ہمارا ملک 1947 میں برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہوا۔ اس آزادی کا تقاضا یہ تھا کہ اس نئے دور میں ملک کی تعمیر اس طرز پر کی جاتی کہ یہاں کے باشندوں کو سیاسی و رسمی آزادی کے ساتھ ساتھ حقیقی آزادی بھی حاصل ہوجاتی۔ اُن کے جسم اور دل و دماغ سب آزاد ہوتے اور وہ استحصال سے پاک اور انصاف پر مبنی سماج کے اندر زندگی گزارسکتے۔لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ رسمی آزادی کے بعد بھی ملک کے اندر استحصال، بے انصافی اور ظلم و جبر کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ بلکہ بعض پہلوؤں سے ان خرابیوں میں مزید شدت آگئی۔
خرابی کے اسباب
فطری طور پر یہ سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ اس صورتحال کے اسباب کیا ہیں؟ غور کیا جائے تو تین بڑے اسباب پر نگاہ جاتی ہے:
v ﴿۱﴾ پہلا سبب یہ ہے کہ ملک رسماً تو آزاد ہوگیا لیکن بالواسطہ ﴿چھُپے ہوئے﴾ طریقوں سے ملک کی آزادی چھینی جاتی رہی اور یہاں باہر کی طاقتوں کی مداخلت جاری رہی۔
v ﴿۲﴾ دوسرا سبب یہ ہے کہ کمزوروں اور مظلوموں پر جو ظلم و ستم خود اُن کے ہم وطن کررہے تھے ﴿اور صدیوں سے کرتے چلے آرہے تھے﴾ اُس کو روکنے کی مؤثر تدبیریںاختیار نہ کی جاسکیں۔
v ﴿۳﴾ تیسرا اور سب سے اہم سبب یہ ہے کہ خدا پرستی کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ملک کی تعمیر نو کے لیے مادہ پرستانہ فلسفوں کو بنیاد بنایا گیا، چنانچہ حق پرستی اور کردار سازی کے تعمیری رجحانات کے بجائے اس ملک کے اندر اخلاقی بحران پیدا ہوا اور باطل افکار کو فروغ حاصل ہوا۔
نئے استعمار کا ظہور
دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہی دنیا دو بڑی طاقتوں ﴿روس اور امریکہ﴾ کے زیرِ اثر دو بلاکوں میں بٹ گئی۔ کسی ملک کے لیے یہ بات آسان نہیں رہی کہ وہ اپنا حقیقی آزاد و جود قائم رکھ سکے۔ اسے چارو ناچار ‘‘اِس بلاک’’ یا ‘‘اُس بلاک’’ کا حصہ بننا پڑا۔ ہر بلاک نے اپنے زیرِ اثر ممالک کو فوجی و معاشی معاہدوں کے ذریعے اپنے جال میں جکڑنے اور اپنا پابند بنانے کی پوری کوشش کی۔ اس طرح براہِ راست استعمار تو ختم ہوگیا، لیکن ایک ‘‘نیا استعمار’’ وجود میں آگیا جو ملکوں پر اپنا تسلط قائم رکھتا تھا۔ شروع میں ملک کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت نہرو کی قیادت میں ہمارے ملک نے کوشش کی کہ آزاد رہے اور ‘‘ناوابستہ’’ تحریک برپا بھی کی۔ لیکن حالات کے دباؤ کے تحت ہمارا ملک رفتہ رفتہ ‘‘روسی بلاک’’ کا حصہ بنتا گیا۔ اس میں بڑا دخل ہندوپاک کے درمیان اُس کشیدگی کا بھی تھا، جس نے پاکستان کو امریکی بلاک کا حصہ بننے پر مجبور کردیا تھا۔
روس کا انتشار
بیسویں صدی کی آخری دہائی میں اچانک حالات نے پلٹا کھایا۔ روس جیسا عظیم ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا چنانچہ روسی بلاک عملاً ختم ہوگیا اور دنیا میں ایک ہی بڑی طاقت ﴿امریکہ کی﴾ باقی رہ گئی۔روس کے اس انتشار کے بعد امریکہ گلوبلائزیشن، لبرلائزیشن، اور نئے عالمی نظام کے نعروں کے ساتھ میدان میں آیا اور اپنی طاقت کو منوانے کے لیے دنیا کے ہر خطے میں اس نے اپنے اثرات بڑھانے شروع کیے۔
ہمارا ملک بھی حالات کی اس نئی گردش سے متاثر ہوا۔ اس نے ‘‘لبرلائزیشن’’ کے تحت نئے معاشی اقدامات کی ابتدائ کی۔ اب تک موجود معاشی قوانین اور پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں اور بیرونی سرمائے کے ملک کے اندر آنے کی راہ ہموار کی گئی۔ معاشی اقدامات کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئی۔ امریکہ اور اسرائیل کی طرف جھکاؤ بڑھتا گیا اور ‘‘ناوابستگی’’ کی تحریک محض ایک رسم کے طور پر زندہ رہ گئی۔ دفاعی اور فوجی معاملات میں امریکہ اور اسرائیل سے قُربت روز بروز بڑھتی گئی۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ نتیجۃً ہمارا ملک روسی بلاک کے بجائے ‘‘امریکی استعمار’’ کے زیرِ اثر آچکا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کا احیا
لبرلائزیشن کا نیا نعرہ دراصل سرمایہ داری کے احیائ کا اعلان تھا چنانچہ پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام دوبارہ زندہ ہونا شروع ہوگیا۔ اس نئی زندگی کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کی تین بنیادی خصوصیات دوبارہ ابھر کر سامنے آنے لگیں:
﴿۱﴾ استحصال﴿۲﴾ عدمِ توازن﴿۳﴾ انسانی خصوصیات سے عاری سماج کا ظہور۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خاصیت استحصال ہے۔ اس میں سرمایہ دار طبقہ، مزدوروں کا استحصال کرتا ہے۔ ایک ملک کے اندر منظم طبقات، غیر منظم افراد کا استحصال کرتے ہیں۔ زیادہ باخبر اور با ہنر لوگ کم صلاحیت والوں کا استحصال کرتے ہیں۔ شہروں سے وابستہ صنعتی سیکٹر، دیہی اور زرعی سیکٹر کا استحصال کرتا ہے ﴿چنانچہ دیہی علاقے وسائلِ حیات اور وسائلِ ترقی سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں﴾ اور اسی طرح طاقتور ممالک کمزور ملکوں کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ ایک ہمہ گیر ‘‘نظامِ استحصال’’ ہے جو سرمایہ داری پیدا کرتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کا دوسرا نتیجہ ‘‘عدمِ توازن’’ ہے۔ دولت سماج کے ایک طبقے کے پاس سمٹ جاتی ہے اور بقیہ افراد اس سے محروم ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ کسی مفید معاشی سرگرمی کے اہل نہیں رہتے۔ عدمِ توازن کا دوسرا پہلو قدرتی وسائل کا مسرفانہ اور بے جا استعمال ہے، جس کا نتیجہ ‘‘فطری ماحول’’ کا عدمِ توازن ہے۔
ہمہ گیر استحصال کے نتیجے میں سماج میں موجود تمام اچھی اخلاقی خصوصیات رفتہ رفتہ ختم ہونے لگتی ہیں۔ ہمدردی، غم خواری اور تعاونِ باہمی کے بجائے خود غرضی، لالچ اور قساوتِ قلبی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ انسان مشین بننے لگتے ہیں اور انسانی جذبات سے عاری ہوجاتے ہیں۔ اس طرح وہ اُس اخلاقی طاقت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں، جو انھیں استحصال سے جنگ پر آمادہ کرسکتی تھی۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے بھیانک نتائج ہیں اور آج پوری دنیا ان نتائج کو اپنی آنکھو ںسے دیکھ رہی ہے۔
ہمارے ملک نے سرمایہ دارانہ نظام اور امریکہ کے نئے استعمار کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیںاور اس طرح اپنی آزادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس خطرے کی سب سے نمایاں علامت ‘‘مخصوص اقتصادی علاقے’’﴿ Special Economic Zone ﴾ ہیں۔ جو ملک کے متعدد مقامات پر وجود میں آچکے ہیں۔
ہم وطنوں کا ظلم و جبر
یہ خیال کرنا صحیح نہ ہوگا کہ ظلم و جبر کے اسباب صرف ملک کے باہر ہیں یا محض ‘‘عالمی سرمایہ دارانہ نظام’’ کی دَین ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ظلم و جبر کی بہت سی شکلیں وہ ہیں، جو خود ملک کے اندر اپنی جڑیں رکھتی ہیں۔ صدیوں سے ہمارے ملک کے اندر انسانوں کو ‘‘اعلیٰ اور ادنیٰ ذاتوں’’ میں تقسیم کیا جاتا رہا ہے۔ اس نامعقول تقسیم کو دیومالائی تصورات کی تائید بھی حاصل ہے۔ اس تقسیم کے مظاہر یہ ہیں:
- ﴿الف﴾ہر فرد کو کسی نہ کسی ‘‘ذات’’ سے متعلق قرار دینا۔
- ﴿ب﴾‘‘ذات’’ کے اس تعین کے مطابق اُس کا سماجی ‘‘مرتبہ’’ متعین کرنا ۔ ﴿یعنی فلاں ذات، فلاں دوسری ذات سے ’’کم تر’’ ہے اور فلاں تیسری ذات سے ‘‘برتر’’ ہے۔﴾
- ﴿ج﴾﴿کم از کم دیہی علاقوں میں﴾ اپنی ذات کے مطابق کسی خاص پیشہ ﴿یا معاشی سرگرمی﴾ اختیار کرنے کے لیے افراد کا مجبور ہونا۔
- ﴿د﴾چھوت چھات کا برتاؤ اور آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی سے نچلی ذاتوں کا محروم کردیا جانا۔
- ﴿ہ﴾سہولتوں سے محرومی مثلاً ‘‘نچلی’’ ذات والوں کو کنویں سے پانی نہ لینے دینا اور اسکول میں تعلیم نہ حاصل کرنے دینا۔
- ﴿و﴾ظلم کی صریح شکلیں مثلاً بے گار لینا، پنچایتوں کے ذریعے مالی تاوان عائد کردینا، آبروریزی، لوٹ مار، زدو کوب کرنا، بے عزت کرنا وغیرہ۔
‘‘ذات پات کے نظام’‘ کے علاوہ ظلم و جبر کی دوسری شکلیں جو ہمارے ملک میں رائج ہیں، درج ذیل ہیں:
Ø ﴿الف﴾ شہروں کے مقابلے میں گاؤوں کی سہولتوں سے محرومی ﴿گاؤں تعلیم، علاج اور روزگار کے مواقع سے محروم ہیں اور یہ سہولتیں صرف شہروں تک محدود ہیں﴾۔
Ø ﴿ب﴾ زرعی سیکٹر اور کسانوں کا استحصال ﴿سودی نظام کسانوں کا استحصال کرتاہے اور صنعتی سیکٹر کے بالمقابل کسان زرعی پیداوار کے لیے متناسب قیمتوں سے محروم رکھے جاتے ہیں۔﴾
Ø ﴿ج﴾ ملک کے خاصے بڑے حصے میں جاگیردارانہ نظام کے باقیات کی موجودگی۔ جس کے نتیجے میں زمین نہ رکھنے والے مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے۔
Ø ﴿د﴾ ملک کا اپنا سرمایہ دارانہ نظام جو عالمی سرمایہ داری سے الگ اپنا مستقل وجود رکھتا ہے۔
Ø ﴿ہ﴾ بندھوا مزدوری اور بچہ مزدوری۔
ظلم و جبر کی ان ساری شکلوں کو روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ قانونی اقدامات ضرور کیے گئے ہیں۔ لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور اکثر صورتوں میں مسئلے کی اصل جڑ سے تعرض نہیں کرتے۔ قانونی اقدامات کو مؤثر بنانے کے لیے ایک طاقتور رائے عامہ کی بھی ضرورت ہے اور سماجی تصورات میں تبدیلی بھی درکار ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کو ملک کی قیادت نے یکسر نظر انداز کیا ہے۔
خرابی کا بنیادی سبب – خدا پرستی سے انحراف
واقعہ یہ ہے کہ انسان کو اگر کوئی طرزِ عمل حقیقی آزادی سے ہم کنار کرسکتا ہے اور استحصال سے نجات دلاسکتا ہے تو وہ صرف ‘‘خدا پرستی’’ کا رویہ ہے۔ ‘‘خدا پرستی’’ انسانوں سے جس طرزِ عمل کا تقاضا کرتی ہے وہ یہ ہے:
v ﴿الف﴾ تمام انسانوں کو برابر اور ایک برادری کے افراد سمجھا جائے۔
v ﴿ب﴾ انسانی زندگی کے لیے بنیادی قانون ‘‘خدائی ہدایت’’ کو قرار دیا جائے اور
v ﴿ج﴾ اجتماعی معاملات کو باہمی مشورے سے چلایا جائے۔
v جو سماج ان نکات پر عمل پیرا ہو وہ ایک آزاد سماج ہوتا ہے۔ یہ ‘‘طرزِ عمل’’ ﴿جو مندرجہ بالا تین نکات پر مشتمل ہے﴾ کیوں اختیار کیا جائے، اس کا جو جواب ‘‘خدا پرستانہ نظریے’’ میں ملتا ہے۔ وہ یہ ہے:
v ﴿الف﴾ ایک خدا تمام انسانوں کا خالق و مالک ہے۔ اس نے تمام انسانوں کو ایک انسانی جوڑے سے پیدا کیا ہے۔ اس لیے ‘‘تمام انسان برابر ہیں اور ایک ہی برادری کے افراد ہیں۔’’
v ﴿ب﴾ حقیقی مالک اور حاکم کی ‘‘ہدایت’’ ہی ماننے کے لائق ہے۔ جب انسان برابر ہیں تو ایک انسان، اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر اپنی من مانی چلانے کا حق دار کیسے ہوسکتا ہے!
v ﴿ج﴾ انسانوں کی برابری کا یہ فطری تقاضا ہے کہ ‘‘اجتماعی معاملات’’ کو چَلانے میں وہ سب شریک ہوں۔ ﴿کسی کو محروم نہ کیا جائے۔﴾
v اس فکری اساس کے علاوہ ‘‘خدا پرستی’‘ انسان کو ‘’قوتِ محرّکہ’’ ﴿Motivation﴾ بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ محرّک درجِ ذیل حقائق کے ادراک پر مشتمل ہے:
v ﴿الف﴾ اگر انسان ‘‘خدا پرستی’’ اختیار کرے گا تو اپنی ذات کی تکمیل کرلے گا۔ اس کا تزکیہ ہوجائے گا اور وہ انسانیت کے ‘‘بامِ عروج’’ پر پہنچ جائے گا۔
v ﴿ب﴾ اگر انسان ‘‘خدا پرستی’’ کو اپنائے گا تو وہ خدا سے قریب ہوگا اور اس کی رضا حاصل ہوگی۔
v ﴿ج﴾ ‘‘خدا پرستی’’ کے نتیجے میں انسان کو اطمینانِ قلب حاصل ہوگا اور ایسا خاندان اور سماج وجود میں آئے گا جہاں توازن اور عدل موجود ہوگا۔
v ﴿د﴾ ‘‘خدا پرستی’’ کا رویہ اختیار کرنے والا انسان خدا کے امتحان میں کامیاب ہوگا اور اس کے غضب اور گرفت سے بچ سکے گا۔
مادہ پرستانہ نظریات کی ناکامی
‘‘خدا پرستی’’ کے مقابلے میں مادہ پرستانہ افکار و نظریات (Materialistic Ideologies) کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریات یا تو خدا کے وجود کے ہی قائل نہیں ہیں یا اگر خدا کو مانتے بھی ہیں تو اس کو ہدایت دینے والا اور رہنما نہیں مانتے۔ان نظریات نے انسانوں کو ایک عالم گیر برادری تسلیم کرنے کے بجائے اُن کو اقوام ﴿Nations﴾ میں تقسیم کیا ہے۔ رہا یہ سوال کہ کسی قوم ﴿Nation﴾ کا اجتماعی و سیاسی نظام کیسے چلایا جائے تو اُس کے لیے مادّی نظریات ‘‘قومی ریاست’’ ﴿Nation State﴾ کی شکل تجویز کرتے ہیں۔ اس ریاست کے اندر اُن کے اصول درجِ ذیل ہیں:
﴿الف﴾ اصولاً ریاست کے تمام باشندے برابر سمجھے جائیں گے اور اجتماعی معاملات چَلانے میں سب شریک ہوں گے۔
﴿ب﴾ ‘‘قانون’’ وہ ہوگا جو عوام کے ‘‘نمائندے’’ اتفاقِ رائے یا کثرتِ رائے سے تجویز کریں۔
بظاہر اِن میں پہلا اصول بہت خوش آئند ہے، لیکن مادّی نظریات اِس اصول کے لیے نہ کوئی اساس ﴿Basis﴾ رکھتے ہیں نہ Motive ﴿محرّک﴾۔ چنانچہ یہ اصول مسلسل پامال ہوتا رہتا ہے۔ عملاً ہوتا یہ ہے کہ طاقتور گروہ پورے نظامِ ریاست پر قابض ہوجاتے ہیں اور مادّی نظریات کے اندر یہ طاقت نہیں ہوتی کہ وہ طاقتور گروہوں کو اس زیادتی سے باز رکھ سکیں۔ وہ افراد کی ایسی تربیت کرنے سے بھی قاصر ہیں، جو انھیں حدود آشنا بنادے۔
واقعہ یہ ہے کہ ‘‘مادّی نظریات’’ نے انسانی مساوات کا یہ اصول ‘‘خدا پرستی’’ کے نظریے سے لیا ہے اس لیے کہ مادیت کے فلسفے میں مساوات کے اِس اصول کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ لیکن خدا پرستی کے انکار کے بعد یہ اصول صِرف ایک مقدس نعرہ بن کر رہ جاتا ہے اور کبھی عملی جامہ نہیں پہن سکتا۔
رہا دوسرا اصول یعنی ‘‘عوامی نمائندوں کا حقِ قانون سازی’’ تو وہ انسانوں کو اپنی خواہشوں یا طاقتور طبقات کے مفادات و اغراض کا غلام بنادیتا ہے اور رسمی آزادی کے باوجود انسان اپنے جیسے انسانوں کا محکوم بن کر رہ جاتا ہے۔ جب انسانوں کے سامنے قانون سازی کے لیے ‘‘خواہشوں اور مفادات’’ کے علاوہ کوئی بنیاد موجود نہ ہو تو استحصال کو کیسے روکا جاسکتا ہے!
اقبال نے اس حدود نا آشنا ‘‘قانون سازی’’ پر یوں تبصرہ کیا ہے:
مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طبِّ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری
ہے وہی سازِ کہن، مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پَردوں میں نہیں، غیراز نوائے قیصری
واقعہ یہ ہے کہ رسمی آزادی کے باوجود ہمارے ملک کے باشندے حقیقتاً آزاد نہیں ہیں۔ وہ عالمی استحصالی نظام کی زَد میں آچکے ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ خدا پرستی کی بنیاد پر قیامِ عدل کے لیے ایسی تحریک چلائی جائے، جو ملک اور باشندگانِ ملک کو حقیقی آزادی سے ہم کنار کرسکے۔
اسلامی حل
ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہمارا ملک بیرونی استعمار کا بھی شکار ہے اور اندرونی استحصال کا بھی۔ استعمار اور استحصال سے نجات پانے اور سماج اور افراد کو حقیقی آزادی دلانے کے لیے اسلام ایک ہمہ گیر حل پیش کرتا ہے۔ اس میں فرد کی اصلاح بھی شامل ہے اور زندگی کے اجتماعی گوشوں کی بھی۔ اسلام کے پیش کردہ اِس حل کو اُس کی کامل شکل میں تو اسی وقت اختیار کیا جاسکتا ہے۔ جب اقتدار اللہ کے صالح بندوں کے ہاتھ میں ہو۔ البتّہ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس آخری مرحلے سے آنے سے قبل، جب اقتدار کی کنجیاں صالحین کے ہاتھوں میں آجائیں، وہ سماج کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کچھ ‘‘فوری اقدامات’’ بھی تجویز کریں۔ ہمارے ملک کے سیاق میں اِن ممکنہ اقدامات کی نشاندہی ذیل میں کی جارہی ہے، خصوصاً اُن اقدامات کی جو ملک کے ‘‘نظامِ تعلیم’’ سے متعلق ہیں۔
آزادی کی بحالی
﴿۱﴾ ضرورت ہے کہ ہمارا ملک اُن تمام رسمی و غیر رسمی دفاعی، فوجی اور معاشی معاہدوں سے آزاد ہو جو اس نے امریکہ اور اسرائیل سے کررکھے ہیںاور جن سے ملک کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔
﴿۲﴾ ہمارا ملک عدل و انصاف اور انسانیت کے اصولوں پر مبنی آزاد خارجہ پالیسی اپنائے۔
﴿۳﴾ ‘‘مخصوص اقتصادی علاقے’’ ﴿Special Economic Zone﴾ ختم کیے جائیں اور بیرونی سرمائے کی ملک میں آمد پر معقول پابندیاں عائد کی جائیں۔ تاکہ عام باشندگانِ ملک کا استحصال نہ کیا جاسکے۔
مظالم کا سدِ باب
﴿۴﴾ مزدوروں، کسانوں اور محروم طبقات کے وہ حقوق بحال کیے جائیں، جو ‘‘لبرلائزیشن’’ کے نتیجے میں ختم کردیے گئے ہیں۔
﴿۵﴾ جاگیر داری کے نظام کے باقیات، بندھوا مزدوری اور مہاجنی سودکا خاتمہ کردیا جائے۔
﴿۶﴾ ذات پات پر مبنی مظالم کے خاتمے کے لیے مؤثر سماجی تربیت کی جائے۔
تعلیم
﴿۷﴾ نظامِ تعلیم کی بنیاد خداپرستانہ تصورِ کائنات کو بنایا جائے۔ خدا پرستانہ تصورِ کائنات کسی مذہب کی حقیقی تعلیم سے نہیں ٹکراتا۔ اس لیے ہر مذہب کے پیروؤں کے لیے قابلِ قبول ہوسکتا ہے۔
﴿۸﴾ تعلیم کے دوران طلبہ کو اخلاقی قدروں سے آگاہ کیا جائے، اُن کو ‘‘غلط’’ اور ‘‘صحیح’’ کا فرق سکھایا جائے۔ تاکہ وہ آزاد ذہن سے سوچ سکیں اور تعلیمی اداروں کے ماحول کو اخلاقی اقدار کا آئینہ دار بنایا جائے۔
نظامِ تعلیم
﴿۹﴾ حصولِ تعلیم کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائیں۔
﴿۱۰﴾ ابتدائی سطح پر مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔
﴿۱۱﴾ غریب خاندانوں کی اس حد تک مدد کی جائے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھا سکیں۔
﴿۱۲﴾ تمام علاقوں خصوصاً دیہاتوں میں معیاری سرکاری تعلیمی ادارے کھولے جائیں۔
﴿۱۳﴾ مخلوط تعلیم ختم کی جائے اور طالبات کے لیے کافی تعداد میں ادارے قائم کیے جائیں۔
﴿۱۴﴾ سرکاری اداروں کا معیار اونچا کیا جائے۔ تاکہ لوگ پرائیویٹ اداروں کی طرف رجوع کرنے کے لیے مجبور نہ ہوں۔
﴿۱۵﴾ قانون کے ذریعے پرائیویٹ اداروں کو استحصال سے روکا جائے۔
نصاب اور طرزِ تعلیم
﴿۱۶﴾ نصاب اور درسی کتب میں ہمہ گیر اصلاحات کی جائیں، تعلیمی بار کم کیا جائے اور تعلیم کو قریبی ماحول سے مربوط کیا جائے۔
﴿۱۷﴾ جنسی تعلیم ﴿Sex Education﴾ کے بجائے سماجی اخلاقیات ﴿Social Morality﴾ کی تعلیم دی جائے جس میں اُن آداب کی تعلیم بھی شامل ہے جو لڑکوں، لڑکیوں اور مرد، عورتوں کے میل جول کو اخلاقی حدود کا پابند بناتے ہیں۔ اسی طرح طلبہ کو شرم و حیا اور عفت و پاکیزگی کی اہمیت بتائی جائے۔
﴿۱۸﴾ طریقِ تدریس اور طریقِ امتحان میں ہمہ گیر اصلاحات کی جائیں۔
﴿۱۹﴾ صرف ماہرین اور باکردار اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں۔
﴿۲۰﴾ ریسرچ کی ترجیحات از سرِ نو طے کی جائیں اور ملک و سماج کے حقیقی مسائل کو موضوعِ توجہ بنایا جائے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2010