کیا یہ بات حیرت و افسوس کی نہیں کہ ایک شخص لمبے عرصے سے اسلامی تحریک میں شامل ہو، اس نے بہت سی کتابیں پڑھی ہوں، بہت سی کتابیں دوسروں کو پڑھنے کے لیے دی ہوں اور خود اس کے اپنے بچوں نے اس کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہوئے بچپن اور جوانی کی سرحدیں پار کرلی ہوں اور تحریکی لٹریچر کی کوئی ایک کتاب بھی نہیں پڑھی ہو؟
کیا یہ کیفیت تشویش ناک نہیں کہ آپ اپنے کم سن یا نوجوان بچوں کے ساتھ مختلف تقریبات میں شرکت کرنے جاتے ہیں اور جب تحریک کے کسی اجتماع یا پروگرام میں جاتے ہیں تو تنہا جاتے ہیں۔ اجتماع کا مقام دور ہوتا ہے تو آپ کے گھر کا کوئی بچہ اسکوٹر سے آپ کو اجتماع کے مقام تک پہنچاکر واپس آجاتا ہے۔؟
اگر آپ کے دل میں یہ تمنا ہے کہ آپ کی اس تحریک سے سماج کے زیادہ سے زیادہ لوگ جُڑ جائیں تو آپ کے دل کو یہ تمنا بھی کیوں نہ بے تاب رکھے کہ آپ کے گھر کے زیادہ سے زیادہ بچے اس تحریک سے وابستہ ہو جائیں۔ حقیقت کی نگاہ سے دیکھیں تو گھر والوں پر آپ کی توجہ اس بات کا پہلا پیمانہ ہے کہ آخرت میں فلاح و نجات کی فکر آپ کے دل میں کتنی ہے، دین کا اقامت کا جذبہ کتنا سچا ہے اور اسلامی تحریک سے تعلق کس قدر سنجیدہ ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے اس پر خاص زور دیا ہے۔
یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِیكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَیهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا یعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَیفْعَلُونَ مَا یؤْمَرُونَ [التحریم: 6]
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں)
اس آیت میں ایمان والوں سے کہا گیا ہے کہ وہ جہنم کی آگ سے خود کو اور اپنے بیوی بچوں کو بچانے کی فکر کریں۔ اسلامی تحریک سے وابستہ افراد کو یہ آیت صبح و شام دہرانی چاہیے۔
معاشرے کے ہر فرد کے اندر اسلام کا صحیح فہم پیدا کرنا، اسلامی اخلاق سے آراستہ کرنا، اسلام کے راستے پر چلنے اور اسلام کی خاطر جینے کا راستہ دکھانا، اسلام کو قائم کرنے کا جذبہ جگانا، اسلامی مشن کے لیے صالح اجتماعیت سے وابستہ ہونے کا شوق دلانا، یہ سب وہ کام ہیں جو اسلامی تحریک کے افراد کو ضرور کرنے چاہئیں۔
یہ کام جب ہم بڑی عمر کے افراد میں کرتے ہیں تو اکثر بڑی مشکلات سامنے آتی ہیں۔ لوگ ہماری باتیں سننے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے، ہماری کتابیں پڑھنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے اور ہمارے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تلاش بسیار اور محنت ومشقت کے بعد چند افراد مل پاتے ہیں۔
لیکن یہی کام بہت آسانی سے ہم اپنے بچوں، اپنے خاندان کے بچوں اور اپنے پاس پڑوس کے بچوں میں کر سکتے ہیں۔ یہاں فرق نقد اور ادھار کا ضرور ہے۔ بڑوں میں کام کرتے اگر کام یابی مل جائے تو ہمیں لگے ہاتھوں کچھ افراد مل جاتے ہیں جو اسی وقت ہمارے قافلے میں شامل اور سرگرم ہوجاتے ہیں، جب کہ بچوں میں کام کرنے کے نتیجے میں ہمیں پانچ دس برس کے بعد افراد ملتے ہیں۔ تاہم تعداد اور استعداد دونوں ہی پہلوؤں سے وہ افراد زیادہ ہوتے ہیں جن پر بچپن سے ہی توجہ دی گئی ہوتی ہے۔
حالیہ برسوں میں بہت سے مقامات پر جانے اور تحریک کے کام کا گہرائی سے جائزہ لینے کا موقع ملا۔ بعض مقامات پر دیکھا کہ تحریک کے دو تین افراد ہیں جو چالیس پچاس سال سے تحریک کا کام کر رہے ہیں لیکن انھیں بمشکل چند افراد ہی مل سکے۔ جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ انھوں نے برسہا برس بڑوں کو تحریک سے قریب کرنے کی کچھ کوشش تو کی لیکن بچوں پر بالکل توجہ نہیں دی۔ اگر وہ بڑوں پر توجہ دینے کے ساتھ بچوں پر بھی توجہ دیتے تو دس سال بعد سہی تحریکی نوجوانوں کی ایک بڑی ٹیم ضرور تیار ہو جاتی۔
عام طور سے ایک فرد کے گرد بچوں کا ایک بڑا دائرہ ہوتا ہے۔ اس کے اپنے بچے، بھتیجے، بھانجے، پوتے اور نواسے، پڑوس کے بچے۔ معمولی ترغیب اور تھوڑے بہت انعامات کے ساتھ ان بچوں کو اچھی باتیں بتائی جاسکتی ہیں، اچھی کتابیں پڑھ کر سنائی جا سکتی ہیں اور اچھی کتابیں پڑھوائی جاسکتی ہیں۔ اگر منصوبہ بند طریقے سے بچوں میں کام کیا جائے تو پندرہ سولہ سال کے ہوتے یہ بچے اچھا خاصا دینی اور تحریکی لٹریچر پڑھ کر تحریک کا قیمتی سرمایہ بن سکتے ہیں۔
اچھی ذہن سازی ہو جانے کے بعد اور اقامت دین کے جذبے سے سرشار ہونے کے نتیجے میں، کوئی بعید نہیں کہ یہ بچے اپنے بہت سے ہم جولیوں کے دل و دماغ پر گہرے اثرات ڈالیں اور اپنے پورے خاندان کو نیکی اور بھلائی کے راستے پر ڈالنے کا کام کریں۔
تحریکی ذہن سازی کے لیے تحریکی کتابوں کے مطالعے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ جب اس طرف سے غفلت برتی جاتی ہے اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہم تحریکی ذہن رکھتے ہیں تو بچے کا از خود وہی ذہن بن جائے گا تو یہ بڑی غلطی ہوتی ہے۔ بچے کا ذہن اسی وقت تحریکی بنے گا جب وہ تحریکی لٹریچر سنے اور پڑھے گا۔
یاد رہے کہ مطالعہ کے ذریعے تحریکی ذہن سازی ہو جاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ پھر یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ تحریک زندگی کا مشن بن جائے، شخصیت میں سرایت کر جائے، مزاج میں شامل ہو جائے اور شب و روز کی دل پسند مصروفیت بن جائے۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ بچوں کو تحریکی سرگرمیوں سے جوڑا جائے اور انھیں تحریکی عمل سیکھنے اور برتنے کے لیے مناسب و معاون ماحول فراہم کیا جائے۔ یہ اس وقت ہوگا جب وہ عملًا تحریک کے پروگراموں اور سرگرمیوں میں شریک ہوں گے۔
اپنے اور اپنے خاندان اور متعلقین کے بچوں کی تحریکی نشو و نما کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ بچوں کی تنظیم اور طلبہ و نوجوانوں کی تنظیم کو اپنے مقام پر قائم کیا جائے اور انھیں بھرپور تعاون اور سہارا دیا جائے۔ ہمارے بچوں کی رسائی بچوں کی تنظیم، طلبہ کی تنظیم اور نوجوانوں کی تنظیم تک ہوگی اور ہمارے بچے اس میں شامل ہوکر سرگرم ہوں گے تو ان کی شخصیت تحریکی بنے گی اور انھیں عظیم مقصد کے لیے سرگرم دیکھ کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔
بعض مقامات پر مشاہدہ ہوا کہ جہاں والینٹروں کی ضرورت ہوتی ہے وہاں تحریکی افراد کے بچے بلکہ ان کے پورے خاندان کے بچے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لیکن وہی بچے تحریک کے پروگراموں میں شریک نظر نہیں آتے۔ مثال کے طور پر اگر تحریک کا کوئی بڑا اجتماع یا جلسہ ہو رہا ہو، تو اجتماع کے تمام انتظامات میں وہ بڑی محنت سے شریک ہوتے ہیں، لیکن ہفتہ واری تربیتی اجتماعات میں ان کی شرکت نہیں ہوتی ہے۔ بچوں کے اندر رضا کارانہ کاموں کا جذبہ قابل قدر ہے، تاہم اصل مطلوب یہ ہے کہ وہ تحریک کا حصہ بنیں اور تحریک کے تربیتی و دعوتی ماحول میں شامل ہو جائیں۔
قرآن مجید کی ایک آیت اسلامی تحریک کے ہر فرد کو اپنےبچوں کے سلسلے میں پُرجوش کر دینے والی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیتُهُمْ بِإِیمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَیءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِینٌ [الطور: 21]
(اور جو لوگ ایمان لائے، اور ان کی اولاد نے بھی ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ان کے ساتھ ہم ان کی اولاد کو بھی جمع کر دیں گے اور ان کے عمل میں سے ذرا بھی کمی نہیں کریں گے۔ ہر ایک اس کمائی کے بدلے میں گروی ہے جو اس نے کی ہے۔)
اس آیت میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ ہے۔
ایمان والے جب ایمان کا بہترین نمونہ اپنی اولاد کے سامنے پیش کرتے ہیں اور انھیں ایمان کے راستے پر لانے کی ہر طرح سے کوششیں کرتے ہیں اور جب اولاد سچے دل سے اپنے آبا و اجداد کی اتباع کرتے ہوئے ایمان کے راستے پر چلتی ہے، تو ایسی صورت میں اللہ کے نزدیک دونوں ہی قابل ستائش ہوتے ہیں۔
ایمان والوں کی اولاد جب ان کے نقش قدم پر چلتی ہے تو اس میں ایمان والوں کی توجہ اور کوشش کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔ اس طرح ایمان والوں کا درجہ اپنی ایمان والی اولاد سے اونچا ہوجاتا ہے، کیوں کہ وہ راستہ ہم وار کرتے اور نقش قدم ثبت کرنے والے ہو تے ہیں۔ وہ آگے آگے چلتے اور ان کی اولاد ان کے پیچھے چلتی ہے۔ اللہ تعالی جنت میں ایمان والوں پر بہت سے انعامات کے ساتھ ایک انعام یہ بھی فرمائے گا کہ ان کے پیچھے چلنے والی اولاد کو ان کے ساتھ جا ملائے گا۔ اس سے ان کی بہت زیادہ خوشی اور بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
‘‘ اگر کسی شخص کے اندر سچا ایمان ہے تو وہ اپنی اولاد سے متعلق سب سے زیادہ فکر مند اس بات کے لیے ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ان کو آخرت کے ہول اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے۔ یہ ارمان کہ اولاد کو دنیوی کام یابیاں حاصل ہوں اگر ہوتا بھی ہے تو اس کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ چناں چہ حضراتِ انبیا اور صالحین نے اپنی اولاد کے لیے جو دعائیں فرمائی ہیں ان میں آخرت کی کام یابی کو مقدّم رکھا ہے بلکہ اسی چیز کو اصل حیثیت دی ہے۔۔ ۔ یہ اس بات کی تعلیم ہے کہ ہر شخص اپنی اولاد اور اپنے متعلقین کو ایمان کی راہ دکھانے کی کوشش، جس حد تک اس کے امکان میں ہو، ضرور کرے۔’’
اس دنیا میں ہر انسان کی پہلی فکر تو یہ ہونی چاہیے کہ وہ اللہ کو راضی کرنے والے راستے پر چلے اور دوسری فکر یہ ہونی چاہیے کہ اس کی اولاد اس کے نقش قدم پر چلے۔ یہ فکر اتنی سچی، گہری اور شدید ہونی چاہیے کہ اس کی خاطر وہ ہر ممکن کوشش کر ڈالے۔
اگر آپ کو یقین ہے کہ اسلامی تحریک نے اللہ کو راضی کرنے والا راستہ اختیار کیا ہے اور اسی یقین کی بنا پر آپ رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر اس تحریک سے وابستہ ہوئے اور اس میں اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ لگارہے ہیں، تو آپ کی آخری حد تک یہ کوشش ہونی چاہیے کہ آپ کی اولاد اس تحریک میں شامل اور سرگرم رہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2025