اخوت
اسلامی ثقافت کی بنیاد ’دین‘ ہے اور اس کے مقابلے میںخونی رشتے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دینی پڑے تو لازماً دینی پہلو کو غالب رکھا جائے گا۔ اس کا پہلی بار روح پرور مظاہرہ اس مدینہ کے بعد ’مواخاۃ‘ کی صورت میں ہوا جبکہ نادار مہاجرین کو انصارکے ساتھ محض دین کی قدر مشترک کی بنا پر ایک ہی رشتے (بھائی چارے) میں منسلک کر دیا گیا اور نہ صرف جائداد، مال و دولت، باغات کی تقسیم طیب نفس سے وقوع پذیر ہوئی، بلکہ چند مخلص انصار نے اپنی متعدد بیویوں میں سے مہاجرین کی خاطر چند ایک کو طلاق دینے کی پیشکش بھی کی ۔ اس طرح جملہ مسلمین ایک دوسرے کے دینی بھائی ٹھہرے، جن کو ایک دوسرے کے مفادات کا ہر وقت خیال رہتا۔ بلال حبشیؓ، صہیب رومیؓ اور سلمان فارسیؓ مختلف ممالک سے منسوب تھے، لیکن یہاں صرف دینی قدر مشترک کی بنا پر ان کو نہ صرف قابل احترام سمجھا جاتا ہے بلکہ حضرت عمرؓ نے بلال حبشیؓ کو ’’ہمارا آقا اور سردار‘‘ کے لقب سے پکارا اور صہیب رومی کی منقبت میں ’’نعم العبد صہیب‘‘ کہا، اور حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمانؓ کے بارے میں فرمایا: سلمان منا اہل البیت‘‘ کہ سلمان اہل بیت میں سے ہیں‘‘۔
اس طرح یہ ملت واحدہ اپنی صحیح تشکیلی آزمائش سے پوری طرح عہدہ بر آہوئی۔ جسے نبی کریمؐ نے ایک جسم سے مشابہت دی جس کے کسی ایک عضو میں اگر کوئی شکایت لاحق ہوتو سارا جسم بے خوابی اور بخار کا شکار ہوجاتا ہے۔ مسلمان خواہ دنیا کے کسی گوشے میں ہو اگر وہ اپنی برادری ملت مسلمہ کے کسی فرد کے بارے میں کچھ ناخوشگوار خبر سنتا ہے تو اس کی طبیعت بے قرار و بے چین ہوجاتی ہے اور جب تک کہ اس کا مسلمان بھائی اس تکلیف سے نجات حاصل نہیں کرلیتا اسے آرام نہیں آتا۔ تحریک خلافت میں مسلمانانِ عالم نے ترکی کے مسلمانوں کی مدد اور حمایت کیلئے جس جوش و خروش اور مالی معاونت میں جس خلوص کا مظاہرہ کیا وہ اب بھی اپنی مثال آپ ہے۔
(5 احترام امن عالم
پانچویں سب سے اہم خصوصیت احترام امن عالم ہے۔ جس میں ایسی ہر کوشش کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جس سے معاشرے میں فساد اور خونریزی نہ پھیلے اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات خوشگوار رہیں۔ نیکی کو فروغ حاصل ہو اور بدی کو مٹایا جائے۔ بدی کو مغلوب کرنے کیلئے اگر طاقت کا استعمال بھی کرنا پڑا تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔ ایسی ہر کوشش جہاد کا درجہ رکھے گی، جس سے امن عالم کو تقویت نصیب ہوگی اور دنیا جنگ کے خوفناک شعلوں سے محفوظ ہوگی۔
(6 اتحادِ عالم
احترام انسانیت کا تحفظ متقاضی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے میل ملاپ رکھے۔ اتحاد و اتفاق کو بڑھائے، جس کے بغیر احترام انسانیت کے خطرے میں پڑجانے کا خطرہ ہے، حتیٰ کہ امن عالم میں بھی خلل پڑسکتا ہے۔ اس کیلئے وحدت فکر مقدم ہے اور وحدت عمل موخر؛ کیونکہ وحدت فکر کے بغیر وحدتِ عمل ممکن نہیں۔ بالفاظِ دیگر اتحاد عالم کا مکمل قیام اس وقت تک ہوسکتا ہے جبکہ ظاہری وحدت اور باطنی وحدت حاصل ہو؛ یعنی ذہنی وحدت ہی وہ مضبوط بنیاد ہے جس پر عالمی اتحاد کی پرشکوہ عمارت اٹھائی جاسکتی۔ اس مقصد کیلئے کلمۂ شہادت عطا کیا گیا اور ذہنی تربیت کیلئے مزید تفصیلات سے واقفیت بہم پہنچائی گئی، تاکہ ذہن میں پریشان خیالی نہ رہے۔ اور تمام افعال ایک ہی قوتِ عاملہ کے تحت تسلسل کے ساتھ ادا ہوتے رہیں۔ ایک آقا اور ایک مولیٰ کے علاوہ بہت سے مالک ذہن پر تصرف نہ رکھتے ہوں، ورنہ تخیل کی وحدت پراگندہ اور فکری جمعیت منتشر ہوجائے گی۔ کچھ جذبات متنوع ہوجائیں گے جن سے انتشار میں اور اضافہ ہوگا۔
اگر کلمۂ شہادت کا تصور پیش نظر نہ ہو تو دیگر طاقتوںکا قائل ہوکر انسان ان کے آگے سربسجود ہوجاتا۔ اس طرح احترام انسانیت ختم ہوکر رہ جاتا۔ اسلام میں ایسی چیزیں جو انسان سے کم یا اس کے برابر کا درجہ رکھتی ہیں، کبھی بھی اس قابل نہیں سمجھی گئیں کہ ان کے سامنے انسان کو جھکایا جائے۔
توحید انسانیت کا سنگ بنیاد ہے۔ یہاں سب چیزیں انسانی فکر انگیزی کیلئے ہیں اور ان کا مخصوص وجود انسان کی خاطر ہے۔ شرک میں بدامنی کی عفونیت ہے۔ زنا کو بھی مشرکین کا فعل قرار دیا گیا۔ اس لئے کہ اس سے کسی کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے اور اس طرح اتحاد کی فضا پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔ جب ان تمام عیوب سے پاک ذہنی وحدت حاصل ہو تو ظاہری وحدت اور باطنی وحدت کے قیام میں کوئی دقت باقی نہیں رہتی اور اس کیلئے ایسا طریقہ کار اختیار کیا گیا جو نقائص سے مبرا اور افادیت سے بھرپور ہے؛ یعنی ظاہری وحدت کیلئے نماز اور حج اور باطنی وحدت کیلئے روزہ اور زکوٰۃ تیر بہدف ثابت ہوتے ہیں۔ نماز صبح گاہی ہو یا نماز جمعہ یا نمازِ عیدین محدود مذہبیت یا قومیت سے بلند ہوتے ہوئے یعنی بین الاقوامیت میں ادغام ہوتا ہے۔ حج بیت اللہ کے موقع پر جمعیت عالم ایک لباس میں، ایک بادشاہ الٰہی کے دربار میں، ایک ہی زبان بولتے ہوئے، ایک سمت، ایک قطار اور ایک ہی طرز اطاعت میں باہمی انس، ہمدردی، یگانگت اور خبر گیری و اتحاد کی عدیم المثال شکل پیش کرتی ہے، لیکن اس میں معاشی بدحالی حائل ہوسکتی ہے اور دنیا اگر اپنی اس ڈگر پر چلتی رہے تو تمول اور افلاس اپنی جگہ رہے گا جس سے انسانی قلوب میں تالیف پیدا کرنا کارے دارد ہے، اگر چہ انسانی جماعت میں احتیاج کے عناصر بھی ہیں اور کسمپرسی کی حالت بھی ہے اور یہ تنوع مختلف فرائض کی ادائیگی کیلئے ضروری بھی ہے، تاہم معیشت کا مدوجزر بہت ضروری ہے، کیونکہ اگر یکسانیت ہوتی تو اس دنیا کا خاتمہ کبھی کا ہوچکا ہوتا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ قوم زندہ ہے اور فرد بحیثیت فرد اپنے حقوق سے مستفیض ہو۔
ضروریات اور احتیاجات قائم رہتی ہیں۔ ایک کمانے والا ہے اور دوسرا کھانے والا۔ ضرورت ہے کہ اسے پالا جائے اور سہارا دیا جائے۔ اس کی بھوک کا علاج کیا جائے۔ اس کیلئے زکوٰۃ و صدقات، خیرات کا اعلیٰ نظام رائج کیا گیا جس سے ہر طبقہ کے افراد باہم وابستہ رہ سکیں۔ ان غم ہائے روزگار کا ذاتی تجربہ کرنے کیلئے اور قوم میں ایک وحدت قلبی اجاگر کرنے کیلئے روزہ کا اجراء ہوا۔ انفرادی اور اجتماعی شرکت سے یہ مقصد عظیم بھی حاصل ہوتا رہے گا۔ اس طرح یہ امت مسلمہ اپنی ثقافت میں اتحاد عالم کی داعی رہے گی۔
(7احساسِ فرض
یہاں ہر فرد کو اپنی ذات سے آگاہی حاصل ہے، وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہے۔ بہ حیثیت ایک اطاعت گزار اور فرماں بردار فرزند، ایک مشفق باپ، ایک مہربان بھائی اور ایک وفا شعار شوہر کے اس کے حقوق کا تعین ہوچکا ہے۔ یہ احساسِ فرض اس کی ساری زندگی میں اسے کام کیلئے آمادہ رکھتا ہے اور حقوق تلفی اس کیلئے دائمی عذاب کا موجب ہوتی ہے۔ اس لئے وہ سیاست، معیشت، معاشرت میں اعتدال و توازن کو برقرار رکھتا ہے۔ جبری استحصال، لوٹ کھسوٹ از خود ختم ہوکر رہ جاتی ہیں۔ جس سے معاشی ناہمواریوں کا مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی مخرب اخلاق رجحانات جنم لیتے ہیں۔
(8طہارت و پاکیزگی
ان کے علاوہ ایک اور قابل ذکر اہم خصوصیت طہارت ہے جس میں نفس کا تزکیہ، حلال و حرام کی تمیز اور روحانی پہلو کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ پاکیزگی اور تقویٰ کی فضا پھیلتی چلی جاتی ہے اور اس طرح ایک مسلمان کی زندگی متوازن صورت اختیار کرجاتی ہے۔
(9 احترام انفرادیت
اشتراکی ممالک میں جو نظام زندگی رائج ہے، اس میں انفرادی آزادی کو اجتماعی ترقی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ چین میں (Commune) کا قیام خانگی زندگی اور افراد خانہ کے احترام کے خاتمہ کے باعث ہے۔ ان کیلئے مہر و محبت کا معیار، تحفظ و امان کا ذریعہ اور رزق کا وسیلہ حکومت ہے۔ عورت، مرد، بچہ، جوان، بوڑھا بلا امتیاز حکومت کی ملکیت تصور ہوتے ہیں اور انھیں حکومتی احکامات کے بجا لانے میں کسی چوں و چرا کی گنجائش نہیں۔ بقول شخصے اس مشینی دور میں ان کا وجود بھی مشین کے مترادف ہے اور ان کی: زندگی ڈھل گئی مشینوں میں جائیداد کی ملکیت اور اس کی وراثت کا حق افراد سے چھین کر حکومت نے اپنے قبضہ میں کرلیا ہے۔ تجارت بھی حکومتی استحصال زر کا ایک ذریعہ بن چکی ہے۔ ان کی زندگی پابندیوں کی وجہ سے قید و بند کا نمونہ ہے جہاں آزادی کا نام و نشان نہیں اور اگر اس قسم کی کوئی کوشش کی جاتی ہے تو اسے بغاوت قرار دیتے ہوئے کچل دیا جاتا ہے، ہنگری کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جہاں محبانِ وطن نے روسی ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان کی بازی لگا دی لیکن پھر بھی اس نو آبادیاتی چنگل سے آزادی نصیب نہ ہوئی۔
اہل مغرب میں نام نہاد تہذیب اور روشن خیالی کے باوجود سوسائٹی میں افراد کومکمل آزادی حاصل نہیں اور آئین میں یہ شق (Clause) واضح طور پر موجود ہے کہ جب حکومت چاہے افراد کی آزادی بغیر وجہ بتائے Safty Oroinance اور سیکوریٹی ایکٹ کے ذریعے سلب کرسکتی ہے اورمعین و غیر معین مدت تک محبوب رکھنے کی مجاز بھی ہے اور ہنگامی حالات میں تو جبری اور لازمی طور پر ان سے کام لیا جاسکتا ہے۔ اس میں افراد کی رضامندی کو کوئی دخل نہیں۔ خود مر و زن کے درمیان مساوی سلوک کے ڈھونگ میں عورت کے وجود کو ضمنی حیثیت حاصل ہے اور زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ وراثت میں اسے کوئی حق حاصل ہی نہ تھا اور افراد خانہ ایک دوسرے سے آزاد اپنی اپنی فکر میں محو ہیں۔ ان میں رواداری، محبت اور ہمدردی ختم ہوگئی ہے۔ خودکشی کی وارداتوں میں اضافہ اس کابین ثبوت ہے۔
اس کے برعکس اسلام میں انفرادیت اور اجتماعیت کو حد اعتدال میں رکھ کر ایک دوسرے کیلئے باعث رحمت بنا دیا ہے۔ یہاں حقوق العباد میں سب کا مقام واضح اور متعین ہے اور اس میں کمی بیشی نہیں کی جاتی۔ درجہ بدرجہ ’’الاقرب فالاقرب‘‘ کا کلیہ پیش نظر رکھتے ہوئے حسن سلوک کی تاکید کی جاتی ہے اور ایسی کوئی قربانی یا حکم نہیں رکھا گیا جس کے باعث انسان اپنی انفرادی حیثیت کھودے۔ غلامی، بردہ فروشی کی سخت حوصلہ شکنی کردی گئی۔ حضرت عمرؓ کا یہ قول قابل غور ہے۔ ’’ان کی ماؤ ں نے انھیں آزا جنا ہے۔اس میں انسانی آزادی گھٹ کی ضمانت مضمر ہے۔ تجارت پر کنٹرول روا نہیں رکھا گیا اور حتی الوسع اس کی آزادی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی اور ایسے تمام اقدامات کی شدید مذمت کی گئی جن سے یہ آزادی گھٹ کر رہ جائے۔
جائیداد اور وراثت کا باضابطہ طریقہ مقرر کرکے انفرادی آزادی کو بڑھنے، پھیلنے اور فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔ اوامر نواہی محض اسے ایک متوازن صورت عطا کرنے کیلئے رکھے گئے ہیں۔ تعلیم ہو یا کسی پیشے کا اکتساب ہو ہر شہری بلا امتیاز تربیت حاصل کرنے میں آزاد ہے۔اس سے زیادہ وسعت قلبی اورکیا ہوسکتی ہے کہ جنگ (جہاد) کو فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے تاکہ انفرادی جوش اور رضاکارانہ جذبہ موجود رہے اور کراہت رغبت میں تبدیل ہوجائے۔
(10 اعتدال پسندی
آخری وجہ امتیاز اعتدال پسندی ہے جس میں مادی ضروریات کی افراط و تفریط جائز نہیں قرار دی جاتی۔ نام و نمود، ریاکاری اورنمائش سے الوسع پرہیز کیا جاتا ہے اور زندگی میں سادگی اور اعتدال پسندی کو مشعل راہ بنایا جاتا ہے۔ خرچ کرتے ہوئے نہ تو اسراف سے کام لیا جاتا ہے اور نہ ہی بخل پر عمل کیا جاتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2017