تحریر: ڈاکٹر جاسر عودہ
عورت کے مسجد میں جانے کا موضوع اب متعدد پہلووں سے نتیجہ خیز گفتگو کو ضروری قرار دیتا ہے، اور اس سے صرف نظر کرنا کسی طور سے مناسب نہیں رہ گیا، ذیل میں عالم اسلام کے ایک معروف عالم ومحقق کا نقطہ نظر پیش کیا جارہا ہے، اس موضوع پر اہل علم و فکر کیرایوں کا استقبال ہے۔ مدیر(
عملی صورتِ حال
اس مسئلہ کی عملی صورتِ حال بہت دردناک ہے۔ خواہ مسلم اکثریت والے ملک ہوں ہوں یا مسلم اقلیت والے، ہر بندۂ مومن کی زندگی میں مسجد کی انتہائی اہمیت کے باوجود، ہمیں جو صورتِ حال نظر آتی ہے وہ یہ کہ مشرق ومغرب ہر جگہ اور خاص طور پر مسلم اقلیتی ممالک میں، مسلمانوں کی بیشتر مساجد میں عورت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ یہ عجیب صورتِ حال ہے۔
اگر کوئی مسلم خاتون (کجا کہ غیر مسلم خاتون) لندن، جوہانسبرگ، دہلی، یا کسی اور بڑے ملک کے صدر مقام کی مسجدوں میں داخل ہونے کے بارے میں سوچے تو اسے بہت سی مسجدوں کے باہر مسجد میں داخل ہونے سے ڈانٹ کر روکتا ہوا مرد ملے گا، یا اسے مسجد کے دروازے پر یہ جلی اعلان نظر آئے گا کہ عورتوں کا داخلہ منع ہے یا عورتوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔ اس کا میں نے خود مشاہدہ کیا ہے۔ اور یہ کتنی عجیب بات ہے۔
مزید افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ وہ ٹی وی چینل جنھیں سب لوگ دیکھتے ہیں برطانیہ میں (حال ہی میں بی بی سی 4 پر) اور امریکہ میں (حال ہی میں اے بی سی پر) اور دوسرے ملکوں میں بھی وہ گاہے گاہے مسلمانوں کی مسجدوں میں عورتوں کے داخلے پر پابندی اور داخل ہونے کی کوشش کرنے والی خواتین کےساتھ بدسلوکی سے متعلق رپورٹیں نشر کرتے رہتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ صورتِ حال اسلامی دعوت کو شدید نقصان پہونچاتی ہے اور مسلمانوں کے اپنے رویے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے دین پر وہ عیب چسپاں ہوجاتا ہے جس سے وہ پاک ہے۔
چونکہ کسی چیز کے بارے میں جیسا تصور ہوگا ویسا ہی فتوی صادر ہوگا، تو کچھ لوگ اس مسئلےکو بالکل ایک دوسری شکل میں دیکھتے ہیں۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کو فتنوں اور سازشوں کا سامنا ہے، اور یہ کہ مردوں کی مسجد کی طرف واپسی اور یکسوئی کے ساتھ ان کی مسجد کے ساتھ وابستگی ضروری ہے۔ مسجدوں میں عورتوں کے داخلہ پر پابندی یا مسجد کے ایک تنگ گوشے میں ان کو الگ تھلگ کردینا مردوں کی مسجد سے وابستگی کے لیے ایک معاون قدم ہے۔ اس سے مرد فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں گے اور عبادت اور نیک اعمال کے لیے یکسو ہوں گے۔
حق بات یہ ہے کہ یہ تصور مسلمانوں کی صورت حال سے بھی دور ہے اور دوسروں کی صورت حال سے بھی۔ اللہ کے گھر میں عورت اور مرد کے یکساں حق سے بے خبری کے نتیجے میں یہ تصور پیدا ہوتا ہے۔ یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ عورت مسجد کے اندر اپنے دین، اسلامی معاشرے اور اسلامی دعوت کے لیے کتنا اہم کردار ادا کر سکتی ہے، اور اس کردار کا فقدان دین ودنیا کے لیے کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ میرے نزدیک اس مسئلہ کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں کیونکہ مساجد اللہ کا گھر ہیں جو مردوں کا بھی رب ہے اور عورتوں کا بھی۔ اور جسے روز روشن کے لیے بھی دلیل درکار ہو اسے کوئی نہیں سمجھا سکتا ہے۔
تاہم درج ذیل دلائل خواتینِ اسلام کی مزید خیرخواہی اور ان کے حق میں مباحثے کی غرض سے پیش کیے گئے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ موجودہ خطرناک صورتِ حال اور اس ناگوار بدعت کا خاتمہ ہوسکے۔
خواتین مسجدوں کو آباد کریں، قرآنی دلائل
اس موضوع سے متعلق تمام ہی قرآنی نصوص کسی فرق کے بغیر مردوں اور عورتوں دونوں کو یکساں طور پر مسجد کی زیارت کرنے، اور وہاں ذکر کرنے اور نماز ادا کرنے پر ابھارتی ہیں۔ فرمایا:
فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ. رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ (النور36-37)۔
)اُس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے) لوگ (رجال) ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہےاُن میں ایسے لوگ صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی.. دوسری جگہ فرمایا: لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا (التوبہ 108)۔ جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ (رجال) ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں۔
ان آیات میں لفظ رجال کی وجہ سے کچھ مفسرین کو مشکل پیش آئی اور انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس سے مراد صرف مرد ہیں اور عورتیں شامل نہیں ہیں۔ اس تفسیر کی وجہ سے اسلامی معاشرہ کی روایات پر منفی اثر پڑا اور کچھ لوگوں نے یہ تصور کرلیا کہ مسجد میں عورتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ جیسے ابن کثیر نے سورۂ نور کی مذکورہ آیت میں رجال پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا : رہی عورتیں تو ان کے لیے گھروں میں نماز ادا کرنا افضل ہے۔اور ان کے لیے مردوں کی جماعت میں شرکت اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ وہ اظہارِ زینت اور خوشبو کے ذریعہ کسی مرد کے لے باعثِ اذیت نہ بنیں (تفسیر ابن کثیر)۔ لیکن عربوں کی زبان اور قرآنی استعمالات میں لفظ رجال مردوں اور عورتوں دونوں ہی کے لیے مستعمل ہے۔ فرمایا: وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ (الاعراف 46) اعراف پر کچھ اور لوگ (رجال) ہوں گے جو ہر ایک کو اس کے علامت سے پہچانیں گے۔ اس میں لفظ رجال مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے۔ اسی طرح فرمایا: مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ (الاحزاب 23) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ (رجال) موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ یہاں بھی لفظ رجال مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جب قرآن میں لفظ رجال کو مردوں کے لیے خاص کرنا مقصود ہوتا ہے تو اس کے ساتھ اسی سیاق میں لفظ نساء بھی آتا ہے، جیسے فرمایا: وَلَوْلَا رِجَالٌ مُؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُؤْمِنَاتٌ لَمْ تَعْلَمُوهُمْ(الفتح 25) اگر (مکہ میں) ایسے مومن مرد (رجال) اور عورتیں (نساء) موجود نہ ہوتے جنہیں تم نہیں جانتے۔
لغوی اعتبار سے دیکھیں تو عربوں کی زبان میں امتیازی مقام کی حامل خواتین کو رجال کہا جاتا ہے۔ مثلا مختار الصحاح میں مادہ رج ل کے تحت آیا ہے: نِسوَةٌ (رِجَالٌ)… اور عورت کو رَجُلَةٌ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا رجلۃ الرأی (صاحبِ رائے) تھیں (مختار الصحاح)۔ لسان العرب میں ہےابو زیاد الکلابی نے اپنی بیوی سے گفتگو میں کہا: دونوں (الرجلان) ایک ساتھ پِل پڑے۔ یہاں الرجلان سے اس کی مراد وہ خود اور اس کی بیوی ہیں … تم کہتے ہو: هذا رجل كامل یعنی یہ مردِ کامل ہے۔ اس مفہوم میں عورت کے لیے جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ ہے رَجُلَةٌ۔ (لسان العرب)۔
قرآنِ کریم میں مذکورہ آیات کے علاوہ اور دوسری وہ عمومی آیات ہیں جو مسجدوں کو آباد کرنے، اور ان کی زیارت کے لیے ظاہری و باطنی زینت اختیار کرنے پر ابھارتی ہیں۔ فرمایا: اللہ کی مسجدوں کے آباد کار تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر کو مانیں اور نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ (التوبہ 18) مزید دیکھیں : (الاعراف ۲۹) اور (الاعراف 31)۔ یہاں تک کہ جنوں کو بھی اس پر ابھارا گیا ہے۔ جنوں نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا(الجن 18) اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، لہٰذا اُن میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔ قرآن صریح طور پر لوگوں کو مساجد سے روکنے کی ممانعت کرتا ہے:وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ (البقرہ: 114) اوراس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مساجد میں اس کے نام کی یاد سے روکے۔
خواتین مسجدوں کو آباد کریں : سنت سے دلائل
ان قرآنی دلائل کے علاوہ اللہ کے رسولﷺ سے ثابت دسیوں، بلکہ سینکڑوں ایسی صحیح احادیث ہیں جو ہر نماز اور ہر اہم مواقع پر مسجد کے اندر معمول کے طبعی طریقے سے خواتین کی موجودگی پر دلالت کرتی ہیں۔ اس موقع پر اتنی گنجائش نہیں کہ ان تمام احادیث کا احاطہ کیا جائے۔ البتہ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں : عائشہؓ فرماتی ہیں : مسلمان عورتیں نمازِ فجر میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شامل ہونے کے لیے اپنی چادروں میں لپٹی حاضر ہوا کرتی تھیں اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گھروں کو واپس ہو جاتی تھیں۔ اندھیرے کی وجہ سے کوئی بھی انھیں پہچان نہیں سکتا تھا (البخاری کتاب الصلاۃ، مسلم کتاب المساجد)۔
شعبی کہتے ہیں : ہم فاطمہ بنت قیس کے پاس پہونچے…. انہوں نے کہا: لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ نماز کے لیے جمع ہوجاؤ۔ وہ کہتی ہیں لوگ مسجد کی طرف نکلے اور میں بھی نکلی۔ میں عورتوں کی اگلی صف میں تھی جو کہ مردوں کی آخری صف کے بعد تھی۔ وہ کہتی ہیں : میں نے سنا کہ رسول اللہﷺ نے منبر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا… (مسلم، کتاب الفتن)۔
اسماء بنت ابوبکرؓ کا بیان ہے کہ میں سورج گرہن کے وقت عائشہؓ کے گھر آئی تو دیکھا کہ لوگ کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور عائشہؓ بھی نماز پڑھ رہی ہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سبحان اللہ کہا ……. اسماء فرماتی ہیں : میں بھی نماز کے لیے کھڑی ہو گئی….. جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا…. (بخاری کتاب الوضوء، مسلم صلوٰۃ الکسوف)۔
عائشہؓ کہتی ہیں کہ غزوۂ خندق کے موقع پر سعدؓ(بن معاذ) زخمی ہو گئے…. تو نبیﷺ نے ان کے لیے مسجد کے اندر ہی ایک خیمہ لگوا دیا تاکہ آپ قریب سے ان کی عیادت کر سکیں (بخاری کتاب المغازی، مسلم کتاب الجہاد)۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ نے سعد کو اپنی مسجد کے پاس رفیدہ کے خیمہ میں رکھوایا، جو کہ زخمیوں کا علاج کیا کرتی تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا: انہیں (سعد کو) ان کے خیمے میں ٹھیراو تاکہ میں جلدی جلدی ان کے پاس آتا رہوں۔ (فتح الباری)۔
عائشہؓ سے روایت ہے کہ عرب کے کسی قبیلے کے پاس ایک سیاہ فام باندی تھی جسے انہوں نے آزاد کر دیا مگر وہ ان کے ساتھ ہی رہا کرتی تھی۔ اس کا بیان ہے کہ ایک دفعہ اس قبیلے کی کوئی بچی باہر نکلی، اس پر سرخ تسموں کا ایک کمربند تھا جسے اس نے اتار کر رکھ دیا یا وہ ازخود گر گیا۔ ایک چیل ادھر سے گزری تو اس نے اسے گوشت سمجھا اور جھپٹ کر لے گئی۔ وہ کہتی ہے کہ اہل قبیلہ نے کمربند تلاش کیا مگر نہ ملا تو انہوں نے مجھ پر چوری کا الزام لگا دیا اور میری تلاشی لینے لگے یہاں تک کہ انہوں نے شرم گاہ کے حصہ میں بھی تلاشی لی۔ اس کا بیان ہے: اللہ کی قسم! میں ان کے پاس ہی کھڑی تھی کہ اتنے میں وہی چیل آئی اور اس نے وہ کمر بند پھینک دیا تو وہ ان کے درمیان آ گرا۔ میں نے کہا: تم اس کی چوری کا الزام مجھ پر لگاتے تھے، حالانکہ میں اس سے بری تھی، لو اب اپنا کمر بند سنبھال لو۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں : پھر وہ لونڈی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چلی آئی اور مسلمان ہو گئی۔اس کا خیمہ یا جھونپڑا مسجد میں تھا۔ عائشہؓ فرماتی ہیں : وہ میرے پاس آ کر باتیں کیا کرتی تھی اور جب بھی میرے پاس بیٹھتی تو یہ شعر ضرور پڑھتی: کمر بند کا دن اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرتوں کا دن ہے۔ اس نے مجھے کفر کے ملک سے نجات دی۔ عائشہ ؓ فرماتی ہیں : میں نے اس سے کہا: کیا بات ہے جب بھی تم میرے پاس بیٹھتی ہو تو یہ شعر ضرور پڑھتی ہو۔ تب اس نے مجھ سے اپنی یہ داستان بیان کی۔ (البخاری: کتاب الصلوٰۃ، باب نوم المرآۃ فی المسجد)۔
اسماء بنت ابوبکرؓ کی روایت ہے کہ نبیﷺ کے زمانے میں سورج گرہن ہوا ….. پھر میں بھی آئی اور مسجد میں داخل ہو گئی تو میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسولﷺ کھڑے نماز ادا کر رہے ہیں۔ میں بھی نماز میں شامل ہو گئی۔ آپﷺ نے طویل قیام فرمایا یہاں تک کہ میرا ارادہ ہونے لگا کہ بیٹھ جاوں پھر میں نے نماز میں شامل ضعیف خاتون کو دیکھا تو میں نے کہا کہ یہ مجھ سے ضعیف ہیں اس کے باوجود وہ کھڑی ہیں چنانچہ میں کھڑی رہی، پھر نبیﷺ نے لمبا رکوع کیا پھر آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے اتنا لمبا قیام کیا کہ اگر کوئی انسان آتا تو اسے یہ خیال ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کیا ہی نہیں ہے۔ (مسلم کتاب الکسوف)۔
اسماءؓ ہی کی ایک اور روایت ہے کہ میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ تم میں سے جو عورت بھی اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتی ہے، وہ اس وقت تک (سجدے سے) سر نہ اٹھائے جب تک ہم مرد لوگ اپنے سر نہ اٹھا لیں، (اس حکم کی یہ وجہ تھی کہ) آپ کو یہ ناپسند تھا کہ عورتوں کی نگاہ مردوں کے ازار چھوٹے ہونے کی وجہ سے ان کے ستر پر پڑے۔ لوگ اس وقت چھوٹی دھاری دار چادر کا ازار باندھتے تھے۔ (مسند احمد)۔
اسی طرح اسماء بنت ابوبکرؓ کی ایک اور روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ ایک بار اللہ کے رسولﷺ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور پھر آپ نے قبر کی ان آزمائشوں کا ذکر فرمایا جن سے آدمی دو چار ہوتا ہے۔ جب آپ نے یہ ذکر کیا تو لوگ چیخیں مار کر رونے لگے(بخاری)۔نسائی میں یہ اس پر یہ اضافہ ہے کہ میں رسول اللہ کی آخری بات نہ سمجھ سکی۔ جب ان کی چیخوں کی آواز کم ہوئی تو میں نے قریب موجود ایک شخص سے پوچھا اللہ تمہیں برکت سے نوازے۔ رسول اللہ نے آخر میں کیا فرمایا۔ تو اس شخص نے بتایا :مجھے وحی کی گئی ہے کہ قبروں میں فتنۂ دجال کی طرح تمہاری آزمائش کی جائے گی۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی، وہ فوت ہو گئی تو نبیﷺ نے لوگوں سے اس کے بارے میں دریافت فرمایا؟ لوگوں نے بتا کہ اس کا انتقال ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا بھلا تم نے مجھے اس کی اطلاع کیوں نہ دی؟ اچھا اب مجھے اس کی قبر بتاؤ۔ چنانچہ آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور وہاں نماز جنازہ ادا کی۔ (بخاری کتاب المغازی، مسلم کتاب الجنائز)۔
عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب سعد بن ابی وقاصؓ کا انتقال ہوا تو نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات نے پیغام بھیجا کہ ان کے جنازے کو مسجد میں سے گزار کرلے جائیں تا کہ وہ بھی ان کی نماز جنازہ ادا کرسکیں تو انھوں نے ایسا ہی کیا، اس جنازے کو ان کے حجروں کے سامنے روک کر رکھ دیا گیا تاکہ وہ نماز جنازہ پڑھ لیں۔ (مسلم کتاب الجنائز)۔ امام نووی کہتے ہیں کہ صحیح بات یہ ہے (جو کہ جمہور کی رائے ہے) کہ لوگوں نے رسول اللہﷺ کی نمازِ جنازہ تنہا تنہا ادا کی تھی۔ ایک ٹولی اندر جاتی تھی اور لوگ تنہا تنہا نماز ادا کرتے تھے پھر باہر آجاتے تھے۔ اس کے بعد دوسری ٹولی اندر جاتی تھی اور لوگ اسی طرح تنہا تنہا نماز ادا کرتے تھے۔ پھر مردوں کے بعد عورتیں داخل ہوئیں، اس کے بعد بچے۔ (شرح نووی مسلم)۔
اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو
اوپر میں نے کسی وضاحت کے بغیر جن احادیث کا تذکرہ کیا ہے ان کے علاوہ اسی مفہوم کی دوسری بہت سی احادیث ہیں جو بتاتی ہیں کہ مسجد کے اندر معمول کے طبعی انداز میں ہر جائز شکل میں، ہر طرح کے اوقات میں اور ہر طرح کی نمازوں میں مسلم خواتین کی موجودگی ہوسکتی ہے اور یہی اصل قاعدہ ہے۔ لیکن عورتوں کو مساجد سے روکنے کے سلسلے میں بنیادی حدیث عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عمرؓ کی ایک بیوی (عاتکہ بنت زید) صبح اور عشاء کی نماز جماعت سے پڑھنے کے لیے مسجد آیا کرتی تھیں۔ ان سے پوچھا گیا آپ کو پتہ ہے کہ عمرؓ اس بات کو ناپسند کرتے ہیں اور وہ غیرت محسوس کرتے ہیں پھر بھی آپ مسجد کیوں جاتی ہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ پھر وہ مجھے منع کیوں نہیں کر دیتے۔ لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلوسلم عل کی اس حدیث کی وجہ سے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے مت روکو (بخاری کتاب الصلوٰۃ، مسلم کتاب الصلوٰۃ)۔ امام ابنِ حجر کہتے ہیں جس وقت عمرؓ پر نیزے سے حملہ ہوا تھا اس وقت وہ مسجد میں ہی تھیں (فتح الباری)۔
معجمِ کبیر میں ہے: عبد اللہ بن عمر کے بیٹے بلال نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے باپ عبد اللہ بن عمرؓ نے ایک دن کہا: اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے کہ مساجد میں عورتوں کے جو نصیبے ہیں ان سے انھیں محروم نہ کرو۔ اس پر میں (بلال بن عبد اللہ) نے کہا کہ میں تو اپنی گھر والیوں کو روکوں گا، جو چاہے اپنی گھر والیوں کو جانے دے۔ یہ سن کر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا تم پر اللہ کی لعنت ہو، تم پر اللہ کی لعنت ہو، تم پر اللہ کی لعنت ہو۔ میں تمہیں یہ بتا رہا ہوں کہ اللہ کے رسولﷺ کا یہ حکم ہے کہ عورتوں کو نہ روکا جائے، اس کے باوجود تم ایسی بات کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد وہ رونے لگے اور غصہ سے کھڑے ہو گئے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق انہوں نے بیٹے سے کہا کہ اے اللہ کے دشمن۔ ایک اور روایت کے مطابق انہوں نے ہاتھ اٹھایا اور انہیں طمانچہ مارا۔ ترمذی کی روایت ہے کہ ایک بار ہم عبد اللہ بن عمرؓ کے پاس تھے تو انہوں نے کہا اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے کہ عورتوں کو رات میں مسجد جانے کی اجازت دو۔ اس پر ان کے بیٹے نے کہا کہ ہم ان کو نہیں چھوڑیں گے کہ وہ اسے فساد کا ذریعہ بنا لیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اللہ تمہارے ساتھ ایسا ایسا کرے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے اور تم کہتے ہو کہ ہم اجازت نہیں دیں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں کہ ابن عمر ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں ابو ہریرہ، عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب اور زید بن خالد ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
یہاں عبد اللہ بن عمرؓ کا ردِّ عمل اور حدیث میں صاف صاف روکنے سے ممانعت اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے خواتین کو مسجد سے روکنا قطعی حرام ہے۔
مسجد جانے کی اجازت منسوخ نہیں ہوئی
مذکورہ دلائل کی صحت، قوت اور عموم کے باجود عورتوں کو مساجد سے روکنے والے ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن کا تعلق عورتوں کے مسجد جانے سے پیدا ہونے والے فتنہ سے ہے۔ اس سلسلے میں وہ دو حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں۔ پہلی حدیث عائشہؓ سے مروی ہے۔ وہ کہتی ہیں : اگر عورتوں نے جو اپنا نیا حال بنالیا ہے اسے اللہ کے رسولﷺ دیکھ لیتے تو انہیں (مساجد سے) روک دیتے، جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ، مسلم کتاب الصلوٰۃ)۔ دوسری روایت امّ حمید کی ہے۔ عبد اللہ بن سوید الانصاری اپنی پھوپھی (ابو حمید الانصاری کی زوجہ) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول میں آپ کے ساتھ نماز ادا کرنا چاہتی ہوں تو آپ نے جواب دیا:میں جانتا ہوں کہ تم میرے ساتھ نماز ادا کرنا چاہتی ہو۔ لیکن تمہارا اپنی کوٹھری میں نماز پڑھنا بہتر ہے اپنے گھر کے دالان میں نماز پڑھنے سے، اور تمہارا اپنے گھر کے دالان میں نماز ادا کرنا بہتر ہے گھر کے آنگن میں نماز ادا کرنے سے، اور تمہارا اپنے گھر کے آنگن میں نماز ادا کرنا بہتر ہے اپنے محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنے سے اورتمہارا اپنے محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرنا بہتر ہے میری مسجد میں نماز پڑھنے سے۔ پھر ان کے حکم پر ان کے گھر کے ایک دور کے تاریک گوشے میں مسجد بنا دی گئی جس میں وہ نماز پڑھتی رہیں یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی (صحیح ابن حبان)۔
اگر عائشہؓ والی حدیث کو دیکھیں تو انھوں نے اصل حکم یعنی مسجد میں جانے کو ناپسند نہیں فرمایا بلکہ اس اصول کا استعمال کیا جسے بعد کے ماہرینِ اصولِ فقہ نے سدِّ ذرائع سے تعبیر کیا ہے۔ اور یہ بات اپنے زمانے میں پیش آمدہ ایک عارضی صورت حال کے لیے کہی تھی، جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ کی خواتین میں زیارتِ مسجد کے شرعی حدود کی پابندی کے سلسلے میں تساہل پایا جارہا تھا۔ ان کا مقصود نسخ کی طرح جواز یا استحباب کے اصلی حکم کو کالعدم کرنا نہیں تھا جیسا کہ بعض فقہاء نے سمجھا ہے۔
پوری تاریخ میں خواہ وہ بڑے فقہاءِ مدینہ ہوں یا دیگر علاقوں کے فقہاء کسی کی بھی رائے یہ نہیں ہے کہ عائشہؓ کی ممانعت اصل حکم کو تبدیل کر دے گی۔ امامِ مدینہ امام مالک نے (عائشہؓ کے عہد کی کئی دہائیوں کے بعد) خواتین کو مساجد سے روکنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا: انہیں مسجد جانے سے ہرگزنہیں روکا جائے گا (المدونۃ الکبریٰ)۔
حافظ ابنِ حجر کہتے ہیں : بعض لوگوں نے عورتوں کو مسجد سے روکنے سے متعلق عائشہؓ کے قول کو مطلق طور پر اختیار کیا ہے، جو کہ محلِ نظر ہے کیونکہ اس سے حکم کی تبدیلی نہیں نکلتی ہے، کیوں کہ انھوں نے بات کو اپنے اندازے پر قائم کرکے ایسی شرط سے جوڑا تھا، جو پائی ہی نہیں گئی۔ انہوں نے کہا تھا: اگر دیکھتے تو منع فرماتے۔ چنانچہ کہا جائے گا کہ آپ نے ایسا ہوتے نہیں دیکھا اسی لیے منع نہیں فرمایا۔ یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ مسجد جاتے وقت نئی حرکتوں کا صدور کچھ ہی خواتین کی طرف سے ہوا تھا نہ کہ تمام خواتین کی طرف سے۔ اگر ممانعت کا حکم طے ہو بھی جائے تو یہ ان کے لیے ہے جو شرعی حدود کی پاسداری نہ کریں۔ بہتر یہ ہے کہ ان چیزوں پر نظر رکھی جائے جن سے فساد کا اندیشہ ہوتا ہے اور ان سے بچنے کی تاکید کی جائے، کیونکہ اللہ کے رسولﷺ نے خوشبو کے استعمال اور زینت سے پرہیز کی تاکید کے ذریعہ اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (فتح الباری)۔
ابنِ حزم نے بھی ایسی ہی بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں : بلا شبہہ نئی حرکتوں کا ارتکاب کچھ ہی خواتین کی طرف سے ہوا تھا نہ کہ تمام کی طرف سے اور یہ ناممکن ہے کہ جن لوگوں نے اس طرح کی خطا نہیں کی انہیں خیر سے روکا جائے ان کچھ لوگوں کی وجہ سے جنھوں نے یہ خطا کی۔ (المحلّیٰ)۔ ابن قدامہ نے کہا: اللہ کے رسولﷺ کی سنت اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اور عائشہؓ کے قول کو ان خواتین کے لیے خاص سمجھا جائے جو قابل اعتراض نئی حرکتیں کرتی ہیں۔ بے شک ایسی خواتین کا نکلنا ناپسندیدہ ہے (المغنی)۔
مصالح کی تکمیل کے لیے راستے کھولیں
موجودہ زمانے میں تو ہونا یہ چاہیے کہ راستے بند کرنے (سد الذرائع) کے بجائے راستے کھولنے (فتح الذرائع) کی روش اختیار کی جائے، مسجد میں خواتین کی حاضری کے لیے راستے آسان کیے جائیں اور اس راہ کی رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ ہمارے عہد کی عورتوں کو لازمی طور پر مسجد جانے کی ترغیب دی جائے تاکہ مسجد سے جڑے اسلام کے مقاصد وہ حاصل کریں۔ خواتین اللہ کا ذکر کریں، علم حاصل کریں، مسجد کو آباد کرنے والی دیگر خواتین سے متعارف ہوں اور ان عمومی سرگرمیوں میں شریک ہوں جو ان کی اپنی ذات، خاندان، معاشرے اور دین کے لیے باعثِ خیر ہوں۔
اس حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے شیخ عبد الحلیم ابو شقہ نے اسی طرح کی بات لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
اگر عائشہؓ ہمارے زمانے کی عورتوں کو دیکھ لیتیں کہ کس طرح وہ بے پردہ ہو کر لہو و لعب کی تمام جگہوں پر جاتی ہیں، کس طرح خبیث میڈیا کا حملہ انھیں درپیش ہے، جو ان کے گھروں میں داخل ہوکر ان کے دل و دماغ پر قبضہ جما رہا ہے، اور وہ واحد جگہ جدھر کا وہ رخ نہیں کرتی ہیں وہ مسجد ہے، تو عائشۃؓ نے جو بات کہی تھی وہی اب بھی دوہراتیں یا یہ کہتیں کہ: عورتیں جو کچھ کر رہی ہیں اسے رسول اللہﷺ دیکھ لیتے تو ان کے لیے مسجدوں کی حاضری واجب قرار دیتے؟ یہ بات ابھارنے کے لیے ہے جس طرح مذکورہ قول تنبیہ کے مقصد سے تھا، تاکہ خواتین کچھ وقت کے لیے فتنہ کے ماحول سے دور رہیں اور حیا سیکھیں (تحرير المرأة في عصر الرسالة)۔
امّ حمید کی حدیث: مخصوص سیاق نہ کہ عمومی حکم
رہی امّ حمید کی حدیث تو اس کا ایک مخصوص سیاق ہے (جس کا ذکر ابن حبان اور احمد کی روایات میں نہیں آیا ہے۔ بلکہ طبرانی، بیھقی، ابن ابی شیبہ، ابن ابی عاصم اور دیگر محدثین کے صحیح اضافوں میں اس کا ذکر ہے)۔ حدیث کا سیاق یہ ہے کہ ان کے اور ان کے شوہر کے درمیان ان کے مسجد نبوی میں پابندی کے ساتھ نماز باجماعت میں شریک ہونے پر اختلاف تھا۔ ان روایات میں ہے: انہوں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ ہمیں آپ کے ساتھ نماز ادا کرنا پسند ہے اور ہمارے شوہر ہمیں روکتے ہیں (البیھقی، المعجم الکبیر طبرانی، الآحاد والمثانی ابن ابی عاصم)۔
حدیث کا یہ سیاق اس باب کی احادیث میں موجود تعارض، خصوصا اِس حدیث اور ان عمومی احادیث کے تعارض کو حل کر دیتا ہے جن میں عورتوں کو مساجد سے روکنے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ اِس حدیث میں اللہ کے رسولﷺ نے ام حمید اور ان کے شوہر کے درمیان ان کی مسجد میں حاضری کے سلسلے میں جو اختلاف تھا اسے حل کرنے کے لیے یہ نصیحت فرمائی کہ اپنے شوہر کی بات مانیں۔ اس کا مقصود عمومی حکم نہ تھا جس کی پابندی ہر زمانے اور علاقے کی مسلم خواتین پر لازم ہو۔ اس حدیث میں اللہ کے رسولﷺ کا مقصود صراحت سے نہیں بیان ہوا ہے لیکن نصوص کے درمیان موجود تعارض کو دور کرنے کا یہی راستہ ہے۔ اور قاعدہ یہ ہے کہ نص پر عمل کرنا نص کو نظر انداز کرنے سے بہتر ہے۔
عورت کے سرپرست کے لیے درست نہیں کہ وہ اسے مسجد سے روکے
رہا شوہر یا ولی کا عورت کو مسجد سے روکنا، تو اصلاً یہ حرام ہے کیونکہ نبیﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ تاہم عمرؓ کی زوجہ اور ام حمیدؓ والی احادیث کی روشنی میں ہم یہ کہتے ہیں کہ شوہر اور بیوی کو چاہیے کہ اس مسئلے میں گھریلو حالات اور مختلف خاندانی اور سماجی امور کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی مشاورت اور تبادلۂ خیال کے ذریعے کسی رائے پر اتفاق کرلیں۔
یہ صحیح نہیں ہے کہ عورت شرعی اعتبار سے گھر اور بچوں سے متعلق زیادہ اہم شرعی ذمہ داریوں کی قیمت پر مسجد جائے۔ شوہر کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ اس طرح تعاون کرے کہ اس کی زیادہ اہم شرعی ذمہ داریاں متاثر نہ ہوں۔ یہ مسئلہ توازن اور اعتدال چاہتا ہے لیکن بہرحال عورت کو مسجد سے روکنا جائز نہیں ہے کیوں کہ رسول اللہﷺ نے اس سے صاف صاف منع کیا ہے۔
خلاصہ
خواتینِ اسلام کی مسجد کی طرف واپسی ضروری ہے اور اجتماعی یا انفرادی طور پر اسے روکنا جائز نہیں۔ بلکہ مسجد میں خواتین کے لیے مناسب جگہ بنانا اور مساجد میں حاضری پر انہیں ابھارنا ضروری ہے تاکہ اللہ کے گھروں کے جو مطلوبہ فوائد اور مقاصد ہیں ان کی حصول یابی میں بالکل مردوں کی طرح خواتین بھی اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں، خاص طور پر اس زمانے میں۔
مشمولہ: شمارہ جون 2020