تحریک اسلامی اور فروغ انسانی وسائل

اسلامی تحریکات کی تاریخ چودہ سوسال پر پھیلی ہوئی ہے۔‌ اگر سرزمین اسلام پر استعمار کے تسلط کے حوالے سے دیکھا جائے تو بعض تحریکیں استعمار سے قبل کی ہیں، بعض استعمار کے دوران ابھریں اور اس وقت دنیا میں جو مشہور ومعروف اسلامی تحریکات ہیں، جو بنیادی طور پر دو تحریکوں کے بطن سے پیدا ہوئی ہیں، انھیں ہم مابعد استعمار تحریکات میں شمار کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ دور جدید میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے عقیدے اور اپنی شناخت کے سلسلے میں زیادہ حساس ہوئی ہے اور مذہبی شعور کی بازیافت نے انھیں زندگی کے مختلف دائروں میں اسلام کے اظہار میں بے باک بنایا ہے جو دور استعمار میں مفقود تھا۔ امریکی مصنف جان ایسپوزیٹو کے مطابق مسلمانوں کے اندر نیا عزم وحوصلہ پیدا کرنے اور اپنی شناخت کے سلسلے میں جرأت پیدا کرنے میں دو اسلامی تحریکوں کا اہم ترین کردار ہے، ان کے بانی حسن البنا شہیدؒ اور مولانا مودودیؒ ہیں۔ ان کے بقول آج ساری دنیا میں اسلام پسند نوجوانوں کی بڑھتی تعداد، ان کے ظاہری حلیے میں اسلامی شناخت کی جھلک، ٹرینوں پارکوں اور دفتروں میں نمازوں کا اہتمام، قرآن کی طرف واپسی اور زندگی کے مختلف مسائل میں حل کے لیے اسلام کی طرف متوجہ ہونا یہ وہ اہم ترین تبدیلیاں ہیں جو اسلامی تحریکات نے نئی نسل کے اندر پیدا کی ہیں۔ اسلامی شعور کی بازیافت میں بڑا تنوع پایا جاتا ہے، لیکن تنوع کے باوجود سب کے درمیان مشترک بات یہ ہے کہ ہر جگہ افراد کی تنظیم بندی ہوئی ہے، جہاں صلاحیتوں کی پہچان، ان کی قدردانی، ان کی صلاحیتوں کو اسلامی کاز کے لیے ابھارنے، پروان چڑھانے اور ان کا صحیح استعمال کرنے پر توجہ دی گئی۔ پچھلی تحریکوں کے مقابلے میں ان تحریکات میں عصر حاضر کے تعلیم یافتہ طبقے نے تحریک کی دعوت میں کشش پائی اور کثیرتعداد میں تحریک سے وابستہ ہوئے۔ مولانا مودودی فرماتے ہیں: جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے سلیم الطبع اور سنجیدہ لوگ بہت تیزی سے ہماری دعوت اور جماعت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اور ان میں سے جتنے لوگ بھی اب تک نکلے ہیں وہ بہت پختہ اور کارآمد ثابت ہو رہے ہیں۔ (روداد حصہ سوم صفحہ 25)

عصر حاضر کی اسلامی تحریکات کی دوسری امتیازی پہچان یہ رہی کہ انھوں نے اپنے تنظیمی ڈھانچے کے لیے اسلامی روح سے ہم آہنگ رہتے ہوئے جدید ترین نمونوں سے اکتساب کیا۔ تنظیم کا مقصد، نصب العین، طریقہ کار اور تنظیمی ڈھانچے کی وضاحت کے لیے دستور بنایا گیا ہے۔ تنظیم کا مزاج شورائی طے کیا گیا ہے۔ دستور کی روشنی میں مختلف طریقوں سے تنظیم سے وابستہ افراد اپنے امیر اور دیگر ذمہ داروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں تحریکات میں آزادی رائے اور آزادانہ انتخاب کا ماحول اور رواج مضبوط تر ہے۔ کاموں کی تقسیم شعبہ جات میں ہوتی ہے اور اس کی ذمہ داری اس کام سے مناسبت رکھنے والے افراد کے سپرد کی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کے قیام کے روز اول سے یہی طریقہ کار رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے قیام کے فورا بعد ١٩٤١ میں شوریٰ کا انتخاب ہوا اور شروع میں کاموں کی تقسیم حسب ذیل شعبوں میں ہوئی۔ شعبہ علمی و تعلیمی، شعبہ نشرواشاعت، شعبہ تنظیم جماعت، شعبہ مالیات اور شعبہ دعوت وتبلیغ۔ ١٩٤٤ کے اجلاس شوریٰ میں چارعنوانات کے تحت کاموں کو تقسیم کیا گیا۔ وہ تھے تعلیم وتربیت، علمی تحقیق، دعوت عام اور معاشی تدبیر۔ ہر شعبے کا ایک کنوینر اور اس کے کچھ ارکان ہوتے تھے جو اس شعبے سے متعلق صلاحیتیں اپنے اندر رکھتے تھے۔ تحریک کی معاشی مضبوطی کی خاطر مولانا مودودیؒ کے پیش نظر یہ پروگرام بھی تھا کہ ہماری جماعت میں جو لوگ کسی قسم کا صنعتی وتجارتی کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں وہ یہاں آئیں اور اپنی قابلیتوں سے کام لے کر دولت پیدا کریں ایک حصہ اپنی ذات پر اور دوسرا حصہ اپنے مقصد زندگی کی خدمت پر صرف کریں۔ (روداد جماعت حصہ اول صفحہ 37) تحریکات کو جب مطلوب انسانی وسائل میسر نہ آئیں تو کام میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں اور کام کے منصوبے کو تکمیل تک پہونچانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ ایک جگہ فرماتے ہیں: “تیسری اہم رکاوٹ مردان کار کی کمی ہے. بڑے اجتماعی کام صرف اس طرح ہوسکتے ہیں کہ قیادت و رہ نمائی کا کام جس شخص کے سپرد ہو اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے عمدہ صلاحیت رکھنے والے چند آدمی موجود ہوں جو ایک ایک شعبے کا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ سنبھال سکیں۔ اس قسم کے آدمی مجھے ابھی تک میسر نہیں آ سکے۔”

اسلامی تحریکات کی تیسری امتیازی پہچان یہ ہے کہ اس نے خدمت دین اور نصرت دین کے لیے روایتی دینی مدارس کے فارغین کی ایک قلیل تعداد کے ساتھ جدید تعلیم گاہوں کے فارغین کی ایک کثیر تعداد، متنوع صلاحیتوں اور مختلف میدان کار کے افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور تحریکی کام کے لیے بہت سے ادارے بنائے گئے۔ سیاسی سماجی اور ملی تنظیموں کی بنا ڈالی گئی۔ سماج میں ایک صالح تبدیلی اور انقلاب کے لیے وہ بہترین ایجنٹ کا رول ادا کرتے ہیں۔‌ انھوں نے اپنے کام کو فروغ دینے کے لیے جدید ذرائع کو اپنانے سے گریز نہیں کیا۔ ان کے خود اپنے میڈیا ہاؤس قائم ہوئے۔ ان تحریکوں کا کیڈر سول سوسائٹی میں کارکنوں کی پہچان رکھتا ہے۔ قدرتی آفات اور انسانی مظالم سے متاثر ہونے والوں کو مدد پہونچانے کے لیے خدمت خلق کے ان کے ایسے شان دار کارنامے ہیں جنھیں دوست تو دوست دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں جتنی اسلامی تحریکات ہیں انھوں نے اپنے کام کو پھیلانے کے لیے جہاں بہت سے شعبہ جات بنائے وہیں بہت سے تعلیمی ادارے قائم کیے۔ دینی درس گاہیں قائم کی گئیں جہاں قرآن وسنت پر نگاہ رکھنے والے علماء اور اسکالرز تیار ہوئے جو موجودہ دور کے چیلنجوں کا تشفی بخش جواب دے سکیں۔ اسکول اور کالجوں کے نیٹ ورک قائم کیے گئے جنھیں چلانے کے لیے بڑی تعداد میں اساتذہ کی ایسی ذہنی وفکری تربیت کی گئی کہ وہ اسلام کے نظام تعلیم کے قیمتی پرزے ثابت ہوسکیں۔‌ تحریک کے پیش نظر جو تبدیلی لانی ہے اس کے لیے علوم کو اسلامیانے کا کام‌ بھی ساتھ ساتھ شروع ہوگیا اورعلوم پر دسترس رکھنے والے افراد کار بھی تیار ہونے لگے۔ ‌اسی طرح زندگی کے مختلف شعبوں میں افراد کار تیار ہونے لگے جو زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلام کی بہتر ترجمانی کرسکیں اور دنیائے انسانیت کی رہ نمائی کرسکیں۔ ہزارہا مسجدیں قائم کی گئیں جہاں بہترین خطیبوں کے ذریعے حالات حاضرہ میں اسلام کی رہ نمائی کے حوالے سے انسانوں کی رہ نمائی کا کام کیا جانے لگا۔ یہ ان عام مساجد سے جہاں ثواب اور فضائل پر مشتمل وعظ ہوتے ہیں مختلف ثابت ہوئیں۔ اس لیے ان مساجد میں عوام کے لیے کشش بڑھی۔‌ معاشرے میں جا بجا اسپتال قائم کیے گئے۔ بعض مرتبہ دیگر اسپتالوں کے مقابلے میں ان اسپتالوں  نےخدمت اور معیار کی بہتر مثالیں پیش کیں۔ اس طرح دسیوں قسم کے اداروں کے ذریعہ تحریکات نے اپنے کام کے لیے سماج میں نفوذ کی راہیں پیدا کیں۔ ان اداروں اور کاموں کے ذریعے اساتذہ، ماہرین تعلیم، ماہرین معاشیات، ڈاکٹر، میڈیا پرسن، مضمون نگار، کہانی اور افسانہ نگار، مصنفین، مقررین جیسے انسانی وسائل کی ایک کھیپ تیار ہونے لگی۔‌

ان تحریکات کی چوتھی امتیازی پہچان اسلامی سیاست رہی۔ روز اول سے تحریکات کے تصور دین میں سیاست کو بڑی اہمیت حاصل تھی، بلکہ کبھی تو سیاست کی اصلاح اول درجے کی ترجیح رہی اس خیال کے ساتھ کہ سیاست کی تبدیلی کے گہرے اثرات زندگی کے دیگر امور پر پڑتے ہیں، اس طرح سماج کے ہر پہلو پر اثر انداز ہونا آسان ہے، اور اس کے ذریعے صالح تبدیلی لانا ممکن ہو سکے گا۔ مصر، سوڈان، الجزائر، تونس، مراکش، ترکی، لیبیا، شام، ایران، پاکستان، افغانستان، ملیشیا اور انڈونیشیا پرنگاہ ڈالنے سے اسلامی تحریکات اور سیاسی کشمکش کا منظرنامہ ابھر کر نگاہوں کے سامنے آجائے گا۔ اس تصور دین کے نتیجے میں انھیں اقتدار سے کشمکش بھی کرنی پڑی۔ کہیں حکمرانی کی پوزیشن ملی، کہیں حزب اختلاف بن کر اسمبلی اور پارلیمنٹ میں نشستیں پائیں، کہیں کارپوریشن کی سطح پر اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ سماج پر اثرات مرتب کرنے کے بہترین مواقع ہاتھ آئے۔ اور کہیں بے رحمی کے ساتھ ان کا گلا گھونٹا گیا اور ظالم وجابر حکمرانوں نے سنگ دلی کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے ان تحریکات کو کچل کر صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوششیں بھی کیں۔‌ بعض ملکوں میں تحریکات اقتدار میں یا اس سے کشمکش کی پوزیشن میں تو نہیں ہیں، تاہم سماج میں بہت مقبول قوت کی حیثیت رکھتی ہیں، اس مرحلے سے آگے بڑھ کر سیاسی وسماجی تبدیلی میں قائدانہ رول ادا کرنے کے لیے انھیں انسانی وسائل کی ایک بڑی تعداد کو اپنی صفوں میں لانے کی اشد ضرورت ہے۔ ‌مولانا مودودیؒ سے جب ابتدائی زمانے کے کارکنان پوچھا کرتے تھے کہ ہم عوامی تحریک کب بن پائیں گے اس وقت ان کا یہی جواب ہوتا : ہمیں عوام میں عمومی تحریک چلانے سے پہلے ایسے آدمیوں کو تیار کرنے کی فکر کرنی ہے جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلی درجے کی دماغی صلاحیتیں رکھتے ہوں کہ تعمیر افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دوہرے فرائض کو سنبھال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں عوام‌ میں تحریک کو پھیلا دینے کے لیے جلدی نہیں کر رہا ہوں۔ بلکہ میری تمام تر کوشش اس وقت یہ ہے کہ ملک کے اہل دماغ طبقوں کو متاثر کیا جائے، اور ان کو کھنگال کر صالح ترین افراد کو چھانٹ لینے کی کوشش کی جائے جو آگے چل کر عوام کے لیڈر بھی بن سکیں اور تہذیبی اور تمدنی معمار بھی۔ آگے وہ فرماتے ہیں:عمومی تحریک کے آغاز سے پہلے چند تعمیری کام کر لینے ضروری ہیں ایک یہ ہے کہ ہم اپنے تعلیمی پروگرام کی بنا ڈال دیں کیونکہ ضروری نہیں کہ ہم اپنی زندگی میں اپنے نصب العین تک پہنچ جائیں۔ اس لیے ہمیں ابھی سے یہ فکر کرنی چاہیے کہ ہم اپنے سے بہتر کام کرنے کے لیے آئندہ نسل کو تیار کرنا شروع کردیں۔ دوسرے ہمیں اہل قلم کا ایک ایسا لشکر تیار کر لینا چاہیے جو علوم وفنون اور ادب کے ہر پہلو سے نظام حاضر پر حملہ آور ہو سکے۔ کچھ سیاسی مفکر ہوں جو حال کی کافرانہ سیاست کے مکروہ خدوخال کو خوب نمایاں کریں، کچھ معاشی ماہرین ہوں جو رائج الوقت معاشی تنظیم کے عیوب کو کھول سکیں، کچھ علماء قانون کی ضرورت ہے جو انسانی قوانین کی بے اعتدالیوں کو نمایاں کریں، اخلاق ونفسیات کے کچھ حکماء ہونے چاہئیں جو عہد حاضر کے علم النفس اور علم الاخلاق کی کوتاہیوں کی نشاندہی کریں اور اس تخریبی کارروائی کے ساتھ ساتھ یہ لوگ علوم کی نئی تدوین کا تعمیری کام بھی سنبھال لیں۔ ان مجتہد مفکرین کو مدد بہم پہنچانے کے لیے ادیبوں افسانہ نگاروں اور ڈرامہ نویسوں کا ایک گروہ بھی ہونا چاہیے جو فکری میدان کارزار میں گوریلا وار لڑتا رہے۔ تیسرا تعمیری کام ہمیں یہ کرنا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے عمومی تحریک کو چلانے کے لیے کارکنوں اور رضاکاروں کی تربیت کی جائے۔ ہمیں مقرروں سے لے کر خاموش کارکنوں تک بالکل نئی وضع کے کارندے درکار ہیں جن کے اندر خشیۃ اللہ کی روح جاری وساری ہو۔ ان تینوں شعبوں میں کم سے کم تعمیری کام کی ضرورت ہے۔ اس کو انجام دینے سے پہلے یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ ہم عوام میں انقلابی دعوت پھیلانے کے لیے کوئی کامیاب اقدام کر سکتے ہیں۔  (روداد حصہ اول صفحہ 52 اور 53)

الحمدللہ اس خاکے پر تحریک اسلامی ہند نے توجہ دی اور علوم کے مختلف میدانوں میں اعلی ترین صلاحیت کے افراد کو نہ صرف تحریک سے قریب کیا بلکہ انھوں نے ان میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی سے کون واقف نہیں؟ اسلام اور معاشیات کے موضوع پر سوچنے، قلم اٹھانے، معاشیات کے ماہرین کے درمیان ذہن سازی کرنے، اسلامی معاشیات کی بنیاد پر چھوٹے بڑے رفاہی اداروں کے قیام کے پیچھے اصل محرک کی حیثیت سے انھوں نے path breaking کام انجام دیا جنھیں بجا طور پر اس میدان کا سرخیل کہا جاسکتا ہے۔

جماعت اسلامی ہند نے 1951 کی شوریٰ میں فیصلہ کیا کہ جماعت کے تعلیمی تصورات کے مطابق ایک درسگاہ کا قیام عمل میں آنا چاہیے تو اس فیصلے کے نفاذ کی ذمہ داری مولانا افضل حسینؒ پر ڈالی گئی۔‌ یہ درس گاہ رامپور میں قائم ہوئی اور بڑی آب وتاب کے ساتھ کام کرتی رہی جس سے ہزارہا قابل فخر طلبہ فارغ ہوئے۔ درسیات کی تیاری ایک نیا اور انوکھا کام تھا۔ بچپن سے ہی اسلامی خطوط پر ذہن سازی کرنے والی درسیات کا مجموعہ ان کا ایک شاہکار کارنامہ، اور نسل نو پر احسان عظیم ہے۔

جماعت کی نظریاتی بنیادوں، جماعت سازی کی دینی حیثیت اور وابستگان تحریک کی علمی فکری اور روحانی ارتقا کے لیے جس اعلی درجے کے فکری مواد کی ضرورت تھی اسے مولانا صدر الدین اصلاحیؒ نے احسن طریقے سے پورا کیا۔ ان کے ساتھ ساتھ لکھنے والوں کی ایک بڑی ٹیم تیار ہوئی جن میں مولانا عروج احمد قادریؒ، مولانا حامد علیؒ اور مولانا جلال الدین عمری وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

اردو زبان سے لے کر انگریزی اور دیگر مقامی زبانوں میں اخبار اور میگزین اور انھیں اپنے دور کے اخبار اور میگزین کے مقابلے میں انفرادیت عطا کرنے والے قلم کاروں کی بھی ایک ٹیم تیار کی گئی۔ محمد مسلمؒ صاحب کو اس قافلے کے سالار کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کی تحریروں کا نچوڑ تکریم انسانیت تھا۔ ‌ان کے مضامین اور ان کے عمل سے انسانی مساوات کا درس ملتا تھا۔ اتحاد امت کے لیے وہ اپنے سینے میں ایک دھڑکتا دل رکھتے تھے۔ نصوص سے ثابت شدہ امور کے علاوہ وہ انسانی فہم کے معاملات میں اختلاف رائے کا احترام کرنے کے قائل تھے۔ دلی کی گنجان آبادی میں ایک کمرے والے گھر میں رہا کرتے تھے جہاں ملاقات کے لیے بڑے بڑے سیاسی لیڈران، اخباری نمائندے اور دانش وران ملک وملت ملاقات کے لیے آتے تھے۔

آزادی اور تقسیم ہند کے بعد جو صورتحال ہندوستان میں پیدا ہوگئی تھی وہ انتہائی بھیانک تھی۔ فسادات کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ تھا۔ مسلم علماء، دانش وروں اور اہل سیاست کو ایک جگہ جمع کر لینا نہایت مشکل امر تھا۔ مسلمانوں کے پیر اکھڑ رہے تھے اور ان میں حوصلہ واعتماد پیدا کرنا تن مردہ میں روح پھونکنے کے برابر تھا۔ اس کے لیے مولانا عبداللیث اصلاحیؒ جیسی عبقری شخصیت کی قیادت کی ضرورت تھی جسے تحریک نے پہچانا اور خدا نے ان سے وہ بڑا اور ضروری کام لیا۔

ایسے ہزارہا افراد ملکی، ریاستی اور مقامی سطح پر تحریک سے وابستہ ہوئے اور انھی انسانی وسائل کے ذریعے تحریک کی جڑیں مستحکم ہوئیں جو آج ایک شجر سایہ دار کے مانند ہے۔

سوال یہ ہے کہ آج کے حالات میں وہ کون سی صلاحیتیں ہیں جو تحریک کے لیے اشد ضروری ہیں، جن کا پیدا کرنا تحریک کی ترجیحات میں شامل ہو اور جن کے بغیر حق وباطل کی کشمکش میں حق کی دھار کند ہو جائے گی۔ اس کے لیے نیچے کی سطور میں حالات کا ایک سرسری جائزہ بھی لیا گیا ہے جس سے اندازہ ہوگا کہ ان حالات میں کام کرنے کے لیے بعض ایسی مخصوص صلاحیتیں درکار ہیں جن سے فی الحال ابھی ہماری صفیں خالی ہیں۔

١.نئے حالات میں قرآن مجید سے ہدایت کا اکتساب

اللہ تعالی اپنی اسکیم کے مطابق انسانوں کے پاس روز اول سے ہدایتیں بھیجتا رہا اور آخری مرتبہ انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید نازل فرمایا جو اپنے آپ میں ایک معجزہ ہے اور اس میں رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے رہ نمائی کا سامان موجود ہے۔ اپنے زمانے کے حالات و مسائل کے لیے اس سے رہ نمائی اخذ کرنا اس زمانے کے مسلمانوں کی اور بالخصوص ان کے علماء، مفکرین اور دانش وروں کی ایک دینی ذمہ داری بنتی ہے۔ زمانے کے چیلنجوں کو قبول کرتے ہوئے کسی معتبر رہ نما تفسیر کے منصہ شہود پر آئے ہوئے تقریبا نصف صدی بیت گئی۔ اس دور کے مفکرین اور دانش وران پر یہ کام ایک قرض ہے۔‌ کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ تفسیر لکھنے کے لیے چودہ علوم درکار ہیں، مگر اب علوم کے انفجار کے زمانے میں جب کہ علم کی مقدار ہرتیرہ مہینے میں دوگنی ہوتی جارہی ہے، یہ چودہ علوم بھی کافی نہیں ہوسکتے۔ بیسویں صدی کی شروعات تک علم ہر سو سال میں دوگنا ہوتا تھا مگر اب اس کے لیے صرف تیرہ مہینے درکار ہوتے ہیں. کہا جاتا ہے کہ جب انٹرنیٹ آف تھنکس عام ہوجائے گا اس وقت ہر بارہ گھنٹے میں علم دوگنا ہونے لگے گا۔ علم کی بے پناہ اور ہمہ گیر وسعت، پیچیدہ سافٹ ویئر، آرٹیفیشل انٹیلی جنس   علم کے اخذ وتبادلے میں تعاون باہمی کو لازم کر دے گا۔

آج قرآنی آیات کی تفسیر کرنے کے لیے علم الفلسفہ، علم البشریات، علم النفس، علم الکائنات، علم التاریخ، کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا علم، نینو ٹیکنالوجی وغیرہ سے واقفیت، ابراہیمی عقائد کے مذاہب کی تاریخ، دور جدید کے باطل نظریات و فلسفہ سے واقفیت، انسانی تہذیب کے سفر، عالمی سطح کے ادارے وقوانین، حقوق انسانی کی تحریکات وغیرہ سے آگاہی کسی نئے مفسر کے لیے ضروری ہوگی اور اس کے بعد ہی وہ قرآنی آیات کے حوالے سے بدلے ہوئے حالات کے تناظر میں قرآن کی رہ نمائی پیش کرسکے گا، جو موجودہ دور کے انسان کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا تشفی بخش جواب ہوسکے۔ دور جدید کا انسان جن مسائل میں پھنسا ہوا ہے، اور جو نظریات وقوانین انسان کی رہ نمائی اور فلاح وبہبود میں معاون ہیں، انسانی تہذیب نے جو نئی کروٹ لی ہے، حقوق نسواں کی تحریکات نے جو ایشوز اٹھائے ہیں، اس پس منظر میں قرآن کا مطالعہ انسان کو مختلف ابعاد میں اس دنیا میں کامیاب اور پرسکون زندگی بسر کرنے میں رہ نمائی کرسکے گا۔

چونکہ قرآن رہ نمائی کی کتاب ہے اس لیے دور جدید کا تقاضا ہوگا کہ قرآن مجید کی تفسیر کی صورت میں انسانی سماج کے مادی وروحانی مسائل اور پیچیدگیوں پر ایسی رہ نمائی ہو جو فرد کے لیے بھی اور سماج اور ان کے اداروں کے لیے بھی مفید ہو۔

اب بدلے ہوئے حالات میں قرآنی رہ نمائی پیش کرنے کی بھاری ذمہ داری کسی ایک فرد کے لیے ممکن نہیں۔ آنے والے دور میں یہ ایک اجتماعی کام ہوگا۔ علوم کے متعدد ماہرین کے درمیان باہمی اشتراک وتعاون کے نتیجے میں قرآن سے رہ نمائی اخذ کرنے کا منصوبہ روبہ عمل لانا ہوگا، جو دور جدید کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو بالعموم اور اعلی ذہین طبقہ کو بالخصوص متاثر کرسکے جن کے ہاتھوں میں سائنس، معاشیات اور سیاسیات کی قیادت ہوتی ہے۔

٢. تہذیبی تصادم کے دور میں اشتراک وتعاون کی راہیں

گذشتہ صدی کے اختتام پر تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ عام ہونے لگا۔‌ سوڈان لبنان بوسنیا آذربایجان وغیرہ میں مختلف اقوام کے درمیان جو کشمکش تھی انھیں مذاہب کے مابین تصادم کا رنگ دیا گیا جب کہ ان سیاسی تصادموں کے پیچھے بہت سے دیگرعوامل بھی کارفرما رہے۔ نظریہ ساز سیموئیل ہنٹنگٹن نے یہ باور کرایا کہ اسلام اور موڈرن سیکولر ریاست کے مابین ایک دائمی اقدار اور تہذیبوں کی بنیاد پر کشمکش جاری ہے۔ سیموئیل ہنٹنگٹن کی پیشین گوئی یہ تھی کہ تہذیبوں کے درمیان جو خطوط امتیاز ہیں وہ آئندہ ہونے والی جنگ کی لکیریں ثابت ہوں گے۔ اور تہذیبوں کا تصادم عالمی سیاست پر غالب رہے گا۔ اس پیشین گوئی، نظریہ اور کتاب کا سب سے خطرناک پہلو یہ رہا کہ دنیا کی سات یا آٹھ تہذیبیں بالآخر ایک پرچم تلے جمع ہوسکتی ہیں اور ان کا مقابلہ اسلامی تہذیب سے ہوگا۔ اس کتاب کی اشاعت کو 27 سال ہوگئے اب جب پلٹ کر ان دنوں میں ہوئی جنگوں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو وہ تہذیبوں کی بنیاد پر کم اور مفادات کی بنیاد پر زیادہ نظر آتی ہیں۔ ‌مگر میڈیا کی قوت سے دنیا کو یہ باور کرایا گیا کہ تعمیر جہان نو میں اسلام بڑی رکاوٹ ہے۔ مغربی قوتوں اور ان کے ہمنوا وہم پیالہ دیگر حکمرانوں کی طرف سے اپنے ظلم اور زیادتی کو جائز باور کرانے کے لیے انھیں تصادم کے نظریے کو عام کرنا پڑا۔ حالانکہ اسلام تعمیر جہاں کا ایک جامع اور منفرد منصوبہ رکھتا ہے اور اسلام کے علم برداروں کا حق بھی ہے اور ان کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ دنیائے انسانیت جن مسائل میں غلطاں و پیچاں ہے ان سے نکالنے کے لیے جہاں اور تدبیریں اختیار کی جا رہی ہیں وہاں وہ اسلامی نقطہ نظر والے متبادل کو پیش کریں۔

ترکی کی سعادت پارٹی کے صدر تمل کرم اللہ اوگلو کا کہنا ہے کہ اسلامی تحریکات مختلف ممالک میں ملک کی سیاسی پالیسیوں کی بحیثیت حزب اختلاف مخالفت تو کرتی ہیں مگر ان کا متبادل پیش نہیں کرپاتیں۔‌ سچی بات یہ ہے کہ بعض مرتبہ تحریکوں کی باتیں ہم اور تم کی زبان میں ہوتی ہیں۔ جب کہ ہم اگر محب وطن اور ملک کے خیرخواہ شہری کی حیثیت سے تفصیلی متبادل پیش کریں گے تو اس کے نتیجے میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں اور طبقوں کے درمیان ملک کی تعمیر وترقی کے لیے پیش کیا گیا ہمارا خاکہ اشتراک وتعاون کی بنیاد بن سکتا ہے۔‌ ہمارا ملک اس وقت بہت سی پالیسیوں کے حوالے سے سنگین بحرانی کیفیتوں کا شکار ہے۔ ملک کی تیزی سے گرتی معاشی صورتحال، سیاسی ابتری، نئی تعلیمی پالیسی اور نیا تعلیمی نظام، لاک ڈاؤن کے بعد مزدوروں کی روح فرسا مہاجرت اور دلوں کو تڑپا دینے والے مناظر، غربت کے بڑھتے مہیب سائے، رفاہی اسکیموں کی بے اثری، مختلف معاشی اور سماجی اسکیموں کا مضحکہ خیز اعلان اور عملاً ان کے نفاذ کے لیے حکومتی اداروں کی مکمل سردمہری، تکثیری سماج میں مذہبی عدم رواداری، انسانی تعلقات کو زہر آلود، مشکوک اور نفرت انگیز بنانے کی میڈیا کی سعی، عالمی سطح پر اور بین الاقوامی حقوق انسانی کی تنظیموں کی نگاہ میں ملک کی تصویر کا بگڑنا، حقوق انسانیت پر دن دہاڑے ڈاکہ زنی، عدالتوں کی غیرجانبدارانہ حیثیت کا بری طرح سے متاثر ہونا، مزدوروں، عورتوں بچوں، صارفین اور جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے موثر پالیسی اور لائحہ عمل کی ضرورت اور ان کے نفاذ میں حکومتی اداروں کے علاوہ غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں اور با شعور عوام کا اشتراک اور تعاون، یہ اور اس طرح کے بے شمار امور ہیں جن پر تحریکی حلقوں کی طرف سے صرف اخباری بیان، تنقیدی تقاریر کے بجائے مناسب متبادل خاکے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے انسانی وسائل کا ایک عظیم سرمایہ درکار ہے اور معلوم ہونا چاہیے کہ اس سرمائے کے جمع کرنے، ان کی صلاحیتوں کو فروغ دینے اور ان کے ذریعے پالیسیاں وضع کرنے اور ملک کے پالیسی ساز افراد، اداروں اور حکومتوں کو اس پر مطمئن کرنے کا ہمالیائی کام بڑی محنت چاہتا ہے۔

٣. ہندوستانی پس منظر میں داعیوں کی تیارى

تحریک اسلامی سوڈان کے پیشوا ڈاکٹر حسن ترابیؒ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ تحریک اسلامی ہند کا عالمی تحریکات کے مقابلے میں ایک امتیازی مقام ہے، انھیں دو مشکل محاذوں پر بیک وقت کام کرنا ہے، اس لیے مجھے امید ہے کہ انھیں دوہرا اجر ملے گا۔‌ ایک طرف امت مسلمہ ہے جو اپنے اصل مشن سے نہ صرف غافل ہوگئی ہے بلکہ اس کی اپنی منصبی ذمہ داری یاد دلانے والوں کو وہ اپنا دشمن سمجھتی ہے تو دوسری طرف عام انسانوں کا ایک بڑا گروہ ہے جسے اپنے پیدا کرنے والے کی پہچان ہے اور نہ خود انھیں اپنی حقیقت معلوم ہے۔ ان کے درمیان اسلام کا تعارف کرانا اور ان کی بھٹکتی روحوں کو خدا کی چوکھٹ پر لانا وہ عظیم انبیائی کام ہے جو تحریک اسلامی ہند کے حصے میں آیا ہے۔‌ گوکہ یہ کام تحریک اسلامی ہند اپنی بساط بھر انجام دے رہی ہے مگر اس کام کا حق ادا کرنے کا تقاضا ہے کہ انسانی وسائل کی ایک مخصوص صنف تیار ہو جو اس کام کو موثر بناسکے۔

ہندوستان ایک ایسا سماج ہے جہاں اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب پر عقیدہ رکھنے والوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ ایک اکثریتی اکائی ہیں، مگر یہ ایک غلط فہمی ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مدعو اقوام کے درمیان کوئی وحدت نہیں ہے۔ ہر ذات، قبیلہ، برادری، گروہ اور بستی کے دیوتا الگ، رسوم ورواج الگ، دیو مالائی کہانیاں الگ ہیں اور ان میں آپس میں نقطہ اتحاد نہیں پایا جاتا ہے۔‌ ہمیں ایسے محققین کی ضرورت ہے جو مدعو اقوام کی مقامی روایات سے ہمہ جہت آگاہی رکھتے ہوں، وہ ان سے اچھے روابط رکھتے ہوں اور ان کی تاریخ، واقعات، رسوم و رواج اور ان کے قبائلی مسائل وغیرہ سے گہری واقفیت رکھتے ہوں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں دعوت کا آغاز کیا تو ہر قوم اور ہر قبیلے کی نفسیات سے آپ واقف تھے، ان کی تاریخ کو جانتے تھے، ان کے مذہبی عقائد ورسوم کا علم تھا، ان کے معبودان باطل کی تاریخ سے آپ آگاہ تھے، اور ان کے توہمات پر آپ کی گہری نظر تھی۔ اس لیے دعوت کے لیے ان سے رابطہ کرنا آپ کے لیے آسان تھا۔ وہ آپ کے لیے اجنبی نہیں تھے اور آپ ان کے لیے اجنبی نہیں تھے۔ جب یہ اجنبیت کے پردے غائب ہوجائیں تو دعوت کی راہ کشادہ ہوجاتی ہے اور سمجھنے سمجھانے میں کوئی ایسی رکاوٹ نہیں رہ جاتی جس کی وجہ سے کمیونیکیشن کا سلسلہ کہیں اٹک کر رہ جاتا ہو۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوہ صفا پر چڑھ کر اہل مکہ کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں تو انھیں بحیثیت ایک قوم کے نہیں پکارتے بلکہ ان کے الگ الگ قبیلوں کے نام لے کر انھیں خطاب کرتے ہیں۔ اسی طرح جب مدینہ پہونچنے کے بعد ایک مضبوط اسلامی ریاست قائم ہوئی تو اطراف واکناف کے قبائل سے آپ نے سیاسی معاہدات کیے ان میں بھی اس بات کو پیش نظر رکھا کہ قوموں اور قبیلوں کی الگ الگ شناخت اور الگ الگ مذہبی روایات کے مطابق ان سے حلیف کا رشتہ قائم کیا جائے۔‌

اس پہلو سے ہندوستان میں تحریک اسلامی کو جن افراد کی ضرورت ہے ان میں مدعو قوم کے مذاہب، ان کی شخصیات، ان کے اندر اٹھنے والی تہذیبی واصلاحی تحریکات سے واقفیت رکھنے والے، مطالعہ وتحقیق کرنے والے، مضامین اور کتابیں لکھنے والے اور مدعو قوم اور ان کی نفسیات کو سامنے رکھ کر تقریر کرنے والے ہیں۔

۴ جبرواستبداد سے مزاحمت

حدیث پاک میں جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کا کہنا افضل جہاد قرار دیا گیا۔ باطل کی حکمرانی کا ایک بہت بڑا سہارا جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔‌ پروپیگنڈہ مشنری کے توسط سے باطل اپنے ظلم کو جائز و روا رکھنے کے لیے جھوٹ گھڑتا ہے، ظلم وناانصافی جاری رہتی ہے، حق کے خلاف اور مظلوموں کے خلاف رائے بنائی جاتی ہے اور ان کی تصویر اورشبیہ کو بگاڑا جاتا ہے۔ ایسے میں جب مفاد پرستوں کے ٹولے عافیت کے گوشے تلاش کریں، حق وانصاف کی علمبردار تحریک کو چاہیے کہ وہ ظلم کے خلاف مزاحمت کی ایک دیوار بن کر کھڑی ہوجائے۔‌ قیام عدل وقسط کے لیے مزاحمت کا راستہ دور حاضر میں ایک معروف طریقہ مانا جاتا ہے۔‌ مزاحمت دراصل آگے بڑھنے کی قوت کا نام نہیں بلکہ اقدام کرتے ہوئے ظالم کو پیچھے ڈھکیلنا ہے، تاکہ وہ اپنے ظلم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کار عظیم کے لیے انسانی وسائل کی ایک کثیر تعداد درکار ہے اور اس کام کے لیے صلاحیتوں کا وسیع سپیکٹرم مطلوب ہے۔ ماہرین قوانین ظالمانہ اور جابرانہ قوانین کو چیلنج کریں۔ ادب اور شاعری مزاحم قوتوں کے جذبہ دروں کو فروزاں کرنے اور ان کے پائے ثبات میں استقلال پیدا کرنے کے لیے استعمال ہو۔ انسانی ذہن کی وسعتوں میں پنہاں آئیڈیاز کے اظہار کے لیے آرٹ کا استعمال ہو۔ پینٹنگ سڑکوں، دیواروں، فلکس، بینروں اور ہورڈنگوں پر چیختے چلاتے احتجاج ہوتی ہیں۔ میوزک اور نغمہ گوئی جوش وخروش پیدا کرنے اور ظالموں کو چیلنج کرنے کے ہتھیار ہیں۔ نادر افکار وخیالات کو پیکر عطا کرنے کے لیے اسکلپچرس (مجسمے- انسانی بت مراد نہیں ہیں) ایسی زبان ہیں جو قوت باصرہ کے توسط سے قوت متخیلہ کو حرکت دیتے ہیں۔ کارٹون اور اینی میشن سے باطل کا تمسخر کیا جاسکتا ہے۔ داستان ظلم کو ضبط یادداشت میں لانے کے لیے ڈاکومنٹیشن اور ڈاکومنٹری فلمیں بہت موثر ذریعہ ہیں۔ مزاحمت کی جنگ جیتنے کے یہی اوزار اور ہتھیار ہیں۔ میدان مزاحمت میں ان سے خالی ہاتھ کیا خاک مزاحمت کرپائیں گے؟ یہ وہ اہم ترین صلاحیتیں ہیں جن سے باطل مسلح ہے، اور کشمکش کی دنیا میں مادی وسائل کا جواب مادی وسائل ہوتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی صفوں میں ان صلاحیتوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور انھیں پروان چڑھایا جائے اور سماج میں جہاں جہاں یہ صلاحیتیں پائی جاتی ہوں انھیں مزاحم قوتوں کی صفوں میں شامل کرکے مزید قوت کا اضافہ کیا جائے۔

مشمولہ: شمارہ جون 2020

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223