تقاضے رکھتے ہیں اور اگر کسی پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو انسان بے اطمینانی محسوس کرتا ہے، نیز سماج میں انتشار پیدا ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح انسان ایک روحانی و اخلاقی وجود بھی ہے اور مادی وجود بھی۔ وہ فلسفیانہ سوالات پر بھی غور کرتا ہے اور زندگی کے عملی مسائل کا سامنا بھی کرتا ہے۔ وہ بالاتر حقائق کا عرفان بھی حاصل کرنا چاہتا ہے اور تسخیرِ کائنات کا بھی خواہش مند ہوتا ہے۔ وہ اعلیٰ ترین قربانیاں بھی دے سکتا ہے اور انسانی کمزوریوں کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔ انسان کے اس ہمہ گیر وجود کے لیے ایسے ضابطۂ حیات کی ضرورت ہے، جس میں انسانی شخصیت کے تمام پہلوؤں کا لحاظ رکھا گیا ہو اور کسی پہلو کو بھی نظر انداز نہ کیا گیا ہو۔ اسلام ایسا ہی ضابطۂ حیات ہے۔ اسلام کی منفرد خصوصیات کی نشاندہی چند نکات کی شکل میں کی جاسکتی ہے۔
ایمان
ہر ضابطۂ حیات کی طرح اسلام کی بنیاد بھی کچھ اساسی تصورات پر رکھی گئی ہے، لیکن اسلام ان کو تصورات کے بجائے ایمانیات کانام دیتا ہے۔ ایمانیات کی یہ اصطلاح بہت اہم ہے۔
توحید، رسالت اور آخرت اسلام کی بنیادیں ہیں۔ یہ ایسے تصورات نہیں ہیں، جن کو کسی انسان نے فلسفیانہ تفکر کے بعد دریافت کیا ہو، بلکہ یہ ایسے حقائق ہیں، جن کا علم خالقِ کائنات نے خود انسانوں کو براہِ راست عطا کیا ہے۔ یہ علم انسانوں کو انبیاء اور رسولوں کے ذریعہ ملا ہے۔ اس لیے توحید، آخرت اور رسالت کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ یقینی حقائق ہیں۔ ان کو محض ایک معقول تصور کے طور پر تسلیم کرلینا کافی نہیں ہے، بلکہ ان پر ایمان لانا ضروری ہے۔ ایمان کا مقام فلسفیانہ استدلال اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج سے بہت بلند ہے۔ ایمان کی اہمیت اس امر سے اجاگر ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ بقرۃ کا آغاز ہی ’’ایمان بالغیب‘‘ کے تذکرے سے ہو تاہے۔ موجودہ دور کی غالب مادی تہذیب غیب کا انکار کرتی ہے۔ اس پس منظر میں ایمان بالغیب پر اسلام کااصرار اسلام کو ایک منفرد دین بناتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ اور مذاہب مثلاً یہودیت اور عیسائیت میں بھی غیب پر ایمان کا تصور پایا جاتا ہے اور اس لحاظ سے اسلام ایک منفرد دین نہیں ہے۔لیکن یہ اعتراض اس لیے صحیح نہیں ہے کہ یہودیت اور عیسائیت کے موجودہ علمبرداروں اور پیرؤوں کے پاس کوئی کتابِ الٰہی مستند شکل میں موجود نہیں ہے۔ پھر وہ غیب پر ایمان کا دعویٰ کس طرح کرسکتے ہیں؟ ان کے پاس تو قابلِ اعتماد شکل میں اللہ کا پیغام ہی موجود نہیں۔ اگر دیانت داری سے کام لیا جائے تو اسلام کے علاوہ کوئی دین فی الواقع ایسا موجود نہیں ہے، جس کی بنیاد ایمان بالغیب پر ہو۔
اب رہے وہ ضابطہ ہائے حیات، جن کی بنیاد محض فلسفیانہ افکار پر ہے اور جِن میں ایمان اور غیب کا کوئی تصور ہی سرے سے پایا نہیں جاتا، تو ایسے ادیان کسی سنجیدہ طالبِ حق کی توجہ کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ انسانوں کو صرف شک میں ڈالتے ہیں، ’’یقین‘‘ فراہم نہیں کرتے۔
انجامِ خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہ زندگی سے دوری
انسانی برادری
اسلام تمام انسانوں کو ایک برادری سمجھتا ہے۔اس لیے ان سب کے لیے وہ ایک ہی ضابطۂ حیات تجویز کرتا ہے۔ چونکہ تمام انسان ایک خدا کے بندے ہیں اور ایک ہی ماں باپ کے اولاد ہیں، اس لیے ان کے لیے اللہ کا پسندیدہ دین ایک ہی ہے۔ علاقہ، زبان، نسل اور صنف کے مختلف ہونے کے باوجود انسانوں کے لیے اللہ کا عطا کردہ ضابطۂ ہدایت یکساں ہے۔ حق اور صداقت کے سلسلے میں ماضی و حال کی بھی کوئی تفریق نہیں ہے۔ پہلے انسان سے لے کر قیامت تک کے انسانوں کے لیے دینِ حق ایک ہی ہے۔ وحدتِ انسانیت پر یہ اصرار اسلام کی دوسری منفرد خصوصیت ہے۔
ہندوستان کی قدیم روایات کا بیشتر حصہ ایسا ہے، جو ایک خطّے کی سرزمین کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور انسانوں کی عالمگیر وحدت کا تصور، ہندوستان کی عام ذہنیت کے لیے ایک اجنبی تصور بن جاتا ہے۔بعض مذاہب ایسے بھی ہیں، جو سارے انسانوں کو خطاب کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن عورتوں کو اُن کے بعض شارحین اس لائق نہیں سمجھتے کہ وہ بھی ’’نجات‘‘ اور روحانی سربلندی حاصل کرسکیں۔ عیسائیت نے انسانوں کی نجات کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ایک مفروضہ عقیدے سے مشروط کردیا ہے۔ اب رہے وہ انسان جو عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری سے قبل دنیا سے جاچکے تھے، ان کے متعلق یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ ان کی نجات کس طرح ہوگی؟ یہ ان مذاہب کا حال ہے، جو تبلیغی مذاہب ہیں۔ جو تبلیغی ادیان نہیں ہیں وہ سرے سے عالمگیر ہونے کا دعویٰ ہی نہیں کرتے۔ چنانچہ اسلام وہ واحد دین ہے، جو فی الواقع عالمگیر دین کہلانے کا مستحق ہے۔
عظمتِ انسانیت
اسلام نے انسان کو ایک عظیم مرتبہ عطا کیا ہے اور اس کو اللہ کا خلیفہ قرار دیا ہے۔ انسان کے عظیم مرتبے کے شایانِ شان یہ بات ہے کہ اس کا سر صرف خدا کے آگے جھکے اور کسی مخلوق کے آگے نہ جھکے۔ شرک سے اجتناب کی یہ واضح تعلیم اسلام نے دی ہے اور توحید پر غیر معمولی زور دیا ہے۔ دنیا کے بہت سے مذاہب میں توحید کا یہ تصور عموماً مفقود ہے اور اپنے اس رویے کے ذریعے، یہ تصورات، انسان کی عظمت کی نفی کرتے ہیں۔ یہودیت کے اندر توحید کا تصور موجود ہے، لیکن یہودیت کے پیروؤں نے خدا کو محض ’’اسرائیل کا خدا‘‘ بنا دیا ہے اور خدا کی صفات کے بیان کے سلسلے میں بسا اوقات ایسا انداز اختیار کیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی جلالت ِ شان کے منافی ہے۔
اسلام کی ایک منفرد خصوصیت انسان اور خدا کا براہِ راست تعلق ہے۔ ہر انسان اللہ کی عبادت کرے۔ یہ اس کا فرض بھی ہے اور حق بھی۔ اسلام کے نزدیک اس سلسلے میں پجاریوں اورپروہتوں کے کسی گروہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر گنہگار انسان جب بھی اس کا ضمیر جاگے، اللہ کی طرف رجوع کرسکتا ہے اور اس کے حضور توبہ کرسکتا ہے۔ اس کے لیے اس کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ وہ کسی مقدس انسان کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرے۔ ہر انسان اللہ سے براہِ راست دعا مانگ سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی درمیانی واسطے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام میں روایتی معنوں میں کسی مذہبی طبقے کا کوئی مقام نہیں ہے۔ ہر متقی اور اہلِ علم مسلمان، نماز میں امام بن سکتا ہے اور نکاح پڑھا سکتا ہے۔ ان کاموں کے لیے کوئی خاص طبقہ نہیں بنایا گیا ہے۔
مساوات
اسلام میں تمام اہلِ ایمان کے درمیان مکمل مساوات قائم کی گئی ہے۔ حکومت کا نظام چلانے کے لیے کچھ لوگوں کا تقرر کیا جانا تو ناگزیر ہے اور ان کو حکمراں کہا جاسکتا ہے، لیکن حکمرانوں اور دیگر لوگوں کے قانونی حقوق اسلامی نظام میں بالکل مساوی ہیں۔ اسلام میں حکمرانوں کو کوئی مخصوص حقوق حاصل نہیں ہیں اور وہ قانون کی گرفت سے بالاتر نہیں ہیں۔ معاشرے اور حکومت میں مختلف مناصب پر افراد کا تقرر کرتے وقت، اسلام کا مزاج اس بات کا متقاضی ہے کہ یہ تقرر محض تقویٰ، علم اور صلاحیت و لیاقت کی بنیاد پر ہو، نیز کسی نسل اور علاقے کے افراد کو کوئی ترجیح نہ دی جائے۔
اسلام کی ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ وہ علم کو عام کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں کو سخت وعید سنائی گئی ہے، جو علم کو چھپاتے ہیں۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسانی آبادی میں خواندگی عام ہو۔ علاوہ ازیں یہ ضروری ہے کہ دین کی اساسی معلومات تمام افراد کو دی جائیں، نیز ہر فرد کو یہ مکمل آزادی حاصل ہو کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرسکے اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی جائے۔ بعض اہلِ مذاہب کا مزاج فروغِ علم سے مناسبت نہیں رکھتا۔ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ علم کی روشنی پھیلے گی تو مذہب سے وابستگی متاثر ہوگی۔ اسلام کا رجحان اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ علم پھیلے تاکہ دین سے وابستگی میں اضافہ ہو۔ جو لوگ علم حاصل نہیں کرتے ان کو توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ دوڑ دھوپ کرکے علم حاصل کریں۔ اسی طرح جو اہلِ علم ہیں ان کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ غیر تعلیم یافتہ آبادی میں علم پھیلائیں۔ اس عام علمی تحریک کا یہ نتیجہ لازماً نکلنا چاہیے کہ علم اور معلومات پرکسی فرد یا طبقے کی اجارہ داری باقی نہ رہے۔ پورے سماج کی علمی پسماندگی ختم ہو اور اس پہلو سے سماج میں مساوات قائم ہوجائے۔ سماج میں پائی جانے والی ناہمواریوں کا ازالہ صحیح معنوں میں مساوات کے قیام کے لیے ناگزیر ہے۔
شورائیت
ایک اور پہلو سے بھی اسلام، مساوات قائم کرتا ہے۔ اس پہلو کا تعلق اسلام کے اصولِ شورائیت سے ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ فیصلے، مشورے سے ہوں اور کوئی فرد یا کچھ افراد اپنی رائیں سب پر مسلط نہ کریں۔ اصولی طورپر مشورے میں ان سب لوگوں کو شامل کیا جانا چاہیے جو امرِ متعلق میں مشورہ دینے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ عملی دشواریوں کے پیشِ نظر ایسا کیا جاسکتا ہے کہ ان کے نمائندوں کو شامل کیا جائے۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ مشورے کے ایسے طریقے دریافت کرنے ضروری ہیں،جن کے ذریعے مشورے کے عمل میں زیادہ سے زیادہ افراد کو شامل کیا جاسکے۔ مزید برآں یہ بھی ضروری ہے کہ مشورے کے بعد جو فیصلے کیے جائیں وہ سارے افراد کے علم میں لائے جائیں۔
اسلام اس پہلو سے بھی مساوات قائم کرتا ہے کہ اسلامی نظام میں اظہارِ رائے اور تنقید کی آزادی ہر فرد کو حاصل ہے۔ ہر فرد یہ حق رکھتا ہے کہ وہ کسی علمی یا عملی مسئلے کے سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار کرے اور اس رائے کو عام کرسکے۔ اس حق پر تحدید صرف اتنی ہے کہ شائستگی اور اخلاق کی حدود کے اندر رائے کا اظہار کیا جائے۔ کسی شخص کی زبان بند کرنے کا اختیار حکومت کو حاصل نہیں ہے۔ ایک علمی استدلال کو دوسرے علمی استدلال کے ذریعے تو رد کیا جاسکتا ہے، لیکن بہ جبر کسی شخص کو اپنے دلائل پیش کرنے سے باز نہیں رکھا جاسکتا۔ اسی طرح ہر شخص کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ اہلِ حکومت کے کاموں پر گرفت کرسکے اور تنقید کرسکے۔ ان اقدامات کے ذریعے اسلام ایسا ماحول پیدا کرتا ہے، جہاں تمام افراد معاشرے اور حکومت کے نظام کو چلانے میں عملاً شریک ہوجاتے ہیں۔ نیز حکمرانوں اور عوام کے درمیان عموماً پائی جانے والی وسیع خلیج مختصر ہوجاتی ہے۔ اس خلیج کو بالکل پُر کرکے، مکمل مساوات قائم کرنے کا کام بالآخر حریت کی وہ روح انجام دیتی ہے، جو اسلام افراد کے اندر پیدا کرتا ہے۔ اسلامی اقدار کے علمبردار افراد اپنے بیدار ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حق بات علی الاعلان کہتے ہیں اور اس حریت پرور ماحول میں حکمرانوں کو عموماً یہ جرأت نہیں ہوتی کہ زیادتیاں کرسکیں۔
اطاعت فی المعروف
اسلام نے واضح الفاظ میں عوام کو یہ حق دیا ہے کہ وہ حکمرانوں سے، ضرورت ہو تو نزاع کرسکتے ہیں۔ اگر ایسی نزاع ہوجائے تو مختلف فیہ معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹایا جائے گا۔ یعنی کتاب و سنت کی روشنی میں اختلاف کو دور کیا جائے گا۔ اسی کے ساتھ اسلام نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ حکمرانوں کی اطاعت صرف ’’معروف‘‘ میں کی جاسکتی ہے۔ اس اصول کا منشا یہ ہے کہ حکمراں کی اطاعت اس وقت تک کی جائے گی جب تک وہ اللہ اور ا سکے رسول کے احکام کے خلاف کوئی حکم نہ دے۔ اگر کوئی ایسا حکم دے دیا جائے جو شریعت کے خلاف ہو تو وہ حکم نہیں مانا جائے گا۔ عوام کو یہ حق دنیا کے کسی سیاسی نظام نے نہیں دیا ہے۔ اس اصول کے معنی یہ بھی ہیں کہ اسلامی ریاست قانون سازی کا کام آزادانہ طور پر نہیں کرسکتی۔ اسلامی ریاست میں قانون سازی صرف ان معاملات میں کی جاسکے گی، جن کے سلسلے میں کتاب و سنت میں کوئی واضح حکم موجود نہ ہو۔ یہ ذیلی قانون سازی ان حدود کے اندر ہوگی جو شریعت نے متعین کردی ہیں، نیز ان اقدار کی آئینہ دار ہوگی جو اسلام نے سکھائی ہیں۔ مزیدبرآں یہ قانون سازی ان مقاصد کی تکمیل کے لیے ہوگی جو شریعت کے نزدیک نظامِ قانون کے درست مقاصد ہیں اور ان بنیادی اصولوں کی پابند ہوگی، جو اسلامی نظامِ قانون کی اساس ہیں۔ ان اقدامات کے ذریعے اسلام نے سیاست کو مطلق العنان بننے سے روکا ہے اور ایک ایسا بنیادی ضابطہ دیا ہے، جس کی پابندی حکمرانوں اور ریاست کے لیے بھی اسی طرح لازم ہے جس طرح عوام کے لیے لازم ہے۔
عدل
سیاسی مساوات کے قیام کے علاوہ اسلام نے سماجی مساوات کے قیام پر بھی توجہ کی ہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے۔ اسی طرح کسی گورے کو کسی کالے پر یا کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ اگر کوئی زیادہ عزت کا مستحق ہے تو وہ فرد ہے جو زیادہ متقی ہے۔ اس تعلیم کا تقاضا یہ ہے کہ اہلِ علم و تقویٰ کا احترام کیا جائے، چاہے وہ مال و دولت نہ رکھتے ہوں۔ اس کے برعکس جو تقویٰ سے محروم ہوں ان کو معزز نہ سمجھا جائے چاہے وہ مال و دولت رکھتے ہوں یا اقتدار ان کو حاصل ہو۔ یہ تعلیم معاشرے میں انسانی قدروں کو بحال کرتی ہے اور اگر اس تعلیم کو نظر انداز کردیا جائے تو معاشرہ حیوانی سطح تک گرجاتا ہے۔
اسلام کا تقاضا ہے کہ انسانوں کے درمیان معاشی تفاوت کو کم سے کم کیا جائے۔ سود کو حرام کیا گیا ہے تاکہ بلامحنت کے سرمایہ دار اپنی دولت میں اضافہ نہ کرسکیں۔ دولت کمانے اورخرچ کرنے کے سلسلے میں حرام اور حلال کی حدود متعین کی گئی ہیں۔ ان اقدامات کے علاوہ اسلام نے زکوٰۃ کو فرض کیا ہے تاکہ ناداروں کی ضرورتیں پوری ہوسکیں اور بتدریج ان کی حالت بہتر ہو۔ اسلام کا قانونِ میراث جمع شدہ دولت کو تقسیم کردیتا ہے اور اس طرح سرمائے کے ارتکاز کو روکتا ہے۔ ان متعین اقدامات کے علاوہ اسلام نے ریاست کو یہ عام ہدایت دی ہے کہ وہ اس کا اہتمام کرے کہ ’’دولت سرمایہ داروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتی رہے۔‘‘ اس ہدایت کی روشنی میں ریاست وہ تمام معقول اقدامات کرسکتی ہے، جن کے ذریعہ محروم افراد کی محتاجی و محرومی کا ازالہ کیا جاسکے اور اس مقصد کے لیے وہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی مناسب رقوم دولت مند افراد سے طلب کرسکتی ہے۔
ادراکِ حقائق
اسلام نے انسان کے روحانی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ انسان فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ وہ بالاترحقائق کا ادراک کرسکے۔ اسلام انسان کی فطرت کے اس تقاضے کو تسلیم کرتا ہے اور ’’عرفانِ حقیقت‘‘ کی منزل تک پہنچنے کے لیے آیاتِ الٰہی پر غوروفکر و تدبر کا راستہ تجویز کرتا ہے۔ یہ آیات وہ بھی ہیں، جو کتابِ الٰہی میں موجود ہیں اور وہ بھی ہیں جو انفس و آفاق میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان آیات پر غوروفکر کے ذریعے انسان حقائق کاادراک کرسکتا ہے اور ان روحانی بلندیوں کو حاصل کرسکتا ہے، جن تک پہنچنا، اس دنیا میں انسان کے لیے ممکن ہے۔ آیاتِ الٰہی پر غورو تدبر کے علاوہ کسی اور طریقے کو اسلام نے ادراکِ حقائق کا موزوں ذریعہ تسلیم نہیں کیا ہے۔ وحی الٰہی کی روشنی سے بے نیازی کبھی بھی انسان کو روحانی بلندی کی طرف نہیں لے جاسکتی اور نہ اس کو حقیقت سے روشناس کراسکتی ہے۔
اسلام اطمینانِ قلب عطا کرتا ہے اس لیے کہ وہ ایسے اللہ پر ایمان کی دعوت دیتا ہے، جو علیم و خبیر بھی ہے اور رحمان و رحیم بھی۔ اللہ نے رزق کا وعدہ کیا ہے اور زندگی اور موت صرف اسی کے اختیار میں ہے۔ علاوہ ازیں اللہ دعائیں سنتا ہے اور اپنے بندوں کو دعا مانگنے کی تلقین بھی کرتا ہے اور آداب بھی سکھاتا ہے۔ اسلام نے واضح طور پر بتایا ہے کہ یہ زندگی آخری زندگی نہیں ہے، بلکہ اس کے بعد آخرت آنے والی ہے۔ آخرت میں ان افراد کے لیے کسی رنج و غم کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، جو ایمان لائے ہوں اور جنھوں نے صالح عمل کیے ہوں۔ پھر قرآنِ مجید نے یہ بھی بتایا ہے کہ فرشتے اس دنیا میں بھی اہلِ ایمان کی مدد کرتے ہیں اورآخرت میں بھی ان کی مدد کریں گے۔ ان تمام حقائق پر یقین کی بنا پر اہلِ ایمان سخت حالات میں بھی مطمئن رہتے ہیں، ان کو شرحِ صدر حاصل ہوتا ہے اور وہ مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حق و راستی پر قائم رہتے ہیں۔
ان نکات پر نظر ڈالنے سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ اسلام نے انسانی شخصیت کے ہر پہلو کے لیے ہدایت دی ہے۔ اس نے وہ ہمہ گیر، معتدل اور معقول ضابطہ عطا کیا ہے جو انسان کی تمام ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ اسلام بیک وقت مذہب بھی ہے اور سیاست بھی۔ وہ دنیا میں عدل و انصاف اور امن و آشتی کا ضامن بھی ہے اور آخرت میں فلاح و نجات کا ذریعہ بھی۔ اس طرح اسلام فرد کو قلبی اطمینان بھی عطا کرتا ہے اور سماج کے مسائل کو حل بھی کرتا ہے۔ ان تمام پہلوؤں سے اسلام منفرد دین ہے اور فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ ہے۔ طالبِ حق انسان کے لیے اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قابلِ اطمینان نہیں ہوسکتا۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2014