اسلامی تحریک یہاں ارتقائی مراحل سے گزر کر اس مقام تک پہنچی ہے۔ امریکی جامعات میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (MSA) بہت عرصے سے سرگرم تھی۔ برصغیر کی اسلامی طلبہ تحریکات سے وابستہ افراد جب اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ اور کینیڈا آئے تو وہ ایم ایس اے کے دست و بازو بن گئے، ساتھ ہی ان کا حلقہ احباب قائم ہوگیا۔ ڈاکٹر انیس احمد اور ڈاکٹر طلعت سلطان اس حلقے کی باری باری سربراہی فرماتے رہے۔ اس دوران ان حضرات نے اپنی اصلاح کے لیے مطالعہ کا نظام قائم کیا جسے اسلامی اسٹڈی سرکل کا نام دیا گیا جو “حلقہ” کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ سلسلہ 1968 سے 1977 تک اسی طرح چلتا رہا۔ ان طلبہ کی اکثریت نے تعلیم کے اختتام پر وطن واپس جانے کے بجائے امریکہ میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ نوجوان تارکینِ وطن کی تعداد میں 1971 کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا اور 1977 میں حلقہ اسلامی شمالی امریکہ (ICNA) کا قیام عمل میں آیا۔
اکنا کا مقصد عملًا اقامت دین (مشن رسل و انبیا) اور حقیقتًا رضائے الہی اور اخروی نجات کا حصول ہے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں پُرامن، جمہوری، آئینی و قانونی راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ اقامت دین اداروں (خاندان کے ادارے کا استحکام، مساجد، تعلیمی، معاشی اداروں وغیرہ) کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔
اکنا نے اپنی سرگرمیوں کو متنوع، مربوط اور مؤثر بنانے کے لیے کئی ذیلی ادارے قائم کیے ہیں۔ یہ ادارے مرکزی مجلس شورٰی کی جانب سے طے کردہ اہداف اور طریقہ کار کے مطابق کام کرتے ہیں۔ تاہم اکثر اداروں کے آزاد ایکزیکیٹیو بورڈ ہیں۔ خدمتِ خلق کے لیے ہیلپنگ ہینڈ (Helping Hand) امریکہ سے باہر سرگرم ہے، دنیا کے 85 ممالک میں اس کا نظم قائم ہے۔ اکنا ریلیف امریکہ میں خدمت خلق کے علاوہ قدرتی آفات کے دوران مدد فراہم کرتی ہے۔ نوجوانوں میں کام کے لیے Young Muslim Brothers اور Young Muslim Sisters سرگرم ہیں۔ کونسل برائے سماجی انصاف (CSJ) عدل و مساوات اور انسانی حقوق کے تحفظ کا کام کرتی ہے۔ خواتین میں کام ICNA Sisters جب کہ بچوں میں مسلم چلڈرن آف نارتھ امریکہ (MCNA) کے تحت جاری ہے۔ تعلیم و تربیت کے لیے اسلامک لرننگ فاؤنڈیشن (ILF) کا ادارہ اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد مسلمانوں اور خاص طور پر مسلم نوجوانوں کے دل و دماغ کو اسلامی شریعت کے صحیح علم سے متاثر کر کے ان کی زندگیوں کو سنوارنا ہے۔ میسج انٹرنیشنل (Message International) کے نام سے ایک آن لائن میگزین شائع کیا جاتا ہے جو قارئین کی دل چسپی کے موضوعات بشمول مذہب، سیاست، کردار سازی، خاندانی و معاشرتی معاملات وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں لاطینی مسلمانوں کی مسلسل پھیلتی ہوئی کمیونٹی کے لیے ہسپانوی زبان میں مضامین کا ایک علیحدہ سیکشن ہے۔ اس کے علاوہ خواتین، نوجوانوں اور بچوں کے لیے متاثر کن کہانیوں اور تفریحی مواد کے لیے ایک الگ سیکشن کا سلسلہ جلد شروع کیا جا رہا ہے۔ اکنا خواتین کے تحت نور میگزین (Noor Magazine)کی اشاعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ شمالی امریکہ کی مسلمان خواتین کی دینی معلومات میں مسلسل اضافہ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
ذیلی اداروں اور تنظیموں کو اقامت دین کے نصب العین سے ہم آہنگ رکھنا اور ان کے ذریعے اپنے نظریات کے فروغ کو یقینی بنانا اسلامی تحریکوں کے لیے ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے، نتیجتاً ان شاخوں کو اقامت دین کے نصب العین اوراپنے نظریات سے جوڑے رکھنے کی کوشش ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے۔ اس ماڈل پر آپریٹ کرنے والی اسلامی تحریکوں کو اس کا مسلسل جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام ذیلی اداروں اور تنظیموں کی ہر سطح کی قیادت فکری طور پر مضبوط ہو، تصور اقامت دین اور ویژن (vision) بالکل واضح ہو، یہاں تک کہ یہی نصب العین اور تحریکی شعور تمام اداروں اور تنظیموں میں نچلی سطح تک نفوذ کر جائے اور ان کا اصل مطمح نظر بن جائے۔ نصب العین ہمارے اقدامات میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔ انھیں سمت اور معنویت فراہم کرتا ہے۔ اسی سے ہر فیصلہ و اقدام کے لیے بنیاد اور محرک فراہم ہوتے ہیں۔ جائزہ و احتساب کے لیے ٹھوس پیمانے ملتے ہیں۔ مسلسل حرکت و پیش قدمی کی تحریک حاصل ہوتی رہتی ہے۔ مقصد و نصب العین کے ذریعے اہم اور غیر اہم میں فرق کی کسوٹیاں میسر آتی ہیں۔ یہ ہمیں راستے کی رکاوٹوں میں الجھنے نہیں دیتا۔ ہماری نگاہوں کو فوری اور مختصر المیعاد مسائل کی تنگ نظری کے مقابلے میں طویل المیعاد مفادات کی وسعت نظری، بصیرت اور گہرائی عطا کرتا ہے۔ مشکلات و مصائب کو ہمارے اعصاب پر سوار ہونے نہیں دیتا۔ ہماری صفوں کو منظم و متحد رکھتا ہے۔ اختلاف کے باوجود اتحاد کا جواز فراہم کرتا ہے۔ ذیلی اداروں اور تنظیموں کے حوالے سے مقصد اور نصب العین کی اہمیت کا اندازہ مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ کی اس ہدایت سے لگایا جا سکتا ہے۔ (اس تحریر میں مدارس سے مراد تعلیمی ادارے ہیں جن میں مدارس، اسکول اور جامعات سب شامل ہیں)
“یہ معلوم کرکے مجھے بہت مسرت ہوئی کہ آپ حضرات جابجا اپنے نظریات کو پھیلانے کے لیے مدارس قائم کرنے کی فکر میں ہیں، بلکہ بعض مقامات پر تو عملًا قدم اٹھ چکا ہے۔ مگر اس سلسلے میں یہ احتیاط ضرور کیجیے کہ ایک مدرسہ کو چلانا بجائے خود مقصد بن کر نہ رہ جائے۔ ہمیں تعلیم کو حصول مقصد کے ذریعے کی حیثیت سے استعمال کرنا ہے، جہاں محسوس ہو کہ آپ کا مدرسہ مقصد کی جگہ لے رہا ہے، یا مقصد میں رکاوٹ بن رہا ہے تو ایسے مدرسے کو مسمار کردیجئے اور اس کے کھنڈروں کو روندتے ہوئے اپنی منزل کی طرف آگے بڑھیے- اس غرض کے لیے نصب العین کو ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔”
دعوتِ دین، اقامت دین کی جدوجہد کا بنیادی اور انتہائی اہم مرحلہ ہے۔ ہم آخری کتاب اور آخری وحی کے داعی اور مبلغ ہیں۔ شہادتِ حق ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم ساری دنیا کے انسانوں کے بالعموم اور امریکہ میں بسنے والوں کے بالخصوص ہمدرد، غمگسار اور خیرخواہ ہیں۔
سورة البقرہ کی آیت 143 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیكُونَ الرَّسُولُ عَلَیكُمْ شَهِیدًا
“اور اسی طرح تو ہم نے تمھیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔”
اسی طرح سورة البقرہ آیت 140 میں گواہی چھپانے والے کے لیے ظالم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ
“اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے۔”
اسی فریضہ “شہادت حق” کی ادائیگی کے لیے اکنا کے ماتحت دعوتی جدوجہد مختلف ناموں سے جاری ہے اور یہی میرا آج کا اصل موضوع ہے۔ امید کرتا ہوں کہ میری یہ ادنیٰ سی کاوش جہاں ایک طرف عالمی اسلامی تحریکوں کو اکنا کے آپریٹنگ ماڈل اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ منظم دعوتی جدوجہد سے کسی حد تک متعارف کروانے کا سبب بنے گی تو دوسری طرف غیر مسلم معاشروں میں بسنے والے مسلمانوں کو اپنی دینی ذمہ داریاں ادا کرنے، قول و عمل سے انفرادی اور اجتماعی دائروں میں حق کی گواہی دینے، اقامت دین کو اپنی زندگیوں کا نصب العین اور مشن بنانے، اور میدان عمل میں متحرک رکھنے میں معاون ثابت ہو گی۔
ہر دور کا ایک میڈیم (medium) ہوتا ہے۔ جسے فرد اور اجتماعیت اپنی دعوت اور نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب تحریک اسلامی کا قیام عمل میں آیا تو وہ پرنٹ میڈیم کا دور تھا۔ اور اس میں مولانا مودودی رحمہ اللہ سے بہتر content developer اور کوئی نہ تھا۔ ہمارا سارا لٹریچر، علمی و فکری کام اسی میڈیم میں موجود تھا اور لوگوں کے ذہنوں کی آبیاری اور دلوں کی تسخیر کا ایک موثر ذریعہ رہا۔ ہماری دعوت وسیع پیمانے پر پھیلی، تحریک اسلامی کی نظریاتی کھیپ میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا اور یہ قافلہ سخت جان مسلسل پیش قدمی کرتا رہا۔ یہاں تک کہ پچیس تیس برسوں میں ہم ایک قوت بن کر ابھرے۔ یہ دور تحریک اسلامی کے لیے ایک بہترین دور ثابت ہوا۔ کیوں کہ وہ اس دور کے تقاضوں سے ہر لحاظ سے ہم آہنگ تھی اور عامة الناس کے لیے اس دور کے بہترین میڈیم میں اپنی دعوت و لٹریچر مسلسل پیش کر رہی تھی۔ اسی دعوت و لٹریچر نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا۔
اکنا نے بھی اپنے قیام سے اب تک وقت کے میڈیم اور مواصلاتی آلات (communication tools) کا بھرپور اور مؤثر استعمال کیا ہے، ہر دور کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور اس میں بڑی حد تک اسے کام یابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ موجودہ دعوتی جدوجہد بھی جدید دور کے تقاضوں سے مکمل آہنگ ہے۔ اکنا کی تمام دعوتی سرگرمیوں کا مقصد رضائے الہی کے حصول کے لیے امریکہ کے ہر ہر فرد اور ایک ایک گھر تک اسلام کی دعوت پہنچانا ہے۔
To reach every household with the message of Islam
اس مقصد کے حصول کے لیے چار بنیادی نکات پر فوکس کیا ہوا ہے۔ جس میں فری قرآن کیمپین، دعوہ بذریعہ ڈاک، روڈ ٹرپ (road trips) کے ذریعے دیہی علاقوں تک اسلام کی دعوت۔ سوشل میڈیا کیمپین، دعوہ موبائل ایپس کے مؤثر استعمال سے ڈیجیٹل دعوہ۔ بک فئیر، لائبریریاں، کیمپس دعوہ کے انعقاد کے ذریعے اسلامی تعلیمات سے روشناس کروانا اور اکنا نیشنل دعوہ اکیڈمی کے ذریعے داعیانِ اسلام کی تیاری شامل ہے۔ ان نکات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف پراجیکٹ کے تحت دعوتی سرگرمیاں جاری ہیں۔
Why Islam پراجیکٹ
اکنا سے وابستہ افراد نے 1999 میں ریاست نیوجرسی سے اس پراجیکٹ کا آغاز کیا جس کی جدوجہد کا اصل محرک قرآن کی یہ آیت ہے:
ادْعُ إِلَى سَبِیلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِی هِی أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِینَ
“اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔ تمھارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے۔” (النحل: ۱۲۵)
اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد غیر مسلموں تک اسلام کی صحیح، مکمل، مستند معلومات پہنچانا اور اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے پھیلائے جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔
اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک ہاٹ لائن (hotline) لانچ کی گئی ہے۔ چوبیس گھنٹہ کسی بھی وقت کال کر کے اسلامی ماہرین سے اسلام کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام سے متعلق سوالات و جوابات کے لیے ہر اتوار آن لائن سیشن کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔
ویب سائٹ whyislam.org بھی اسلامی معلومات کے حصول کا ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ اس پر بے شمار آرٹیکل اور وڈیو موجود ہیں جو اسلام کے بنیادی عقائد سے لے کر سماجی مسائل اور بین المذاہب ہر طرح کے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ ویب سائٹ کے ذریعے نہ صرف مفت لٹریچر حاصل کیا جاسکتا ہے بلکہ مسجد وزٹ کرنے کے لیے سائن اپ (sign up) کی سہولت بھی موجود ہے۔
اس پراجیکٹ کے تحت “اسلام میں خدا کا تصور“، “اسلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تصور“، “محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آخری نبی“، “اسلام میں خواتین کا تصور“، “انسانی زندگی کا تقدس“، “زندگی بعد از موت“، “اسلام میں عبادت کا تصور“، “اسلام میں انسانی حقوق“، “اسلام میں خاندان کا تصور“، “حجاب“ اور ان جیسے دوسرے اہم موضوعات کا احاطہ کرنے کے لیے بروشر کثیر تعداد میں شائع کیے جاتے ہیں۔
ملک بھر میں اہم شاہراہوں پر بل بورڈ بھی آویزاں کیے جاتے ہیں تاکہ لوگ ان پر درج ہاٹ لائن اور ویب سائٹ کے ذریعے رابطہ کر کے با اعتماد اور مستند ذرائع سے اسلام سے متعلق اپنے ذہنوں میں جنم لینے والے سوالات کے جوابات حاصل کر کے غلط فہمیوں کو رفع کر سکیں۔
ملک بھر میں شاپنگ مال، سٹریٹ فئیر، بک فئیر پر اسلامی معلوماتی بوتھ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جن کے ذریعے بروشر، قرآن کی کاپیاں، اسلامی کتب غیر مسلموں میں تقسیم کی جاتی ہیں اور اسلام سے متعلق ان کے سوالات کے تسلی بخش جوابات بھی دیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی اسلامی معلومات کی تشہیر کا ذریعہ ہیں۔ اور یوٹیوب چینل کے ذریعے اسلامک وڈیو تک باآسانی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یوٹیوب چینل پر اسلامی موضوعات اور نو مسلموں کے اسلام قبول کرنے کے واقعات و احساسات پر وڈیو بھی موجود ہیں۔
گذشتہ سال 2022 میں سوشل میڈیا مارکیٹنگ کے ذریعے اکیس ہزار سے زائد قرآن اور بائیس ہزار سے زائد بروشروں کے آرڈر موصول ہوئے، جو کہ سال 2021 کی نسبت چار سو گنا اضافہ ہے۔ ان میں سے پانچ ہزار سے زائد افراد سے فالو اپ کال کے ذریعے رابطہ کیا گیا۔
ملک بھر سے دو سو سے زائد نو مسلموں (reverts) کے ساتھ بذریعہ زوم آن لائن فالو اپ کا اہتمام کیا گیا۔ ماہانہ جاری ہونے والے الیکٹرانک نیوز لیٹر (e-newsletter) کے ساٹھ ہزار سے زائد غیر مسلم سبسکرائبر ہیں۔ سال بھر 165 سے زائد دعوہ بوتھ کا انعقاد کیا گیا۔ مسلمان گھروں کے لیے رمضان اور عید کی نسبت سے یارڈ سائن (yard signs ) بھی دستیاب رہے، حجاب اور black history month کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر تشہیری مہم چلائی گئی۔
اکنا مرکز کی نگرانی میں فری قرآن کیمپین بھی اسی پلیٹ فارم سے کی جاتی ہے۔ اس کی مارکیٹنگ بذریعہ فیس بک اور انسٹا گرام ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے گذشتہ سال تقریباً 2.8 ملین افراد تک رسائی حاصل ہوئی۔ اکتوبر 2022 میں ہسپانوی زبان میں بھی یہ کیمپین لانچ کی گئی۔ فری قرآن کیمپین کے نتیجہ میں ہر نو منٹ بعد ایک قرآن کی درخواست، یعنی کل 46,000 درخواستیں موصول ہوئیں۔ قرآن پیکج غیر مسلموں کو بذریعہ ڈاک ارسال کیے گئے۔ اور بذریعہ ٹیکسٹ، زوم سیشن اور ہفتہ وار ویبینار (webinars) فالو اپ کیا گیا۔ 250 افراد نے اسلام قبول کیا۔ اکنا کا embrace پراجیکٹ جو خصوصی طور پر نو مسلموں کے لیے تشکیل دیا گیا ہے، ان کی رہ نمائی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انھیں درپیش سماجی چیلنجوں کے حل اور اسلام کے بنیادی تصورات سے آگاہی کے لیے کلاسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ نومسلموں کے لیے ان کی تربیت اور پروگراموں کی تشہیر کے لیے ایک چینل کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔
Gain Peace پراجیکٹ
اس پراجیکٹ کا آغاز 2008 میں شکاگو سے ہوا۔ اس کا بنیادی مقصد عام امریکی عوام کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروانا اور اسلام سے متعلق ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایک ٹول فری ٹیلیفون لائن بھی موجود ہے جس پر کوئی بھی فرد صبح نو سے رات نو بجے تک کال کر کے اسلام سے متعلق سوالات، مسجد وزٹ کی درخواست، فری قرآن اور اسلامک لٹریچر آرڈر کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ مقررین کی ایک ٹیم موجود ہے جن کے ذریعے وقتاً فوقتاً اسلام سے متعلق موضوعات پر ڈسکشن کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ نئے مقررین کی تیاری کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔
اسلامی معلوماتی بوتھ، بروشر، اسلامی معلومات پر مبنی سائن بورڈ، ریڈیو، ٹیلی ویزن، ٹرین اور بسوں کے ذریعے تشہیر بھی عام عوام کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو شئیر کرنے کے اہم ذرائع ہیں۔
جو اسلام کی دعوت قبول کر لیں، ان نو مسلموں کو تعلیمی، سماجی، اخلاقی و روحانی سپورٹ فراہم کیا جاتا ہے اور ان کے لیے مختلف شہروں میں کلاسوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
مساجد میں اوپن ہاؤسوں (Open Houses) کا انعقاد کیا جاتا ہے جن کے ذریعے مقامی کیمیونٹی اور دیگر مذاہب سے وابستہ افراد کے ساتھ اسلام کا آفاقی پیغام شئیر کیا جاتا ہے۔
ایک اہم اور موثر سٹریٹیجی دعوہ بذریعہ ڈاک ہے۔ پوسٹ کارڈوں کے ذریعے گھروں تک اسلام کی دعوت اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق معلومات پہنچائی جاتی ہیں اور اسلام کے حوالے سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
“مسلمانوں کے ساتھ معاملات“کے حوالے سے پولیس افسران کے ساتھ ٹریننگ سیشن کا انعقاد چند ماہ قبل کیا گیا ہے۔
حال ہی میں ورچوئل گلاسوں (virtual glasses) کو لانچ کیا گیا ہے، جن کے استعمال سے بھی دین کی دعوت پہنچانے میں مدد لی جا رہی ہے۔
اکنا کے یہ دونوں پراجیکٹ جہاں مذکورہ بالا دعوتی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، وہیں اکنا کے مقامی حلقہ جات، یونٹوں اور چیپٹروں سے وابستہ افراد کو بھی انھی سرگرمیوں کو نچلی سطح پر ایک منظم انداز میں سر انجام دینے کے لیے متحرک رکھنے کی کوشش مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس پورے عمل میں ان کی تربیت اور رہ نمائی کے لیے ہر لمحہ دستیاب رہتے ہیں۔
اکنا نیشنل دعوہ اکیڈمی اکنا کا ایک سپیشل پروجیکٹ ہے۔ اس کا مقصد دعوہ سے دل چسپی رکھنے والوں کی مختلف دعوہ کورسوں کے ذریعے تعلیم و تربیت کا اہتمام اور انھیں دعوت کے میدان کے لیے تیار کرنا ہے۔ یہ کورس “دعوہ کی فقہ“، “دعوہ کے طریقہ کار“، “اسلام کے متعلق غلط فہمیاں“ جیسے موضوعات پر مشتمل ہیں۔
اکنا نیو یارک نے بھی حال ہی میں ایک دعوہ پراجیکٹ I Am Your Muslim Neighbor کا آغاز کیا ہے۔
اکنا کی یہ دعوتی جدوجہد بلاشبہ ایک مثالی جدوجہد ہے۔ البتہ تحریکی جدوجہد میں مقامی آبادی کی شمولیت ایک اہم چیلنج ہے۔ کسی بھی غیر مسلم معاشرے میں اسلامی تحریک مقامی آبادی کی شمولیت اور رکنیت کے بغیر پیش رفت نہیں کر سکتی۔
سالِ نو کا سورج طلوع اور سیشن 2023-2024 کے لیے اکنا کے امیر کا انتخاب بھی عمل میں آ چکا ہے۔ انتخاب دو سال کی مدت کے لیے ہوتا ہے۔ مرکزی مجلس شوری کی مشاورت سے الیکشن کمیٹی قائم کی جاتی ہے۔ جو پورے انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی بناتی ہے۔ اور اکنا کے دستور کے پارٹ 2 کی شق 4 (3a) کی روشنی میں مجلس شوری اکنا جنرل اسمبلی کے ارکان (Members of General Assembly) کی رہ نمائی کے لیے امارت کے لیے تین نام تجویز کرتی ہے۔ ارکان دستور کے پارٹ 4 شق 14A میں درج “امیر کی خصوصیات” کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے میں سب سے بہترین فرد کے حق میں خفیہ بیلٹ (ballot) کے ذریعے حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ انتخابات میں کسی کنویسنگ اور کیمپین کی اجازت نہیں ہوتی۔
ووٹنگ کا عمل آن لائن بیلٹ کے ذریعے مکمل ہوا۔ جس کے بعد الیکشن کمیٹی نے انتخابی نتائج مرتب کیے۔ اور نئے امیر کا اعلان کیا۔ اکنا کی جنرل اسمبلی کے ارکان نے کثرت رائے سے ڈاکٹر محسن انصاری کو دوبارہ دو سال کے لیے اپنا امیر منتخب کیا ہے۔ دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی ڈاکٹر محسن انصاری، تمام ارکان، کارکنان، ذمہ داران اور وابستگان تحریک کو تقوی، دینی شغف، علم کتاب و سنت، دینی بصیرت، ایمانی عزیمت، اخلاقی طاقت، فکری اصابت (اصابت رائے) ذہنی یکسوئی، عملی حسن، تدبر، معاملہ فہمی، راہ خدا میں ثبات و استقامت، عزم و حزم اور تحریکی جوش و جذبہ سے مالا مال فرمائے۔
گذشتہ سال کی پرخلوص، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ، منظم جدوجہد کو اپنی بارگاہ میں قبول اور لغزشوں و کوتاہیوں سے درگزر فرمائے۔ سالِ نو 2023 کے طے شدہ اہداف کے حصول میں اس تحریک کی مدد، اپنا خصوصی فضل، راہ حق میں درپیش چیلنجزوں کا سامنا کرنے کی ہمت و طاقت عطا فرمائے، کٹھن سفر میں پیش آنے والی مشکلات دور کرے اور ہر طرح کی آسانیاں پیدا فرمائے۔ نیز نوجوانوں کی صف بندی، امامت و قیادت کی تیاری، کردار سازی، جدید و قدیم علوم سے آشنائی، صلاحیت و صالحیت کا امتزاج، گرد و پیش سے واقفیت، عالمی منظر نامہ سے آگہی، وقت کی رفتار پر گرفت، وسائل کی دستیابی، بصیرت پر مبنی فیصلے، اور مسلسل پیش قدمی اور ان تمام مدارج کو طے کرنے کی بھرپور صلاحیت سے نوازے جن کے بغیر اقامت دین محض دیوانے کا ایک خواب ہے۔ آمین یا رب العالمین۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2023