راہ بڑے وثوق واعتماد کے ساتھ یہ کہہ کر اپنی دکان کی طرف چلے گئے کہ اگر آپ کی چیز اس مارکیٹ میں کہیں پر اور کسی دکان میں بھی ہوگی تو ۰۱ منٹ کے اندر آپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔ ہم لوگ تھوڑی دیر کے لیے وہاں سے ہٹ گئے ۔چوںکہ ٹی شرٹ عمدہ اورجاذب نظر تھی ،چنانچہ پہلی ٹی شرٹ کے ملنے سے ناامید و مایوس ہوکر مزید سترہ ہزار تومان کی پروا نہ کرتے ہوئے اسی دوکان سے اسی قسم کی ایک اور شرٹ خرید لی، لیکن نگاہیں اسی دوکان کی طرف مرکوز رہیں جہاں سے یہ اعلان ہوا تھا۔ چنانچہ دس منٹ کے بعد جب اس دکان میں گئے اور اپنی گمشدہ اشیائ کے بارے میں پوچھا تو بہت ہی اعتماد کے ساتھ دوکاندار نے کہا ،صاحب !آپ کی چیز اس مارکیٹ میں موجود نہیں ہے، اگر ہوتی تو یقینا آپ کے ہاتھوں میں آجاتی۔ بس وہ کسی چلتے پھرتے آدمی کے ہاتھ لگ گئی ہوگی،اشارہ تھاکسی ہندوستانی ، پاکستانی یا بنگلہ دیشی کی طرف۔
بازار میں تقریباً دو بج چکے تھے۔ اسی شام کو ساڑھے تین بجے ہندوستان واپسی کے لیے ایرپورٹ بھی پہنچنا تھا۔ غیر متوقع تاخیر سے ہم لوگ پریشان تھے۔ بازار چھوڑتے وقت محتاط طریقہ اختیار کرتے ہوئے دوبارہ خریدی ہوئی ٹی شرٹ اور کچھ دوسری چیزیں اپنے کشمیری ساتھی کے بیگ میں رکھنا چاہیں تو الحمدللہ پہلی والی ٹی شرٹ اور سامان پر نظر پڑی۔ ناامیدی کی حالت میں ایک طرف ستائیس ہزارتومان کااثاثہ مل جانے پر خوشی کی انتہا نہ رہی تو دوسری طرف بڑی خفت بھی محسوس ہوئی۔ پھر خاموشی سے ہم لوگ اس دوکان میں گئے جہاں سے دوسری بار بھی وہی شرٹ خریدی تھی اوردکاندار کو بتایا کہ بھائی اسے واپس کرلیجیے، اس لیے کہ جوشرٹ کھوگئی تھی وہ مل گئی ہے۔ منھ بسورے بغیر اور ماتھے پہ شکن آئے بغیر ہماری خوشی میں شریک ہوتے ہوئے دوسری شرٹ اس دوکاندار نے واپس لے لی۔ ہم اس صورتحال سے ہندوستان میں دوچار ہوئے ہوتے اور کسی بڑی دوکان سے خریدی ہوئی چیز دوبارہ واپس کرنے جاتے تو اول وحلہ میں ہم تردد وپس وپیش کا شکار ہوتے۔ کسی طرح ہمت کرکے اگردوکان تک پہنچ جاتے تو پہلے تو عالی مرتبت سیٹھ صاحب کی بے التفاتی کارنج سہنا پڑتا اور اگر وہ بادل نہ خواستہ متوجہ بھی ہوتے تو بحث وتکرار کے مراحل سے گزرتے ہوئے شاید اس بات پر فیصلہ ہوتا کہ پیسے تو واپس نہیں ہوں گے، کوئی سامان لینا ہوگا۔راقم کے ساتھ پیش آمدہ اس واقعہ سے اس ملک بالخصوص باشندگان تہران کے بارے میں کئی باتیں مترشح ہوتی ہیں:
ایک طرف اس شخص کے اخلاق وکردار کی غمازی ہوتی ہے جو ہم لوگوں کو اپنی دکان پڑوسی کے حوالے کرکے اس مقام تک لے گیا جہاںسے گم شدہ اشیائ کے بارے میں اعلانات ہوتے ہیں۔کوئی بھائی پریشان نہ ہو اور گم شدہ اشیائ مالک کو مل جائے۔ اس کے لیے باضابطہ بازاروں میں ایک ایسی جگہ کامتعین ہونا جہاں سے اعلانات ہوتے ہوں تاکہ کھوئی ہوئی چیز اصل مالک تک پہنچ جائے، یہ انتظام واہتمام ایک بھائی کے تحت محبت ومؤدت، پاس امانت اور دین داری پر ناطق ثبوت فراہم کرتاہے۔جائے اعلان واشتہار تک پہنچانے والے اور اعلان کرنے والے کاوثوق واعتماد کے ساتھ یہ کہنا کہ آپ کی چیز اگر بازار میں کہیں بھی چھوٹ گئی ہے تو دس منٹ کے اندر انشائ اللہ آپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔ اس پایہ کا اعتماد اس حقیقت پر شاہد عدل ہے کہ یہاں کے لوگوں میں بدنیتی، خیانت اور اکل حرام کے جذبات ناپید ہیں اور ان کے نزدیک دوسروں کی چیزوں پرنگاہ غلط انداز مبغوض ہے۔
مشرق کے اس سپرپاور ملک کی عظمت کے ان پہلووں کے علی الرغم ایک دلخراش بات جو چیز راقم السطور کے مشاہدے میں آئی، وہ یہ کہ بلاشبہ طبقہ اہل سنت کے لوگ بھی خاصی تعداد میں رہتے ہیں تاہم اہل سنت کی مساجد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور اہل سنت کے عوام وخواص کے ساتھ فراخدلانہ تعلقات میں کمی ہے۔ اسلامی انقلاب کے علمبرداروں کے شایان شان بھی ہے اور ملک کی داخلی پالیسی کو مضبوط ومستحکم کرنے میں حکمت عملی کاتقاضا بھی ہے کہ قرآنی اعلامیے ’انما المؤمنون اخوۃ‘ کے مطابق باوجود عقائد میں ضمنی اختلافات کے شیروشکر ہوکر رہیں۔ وحدت اسلامی کی آواز اور تحریک جب تک عملی شکل اختیار نہیں کرے گی اوراس جانب اقدام خود اپنے گھر سے نہیں ہوگا، اتحاد واتفاق سے متعلق آوازیں صدابصحرا ثابت ہوں گی اور اس سلسلے میں کوششیں بے ثمر رہیں گی۔ بلکہ تلخ نتائج پر منتج ہوں گی۔
قرآن وسنت کو ایمان وعمل کی بنیاد بنانے والی قوم جب آج سے کم وبیش تین دہائی قبل تمام فروعی اختلافات کو ختم کرکے ’بنیان مرصوص‘ بن گئی تو دنیاکی سپرپاور طاقت بھی پست ہمتی اور شکست خوردگی کاشکار ہوگئی۔ مغرب زدہ بلکہ فحاشی وعریانیت کے دلدادہ شاہ کی سرپرستی میں ایران اسلام اور شعائر اسلام کی بقاوتحفظ کے لحاظ سے زمین شورثابت ہوچکا تھا، لیکن ایرانی قوم نے جب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا، جذبۂ شہادت سے سرشار ہوکر شاہ کے تخت وتاج کی پامالی اور دین ومذہب کے غلبہ و تمکنت کو اپناہدف ومقصود بنالیا اور رہبر انقلاب امام خمینیؒ کی قیادت میں گھر بار،زرو زمین، یہاں تک کہ جان جیسی متاع عزیز کو بھی تیاگ دیناگوارا کرلیا تو دشمن کی نگاہیں خیرہ ہوگئیں، ہمتیں پست ہوگئیں اورشاہ وقت کاتخت وتاج پامال ہوگیا۔ اور اس روح پرور منظر کو نگاہوں نے دیکھا کہ لاقانونیت اور بادشاہی ختم ہوئی، بے دینی، فحاشی اور عریانیت کے لیے گنجائش باقی نہیں رہی اور پورے ملک میں اسلام اور اسلامی انقلاب کا غلغلہ بلند ہوا ۔ بلاشبہ اسلامی انقلاب کے اثرات ونتائج ہنوز باقی ہیں، ایرانی عوام میں جذبہ شہادت قابل ستائش ہے، اتحاد بین المسلمین کی جدوجہد لائق تحسین ہے، اقتصادی، ثقافتی اور سائنسی ترقیاں بھی قابل مبارک باد ہیں،لیکن اگر اس ملک کے اندر شیعہ وسنی کی سرد جنگ میں کمی آجائے، تمام مسلم فرقوں اور تنظیموں کے تئیں وسعت ظرفی، کشادہ نظری، فراخ دلی اوررواداری کی تعلیمات عملی شکل اختیار کرلیں اور صحیح معنوں میں قرآن وسنت کو حبل متین مان کر زندگیوں کو ان کی درخشاں اور انقلابی تعلیمات سے منورکرلیا جائے تو اسلامی انقلاب کو اور تقویت ملے گی، اس کے خوشگوار اثرات ونتائج کادائرہ وسیع تر ہوگا اور معنوی ترقیوں کے لحاظ سے قابل ذکر پیش رفت ہوگی، جس کے نتیجے میں ایران کے ساتھ عالم اسلام کی جذباتی وابستگی کو مزید تر تقویت ملے گی اور اعدائ اسلام کے مذموم حوصلے پست وپامال ہوں گے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2011