کارِ اقامت دین کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو ’’فرد کا ارتقائ‘‘ ہے۔ فرد کے ارتقائ کے بنیادی عناصر تین ہیں:
﴿الف﴾ اللہ سے صحیح تعلق﴿ب﴾ انسانوں سے صحیح تعلق﴿ج﴾ کائنات سے صحیح تعلق
جب تعلقات کے یہ تینوں دائرے درست بنیادوں پر استوار ہوجاتے ہیں تو فرد کے ارتقاء کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ اس سفر کی منزل فلاح ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس سفر کا رخ شخصیت کی بلندی کی طرف ہے، چنانچہ اس کے مراحل طے کرتے ہوئے انسان کو مشقت بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ جو بلند ہمت افراد اس مشقت کو گوارا کرلیتے ہیں، کامیابی ان کے حصے میں آتی ہے۔ اور جو پیچھے ہٹ جاتے ہیں وہ ناکام رہ جاتے ہیں۔قرآن مجید میں بلندی کی طرف جانے والی راہ کو عقبہ ﴿دشوار گزار راستے﴾ سے تعبیر کیا گیا ہے:
أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَیْْنَیْْنِo وَلِسَاناً وَشَفَتَیْْنِo وَہَدَیْْنَاہُ النَّجْدَیْْنِo فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَo وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْعَقَبَۃُo فَکُّ رَقَبَۃٍ o أَوْ اطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍo یَتِیْماً ذَا مَقْرَبَۃٍo أَوْ مِسْکِیْناً ذَا مَتْرَبَۃٍo ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِo أُوْلٰئِکَ أَصْحَابُ الْمَیْْمَنَۃِo وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِآیَاتِنَا ہُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَۃِo عَلَیْْہِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَۃٌ o ﴿البلد:۸-۲۰﴾
’’کیا ہم نے اُس ﴿انسان﴾ کو دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے اور ﴿نیکی اور بدی کے﴾ دونوں نمایاں راستے اُسے ﴿نہیں﴾ دکھا دیے۔مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کی۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی۔ کسی گردن کو غلامی سے چُھڑانا، یا فاقے کے دن کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔ پھر ﴿اس کے ساتھ یہ کہ﴾ آدمی اُن لوگوں میںشامل ہو جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور ﴿خلقِ خدا پر﴾ رحم کی تلقین کی۔ یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے اور جنھوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کیا وہ بائیں بازو والے ہیں۔ اُن پر آگ چھائی ہوگی۔‘‘
آیاتِ بالا میں اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق کا تذکرہ بھی ہے اور انسانوں سے صحیح تعلق کا بھی۔
اللہ سے صحیح تعلق
اللہ سے صحیح تعلق اللہ پر ایمان لانے سے قائم ہوتا ہے چنانچہ انبیائ علیہم السلام انسانوں کو سب سے پہلے اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں:
رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیْاً یُنَادِیْ لِلاِیْمَانِ أَنْ آمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الأبْرَارِo﴿آل عمران :۳۹۱﴾
’’﴿اہلِ ایمان کہتے ہیں﴾ ’’مالک ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رَب کو مانو۔ ہم نے اس کی دعوت قبول کرلی پس اے ہمارے آقا، جو قصور ہم سے ہوئے ہیں، اُن سے درگزر فرما، جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کردے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔‘‘
انبیاء علیہم السلام ایمان باللہ کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ خود سب سے پہلے اللہ پر ایمان لاتے ہیں:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا أُنْزِلَ اِلَیْْہِ مِن رَّبِّہِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلآئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِہِ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَالَیْْکَ الْمَصِیْرُ o ﴿البقرۃ۲۸۵﴾
’’رسول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اُس کے رب کی طرف سے اُس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اِس رسول کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اِس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں کو مانتے ہیں، اور اُن کا قول یہ ہے کہ ’’ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی، مالک ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں، اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔‘‘
آیاتِ بالا سے اللہ سے تعلق کی بنیاد ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ یہ بنیاد اللہ پر ایمان ہے۔ اللہ سے تعلق کے چند مظاہر یہ ہیں: عبادت، اطاعت، تقویٰ، دعا، ذکر، شکر، توکّل، حمد اور تسبیح۔
عبادت و اطاعت
اسلام کی بنیادی دعوت یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کی جائے اور کسی اور ہستی کو اس کا مدِّ مقابل نہ ٹھیرایا جائے:
یَا أَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الأَرْضَ فِرَاشاً وَّالسَّمَآئَ بِنَائ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَائً فَأَخْرَجَ بِہٰ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُوْنَ o ﴿البقرۃ: ۱۲،۲۲﴾
’’لوگو! بندگی اختیار کرو، اپنے اُس رب کی، جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہوگزرے ہیں اُن سب کا خالق ہے۔ تمہارے بچنے کی توقع اسی صورت سے ہوسکتی ہے۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا، اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا۔ پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مدِّ مقابل نہ ٹھیراؤ۔‘‘
سورہ نساء کی آیت ۳۶کے پہلے جزء میں کہا گیا ہے:
وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٰ شَیْئاً۔
’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔‘‘
سورہ بنی اسرائیل میں ہے:
وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ.﴿بنی اسرائیل:۲۳﴾
’’تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اُس کی۔‘‘
یوسف علیہ السلام نے اپنے جیل کے ساتھیوں کو بتایا کہ اللہ کا حکم یہ ہے کہ تنہا اُسی کی عبادت کی جائے:
یَا صَاحِبَیِ السِّجْنِ أَ أَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْْرٌ أَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُo مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُونِہٰ اِلاَّ أَسْمَائ سَمَّیْْتُمُوْہَا أَنْ تُمْ وَآبَآؤُکُمْ مَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰ کِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo ﴿یوسف: ۳۹-۴۰﴾
’’﴿یوسف علیہ السلام نے جیل کے ساتھیوں سے کہا﴾ اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کررہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے اُن کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتداراللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا تم کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘
اللہ کی عبادت کا لازمی تقاضا اُس کی غیر مشروط اور والہانہ اطاعت ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذٰلِکَ خَیْْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلاًo ﴿النساء : ۵۹﴾
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اُسے اللہ اور رسول کی طرف پھیردو، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔‘‘
اللہ کی اطاعت ہی کی ایک تعبیر یہ ہے کہ اُس کی نازل کردہ ہدایت کی پیروی کی جائے:
اِتَّبِعُوْا مَا أُنْزِلَ اِلَیْْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُونِہِ أَوْلِیَائ قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَo﴿الاعراف: ۳﴾
’’لوگو! جو کچھ تمہارے رَب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، اُس کی پیروی کرو اور اپنے رَب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔ مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو۔‘‘
تقویٰ
قرآن مجید بتاتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنے مخاطبین کو اللہ کا تقویٰ اختیا رکرنے کی تلقین کی ہے۔ سورہ شعراء میں حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام کے دعوتی خطابات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان سب خطابات میں یہ جملے مشترک ہیں:
اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ أَمِیْنٌo فَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْنَِo﴿الشعراء : ۱۰۷-۱۰۸﴾
’’﴿اے میری قوم!﴾ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی یہی تلقین امتِ مسلمہ کے افراد کو بھی کی گئی ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٰ وَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo ﴿آل عمران:۱۰۲﴾
’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔‘‘
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَo ﴿الحشر: ۱۸﴾
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقینا تمہارے اُن سب اعمال سے باخبر ہے جوتم کرتے ہو۔‘‘
قرآنِ مجید تمام انسانوں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیا رکریں:
یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَائً وَاتَّقُوْا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَائَ لُوْنَ بِہٰ وَالأَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْباًo ﴿النساء :۱﴾
’’لوگو، اپنے رَب سے ڈرو، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اُس کا جوڑا بنایا اور اُن دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلادیے۔ اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے۔‘‘
دعا اور ذکر
دعا اللہ سے تعلق کا ایک اہم مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اتنی بے پایاں ہے کہ اُس نے بندوں کو خود دعا کی طرف متوجہ کیا ہے:
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ
Êِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَo ﴿مومن:۶۰﴾
‘تمہارا رَب کہتا ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منھ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔’
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ترجمۂ قرآنِ مجید میں اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس آیت میں دو باتیں خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ دعا اور عبادت کو یہاں ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے کیونکہ پہلے فقرے میں جس چیز کو دعا کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا، اسی کو دوسرے فقرے میں عبادت کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دعا عین عبادت اور جانِ عبادت ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے دعا نہ مانگنے والوں کے لیے ’’گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منھ موڑتے ہیں‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سے دعا مانگنا عین تقاضائے بندگی ہے۔ اور اس سے منھ موڑنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے۔‘‘ ﴿ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی﴾
اہلِ ایمان کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کاذکر کرتے ہیں:
وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ قَدِیْرٌoاِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِأُوْلِیْ الألْبَابِo ﴿آل عمران: ۱۹۸-۱۹۰﴾
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے ﴿ایک دوسرے کے بعد﴾ آنے جانے میں عقل والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ ﴿یہ وہ لوگ ہیں﴾ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے ہوئے اور ﴿یہ لوگ﴾ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے سلسلے میں غور کرتے ہیں۔ ﴿پھر بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں﴾ ’’اے ہمارے رب! تو نے یہ سب عبث نہیں بنایا ہے۔ تو پاک ہے سب عیوب سے، پس تو ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچالے۔‘‘
اہلِ ایمان کی ذکرِ الٰہی سے مناسبت اتنی زیادہ ہے کہ معاشی مصروفیات اُن کو اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتیں:
رِجَالٌ لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیْْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلَاۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکَاۃِ یَخَافُوْنَ یَوْماً تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْأَبْصَارُo لِیَجْزِیَہُمُ اللّٰہُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٰ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَشَآئُ بِغَیْْرِ حِسَابٍo﴿نور: ۳۸-۳۷﴾
’’﴿اہلِ ایمان﴾ ایسے لوگ ہیں کہ تجارت اور خریدو فروخت اُن کو اللہ کی یاد، اقامتِ صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتی۔ وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جب دل الٹ جائیں گے اور آنکھیں پتھرا جائیں گی۔ ﴿ان اہلِ ایمان کا یہ حسنِ عمل اِس لیے ہے﴾ کہ اللہ اُن کے بہترین کاموں کی جزا اُن کو دے اور اپنے فضل سے مزید عطا کرے۔ بے شک وہ جس کو چاہتا ہے، بے حساب رزق دیتا ہے۔‘‘
ذکرِ الٰہی کے بعض مواقع خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ اہلِ ایمان اُن مواقع پر ذکرِ الٰہی کی طرف ذوق و شوق کے ساتھ لپکتے ہیں:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلَاۃِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْااِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوْا الْبَیْْعَ ذٰلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo﴿الجمعہ: ۹﴾
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدوفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اگر تم جانتے ہو۔‘‘
کچھ حالات ایسے ہوتے ہیں، جن میں اللہ سے غفلت کا اِمکان زیادہ ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک موقع جنگ کا ہے۔ اس طرح کے حالات میں اللہ کی یاد کی طرف زیادہ توجہ مطلوب ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْراً لَّعَلَّکُمْ تُفْلَحُوْنَo ﴿الانفال: ۴۵﴾
’’اے ایمان لانے والو! جب تمہارا کسی گروہ سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، امید ہے کہ تم فلاح یاب ہوگے۔‘‘
انسانوں سے صحیح تعلق
انسانی شخصیت کے ہمہ جہتی ارتقاء کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ فرد کا اللہ سے صحیح تعلق قائم ہو۔ اس تعلق کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ اُس شخص کا دوسرے انسانوں سے تعلق بھی درست بنیادوں پر قائم ہوجاتا ہے۔ ایک انسان دوسروں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرے اس سلسلے میں قرآن مجید نے جامع رہنمائی فراہم کی ہے:
انَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالاِحْسَانِ وَاِیْتَائِ ذِیْ الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo﴿النحل: ۹۰﴾
’’اللہ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور قرابت داروں کے ساتھ اچھے سلوک کا اور منع کرتا ہے بے حیائی کے کاموں سے،منکر ﴿برائی﴾ سے اور سرکشی سے۔ اللہ تم کو سمجھاتا ہے شاید کہ تم سبق لو۔‘‘
اس آیت کی تشریح میں علاّمہ شبیر احمد عثمانیؒ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’عدل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے تمام عقائد، اعمال، اخلاق، معاملات اور جذبات اعتدال و انصاف کے ترازو میں تلے ہوں۔ افراط و تفریط سے کوئی پلڑا جھکنے یا اٹھنے نہ پائے۔ سخت سے سخت دشمن کے ساتھ بھی معاملہ کرے تو انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اُس کا ظاہر و باطن یکساں ہو۔ جو بات اپنے لیے پسند نہ کرتا ہو، اپنے بھائی کے لیے بھی پسند نہ کرے۔‘‘احسان‘‘ کے معنی یہ ہیںکہ انسان بذاتِ خود نیکی اور بھلائی کا پیکر بن کر دوسروں کا بھلا چاہے۔ مقامِ عدل و انصاف سے ذرا اور بلند ہوکر فضل و عفو اور تلطّف و ترحّم کی خو اختیار کرے۔ فرض ادا کرنے کے بعد تطوّع اور تبرّع کی طرف قدم بڑھائے اور انصاف کے ساتھ مروّت کو جمع کرے۔ یہ یقین رکھے کہ جو کچھ بھلائی وہ کرے گا، اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔ اُدھر سے بھلائی کاجواب ضرور بھلائی کی صورت میں ملے گا۔ یہ دونوں خصلتیں ﴿یعنی عدل و احسان یا بالفاظِ دیگر انصاف و مروت﴾ تو اپنے نفس اور ہر ایک خویش و بیگانہ اور دوست و دشمن سے متعلق تھیں۔ لیکن اقارب ﴿رشتے داروں﴾ کا حق اجنبیوں سے کچھ زائد ہے۔ جو تعلقاتِ قرابت قدرت نے باہم رکھ دیے ہیں، اُنھیں نظر انداز نہ کیا جائے۔ بلکہ اقارب کی ہمدردی اور اُن کے ساتھ مروّت و احسان اَجانِب سے کچھ بڑھ کر ہونا چاہیے۔ صلہ رحمی ایک مستقل نیکی ہے۔ ’’احسان‘‘ کے بعد ذوی القربیٰ کا خاص طور پر ذکر کرکے متنّبہ فرمادیا کہ عدل و انصاف تو سب کے لیے یکساں ہے، لیکن مروت و احسان کے وقت، بعض مواقع بعض سے زیادہ رعایت و اہتمام کے قابل ہیں۔‘‘فحشاء ‘‘ سے بے حیائی کی باتیں مراد ہیں۔ ’’منکر‘‘ معروف کی ضد ہے یعنی نامعقول کام جن کا فطرتِ سلیمہ اور عقلِ صحیح انکار کرے۔ تیسری ﴿ناپسندیدہ﴾ چیز ’’بغی‘‘ ہے یعنی سرکشی کرکے حد سے نکل جانا۔ ظلم و تعدی پر کمربستہ ہوکر درندوں کی طرح کھانے پھاڑنے کو دوڑنا اور دوسروں کے جان و مال یا آبرو وغیرہ لینے کے لیے ناحق دست درازی کرنا۔‘‘
اگر انسان عدل، احسان اور ایتائے ذی القربیٰ کا اہتمام کرے تو انسانوں سے اُس کے درست تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر اُس کا طرزِ عمل بے انصافی، زیادتی اور قطع رحمی کا ہو تو تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید انسانی تعلقات کے اس بگاڑ کو ’’فساد‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ قرآنِ مجید کے مطابق اللہ کی زمین میں یہ فساد وہ لوگ برپا کرتے ہیں جو فاسق ہیں۔ اُن کی یہ روش ایمان کی ضِدہے:
وَبَشِّرِ الَّذِیْن آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْہَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقاً قَالُوْا ہٰ ذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوْا بِہٰ مُتَشَابِہاً وَلَہُمْ فِیْہَا أَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَo
Êِنَّ اللّٰہَ لاَ یَسْتَحْیِیْ أَنْ یَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَہَا فَأَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ أَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ وَأَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَاذَا أَرَادَ اللّٰہُ بِہٰ ذَا مَثَلاً یُضِلُّ بِہٰ کَثِیْراً وَیَہْدِیْ بِہٰ کَثِیْراً وَمَا یُضِلُّ بِہٰ
Êِلاَّ الْفَاسِقِیْنَo الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٰ وَیَقْطَعُوْنَ مَا أَمَرَ اللّٰہُ بِہٰ أَنْ یُوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِیْ الأَرْضِ أُولٰ ئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَo ﴿البقرۃ:۲۵تا۲۷﴾
’’بے شک اللہ اِس سے نہیں شرماتا کہ مچھر یا اُس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے۔ جو لوگ ایمان لانے والے ہیں وہ انہیں مثالوں کو دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ یہ حق ہے اور اُن کے رَب کی طرف سے ہے۔ ﴿اِس کے برعکس﴾ جو لوگ کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ کو بھلا ایسی مثالوں سے کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ﴿اِس کلام کے ذریعے﴾ بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے اور بہت سوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ اور گمراہ وہ انہی کو کرتا ہے جو فاسق ہیں۔ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں۔ اللہ نے جن ﴿روابط﴾ کے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُن کو کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘
عدل و احسان کی روش اپنا کرجب ایک فرد دوسرے انسانوں سے اپنے تعلق کو درست کرلیتا ہے تو اُس کی شخصیت کی تکمیل کا ایک اہم مرحلہ طے ہوجاتا ہے۔
کائنات سے درست تعلق
اِس کائنات کی اشیاء کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت میں لگادیا ہے۔ انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی خادم اشیاء کائنات کو اللہ کا فضل اور اُس کا عطیہ سمجھے، اور اللہ کی حدود کے اندر اُس کا شکر ادا کرتے ہوئے، اُن کا استعمال کرے:
اَللّٰہُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فِیْہِ بِأَمْرِہٰ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٰ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ جَمِیْعاً مِّنْہُاِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لَّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَo ﴿الجاثیہ:۱۲-۱۳﴾
’’اللہ وہ ہے جس نے سمندر کو تمہارے لیے مسخرکردیا تاکہ اُس کے حکم سے جہاز اُس میں چلیں اورتاکہ تم اُس کے فضل کو تلاش کرو اور شکر گزار بنو۔ اور اُس نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ اشیاء ہیں سب کو تمہارے لیے مسخر کردیا۔ بے شک اس میں نشانیا ںہیں اِن لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں۔‘‘
فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاۃُ فَانْتَشِرُوْا فِیْ الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْراً لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo ﴿الجمعہ:۱۰﴾
’’جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔‘‘
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیَ أَخْرَجَ لِعِبَادِہٰ وَالْطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ہِیْ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُوْنَo ﴿الاعراف: ۳۲﴾
’’کہو کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کردیا جس کو اُس نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے رزق کی پاکیزہ چیزیں حرام کردیں۔ کہو، یہ سب نعمتیں اِس دنیا کی زندگی میں بھی اہلِ ایمان کے لیے ہیں اور آخرت میں تو خالصتاً انہیں کے لیے ہوں گی۔ ہم اس طرح علم رکھنے والوں کے لیے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔‘‘
اشیاء کائنات میں مضر اشیاء کو چھوڑ دینا چاہیے اگر اُن کا ضرر زیادہ ہو:
یَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا … ﴿البقرۃ:۲۱۹﴾
’’لوگ تم سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو اِن میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے فائدے بھی ہیں، لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ ہے۔‘‘
اِسی طرح اشیاء کائنات کا ایسا استعمال بھی ممنوع ہے جس سے فسادبرپا ہوتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٰ وَہُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِo وَ
Êِذَا تَوَلَّی سَعَی فِیْ الأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَo ﴿البقرۃ:۲۰۴-۲۰۵﴾
’’انسانوں میں کوئی ایسا ہے جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں اچھی معلوم ہوتی ہیں اور وہ اپنی نیک نیتی پر بار بار اللہ کو گواہ ٹھیراتا ہے لیکن حقیقتاً وہ سخت دشمنِ حق ہوتا ہے۔ جب اُسے زمین میں اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو اُس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ اُس میں فساد برپا کرے اور کھیتوں کو اور نسلِ انسانی کو تباہ کرے۔ حالانکہ اللہ ﴿جسے وہ گواہ ٹھیرا رہا تھا﴾ فساد کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اس طرح اسلام فردِ انسانی کے ہمہ جہتی ارتقاء کا تصور ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور انسانی شخصیت کو کمال کی طرف لے جانے والے سفر کے نشاناتِ راہ ہم کو دکھاتا ہے۔ اللہ سے صحیح تعلق، انسانوں سے صحیح تعلق اور کائنات سے صحیح تعلق، یہ سب ایمان ہی کے مختلف مظاہر ہیں۔ بقول اقبالò
یہ سب ہیں ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام
وہ جِس کی شان میں آیا ہے علَّمَ الاسماء
مقامِ ذکر کمالاتِ رومی و عطّار
مقامِ فکر مقالاتِ بوعلی سینا
مقامِ فکر ہے پیمائشِ زمان و مکاں
مقامِ ذکر ہے سبحان رَبی لاعلیٰ
مشمولہ: شمارہ جون 2011