اشارات

جو لوگ دعوت و اصلاح کا کام کرتے ہیں، اُن کو یہ سوال اکثر پریشان کرتا ہے کہ راہِ حق واضح ہوجانے کے بعد بھی لوگ حق کو قبول کیوں نہیں کرتے؟ ذیل کی سطور میں یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے گی کہ قرآنِ مجید اس سوال کا کیا جواب دیتا ہے؟ یعنی قرآنِ مجید کے مطابق کِن لوگوں کو ہدایت ملتی ہے اور کون اس سے محروم رہ جاتے ہیں؟

ہدایت اور اِذنِ الٰہی

داعی حق کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تبلیغ کے تمام آداب کا لحاظ رکھے۔ مخاطَب کے ذہن کو سامنے رکھ کر دل نشیں انداز میں دلائل پیش کرے، آفاق و انفس کی نشانیوں کی طرف توجہ دلاکر حق کو واضح کرے، موعظتِ حسنہ سے کام لے، صبر کے ساتھ مخاطَب کے سوالات کو سنے اور اُن کا جواب دے اور اپنی بساط بھر مخاطَب پر حجت تمام کردے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود یہ ممکن ہے کہ مخاطَب دعوتِ حق کو قبول نہ کرے۔ یہ تجربہ ہر داعی کو ہوتا رہتا ہے۔ ایسی صورتِ حال پیش آنے پر مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے داعیِ حق کو یہ حقیقت اپنے ذہن میں تازہ کرلینی چاہیے کہ کسی شخص کو بہرصورت ہدایت دے دینا اُس کا کام نہیں ہے، بلکہ ہدایت ملنے یا نہ ملنے کا تعلق اللہ کی مشیت سے ہے۔ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے:

اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰ کِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَo﴿القصص: ۵۶﴾

’’آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے، جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں‘‘

اس بنیادی حقیقت کے سامنے آجانے کے بعد ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہدایت سے متعلق مشیتِ الٰہی، اللہ کی جس سنت کے تحت کام کرتی ہے وہ سنت کیا ہے اور اس کے مطابق کون لوگ ہدایت سے فیض یاب ہوتے ہیں اور کن لوگوں کو ہدایت نہیں ملتی۔

ہدایت پانے والے

قرآنِ مجید انسانوں کو اُن کی سعی و جہد کے مطابق دو قِسموں میں تقسیم کرتا ہے۔ اُن میں سے ایک قِسم اُن اِنسانوں کی ہے، جن کے لیے راہِ راست پالینا آسان ہوتا ہے:

اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰیo فَأَمَّا مَنْ أَعْطیٰ وَاتَّقیٰo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہ’ لِلْیُسْریٰo﴿اللیل: ۴-۷﴾

’’درحقیقت تم لوگوں کی کوشش مختلف قسم کی ہیں تو جس نے ﴿راہِ خدا میں﴾ مال دیا اور ﴿خدا کی نافرمانی سے﴾ پرہیز کیا اور بھلائی کو سچ مانا اُس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔‘‘

ان آیات میں راہِ راست پانے والوں کی تین اعلیٰ انسانی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ آدمی زر پرست نہ ہو بلکہ بھلائی کے کاموںمیں مال خرچ کرنے کے لیے تیار ہو۔ جو شخص خرچ کرنے کے مواقع پر مال کو صحیح مصرف میں خرچ نہیں کرتا وہ دراصل اپنے انسانی مرتبے سے گرجاتا ہے۔ اس لیے کہ دنیا اور اُس کے وسائل کو تو اللہ نے اُسے اسی لیے بخشا تھا کہ وہ بوقتِ ضرورت اُن سے صحیح کام لے۔ اَب اگر وہ ان وسائل پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے اور اُن کو صحیح مصرف میں نہیں آنے دیتا تو وہ گویا اپنے اعلیٰ انسانی مقام کی خود نفی کردیتا ہے۔ اِس کے برعکس جو شخص مال کو بھلے کاموں میں خرچ کرتا ہے، وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ دنیا اور اُس کے وسائل کی صحیح پوزیشن سے آگاہ ہے یعنی اس حقیقت سے باخبر ہے کہ دنیا کے وسائل اُس کو بھلے کاموں میں استعمال کرنے کے لیے دیے گئے ہیں۔ جو شخص اِس اعلیٰ انسانی صفت کا مظاہرہ کردے اُس کے لیے ہدایت کے راستے یقینا کھل جانے چاہئیں۔

دوسری انسانی صفت جِس کا ذکر کیا گیا ہے وہ تقویٰ ہے۔ یہ وہی بات ہے جو سورۂ بقرہ کے آغاز میں کتابِ الٰہی کا تعارف کراتے ہوئے کہی گئی ہے : ’’یہ کتاب ہدایت ہے، پرہیز گار لوگوں کے لیے۔‘‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس کے ذیل میں فرماتے ہیں:

’’﴿تقویٰ کی صفت سے مراد یہ ہے کہ﴾ آدمی پرہیز گار ہو، بھلائی اور برائی میں تمیز کرتا ہو۔ برائی سے بچنا چاہتا ہو۔ بھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہش مند ہو۔ رہے وہ لوگ، جو دنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہوں، جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوتی ہو کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہش نفس دھکیل دے، یا جدھر قدم اٹھ جائیں، اُسی طرف چل پڑتے ہوں، تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں ہے۔‘‘ ﴿تفہیم القرآن، سورہ البقرۃ ، حاشیہ:۳﴾

ہدایت پانے کے لیے تیسری صفت جس کاتذکرہ کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی حق اور راستی کا قدر داں ہو۔ جب حق اُس کے سامنے آئے تو وہ اسے ایک قیمتی متاع سمجھے اور شوق و ذوق کے ساتھ اُس کی طرف لپک پڑے اور جب سچائی اُس پر کھل جائے تو وہ پوری جرأت کے ساتھ اُس کی تصدیق کرے۔ رہے وہ لوگ جو حق کو حق ماننے سے ‘نفع و نقصان’ کا حساب لگائیں اور اگراُن کی کوتاہ بیں آنکھوں کو قبولِ حق کے راستے میں دنیا کا ظاہری گھاٹا نظرآئے تو حق سے منھ پھیر لیں تو ایسے لوگ یقینا ہدایت کے مستحق نہیں ہیں۔ داعیِ حق کی بات اُن کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔

عشق فرمودۂ قاصد پہ سبک گامِ عمل

عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی

ہدایت سے محروم رہنے والے

سطورِ بالا میں ہدایت پانے والوں کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ یہ ایک قِسم کے انسان ہیں۔ انسانوں کی دوسری قِسم وہ ہے جو ہدایت سے محروم رہتی ہے۔ یہ محرومی بلاوجہ نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ اُن کی اپنی مساعی ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:

وَأَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰیo وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہ’ لِلْعُسْریٰo وَمَا یُغْنِیْ عَنْہ، مَالُ ٓہ، اِذَا تَرَدّٰیo﴿الیل: ۸-۱۱﴾

اور جس نے بخل کیا اور ﴿اپنے خدا سے﴾ بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا، اس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ اور اُس کا مال آخر اُس کے کس کام آئے گا، جب کہ وہ ہلاک ہوجائے۔

بخل، حق سے بے نیازی اور بھلائی کو جُھٹلانا۔ یہ وہ ناپسندیدہ صفات ہیں جو انسان کو ہدایت سے محروم رکھتی ہیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ان صفات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بخل سے مراد محض وہ بخل نہیں ہے جس کے لحاظ سے عام طور پر لوگ اُس آدمی کو بخیل کہتے ہیں جو روپیہ جوڑ جوڑ کر رکھتا ہے اور اُسے نہ اپنے اوپر خرچ کرتا ہے، نہ اپنے بال بچوں پر۔ بلکہ اِس جگہ بخل سے مراد راہِ حق میں اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مال صَرف نہ کرنا ہے اور اِس لحاظ سے وہ شخص بھی بخیل ہے جو اپنی ذات پر، اپنے عیش و آرام پر، اپنی دلچسپیوں اور تفریحوں پر تو خوب دل کھول کر مال لٹاتا ہے، مگر کسی نیک کام کے لیے اُس کی جیب سے کچھ نہیں نکلتا، یا اگر نکلتا بھی ہے تو یہ دیکھ کر نکلتا ہے کہ اس کے بدلے میں اُسے شہرت، نام و نمود، حکاّم رَسی، یا کسی اور قسم کی منفعت حاصل ہوگی۔

بے نیازی برتنے سے مراد یہ ہے کہ آدمی دنیا کے مادّی فائدوں ہی کو اپنی ساری تگ و دو اور محنت اور کوشش کا مقصود بنالے اور خدا سے بالکل مستغنی ہوکر اس بات کی کچھ پروا نہ کرے کہ کس کام سے وہ خوش اور کس کام سے وہ ناراض ہوتا ہے۔

رہا بھلائی کو جُھٹلانا، تو وہ اپنی تمام تفصیلات میں بھلائی کو سچ ماننے کی ضد ہے۔‘‘ ﴿تفہیم القرآن، سورہ لیل، حاشیہ:۴﴾

استکبار

ہدایت سے محرومی کا ایک سبب استکبار اور غرورِ نفس ہے۔ قرآنِ مجید میں اس کا تذکرہ کیا گیا ہے:

یَا بَنِیْ اٰدَمَ اِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْْکُمْ اٰیَاتِیْ فَمَنِ اتَّقٰی وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَo وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰ یَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْہَا أُوْلٰ ئِٓکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَo﴿الاعراف: ۳۵،۳۶﴾

’’اے اولادِ آدم! اگر تمہارے پاس پیغمبر آئیں جو تم ہی میں سے ہوں گے، جو میرے احکام تم سے بیان کریں گے تو جو شخص پر ہیزگاری اختیار کرے اور اِصلاحِ احوال کرے تو ایسے لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وہ غم گین ہوں گے۔ اور جو لوگ ہمارے اِن احکام کو جھوٹا بتائیں گے اور اُن سے تکبّر کریں گے، وہ لوگ دوزخ والے ہوں گے۔ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِآیَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْہَا لاَ تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَآئِ وَلاَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ وَکَذٰلِکَ نَجْزِیْ الْمُجْرِمِیْنَo لَہُم مِّنْ جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَمِنْ فَوْقِہِمْ غَوَاشٍ وَکَذٰ لِکَ نَجْزِیْ الظَّالِمِیْنَo﴿الاعراف:۴۰،۴۱﴾

’’اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں اور اُن ﴿کے ماننے﴾ سے تکبّر کرتے ہیں، اُن کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیںگے اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے کے اندر سے نہ چلا جائے اور ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ اُن کے لیے ﴿آتشِ﴾ دوزخ کا بچھونا ہوگا اور اُن کے اوپر ﴿اُسی کا﴾ اوڑھنا ہوگا اور ہم ایسے ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔‘‘

وَلَقَدْ أَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُوْنَo فَاذَا جَائَٓ تْہُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ہٰذِہٰ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَطَّیَّرُوْا بِمُوْسیٰ وَمَن مَّعَہ’ أَلآ اَّمَا طَآئِرُہُمْ عِنْدَ اللّٰہُ وَلٰ کِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَo وَقَالُوْا مَہْمَا تَأْتِنَا بِہٰ مِنْ اٰیَۃٍ لِّتَسْحَرَنَا بِہَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَo فَأَرْسَلْنَا عَلَیْْہِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیَاتٍ مُّفَصَّلاَتٍ فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْا قَوْماً مُّجْرِمِیْنَo         ﴿الاعراف: ۱۳۰- ۱۳۳﴾

’’ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید اُن کو ہوش آئے۔ مگر اُن کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اِسی کے مستحق ہیں اور جب بُرا زمانہ آتا تو موسیٰ اور اُس کے ساتھیوں کو اپنے لیے فالِ بد ٹھہراتے، حالاںکہ درحقیقت اُن کی فالِ بد تو اللہ کے پاس تھی، مگر اُن میں سے اکثر بے علم تھے۔ انھوں نے موسیٰ سے کہا: تو ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں۔ آخر کار ہم نے اُن پر طوفان بھیجا، ٹڈی دل چھوڑے، سرسریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کرکے دکھائیں، مگر وہ تکبر کرتے رہے اور وہ لوگ تھے ہی جرائم پیشہ۔‘‘

وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لاَ یَخْلُقُوْنَ شَیْْئاً وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَo أَمْوَاتٌ غَیْْرُ أَحْیَآئٍ وَّمَا یَشْعُرُوْنَ أَیَّانَ یُبْعَثُوْنo اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَالَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِالاٰخِرَۃٌ  قُلُوْبُہُمْ مُّنکِرَۃٌ وَّہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَo لَا جَرَمَ أَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ َہ،اّلاَ یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَo ﴿النحل:۲۰ -۲۳﴾

’’اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں، وہ کسیی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں۔ مُردہ ہیں نہ کہ زندہ اور اُن کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب ﴿دوبارہ زندہ کرکے﴾ اٹھایا جائے گا۔ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے، اُن کے دلوں میں انکار بس کر رہ گیا ہے اور وہ گھمنڈ میں پڑگئے ہیں۔ اللہ یقینا ان کے سب کرتوت جانتا ہے۔ چھُپے ہوئے بھی اور کھلے ہوئے بھی۔ وہ ان لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا جو غرورِ نفس میں مبتلا ہوں۔‘‘

مستکبرین کی پیروی

یہ ایک مخصوص انسانی کردار ہے جس کا تذکرہ درجِ بالا آیات میں کیا گیا ہے۔ اس کردار کے حاملین تکبر اور غرورِ نفس کی بنا پرہدایت الٰہی کا انکار کرتے ہیں۔ اس کردار کے پہلو بہ پہلو ہدایت سے محروم رہ جانے والا ایک اور کردار بھی انسانی سماج میں پایا جاتا ہے۔ یہ کردار اُن لوگوں کا ہے جو دنیا میں دَبا کر رکھے گئے تھے ﴿ مستضعفین تھے﴾۔ اِن ‘دبا کر رکھے گئے لوگوں’ نے اپنی عقل سے کام نہیں لیا اور آنکھیں بند کرکے مستکبرین کی پیروی اختیار کرلی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح مستکبرین ہدایت سے محروم رہے تھے، اُسی طرح یہ مستضعفین بھی ہدایت سے محروم رہے۔ قرآن مجید میں اِن گھمنڈیوں اور اُن کے اندھے پیروؤں کا تذکرہ کیا گیا ہے:

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِہٰذَا الْقُرْاٰنَِ وَلَا بِالَّذِیْ بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَلَوْ تَرَیٰ اِذِ الظَّالِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ یَرْجِعُ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ الْقَوْلَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لَوْلَآ أَنْتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِیْنَo قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا أَنَحْنُ صَدَدْنَاکُمْ عَنِ الْہُدیٰ بَعْدَ اذْ جَآئَ کُمْ بَلْ کُنْتُمْ مُّجْرِمِیْنَo وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا بَلْ مَکْرُ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ اِذْ تَأْمُرُوْنَنَآ أَنْ نَّکْفُرَ بِاللّٰہِ وَنَجْعَلَ لَہ’ٓ أَندَاداً وَأَسَرُّوْا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِیْ أَعْنَاقِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo ﴿سبا: ۳۱ -۳۳﴾

’’یہ کافر کہتے ہیں کہ ‘‘ہم ہرگز اِس قرآن کو نہ مانیں گے اور نہ اِس سے پہلے آئی ہوئی کسی کتاب کو تسلیم کریں گے۔’’ کاش! تم دیکھو اِن کا حال اُس وقت جب یہ ظالم اپنے رَب کے حضور کھڑے ہوں گے۔ اُس وقت یہ ایک دوسرے پر الزام دھریں گے۔ جو لوگ دنیا میں دَبا کر رکھے گئے تھے، وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ‘‘اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔’’ وہ بڑے بننے والے اِن دبے ہوئے لوگوں کو جواب دیں گے: کیا ہم نے تمہیں اُس ہدایت سے روکا تھا، جو تمہارے پاس آئی تھی؟ نہیں بلکہ تم خود مجرم تھے۔ وہ دبے ہوئے لوگ اِن بڑے بننے والوں سے کہیں گے: نہیں، بلکہ شب و روز کی مکاری تھی جب تم ہم سے کہتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر کریں اور دوسروں کو اُس کا ہم سر ٹھیرائیں۔ آخر کار جب یہ لوگ عذاب دیکھیں گے تو اپنے دلوں میں پچھتائیں گے اور ہم ان منکرین کے گلوں میں طوق ڈال دیں گے۔ کیا لوگوں کے اِس کے سوا اور کوئی بدلہ دیا جاسکتا ہے کہ جیسے اُن کے اعمال تھے ویسی ہی جزا وہ پائیں۔‘‘

وَاِذْ یَتَحَآجُّوْنَ فِیْ النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفَآء لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا انَّا کُنَّا لَکُمْ تَبَعاً فَہَلْ أَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْباً مِّنَ النَّارِo قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا اِنَّا کُلٌّ فِیْہَا انَّ اللّٰہَ قَدْ حَکَمَ بَیْْنَ الْعِبَادِ o وَقَالَ الَّذِیْنَ فِیْ النَّارِ لِخَزَنَۃٰ جَہَنَّمَ ادْعُوْا رَبَّکُمْ یُخَفِّفْ عَنَّا یَوْماً مِّنَ الْعَذَابِo قَالُوْا أَوَلَمْ تَکُ تَأْتِیْکُمْ رُسُلُکُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا بَلیٰ قَالُوْا فَادْعُوْا وَمَا دُعَآئُ الْکَافِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلَالٍo ﴿المؤمن: ۴۷- ۵۰﴾

’’پھر ذرا خیال کرو اُس وقت کا جب یہ ﴿منکرینِ حق﴾ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہوں گے۔ دنیا میں جو لوگ کمزور تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے کہ ‘‘﴿دنیا میں﴾ ہم تمہارے تابع تھے۔اَب کیا یہاں تم نارِ جہنم کی تکلیف کے کچھ حصے سے ہم کو بچالوگے؟’’ وہ بڑے بننے والے جواب دیں گے: ‘‘ہم سب یہاں ایک حال میں ہیں اور اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کرچکا ہے۔’’ پھر یہ دوزخ میں پڑے ہوئے لوگ جہنم کے اہل کاروں سے کہیں گے: ‘‘اپنے رَب سے دعا کرو کہ ہمارے عذاب میں بَس ایک دِن کی تخفیف کردے۔’’ وہ پوچھیں گے: ‘‘کیا تمہارے پاس تمہارے رسول بیّنات لے کر نہیں آتے رہے تھے؟’’ وہ کہیں گے: ‘‘ہاں۔’’ جہنم کے اہل کار بولیں گے: ‘‘پھر تو تم ہی دعا کرو اور کافروں کی دعا اَکارَت ہی جانے والی ہے۔‘‘

مذکورہ بالا آیات کا قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کمزور لوگوں ﴿مستضعفین﴾ کو بَری الذمہ قرار نہیں دیا ہے۔ بلاشبہ جہاں تک مستکبرین کا تعلق ہے اُن کو اپنی گمراہی کی سزا بھی ملے گی اور دوسروں کو گمراہ کرنے کی بھی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کمزور لوگ ﴿جو دَبا کر رکھے گئے تھے﴾ گرفت سے بچ جائیں گے، بلکہ جو گمراہی انھوں نے اختیار کی تھی ﴿خواہ مستکبرین کی پیروی میں کی ہو﴾ اُس کے وہ خود ذِمہ دار ٹھیرائے جائیں گے اور اُس کا خمیازہ اُن کو بھگتنا ہوگا۔ اس طرح قرآن مجید نے انسان کی انفرادی مسئولیت کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ اس تنبیہ کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا میں ہر شخص آنکھ کھول کر زندگی گزارے اور یہ دیکھے کہ وہ کن لوگوں کی پیروی اختیار کررہا ہے اور کن کے طریقوں کا اتباع کررہا ہے۔ آخرت میں وہ اپنی گمراہی کا الزام اپنے رہنماؤں پر نہیں رکھ سکے گا اور نہ اُن رہنماؤں کی غلط روی کی دہائی دے کر اپنی سزا میں کچھ کمی کراسکے گا۔ قرآنِ مجید کی یہ وارننگ کسی بھی انسانی سماج کے ہر طبقے کے شعور کو بے دار کرنے کے لیے کافی ہے۔ بشرطیکہ اس پر دھیان دیا جائے۔

خواہشِ نفس کی پیروی

کسی انسان کی حق سے محرومی کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنا چاہتا ہے۔ وہ راہِ حق کو اختیار نہیں کرتا کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ راہِ حق پر چلنے میں اس کو اپنی خواہشات پر کنٹرول کرنا ہوگا اور اُن کو شریعتِ الٰہی کے تابع بنانا ہوگا۔ قرآن مجید میں ہے:

بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أَہْوَائَ ہُمْ بِغَیْْرِ عِلْمٍ فَمَنْ یَہْدِیْ مَنْ أَضَلَّ اللّٰہُ وَمَا لَہُمْ مِّنْ نَّاصِرِیْنَo فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰ کِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo    ﴿الروم: ۲۹،۳۰﴾

’’مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنی خواہشات کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ اَب کون اُس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو۔ ایسے لوگوں کا تو کوئی مددگار نہیں ہوسکتا۔ پس ﴿اے نبی اور نبی کے پیروؤ﴾ یکسو ہوکر اپنا رُخ اس دین کی سمت جمادو۔ قائم ہوجاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی۔ یہی بالکل راست اور درست دین ہے۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘

فَلَمَّا جَآئَ ہُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْلَآ أُوْتِیَ مِثْلَ مَآ أُوْتِیَ مُوسیٰٓ أَوَلَمْ یَکْفُرُوْا بِمَآ أُوْتِیَ مُوسیٰ مِنْ قَبْلُ قَالُوْا سِحْرَانِ تَظَاہَرَا وَقَالُوْاانَّا بِکُلٍّ کَافِرُوْنَo قُلْ فَأْتُوْا بِکِتَابٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ہُوَ أَہْدیٰ مِنْہُمَا أَتَّبِعْہ،اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَo فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ أَہْوَائَ ہُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَاہ، بِغَیْْرِ ہُدیً مِّنَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَo    ﴿القصص:۴۸-۵۰﴾

’’مگر جب ہمارے ہاں سے حق اُن کے پاس آگیا تو وہ کہنے لگے۔ ‘‘کیوں نہ دیا گیا اس کو وہی کچھ جو موسیٰ کو دیا گیا تھا؟’’ کیا یہ لوگ اُس کا انکار نہیں کرچکے ہیں جو اس سے پہلے موسیٰ کو دیا گیا تھا؟ انھوں نے کہا: ‘‘دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔’’ اور کہا ‘‘ہم کسی کو نہیں مانتے۔’’ ﴿اے نبی!﴾ ان سے کہو ‘‘اچھا تو لاؤ اللہ کی طرف سے کوئی کتاب جو اِن دونوں ﴿یعنی تورات اور قرآن﴾ سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو۔ اگر تم سچے ہو، میں اسی ﴿کتاب﴾ کی پیروی اختیار کروں گا۔’’ اب اگر وہ تمہارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیرو ہیں، اور اُس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا، جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہرگز ہدایت نہیں بخشا۔‘‘

لَقَدْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْاسْرَائِیْلَ وَأَرْسَلْنَاالَیْْہِمْ رُسُلاً کُلَّمَا جَائَ ہُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لاَ تَہْویٰ أَنْفُسُہُمْ فَرِیْقاً کَذَّبُوْا وَفَرِیْقاً یَقْتُلُوْنَo وَحَسِبُوْا أَلاَّ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ فَعَمُوْا وَصَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْْہِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا کَثِیْرٌ مِّنْہُمْ وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَo﴿المائدۃ :۷۰-۷۱﴾

’’ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور اُن کی طرف بہت سے رسول بھیجے، مگر جب کبھی اُن کے پاس کوئی رسول اُن کی خواہشاتِ نفس کے خلاف کچھ لے کر آیا تو کسی کو انھوں نے جُھٹلایا اور کسی کو قتل کردیا، اور اپنے نزدیک یہ سمجھے کوئی فتنہ رونما نہ ہوگا، اس لیے اندھے اور بہرے بن گئے۔ پھر اللہ نے انہیں معاف کیا تو اُن میں سے اکثر لوگ اور زیادہ اندھے بہرے بنتے چلے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ اُن کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘

تقلیدِ آباء

ہدایتِ الٰہی سے محرومی کا ایک سبب آبائ و اجداد کی بلا سوچے سمجھے تقلید ہے۔ آبائ و اجداد کی محبت فطری ہے، لیکن انسان کو چاہیے کہ اس محبت کو حق کی محبت پر غالب نہ آنے دے۔

قرآن مجید میں کھانے پینے کے متعلق جاہلی رسوم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے:

مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْ بَحِیْرَۃٍ وَلَا سَاٰ ئِبَۃٍ وَلَا وَصِیْلَۃٍ وَلَا حَامٍ وَلٰ کِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَأَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَo وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْاالٰی مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْْہِ آبَائَ نَا أَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْْئاً وَلَا یَہْتَدُوْنَo ﴿المائدۃ ۱۰۳،۱۰۴﴾

’’اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام، مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور اُن میں سے اکثر بے عقل ہیں ﴿کہ ایسے وہمیات کو مان رہے ہیں﴾ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس قانون کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آؤ پیغمبر کی طرف تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے، جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ باپ دادا ہی کی تقلید کیے جائیں گے خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستے کی انہیں خبر ہی نہ ہو۔‘‘

بعض مشرکین نے ملائکہ کو خدائی میں شریک ٹھیرا رکھا تھا اور اس فعل کے لیے آباء و اجداد کی سند پیش کرتے تھے۔ قرآن نے اِس طرز عمل کی نامعقولیت کی طرف توجہ دلائی ہے:

وَجَعَلُوْا الْمَلَائِٓکَۃَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمٰنِانَاثاً أَشَہِدُوْا خَلْقَہُمْ سَتُکْتَبُ شَہَادَتُہُمْ وَیُسْأَلُوْنo وَقَالُوْا لَوْ شَآئَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنَاہُمْ مَّا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍانْ ہُمْالَّا یَخْرُصُوْنَo أَمْ اٰتَیْْنَاہُمْ کِتَاباً مِّنْ قَبْلِہٰ فَہُمْ بِہٰ مُسْتَمْسِکُوْنo بَلْ قَالُوْاانَّا وَجَدْنَا اٰبَائَ نَا عَلٰی أُمَّۃٍ وَاِنَّا عَلٰیٓ اٰثَارِہِمْ مُّہْتَدُوْنَo وَکَذٰلِکَ مَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّذِیْرٍالَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَاانَّا وَجَدْنَآ اٰبَائَ نَا عَلٰیٓ أُمَّۃٍ وَاِنَّا عَلٰیاٰثَارِہِمْ مُّقْتَدُوْنَo قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُکُمْ بِأَہْدیٰ مِمَّا وَجَدتُّمْ عَلَیْْہِ اٰبَائَ کُمْ قَالُوْااِنَّا بِمَآ أُرْسِلْتُمْ بِہٰ کَافِرُوْنَo فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَانظُرْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَo ﴿الزخرف:۱۹-۲۵﴾

’’انھوں نے فرشتوں کو، جو خدائے رحمان کے خاص بندے ہیں، عورتیں قرار دے لیا۔ کیا اُن کے جسم کی ساخت انھوں نے دیکھی ہے۔ ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور انہیں اس کی جوابدہی کرنی ہوگی۔ یہ کہتے ہیں کہ ‘‘اگر خدائے رحمن چاہتا ﴿کہ ہم اُن کی عبادت نہ کریں﴾ تو ہم کبھی اُن کو نہ پوجتے۔’’ یہ اس معاملے کی حقیقت کو قطعی نہیں جانتے، محض تیر تکّے لڑاتے ہیں۔ کیا ہم نے اس سے پہلے کوئی کتاب ان کو دی تھی جس کی سند ﴿اپنی اس ملائکہ پرستی کے لیے﴾ یہ اپنے پاس رکھتے ہوں۔ نہیں، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا، کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ اسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی نذیر بھیجا، اُس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقشِ قدم کی پیروی کررہے ہیں۔ ہر نبی نے اُن سے پوچھا: ‘‘کیا تم اسی ڈگر پر چلے جاؤگے خواہ میں تمہیں اُس راستے سے زیادہ صحیح راستہ بتاؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے؟’’ انھوں نے سارے رسولوں کو یہی جواب دیا کہ ‘‘جس دین کی طرف بلانے کے لیے تم بھیجے گئے ہو ہم اس کے کافر ہیں۔’’ آخر کار ہم نے اُن کی خبر لے ڈالی اور دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔‘‘

داعیِ حق کی ذمہ داری

سطورِ بالا میں ہدایت سے محرومی کے چند اسباب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ اسباب ہیں بخل، حق سے بے نیازی، سچائی کی تکذیب، استکبار اور غرورِ نفس، مستکبرین کی اتباع، خواہشِ نفس کی پیروی اور تقلید آبائ۔ بہرحال سبب کوئی بھی ہو داعی حق کے لیے مالکِ کائنات کی مستقل ہدایت یہ ہے کہ وہ مایوس ہوئے بغیر اپنا کام جاری رکھے اور منکرین کی روش سے غمزدہ نہ ہو۔

وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلاَّ بِاللّٰہِ وَلاَ تَحْزَنْ عَلَیْْہِمْ وَلاَ تَکُ فِیْ ضَیْْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَo اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَo                       ﴿النحل: ۱۲۷،۱۲۸﴾

’’اے نبی! صبر کے ساتھ اپنا کام کیے جاؤ —اور تمہارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے— اِن لوگوں کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔ اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان کی روش اختیار کرتے ہیں۔‘‘

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223