بر ّصغیر ہند میں آزادی کے بعد جن اصحابِ قلم نے چھوٹے بچوں کے لیے آسان زبان میں اسلامیات کے مختلف پہلوؤں پر کتابیں تیار کی ہیں، سیرت ِنبویؐ اور سیرتِ صحابہ و تابعین پر معتبر و مستند لٹریچر پیش کیا ہے اور اسلامی آداب و اخلاق اور دین کی بنیادی تعلیمات بچوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے قیمتی تحریریں لکھی ہیں، ان میں ایک معتبر نام جناب عرفان خلیلی کا ہے۔ بجا طور پر ان کا شمار ادبِ اطفال کے ممتاز مصنفین میں کیا جانا چاہیے۔ میرے لیے بڑے شرف کی بات ہے کہ مجھے ان کے سامنے زانوے تلمذتہہ کرنے کا موقع ملا ہے۔
ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد ؍ اپریل ۱۹۴۸ء میں جماعت اسلامی ہند کی تشکیل ہوئی ۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد جماعت کی مجلس شوریٰ کے پہلے اجلاس (منعقدہ ۲۷تا ۲۹؍ اگست ۱۹۴۸ء) میں طے پایا کہ جماعت کے تجویز کردہ نظام تعلیم کو برو ئے کار لانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ چنانچہ یکم جنوری ۱۹۴۹ء سے ملیح آباد (لکھنؤ) میں، جہاں جماعت کا مرکز تھا، مرکزی درس گاہ جماعت اسلامی ہندکے نام سے طلبہ کی درس گاہ مع اقامت گاہ قائم کردی گئی۔ پھر جولائی ۱۹۴۹ء میں اسے رام پور منتقل کر دیا گیا۔ اجلاس میں طے کیا گیا تھا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ان حضرات کی خدمات حاصل کی جائیںجو بچوں کی تعلیم و تربیت کا تجربہ رکھتے ہوں اور تعلیم ِ اطفال سے متعلق جدید معلومات و نظریات سے بھی واقف ہوں۔ چنانچہ جناب افضل حسین (۱۹۱۸۔۱۹۹۰ء) کو، جو جماعت کے رکن اور اس وقت ضلع جھانسی (یو پی) کے ٹیچرس ٹریننگ کالج میں وائس پرنسپل تھے، رام پوربلا کر درس گاہ کا ناظم مقرر کر دیا گیا۔ ان کے علاوہ جناب محمد شفیع مونس، جناب سید شوکت علی نیازی اور جناب عبد الوحید خاں کی خدمات حاصل کی گئیں۔[مختصر تاریخ جماعت اسلامی ہند، محمد شفیع مونس، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی، ۲۰۰۵، ص ۷۴۔۷۵]
جماعت کے ذمہ داروں نے مرکزی درس گاہ کا ایک اجمالی نصابی خاکہ تیار کیا اور اس کے مطابق درسی کتب کی تیاری کا فیصلہ کیا۔ افضل حسینؒ صاحب نے اپنی نگرانی میں یہ کام شروع کیا اور پرائمری سطح کے تمام مضامین کی درسی اور معاون کتب تیار کر لی گئیں۔ یہ کتابیں اسلامیات، عربی، ہندی، اردو، انگریزی، ریاضی ، تاریخ، جغرافیہ، سائنس اور دیگر مضامین پر مشتمل ہیں۔ ان کتابوں کی خصوصیات یہ ہیں کہ ان میں اسلامی نقطۂ نظر کو کلیدی حیثیت دی گئی ہے، زبان و بیان اور مواد کو سلیس، آسان ،سادہ اور دل چسپ بنا کر بچوں کے ذوق و رجحان اور ان کی نفسیات کا پورا لحاظ رکھا گیاہے۔ تعلیم کی جدید تکنیک اور جدید تقاضوں کو بھی ہر قدم پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس چیز کی بھی ضرورت محسوس کی گئی کہ بچوں میں مطالعہ کی عادت پیدا کرنے کے لیے مختلف درجات میں معاون کتب کے علاوہ خارجی مطالعہ کے لیے بھی کتابیں تیار کی جائیں، جن سے زبان دانی، عام معلومات، دینی معلومات اور ذہن سازی میں مدد ملے۔ [جماعت اسلامی ہند کی تعلیمی خدمات، شعبۂ تعلیم جماعت اسلامی ہند ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، ص ۱۰، ۱۶، ۲۸]
بہت سی نصابی اور معاون درسی کتابیں خود افضل حسین صاحب نے تیار کیں۔ ان کے معاون مصنفین میں مولانا محمد یوسف اصلاحی، جناب متین طارق باغپتی، مولانا محمد ایوب اصلاحی جیراج پوری ، جناب سید شوکت علی اورڈاکٹر ابن فرید کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ جماعت کے وابستگان نے بچوں کے خارجی مطالعہ کے لیے بھی کہانیوں کی کتابیں تیار کیں۔ ان میں اوپر مذکور حضرات کے علاوہ جناب مائل خیرآبادی، جناب وصی اقبال اورجناب ابو خالدکی خدمات اہم ہیں۔ بعد کے دور میںدرسی، معاون درسی اور خارجی مطالعہ کے لیے کتب کی تیاری میں مولانا سراج الدین ندوی کا اہم کردار ہے۔ اس سلسلۃ الذہب میں ہمارے ممدوح جناب عرفان خلیلی کا نام بھی بہت نمایاں ہے۔
عرفان خلیلی ضلع اناؤ (اتر پردیش) کے قصبہ صفی پور کے رہنے والے تھے۔ اسی نسبت سے ان کے نام کے ساتھ صفی پوری کا لاحقہ ملتا ہے۔ ان کا تعلق ’قاضی‘ خاندان سے تھا۔ ابتدائی زندگی اور تعلیم کے بارے میں معلومات حاصل نہ ہو سکیں ۔ ان کے ایک استاد کا نام جناب مولوی حاتم علی حیرت تھا،جن کی طرف انھوں نے اپنی کتاب ’بیت بازی‘کا انتساب کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کی تربیت نے ان کے اندر سخن فہمی کا ذوق پیدا کیا۔ مرکزی درس گاہ میں وہ ۱۹۵۶ء میں تشریف لائے تھے۔ ریاضی اور اردو کے مضامین کی تدریس ان سے متعلق تھی۔راقم سطور کو ان سے ریاضی پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ تدریس کے علاوہ درس گاہ کی بورڈنگ ہاؤس (ہاسٹل) کی اتالیقی (نگرانی) بھی ان کے ذمے تھی۔ میرے زمانۂ طالب علمی میں دو ہاسٹل تھے: چھوٹے بچوں کے اتالیق جناب اسلام اللہ پریمی اور بڑے بچوں کے اتالیق جناب عرفان خلیلی تھے۔ میں نے درس گاہ میں پانچ برس (۱۹۷۱ ۔ ۱۹۷۵ء) تعلیم حاصل کی ۔ ابتدائی تین برس جناب اسلام اللہ پریمی کی نگرانی میں رہا۔ بعد کا عرصہ جناب عرفان خلیلی کی نگرانی میں گزرا۔ مجھے دونوں چچا میاں (درس گاہ میں طلبہ استاد کو چچامیاں کہتے تھے) کی قربت اور شفقت حاصل تھی۔ ۱۹۸۱ء میں ریٹائرمنٹ کے ضوابط نافذ ہونے کے بعد عرفان خلیلی صاحب کا تعلق تدریس سے تو ختم ہو گیا تھا، لیکن بورڈنگ ہاؤس کے اتالیق وہ بعد میں بھی رہے اور ۱۹۹۶ء میں اپنی وفات تک بچوں کی تعلیم و تربیت کی خدمت انجام دیتے رہے۔ ان کے بلا واسطہ شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جب کہ ان کی تحریروں سے استفادہ کرنے والے توکہیں زیادہ ہیں۔
عرفان خلیلی اپنی جوانی ہی میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ (م ۱۹۷۹ء) کی تحریروں سے متاثر ہو گئے تھے۔ جماعت کی تشکیل ہوئی تو وہ اس کے رکن بن گئے۔ ان کے بعض علمی کام مولانا مودودیؒ کی تحریروں کے جمع ترتیب اور تدوین سے متعلق ہیں:
(۱) موضوعاتِ قرآنی: یہ کتاب دراصل مولانا مودودیؒ کی تفسیر’ تفہیم القرآن‘ کا اشاریہ (Index) ہے۔ مولانا نے تفسیر کی چھ جلدوں میں سے ہر جلد کے آخر میں اہم مضامین کا ایک اشاریہ تیار کیا تھا۔ اس کتاب میں سب کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ اس کی اولین اشاعت ۱۹۸۵ء میں مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے ہوئی تھی۔
(۲) نکات ِقرآنی: اس کتاب میں ایمانیات (توحید، رسالت، آخرت)، حکمت ِشریعت، تخلیقِ انسانی، معاشرت و معیشت، اجتماعیت و سیاسیات، شخصیات و مقامات کے عناوین کے تحت تفہیم القرآن کے اقتباسات جمع کیے گئے ہیں۔ ہر عنوان کے تحت بہت سے ذیلی عناوین ہیں۔ پوری کتاب میں ایک سو چوّن( ۱۵۴) ذیلی عناوین قائم کیے گئے ہیں۔ ہر اقتباس آیتِ قرآنی اور اس کے ترجمے اور تشریح پر مشتمل ہے۔ اس کے آخر میں تفہیم القرآن کی صرف جلد کا حوالہ دیا گیا ہے۔ بہتر تھا کہ صفحہ کا بھی حوالہ دیا جاتا ، یا سورت کا نام اور حاشیہ نمبر درج کر دیا جاتا۔ اس کتاب (صفحات ۵۶۸) کی اولین اشاعت ۱۹۸۸ء میں مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے ہوئی۔
(۳) آبگینے: اس کتاب میں مولانا مودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن اور ان کی تصنیف ’تحریکِ اسلا می کی کام یابی کے شرائط‘ سے ایسے اقتباسات جمع کیے گئے ہیں جن سے قارئین کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک تسلیم کرنے کے بعد ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ آخرت ہوگی یا نہیں؟ اور اس دن کی بازپُرس سے کس طرح بچا جا سکتا ہے؟ ہمارے دین کے انفرادی و اجتماعی تقاضے کیا ہیں؟ مومن کو کن صفات کا حامل ہونا چاہیے؟ اجتماعیت کے کیا تقاضے ہیں؟ اور عام انسانی صفات کیا ہیں؟ ان اقتباسات کو مرتب نے ’آبگینے‘ سے تعبیر کیا ہے کہ ان کی آب و تاب قاری کو ضرور اپنی طرف کھینچے گی اور ان کا مطالعہ اس کے دل و دماغ اور روح کو سکون و طمانینت بخشے گا۔ اقتباسات کو جوں کا توں نہیں نقل کیا گیا ہے،بلکہ ان کا خلاصہ اپنے الفاظ میں نئے اندازسے ترتیب دے کر پیش کیا گیا ہے۔ اسی لیے اقتباسات کے حوالے نہیں دیے گئے ہیں۔ اس کتاب (صفحات ۹۶) کی اشاعت ۱۹۹۸ء میںمرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے ہوئی ہے۔
عرفان خلیلی کی ایک کتاب’ اچھے لوگ‘ کے نام سے ہے۔یہ کتاب اصلاً احادیث کا مجموعہ ہے۔ اس میں انھوں نے خوب صورت، اچھوتے اور منفرد انداز میں احادیث مرتب کی ہیں۔ انھوں نے زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ان اوصاف حمیدہ کو جمع کر دیا ہے جو انسانوں میں پائے جانے چاہئیں۔اس کتاب انتالیس (۳۹) ذیلی عناوین کے تحت اچھے لوگوں کی صفات نمایاں کرنے والی احادیث بیان کی گئی ہیں۔ ہر حدیث کے بعد اس کی تخریج کی گئی ہے اور اس کے راوی کا نام درج کیا گیا ہے۔ چند عناوین یہ ہیں:اچھا مسلمان، اچھا عمل کرنے والا، اچھا نمازی، اچھا پڑوسی، اچھا شوہر، اچھی بیوی، اچھا تاجر، اچھا مزدور، اچھا مسافر، اچھا لباس پہننے والا، اچھی گفتگو کرنے والا ۔
عرفان خلیلی کا اصل کام ادبِ اطفال پر ہے۔ انھوں نے چھوٹے بچوں کے لیے بھی لکھا ہے اور بڑے بچوں کے لیے بھی ۔ سیرتِ نبویؐ پر بھی ان کی کتابیں ہیں اور سیرتِ خلفائے راشدین پر بھی۔ انھوں نے تابعین ِعظام اور سلف ِصالحین کے حالاتِ زندگی بھی بیان کیے ہیں اور اہم تاریخی واقعات کو بھی بہت مؤثر اور دل نشیں اسلوب میں پیش کیا ہے۔ذیل میں ان کتابوں کا تعارف کرایا جا تا ہے:
۱۔ ہمارے حضورﷺ:
اس کتاب میں اختصار کے ساتھ سہل اور سادہ زبان میں اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت بیان کی گئی ہے۔ مصنف نے اس کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے:
’’ دیرینہ خواہش تھی کہ سیرت کی ایک ایسی کتاب مرتب کروں جو بچوں اور کم پڑھے لوگوں کے لیے مفید ثابت ہو اور جس کے ذریعے حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ایک خاکہ دلوں میں بیٹھ جائے اور ذہنی طور پر انھیں کوئی بار محسوس نہ ہو۔ اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے سیرت کا یہ مختصر کتابچہ مرتب کیا گیا ہے، جو مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہے:
زبان سادہ اور عام فہم استعمال کی گئی ہے۔
اسلوب ایسا اختیار کیا گیا ہے جس سے بچوں میں دل چسپی پیدا ہو۔
بے جا طوالت سے پرہیز کرتے ہوئے ہر عنوان ایک صفحہ میں ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔
سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ صاحب ِسیرت کی مبارک زندگی سے لگاؤ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے‘‘۔ (ہمارے حضورﷺ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ص ۴)
مولانا سید احمد عروج قادریؒ نے اس کتاب کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے:
’’ بچوں کی کتابوں میں سیرت نبویؐ کے واقعات منتشر طور پر موجود ہیں، لیکن ضرورت تھی کہ ایسی کوئی کتاب ان کے لیے مرتب کی جائے جس میں نبیؐ کی زندگی (ولادت سے وفات تک) کا ایک اجمالی خاکہ بچوں کے سامنے آجائے۔ ’ہمارے حضورؐ ‘ نے یہ ضرورت پوری کی ہے۔ زبان سادہ، بچوں کے لیے قابل فہم استعمال کی گئی ہے اور واقعات سیرت کی مستند کتابوں سے لیے گئے ہیں‘‘۔ (ہمارے حضورؐ، حوالہ سابق، ص ۳)
کتاب کے آخر میں ’آپؐ نے فرمایا‘ کے عنوان سے چالیس مختصر احادیث کا ترجمہ درج کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۸۲ء میں مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے شائع ہوئی ۔
۲۔ آپﷺ کیسے تھے؟
اس کتاب میں مصنف نے بڑا انوکھا انداز اختیار کیا ہے۔ اس میں آں حضرتؐ کے اخلاق و عادات اور روز مرّہ کے معمولات اختصار کے ساتھ آسان زبان میں بیان کیے ہیں۔کتاب کا تعارف انھوں نے ان الفاظ میں کرایا ہے:
’’ یہ خواہش بہت دنوں سے تھی کہ اسوۂ حسنہ کا کوئی ایسا مجموعہ مرتّب ہو جائے جس سے ہر کس و ناکس فائدہ اٹھا سکے۔ ذہن میں ایک خیال ابھرا:’’کیوں نہ سیرت کے ان واقعات کو مرتّب کردوں جو ہماری روز مرّہ زندگی سے براہ راست تعلّق رکھتے ہوں۔‘‘اس خیال کے آتے ہی میری آنکھیں جگمگا اٹھیں، دل خوشی سے لب ریز ہوگیا، منھ مانگی مراد مل گئی۔ اسی بہانے سے ایک بار پھر اپنے آقا کی خدمت کا موقع نصیب ہوگیا۔ دماغ آسمان پر اڑنے لگا۔ قلم نے اپنا کام کرنا شروع کردیا۔یہ مختصر سا مجموعہ تیار ہوگیا، جو حجم میں چھوٹا ضرور ہے، مگر ہے بہت قیمتی۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر عنوان ایک ہی صفحہ پر ختم ہو جاتا ہے اور زبان آسان ہے۔‘‘( آپؐ کیسے تھے؟مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی،ص۵)
اس کتاب کا پہلا اڈیشن ۱۹۹۹ء میں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوا ۔
۳۔ پیارے نبیﷺ کے چار یار:
سیرت نبویؐ پر دوکتابوںکی تالیف کے بعد عرفان صاحب نے ارادہ کیا کہ اسی طرز پر بچوں کے لیے خلفائے راشدین کی سیرت بھی لکھیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ کتاب تالیف کی۔ اس کے چار حصے ہیں : حصۂ اوّل : حضرت ابوبکر صدیقؓ، حصۂ دوم: حضرت عمرفاروقؓ، حصہ سوم: حضرت عثمان غنیؓ، حصۂ چہارم حضرت علیؓ۔ انداز بیان وہی ہے کہ ہر عنوان کو ایک صفحہ میں مکمل کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے:
’’آج سے لگ بھگ سات سال پہلے میں نے کم پڑھے لکھے لوگوں اور کم عمر والوں کے لیے پیارے نبیﷺ کی مبارک زندگی کے حالات ایک خاص انداز سے مرتب کیے تھے اور اس کا نام ’ہمارے حضورؐ‘ رکھا تھا۔ خدا کے فضل و کرم سے وہ کتاب بہت مقبول ہوئی۔۔۔۔برادر محترم جناب سید جاوید اقبال صاحب منیجر مرکزی مکتبہ اسلامی نے خواہش کی ہے کہ اگر اسی ڈھنگ پر خلفاء راشدین کے حالات ِ زندگی بھی مرتب ہو جائیں تو بہت اچھا ہو۔ میری بھی یہ تمنا تھی،مگر سر دخانۂ دل میں دبی ہوئی تھی۔ موصوف کی فرمائش نے اس میں گرمی پیدا کردی اور سعادتِ دارین سمجھتے ہوئے میں نے یہ کام شروع کر دیا۔۔۔ پہلے کی طرح اس بار بھی یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ ایک عنوان ایک صفحہ پر ہی ختم ہوجائے‘‘۔( پیارے نبی کے چار یار، حصہ اول، حضرت ابو بکرصدیقؓ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، ص ۵)حصّہ اول پہلی مرتبہ ۱۹۹۸ء میں ا ور بقیہ تینوں حصے، ۲۰۰۰ء میںمرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع ہوئی۔
۴۔ پیاسی روحیں:
یہ دس کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں عہد نبویؐ کے دس واقعات کو بڑے ہی مؤثر اسلوب میں کہانی کے طرز پر پیش کیا گیا ہے۔ مصنّف نے ان کے بارے میں لکھا ہے:
’’جی ہاں!یہ نرے قصے کہانیاں نہیں ہیں، بلکہ زندہ و تابندہ حقائق ہیں اور اسی زمین پر دورِ نبویؐ میں پیش آنے والے واقعات ہیں ،جنھیں کہانی کا روپ دے دیا گیا ہے۔ کہنے کو تو صرف یہ دس کہانیاں ہیں، لیکن ان میں سے ہر ایک اپنے اندر پیغمبری کی حقیقت، کلامِ الٰہی کی کشش، حق کی تلاش اور عشق کی تڑپ جیسے حقائق سموئے ہوئے ہے۔ ‘‘ ( پیاسی روحیں، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ص ۴)
کتاب کے مشتملات درج ذیل ہیں:
۱۔ کایا پلٹ گئی۔ (حضرت عمرؓ کا قبولِ اسلام)
۲۔ شوق ِطلب ہے رہ نما۔ ( حضرت ابو ذر غفاریؓ کا قبولِ اسلام)
۳۔ قاتل، جو غلام بن گیا۔ ( عمیر بن وہب ؓکا قبولِ اسلام)
۴۔ اجنبی۔ (حضرت حنظلؓ کا قبولِ اسلام )
۵۔ ہجرت۔ ( سفر ہجرت کا واقعہ)
۶۔ قرار آہی گیا۔ ( حضرت حمزہؓ کا قبول اسلام)
۷۔ ایک منزل، تین مسافر۔ ( حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت عثمان بن طلحہؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ کا قبولِ اسلام)
۸۔ جادو وہ جوسر چڑھ کے بولے۔(حضرت طفیل بن عمرو دوسیؓ کا قبولِ اسلام )
۹۔ دامن ِرحمت میں۔ ( حضرت ابو سفیان ؓکا قبولِ اسلام)
۱۰۔ تنہا شہید۔ ( حضرت عبد اللہ ذو البجادینؓ کا قبولِ اسلام)
یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۸۹ء میں مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے شائع ہوئی ۔
۵۔کیا مسافر تھے؟
اس کتاب میں ابتلا و آزمائش اور اس میں سرخ روئی کی تاریخ سے چند واقعات منتخب کرکے ان کوبڑے ادبی اور مؤثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مصنف نے اپنے پیش لفظ میں ان کے بارے میں لکھا ہے:
’’جس طرح فصل کی بالیدگی اور پرورش کے لیے مناسب کھاد اور بارانِ رحمت کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح ایک مسلمان کے ایمان کی تازگی ، اس کے عزم کے استحکام اور حوصلے کی بلندی کے لیے اسلاف کے ابتلاء و آزمائش کے واقعات کا بار بار اعادہ از حد ضروری ہے، ورنہ ممکن ہے کہ وہ اضمحلال اور پستی کا شکار ہو جائیں۔ اسی ضرورت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے میں نے چند واقعات کو ایک خاص ڈھنگ سے مرتّب کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ (ص ۴)
اس کتاب میں پندرہ (۱۵) تاریخی واقعات بیان کیے گئے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
۱۔ عتبہ بن ربیعہ سے رسول اللہ ﷺ کی گفتگو۔
۲۔ حضرت بلال حبشیؓ کو کڑی دھوپ میںتپتی ہوئی ریت پر گھسیٹا جانا۔(۴ نبوی)
۳۔ شعب ابی طالب میں محصوری(۱۰ نبوی)
۴۔ سفر طائف (۱۰ نبوی)
۵۔ درّہ بنت ابی لہب ؓکا قبولِ اسلام (۱ھ)
۶۔ غزوۂ احد (۳ھ)
۷۔ مسیلمہ کذّاب کے دربار میں حضرت حبیب بن زیدؓ کی شہادت (۱۰ھ)
۸۔ شہادتِ حسینؓ (۶۱ھ)
۹۔ حجاج بن یوسف کے دربار میں حضرت سعید بن جبیرؒ کی شہادت (۹۴ھ)
۱۰۔ امام مالک بن انس ؒپر تشدّد (۱۴۷ھ)
۱۱۔ خلق ِقرآن کے مسئلے پر امام احمد بن حنبلؒ پر مظالم (۲۱۹ھ)
۱۲۔ تحریک ِمجاہدین کے رہ نماؤں (مولانا محمد جعفر تھانیسری ؒاور مولانا یحییٰ علی صادق پوریؒ) پر مقدمۂ بغاوت اور سزائے عمر قید (۱۲۸۱ھ)
۱۳۔ قادیانی مسئلہ لکھنے کی پاداش میں مولانا مودودیؒ کی اسیری اور پھانسی کی سزا کا اعلان (۱۳۷۳ھ)
۱۴۔ اخوان المسلمون کے ارکان پر مظالم (۱۳۷۴ھ)
۱۵۔ اخوانی رہ نماؤں:عبد القادر عودہ اور سید قطب پر تشدّدا ور مظالم (۱۳۷۵ھ، ۱۳۸۶ھ)
اس کتاب کا انداز مکالماتی ہے۔ مذکورہ بالا تاریخی واقعات کے پس منظر میں حالات، واقعات اور تاریخ کے درمیان گفتگو ہوتی ہے۔ اس سے قاری پر جزئیات آشکارا ہوتی ہیں اور وہ راہِ حق میں ابتلا و آزمائش سے دوچار ہونے والوں کے احوال اور ان کی استقامت سے واقف ہوتا ہے۔ ایک واقعہ، جس میں امام مالکؒ کی ابتلا کا بیان ہے، اس کی ابتدائی سطریں ملاحظہ کیجیے:
’’ مدینہ منورہ کی فضا اتنی سوگوار کیوں ہے؟ حالات نے تاریخ سے دریافت کیا۔
درو دیوار سے رنج و غم کیوں ٹپک رہا ہےــ‘‘؟ واقعات نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مدینہ کو خون کے آنسو رونا چاہیے‘‘۔ تاریخ کی آواز جیسے حلق میں پھنس رہی ہو۔
’’کیوں ۔ کیا ہوا‘‘؟ واقعات نے پھر سوال کیا۔
’’تعجب ہے، تمھیں نہیں معلوم‘‘۔ تاریخ نے کہا۔
’’آخر ہوا کیا‘‘؟ حالات نے اپنی بڑھتی بے چینی کو چھپاتے ہوئے کہا۔
’’حضرت امام مالک ؒکو کوڑوں سے زدوکوب کیا گیا ہے۔‘‘ تاریخ نے فضا میں گھورتے ہوئے جواب دیا۔
’’ امام مالکؒ کو۔۔!‘‘ دونوں کی زبان سے بیک وقت نکل گیا۔
’’ہاں ہاں۔ مالک بن انسؒ کو۔‘‘ تاریخ اب بھی اسی طرف گھورے جا رہی ہے۔
’’آخر کیوں‘‘؟ دونوں کا تجسّس بڑھتا جا رہا ہے۔
’’خلیفہ کے سیاسی ہتھکنڈے کے خلاف امامِ وقت نے فتویٰ جاری کر دیا‘‘۔ تاریخ واقعات پر روشنی ڈالنے لگتی ہے۔ (کیا مسافر تھے،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، ۲۰۰۷ء،ص ۴۳)
یہ کتاب پہلی مرتبہ ۲۰۰۰ء میں مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے شائع ہوئی ۔
۶۔ بیت بازی:
یہ کتاب ایک ہزار چار سو(۱۴۰۰) منتخب اشعار کا حسین گل دستہ ہے۔مرکزی درس گاہ میںمیرے زمانۂ طالب علمی میںطلبہ کا سالانہ پروگرام ہوتا تھا، جس میں کھیل کود کے مقابلوں کے علاوہ حمد و نعت،تقریر، سنجیدہ ڈرامہ، مزاحیہ ڈرامہ اوربیت بازی بھی ہوتی تھی۔ عرفان خلیلی بچوں کو بیت بازی کی تیاری کرواتے تھے۔ چنانچہ وہ انھیں عمدہ اشعار لکھ کر دیتے، انھیں یاد کرواتے اور درست تلفّظ کے ساتھ انھیں پڑھنے کی مشق بہم پہنچاتے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنی اسی ڈائری کو بعد میں انھوں نے کتابی صورت میں شائع کروا دیا۔ اس مجموعے میں اشعار کے انتخاب میں کن باتوں کی رعایت کی گئی ہے ان کا تذکرہ مرتّب نے ان الفاظ میں کیا ہے:
(۱)ہر شعر ایک پیغام کا حامل ہو۔
(۲) اس کے ذریعے کوئی نہ کوئی اخلاقی تعلیم دی گئی ہو۔
(۳) اس سے کوئی ایسی نصیحت ملے جو زندگی کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو۔
۴) ان سب خصوصیات کے باوجود شعر اپنی شعریت سے عاری نہ ہو اور روکھا پھیکا وعظ نہ بننے پائے، بلکہ اس میں شاعرانہ چاشنی برقرار رہے۔(بیت بازی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی،۲۰۰۴ء، ص۵) یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۹۹ء میں مرکزی مکتبۂ اسلامی پبلشرز سے شائع ہوئی۔
تجزیہ و تبصرہ
۱۔عرفان خلیلی نے اگرچہ بڑوں اور عام لوگوں کے لیے بھی لکھا ہے، لیکن ان کا اصل ،قابل ذکراوراہم کام بچوں کے کے لیے ہے۔اس بنا پر ان کا شمار ’ادبِ اطفال‘ کے مصنفین میں کیا جانا چاہیے۔
۲۔ان کی بعض کتابیں(ہمارے حضورﷺ،آپؐ کیسے تھے؟پیارے بنی کے چار یار)چھوٹے بچوں کے لیے ہیں اور بعض کتابیں( پیاسی روحیں، کیا مسافر تھے؟،بیت بازی ) بڑے بچوں کے لیے۔
۳۔ ان کا اسلوب،الفاظ کا انتخاب اوراندازِ تحریر بچوں کے معیاراورذوق کے عین مطابق ہے۔اس بنا پر بچے ان کی کتابیں بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ ان کتابوں کے اب تک بیسیوں اڈیشن آچکے ہیں۔
۴۔وہ بچوں کے اسلامی ادیب ہیں۔ان کی کتابیں سیرتِ نبوی، سیرتِ خلفائے راشدین،سیرتِ صحابہ اور سیرتِ تابعین کا تعارف کراتی ہیں اور علمائے حق کی درخشاں اور تاب ناک زندگیوں سے بھی بچوں کو روشناس کراتی ہیں۔اس طرح بچوں کے دل میں ان جیسا بننے کی تمنّاپیدا ہوتی ہے اور ان کے اسوہ کو اختیار کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔۔
۵۔ان کا اندازِ تالیف منفرد ہے۔چھوٹے بچوں کے لیے انھوں نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں اختصار نویسی ان کے پیش نظر رہی ہے اورانھوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ ہر مضمون ایک صفحہ میں ہی مکمل ہو جائے۔یہ اندازبچوں کے اندر مضامین کو ذہن نشین کرانے میں بہت مفید اور مؤثر ہے۔
۶۔ان کا اسلوب تدریسی اور تفہیمی ہے۔ مثلاً ایک جگہ لفظ’ اصحابِ فیل‘ آیا تو قوسین میں’ ہاتھیوں والے لشکر‘ لکھ دیا۔کہیں کوئی اصطلاح آئی تو حاشیہ میں اس کی وضاحت کردی،مثلاً:
فدیہ:کسی قیدی کے بدلے میں جو مال دے کر اسے چھڑایا جاتا ہے ،اس مال کو’ فدیہ‘ کہتے ہیں۔
عیادت:بیمار کے پاس جاکر اس کا حال معلوم کرنے اور اس کو تسلّی دینے کو ’عیادت‘ کہتے ہیں۔
کنّیت: اصل نام کے علاوہ باپ یا بیٹے کی طرف نسبت کرکے جو نام پکارا جائے، اسے ’کنّیت‘ کہتے ہیں۔
لقب: کسی خوبی یا کسی خاص بات کی وجہ سے جو نام رکھ دیتے ہیں ، اسے ’لقب‘ کہتے ہیں۔
افسوس کہ ادبِ اطفال میں عرفان خلیلی کا مقام و مرتبہ متعیّن کرنے اور ان کی تحریروں کا جائزہ لینے کی اب تک کوئی کوشش نہیں ہوئی ہے ۔ میری سعادت ہے کہ ان کی تربیت کا میرے اوپر جو قرض تھا اس کی ایک قسط ادا کرنے کی توفیق ہوئی ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2019