اسلامی تحریکات

اور دیگر نظریات ومقاصد والوں کے ساتھ اشتراک عمل کا مسئلہ

مصطفی محمد طحانؒ | ترجمہ: محی الدین غازی

یہ مضمون کئی دہائی پرانا ہے، اس کے بعد عالم اسلام میں بہت سی بڑی تبدیلیاں عمل میں آئیں، اور اسلامی تحریکات نے بہت سے کامیاب وناکام تجربات کیے، تاہم اس موضوع پر گفتگو کی اہمیت برقرار ہے۔ یہ مضمون سیاسی اصلاح کی خاطر حکومت اور دیگر قوتوں کے ساتھ اشتراک عمل کے مسئلے سے زیادہ بحث کرتا ہے، تاہم ہندوستان میں سیاسی اصلاح کے علاوہ سماجی اصلاح اور تحفظ ملت کے بہت سے محاذوں پر اشتراک عمل کے ضمن میں اس مضمون میں درج موقف، دلائل اور ضوابط کے حوالے سے غور کیا جاسکتا ہے۔ (ادارہ)

اسلام پسندوں کا اقتدار میں شرکت کرنا، ان کے بعض اہم افراد کا وزارتوں کو قبول کرنا، بعض حکومتوں کے ساتھ ان کا سمجھوتوں پر اتفاق کرنا، اور کچھ سیاسی طاقتوں کے ساتھ ان کے معاہدے ہونا، یہ وہ امور ہیں جو آخری کچھ برسوں میں اسلامی تحریک کے اندر اور باہر بہت سے مباحثے اور اعتراضات برپا کرنے کا سبب بنے۔

ایک طرف دنیا کی سیاست پر حاوی خارجی قوتیں اس امر کو تعجب اور شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، تو دوسری طرف ان تحریکوں کے اندر بھی خود اس معاملے میں رد اور قبول کی متضاد رائیں ہیں، اور بعض تو رد کرنے میں اتنا غلو کرتے ہیں کہ ہر اس شخص کو کافر قرار دیتے ہیں جو اس شجرہ محرمہ کے قریب چلا جائے۔

اس رجحان کا مطالعہ کرنا اور اس پر مباحثہ کرنا ضروری امر ہے، صورت حال کی پیچیدگی، رایوں کا تضاد، اور تحریک کے مفاد کے لیے فکر مندی اور تشویش اس بحث کو ضروری قرار دیتی ہے، کیوں کہ بسا اوقات اگر خاموشی اختیار کی جائے تو پریشانی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

اس مسئلے سے متعلق نظریاتی بحث میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اصلاً اس طرح کی مشارکت حرام ہے، اور بعض کا کہنا ہے کہ نہیں اصلاً یہ حلال ہے۔ میں ان اختلافات کی کوئی وجہ نہیں پاتا ہوں، اس طرح کے جتنے بھی مواقع اللہ کے رسول ﷺ کو درپیش ہوئے، ان میں آپ کا کہنا تھا: ان شاء اللہ معاملہ آسان ہے۔

ہجرت کے فوراً بعد مدینہ منورہ میں رسول پاک ﷺ نے ایک دستوری معاہدہ کیا، جو مسلمانوں، یہودیوں اور مدینہ کے بچے کھچے مشرکوں کے درمیان تھا۔ اس معاہدے نے تسلیم کیا کہ مدینے کے سارے مکین وہاں کے شہری ہیں، جو ایک دوسرے کی مدد اور نصرت کریں۔ جب حلف الفضول کا تذکرہ ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر زمانہ اسلام میں بھی مجھے اس کی طرف بلایا جاتا تو میں قبول کرلیتا۔‘‘ گو کہ اس معاہدے کو قریش نے اپنے مفادات اور امتیازات کی خاطر تشکیل دیا تھا، تاہم اس میں موجود انسانیت کے پہلو کو دیکھتے ہوئے آپ ﷺ نے اس کی ستائش کی۔

ادھر آخری برسوں میں اسلامی دھارے کی پیش رفت میں نمایاں اضافہ ان تمام انتخابات میں دیکھا گیا جن میں انھوں نے شرکت کی، خواہ وہ طلبائی ہوں، یا یونینوں کے، یا بلدیاتی، یا پارلیمانی۔ اسلام پسندوں کے سلسلے میں اس عوامی تبدیلی کے دو بنیادی اسباب ذکر کیے جاتے ہیں:

پہلا سبب داخلی ہے، جو داخلی اور خارجی چینلجوں کا سامنا کرنے میں حکومتوں، نیز نیشنلسٹ اور سیکولرسٹ پارٹیوں کی ناکامی کا، ساتھ ہی انسانی حقوق اور آزادیوں کے عملی تصور میں گراوٹ آجانے کا نتیجہ ہے۔

اور دوسرا سبب خارجی ہے، جو لادینی، امریکی، اور صہیونی حملوں میں دن بدن زیادتی ہونے کا، امت کو ذلیل کرنے اور پامال کرنے کی کوششوں میں اضافے کا، اور حکام کے اس یلغار کے سامنے سرنگوں ہوجانے کا نتیجہ ہے۔

ماضی قریب سے:

مصر میں، جو معاصر اسلامی تحریک کا مرکز ہے، اخوان المسلمون کبھی بھی اقتدار میں شامل نہیں ہوئے، گو کہ اقتدار سے ان کا تعلق منطقی نوعیت کا رہا۔ دشمنی کی ابتدا نہیں کرتے، حاکم کی تکفیر نہیں کرتے، سسٹم پر ہاتھ نہیں اٹھاتے، اور خود کشمکش کی دعوت نہیں دیتے۔ حسن البنا ؒ نے فلسطین بچاؤ کی ایک مجلس کی تشکیل میں، اور اس کے علاوہ مصر میں برطانوی استعمار کے خلاف قومی لڑائی میں بھی، متضاد موقف رکھنے والی دینی اور سیاسی شخصیات کے ساتھ تعاون کیا۔

امام البناؒ نے اسماعیل صدقی پاشا کی حکومت کے ساتھ بھی مفاہمت کی، اور علانیہ مفاہمت کی دستاویز لکھی، جس کا مدعا یہ تھا کہ اخوان حکومت کو سپورٹ دیں گے، اور اس کے بدلے میں حکومت انگریزوں کے خلاف جو نہر سویز پر قابض تھے، سخت موقف اختیار کرے گی۔ امام البناؒ نے تعاون کے جاری رہنے کو اس شرط کی پابندی کے ساتھ جوڑ دیا۔ اور جب صدقی کی حکومت نے اس شرط کو نظر انداز کیا، تو امام البنا نے اعلان کردیا کہ چونکہ حکومت نے مفاہمت کی کم سے کم شرط کو بھی پورا نہیں کیا اس لیے اخوان حکومت سے اپنا سپورٹ واپس لیتے ہیں۔

ان کے جانشین امام ہضیبی نے بھی 1952 میں انقلابیوں کے ساتھ مفاہمت کا معاہدہ کیا۔ بعد ازیں مرشد عام تلمسانی اور ان کے بعد والوں نے لادینی وفد پارٹی کے ساتھ ایک مرتبہ 1984 میں اور عمل واحرار پارٹی کے ساتھ دوسری مرتبہ 1987 میں سمجھوتے کیے۔

مصر میں اخوان نے پارٹیوں یا حکومتوں کے ساتھ ان مشارکتوں کے راستے سے اپنی سیاسی پوزیشن کو ترقی دینے میں کامیابی حاصل کی۔ آج بھی (تمام تر ظلم وزیادتی کے باوجود) وہ مصر کے سیاسی عمل کے میدان میں سب سے مشکل نمبر سمجھے جاتے ہیں، جو آزادی دوسروں کو حاصل ہے، اگر حکومت انہیں اس کا پانچ فی صد بھی دے دے، تو وہ پارلیمنٹ کی کم سے کم آدھی سیٹیں تو جیت ہی سکتے ہیں۔

شام میں صورت حال مختلف رہی، بانی تحریک ڈاکٹر مصطفی سباعیؒ جب پارلیمنٹ پہنچے، تو انھوں نے اشتراکی اسلامی اتحاد تشکیل دیا، اور دوسری پارٹیوں کو ساتھ لے کر شامی دستور کو منظور کرایا، جسے مسلمانوں کی بڑی کامیابی سمجھا گیا، کیوں کہ اس کی پہلی دفعہ میں کہا گیا تھا کہ اسلام ریاست کا مذہب ہے، اور قانون سازی کے لیے بنیادی مرجع ہے۔ جب استاذ عصام عطار شام میں اخوان کے مراقب عام بنے، تو انھوں نے پارلیمنٹ میں اسلامی الائنس تشکیل دیا، جس نے چھٹی دہائی کے شروع میں دوسری دائیں بازو اور بائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ مل کر وزارت تشکیل کی، اس میں اخوان کو تین وزارتیں ملیں۔ بعد ازیں شام میں اخوان کا ایک گروپ قومی محاذ میں ان سیکولر پارٹیوں کے ساتھ شریک ہوا جن سے پہلے ان کی لڑائی چلتی رہی۔

اس طرح شام میں تحریک دوسروں کو ساتھ لینے کے سیاسی عمل میں، یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کی تشکیل میں، ملکی امور پر موقف سازی اور پالیسی سازی میں، پر امن موقف اختیار کرتی رہی۔ 1955 میں اسلامی تحریک نے پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کیا، دلیل یہ تھی کہ وہ تربیت کی طرف یکسو ہونا چاہتی ہے، انجام کار تحریک سیاسی سطح پر گرگئی، بعث پارٹی جیسی لاغر قسم کی سیاسی پارٹیاں موقع پاکر سامنے آگئیں، قومی وحدت کی حکومت نے جمال عبدالناصر کے ساتھ ایکا کرلیا، اور اخوان تاریک سرنگ میں چلے گئے، اور ان کو میسر مواقع استعمال کرتے ہوئے دوسری پارٹیاں آگے پہنچ گئیں۔ پھر اخوان نے دوسری سیاسی غلطی اس وقت کی، جب انھوں نے یہ سوچا کہ حکومت کو ہتھیاروں کی قوت سے گرایا جاسکتا ہے۔

اچھی طرح یاد رکھنے کی بات ہے کہ بائیکاٹ اور عزلت پسندی سنجیدہ اور دھن کی پکی تحریکوں کا طریق نہیں ہے، اور ہتھیار کی قوت سے حکومت گرانا تحریک کی اخلاقیات میں سے نہیں ہے۔

اخوان جب شام میں وزارت میں شامل ہوئے تھے، تو عراق کی اسلامی تحریک میں اس پر نہایت سخت ردعمل سامنے آیا تھا، وہاں یہی سوچ برقرار رہی، یہاں تک کہ عراق میں سید عبدالرزاق نایف کی فوجی حکومت میں اخوان المسلمون اپنے مراقب عام ڈاکٹر عبدالکریم زیدان کو نمائندہ بناکر شامل ہوگئے۔

اردن میں اخوان نے چھٹی دہائی کے آخر میں ڈاکٹر اسحاق فرحان کی وزارت میں شمولیت کو سخت ناپسندیدگی سے دیکھا۔ ڈاکٹر فرحان سینئر اخوان کے اس عسکری کیمپ کے ذمہ دار تھے، جو فلسطین میں اسرائیلی تسلط سے مقابلے کے لیے 1968میں قائم کیا گیا تھا، اور جب وصفی تل کی حکومت بنی، اور اس نے رضاکارانہ کاموں کو ختم کرنا شروع کیا، تو ڈاکٹر فرحان اس کی وزارتی ٹیم میں شامل ہوگئے، تحریک نے ان کا اس بنیاد پر اخراج کردیا کہ انھوں نے اخوان سے رجوع کیے بغیر حکومت میں شرکت کیوں اختیار کی۔ بعد ازیں نوے کی دہائی کے شروع میں اردن کے اخوان متعدد وزیروں کے ساتھ حکومت میں شریک ہوئے، اور اسلامی پارٹی تشکیل دی، جو اردنی پارلیمنٹ میں سب سے بڑا پارلیمانی الائنس ہے، اور جو متعدد اسلام پسند گروہوں کا مجموعہ ہے۔

یاد رہے کہ جس وقت اردن کے بعض اخوانی اہل فکر اقتدار میں شرکت کے اس موقف کو ناپسند کررہے تھے، اکثر اخوانی اسے صحیح سمجھ رہے تھے۔

سوڈان میں معاملہ قدرے مختلف تھا، ڈاکٹر حسن ترابی کی قیادت میں اسلام پسند رجحان کے لوگوں نے جعفر نمیری کی قیادت والی فوجی حکومت سے سمجھوتہ کرلیا، اور ان لوگوں نے متعدد وزارتیں حاصل کیں، گرچہ بعض لوگوں نے اس سوچ کو قبول نہیں کیا، لیکن اکثریت نے اس طریق کو درست سمجھا۔ اسی کی دہائی کے آخر میں ترابی کی قیادت میں قومی فرنٹ نے جنرل عمر بشیر کی قیادت کے ساتھ مل کر فوجی انقلاب برپا کردیا۔ اور اقتدار پر قبضہ کرلیا، سوڈان میں اخوان کو اس انقلاب کی ضرورت نہیں تھی، وہ بھاری تعداد میں پارلیمنٹ کی سیٹوں پر پہلے سے فائز تھے۔ اس کے بعد تحریک تقسیم کا شکار ہوگئی، بشیر تنہا اقتدار پر قابض ہوگئے، اور ترابی نے حکمراں ٹولے کے مرتد ہونے کا اعلان کردیا۔

ڈاکٹر ترابی نے فوجی انقلاب کے لیے نظریہ سازی کی، اس سے پہلے وہ جمہوریت کے لیے نظریہ سازی کرچکے تھے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فوجی بغاوت ہو، یا عوامی انقلاب ہو، یا کوئی اور تبدیلی جو بزور طاقت مسلط کی جائے، یہ سب اسلامی تحریک کے تصور تبدیلی سے خارج ہے۔

یمن میں اسلامی تحریک اقتدار کے ساتھ شریک رہی، عوامی لیگ پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے علیحدگی پسندوں کے ساتھ لڑائی لڑی، اشتراکی پارٹی کے ساتھ لڑائی لڑی جب انھوں نے تعز کے علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے، شمالی یمن پر حملہ کیا، اور پھر دوبارہ عدن کے کمیونسٹوں سے لڑائی لڑی، جب انھوں نے علیحدگی کا اعلان کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ سرخ ڈریگن کے منھ سے ملک کو نکالنے میں اخوان کا بنیادی کردار تھا۔ یہ جنگ اخوان نے حکومت کے ساتھ مل کر ملک کی آزادی کے لیے لڑی، یہ حکومت کا تختہ پلٹنے کی جنگ، یا فوجی بغاوت کے لیے سازش رچنے سے مختلف جنگ ہے۔

ترکی میں سلامت نیشنل پارٹی نے ایک مرتبہ بائیں بازو کی شعب پارٹی کے ساتھ اور دوسری مرتبہ دائیں بازو کی پارٹیوں کے الائنس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، (1972-1979) کے درمیان۔ اور دونوں ہی مرتبہ ترکی میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے بڑے مقاصد حاصل کیے۔

رفاہ پارٹی جو سلامت پارٹی کا بدلا ہوا روپ تھی، 1995 کے انتخابات میں اکثریت سے کامیاب ہوئی، اور پہلا مقام حاصل کرلیا، جس پر صدر جمہوریہ نے اس کے قائد پروفیسر نجم الدین اربکان کو وزارت تشکیل دینے کی دعوت دی، انھوں نے تانسوچیلر کی پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔

اربکان نے حکومت کا جو یہ تجربہ کیا تھا اس کی گہری اسٹڈی ہونی چاہیے، وہ حکومت ایک سال چلی، پھر فوج اور امریکہ نے مل کر اسے ختم کردیا۔ اس حکومت کے پیش نظر تھا: آٹھ اسلامی ملکوں کا اقتصادی مجموعہ، قرض اور ٹیکس کے بغیر اقتصادی ترقی، اور دنیا کی اسلامی طاقتوں کے بیچ تعاون۔

پاکستان میں جماعت اسلامی کے بانی امیر امام ابوالاعلی مودودیؒ نے ظالم حکمراں سے ملک کو نجات دلانے کے لیے، دائیں بازو اور بائیں بازو کی پارٹٰیوں پر مشتمل سیاسی اتحاد میں شامل ہونا قبول کیا۔ اسی طرح جماعت اسلامی ضیاء الحق کے فوجی انقلاب کے بعد والی حکومت میں کئی وزیروں کے ساتھ شامل ہوئی، صدر مملکت کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے رہے۔

ملیشیا میں مسلم یوتھ موومنٹ (ABIM) کے صدر انور ابراہیم نے چونکا دیا، جب انھوں نےاستعفی دے کر، حکمراں پارٹی (امنو) کے ٹکٹ سے الیکشن میں حصہ لیا۔ ان کی یہ مشارکت ملیشیا کے اسلامی حلقوں میں ناپسندیدگی سے دیکھی جاتی ہے۔

اندونیشیا میں ماشومی پارٹی نے اقتدار سنبھالا، اس کے قائد ڈاکٹر محمد ناصر وزیر اعظم بنے، سوکارنو صدر جمہوریہ تھا، اسلامی پارٹیاں اور تنظیمیں ملک کے انتظام میں اس کا تعاون کرتی رہیں، اور وہ اپنے منصب پر برقرار رہا، یہاں تک کہ سوکارنو نے فیصلہ کیا کہ ملک کو اسلام کی راہ سے پھیر دے، یہیں سے دونوں میں اختلاف پیدا ہوا، اسلامی تحریک نے ریاست کے خلاف اعلان جنگ کردیا، طویل زمانے تک جنگ جاری رہی، نہ ریاست کو فائدہ ملا، اور نہ اسلامی تحریک کسی ہدف تک پہنچ سکی، صرف کمیونسٹوں نے اس مسلح کشمکش سے فائدہ اٹھایا۔

ایران میں اسلامی جمہوری پارٹی تنہا اقتدار پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگئی، اور اس نے جمہوری اسلامی ایران کا اعلان کردیا، جبکہ آغاز میں اس نے اشتراکی، قومی، اسلامی اور لبرل وغیرہ پارٹیوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔

کویت میں جمعیۃ الاصلاح الاجتماعی (جو اخوان المسلمون کی سمجھی جاتی ہے) کے ممبران پارلیمنٹ نوے کی دہائی کے شروع میں متعدد وزیروں کے ساتھ حکومت میں شامل رہے۔ یہی بحرین، یمن اور تاجکستان اور دوسرے ملکوں میں بھی ہوا۔

اصولی گفتگو

یہ اسلامی تحریکات کے حکومت واقتدار کے سلسلے میں کچھ تجربات ہیں، یہ درج صورتوں میں سمیٹے جاسکتے ہیں:

  1. اسلام پسند تنہا حکومت کی ذمہ داری سنبھال لیں۔
  2. مخلوط حکومتوں میں شامل ہوں جن میں وزراء کی اکثریت دائیں بازو یا بائیں بازو کی ہو۔
  3. دائیں بازو یا بائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ معاہدے کیے جائیں، کسی متعین ہدف کو حاصل کرنے کے لیے، یہ ہدف زیادہ تر کسی ظالم حکمراں کو اقتدار سے بے دخل کرنا یا کسی متعین سیاسی صورت حال پر قابو پانا ہوتا ہے۔
  4. ان تمام مشارکتوں سے دور رہنا، اور انہیں شیطان کا گندا کام سمجھنا، اور یہ سمجھنا کہ اس سے قریب ہونا کفر ہے، جس کا ارتکاب کسی مسلم کے لیے جائز نہیں ہے۔

ہم واضح کردیں کہ یہ صورت کہ اسلام پسندوں کو آئینی طریقے سے تنہا حکومت کرنے کا موقع مل جائے، جیسا کہ انڈونیشیا میں ماشومی پارٹی کے ساتھ ہوا، جب اس نے ہالینڈ کے خلاف جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ یا حماس نے جب حکومت سنبھالی پہلے جمہوری پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے، تو یہ صورت تو ہر اس جماعت کی منزل مقصود ہے، جو اپنے مقاصد کی حصولیابی کے لیے اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہے۔

جہاں تک اپنے خول میں بند ہونے کی بات ہے، اور ہر گفتگو اور ہر مشارکت کو شیطان کا گندا کام سمجھنا ہے، تو یہ اس اسلام کی عملی روح کے خلاف ہے، جو دین وملت کے مفاد کو اپنا مقصد اور ہدف قرار دیتا ہے۔ یہ انتہا پسندی ہے، جس کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا کہ تحریک اپنے مقصد سے دور ہوجائے، اور اسے گھن لگ جائے۔

جہاں تک اسلامی تحریکات کا کسی ایسی وزارت میں شامل ہونا ہے، جسے ایسے لوگ تشکیل دے رہے ہوں جو اسلام پسند نہ ہوں، بلکہ اکثر دفعہ تو اسلامی فکر وعمل سے دور بھی ہوں، تو یہ اصل میں ضرورت کے باب کے تحت آئے گا، اور ضرورت کی اجازت بقدر ضرورت ہی ہوتی ہے، اس میں اسلامی دعوت کا مفاد، اور اس ملک کے مسلمانوں کا مفاد دیکھا جائے گا۔

تو جب کوئی حقیقی مصلحت ہو، یا یہ کہ اسلام پسندوں کی اس طرح کی حکومتوں میں شرکت مسلمانوں کے لیے عمومی فائدہ کا سبب بنے، یا درپیش کسی بڑے بگاڑ اور تباہ کن نقصان سے بچا سکتی ہو، تو ایسی حالت میں شرکت بہتر ہے۔ اسے ہم کچھ مثالوں سے واضح کریں گے:

پہلی مثال: ترکی میں سلامت نیشنل پارٹی کی حکومت میں شرکت

سلامت پارٹی ترکی میں ستر کی دہائی کے شروع میں طاقتوں کے توازن کی کوشش کے بیچ میں قائم ہوئی، فوج کو (جو ترکی سیاست پر اتاترک کے زمانے سے حاوی رہی ہے) یقین نہیں تھا کہ یہ نئی پارٹی اپنے قدموں پر کھڑی ہوسکے گی، شعب پارٹی اور عدالت پارٹی جیسی پرانی اور قدآور پارٹیوں کی موجودگی میں جو فوج اور عوام کی صفوں میں اندر تک سرایت کیے ہوئی تھیں، اور جنہیں بڑے ملکوں اور عالمی اور امپیریل تنظیموں کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ لیکن سلامت پارٹی نے معجزہ برپا کردیا، اور حکومت کی تشکیل کے لیے ناگزیر عنصر بن گئی۔

وہ بولنت اجاوید کی زیر قیادت شعب پارٹی کے ساتھ الائنس میں شامل ہوئی، جو اصل میں اسلام دشمن آئیڈیالوجی کی علم بردار تھی، اور جس سے توقع یہ تھی کہ وہ اسلامی پارٹی کی سب سے پہلی دشمن ہوگی۔ یہ الائنس اتاترک کی پارٹی کی جانب سے سلامت پارٹی کی صورت میں اسلامی آئیڈیالوجی کا پہلا باقاعدہ اعتراف تھا۔ سلامت پارٹی کی وزارت میں شرکت نے اسلام کو ترکی سیاست آرائیوں میں آگے کردیا، جبکہ مغرب اور اس کے ساتھ ہی مغرب زدہ پارٹیوں نے اسلام کو دور کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔ سلامت پارٹی کا بعد میں دائیں بازو کے ساتھ الائنس بھی اسی مقصد کے لیے تھا۔

کوئی اعتراض کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے : اس اپروچ سے سلامت پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، کیوں کہ ستمبر 1980 میں فوجی انقلاب آیا، پارٹی تحلیل کردی گئی، اور اس کے قائدین جیل میں ڈال دئے گئے۔ ہم پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں، صرف ایک دن بھی ترکی کی سیکولر حکومت شعب پارٹی یا عدالت پارٹی کے ٹھیکیداروں کی زبان سے سلامت پارٹی کو تسلیم کرلیتی تو وہ بہت بڑی بات ہوتی، یہاں تو پورے پورے چار سال تک اسے تسلیم کیا جاتا رہا۔ سلامت پارٹی نے اقتدار میں شریک ہوکر ترکی مسلمان کی زندگی میں بنیادی چیزوں کے حصول کو ممکن بنایا، اپنے اوپر۔ اپنے وجود پر اور اپنے اسلام پر اعتماد کو بحال کیا۔ مسلم نوجوان اسلام پر فخر اور اسلام کی بنا پر خود کو سربلند محسوس کرنے لگا۔ بلاشبہ عہد تاریکی کے پچاس سال بھی گزر جائیں تو ترکی کے مسلم عوام سلامت پارٹی کو فراموش نہیں کرسکتے۔ اس پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ رفاہ پارٹی نے جو کہ سلامت پارٹی کا ہی امتداد تھی، مارچ 1994 میں ترکی کی سب سے اہم اور سب سے بڑی بلدیہ کی سیٹ حاصل کرلی، اور دسمبر 1995 میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی پوزیشن حاصل کی۔ اور الائنس بناکر اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی۔

دوسری مثال: افریقہ کی صورت حال

افریقہ مسلمانوں کا براعظم ہے، اس کے بیشتر باشندے مسلمان ہیں، مغربی استعمار نے مشنریوں کے کارکنان، اسکولوں اور چرچوں کے ذریعہ کوشش کی کہ وہاں کے باشندوں کو عیسائیت کے رنگ میں رنگ دے، اور انہیں ذہن نشین کرادے کہ وہ عیسائی ہیں۔

استعمار دوسروں سے پہلے خود جانتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں عیسائیوں کی تعداد کم ہے، اور جن لوگوں نے عیسائیت کو قبول کیا ہے، وہ محض ظاہری طور پر اور اپنے مفاد کے لیے، نہ کہ دین اور عقیدے کے طور پر۔ مثال کے طور پر ایک ملک ملاوی میں مسلمان ساٹھ لاکھ کی آبادی میں ساٹھ فی صد ہیں، لیکن حکومت عیسائیوں کی ہے، جو تعلیم کے نظام پر پوری طرح قابض ہیں، اور یہ شرط رکھتے ہیں کہ مسلمان طالب علم مدرسے میں داخلے کے لیے عیسائی نام اختیار کرے، انھوں نے بیس سال کے عرصے میں مسلمانوں کی تعداد کو گھٹا کر ساٹھ فی صد سے تیس فی صد کردیا۔ اب اگر کوئی مسلم وزیر حکومت میں داخل ہوسکے، صورت حال کا تدارک کرسکے، اور مسلمانوں کی بقا کے لیے کام کرسکے، تو اس میں کوئی بری بات نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس، ایسی حالت میں اس کا شریک ہونا ضروری ہے، مسلمانوں کا مفاد اس کا تقاضا کرتا ہے۔ جس طرح سے یوسف علیہ السلام کی اقتدار میں شرکت مصر کے عوام کی بہتری کے لیے تھی۔

اس موضوع پر گفتگو کا خلاصہ:

واضح شرطوں کے ساتھ، روشن اسلامی مصالح کے لیے، حالات کے تقاضوں کے تحت، متعین حکمت عملی کے مطابق، اسلام پسندوں کی اقتدار میں شرکت، ان امور میں سے ہے جن کے سلسلے میں اسلامی تحریک کو بنا کسی مضائقے کے فیصلہ لینے کا حق حاصل ہے۔

ہم یہاں کچھ نکات کی طرف متوجہ کرنا چاہیں گے:

٭ •                           حکومت سازی اور اقتدار کا حصول ایسا ہدف نہیں ہونا چاہیے، جسے اسلام پسندوں کے ذریعے اصولوں کی قیمت پر، یا عوام کی قیمت پر، یا آزادیوں کی قیمت پر، یا لوگوں کے روزگار کی قیمت پر یا ملک کی آزادی، اور وطن کی بازیابی کی قیمت پر بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

٭ •                           اسلام پسندوں کی اقتدار میں شرکت آئینی طریقوں کے مطابق ہونی چاہیے، یعنی انتخابات کے راستے سے عوام کا مینڈیٹ لے کر، نہ کہ کسی اور راستے سے۔

٭ •                           اسلام پسندوں کے اقتدار کی کنجیاں لینے سے پہلے، بڑے پیمانے پر حقیقی اسٹڈی ہونی چاہیے جس سے انہیں یہ یقین ہوجائے کہ ان کا اقتدار کی کرسیوں پر رہنا اسلام اور مسلمانوں کے لیے اپوزیشن کی کرسیوں پر رہنے سے زیادہ مفید ہوگا، ورنہ اپوزیشن میں رہنا زیادہ محفوظ طریق ہے۔

٭ •                           اس کی بھی یقین دہانی کرنی چاہیے کہ مقامی اور بین الاقوامی حالات اس تبدیلی کے لیے مناسب ہیں، تاکہ اسلام پسند خود کو بالآخر ایسے جال میں پھنسا ہوا نہ پائیں، کہ انہیں دیکھ کر رشک آنے کے بجائے، افسوس ہو اور ترس آئے۔

تبصرہ (۱)

نصرت علی، چیرمین مرکزی تعلیمی بورڈ، دہلی

استاذ مصطفٰے طحان کا تحریکات اسلامی کے ایک اہم عنوان پر مبسوط مقالہ پیش نظر ہے۔اس سلسلے میں پہلے کچھ اصولی اور تمہیدی معروضات پیش ہیں۔ اس کے بعد ہندوستانی تحریک اسلامی کے تناظر میں چند باتیں عرض کی جائیں گی۔

تحریک اسلامی ہو یا کوئی دوسری نظریاتی تحریک وہ اپنے ملک وسماج کو سامنے رکھ کرہی اپنی حکمت عملی وضع کرتی ہے اور بدلتے ہوئے حالات میں اپنے بنیادی اصولوںاور عصری تقاضوں کے مطابق فیصلے اور اقدامات کرتی ہے۔ کسی دوسرے ملک یا خاص سماجی پس منظر میںاٹھنے والی تحریک دیگر تحریکوں کے لیے ماڈل نہیں بن سکتی البتہ وہ ایک دوسرے کے تجربات سے کسی قدر استفادہ ضرور کر سکتی ہیں۔

اسلامی تحریکوں کے سلسلے میں یہ بات بھی پیش نظررکھنی چاہیے کہ ان کے اند ر آئیڈیالوجی پربالعموم کوئی اختلاف نہیں ہوتا کیوں کہ ان کے افرادتحریک کے نصب العین کواچھی طرح سمجھ کر ہی تحریک میں شامل ہوتے ہیں اور اس کی پشت پر قرآن وسنت کےاطمینان بخش اورمضبوط دلائل موجود ہوتے ہیں۔

اگر اسلامی تحریک کی آئیڈیالوجی تبدیل ہوجائے تو تحریک کا معنوی وجود ختم ہوجائے گا۔ البتہ اس کی آئیڈیالوجی کا بدلتے ہوئے حالات پر انطباق، اس کا طریقہ پیشکش، پالیسی اور لائحہ عمل حالات سے ہم آہنگ نہ ہوں تو تحریک جامد ہوجاتی ہے۔ وہ زمانے کی رہ نمائی تو کیا زمانے کے ساتھ بھی نہیں چل سکتی ،ان امور میں رایوں کا اختلاف ہوتا ہے کیوں کہ افراد کے درمیان حالات کی تبدیلی کا فہم اور اس کی تعبیر الگ الگ ہوسکتی ہے۔ یو ں بھی عام افراد کے لیے تبدیلی کو قبول کرنا مشکل ہوتا ہے کیوںکہ لوگ طویل مدت سے جو کچھ دیکھتے رہتے ہیں اسی کے عادی ہوجاتے ہیں، اس کے برعکس کبھی کبھی تحریکوں کی فکر اور ان کی حرکیت میں توازن برقرار نہیں رہ پاتااور حرکیت ان کی فکر پر غالب ہونے لگتی ہے۔تحریکوں کا وقت اوران کے وسائل ایسی سرگرمیوں میں صرف ہونے لگتے ہیںکہ پھر ان میں اور دیگر سماجی اور سیاسی تنظیموں کے درمیان کوئی نمایا ںفرق باقی نہیں رہ جاتا۔

زیر تبصرہ مضمون میں زیادہ تر ان ممالک کی مثال پیش کی گئی ہے جہاں اسلامی تحریکوں نے سیاسی اصلاح کی خاطر دیگر ایسی قوتوںکے ساتھ اشتراک عمل کیا ہے، جو ان سے مختلف یا مخالف نظریات رکھتی ہیں، ان کے ساتھ اقتدار میں شرکت کی ہے یا ان سے سیاسی معاہدے کیے ہیں۔

ان تحریکوں کے فیصلوں ان کے وجوہ، مقاصد اور نتائج پر الگ الگ تفصیلی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔خود ان تحریکوں کے افراد بھی فیصلوں کے مثبت اور منفی فیصلوں پر بھی اظہار خیال کرتے رہے ہیں اور بعض دانشور حضرات بھی ان پر اپنے خیالات تحریر فرماتے رہے ہیں۔

جہاں تک ہندوستان کی اسلامی تحریک کا تعلق ہے اس کے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں اور وہ ایسے مخصوص حالات میں کام کر رہی ہے، جو دیگر اسلامی تحریکات سے الگ ہیں۔ ہندوستان میں اقامت دین کے لیے ضروری ہے کہ برادران وطن کی اکثریت یا بڑی تعداد اسلام سے بہ خوبی واقف ہو جائے ، مسلمانوں میں اسلام کا علم اور اس کا جامع تصور عام ہو۔ان کا مادی ومعنوی تحفظ ہو،علمی وفکری صلاحیتوں کا حامل ایک گروپ تیار ہوجو غیر اسلامی افکار و نظریات پر علمی تنقید کر سکے اور اسلام کی حقانیت کو دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کی اہلیت رکھتاہو۔ ملک میں تحریک اسلامی کی یہ تصویربنے کہ وہ ملک اور سماج کی خیر خواہ ہے ملک میں ہرمذہبی اور تہذیبی گروہ کو اپنے عقیدے اورمسلک پر عمل کرنے اور اسے دوسرے انسانوں تک پہنچانے کی آزادی برقرار رہے۔

ان میں بیش تراموروہ ہیں جن کے بارے میں ملک کے مختلف افراد ،گروہ اور تنظیمیں اپنے اپنے انداز سے کوشش کر رہی ہیں۔ان کے افکار و خیالات الگ ہو سکتے ہیں لیکن وہ اسی زمین پر کا م کر رہی ہیں۔جہاں تحریک اسلامی اپنے مقاصد کے لیے مصروف کارہے لہٰذاتحریک ان سے الگ تھلگ رہ کر سماج میں موثرنہیں ہوسکتی ہے۔ ان سے ایک حد تک ربط رکھنا ضروری ہے۔

تحریک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے افراد اور وسائل کے مطابق خود براہ راست اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کرے دوسرے افرادکو بھی ان کاموں کو انجام دینے کے لیے آمادہ کرے اور اس سلسلے میں ان کی صحیح طور پررہ نمائی کرے، جو افراد اور تنظیمیں جن کاموں کو انجام دے رہی ہیں ا ن کا تعاون کرے اور اپنی سرگرمیوں میں ان کا تعاون حاصل کرے۔ کچھ کام اس طرح کے ہیں کہ اس سلسلے میں حکومت اور اس کے ادارہ جات کا بڑا رول ہوتا ہے، جن کو حکومت ہی اپنے وسائل اور اختیارات کی بنیاد پر کرسکتی ہیں۔ اسی طرح بعض کام ملت کے افراد ،ادارے اور تنظیمیں بہترانداـز میں کر رہی ہوتی ہیں، بہت سے امور وہ ہیں، جن کو برادران وطن کے مختلف گروہ انجام دے رہے ہیں۔تحریک اسلامی کوان سے مربوط رہ کران تمام فلاحی اور سماجی کاموں میں اپنے اصولوں کے مطابق بھرپور حصہ لینا چاہیے۔

ملکی حکومت کے سلسلے میں ہمارا رویہ کیا ہو اس پر تحریک میں طویل بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں صرف ان آداب وحدود کا پابند ہونا چاہیے جو قرآن وسنت کے منصوص احکام پر مبنی ہوںنہ کہ انفرادی اجتہادات پر، تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کا رویہ ہمیشہ ملک میں دعوت اسلامی اور تحریک کے مصالح پر مبنی ہونا چاہیے۔ ہرزمانہ اور ملک کے حالات اور تاریخی پس منظر الگ الگ ہوتے ہیں لہذا تحریک اسلامی کے وابستگان کو اس سلسلے میں کوئی ہدایت اس کے سوا نہیںدی گئی کہ ان کی دعوت صاف، بے لاگ اور بے آمیز ہو۔

وہ کوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کریں جو اخلاقی اصولوں کے خلاف ہو اور ان کی نگاہیں آخری مقصود ، اقامت دین پر جمی رہیں۔اس میں نہ کوئی مداہنت ہو نہ مصلحت کوشی اور نہ ہی عجلت پسندی ہی سے کام لیا جائے۔

حکومت کے پروگراموں اور اسکیموں میں تعاون اوران سے استفادہ کی جو ممکنہ تدابیر ہو سکتی ہیں وہ ضرور اختیار کی جائیں۔ حکومت کے وسائل اور ذرائع سے بندگان خداکو فائدہ پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ حکومت کی منصوبہ سازی اور اسکیموں کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کیا جائے مثلاً غور وفکرکے اس عمل میں حصہ لیا جائے کہ تعلیم کیا ہے اور کس طرح دی جاسکتی ہے ، اور متبادل تعلیمی پالیسی کیا ہوسکتی ہے ؟اسی طرح معاشی اور سیاسی پالیسی کی تشکیل میںتحریک کو اپنے فکر کی روشنی میں حصہ لینا چاہیے البتہ حکومت کا کوئی ایسا کام سامنے آئے جو دینی احکام کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ہو تو اس سے احترازکیا جائے۔تحریک اسلامی ملک کی عام زندگی کو اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے اس لیے ان مواقع سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے جو اس ملک میں اسے حاصل ہیں۔ اس صورت میں ملک کی وہ داخلہ اور خارجہ پالیسیاں تبدیل ہوسکتی ہیں جو مسلمانوں اور عام انسانوں کے مفاد کے خلاف ہوں۔

ملک کا موجودہ نظام جمہوری اقدار پر مبنی ہے۔ جس میں ازروئے دستور تمام شہریوں کو آزادی ، مساوات ، انصاف اوراخوت جیسی قدروں کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے۔ یہاں بعض طاقتیں ایک طویل عرصہ سے ان قدروں کو پامال کرنے اور سماج میں نفرت وتقسیم کا ماحول پیداکرنے کے لیے کوشاں ہیں۔انھیں اب ملک میں اقتدار بھی حاصل ہوگیا ہے۔ اور وہ علی الاعلان اپنے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ وہ سماج میں مذہبی منافرت کی بنیاد پر صف بندی پیدا کر رہی ہیں۔ دستور ی اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ قانون ساز اداروں سے ایسے قوانین منظورکر ارہی ہیں ،جن میں خصوصاً مسلمانوں کو ہدف بنایاجارہا ہے۔ ان کی اس طرح کی سرگرمیوں سے مسلمانوں کو تو نقصان پہنچے گا ہی ملک بھی امن وانصاف ، سکون واطمینان اور تعمیر وترقی ہر لحاظ سے پیچھے کی طرف جائے گا۔ اور یہ زوال اب نظر بھی آنے لگا ہے۔ ان طاقتوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ مرکزی اور ریاستی سطح پر جو سیاسی جماعتیں اپنی کم زوریوں کے باوجود ملک کے دستور کے تحفظ اور جمہوری اقدار کی بقا میں یقین رکھتی ہیں ان کی حمایت کی جائے۔ یہ حمایت ظاہر ہے تحریک اپنی نظریاتی شناخت اور طے شدہ اصولوں کی بنیاد پر ہی کرتی رہی ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ مزید موثر انداز میں جاری رہنا چاہیے۔

ملت اسلامیہ مختلف مسالک، تنظیموں اور گروہوں میں تقسیم ہے اس اختلاف کے باوجود مشترکہ امور میں مل جل کر کام کرنے کا مزاج بنانا ضروری ہے۔ یہ صلاحیت تحریک اسلامی کوخود اپنے اندرمزید پروان چڑھانے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ دیگر ملی شخصیات، تنظیموں اور مسالک سے وابستہ افراد کا مزاج بنانے کی ذمے داری بھی اس پر عائد ہوتی ہے۔ تحریک اسلامی نے شروع ہی سے ہر موقع اور ہر سطح پر اپنی یہ ذمے داری ادا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ملت میں ابھی یہ مزاج نا پختہ ہے۔ ملت کے تحفظ اور تشخص کے مسائل ہو ں یا تعمیر وترقی کے منصوبے ،وقتی طور پر مل جل کر کام کرنے کا ماحول بن جاتا ہے لیکن وہ پائیدار نہیںہوتا۔مختلف نظریات اور مقاصد کی حامل سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مفادات کے لیے علاقائی یا ملکی سطح پر متحدہ محاذ بنالیتی ہیں اور اس طرح کی متحدہ شکلیں عالمی سطح پر بھی دکھائی دیتی ہیں۔ مسلمانوں میں کسی وقتی تحریک پر جومتحدہ اورو فاقی ڈھانچے بنتے ہیں وہ موثر نہیں ہوپاتے۔تحریک اسلامی اصلاً پوری امت کی تحریک ہے یہ الجماعۃ نہیں ہے۔پوری امت کو اقامت دین کے لیے تیار کرنا تحریک کی ضرورت اور ذمے داری ہے لہذا امت کے وہ مسائل جن کو اسلام مسئلہ قرار دیتا ہے اس کے مسائل بھی ہیںنہ کہ ہر وہ مسئلہ جو کسی شخص یا گروہ کی جانب سے اپنے ذوق اوردل چسپی کی بنا پر مسئلہ قرار دیا جارہا ہو، تحریک اسلامی کواس فرق کو اپنے سامنے رکھنا ہوگا۔ امت میں بعض وفاقی ڈھانچے موجود ہیں جو کچھ خاص مسائل پر کام کرنے کے لیے تشکیل دیے گیے ہیں اور جن کو وجود میں لانے میں تحریک کا موثر اور قابل قدر رول رہا ہے۔انھیں موثر بنانا اور تقویت دینا بھی تحریک کی ذمے داری ہے۔

سماج میں مختلف غیر سرکاری تنظیمیں اور سول سوسائٹی گروپس پربھی کام کررہے ہیں جو الگ الگ میدانوں میں سماجی اصلاح اور عمومی فلاح و بہبود کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ غریبوں اور بے سہارا افراد کی امداد ، تعلیمی بیداری ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن و انصاف کے قیام وغیر ہ سے متعلق میدانوں میں بر سر کار ہیں۔ ان میں بہت سے کام وہ ہیں جو تحریک اسلامی کے پروگرام میں شامل ہیں۔ قرآن کریم میں انبیائے کرام کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے جہاں انسانوں کو عقیدے کی دعوت دی ہے وہیں عام انسانی مسائل کے لیے بھی آواز اٹھائی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے تشکیل جماعت کے وقت فرمایا تھا کہ ہماری دعوت سارے انسانوں کے لیے ہے۔ لہذا تمام انسانوں کے مسائل ہمارے مسائل ہیںچناں چہ ہندوستان کی تحریک اسلامی شروع سے ہی انسانوں کی خدمت اوران کے مسائل کے حل کی کوشش کرتی رہی ہے۔ تحریک کا ایک قرآنی اصول یہ ہے کہ و ہ ہرنیک کام میں دوسروں کا تعاون کرے گی۔ لہذا انسانوں کے درمیان عدل و انصاف ، امن و سلامتی کے قیام ، بھائی چارے کے فروغ اور عوامی فلاح و بہبود کے کام وہ خود انجام دے گی اور جہاں دیگر افراد یہ کام کریں گے وہاں وہ اپنا بھرپورتعاون پیش کرے گی اور اس سلسلے میں کسی طرح کا فرق و امتیاز روا نہ رکھے گی۔ تاہم ایسے کام جو انسانوں کے لیے اخلاقی اور مادی لحاظ سے ضرررساں ہوسکتے ہیں وہ نہ خود کرے گی اورنہ ان میں دوسرں کا تعاون کرے گی۔

مذکورہ بحث سے یہ واضح ہے کہ مسلم معاشرے کو اسلامی معاشرے میں تبدیلی کرنا ہو۔ برادران وطن میں اسلام کی دعوت کا کام ہو، ملک میں عدل و مساوات اور امن کا فروغ ہو، مسلمانوں اور پس ماندہ طبقات کی سماجی قوت میں اضافہ ہو، تحریک اسلامی ان تمام امور میں اپنے اصولوں کے دائرے میں حکومت ، سول سوسائٹی اور افراد ملت سب کا نہ صرف بھر پور تعاون کرے گی بلکہ انھیںتقویت پہنچائے گی یہ اس کے نصب العین اور بنیادی اصولوں کا صریح تقاضاہے۔ ساتھ ہی اس کی کامیابی کاذریعہ اور ضمانت بھی ہے۔

تبصرہ (۲)

سہیل کار،  بارہمولہ، کشمیر

زیر نظر مضمون میں ان تحریکات کا ذکر ہے جو مسلمان ملکوں میں برسر پیکار ہیں۔ صاحب مضمون نے مختلف اسلامی تحریکوں کے غیر تحریکی قوتوں کے ساتھ وقتاً فوقتاً کیے گئے اشتراک کے مثبت فوائد کا ذکر کرتے ہوئے ایک عملی بیانیے کا اظہار کیا ہے کہ اشتراک میں زیادہ فوائد ہیں۔ تحریک کا isolation میں کام کرنا سود مند ثابت نہیں ہوتا۔ اس بیانیے کو اگر ہندوستان کے تحریکی حلقوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو کئی سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ صاحب مضمون نے جن تحریکوں کا ذکر کیا ہے ان کے دائرہ کار اور لٹریچر کا علم ہونا ضروری ہے۔ ان تحریکی قوتوں کی سماجی قوت یا سیاسی قوت کو سمجھنا ہوگا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ تحریکوں کی اہم خوبی سماجی اور سیاسی امور میں ان کا فعال رول ہے۔ اصولی اعتبار سے اشتراک نا ہی غیر شرعی عمل ہے نا ہی غیر اخلاقی اور نا ہی غیر مشروط ہے۔ ہر اشتراک میں محض مثبت فوائد ہی برآمد ہوئے ہوں ایسا نہیں ہے بلکہ بعض اوقات اشتراک کے نتیجے میں وقتی فائدہ تو ہوتا ہے لیکن دور رس منفی اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تحریک اسلامی کے ملٹری ڈکٹیٹروں کے ساتھ اشتراک نے مثبت کے بجائے منفی اثرات ہی مترتب کیے ہیں۔ خیر یہاں میرا مقصود مذکورہ تحریکوں کا بیان نہیں ہے بلکہ صاحب مضمون کے پیش کردہ بیانیے کا ہندوستان کی تحریک اسلامی پر اطلاق کرکے دیکھنا ہے۔ تحریک اسلامی ہند کے غیر تحریکی یا دیگر غالب قوتوں کے ساتھ اشتراک کا معاملہ آتا ہے تو اسے کئی سطح پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اول تو تحریک اسلامی ہند کا معاملہ سرے سے ہی الگ ہے، کیونکہ اس کا میدان کار ایک غیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ تحریک اسلامی ہند کا موازنہ ایسے میں مسلم اکثریتی علاقوں میں کام کر رہی تحریکوں کے ساتھ مناسب نہیں ہے۔ تاہم اشتراک کے بیانیے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اقلیت ہوتے ہوئے بھی تحریک اسلامی کو اشتراک کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا تحریک اسلامی ہند اس طرح کے کسی اشتراک کی اہلیت رکھتی ہے؟ اشتراک کی یا تو نظری بنیادیں ہیں یا عملی۔ جماعت اسلامی ہند کے نظری ڈھانچے کا جب جائزہ لیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جماعت ملک بھر میں معروف عوامی جمہوریت، سیکولرزم، سوشلزم اور لبرلزم جیسے نظریات کے خلاف ہے۔ جماعت کا پورا لٹریچر ان نظریات کو عقائد کے عنوان کے تحت رد کرتا ہے۔ ہندوستان کی غالب سیاسی قوتیں انہی نظریات کی حامی ہیں۔ جماعت کے نظری اصول کا دائرہ اتنا تنگ ہے کہ نظری اعتبار سے ان کا کسی کے ساتھ اشتراک ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ اب اگر اشتراک کرنا بھی پڑے تو نوعیت اضطرار کی رہتی ہے اور اس طرح کی اضطراری کیفیت میں مثبت کے بجائے منفی اثرات برآمد ہوتے ہیں۔ صاحب مضمون کے بیانیے کو نظری اعتبار سے اختیار کرنے کے لیے تحریک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے لٹریچر کا از سر نو جائزہ لے۔ کم سے کم اتنی وسعت لٹریچر میں ہو کہ نظریاتی کینوس کسی حد تک وسیع ہوجائے۔ اب رہا سوال عملی بنیادوں پر اشتراک کا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اشتراک دو قوتوں کے بیچ ہی ہوتا ہے۔ بالخصوص عملی ایشوز کو لے کر جو اشتراک ہوتا ہے۔ اس طرح کے اشتراک سے پہلے کسی بھی تنظیم کی سیاسی یا سماجی قوت دیکھی جاتی ہے۔ اس حقیقت کا اطلاق جب تحریک اسلامی ہند پر ہو تو صورت حوصلہ افزا دکھائی نہیں دیتی۔ یہاں یہ تذکرہ کروں کہ سماجی قوت اس قوت کا نام ہے جس کے استعمال سے مخالف جماعت کے رویے میں مطلوبہ تبدیلی لائی جاسکے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی جو کہ کل آبادی کا قریب %15 ہے، اپنا کوئی مؤثروجود نہیں رکھتی۔ ایسے میں تحریک اسلامی جو کہ کل مسلم آبادی کا معمولی سا تناسب رکھتی ہے، کسی با اثر قوت کا نام نہیں ہے۔ اگرچہ تحریک اسلامی اپنے محدود وسائل کو لے کر ہندوستان میں کئی طرح کے کام کررہی ہے، تاہم 70 سالہ کارکردگی کے باوجود اب تک کسی سیاسی یا سماجی قوت کے بطور ابھر کر سامنے آنے میں وہ ناکام ہے۔ مجموعی آبادی کی کیا بات، تحریک خود مسلم آبادی میں بھی اپنے وجود کو منوا نہیں سکی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ عام مسلمان نہ ہی مذہبی امور میں تحریک سے وابستہ علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں اور نہ ہی سیاسی وسماجی امور میں جماعت کے متعلقہ عمائدین سے رجوع کرتے ہیں۔ سیاسی وسماجی قوت کے جتنے بھی indicators ہیں تحریک شاید ہی کسی انڈکس میں اپنا نام بنا پائی ہے۔ کسی بھی اہم شعبے کی بات ہو چاہے تعلیم کا شعبہ ہو، صحت کا ہو یا میڈیا کا، تحریک کا نام چَھپا ہوا نہیں بلکہ چُھپا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ نصف سے زائد خواتین پر مبنی آبادی میں تحریک کا کام نا ہونے کے برابر ہے۔ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ تحریک سے متعلق سیاسی پارٹی زمین پر تو کمزور ہے ہی، خود تحریک کے اندر نظری اعتبار سے قبولیت پانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ایسے میں تحریک کا کسی غالب یا بااثر سیاسی یا سماجی قوت کے ساتھ اشتراک غیر معقول سی بات معلوم ہوتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ تحریک مختلف دینی یا سماجی تنظیموں کے ساتھ اتحاد واشتراک کرتی ہے تاہم اس اشتراک کی نوعیت محض کسی اتحادی پروگرام میں شرکت کی سی ہوتی ہے اور قراردادوں میں کسی signatory کی سی ہوتی ہے۔ صاحب مضمون جس اشتراک کی بات کرتے ہیں، وہ بطور ایک قوت کے ہے نہ کہ کسی اور حیثیت سے۔ راقم کے نزدیک تحریک اسلامی ہند کے کسی بااثر قوت کے طور نہیں ابھرپانے کی سب سے بڑی رکاوٹ اس کی غیر ضروری نظریاتی پابندیاں ہیں اور کتابی وتصوراتی نصب العین کا تعین ہے۔ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں اقامت دین کا نصب العین ایک طرح سے paradox تصور ہوگا۔ تحریک کو جائزہ لینا ہوگا کہ آیا موجودہ حالات میں، زمان ومکان کی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے اور مادی وانسانی وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے، اسے سیاسی قوت کے طور ابھرنے کی ضرورت ہے یا ایک سماجی قوت کی حیثیت سے اپنے اثرات مترتب کرنے ہیں۔ راقم کے نزدیک تحریک اسلامی ہند دعوت، تعلیم اور سماجی خدمات کے کام کو اپنا ہدف بنائے اور ایک مضبوط سماجی قوت کے طور ابھرنے کی انتھک محنت کرے۔ اس طرح کے کام کرے کہ جن سے مسلم آبادی ایک موثر اقلیت (influential minority) میں تبدیل ہو۔ قلت وسائل اور مطلوبہ سپیس کے نا ہونے کا خوف تحریک میں کم ہمتی نا پیدا کرے۔ اس لیے میں سید سعادت اللہ حسینی کی کتاب سے ماخوذ معروف مؤرخ آرنلڈ ٹائن بی کے حوالے سے لکھے گئے اقتباس پر اختتام کرتا ہوں “تہذیبوں کے عروج کا محرک ہی یہ قرار دیا گیا ہے کہ سخت حالات اور چیلنج، ایک چھوٹے سے گروہ کی تخلیقی قوتوں کو بیدار کرتے ہیں، وہ منفرد آئیڈیاز کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، نئی قوت وتوانائی اور انوکھے آئیڈیاز کی وجہ سے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، اور اس طرح عروج کا طے سفر ہوتا ہے” (بحوالہ ہندوستانی مسلمان چیلنج، امکانات اور لائحہ عمل۔ صفحہ 31)

تبصرہ (۳)

سید احمد مذکر، سکریٹری ایس آئی او آف انڈیا

اشتراک انسانی زندگی کی ضرورت ہے، چاہے انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی۔ چونکہ ہمارا ہدف معاشرے کی تعمیرِنو ہے، لہذا اشتراک کا سوال ہمارے لیے ایک گونہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے ، تحریک اسلامی کے مختلف پہلووں کو سامنے رکھتے ہوئے اشتراک کے لیے پانچ اصول اخذ کیے جا سکتے ہیں، جن کی بنیاد پر اشتراک یا عدمِ اشتراک کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے:

تعمیر ِمعاشرہ: ہر وہ قوت جو معاشرے کے اندر تعمیری کام کرے اور مختلف اعتبار سے معاشرتی استعداد سازی کو فروغ دے، ان کے ساتھ اشتراک کیا جا نا چاہیے۔ اس طرح سے تال میل اثر و رسوخ پھیلانے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ اشتراک ضمنی بھی ہو سکتا ہے اور کسی مخصوص ہدف کے تئیں کلی بھی۔

مشترک اہداف: جن کے ساتھ ہمارے اہداف میں سے بعض مشترک ہوں، ان کے ساتھ بھی اشتراک کی گنجائش ڈھونڈ نکالنی چاہیے۔ معاصر معاشرتی حرکیات کا تقاضا بھی (ریسرچ سے ثابت ہوتا ہے) یہی ہے کہ مشترکہ جد و جہد سےاہداف قابلِ حصول ہو جاتے ہیں۔

مشترک اقدار: جن کے ساتھ ہم کچھ قدریں مشترک پاتے ہیں ، ان کے ساتھ بھی اشتراک کی گنجائش ڈھونڈ نکالنی چاہیے۔

جتنا اہم اشتراک کرنا ہے، اتنا ہی اہم عدم اشتراک ہے ان لوگوں کے ساتھ جن سے ہمارا کوئی میل نہیں۔ اس باب میں دو اہم اصول ہیں:

انسانیت دشمن قوتیں: ہر وہ قوت جو انسانیت سوز ہو اور جن سے معاشرے میں تخریب پھیلے یا معاشرے کا شیرازہ بکھرنے لگے، ان سے مکمل احتراز کرنا چاہیے اور کس بھی قیمت پر تعاون سے گریز کرنا چاہیے۔

فرقہ پرست قوتیں: ہر وہ قوت جو دین، مذہب، ملت، رنگ، نسل، زبان، تہذیب و ثقافت، کسی بھی بنیاد پر فرقہ ورانہ منافرت کو فروغ دیں، ان سے بھی تعاون کا ہاتھ نہیں بڑھایا جا سکتا۔

تحریکاتِ اسلامی کی تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جب نیک نیتی یا حسنِ ظن کی بنا پر ایسے لوگوں کے ساتھ اشتراک کیا گیا جو حقیقت میں معاشرے کے لیے ضرر رساں تھے۔ عموماً اس کے پیچھے کارفرما دینی حمیت ہوتی ہے یا پھر ملی مفاد۔ تحریکات کو اس بات پر واضح ہونا چاہیے کہ ہماری ہم دردیاں صرف اور صرف انسانیت کی بنیاد پر ہو سکتی ہیں اور اگر حمیت ہو تو وہ صرف حق کے لیے ہوگی۔ ورنہ اس کے ما سوا تمام حمیتیں جاہلیت کی حمیتیں شمار ہوں گی جیسا کہ قرآن اور حدیث میں آیا ہے۔ کسی کے ساتھ ہمارا تعاون مشترکہ اہداف یا اقدار یا پھر معاشرے کی تعمیر کی بنا پر ہوگا۔ لیکن ہر گز بھی اس بات پر اشتراک نہیں ہو سکتا کہ جس سے لگے کہ کسی دینی یا ملی مفاد کو قربان کیا جا رہا ہے، یا ان حوالوں سے کسی کو بلیک میل کیا جارہا ہے۔ یہ بات ہمیں کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمارا پیغام ساری انسانیت کے لیے ہے اور ضروری ہے کہ ہمارا عمل بھی اس کی تصدیق کرنے والاہو۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2020

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau