اشارات

یہ شمارہ اِن شاءاللہ رمضان المبارک کی آمد سے چند روز قبل آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گا۔ اِس بابرکت مہینے سے استفادہ کرنے کے لیے قرآن مجید سے اس ماہ کے تعلق کا استحضارضروری ہے۔

نزولِ قرآن کا مہینہ

قرآن مجید کا نزل رمضان المبارک کے مہینے میں ہوا۔ اِس حقیقت کا تذکرہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر کیاگیاہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَٓ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَیٰ وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُواْ الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُواْ اللّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون البقرہ: ۱۸۵﴾

’’رمضان وہ مہینہ ہے جِس میں قرآن نازل کیاگیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اَب سے جو شخص اِس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پرہو تو وہ دوسرے دِنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتاہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اِس لیے یہ طریقہ تم کو بتایاجارہاہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جِس ہدایت سے اللہ نے تمھیںسرفراز کیا ہے اُس پراللہ کی کبریائی کااظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔’’

حٰمٓ oوَالْکِتَابِ الْمُبِیْنِo انا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ اَّنا کُنَّا مُنذِرِیْنَ oفِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ  ﴿الدخان :۱-۴﴾

’’ح-م- قسم ہے اس کتاب مبین کی کہ ہم نے اسے ایک بڑی خیرو برکت والی رات میں نازل کیا ہے۔ کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کاارادہ رکھتے تھے۔ یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملے کا حکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادر کیاجاتاہے۔’’

اِنَّآ أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ oوَمَآ أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ oلَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ oتَنَزَّلُ الْمَلَآئِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ oسَلَامٌ ہِیَ حَتَّیٰ مَطْلَعِ الْفَجْرo ﴿القدر:۱-۵﴾

’’ہم نے اِس قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیاہے اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اُس میں اپنے رَب کے اِذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سلامتی ہے۔ طلوعِ فجر تک۔‘’

شب قدر کے متعلق مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:

’’ اللہ تعالیٰ کے شاہی نظم و نسق میں یہ ایک ایسی رات ہے، جِس میں وہ افراد اور قوموں اور ملکوں کی قسمتوںکے فیصلے کرکے اپنے فرشتوں کے حوالے کردیتاہے اور پھر وہ انھی فیصلوں کے مطابق عمل درآمد کرتے رہتے ہیں۔‘’

چنانچہ تاریخ ساز کتاب قرآن مجید کے نزول کے لیے ایسے لمحات کاانتخاب کیاگیا ہے، جِن میں مشیت الٰہی تاریخ ساز فیصلے کرتی ہے۔

سورہ بقرہ کی مذکور بالا آیت میںقرآن مجید کا تعارف کراتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ یہ کتاب سراسر ہدایت ہے، بینات ﴿روشن اور واضح تعلیمات﴾ پر مشتمل ہے اور حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیتی ہے۔ لیکن اِن سب خصوصیات کے باوجود اس کتاب سے واقعۃً فائدہ اٹھانے کے لیے طالبِ ہدایت کی اپنی کوشش بھی ضروری ہے۔ اِس کوشش کے دو اجزا ہیں۔ پہلا جز یہ ہے کہ اِنسان اِخلاص کے ساتھ ہدایت کاطلب گار ہو اور زبانِ حال اورزبانِ قال سے اللہ سے یہ دعا کرے:

oایَّاکَ نَعْبُدُ وایَّاکَ نَسْتَعِیْن oاہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ المَغضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَo

﴿الفاتحہ:۵-۷﴾

’’﴿اے اللہ!﴾ ہمیں سیدھا راستہ دِکھا، اُن لوگوں کاراستہ جِن پر تونے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوتے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘

صدقِ دل کے ساتھ ہدایت کی طلب کے بعد دوسری کوشش جو طالبِ ہدایت کو کرنی ہوگی وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہدایت سے فائدہ اٹھانے کااہل بنائے۔ روزہ اُس کے اندر یہی اہلیت پیدا کرتا ہے۔ اِسی لیے نزولِ قرآن کے مہینے کو روزے کے لیے مخصوص کیاگیا ہے۔ یہ اہلیت کیاہے؟ اِس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ یہ اہلیت ’’صفتِ تقویٰ‘’ ہی کادوسرا نام ہے۔ قرآن مجید بتاتاہے کہ ہدایت پانے کے لئے تقویٰ ایک ضروری شرط ہے:

الٓمٓ oذٰلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ﴿البقرہ: ۱،۲﴾

’’الف-لام-میم- یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے۔‘’

تقویٰ کی صفت اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے اِنسان کو کوشش کرنی ہوتی ہے۔ اِس کوشش کے بہت سے ذرائع ہیں۔ اِن میں ایک بہت موثر ذریعہ روزہ ہے۔ روزوں کی فرضیت کی حکمت یہی ہے:

یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون ﴿البقرہ:۱۸۳﴾

’’اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیائ کے پیروئوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اِس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔‘’

تقویٰ کسی جامِد کیفیت کانام نہیں ہے، بلکہ ہر آن اِنسان اپنی نگہداشت کرے، تبھی وہ پرہیزگاری کی روش پر قائم رہ سکتا ہے۔ رمضان کامہینہ ہر سال اپنی آمد کے ذریعے اہلِ ایمان کو یہ زرّیں موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ روزے رَکھ کر اپنے اندر تقویٰ کی کیفیت کو ازسرنوتازہ کریں۔ اِس مہینے میں وہ اجتماعی ماحول بھی اہلِ ایمان کو میسر آتا ہے، جس میں انسان اپنے قلب کی اِصلاح کی طرف بآسانی توجہ کرسکتاہے۔ جو شخص کتاب الٰہی سے ہدایت پاناچاہتاہو، اُس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اندر تقوے کی صفت پیداکرے۔ اِس مقصد کے لیے اُسے رمضان کی آمد سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

روزہ اور حصولِ تقویٰ

تقویٰ دِل کی کیفیت کانام ہے۔لیکن اس کا اظہار اِنسان کے رویّے سے ہوتاہے۔ تقوے کا ایک اہم مظہر حدودِ الٰہی کی پابندی ہے۔ جو شخص اللہ کی حدود کا پاس رکھتا ہے اور اُن سے تجاوزنہیں کرتا وہ اپنے رویّے سے ظاہر کرتا ہے کہ اس کے دِل کے اندر اللہ کا خوف موجود ہے۔ چنانچہ ماہِ رمضان کے دوران اعتکاف کے آداب بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حدوداللہ کی پاسداری اور کیفیت تقویٰ کاتذکرہ ایک ساتھ کیا ہے۔

تِلْکَ حُدُودُ اللّہِ فَلاَ تَقْرَبُوہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ اٰیَاتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ ﴿البقرہ:۷۸۱﴾

’’یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں۔ اِن کے قریب نہ پھٹکنا۔ اِس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے۔ توقع ہے کہ وہ تقویٰ کی روش اختیار کریں گے۔‘’

گویا تقویٰ اور حدودِ الٰہی کی پابندی لازم و ملزوم ہیں۔اِسی طرح حرام مہینوں کی حُرمت کاتذکرہ کرتے ہوئے تقویٰ اختیارکرنے کی ہدایت کی گئی ہے:

الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْْکُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَیْْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُوآْ أَنَّ اللّہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ﴿البقرہ: ۱۹۴﴾

’’ماہِ حرام کا بدلہ ماہِ حرام ہی ہے اور تمام حُرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا۔ لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے تم بھی اُسی حد تک اُس پر دست درازی کرو۔ البتہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور یہ جان لوکہ اللہ انھی لوگوں کے ساتھ ہے، جو تقویٰ کی روش اختیار کرتے ہیں ﴿یعنی اُس کی حدود کو توڑنے سے پرہیزکرتے ہیں۔‘’

روزے کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اِنسان کے دِل میں تقویٰ کی کیفیت کو پروان چڑھاتا ہے۔ روزے کا ظاہر یہ ہے کہ انسان کھانے پینے اور خواہشیں پوری کرنے سے ایک متعینہ مدت تک اپنے آپ کو باز رکھے اور روزے کا باطن یہ ہے کہ اپنے آپ کو باز کھنے کا یہ عمل اللہ کی رضا کی خاطر ہو اور اُس کے حکم کے مطابق ہو۔ تقویٰ کی حقیقت بھی یہی ہے۔ ظاہرکے لحاظ سے تقویٰ اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں سے رُک جانے کا نام ہے اور اُس کی حقیقی اسپرٹ یہ ہے کہ ممنوعہ کاموں سے رُک جانے کا یہ رویّہ اِنسان اللہ کی رضا جوئی کے لیے اختیار کرے اور ہر مرحلے میں احکامِ الٰہی کا پابند رہے۔ روزے اور تقوے کی اِس مناسبت میں اِس سوال کاجواب موجود ہے کہ :‘’حصولِ تقویٰ کے لیے روزے کو ایک اہم ذریعہ کیوں قرار دیاگیا ہے۔‘’ واقعہ یہ ہے کہ روزہ اِنسان میں تقویٰ کی کیفیت پیدا بھی کرتا ہے اور اُس کی مشق بھی کراتا ہے۔ اللہ کی رضا کی خاطر کسی اِنسان کا ضبطِ نفس (Self Control)پر قادر ہوجانا شخصیت ِ اِنسانی کے ارتقا کا ایک اہم مرحلہ ہے۔ روزہ اِس مرحلے کو بآسانی طے کرادیتا ہے۔

روزہ اور منفی رجحانات پر قابو

غفلت کاشکار ہوکر اگر اِنسان حدودِ الٰہی کی خلاف ورزی کربیٹھے تو توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کو اپنے اندرون کی کیفیت کی اِصلاح کے لیے نیک کام بھی کرنے چاہئیں۔ ایسے مواقع پر شریعتِ الٰہی نے اِنسان کے نفس کی اِصلاح کے لیے جو اعمالِ صالحہ تجویز کیے ہیں وہ یہ ہیں: غلاموں کو آزاد کرنا، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور روزہ رکھنا۔ یوں تو تمام نیکیاں اِنسان کے قلب کی اِصلاح کرتی ہیں اور گناہوں کے اثرات کو مٹانے میں مدد دیتی ہیں لیکن اِن تین نیکیوں کو اِنسان کے اندرون کی حالت کے سدھارنے میں خصوصی مقام حاصل ہے۔ اِن تین نیک کاموں میںایک روزہ ہے، جو اِنسان کے اندر موجود منفی رجحانات پر قابو پانے میں اِنسان کی مدد کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ہمیں روزے کی اِس خاصیت کاتذکرہ ملتاہے۔ مثلاً اگر غلطی سے کسی مسلمان کے ہاتھ سے کوئی مسلمان مارا جائے تو محض زبانی توبہ کافی نہیں ہے بلکہ عملی توبہ بھی ضروری ہے تاکہ نفس کے اندر موجود کمزوری دور ہوسکے۔

وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن یَقْتُلَ مُؤْمِناً اِلاَّ خَطَئاً وَمَن قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَئاً فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ الَی أَہْلِہِ اِلآَّ أَن یَصَّدَّقُواْ فَان کَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ وَہُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَان کَانَ مِن قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلَی أَہْلِہِ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃً فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْْنِ مُتَتَابِعَیْْنِ تَوْبَۃً مِّنَ اللّہِ وَکَانَ اللّہُ عَلِیْماً حَکِیْما ﴿النساء:۹۲﴾

’’کسی مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مومن کو قتل کرے، اِلّا یہ کہ اُس سے چوک ہوجائے اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کردے تو اُس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو خوں بہا دے ۔ اِلّا یہ کہ وہ خوں بہا معاف کردیں۔ لیکن اگر وہ مسلمان مقتول کسی ایسی قوم سے تھا ، جِس سے تمھاری دشمنی ہوتو اُس کا کفارہ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے اور اگر وہ کسی ایسی غیرمسلم قوم کا فرد تھا جس سے تمھارا معاہدہ ہوتو اُس کے وارثوں کو خوں بہا دیاجائے گا اور ایک مومن غلام کو آزاد کرنا ہوگا۔ پھر جو غلام نہ پائے وہ پے درپے دو مہینے کے روزے رکھے۔ یہ اس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے اور اللہ علیم و دانا ہے۔‘’

اِسی طرح اگرآدمی قسم کھالے تو اُسے پورا کرنا ضروری ہے اور اگر وہ کسی وجہ سے اپنی قسم توڑنا چاہتا ہوتو اس کو کفارہ دیناہوگا۔ یہ کفارہ اِس لئے ہے کہ ضبطِ نفس کی تربیت ہوسکے اور یہ ظاہر ہے کہ زبان پر کنٹرول، اپنے آپ پر کنٹرول کا ایک اہم جُز ہے۔

لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّہُ بِاللَّغْوِ فِٓیْ أَیْمَانِکُمْ وَلٰ کِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہُ ٓ اطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَہْلِیْکُمْ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ أَیْمَانِکُمْ اذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوآْ أَیْمَانَکُمْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ اٰیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون ﴿المائدہ:۸۹﴾

’’تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہو اُن پراللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کرکھاتے ہو اُن پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔ ﴿ایسی قسم توڑنے کا﴾ کفارہ یہ ہے کہ دَس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھاناکھلائو جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑے پہنائو یا ایک غلام آزاد کرو اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دِن کے روزے رکھے۔ یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھاکر توڑدو۔ اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ اِس طرح اللہ اپنے احکام تمھارے لیے واضح کرتاہے۔ شاید کہ تم شکرادا کرو۔‘’

حدودِ الٰہی کی ایک اور مثال یہ ہے کہ اِحرام کی حالت میں شکار ممنوع ہے۔ اگر کوئی شکار کربیٹھے تو اُس کو اپنے نفس کی اِصلاح کے لیے کفارہ دینا ہوگا۔ اس کفارے کی ایک شکل روزہ بھی ہے:

یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ لاَ تَقْتُلُواْ الصَّیْْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ وَمَن قَتَلَہُ مِنکُم مُّتَعَمِّداً فَجَزَائ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنکُمْ ہَدْیْاً بَالِغَ الْکَعْبَۃِ أَوْ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسَاکِیْنَ أَو عَدْلُ ذَلِکَ صِیَاماً لِّیَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِہِ عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَف وَمَنْ عَادَ فَیَنتَقِمُ اللّہُ مِنْہُ وَاللّہُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَام ﴿المائدہ:۵۹﴾

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، احرام کی حالت میںشِکار نہ مارو۔اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کرگزرے تو جوجانور اُس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلّہ ایک جانور اسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگا، جِس کا فیصلہ تم میں سے دو عادِل آدمی کریںگے اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایاجائے گا یا نہیں تو اس گناہ کے کفارے میں چند مسکینوں کو کھاناکھلانا ہوگا یا اُس کی بقدر روزے رکھنے ہوںگے۔ تاکہ وہ اپنے کیے کا مزہ چکھے۔ پہلے جو کچھ ہوچکا، اُسے اللہ نے معاف کردیا۔ لیکن اگر اَب کسی نے اِس حرکت کا اعادہ کیاتو اس سے اللہ بدلہ لے گا۔ اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔‘’

نعمتِ قرآن اور انسانی معاشرہ

قرآن مجید جیسی کتابِ ہدایت پانے پر اِنسانوں کا ردعمل کیاہوناچاہیے۔ اِس سوال کاجواب خوداِس کتابِ ہدایت نے دیا ہے۔ اِس کتاب کی عظمت کے تین بنیادی تقاضے ہیں۔ اِس پر ایمان لایاجائے، اس کتاب کے نازل کرنے والے کی کبریائی کااعتراف و اظہار کیاجائے اور اِس کتاب کے مِلنے پر شُکر ادا کیاجائے۔ شُکر کا ایک لازمی جز یہ ہے کہ اِنسان اِس کتاب سے فائدہ اٹھائے اور اپنی زندگی کے لیے اس سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرے۔

﴿۱﴾ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لانے کے معنیٰ اللہ کی پکار کا جواب دینے کے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:

وَاذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُواْ لِیْ وَلْیُؤْمِنُواْ بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ     ﴿البقرہ: ۱۸۶﴾

’’اور اے نبی! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتادو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی پکار سنتااور جواب دیتاہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ توقع ہے کہ وہ راہِ راست پائیں گے۔‘’

﴿۲﴾  قرآن مجید پر ایمان لانے والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کی بڑائی کااعلان کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ابتدائی ہدایات دی گئی تھیں اُن میں یہ بات بھی شامل تھی:

یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ oقُمْ فَأَنذِر oوَرَبَّکَ فَکَبِّرo ﴿المدثر:۱-۳﴾

’’اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور خبردار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔‘’

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً وَلَم یَکُن لَّہ‘’ شَرِیْکٌ فِیْ الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُن لَّہ‘’ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلَّ وَکَبِّرْہ‘’ تَکْبِیْراً ﴿بنی اسرائیل:۱۱۱﴾

’’اور کہو تعریف ہے اُس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اُس کا پشتیبان ہو اور اُس کی بڑائی بیان کرو۔ کمال درجے کی بڑائی۔‘’

رَب کی بڑائی کایہ اعلان نماز کے اندر بھی ہونا چاہیے اور نماز کے باہر بھی۔ نماز ادا کرنے والے اہل ایمان نماز کے دوران ’’اللہ اکبر‘’ کے الفاظ بار بار دہراتے ہیں، جو اللہ کی بڑائی کااعلان و اِظہار ہے۔ نماز کے باہر اِنسانی معاشرے میں دعوتِ اسلامی دراصل اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا ہی دوسرا نام ہے۔

نعمتِ قرآن کی شکرگزاری

رمضان المبارک کے مہینے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن جیسی نعمت عطا فرمائی۔ چنانچہ اس مہینے میں خاص طور پر اِس نعمت کاشکر ادا کیاجانا چاہیے۔ شکر کے معنیٰ یہ ہیں کہ قرآن مجید کے حقوق ادا کیے جائیں۔ یہ حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

ایمان، تمسّک، تلاوت، تدبّر، اتباع، تعلیم، دعوت الی القرآن، اِقامت۔

﴿الف﴾ قرآن مجید کا پہلا حق یہ ہے کہ اس پر ایمان لایاجائے۔

فَاٰمِنُوا بٰاللَّہِ وَرَسُولِہٰ وَالنُّورِ الَّذٰٓیْ أَنزَلْنَا وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ ﴿التغابن:۸﴾

’’پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اُس روشنی پر جو ہم نے نازل کی ہے۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے۔‘’

مولانا مودودیؒ اِس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:

’’یہاں سیاق و سباق خود بتارہاہے کہ اللہ کی نازل کردہ روشنی سے مراد قرآن ہے، جس طرح روشنی خود نمایاں ہوتی ہے اور گرد و پیش کی ان تمام چیزوں کو نمایاں کردیتی ہے، جو پہلے تاریکی میں چھپی ہوئی تھیں، اسی طرح قرآن ایک ایسا چراغ ہے جس کابرحق ہونابجائے خود روشن ہے اور اس کی روشنی میں اِنسان ہر اس مسئلے کو سمجھ سکتا ہے جسے سمجھنے کے لیے اُس کے اپنے ذرائع علم و عقل کافی نہیں ہیں۔‘’

رمضان المبارک میں اہل ایمان کو قرآن مجید پر اپنے ایمان کو تازہ کرنا چاہیے۔ یہ شکر گزاری کا پہلا قدم ہے۔

﴿ب﴾ قرآن مجید پر ایمان لانے کا تقاضا یہ ہے کہ اُس کو مضبوطی سے تھاماجائے:

وَالَّذِیْنَ یُمَسَّکُونَ بِالْکِتَابِ وَأَقَامُواْ الصَّلاَۃَ اِنَّا لاَ نُضِیْعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِیْن        ﴿الاعراف:۱۷۰﴾

’’جو کتاب کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، بے شک ہم ایسے مصلحین کا اجر ضائع نہیں کریں گے۔‘’

’’تمسّک بالکتاب‘’ کے معنیٰ ہیں ’’زندگی کے کسی معاملے کو کتاب الٰہی کی رہنمائی سے محروم نہ رہنے دینا۔‘’

﴿ج﴾ قرآن مجید کا اگلا حق یہ ہے کہ اُس کی تلاوت کی جائے:

اتْلُ مَآ أُوحِیَ اِلَیْْکَ مِنَ الْکِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ اِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئ وَالْمُنکَرِ وَلَذِکْرُ اللَّہِ أَکْبَرُ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُون ﴿العنکبوت:۴۵﴾

’’﴿اے نبی﴾ تلاوت کرو اُس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کے ذریعے سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کاذِکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔اللہ جانتاہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘’

رمضان کی راتوںمیں نماز میں کھڑے ہوکر قرآن کی تلاوت کرنے کی فضیلت بیہقی کی اِس روایت میں بیان ہوئی ہے:

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روزہ اور قرآن بندے کی شفاعت کرتے ہیں۔ روزہ کہتاہے کہ اے رَب! میں نے اس کو دِن بھرکھانے ﴿پینے﴾ اور شہوات سے روکے رکھا، تو میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما۔ اور قرآن کہتاہے : ﴿اے رَب﴾ میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا، تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ پس اِن دونوں کی شفاعت قبول فرمالی جائے گی۔‘’

﴿د﴾  قرآن مجید پر تدبّر اُس کی تلاوت کالازمی اور فطری جُز ہے:

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ الاَّ رِجَالاً نُّوحِٓیْ الَیْْہِمْ فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ ان کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ oبِالْبَیِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَآ الَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَآ نُزِّلَ الَیْْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُون  ﴿النحل:۴۳،۴۴﴾

’’﴿اے نبی﴾ہم نے تم سے پہلے بھی جب کبھی رسول بھیجے ہیں آدمی ہی بھیجے ہیں جن کی طرف ہم اپنے پیغام وحی کیا کرتے تھے۔ اہلِ ذکر سے پوچھ لواگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔ پچھلے رسولوں کو بھی ہم نے روشن نشانیاں اور کتابیں دے کر بھیجاتھا اور اَب یہ ذِکر تم پر نازل کیا ہے۔ تاکہ تم لوگوں کے ساتھ اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو اُن کے لیے اُتاری گئی ہے اور تاکہ لوگ ﴿خود بھی﴾ غوروفکر کریں۔‘’

افَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُراٰنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا   ﴿محمد:۳۲﴾

’’کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا یا دِلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں۔‘’

﴿ھ﴾  قرآن مجید کا اگلا حق یہ ہے کہ اُس کی پیروی کی جائے۔

وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَاِلَیْْکُم مِّن رَّبِّکُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَکُمُ العَذَابُ بَغْتَۃً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ  ﴿الزمر:۵۵﴾

’’اور پیروی اختیار کرو اپنے رَب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی، قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔‘’

المصoکِتَابٌ أُنزِلَ الَیْْکَ فَلاَ یَکُن فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنذِرَ بِہِ وَذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ oاتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ الَیْْکُم مِّن رَّبِّکُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِہِ أَوْلِیَائ قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُونَ  ﴿الاعراف:۱-۳﴾

’’ا-ل-م-ص- یہ ایک کتاب ہے جو تمھاری طرف نازل کی گئی ہے پس اے نبی! تمھارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو۔ اس کے اُتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعے سے ﴿منکرین کو﴾ ڈرائو اور ایمان لانے والے لوگوں کو نصیحت ہو۔ لوگو! جو کچھ تمھارے رَب کی طرف سے تم پر نازل کیاگیا ہے ،اُس کی پیروی کرو اور اپنے رَب کو چھوڑکر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔ مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو۔‘’

﴿و﴾ قرآن مجید کا یہ حق ہے کہ اُس کی تعلیم کو عام کیاجائے:

انَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُونَ مَآ أَنزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدٰی مِن بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِیْ الْکِتَابِ أُولٰ ئِکَ یَلعَنُہُمُ اللّہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللَّاعِنُونَoِالاَّ الَّذِیْنَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَبَیَّنُواْ فَأُوْلٰ ئِکَ أَتُوبُ عَلَیْْہِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ  ﴿البقرہ:۱۵۹،۱۶۰﴾

’’جولوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، حالانکہ ہم انھیں سب اِنسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کرچکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی اُن پر لعنت کرتاہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں۔ البتہ جو اس روِش سے بازآجائیں اوراپنے طرزِ عمل کی اِصلاح کرلیں اور جو کچھ چھپاتے تھے اُسے بیان کرنے لگیں، اُن کو میں معاف کردوںگا اور میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہوں۔‘’

﴿ز﴾ کتب آسمانی اِس لیے نازل ہوئی تھیں کہ اُن کو قائم کیاجائے:

قُلْ یَآ أَہْلَ الْکِتَابِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْْئ ٍ حَتَّیٰ تُقِیْمُواْ التَّوْرَاۃَ وَالاِنجِیْلَ وَمَآ أُنزِلَ اِلَیْْکُم مِّن رَّبِّکُمْ وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْراً مِّنْہُم مَّآ أُنزِلَ الَیْْکَ مِن رَّبِّکَ طُغْیَاناً وَکُفْراً فَلاَ تَأْسَ عَلٰی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ ﴿المائدہ:۶۸﴾

’’صاف کہہ دو کہ ’’اے اہلِ کتاب! تم ہرگز کسی اَصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو، جوتمھارے رَب کی طرف سے تم پر ناز ل کی گئی ہیں۔‘’ ضرور ہے کہ یہ فرمان جو تم پر نازل کیاگیاہے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور اِنکار کو اور زیادہ بڑھادے گا۔ مگر اِنکار کرنے والوں کے حال پر کچھ افسوس نہ کرو۔‘’

تورات اور انجیل کی طرح آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کی اِقامت بھی کتابِ الٰہی پر ایمان کا لازمی تقاضا ہے اور یہی شکرگزاری کی تکمیل ہے۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2011

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau