کیا آرٹ کی تعریف ممکن ہے
آرٹ کی کوئی ایک متفق علیہ تعریف ممکن نہیں۔ کسی کے نزدیک آرٹ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اشیاء و نوادرات، کرتب و کارکردگی اور اداکاری جس میں فن کار اور ادا کار اپنے جمالیاتی ذوق کا شعوری اظہار کرتے ہوں۔ یہ وہ اشیاء اور اعمال ہوتے ہیں جو روز مرہ کی زندگی میں کام آنے والی اور روبعمل ہونے والی اشیاء اور عمل سے نمایاں طور پر مختلف ہوتے ہیں۔ فلسفے کی تاریخ کے ماہرین کے نزدیک آرٹ میں کچھ رسمی خصوصیات، اظہار کی خصوصیات اور نمائندگی کی خصوصیات کا ہونا لازم ہے۔ افلاطون کے نزدیک آرٹ ہمیشہ کے لیے بدیہی طور پر فطرت اور کائنات کی نقالی پر منحصر ہے اس لیے وہ عام موجود اشیاء سے پست تر ہوگا۔ اور یہ بھی اس کا خیال ہے کہ ہر آنکھ میں خوب صورتی کا ہونا لازم نہیں ہے۔ جب کہ ہیگل کے نزدیک مطلق سچائی خوب صورت ہونی چاہیے۔ اور سب سے خوب صورت ترین آرٹ وہ ہے جس میں گہری ما بعد الطبیعاتی سچائی کی عکاسی ہو۔۔ تشکیک پسندی مارکسزم اور نسائیت کے علم برداروں کے نزدیک آرٹ کی تعریف اتنی متنوع ہے کہ ایک قابل اطمینان سب کو متحد کرنے والی تعریف ممکن نہیں بلکہ ایسی تمام تعریفوں سے تخلیقیت متاثر ہو جائے گی۔ اور ان کے نزدیک آرٹ کی تعریف میں مابعد الطبیعات، خدا اور مذہب کے لاحقے آرٹ کی ہیئت کو محدود کر دیتے ہیں۔ روایت پسندوں کے نزدیک آرٹ میں روایات کا اظہار لازم ہے جس کے بغیر آرٹ بے سمت ہے۔ مورخین کے نزدیک آرٹ ورک کا ایک تاریخی پس منظر ہوتا ہے اور ایک بیانیہ کا اظہار ہوتا ہے اور اس بیانیہ کو اس وقت کے اور بعد کے ماہرین تسلیم کرتے ہوں کہ فلاں تہذیب کے آرٹ کے مشمولات یہ ضرور ہونے چاہیے۔ جب کہ آرٹ کی روایتی تعریف میں فن کاری اور جمالیاتی پہلو کا نمایاں طور پر نظر آنا اصل آرٹ ورک ہے۔ ان متنوع تعریفوں کی جھرمٹ میں بعض لوگ آرٹ کی کسی تعریف کے ہونے ہی کا انکار کر دیتے ہیں۔[1]
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت میں اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا کا تصور پاتا ہے جو ہر مذہب اور آرٹ کی حقیقی بنیاد ہے۔ اگر صرف اسی ایک دنیا کا وجود ہوتا تو آرٹ کا وجود ناممکن ہوتا۔ اصل میں آرٹ کا ہر کام ایک ایسی دنیا کا تاثر دیتا ہے جس سے ہمارا تعلق نہیں ہے، جس کی خاک سے ہم نہیں بنے ہیں مگر ہم اسی کے لیے ڈھالے گئے ہیں۔ حقیقت میں آرٹ یاد ایام یا پرانی یادداشت ہے۔[2]
آرٹ آفاق میں گم ہونے اور تفکر اور تذکر کی منزلوں سے گزرنے کا نام ہے۔ آرٹ روح کی آواز اور حقیقی انسانی زندگی کا اظہار ہے۔آرٹ اور مذہب کی بنیاد میں ایک وحدت ہے۔ آرٹ،مذہب، عبادت گاہیں، ڈرامے، اداکاری(performance)، مذہبی تہوار، اور تہذیب ایک ہی خوب صورت لڑی کے ہیرے اور موتی ہیں۔
کیا اسلامی آرٹ نام کی کوئی چیز ہے
کچھ مستشرقین کا الزام یہ ہے کہ اسلامی آرٹ نام کی کوئی چیز اپنا وجود نہیں رکھتی۔ جس چیز کو دنیا اسلامی آرٹ کہتی ہے وہ دراصل یونان اور رومی تہذیب کے جو مظاہر، نوادرات اور آرٹ کے بقایاجات ان ممالک میں پائے جاتے تھے جو بعد میں مسلم ممالک قرار پائے، ان سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے جو کچھ تخلیق کی اس میں سابقہ تہذیبوں کا عکس پایا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسلامی مملکت کے اثرات افریقہ سے لے کر ایشیا کے مشرق بعید علاقے تک پھیلے ہوئے تھے، ان میں مقامی آرٹ کو مسلمانوں نے کچھ اپنے انداز سے جس طرح سے پیش کیا ہے ان تمام میں کوئی یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ پروفیسر میڈن کا الزام یہ ہے کہ اسلامی آرٹ کا نہ کوئی رخ ہے اور نہ اس کی کوئی تحریک ہے۔[3]
بعض مستشرقین کا خیال یہ ہے کہ ’’وژوئل آرٹ اور آرکیٹیکچر کا جو ارتقا فارس کے علاقے میں ہوا وہ دراصل بازنطینی تعاون سے ہوا۔ مجسمہ سازی اور پینٹنگ تو اسلامی تہذیب میں بالکل مفقود تھے، اس حد تک کے قرآن نے جس چیز کو منع نہیں کیا اسے بھی انھوں نے اپنے آپ پر پابندی لگا دی۔ اس کے نتیجے میں فطری طور پر انسانی ذہانت کو جو نقصان ہوا ہوگا اس کا تصور ناممکن نہیں ہے۔‘‘[4]
جب ہم اسلامی آرٹ کی تعریف جاننے کے لیے وکیپیڈیا کا رخ کرتے ہیں تو وہ ہمیں مندرجہ ذیل تعریف دیتا ہے:
’’اسلامی آرٹ اسلامی تہذیب کا حصہ ہے اور اس میں وہ بصری فنون شامل ہیں جو ساتویں صدی عیسوی کے بعد ان لوگوں نے تیار کیا جو ان علاقوں میں آباد تھے جو مسلمانوں کے زیر حکم رانی تھے… اسلامی فنون کی ابتدائی ترقی رومن آرٹ، عیسائی آرٹ خاص طور پر بازنطین آرٹ اور ساسانی فنون کی مدد سے ہوئی۔ لہذا وہ ایک مشکل آرٹ ہے کہ جس کی تعریف متعین کی جا سکے۔‘‘[5]
اس طرح کی تحریروں سے یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ اسلام کا آرٹ سے متعلق اپنا کوئی آئیڈیا نہیں ہے اور جو کچھ بھی اسلامی آرٹ کے نام سے پیش کیا جارہا ہے وہ یا تو دیگر اقوام سے مستعار ہے، یا مسلم فن کاروں کی اپنی اختراع ہے۔ اس میں کس قدر علمی دیانت کا لحاظ رکھا گیا ہے، اسے خود بعض مغربی مصنفین نے چیلنج کیا۔ ان میں سے بعض ماہرین اسلامی آرٹ نے اسلامی آرٹ کی بڑی خوب صورت تعریفیں پیش کی ہیں۔ مثلاً:
’’اسلامی آرٹ کو عام طور پر وہ آرٹ مانا جاتا ہے جسے ان فن کاروں یا کاریگروں نے بنایا جن کا مذہب اسلام تھا، ان سرپرستوں کے لیے بنایا جو بنیادی طور پر مسلم ممالک میں رہتے تھے، اور ان مقاصد کے لیے بنایا جو محدود ہیں یا مخصوص ہیں مسلم آبادی کے لیے یا مسلم ماحول میں انھیں ترویچ دی گئی۔ اس لیے اسلامی آرٹ اگر کل نہیں تو زیادہ تر ان چیزوں پر مشتمل ہیں جن کی تخلیق گذشتہ چودہ سو برسوں میں اسلامی سرزمین میں ہوئیں۔ ‘‘[6]
ایک اور خوب صورت تعریف ملاحظہ ہو:
’’اسلامی آرٹ سے مراد وہ تہذیب اور ثقافت ہے جس میں آبادی کی اکثریت یا کم ازکم حکم راں عنصر اسلامی عقیدے کا ماننے والا تھا۔ اس فیشن میں اسلامی آرٹ چینی آرٹ، ہسپانوی آرٹ یا اسٹیپس آرٹ ( یعنی روس اور سائبیریا کے جنوبی علاقے ) سے بالکل مختلف ہے کیوں کہ وہ نہ اسلامی سر زمین ہیں اور نہ ہی وہاں اسلامی لوگ آباد ہیں۔‘‘[7]
اسلامی آرٹ اور تہذیب کے سلسلے میں جن مستشرقین کا مطالعہ معروضی ہے انھوں نے اس کی انفرادیت کو پہچانا۔ اور جہاں ذہنوں میں ’مذہب دیگر‘ اور ’تہذیب دیگر‘کا تصور سما جائے وہاں ’تہذیب برتر‘ اور ’تہذیب فروتر‘ ثابت کرنے میں علمی مہارتیں خرچ کی جاتی ہیں۔ اسی لیے ایڈورڈ سعید نے ’استشراق‘کی اصطلاح وضع کی۔ یہ اس رویہ کے اظہار کے لیے ہے کہ جب مغرب دیگر تہذیبوں کے سلسلے میں تعصب سے کام لیتا ہے اور ان کی تہذیب و سماج اور مذہب و زبان کو فروتر دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔[8]
گو کہ اسلامی آرٹ میں ایسی نمایاں علامات نہیں پائی جاتیں جیسے عیسائی آرٹ میں صلیب یا ایک باریش خوب رو ادھیڑ عمر کا مرد نوجوان۔ اسی طرح دیگر مذاہب کے آرٹ میں اوثان اور اصنام پائے جاتے ہیں۔ مگر اسلامی آرٹ اپنے آپ میں ممتاز ہے۔ اسلامی آرٹ کے ایک ہزار سالہ تخلیقات میں مراکش سے لے کر ہندوستان تک اسلامی روح نمایاں طور پر پائی جاتی ہے۔ ان میں بالخصوص تین عظیم سلطنتیں یعنی خلافت عثمانیہ، صفوی سلطنت اور مغلیہ سلطنت کے دور عروج میں آرٹ کے میدان میں جو فن کاریاں رونما ہوئی ہیں، ان میں حالات وقت اور زمانے کے تغیرات کے باوجود قابل شناخت سوچ کا ایک دھارا واضح طور پر پایا جاتا ہے۔[9]
اسلامی آرٹ کیا ہے
بعض ماہرین نے اپنی محنت اس پر صرف کی ہے کہ اسلامی آرٹ کے نام سے جو چیز بھی دنیا میں پائی جاتی ہے ان میں سے کس کس اقوام کے کتنے کتنے اثرات پائے جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے آپ کو جس چیز میں مصروف رکھا ہے وہ مسلم دنیا پر کام کرتے ہوے جغرافیائی یا قومی اثرات ہیں، یا فارس یا وسطی ایشیا، یا ترک آبادیوں کے اثرات، یا سلجوق، مملوک، عثمانی، ترکمان، ازبک اور دیگر اقوام کے اثرات کی تلاش کی۔ مشرق وسطیٰ میں اور اس کے قریبی علاقوں میں یقینی طور پر وہ تمام اثرات موجود تھے۔ اسی طرح سے شروع ہی سے کچھ اور تہذیبوں کے اثرات بھی پائے جاتے تھے جیسے سمیریا، آشوریا وغیرہ۔ بابل کے فنون، یونانی زبان تہذیب اور تاریخی اثرات، اور رومن یادگاریں بھی کثرت سے مشرق وسطی میں بکھری ہوئی تھیں۔ اسی طرح مشرقی وسطیٰ کی سرزمین میں عیسائی فنون خواہ وہ بازنطینی ہوں، یا شامی، نیسٹوئیرین ہوں یا قبطی ہوں، ان کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ اسلامی آرٹ میں ان کے تانے بانے تلاش کرنا اور فنی اثرات کے لطیف رازوں کو کھولنے کی کوشش کرنا ضرور ایک دل چسپ کام ہے۔ مگر ان سب امور کے بیچ سب سے بڑھ کر ایک چیز کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے: فنی محاسن ایک الگ چیز ہے اور اسلامی آرٹ کے پیچھے اصل روح جو کارفرما ہے اس کی دریافت ایک بالکل دوسری چیز ہے۔ اسلام کے فنون اور فن کاروں کے کام، نظریات مذہب سے جڑے ہوئے تھے۔ خاص طور پر جانداروں کی نمائندگی کے لیے اسلام کا خصوصی نقطہ نظر ہے۔ اسلام اس کی بالکلیہ ممانعت نہیں کرتا مگر روز اول سے تعبدی امور میں تصویریں ممنوع قرار پائیں۔ اس لیے دنیا کی کسی مسجد میں علامتی فن (figurative art) کا کبھی استعمال نہیں ہوا۔ اسی طرح سے خدا کو علامتی آرٹ کی شکل میں ڈھالنے کی کبھی کسی نے جسارت نہیں کی۔ اسلام کے قرن اول میں تصویروں کا اور مجسمہ سازی کا سختی سے منع کرنا اس لے بھی ضروری تھا کہ عوام میں بت پرستی کی شروعات تصویروں اور مجسموں ہی سے ہوئی تھی۔ شروع سے ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ مذہب اسلام میں آرٹ سے متعلق کون سے حدود ہیں اور کون سی پابندیاں عائد کی گئ ہیں اور انھیں مسلم آرٹ کے ابتدائی برسوں میں کیسے سمجھا اور محسوس کیا گیا تھا۔ اسی طرح فن کاروں کی نفسیات کے بارے میں بھی کچھ تصور کیا جا سکتا ہے، خواہ وہ خود مسلم عقیدے کے رہے ہوں یا نہ ہوں (اور بہت سے نہیں تھے) اور یہ کہ وہ کس طرح اپنے آپ کو مذہبی اصولوں کے مطابق ڈھالنے میں کام یاب ہوئے اور ایسا کرتے ہوئے ایک بنیادی جمالیاتی انقلاب برپا کیا ہے جس کے نتیجے میں ایک مستند مسلم آرٹ وجود میں آیا۔
اگر ہم اسے پیشگی شرط کو مانتے ہیں کہ آرٹ کے سلسلے میں اسلام کا اپنا ایک آئیڈیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فن کے جو غیر ماہرین بادی النظر میں اسلام کی سرزمین کے کاموں کو دیکھتے ہیں تو ان کا بھی وجدان کہتا ہے کہ اسلامی آرٹ یہ ہے–یادگاریں، چھوٹے نمونے، بڑی اور چھوٹی چیزوں پر تجریدی سجاوٹ، مخطوطات کی روشنیاں ( illuminations of calligraphy)، سٹوکو (stucco)یا پتھر کا کام، لکڑی یا دھات۔ پر کام، سیرامکس اور قالین پر کام، ان سب کے شاندار نمونے آج بھی عرب ممالک کے میوزیم میں بالخصوص قطر کے آرٹ میوزیم دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں کبھی کوئی شک نہیں ہے کہ وہ تمام فن پارے ایک ہی جمالیات سے تعلق رکھتے ہیں، جو قرطبہ سے سمرقند تک پھیلے ہوئے ہیں اور یہ کہ جس لمحے دنیا اسلامی آرٹ کے ان اصولوں سے آشنا ہوئی وہاں سے لے کر مسلم فن کے اختتام تک کبھی اس میں فرق واقع نہیں ہوا۔ البتہ گذشتہ دو برسوں سے اس میدان میں کوئی خاطر خواہ نیا کام نہیں ہوا۔
اس پوری بحث میں جب ہم اسلامی آرٹ کہیں گے تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ تمام آرٹ کے مظاہرے جو ان ممالک میں ہوئے جہاں اسلام کس زمانے میں غالب آگیا تھا، اسلامی کہلائے جائیں گے۔ بلکہ اسلامی آرٹ جب کہیں گے تو خالصتاً وہ آرٹ مراد ہے جس نے اسلامی تہذیب کی گود سے جنم لیا اور اسلامی عقائد و تصورات نے اس کی پرورش کی اور اسلام کے تصور کائنات و حیات نے اسے شکل دی۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ جن عربوں کے ہاتھ سے دنیا میں یا تو اسلام پھیلا یا اسلامی سلطنت قائم ہوئی انھوں نے اپنی قوتیں تبلیغ میں لگائیں یا حکومت کرنے میں۔ آرٹ کے سلسلے میں نہ انھوں نے قسمت آزمائی پہلے کی اور نہ آج اس میدان میں ان کا کوئی حصہ (contribution) ہے۔ اسلامی آرٹ کو انھوں نے فروغ دیا جن کی فطرت میں آرٹ موجود تھا اور انھوں نے اپنے پرانے فن کو ترک کرکے اسلامی تصورات اور حدود سے آشنائی کے بعد ایک نئے آرٹ کو جنم دیا۔
یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ مسلمانوں کا ہر آرٹ اسلامی نہیں ہے بلکہ بعض مرتبہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ یا اولیائےکرام کی تصویریں بھی بنائی ہیں، وہ اسلام کی عین ضد ہیں۔ اس کے برعکس وہ آرٹ جو بعض مرتبہ عیسائیوں یا وہ عیسائی جو قریب ہی میں مسلمان ہوئے تھے اور اس وقت کے سیاسی کشمکش سے انھیں دور کا بھی واسطہ نہیں تھا انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو اس فن میں لگایا۔ اس کی شاندار مثال معار سینان ہے۔ سعودی تعمیر سے پہلے تقریباً ساڑھے چار سو سال قبل ترکوں نے کعبة اللہ، مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی تعمیر کی۔ اس کا فن کار شہرۂ آفاق معمار سنان تھا۔ وہ پیدائشی عیسائی تھا۔ اس نے بعد میں اسلام قبول کیا۔ تقریباً 300 شان دار عمارتوں کی ڈیزائننگ اس نے کی ہے۔ یا دیگر مذہب کے ماننے والوں نے اسلامی تہذیب کے عروج کے دور میں جو چیزیں بنائیں جس میں انھوں نے اسلامی اصولوں کا لحاظ رکھا ہو تو وہ اسلامی آرٹ کہلائے گا۔
روح کے تقاضے اور آرٹ کی مختلف شکلیں
انسان دو متضاد عناصر کا مرکب ہے۔ ایک روح دوسرا جسم۔ اس لیے انسان بیک وقت دو وجود رکھتا ہے۔ اس کی ایک عارضی زندگی اس روئے زمین پر ہے۔ اور ایک دائمی زندگی وہاں ہو گی جہاں سے اس کی روح آئی تھی۔ پہلے زندگی کو بہتر بنانا سائنس کا موضوع ہے اور دوسری زندگی کو کام یاب بنانا مذہب کا موضوع ہے۔ انسانی شخصیت کا حقیقی ارتقا مذہب کے بغیر ممکن نہیں۔ شخصیت کا ارتقا کیا ہے ؟ در حقیقت ذات کا تزکیہ اور روحانی قوتوں کی نشوونما۔ سائنس کے نزدیک انسانی جسم کے تقاضے اہم ہیں جب کہ مذہب کے نزدیک انسانی روح کے تقاضے اہم ہیں۔ انسان اپنے سائنسی کمالات کے ذریعے دنیاوی زندگی کو سہولت بخش بناتا ہے۔ جب کہ انسان آرٹ کے ذریعے اپنی روح کو جلا بخشتا ہے اور روح کے کمالات منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔
انسانی روح کا تقاضا ہے کہ خدا کی تعریف کے گیت گائے۔ اس کے بغیر اسے قرار نہیں آتا۔ انسانی ذہن کی وسعت کی نہ کوئی حد ہے اور نہ ہی الفاظ کے ذخائر کی کوئی کمی ہے اس لیے وہ اپنے مالک و پروردگار کے گن گانے کے متنوع طریقہ اپناتا ہے۔ تعریفی کلمات کو جب وہ مسجع و مقفی کرتا ہے تو اشعار ڈھلتے ہیں۔ ان حمدیہ کلمات کو حسن صوت کا لبادہ بہنا کر روح میں ابھرنے والے تلاطم کو ساحل آشنا کرتا ہے۔ اس لیے ترنم اور نغمہ گوئی بھی روح کے تقاضے ہیں۔
انسانی روح کا ایک تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ خدا کے آگے سر بسجود ہو جائے۔ روئے زمین پر پہلا گھر خدا نے اپنے لیے بنوا کر تعلیم دی کہ اگر آج انسانوں کے درمیان کسی وجہ سے اونچ نیچ قائم بھی ہو جائے تو اس گھر میں آ کر سب برابر ہو جائیں۔ خدا کے گھر کو انسانی تاریخ کے ہر زمانے میں بڑی اہمیت حاصل رہی اور طرح طرح سے مذہب کے ماننے والوں نے وہاں اپنے جوہر دکھائے۔ مگر اسلام ان سب میں سب سے منفرد ہے۔ اسلامی آرٹ میں اسلامی عبادت خانے اسلام کے تصور جمالیات کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔ مسجدوں کا ایک ایک جز، ایک ایک کونا، اس کے منبر و محراب، اس کی کمانیں اور دیواریں، اس کے فرش اور اس کی چھتیں، اس کے صحن اور برآمدے، اس کے حوض اور پانی کے فوارے، اس کے دروازے اور اس کے مینار، اس کے کلس اور اس کے روشن دان، اس کی دیواروں پر کندہ آیتیں اور پھول پتوں کی نقش و نگاری اسلامی آرٹ کے وہ صاف و شفاف آئینے ہیں جن میں اسلام کے تصور جمالیات کی مختلف جہات کو دیکھا جا سکتا ہے۔
ہر وہ انسان جسے اپنی روحانی وجود کا ادراک ہو وہ محیرالعقول کائنات پر جب نگاہ ڈالتا ہے تو حیران اور ششدر رہ جاتا ہے۔ کائنات کے اجزا کی توصیف کے جذبے سے جب وہ رنگوں اور ڈیزائنوں کے توسط سے تعریف کرتا ہے تو وہ پینٹنگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اکثر و بیشتر ایسا ہوا کہ انسان نے جب خدا کا تصور کیا تو اسے کسی انسان یا جانداروں کی شکل میں مقید کر دیا جو اس کی عظمت کے منافی ہے۔ اسلام نے جب شکل گری پر پابندی لگائی تو مسلمانوں نے میٹرک پیٹرن کے حیرت انگیز نمونے ایجاد کیے جو خدا کی لامحدودیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
خدا نے کائنات میں بے شمار اجسام پیدا کیے۔ انسان کے نقطہ نظر کی محدودیت ہے کہ وہ انسانوں اور جانوروں کی تجسیم کاری کرتا ہے اور جانداروں کی بے جان شکل کاری کرتا ہے۔ اس لیے عیسائیوں کے گرجوں اور دیگر مذاہب کے عبادت خانوں میں خدا کو انسانی شکلوں میں تصور کیا گیا یا جانوروں یا جانداروں کے روپ میں اس کا ادراک کیا گیا یا اس کی بے بنیاد توجیہ کی گئی۔ اسلام نے انسانی ذہن میں ابھرنے والے تخیلات کو لامحدود شکل دی جس کے نتیجے میں میں اسلامی آرٹ کی ایک پوری دنیا وجود میں آئی۔ شیشوں، برتنوں، کپڑوں، لکڑیوں پتھروں، کاغذوں، لباسوں، گلدانوں، فانوسوں، تلواروں، اوزاروں اور زرہوں میں فن کاری کی لازوال قسمیں اسلامی آرٹ کے وہ حسین ترین نمونے ہیں جو مراکش سے لے کر ہندوستان اور چین تک کی تہذیبوں میں پیوست اور ان کے حیران کن نمونے مختلف شکلوں میں آج بھی محفوظ ہیں۔
انسانی روح میں بے شمار سوالات ابھرتے ہیں۔ اس دنیا میں ہر چہار طرف جب ظلم اور بربریت کا راج ہوتا ہے، ظالم نوازے جاتے ہوں، مظلوم کی داد رسی نہ ہوتی ہو، بہت سے لوگ اپنے ناکردہ جرم کی پاداش میں پھانسی کے تختے پرلٹکا دیے جاتے ہوں، مجرم دندناتے پھرتے ہوں، تو ضمیر چیخ اٹھتا ہے کہ ہائے یہ کیسی دنیا ہے اور انصاف کب اور کہاں ملے گا ؟ سماج میں بعض مرتبہ قدروں کے پیمانے بدل دیے جاتے ہیں، نفرت عدوان اور تعصب وقت کے قیمتی سکے بن جاتے ہیں جب کہ محبت عدل اور انسانیت کھوٹے سکےثابت کر دیے جاتے ہیں۔ ڈرامہ اور ناول آرٹ کی وہ زبان ہیں جس سے درد دل سنایا جاتا ہے اور ان کے ذریعے سماج میں ان قدروں کی بحالی ہوتی ہے جسے ناعاقبت اندیشوں نے الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا ہو۔
اسلام میں آرٹ کا ماخذ
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ. خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ. الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یعْلَمْ
’’پڑھو (اے نبی) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمھارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔ ‘‘[العلق: 1 – 5]
محولہ بالا آیتوں کے بارے میں عام طور پر مفسرین کا خیال یہی ہے کہ یہ وحی کی پہلی آیتیں ہیں جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اعلان ہوا اور آپ جس مشن پر مامور ہوئے اس کی منزل تک پہنچنا اس کے بغیر ممکن نہیں تھا کہ انسانی قافلوں کو اندھیروں سے نکال کر علم کے اجالوں کا مسافر بنایا جائے۔ اور اقرأ والی آیتوں نے جس تہذیب و تمدن کو وجود بخشا ان کی بنیادیں، خوش الحان قرات، تعلیم و تعلم اور کتاب اور کتابت تھیں۔ اور یہ بنیادیں ظن و تخمین کے دلدل پر ٹکی ہوئی نہیں تھیں بلکہ روحانیت کی ٹھوس چٹانوں پر استوار تھیں۔ روحانیت یہی ہے کہ انسان اپنے خالق سے حصول علم کے توسط سے فراموش کردہ رشتہ استوار کر لے جس نے اسے ایک لوتھڑے سے پیدا کیا، مضغہ بے زبان کو علم سے سرفراز کیا اور کرم فرمائی کی کہ علم کو محفوظ کرنے کے لیے کتاب اور کتابت کا علم سکھایا۔
اس آیت میں سہ حرفی مادوں کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی آرٹ کی بنیادیں یہاں موجود ہیں۔ ق-ر-ء(پڑھنا پڑھ کر سنانا)، خ-ل-ق ( پیدا کرنا)، ع-ل-ق ( لوتھڑا)، ع-ل-م (جاننا ، واقف ہونا) ق-ل-م ( پین، لکھنے کے اوزار) ع-لّ-م ( انسان کو نا واقفیت سے واقفیت کی طرف لایا )۔[10]
ہمیں معلوم ہے کہ لفظ قرآن کا مطلب بار بار پڑھی جانے والی اور کثرت سے تلاوت کی جانے والی کتاب ہے۔ اس کا سننا،اس کا پڑھنا،اسے اپنے حفظ میں محفوظ رکھنا، اس کا دورہ اور اعادہ کرنا انتہائی فضیلت والے اعمال ہیں اور خود انھیں اعمال کے اندر اسلامی آرٹ کی پہلی بنیاد موجود ہے، یعنی خوش الحان تلاوت، ان حروف اور الفاظ کی تلاوت جو وحی کے ذریعے بھیجے گئے ہیں، جو بعد میں کتاب کی شکل میں مدون ہوئے ہیں اور جن کا ادراک ہر انسان کو اس وقت سے ہے جب وہ جنین کی شکل میں موجود تھا۔ اسی طرح ان آیتوں میں قرآن کو لکھنے کے آرٹ کی بنیاد بھی ملتی ہے۔ دیگر مذہبی کتابوں کی طرح قرآن بعد میں لکھی جانے والی کتاب نہیں ہے بلکہ قرآن جیسے جیسے نازل ہو رہا تھا ویسے ویسے مختلف مٹیریل پر اس کی کتابت جاری رہی۔ قرآن کی خطاطی اور کتابت وہ فن ہے جو قرآن کے نزول کے ساتھ پیدا ہوا۔ اللہ تبارک و تعالی نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ انسان جو کچھ نہیں جانتا تھا اب وحی کے ذریعے سے اس کے دائرے علم میں اضافہ کرایا جا رہا ہے اور وہی خدا اسے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری بھی لیتا ہے۔ قلم اس کا وسیلہ ہے۔ قلم کے ذریعے سے علوم کو محفوظ کیا جاتا ہے اور یہ انسانی ذہانت کی علامت ہے۔ اس پہلو سے اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ قلم کا کام ایک مقدس کام ہے اور اسلامی آرٹ بھی اپنے آپ میں ایک دینی اور روحانی عمل ہے۔ قرآن کی تلاوت صوتی حسن کا آرٹ ہے اور قرآن کی کتابت زبان سے نکلنے والی آوازوں،حروف اور الفاظ کو مشکل کرنے کا آرٹ ہے۔ نزول قرآن کی شروعات میں ان دونوں مظاہر آرٹ کا تذکرہ صاف واضح کرتا ہے اسلام میں آرٹ کی بنیادیں کہاں ہیں۔
اسلامی آرٹ کی خصوصیات
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ وہ انسانی زندگی کے تمام تقاضوں کا لحاظ کرتا ہے اور ہر پہلو سے انسان کی رہ نمائی کرتا ہے۔ انسان کی ایک جمالیاتی حس بھی ہے۔ اس حس کی تسکین کا سامان بیرون کی دنیا میں بھی موجود ہے اور خود انسان کی فطرت کے اندر بھی اس کی طلب رکھ دی گئی ہے۔ آرٹ اسی فطرت کا اظہار ہے۔ آرٹ انسان کو تحریک دیتا ہے اور اس کے جذبات کو تسکین عطا کرتا ہے۔ ہر قسم کے آرٹ کا خواہ وہ بہترین قرآت ہو، نغمہ ہو، شاعری ہو، پینٹنگ ہو یا فن تعمیر، اس کا ایک جذباتی رسپانس ہوتا ہے کیوں کہ آرٹ انسانی وجود کی عظمت اور اس کی حیثیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ آرٹ کے سلسلے میں تمام ماہرین آرٹ، مفکرین اور ماہرین جمالیات اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آرٹ دراصل انسانی ذہن کی خلاقیت کا اظہار ہے اور انسانی روح کے تقاضوں اور جذبات کی عکاسی ہے۔ اسلام میں آرٹ کی خوبی یہ بھی ہے کہ انسانی فطرت کی استعداد کی آخری حدوں تک انسان تخیل میں پرواز کر سکتا ہے۔ اسلام چوں کہ خشک مذہب نہیں ہے بلکہ انسانی تفنن طبع اور اس کے مزاج میں تفریح کی طلب کو تسلیم کرتا ہے اس لیے جمالیاتی حس کی تسکین کا سامان بھی کرتا ہے۔
اسلامی آرٹ کی سب سے پہلی خصوصیت توحید ہے۔ دنیا کے دیگر تمام مذاہب خواہ وہ عیسائیت ہو ہندو ازم ہو یا بدھ مت کے آرٹ کا پہلا اظہار ذات باری تعالیٰ کا مشرکانہ اظہار ہوتا ہے۔ اسلام کے تصور توحید کی پہلی اینٹ خدا کو ان تمام مشرکانہ صفات سے منزہ تسلیم کرنا ہے جسے ہر زمانے کے مشرکین خدا کی طرف منسوب کرتے رہے ہیں۔ خدا کی ہستی کا ادراک انسان فہم سے ماورا ہے۔ قرآن میں خدا کی اپنی ایک شخصیت کا تصور دیا گیا ہے۔ اس کے ہاتھ اور چہرے کا ذکر ہے۔ اس کا ایک عرش اور کرسی بھی ہے مگر یہ سب استعارے ہیں کیوں کہ وہ لیس كمثله شیء ہے۔ اسلام کے تصور توحید میں خدا کی جسمانی ذات اور مادی وجود کی نفی لازم ہے۔ اس لیے اسلام کے تصور آرٹ میں خدا کی تجسیم نہیں ہے۔ اس کا ادنیٰ سا شائبہ بھی اسلام میں حرام ہے۔ مسجدیں خدا کا گھر ہیں اس لیے وہاں خدا کا کوئی مجسمہ نعوذباللہ نہیں ہوتا بلکہ خدا کی طرف توجہ دلانے والے عناصر اسلامی آرٹ کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس پر تفصیل سے آگے مضمون میں لکھا جائے گا۔
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ اسلامی آرٹ اپنے آپ میں روحانیت اور عین عبادت بھی ہے۔ قرآن کے بقول انسانوں اور جنات کی تخلیق کا کوئی مقصد نہیں سوائے اس کے کہ وہ عبادت کریں۔ اور عبادت سے مراد انسان اپنے تمام وجود اور سرگرمیوں سے خدا کی مرضی کا طالب ہو۔ اسلام کی تعلیم نے خدا کی خوشنودی حاصل کرنے، خدا کی کائنات پر غور و فکر کرنے اور خدا کی باتوں کو دنیا تک پہنچانے کے مختلف ذرائع کو بھی عبادت بنا دیا۔ قرآن میں یہ بھی کہا گیا کہ لذكر الله اكبر (اللہ کا ذکر عظیم تر ہے) لہذا اسلامی آرٹ کے تمام کام بھی ذکر اللہ میں شامل ہو جاتے ہیں جب اس سے عظمت رب کی یاد دہانی کا کام لیا جائے۔ قرآن خود ذکر ہے اور قرآن کو دنیا تک پہنچانا بھی ذکر ہے۔ اس لیے اسلامی آرٹ کی ابتدا قرآن اور اس کی خطاطی سے ہوتی ہے۔
اسلامی آرٹ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ جمیل ہوتا ہے اس لیے کہ اللہ تعالی کی صفت جمیل ہے اور ساری کائنات کو اس نے حسین اور خوب صورت بنایا ہے جس پر پچھلے مضامین میں تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے۔(جاری)
حواشی
[1] Adajian, Thomas, “The Definition of Art”, The Stanford Encyclopedia of Philosophy (Spring 2022 Edition), Edward N. Zalta (ed.), URL = https://plato.stanford.edu/archives/spr2022/entries/art-definition/
[2] Islam Between East and West by Alija Ali Izetbegovic, American trust publications,
[3] The Aesthetics of Islamic Art Author(s): Lois al Faruqi Source: The Journal of Aesthetics and Art Criticism, Vol. 35, No. 3 (Spring, 1977), pp. 353-355 Published by: Wiley on behalf of The American Society for Aesthetics.
[4] Shalem, Avinoam. “What do we mean when we say Islamic Art? An Urgent Plea for a Critical Re-Writing of the History of the Arts of the Islam.” Journal of Art Historiography 6 (2012).
[5] https://en.wikipedia.org/wiki/Islamicart
[6] Blair, Sheila S and Bloom, Jonathan M. 2009. The Grove Encyclopaedia of Islamic Art ’ Architecture. Oxford: Oxford University Press.
[7] Grabar, Oleg. 1973. ’’The Formation of Islamic Art‘‘. New Haven: Yale University Press.
[8] Shifting Boundaries How to Make Sense of Islamic Art, Ania Bobrowicz, Sara Choudhrey, Oai: kar.kent.ac.uk: 44138 1 June 2014
[9] Islamic art and culture (a resource for teachers ), national gallery of art Washington
[10] Michon, Jean-Louis. “The message of Islamic art.” Studies in Comparative Religion 17.1 (1985): 1-11.
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2022