اسلامی ارضی سیاسیات

نئے ماڈل کی ضرورت

(یہ تحریر زندگی نو فروری ۲۰۲۱ میں شائع ہونے والے ایک اہم مضمون ’اسلامی تمدن کا قلب‘ پر ایک فاضلانہ تبصرہ ہے۔ اس لیے اسے پڑھتے ہوئے اس مضمون کو بھی سامنے رکھیں۔ اس اہم اور دل چسپ موضوع پر مزید اظہارِ خیال کی دعوت ہے۔ ادارہ)

ڈارون کے نظریہ ارتقا نے نہ صرف فطری سائنسوں اور ان سے جڑے علوم پر گہرا اثر ڈالا ہے، بلکہ سماجیات اور اس سے وابستہ بہت سے علمی پہلوؤں اور سماجی ادارے (social institution) کے بنیادی نظریات پر بھی اپنا گہرا نقش چھوڑا ہے۔ اسپنسر (Herbert Spencer) کے نظریہ بقائے اصلح (survival of the fittest) نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ بعد میں اسی سے سماجی ڈاورینیت کی بنیاد پڑی، اس کے تحت سماج اور اس سے وابستہ اداروں کو سمجھنے اور ان کی وضاحت کرنے کے لیے اسے حیاتیاتی یا جان دار وجود (living organ) کی طرح دیکھا جانے لگا۔ یہ تصور پیش کیا گیا کہ سماج اور اس سے وابستہ ادارے بھی ایک حیاتیاتی کُل کی طرح ہوتے ہیں، اور جس طرح ایک حیاتیاتی وجود کو باقی رہنے اور نشوونما پانے کے لیے توانائی اور جگہ چاہیے ہوتی ہے، اسی طرح سماجی ادارے کو بھی اپنا وجود باقی رکھنے اور نشوونما کے لیے مستقل توانائی اور جگہ درکار ہے۔ چناں چہ ملک اور ریاست اور کئی ملکوں پر مشتمل خطوں کو بھی ایک حیاتیاتی کل کی طرح دیکھا جانے لگا۔ جس میں سر، آنکھ، پیر، دل اور دماغ سب کچھ ہوتا ہے۔ اگر کوئی ملک آگے بڑھنا چاہے یا اس کی آبادی بڑھ رہی ہو تو اسے نہ صرف خوراک اور دوسری ضرورتیں درکار ہوں گی بلکہ زیادہ جگہ بھی چاہیے ہوگی۔ اسی سے متاثر ہوکر بہت سارے ملکوں اور خطوں کو الگ الگ جانوروں اور انسانوں کے مختلف اعضا سے تشبیہ دی جانے لگی، اور ملکوں اور علاقوں کے نقشوں کو جانوروں اور انسانوں کے خدوخال میں فٹ کیا جانے لگا، اور کہا گیا کہ فلاں ملک فلاں جانور کی طرح ہے، یا انسان کے فلاں عضو کی طرح ہے، یا نقشے میں ان اعضا کی جگہ پر موجود ہے، چناں چہ اس کا رویہ بھی ویسا ہی ہوگا۔ اس طرح اس ملک کے کردار کو بھی اسی طرح دیکھا جانے لگا۔ مثال کے طور پر پرتگال کے آرٹسٹ سورس (A. Sorus) نے اپنے ایک پروپیگنڈا پوسٹر میں یوروپ کے مختلف ملکوں کو مختلف جانوروں کی شکل میں دکھا یا ہے۔ اس میں سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ اٹلی کو ایک بڑے سانپ کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔ چوں کہ شیر اور ہاتھی سے اٹلی کو مشابہت نہیں دی جاسکتی کیوں کہ اٹلی کی جغرافیائی شکل اس طرح کی ہے کہ اس میں صرف سانپ کی شکل ہی فٹ بیٹھ سکتی ہے۔ بعد میں علاقوں اور ملکو ں کو دیکھنے اور ان کے نقشے بنانے کی یہ طرز خاصی مقبول ہوئی اور اس نقشہ نویسی کو حیوانی نقشہ نویسی (zoographic mapping) کہا گیا۔

ریزل (Friedrich Ratzel) کو بابائے سیاسی جغرافیہ (political geography)کہا جاتا ہے، اگرچہ اصطلاح‘سیاسی جغرافیہ’اس نے وضع نہیں کی تھی، تاہم اس کا بانی وہی مانا جاتا ہے۔ ریزل ایک جرمن جغرافیہ داں تھا اور سماجی ڈاروینیت سے بہت متاثر تھا۔ وہ ملکوں اور ریاستوں کو ایک حیاتیاتی وجود کی شکل میں دیکھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جیسے جیسے کسی ملک کی طاقت بڑھتی ہے، اس کو پھیلنے کے لیے مزید جگہ کی ضرورت پڑتی ہے، لہذا سرحدوں کا پھیلنا کسی ملک کی بہتر صحت کی علامت ہے۔ ایک طرح سے اس نے جغرافیے کو حیاتیاتی علم میں تبدیل کردیا۔ ریزل نے بہت سارے تحقیقی مقالے تیار کرائے جن میں اس نے Lebensruam کا تصور پیش کیا جس کے معنی ہیں ریاست بحیثیت جان دار مکان (state as a living space)۔ یہی چیز بعد میں ہٹلر کی مشرقی یورپ اور سوویت روس پر فوجی کارروائی کی بنیاد بنی۔

یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جان دار مکان (living space)کے اس تصور نے دوسری عالمی جنگ شروع کرانے میں ایک اہم رول ادا کیا تھا۔

ارضی تہذیبی مکان (geocivilizational space)کو جان دار مکان (living space)کی شکل یا کسی جانور کی شکل میں دیکھنے کا چلن اب بھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ مغربی ارضی سیاسیات کی ایک بنیاد اور بھی ہے جس میں جغرافیائی خطے کو ایک مربوط یا باہم پیوست (interconnected) چھوٹے چھوٹے علاقوں کی شکل میں متصور کیا جاتا ہے۔ اس میں مختلف چوکیوں، اسٹریٹجک سڑکوں، اسٹریٹجک پہاڑیوں، قدرتی وسائل کے خطوں اور محفوظ سمندری راستوں کے جال کی باہم مربوطیت پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔

ارضی سیاسیات کے مشہور امریکی ماہر ماہن (Alfred T. Mahan) نے ایک تصور پیش کیا تھا، جس میں انھوں نے یہ بات کہی تھی کہ تاریخ میں ہمیشہ سے بحری اور زمینی طاقتوں کے مابین لڑائی رہی ہے۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس تصادم میں بحری طاقتیں ہمیشہ حاوی رہی ہیں۔ چناں چہ اس نے امریکہ کو مشورہ دیا کہ اگر وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت بننا چاہتا ہے تو اسے اپنی بحری طاقت کو بڑھانا ہوگا۔ یہی تصور امریکہ کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کی بنیاد بنا، جس کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔

برطانیہ میں ارضی سیاسیات کے بانی میک کائینڈر (John Mackinder) نے ہارٹ لینڈ کا نظریہ پیش کیا اور بتایا کہ اگر کوئی طاقت ہارٹ لینڈ کے خطے، (جو افغانستان، وسطی ایشیا اور روس کے سائبریا کے علاقوں اور مشرقی یوروپ کے علاقوں پر مشتمل ہے) پر تسلط اختیار کرلیتی ہے، تو وہ یوروپ، افریقہ اور ایشیا پر بھی تسلط حاصل کرلے گی۔

بعد میں وسطی ایشیا اور افغانستان میں برطانیہ کی کارروائیاں اسی ضمن میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد مابعد جدید، ارضی سیاسیات، اور کریٹیکل جیو پالیٹکس کا تصور پیش کیا گیا اور اس بات پر بحث کی گئی کہ کسی علاقے کی اہمیت اس کی شکل، محل وقوع، اسٹریٹجک سڑکوں، یا پہاڑیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ڈسکورس کے ذریعے طے کی جاتی ہے، اور ڈسکورس قائم کرنے میں طاقت ور شخصیات کی دل چسپی کے علاوہ اور بھی مختلف عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔

کریٹیکل جیو پالیٹکس نے جان دار مکان، ارضی سیاسیات، مربوط ارضی سیاسیات کے تصور کو چیلنج کیا ہے۔

حال کے سو برسوں کی ارضی سیاسیات کی تاریخ میں ہارٹ لینڈ اور رم لینڈ کے تصورات نے (جس میں ایک دل اور دو ہلال ہیں) پوری دنیا کی ارضی سیاست کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ موجود ہ دنیا کو ڈھالنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔

حال ہی میں شائع زندگی نو کے فروری 2021کے شمارے میں اسلامی دنیا کی ارضی سیاست کے ماحول کو دو ماڈلوں میں پیش کیا گیا تھا۔ مذکورہ مضمون میں انھی دوتصورات سے مدد لی گئی ہے، یعنی شاہین اور ہلال۔ یہ ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی کے ایک مضمون کا ترجمہ ہے، جس میں مصر کے سیاسی جغرافیہ داں جمال حمدان اور ترکی کے داؤد اوغلو کی ارضی سیاسیات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔شنقیطی نے اوغلو کے دو بازو والے پرندے اور حمدان کے ہلال کے ارضی سیاسی ماڈل کی ستائش کی ہے، لیکن حمدان کے ماڈل کو تنقید کا نشانہ اس بنا پر بنایا ہے کہ اس میں ترکی کی اہم حیثیت کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اوغلو اسلامی دنیا کے ارضی سیاسی ماڈل کو ایک جان دار وجود، یعنی دو بازو والے پرندے کی شکل میں تصور کرتے ہیں، اور اس پرندے کے دل، ہاتھ، پیر اور دوسرے اعضا کی تشریح کرتے ہیں۔ گو کہ داؤد اوغلو کے خیالات جان دار مکان کے تصورات کے مطابق نہیں ہیں، تاہم وہ بھی مشرق وسطی یا مغربی ایشیا کو اسلامی سیاسی جغرافیے کی سیٹنگ میں ایک بنیادی حیثیت یعنی‘دل’ کی حیثیت قرار دیتے ہیں۔

اوغلو نے اسلامی دنیا کی ارضی سیاسی ماڈلنگ کے تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے ترکی کے رول کو ایک کلیدی اہمیت دی ہے، اور جہاں عرب دنیا کو ایک ’دل‘ کی طرح تصور کیا ہے، وہیں اس سے زیادہ ترکی کو ایک ‘سر’کی حیثیت (یعنی جہاں دماغ، آنکھیں، کان، منھ موجود ہیں) سے پیش کیا ہے۔

اس کے علی الرغم جان دار مکان اور مربوط ارضی سیاسی مکان کے ذریعے یوروپ کی ارضی سیاسیات کو سمجھا گیا ہے۔ لیکن اسلامی دنیا کی ارضی سیاسی سیٹنگ کو سمجھنے کے لیے ہمیں الگ تصورات اور وسائل کی ضرورت پڑے گی۔ یہ اپنے آپ میں عجیب بات ہے کہ اگر دنیا کو مختلف تہذیبی مکانوں میں تقسیم کیا جائے تو تقریباً سبھی تہذیبی مکان مربوط و پیوست ہیں، اور ان میں جغرافیائی تسلسل بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ وہ یا تو ملک میں سما گئے ہیں، جیسے چین اور ہندوستان۔ ہندو تہذیب کا پھیلاؤ ہندوستان سے باہر نہیں ہے، اور وہ سیاسی اور جغرافیائی اور تہذیبی طور پر منظم ہے۔ چین حالاں کہ بدھ تہذیب کا حصہ رہا ہے، تاہم اس سے پہلے روایتی چینی تہذیب کی بنیاد کنفیوشس اور تاؤ کے افکار پر رہی ہے، آج کی چینی تہذیب ہندو تہذیب کی طرح جغرافیائی اور سیاسی طور پر منظم ہے، اور ایک ملک پر مشتمل ہے۔ عیسائی تہذیب کا اب وجود نہیں ہے لیکن وہ مغربی تہذیب میں ضم ہو گئی ہے۔ حالاں کہ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے بہت سارے ملکوں کی آبادی عیسائی مذہب کے پیروکار ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو مغربی تہذیب کا حصہ نہیں مانتے۔ اسلامی دنیا کی ارضی سیاسی سیٹنگ دو بلاک یا سطحوں میں ہے، اور اسلامی دنیا کی ارضی تہذیبی سیٹنگ کے چار بلاک اور سطحیں ہیں۔

ارضی سیاسی سیٹنگ میں پہلا بلاک عرب اور اس کے مغرب و مشرق اور اس کے آس پاس کے علاقے ہیں جسے بعض ماہرین پرندے کی شکل میں دیکھتے ہیں، اور اسے دل بازو اور سرکے ڈھانچے (anatomy) میں تقسیم کرتے ہیں۔

دوسرے بلاک میں بحر ہند یا جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک ہیں، جن میں بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملیشیا شامل ہیں جنھیں جان دار مکان کے تصور کے ذریعے پرندے کے پنجوں سے تشبیہ دی گئی ہے، اور کہیں کہیں انھیں چوکیدار بھی بتایا گیا ہے۔ یعنی کہ تمام تر کوششوں کے باوجود وہ ایک مضبوط بازو اور طاقت ور دماغ نہیں بن سکتے۔

تہذیبی سیٹنگ میں پہلے بلاک تو وہ ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، جو ایشیا اور افریقہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور جغرافیائی طور پر باہمی طور پر مربوط ہیں۔ دوسرے بلاک میں بنگلہ دیش، ملیشیا اور انڈونیشیا آتے ہیں، جو جغرافیائی طور پر مربوط تو نہیں لیکن ان کا ایک دوسرے کے نزدیک جغرافیائی اسٹرٹیجک محل وقوع بہت اہمیت کا حامل ہے اور وہ ضرورت پڑنے پر اسلامی دنیا کے دفاع میں ایک کلیدی رول ادا کرسکتے ہیں۔ تیسرا بلاک ان ملکوں کا ہے جہاں مسلمانھیں تو بڑی تعداد میں، لیکن اکثریت میں نہیں ہیں جیسے ہندوستان اور چین۔ اور چوتھا بلاک یوروپی ممالک کا ہے جہاں مسلمان ایک اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں، اور وہاں نہ صرف بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں بلکہ عالمی سیاسی منظرنامے سے متاثر بھی ہیں اور اسے متاثر کر بھی رہے ہیں۔

اسلامی دنیا کے دفاع میں صرف دو بلاک، پہلا اور دوسرا، ہی اہم رول ادا کرسکتے ہیں، کیوں کہ وہاں وقوع پذیر ہونے والے واقعات ہی پورے دنیامیں اسلام اور مسلمانوں کی حیثیت طے کرتے ہیں۔ باقی دو بلاک اہم تو ہیں، لیکن وہ اسلامی دنیا کی جغرافیائی سیاست کو ابھی تک بہت زیادہ متاثر نہیں کر سکے ہیں۔ خصوصاً جب سے ان ملکوں میں نسل پرستی اور انتہا پرستی کو سیاسی عروج حاصل ہوا ہے، جس کی بنا پر اقلیتوں کی آواز خارجہ پالیسی اور ارضی سیاسی کیلکولیشن کو پہلے کی طرح متاثر نہیں کرتی۔ تاہم اگر وہ تعلیمی، تکنیکی اور معاشی طور پر بہت مضبوط ہو جائیں، تو سیاسی منظر نامے کو متاثر کر سکتے ہیں۔

اس وقت اسلامی دنیا کے ارضی سیاسی مکان کو نامیاتی شکل یا جان دار مکان کے تناظرمیں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ یہ تاریخی طور پر ایک ناکام تصور ہے۔ نامیاتی شکل میں ملکوں کا رول متعین ہو جائے گا، اور آپ ان اعضائے جسمانی سے صرف وہی توقع کرسکتے ہیں جیسا کہ ان کا تفاعل ہے۔ جیسے دما غ یا سر، مضبوط بازو یا دل کا کام نہیں کرسکتے۔ اگر اسلامی دنیا کی ارضی سیاسی سیٹنگ کے حرکیت پذیر ماڈل کا تصور کیا جائے تو اس کا دل اور دماغ بازو اور پنجے ہمیشہ اپنی جگہ بدلتے رہتے ہیں، اور آئندہ بھی بدلتے رہیں گے۔ بعض ماہرین آج ترکی کو اسلامی دنیا کے نقشے میں ‘سر’ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور انڈونیشیا کو پنجے کی حیثیت سے۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ اسلامی ارضی سیاسی مکان کو کیا خطرات درپیش ہیں اور سب سے زیادہ کس سے خطرہ ہے۔ تصور کریں کہ آنے والے پچاس برسوں میں چین، امریکہ کی طرح ایک سُپر پاور بن جائے اور اپنے تسلط کا ایجنڈا لاگو کرے تو ان ملکوں کے رول کی حیثیت بدل جائے گی، اور ارضی سیاسی ماڈلنگ کی شکل بھی بدل جائے گی۔ اگر ہم پچاس سال بعد چین کو استبدادی قوت (hegemonic power) طاقت تصور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ انڈونیشیا، ملیشیا اور بنگلہ دیش یک دم کلیدی رول میں آجاتے ہیں۔

چناں چہ ضروری ہے کہ ارضی سیاسی نامیاتی مکان والے تصورات سے اجتنا ب کیا جائے۔ آج ایک حرکیت پذیر مخلوط ارضی سیاسی ماڈلنگ (dynamic hybrid geopolitical modelling) کی ضرورت ہے جس میں ملکوں کے رول اور حیثیت بار بار بدلتے رہتے ہیں۔ اس وقت اسلامی ارضی تہذیبی مکان کو دو چیلنج درپیش ہیں، جن میں سے ایک خارجی ہے اور دوسرا داخلی۔

خارجی چیلنج میں مغربی طاقتوں کی مخلوط ارضی سیاسی حکمت عملی ہے، جس میں اسپیکمین (Nicholas John Spykman) کا رم لینڈ کا نظریہ اور مابعد جدید کریٹیکل جیو پالیٹکس کی ملی جلی حکمت عملی شامل ہے۔

داخلی چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اسلامی دنیا کے پاس کوئی مربوط عظیم ارضی سیاسی حکمت عملی (integrated grand geopolitical strategy) نہیں ہے اور مسلم ممالک مختلف سطحوں اور خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

اس وقت اسلامی ارضی سیاسی مکان کو دنیا کی عظیم طاقتیں یعنی امریکہ اور یوروپ اپنے تسلط کے جال میں پھنساتی چلی جا رہی ہیں۔ چین اور روس اگرچہ ان کی معاونت تو نہیں کر رہے ہیں، تاہم ان کا بھی اپنا ایک ایجنڈا ہے، کیوں کہ دونوں ملکوں کو جغرافیائی سیاست میں ابھرنے کے لیے یا تو اسلامی دنیا کا ارضی سیاسی مکان چاہیے، یا ان کا تعاون۔

مغرب کی ارضی سیاسی ماڈلنگ میں اسلامی دنیا کا ارضی سیاسی مکان اور ارضی اسٹریٹجک محل وقوع (geostrategic location) ان کو اب بھی nervous کرتا ہے اس لیے اپنے تسلط کے تسلسل کے لیے اسلامی دنیا کے ارضی محل وقوع پر تسلط کو ضروری سمجھتا ہے۔ خصوصی طور پر چین اور روس کے نئے ابھار کے بعد وہ اپنے نئے تسلط کے سلسلے میں زیادہ محتاط ہے۔ لہذا اسے اسلامی دنیا پر سیاسی اور معاشی غلبہ اور اس میں اپنی فوجی موجودگی کا کوئی نہ کوئی بہانہ اور جواز چاہیے۔

‘تاریخ کے خاتمے’ کے دعوے [فرانسس فوکویاما کی کتاب The End of History and the Last Man جس میں یہ نظریہ شدو مد کے ساتھ پیش کیا گیا کہ انسانی تہذیب مغربی لبرل جمہوریت کے ساتھ اپنے ارتقا کے عروج کو پہنچ چکی ہے، اور اب کسی دوسرے تہذیبی و سیاسی نظام کا غلبہ ممکن نہیں ہے] کے باوجود وہ اسلامی نظام کی کسی بھی شکل کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھتے ہیں، خصوصاً اسلامی سیاسی نظام کو وہ اپنا اہم حریف مانتے ہیں۔

لہذا وہ یوروپ کے آس پاس کے مسلم ممالک کو مخلوط جنگ کے ذریعے داخلی طور پر تباہ (implode) کر رہے ہیں تاکہ کسی مضبوط مسلم ملک یا کسی عسکری و فکری طور پر مستحکم اسلامی ملک کا وجود باقی نہ رہ سکے، نیز وہاں انھیں اپنی فوجی کارروائی اور موجودگی کا بہانہ ملتا رہے، نیز وہاں کے قدرتی وسائل پر بھی قبضہ ہو جائے۔ چناں چہ عراق اور شام کے بہانے پورے مشرق وسطی کو، لیبیا کے بہانے پورے بحیرہ روم اور شمالی افریقہ کو، اور افغانستان کے بہانے وسطی ایشیا وغیرہ کو غیر مستحکم (unstable) کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

اسلامی ارضی سیاسی اور ارضی تہذیبی مکان کو ایک خطرہ جو پیدا ہوا ہے وہ مشرق وسطی کی کئی ریاستوں کا اسرائیل نواز ہو جانا اور اسلامی نظام کے خلاف کھڑا ہوجانا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین کے خلاف مشرق وسطی کی کئی ریاستوں کے ذریعے مخالفت کیا جانا اس کی مثال ہے۔

یہ بات درست ہے کہ سعودی عرب اسلامی دنیا میں ایک ثقافتی ہارٹ لینڈ کی حیثیت رکھتا ہے، تاہم اسرائیل اور اس کے نئے ابھرتے ہوئے دوستوں کے ساتھ اس کی نزدیکی اسلامی ارضی تہذیبی (geocivilizational) اور ارضی سیاسی مکان (geopolitical space) کو شدید نقصان پہنچائے گی۔

مشمولہ: شمارہ مئی 2021

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau