کسی بھی موضوع پر غور و فکر کرنے کے سلسلے میں ایک لازمی امر یہ ہے کہ اس کے مشمولات کے طول و عرض کا احاطہ کیا جائے اور یہ تعین کیا جائے کہ اس میں کیا چیز شامل ہے اور کیا اس کے دائرہ کار سے گریزاں ہے۔ اس کے بغیر اس مضمون کا صحیح فہم ممکن نہیں ہے۔ مثلاً قرآن کریم اصلاً ہدایت کی مکمل کتاب ہے۔ اس کا ادراک نہ ہونے کے سبب بہت سے لوگ سائنس، تاریخ، فلسفہ، فنون لطیفہ اور علم نفسیات جیسے غیر متعلق علوم کے لیے اس میں غواصی کرنے لگتے ہیں اور ان کے اسرار و حکم کی اپنی تلاش کو قرآنی علم کہنے اور کہلوانے پر مصر ہو جاتے ہیں۔ علم کی تاریخ میں ایسا سانحہ ہوتا رہتا ہے۔ اسلامی معاشیات کے ساتھ یہی معاملہ ہونے کا خطرہ ہے۔ معاشیات سے متعلق اسلامی تعلیمات کے مجموعہ کو اسلامی معاشیات، اسلامی تمویل اور اسلامی بینک کاری جیسی اصطلاحات سے ان معنوں میں موسوم کرنا کہ ’’یہی اسلام ہے اور باقی سب اسلام نہیں ہے‘‘کے رجحان کا ازالہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ ذرا ٹھہر کر ان موضوعات کے حدود اربعہ کا جائزہ لے کر حد بندی کر دی جائے۔ ان حدود کا خیال رکھا جائے تو ان اصطلاحوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس مضمون میں اسلامی معاشیات کے حوالے سے یہی فرض ادا کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔[1]
اسلامی معاشیات کی تعریف
ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا نے اپنے ایک مضمون میں اپنی طرف سے اسلامی معاشیات کی تعریف کرنے کے علاوہ اس زمانہ کے اس علم کے چھ دیگر مشہور ماہرین کی رائیں بھی درج کی ہیں۔ یہ تمام تعریفیں الگ الگ ہیں اور موضوع کے مختلف پہلوؤں کی طرف نشان دہی کرتی ہیں۔یہ تعریفات اور ان کا جائزہ درج ذیل ہے۔
Representative Muslim behaviour in a typical Muslim society. —Syed Nawab Haider Naqvi
’’ایک عام مسلم سماج میں نمائندہ مسلم رویہ‘‘
اس تعریف میں عمومی طور پر مسلمانوں کے سماج میں معاشیات سے متعلق رویے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کے باہر کی دنیا سے اس موضوع کا رشتہ کٹ جاتا ہے۔ مسلمانوں کا رویہ مسلمانوں کے ذریعے اور مسلمانوں کے لیے ہو کر رہ جاتا ہے۔
Study of human falah (well-being) achieved by organising the resources of the earth on the basis of cooperation and participation. —M. Akram Khan
’’انسانی فلاح حاصل کرنے کا مطالعہ جو زمین کے وسائل کو منظم کر کے شرکت و تعاون باہمی سے حاصل کی جائے۔‘‘
اس تعریف کا حسن یہ ہے کہ اس میں زمین کے وسائل کو انسانی فلاح حاصل کرنے کی خاطراستعمال کرنے پر توجہ ہے، جسے باہمی تعاون اور اشتراک سے مشروط کیا گیا ہے۔ البتہ اس تعریف میں ایسا عموم ہے کہ وہ دنیا کے تقریباً تمام معاشی نظاموں یعنی اسلامی اور غیر اسلامی نظاموں سب کے لیے درست ہوجاتا ہے۔
The knowledge and application of injunctions and rules of the Shariah that prevent injustice in the acquisition and disposal of material resources in order to provide satisfaction to human beings and enable them to perform their obligations to Allah and the society. —S.M Hasnain Zaman
’’شریعت کے احکامات اور اصولوں کا علم اور ان کے استعمال سے واقفیت جو مادی وسائل کے حصول اور استعمال میں ناانصافی سے بچاتے ہوئے انسانوں کے اطمینان کا باعث ہو تاکہ وہ اللہ تعالیٰ اور سماج کے تعلق سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکیں۔‘‘
اس تعریف کی خاص بات یہ ہے کہ مادی وسائل کے درست استعمال کے لیے شریعت کے اصولوں کے علم کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال سے واقفیت کی بھی شرط لگائی گئی ہے۔ اور اس کا مقصد انسانوں کے لیے سکون کی فراہمی بتایا گیا ہے تاکہ حقوق اللہ اورحقوق اعباد کی ادائیگی ہو سکے۔ یہاں بھی پورا تناظر مسلمانوں کے مقاصد حیات کے تئیں ہے۔ بنی نوع انسان کی دنیوی فلاح کی طرف توجہ نہیں ہے۔
A social science which studies the economic problems of a people imbued with the values of Islam. —M.A. Mannan
’’ا سلامی اقدار پر یقین رکھنے والے انسانوں کے معاشی مسائل کے مطالعہ کا ایک سماجی علم‘‘
یہاں صرف ان انسانوں کے معاشی مسائل کے حل کا ذکر ہے جو اسلامی اقدار کے حامل ہیں۔ اس طرح انسانوں کے معاشی مسائل کا تعلق کسی ایک عقیدہ اور اس پر مبنی اقدار سے منسلک کر دینا اس تصور کی پہلے قدم پر ہی ہار ہے۔ معاشی مسائل عقیدہ اور اقدار سے ماورا عمومی ہوتے ہیں۔ مسلمان اس دنیا کے کسی جزیرہ میں محدود نہیں ہیں۔ وہ دنیا کی دیگر اقوام اور ملتوں میں گھلے ملے ہیں۔ معاشی مسائل سب کے یکساں ہیں۔
Muslim thinkers‘ response to the economic challenges of their times. In this endeavour they are aided by the Qur‘an and the Sunnah as well as the by the reason and experience. —Muhammad Nejatullah Siddiqi
’’مسلم مفکرین کا اپنے زمانہ کے معاشی چیلنجوں پر رد عمل(رسپانس)۔ اس مہم میں وہ قرآن و سنت سے مدد لینے کے ساتھ عقل و تجربات کو بھی استعمال کرتے ہیں۔‘‘
نجات اللہ صدیقی کے پیش نظر اپنے زمانہ کے معاشی مسائل کا حل ہے اور اس میں مسلم مفکرین کی کاوشوں کا ذکر ہے۔ دراصل یہ معاشیات سے متعلق ہر دور کے مفکرین کے لیے دعوت عمل ہے کہ قرآن اور سنت کی تعلیمات کے ساتھ عقل اور تجربہ کو بروئے کار لاکر انسانوں کو درپیش معاشی مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہوں۔ موصوف نے اس تعریف کے بیان کرنے میں اور اپنی دیگر علمی کاوشوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ہر دور کے معاشی مسائل الگ نوعیت کے ہوں گے،اس لیے ان کا حل بھی ہمیشہ نئے سرے سے پیش کیا جائے گا۔ قرآن و سنت کی محکم تعلیمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اتنی عقل بھی دی ہے کہ ان تعلیمات اور تجربات کی روشنی میں(دیگر چیلنجوں کے ساتھ) انسانوں کے معیشت سے متعلق مسائل کو بھی حل کریں۔
A systematic effort to try to understand the economic problem and man‘s behaviour in relation to that problem from an Islamic perspective. —Khursheed Ahmad
’’اسلامی تناظر میں معاشی مسئلہ اور اس سے متعلق انسانی رویہ کا مربوط مطالعہ‘‘
اس تعریف کا حسن یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی انسانوں کے معاشی مسائل اور ان سے متعلق ان کے رویوں کا فہم اور حل پیش نظر ہے۔ اور اس حل کی جستجو اسلام کے تناظر میں تلاش کرنے کی تجویز ہے۔
That branch of Knowledge which helps realize human well-being through an allocation and distribution of scarce resources that is in conformity with the Islamic teachings without unduly curbing individual freedom or creating continued macroeconomic and ecological imbalance. —M. Umar Chapra
’’علم کی وہ شاخ جوقلیل وسائل کی تخصیص اور تقسیم اسلامی تعلیمات کےمطابق انجام دے کرانسانی آزادی اور غیر ضروری طور پر جبر اور کلی معاشیات اور ماحولیات کے توازن میں نقص پیدا کیے بغیر انسانی فلاح میں معاون ہو۔‘‘
یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ دیگراسلامی معاشیات کے ماہرین کی عمومی رائے کے بر خلاف عمر چھاپرا وسائل کی قلت کے قائل ہیں۔ مروجہ معاشیات کے تناظر میں یہ بات مسلمات میں ہے کہ زمین پر وسائل قلیل ہیں۔ عمومی طور پر مسلم مفکرین اس کی نفی کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وسائل حیات اصلاً قلیل نہیں ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تمام جائز ضرورتوں کا نظم زمین پرکر دیا ہے۔وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُون [الأعراف: 10]۔ ان کا عام تبصرہ یہ ہے کہ وسائل کی قلت انسانوں کے حرص، ان کے برپا کردہ فساد اور ان کی ناقص کارکردگی کے سبب محسوس ہوتی ہے۔ محمد عمر چھاپرا نے معیشت کی درج بالا تعریف میں قلیل وسائل کا ذکر کیا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ وجہ جو بھی ہو انسانی حرص، فساد اور خراب کارکردگی حقیقتیں ہیں۔ اس لیے جب بھی معاشی مسائل کو حل کرنا ہو گا عملاً قلت وسائل سے سابقہ ہو گا۔
عمر چھاپرا کے ذریعے دی گئی اسلامی معاشیات کی درج بالاتعریف کی خوبی یہ ہے کہ اس میں انسانی فلاح کے حصول کا طریقہ کار اور اس کے حصول کی کوشش میں جو خطرات ہیں ان کی نشان دہی کی گئی ہے۔ قلیل وسائل کو تمام انسانوں کے لیے مختص کرنے اور ان کے درمیان تقسیم کرنے کو اسلامی تعلیمات کے تحت رکھنے میں اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ وسائل کی تقسیم کے دیگر طریقے جیسے اشتراکیت اور سرمایہ کاری سے قطع نظر اسلام کی اپنی تعلیمات کے تقاضے ہیں جن کا لحاظ لازمی ہے۔ ان دیگر طریقہ ہائے کار نے انسانی آزادی پر جبر کرنے، کلی معاشیات(macroeconomics)میں بگاڑ اور ماحولیات کے توازن کے لیے جو مسائل پیدا کر دیے ہیں ان سے احتراز لازمی ہے۔
اسلامی معاشیات کی درج بالا تمام تعریفات کا جائزہ لینے سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں۔
- اسلامی معاشیات کا مقصد انسان کی مادی فلاح ہے۔
- گرچہ چند ماہرین کا رجحان اسلامی معاشیات کا مطالعہ مسلم سماج کے تناظر میں کرنے کا ہے۔ لیکن راجح بات یہی ہے کہ اس کا مقصد اور دائرہ کار پوری انسانیت ہے اور بحیثیت مجموعی اس کی توجہ تمام انسانوں کے معاشی مسائل کے حل کی طرف ہے۔
- انسان کے معاشی مسائل ہر دور، بلکہ ہر علاقہ کے جداگانہ ہو سکتے ہیں اس لیے اس دور کے ماہرین کو قرآن و سنت میں موجود تعلیمات کی روشنی میں سعی کرنی چاہیے اور اس میں انسانی تجربات سے بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے عقل کا استعمال کرنا لازمی ہے۔ دوسرے لفظوں میں صرف قرآن و سنت کی آیات کی نقل کافی نہیں ہے بلکہ ان کی فراہم کردہ رہ نمائی اور ان کے مقاصد کا فہم حاصل کر کے معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونا مطلوب ہے۔
’اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے‘ کا مفہوم
نجات اللہ صدیقیؒ نے قرآن و سنت کے ساتھ تجربہ اور عقل سے فائدہ اٹھانے کی جو بات کہی ہے اس کے تناظرمیں یہ بات غور طلب ہے کہ انسانی معاملات اور علم کے مختلف شعبوں میں دین کے بنیادی ماخذ یعنی قرآن کریم اور سنت رسول اللہﷺ سے ہمیں کیا رہ نمائی ملتی ہے۔ اکثر جب ہم یہ خطیبانہ (rhetorical)جملہ بولتے ہیں کہ ’اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے‘ تو یہ بات ذہن کے کسی گوشے میں ہوتی ہے کہ زندگی کے جملہ امور کی تفصیلی معلومات اور ان کا حل اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں درج کر رکھا ہےاور ہمارا کام بس یہ ہے کہ قرآن کی گہرائی میں غواصی کریں اور وہ ہیرے موتی نکال لائیں جوتمام درد کا درماں (panacea)ہوں۔دراصل ’اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے‘ کا حیات بخش جملہ جس تناظر میں کہا گیا تھا وہ یہ تھا کہ اسلام کو عیسائیت کی طرح بندے اور خدا کے درمیان کا ایک پرائیوٹ معاماملہ قرار دیا جا رہا تھااور جملہ نظام ہائے حیات میں وحی کی ضرورت کوبے معنی قرار دینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ یہ بات درست ہے کہ دین اسلام زندگی کے تمامی معاملات کو محیط ہے اور اس کا دائرہ کار عقائداور مراسم عبودیت کے ساتھ معاملات دنیا کو بھی محیط ہے۔
معاشیات سے متعلق مختلف افراد کے ساتھ نجات ا للہ صدیقی کی انگریزی زبان میں خط کتابت کا مجموعہ شایع ہوا ہے۔ اس میں علم نفسیات کے ایک استاد ڈاکٹر بنرجی کے نام خط میں موصوف نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے جو درج ذیل ہے۔[2]
’’یہ بات کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے ایک مخصوص تناظر میں ہے۔ معاشی و اقتصادی اور سیاسی دائروں میں، جن میں بنیادی کیفیات تغیر پذیر رہا کرتی ہیں ، اسلام سماج کی رہ نمائی کا موقف اختیار کرتے ہوئے کچھ بنیادی اور رہ نما اصول کی تعین کر دیتا ہے۔ ان اصولوں پرہمیشہ معاصر اقوام کے ذریعے نئے سرے سے تفصیات طے کرنی ہوتی ہیں۔
زندگی کے دیگر شعبوں میں اسلام بنیادی سطح پر اقدار، اصول اور اعمال کی کارکردگی پر زور دیتا ہےاور راہ متعین کرنے کا کام کرتا ہے۔ ان امور میں وہ ’کیا ہونا چاہیے‘ جیسے سوالات کا جواب بہم پہنچاتا ہے اور ’کیا ہے‘جیسے سوالات سے درگزر کرتا ہے۔ گرچہ مابعد الطبیعات امور جیسے خالق کائنات، زندگی بعد موت جیسے امور کے بارے میں یقینی طور پر ’کیا ہے‘ جیسے سوالات سے متعلق بھی اس کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہے، تاہم جوہر (ایٹم)، خلائے فلکیات اورانسانی شعور کے سربستہ رازوں میں جھانکتا نہیں ہے۔ قرآن مثبت سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ اگر ان معاملات میں قرآن کے حوالے سے کوئی نتیجے اخذ کیے جاتے ہیں تو بسا اوقات وہ اپنے مضمرات میں بالواسطہ اور دور از کار ہو سکتے ہیں۔ظاہر سی بات ہے ایسے نتائج کی درستی و معنویت زیادہ سے زیادہ محدود ہو سکتی ہے۔ ہمارے ماضی کے تجربات کی روشنی میں (یہ کہا جا سکتا ہے کہ) ایسے استنباط کی بنیاد پر نظریاتی ڈھانچہ کی تعمیر بہت پر خطرواقع ہوتی ہے۔ لہٰذا علم کے میدان میں قرآن کے راست اور واضح بیانیوں تک ہی محدود رہنا بہتر ہے۔ انسان کو ایسی وافر صلاحیتیں دی گئی ہیں جنھیں بروئے کار لاکر وہ قدرت کے طبعی و نفسیاتی اسرار و رموز کا جائزہ لے سکتا ہے۔ قرآن انسان کی انھیں صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اکتساب علم کی ترغیب دیتا ہے۔
—اسلام یہ دعوی نہیں کرتا ہے کہ وہ ’علم کے تمام شعبوں کی تمام معلومات فراہم کرتا ہے‘—زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ علم کے بہت سے شعبوں میں اسلامی رویہ موجود ہے۔‘‘
قرآن حقیقتا کتاب ہدایت ہے اس لیے اس میں ہدایت کا تمام ضروری سامان مہیا کر دیا گیا ہے۔ جن امور میں اس بات کا خطرہ تھا کہ انسان اپنی عقل اور اپنے تجربات اور اپنے انفرادی و گروہی مفادات کے سبب از خود صحیح نتائج تک نہیں پہنچ سکے گا وہاں قرآن نے ترغیب یا امر و نہی کے احکامات جاری کیے ہیں۔ان احکامات کے بھی مختلف درجات ہیں جنھیں دین اسلام کے ماہرین نےفرض، واجب، سنت،مستحب، مباح،حرام،مکروہ تحریمی، مکروہ تنزیہی اور خلاف اولیٰ جیسی اصطلاحات سے ممیز کیا ہے۔ خصوصاً قرآن کریم نے جن موضوعات پر ہدایت عطا کرنے کو اپنا موضوع بنایا ہے ان میں منہیات و محرمات (منع و حرام کرنے) کے سلسلے میں واضح آیات موجود ہیں۔ قرآن کریم نے دیگر علوم کے ساتھ یہ اصولی طریقہ کار علم معاشیات کے لیے بھی اختیار کیا ہے۔ اسی طرح قرآن کے احکامات کی تعبیر و تشریح اور ان سے متعلق زائد احکامات کا ماخذ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔
بنیادی طور پر حرمت و حلت کے سلسلے میں قرآن کا رویہ سہولت فراہم کرنے اور انسانوں کو تنگی سے بچانے کا ہے۔ نبی کریمﷺ کی درج ذیل حدیث اس معاملہ میں دین اسلام کو سمجھنے میں معاون ہے۔
ما أحلَّ اللهُ في كتابِه فَهوَ حلالٌ، وما حرَّمَ فهوَ حرامٌ، وما سكَتَ عنهُ فهوَ عَفوٌ فاقبلُوا مِنَ اللهِ عافيتَه، فإنَّ اللهَ لَم يكنْ لِيَنسَى شيئًا
’’جس چیز کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا ہے وہ حلال ہے اور جس چیز کو حرام کیا ہے وہ حرام ہے اور جس چیز پر خاموش ہے وہ معاف ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ سہولت کو قبول کرو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔‘‘[3]
ایک نئی تعریف کی ضرورت
اسلامی معاشیات کی برکتوں کو اسلامی ماحول اور مسلمانوں کے درمیان سے باہر لانے اور پوری نوع انسانی کو مستفید کرنے کے لیے اس موضوع کے ماہرین کو اپنے رویوں اور ترجیحات پر ازسر نو غور کرنا چاہیے۔ اس کی پہلی کڑی اسلامی معاشیات کی نئی تعریف ہے۔ ہندوستان اور دیگر جمہوری ممالک میں جہاں دستوری طور پر مسلمان برابر کے شہری ہیں اور ملک کے مفاد میں اپنی بات کہنے کا موقع رکھتے ہیں، یہ بات مفید نہیں ہے، بلکہ مطلوب بھی نہیں ہےکہ معاشیات سے متعلق تمام احکامات کے مجموعے کی وکالت کی جائے۔ دین اسلام کے مزاج میں جو سہولت موجود ہے اس کے مطابق محرمات کی نفی پر اپنی توجہ مرکوز رکھنا اور دیگر مطالبات کو عقل اور تجربہ کے استعمال پر اعتماد کرتے ہوئے توجہات کا ثانوی درجہ دینا صحیح طریقہ کار ہو گا۔ مثلاً ربا کے بغیر معیشت کی تنظیم نواور میسر [excessive speculation] کے نتیجہ میں حقیقی معیشت[real economy] کی تباہی اور مالیاتی معیشت [financial economy]کےخطرناک نتائج کوعلمی اور مشاہداتی [empirical]طریقہ پر موضوع گفتگو بنانا مفید ہو گا۔ اسلامی معیشت کی تعریف میں محرمات کے پہلو کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً خورشید احمد نے جو تعریف کی ہے اس میں اس پہلو کو شامل کرکے یوں کہا جا سکتا ہے۔
A systematic effort to try to understand the economic problem and man‘s behaviour in relation to that problem from Islamic perspective of prohibitions.
’’اسلامی محرمات کے تناظر میں معاشی مسئلہ اور اس سے متعلق انسانی رویہ کا مربوط مطالعہ‘‘
یہ بات ظاہر ہے کہ کسی شے سے حرام نکل جائے تو جو چیز بچے گی وہ حلال، مباح اور جائز ہو گی۔
ماہرین کی توجہ کا اصل مرکز
1970 کی دہائی تک عموماً اسلامی معاشیات کے ماہرین کی توجہ اصل موضوع پر رہی۔ اس کے بعد جب اسلامی تمویل کا غلغلہ اٹھا تو ان میں سے بیشتر افراد اس کی طرف متوجہ ہو ئے جیسے کہ اسلامی بینکنگ اور اس سے متعلق امور ہی معاشیات کے موضوع ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ معاشیات اور تمویل گرچہ ایک دوسرے سے قریب اور جڑے ہوئے ہیں لیکن بہرحال دو الگ موضوعات ہیں۔
معاشیات کا بنیادی تعلق زمین پر انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے ان وسائل کا بہتر استعمال ہے جو فوری طور پر قلیل ہوتے ہیں۔ یہاں ان قلیل وسائل سے انسانی حاجات کے لیے اشیاء اور خدمات کی پیداوار اور ان کی تقسیم کے مسائل کے گرد توجہ رہتی ہے۔ پیداوار کے اس عمل میں تمویل کی ضرورت بھی پیش آتی ہے جو یکے از مسائل ہے۔ دوسری طرف خالص تمویل کی بنیادی فکر [concern]اور اس کے تقاضے دوسرے ہیں۔ اکثر تمویل خود ایک مقصد بن جاتی ہے اور اشیاء و خدمات کی پیداوار مقصود نہیں رہ جاتی ہے، جس کے سبب یہ تمویل معاشی عمل کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ دونوں کے راستہ کچھ دور ساتھ چل کر جدا ہو جاتے ہیں اور ان کے مقاصد ایک دوسرے کی ضد بن جاتے ہیں۔ اکثرحقیقی معیشت[real economy] کی تباہی کا بنیادی سبب مالیاتی معیشت [financial economy]ہوتی ہے۔ اور مالیاتی معیشت کی تباہی کا سبب زیادہ تر بے قید تمویل ہے۔ اسلامی تمویل کے نام پر مضاربہ اور اجارہ کے ذریعے جو طریقہ جاری ہے وہ بنیادی طور پر پیداواری عمل سے لا تعلق ہے اور معیشت میں اس عمل کے بغیر قرض کے اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔
پیداواری عمل سے شروع ہو کر تکوین ثروت[capital formation] تک کا معاشی سفر اسلامی معیشت کے ماہرین کی بنیادی فکر ہونی چاہیے۔
حوالہ جات
[1] Chapra, Umar (2001); What is Islamic Economics (Lecture Series No. 9), Second Edition; Islamic Development Bank, Islamic Research and Training Institute, Jedda, KSA
[2] Siddiqi, Muhammad Nejatullah; Dialogues in Islamic Economics (2002); Institute of Policy Studies, Islamabad ’ The Islamic Foundation, Leicester, UK; [pp72-74]
[3] عن ابی الدرداء
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2022