لفظ ’جہاد‘ کا استعمال آئے دن سیاست دانوں،نشریاتی ایجنسیوں اور صحافتی اداروں کے ذریعے ہوتارہتاہے۔ اکثر موقعوں پر اِس کااستعمال دہشت گردی (Terrorism)اور کھلی تباہی(Wanton Destruction)جیسے مطالب بیان کرنے کی غرض سے کیاجاتاہے۔ حد یہ کہ ۱۱/ستمبر ،۷/جولائی اور حالیہ ممبئی حملوں پربھی مغربی تجزیہ نگاروںنے بڑی شاطرانہ چال سےاسی ’جہاد ‘کا لیبل چسپاں کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ لیکن قابل بحث سوال ہے کہ جہاد کااصل مفہوم کیا ہے؟ اور کیاکسی بھی حدتک یہ لفظ دہشت گردی اورانسانی جانوں کے اتلاف کوسندِ جوازفراہم کرتاہے؟ان سوالوں کاجواب دیناوقت کی اہم ضرورت ہے۔اس تحریر کامقصداسی حقیقت کو الم نشرح کرناہے کہ دہشت گردانہ کارروائیوں اورمعصوم لوگوں کاقتلِ عام اسلام کے تصور جہاد کے بالکل منافی ہے۔
جنگ وجدال-ایک انسانی حقیقت
جنگ وجدال کے موضوع پر اب تک بہت سی تحقیقات کی گئی ہیں۔ ان کا حاصل قریب قریب یکساں ہے۔ تاریخ کے ہردورمیں لوگ ایک دوسرے کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں میںملوث پائے گئے ہیں۔ ان کے پیچھے جوعوامل اورمحرکات رہے ہیں،صرف اُن میں اختلاف پایاجاتاہے۔ عمومی طور پر جنگ کامقصدزمین،شہرت،دولت،مذہب،آزادی یا وسائل پر قبضہ کرنا ہوتا تھا۔ اِن عمومی مقاصد کے علاوہ لوگ دفاعی اقدام (Defence)کے طور بھی اور اپنے دشمن کوزیر کرنے کے لئے بھی جنگ کا سہار ا لیتے تھے۔ ان تحقیقات سے مجموعی طور پہ جوبات سامنے آئی ہے، وہ یہ کہ جنگ وجدل کاتعلق انسان کی جبلّت سے ہےاور اس کو کسی خاص گروہ ،نظریہ یا مذہب کے ساتھ مخصوص نہیںکیاجاسکتا۔ معاصر دنیا میں بھی جہاںکہیں جنگی ماحول قائم ہواہے ،اُن کے پیچھے وسائل ہی کی کارفرمائی رہی ہے۔ جس کی تازہ اورنمایاں مثال امریکہ اوربرطانیہ کا عراق اور افغانستان پرتیل کے خزائن حاصل کرنے کی غرض سے روارکھی گئی جارحیت ہے۔
جنگ وجدال اور اسلام
ایک مکمل نظام زندگی ہونے کے ناتے اسلام اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے کہ لوگوں کا آپس میںجنگی کارروائیوںمیں ملوث ہونا ایک فطری عمل ہے، لہٰذا اسلام اس شعبہ کے متعلق بھی ضروری ہدایات وضع کرتا ہے ۔اس نے لازم کیا ہےکہ جب بھی مسلمان جنگ پر جائیں اِن ہدایتوں کوملحوظ رکھیں۔ ان ہدایات کا خلاصہ یہ ہے کہ جنگ کامقصد صحیح ہو،معصوم لوگوں کوقتل نہ کیاجائے، عورتوں اور بچوں پرہاتھ نہ اُٹھایاجائے،کسی بھی قسم کی کھیتی یاپیڑوں کو نذرِ آتش نہ کیاجائے اورصرف اُنہی لوگوںکے مقابلہ میںاقدام کیاجائے جولڑنے پر آمادہ ہوں ۔اسلام کے اولین خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ مسلم فوج کوروانہ کرتے وقت تاکیداًفرماتے تھے:
’’میں تم کو میدانِ جنگ کے متعلق دس (۱۰)بنیادی ہدایتیں دیتاہوں۔ کسی پر کوئی زیادتی نہ کرنا ۔لاشوںکامثٔلہ نہ بنانا۔نہ کسی بچے، عورت یا بزرگ کوقتل کرنا۔ کھیت کھلیانوں کونقصان نہ پہنچانا اور ناہی انہیں نذرِ آتش کرنا،خاص کراس حصہ کوجو اب پھل دارہوچکا ہو۔دشمن کے زادومال پردست درازی نہ کرنا،کھانے پینے کے لیے اپنازادِ راہ ساتھ لے کرچلنا۔ تمہارا گزرکچھ ایسے لوگوں کے پاس سے ہو جنہوںنے راہبانہ زندگی اختیار کی ہو،اُن کونظر اندازکرکے آگے بڑھ جانا‘‘۔
یہ ہدایات شاید موجودہ مغرب پرست ذہنیت کے لیےحیرت انگیزہوں۔اس لیے کہ جب مغربی ممالک کسی دوسرے ملک پر چڑھائی کرتے ہیں تونہ صرف یہ کہ نہتے لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتاردیتے ہیں،بلکہ وہاں کی عمارتوں اور اہم مراکز کوبھی تہس نہس کرڈالتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں مرنے والوںکی تعداد اُن لوگوں کے بہ نسبت زیادہ ہوجاتی ہے جوگولیوں اوربمباری میں کام آتے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی حالیہ جارحیتوں میں اس چیز کی واضح مثال موجودہے۔ پھر اس پر بھی ظلم یہ کہ اِن ہی عمارتوں اورمراکزوں کونئے سرے سے تعمیر کرنے کا کنٹریکٹ اِنہی مغربی ممالک کی کمپنیوں کودیاجاتاہے،جنہوںنے انہیں ملیامیٹ کرنے کا ’کارِ خیر‘ انجام دیاتھا۔ ان تعمیراتی کاموں کے بدلے میں مغلوب قوم کوپھرایک بھاری رقم اپنے اوپرمسلط استعماری طاقت کواداکرنی پڑتی ہے،جیسا کہ عراق میںبہ آسانی دیکھاجاسکتاہے۔اس طرح جہاں مغربی طاقتیں وسائل کی حرص میں جنگ وجدل کابازارگرم کرتی ہیں ،اس کے برعکس اسلام لوٹ کھسوٹ،چوری یاغلط مقاصد سے جنگ کرنے کو سراسر حرام اورناجائز قراردیتاہے۔
جہاد کی حقیقت
’جہاد‘ کا لفظ یوںتو عام طورسے مسلمانوںکی جانب سے لڑی گئی لڑائیوںکے لئے استعمال کیاجاتاہے ،لیکن سیاسی مقاصد کے زیرنظراس لفظ کو اسلام اورمسلمانوں کے بارے میں خوف پیداکرنے کے لئے دہشت گردی کاآلہ بناکرپیش کیاگیا۔ جبکہ اسلامی ماخذ کااگرسرسری سا مطالعہ بھی کیاجائے تویہ دعویٰ حقیقت سے کوسوںدور نظرآتا ہے۔ جہاد کااطلاق اُس وقت ہوتا ہے جب مسلمان جنگ پر جائیں اوردورانِ جنگ اسلام کے اس بارے میں دیے گئے ضوابط کی پاسداری رکھیں۔اس جہا د کی بنیادی طورپر دو قسمیں ہیں:ایک تو ہے دفاعی (Defensive)اور دوسرا اقدامی(Progressive)۔ دفاعی جہاد کامطلب یہ ہے کہ مسلم اقوام اپنی سرزمین سے اُن استعماری طاقتوںکوکھدیڑنے کے لیے مسلح کارروائی عمل میں لائیں ،جنہوں نے اُ ن پر ناجائز اور بلاجوازتسلط قائم کیاہو۔ دفاعی کارروائی کے متعلق یہ اصول قریب قریب وہی ہے جو کہ اقوام متحدہ کی ۵۱/شِق میں بھی موجودہے۔جس کے مطابق:’’مسلح کارروائی ہونے کی صورت میں انفرادی یااجتماعی دفاعی اقدام سے کوئی چیز مانع نہیں ،اوریہ ایک فرد کابنیادی حق بھی ہے‘‘۔۱؎
اس دفاعی طرز عمل کی مثال دیکھنے کے لئے ہم گیارہویں اوربارہویں صدی کارُخ کرسکتے ہیں ،جب صلیبی طاقتوںنے فلسطین پرشورشی کارروائیاںکیں،یا جب منگول تیرہویں صدی میں وسطی ایشیا،فارس،عراق اورشام پرحملہ آورہوئے۔ اس دفاعی کارروائی کامقصد صرف اور صرف استعماری طاقتوں کو اپنی سرزمین سے باہر کرنا تھا۔اس کادہشت گردی سے کوئی بھی واسطہ نہیں۔
اب آتے ہیں دوسری قسم، یعنی اقدامی کارروائی کی طرف۔ اس معاملے میں یہ بات جو خوب اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ اقدامی کارروائی صرف اورصرف ایک اسلامی ریاست ہی عمل میںلاسکتی ہیں۔ ایسی کارروائی کے پیچھے تین مقاصد ہوسکتے ہیں:(۱) تسلط کوختم کرنا (۲)مظلوم طبقے کادفاع اور(۳) اسلام کا نظام عدل قائم کرنا ۔ اس اقدام کے بھی تین(۳) درجے ہیں ۔پہلے درجے پر تو لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے گی اور اُن پراِس نظام کی حقانیت دلائل اور مباحث کے ذریعے منوائی جائے گی۔دوسرا یہ کہ غیرمسلموںکودعوت دی جائے کہ وہ اسلامی ریاست کے تابع ہوکر امن ،انصاف اورتحفظ جیسی نعمتوںسے لطف اندوزہوکر زندگی گزارسکتے ہیں۔ تاریخ کامطالعہ بتاتاہے کہ کثیرتعدادمیںغیرمسلم اقوام نے اس پیشکش کوقبول کیا اور اسلام کے دامنِ رحمت میںپناہ لی۔ اس کے بدلے میں اُن لوگوںکوایک معمولی رقم ’جزیہ‘ کی صورت میں سالانہ اداکرناپڑتاتھا۔فلپ منسل کی کتاب Constantinopleمیں محفوظ ایک مشہورتحریری دستاویز جیسے کہ ایک یہودی عالم نے اُس وقت لکھا جب یورپ میں یہودیوںپر قافیۃ حیات تنگ کردیاگیا تھا،اس میں مذکور ہے:
’’یہاں ترکی کی اس سرزمین میں ہمیں کسی سے کوئی شکایت نہیں۔ہماری ملکیت میںکافی مال ودولت اورسوناوچاندی ہے۔ ہمیں بھاری ٹیکسوں کے ذریعے محکوم نہیں بنایاگیا اورہماری معیشت بالکل آزاداور تسلسل سے قائم ہے۔ یہاںکی کاشت کاری میں بوقلمونی ودیعت ہے اورہرچیزسستے داموں پردستیاب ہیں۔ہم میں سے ہرایک یہاں امن اورآزادی کے ساتھ زندگی گزاررہاہے‘‘۔
(Philip Mansel. 1995. Constantinople : City of the World’s desire, 1453-1924. Penguin Books p. 15(
تیسرے اورآخری درجے پر،جبکہ اول الذکر دو کوششوں پر عمل کیاجاچکاہو، اسلام جنگ کا راستہ اختیارکرتاہے، اوراسی کو جہادبتاتاہے۔ خیال رہے کہ کسی دشمن قوم کے ہاتھوں انتہائی درجے کی بربریت اور نسل کشی کی صور ت میںجہاد کا یہ آخری درجہ اول اور واحد راستہ بھی ہوسکتاہے۔ لیکن مجموعی طورپراسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی میں جہاد کی یہ اقدامی کارروائی آخری آپشن ہی ہوتا ہے اور اس وقت ضروری قواعد وضوابط کوپوری اہمیت کے ساتھ ملحوظ رکھاجاتاہے۔ لہٰذا جب بھی ایک اسلامی فوج جہاد پرجاتی ہے، تواُس کامقصد دولت،وسائل وخزائن،زمین اوردیگر دنیوی جاذبِ نظر چیزیں نہیں ہوتیں،بلکہ اسلام کا نظام عدل قائم کرنا اوراس کی حقانیت کا درس لوگوں تک پہنچاناہوتاہے۔ ہینرک گریٹز(Heinrich Graetz)جوکہ انیسویں صدی کا مشہوریہودی مؤرخ ہے،اسلامی ریاست کے فراہم کردہ خوشگوار ماحول کے بارے میں یہ رائے قائم کیاہے:
’’اسلامی ریاست کے اسی منصفانہ اورمساویانہ رویّہ کی دَین تھی کہ اسپین کے یہودیوں کوبیبلونیا اورپرشیامیں اپنے مسلم حلیفوں کے مقابلے میں برابر کا درجہ حاصل تھا،جن کے ماتحت وہ زندگی بسرکررہے تھے۔ اُن کے ساتھ برابری کاسلوک روارکھا گیا،یہاں تک کہ اُن کومذہبی آزادی بھی پوری طرح حاصل تھی۔ اس سے پہلے یہودی قوم ہمیشہ اِن اقداروںکے لیے ترستی رہی۔ مسلمانوںنے نہ صرف اِنہیں یہ اقدارفراہم کئے ،بلکہ قانونی حقوق دے کر انہیںاتنا مضبوط کیا کہ وہ اپنے مقدمات اور شکایتیں خود مسلمانوں کے خلاف دائر کرسکتے تھے‘‘۔۲؎
اس کے برعکس اگر موجودہ دور کے سیاسی حالات کاجائزہ لیاجائے توعراق اورافغانستان کی صورت حال دیکھ کر تصویر کابالکل دوسرا ہی رُخ دکھائی پڑتا ہے۔ جبکہ اسلامی ریاست ہمیشہ اپنے مقاصد میں جائز اور ناجائز کاامتیازکرتی ہیں،جس پرکہ اس کی تاریخ مکمل دلالت کرتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب یہودی آبادی اسپین سے بھاگ کر استنبول کے مسلم علاقے میں پناہ لینے کی غرض سے داخل ہوئے تووہاں کی مسلم آبادی نے اُن کاخیرمقدم کیا۔خودیہودی لوگ بھی جانتے تھے کہ انصاف صرف اورصرف اسلام کے سایے میں ہی پایاجاسکتا ہے،اس لئے انہوںنے ایک اسلامی سرزمین میںہی پناہ لینا مناسب سمجھا۔ یہودیوںکے ایک مشہور یہودی مؤرخ زائن زوہر(Zion Zohar)اپنی کتاب میں انہی خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’پس جب مسلمان گبرالتر(Gibraltar)کی حدودکوعبورکرکے شمالی افریقہ سے ہوتے ہوئے پننسولا(Peninsula)کوفتح کرچکے ،تو وہاںکے یہود یوںنے اُن کی آمد پر راحت کی سانس لی ۔انہوںنے مسلمانوںکو عیسائی تسلط سے نجات کا ذریعہ سمجھ کر ان کاخیر مقدم بڑی خندہ پیشانی سے کیا‘‘۔۳؎
مزیدبرآں اسلامی افواج اس چیز کے بھی خصوصی طور پر مکلف ہوتی ہیں کہ محض زمین فتح کرکے مفتوح قوم پرجبراً اسلام تھوپنے سے احترازکریں۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّ یْنِ لا قَدْ تَّبیَّنَ الُّرشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج فَمَنْ یَّکْفُرْ بِا لطَّاغُوْتِ وَیُوْمِنْ بِا للّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق لَا انْفِصَامَ لَھَا ط واللّٰہُ سَمِیْعُ عَلِیْمُ ‘‘۔ (البقرۃ : ۲۵۶)
’’دین کے معاملے میں کوئی زوروزبردستی نہیں ہے۔صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کررکھ دی گئی ہے۔اب کوئی طاغوت کاانکار کرکے اللہ پرایمان لے آیا،اُس نے ایک ایسامضبوط سہارا تھام لیا،جوکبھی ٹوٹنے والانہیں،اوراللہ سب کچھ سننے اورجاننے والاہے‘‘۔ ۔
اس چیز کی صداقت میں عیسائی لٹریچر کابھی حوالہ دیاجاسکتاہے۔ ۶۴۷ تا۶۵۷عیسائیوںکے پیٹرارک (Petriarch) اِشویابتھ (Ishoyabth) لکھتے ہیں:
’’ان عربوں نے ،جنہیں خداتعالیٰ نے دنیا پر حکومت عطاکی ،ہمارے ساتھ جوسلوک کیا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اگرچہ وہ عیسائیت کے مداح تو نہ تھے ،لیکن ہمارے مذہب کی قدرکرتے ،ہمارے پادریوںاور بزرگوںکااحترام کرتے،اورگرجاگروں اورخانقاہوں کی امدادبھی کیا کرتے تھیــ‘‘۔۴؎
قرآن کریم میں جہاد کا بیان:
قرآن کریم میں جہاںجہاد پرمفصّل روشنی ڈالی گئی ہے، اس کا ایک مقصد صرف اورصرف مسلمانوں کے اندرمیدانِ جنگ میں حرکت اور شجاعت پیدا کرناہے۔ خدالگتی بات یہ ہے کہ جب ایک قائداپنی فوج کوجنگ کے لئے روانہ کررہاہو،تو اُس کے کلام میں ایسی ہی سنجیدگی اور جوش پایاجائے گا۔لہٰذا قرآن حکیم بھی مسلمانوںکودشمنوںکے پیر چھونے یا اُن کی آمد پر پھول بچھانے کاحکم تو نہیںدے سکتا؟ساتھ ہی یہ بات بھی لائق تحسین ہے کہ جہاں کہیں قرآن میںاس طرح کالہجہ استعمال کیاگیا ہے،وہیں پر ’’اللہ حدسے تجاوزکرنے والوںکو پسندنہیںکرتا‘‘اور ’’اللہ سے ڈرو‘‘جیسی تنبیہات فرما کر مسلمانوں کے لئے حدودبھی قائم کرتاہے۔ بیک وقت لڑنے کے لئے تحریک دینااورساتھ ہی حدودقائم کرنااس بات کا غماز ہے کہ قرآن کے نزدیک جنگ کا مقصد صرف اورصرف جبروتسلط کاقلع قمع کرناہے،نہ کہ بے دریغ قتل وغارت۔
علاوہ ازیں قرآن حکیم کے نزدیک جہاد ایک متبرّک اورضروری عمل بھی ہے،جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت گرداناگیاہے۔ کیونکہ بغیر جہادکے اورکوئی دوسراراستہ بھی نہیں، جس کے چلتے مسلمان خود اپنی اورساتھ ہی دوسرے اقوام کی حفاظت کاانتظام کرسکیں۔اس کے بغیر نہ تو باطل طاقتوں کے ناجائز تسلّط کو ختم کیاجاسکتاہے اورنہ ہی عدل وانصاف کانظام قائم ہوسکتاہے۔ موجودہ دورمیںجہاںمغربی استعماری طاقتوںنے ظلم وبربریت کا ماحول پوری دنیا میں قائم کر رکھاہے، وہیں ایک کثیر تعداد اُن لوگوںکی پائی جاتی ہیں جوایسے جہاد کی ضرورت کے قائل ہیں،اوراس کوعصرحاضر کے پیمانوںکے مطابق Redefineکرناوقت کی اہم ضرورت سمجھتے ہیں۔
جہاد کے محرکات واثرات
1999ء کے پہلے آٹھ مہینوں میں امریکہ اوربرطانیہ نے عراق پر قریب قریب دس ہزار(10,000) فوجی کارروائیاں کیں،جن میں لاتعدادعراقی مردو زن اوربچے وبوڑھے موت کے گھاٹ اُتاردیئے گئے۔ ان کارروائیوں کے پس منظر میںامریکہ کے برگیڈیر جنرل ولیم لونی (Brig. General William Looney)کے اِس بیان کوپڑھیں،تومغرب کی خارجہ پالیسیوں کے بارے میں صحیح رائے قائم کی جاسکتی ہے۔وہ کہتا ہے:
’’اگر وہ اپنے ریڈارز(radars)استعمال میں بھی رکھیں،تب بھی ہم اُن کے SAM (Surface-to-air-missiles)کونشانہ بنائیںگے۔وہ یہ جانتے ہیں کہ ہم اُن کے ملک پر حکومت کرتے ہیں، اوراُن کے airspaceتک ہماری رسائی میںہیں۔ اُن کی پوری زندگی ہمارے احکام کی تابع ہے، ہم جیسا کہیں ،اُنہیں ویسا ہی عمل کرناہوگا۔موجودہ دورمیںیہ امریکہ کی ایک بہت بڑی خوبی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی کامیابی بھی ہے،خاص کر کہ جب عراق میں تیل کی ایسی بھاری مقدار موجودہے جس کی ہمیںاشدضرورت ہے‘‘۔۵؎
اس کے بالکل برعکس اسلام کانظریۂ ملاحظہ فرمائیے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَمَا لَکُمْ لَاتُقَا تِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئٍ وَالْوِلْدَانِ الِّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْ یَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا ج وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیّاً لا وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لُّدُ نْکَ نَصِیْراً (سورۃ النساء : ۷۵)
’’آخرکیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں ،عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑوجو کمزورپاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدایاہم کواس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں،اوراپنی طرف سے ہماراکوئی حامی ومددگارپیداکردے‘‘۔
قاعدہ ٔ کلیہ ہے کہ ناانصافی اور ظلم کو ہرذی شعور شخص اپنی سرزمین سے دورکرناچاہے گا۔ بعینہ اسی طرح اسلام بھی اس چیز کوجہاد کے ذریعے ختم کرنے کاخواہاںہے،جیساکہ اسلامی تاریخ اس کی شاہدہے۔ اس چیز کوہم معاصر نیم مسلم ممالک (Pseudo-Islamic nations)سے جوڑکرنہیںسمجھ سکتے ،کیونکہ ان میں ایسی کوئی فعال مملکت موجودنہیں، جہاں پر اسلامی نظام اپنے پورے خدوخال اور خصائص سمیت قائم ہو۔ ایسے کسی بھی ملک کاآئین اُٹھاکردیکھیں، تو اسلامی اقدارکوکم یاب پاتے ہیں۔ انصاف سے کام لیاجائے تو یہاں تک کہنا پڑے گا کہ مسلم ممالک اس وقت جس آئین اورنظام کواپنے ملک میں رائج کرتے اورفروغ دیتے ہیں،وہ نہ صرف یہ کہ غیراسلامی ہے بلکہ اسلام سے صریح بغاوت اور تضادپرمبنی ہے۔ لہٰذا ان ممالک کے توسط سے ہم اسلام کی خارجہ پالیسی کوٹھیک طورسے نہیں سمجھ سکتے۔ نہ اس کے خوبصورت وموافق اثرات کودیکھ پائیں گے،جن کامشاہدہ ماضی میںساری دنیاکرچکی ہیں۔
رنہارٹ ڈوزی( Reinhart Dozy)جوکہ اسپین کی اسلامی تاریخ پرسند کادرجہ رکھتے ہیں،وہاںاسلام کی آمد پر یوںرقمطرازہیں:
’’عربوں کے مساوانہ کردار کوکسی بھی لحاظ سے نظراندازنہیںکیاجاسکتا۔مذہبی معاملات میںاُنہوںنے کسی پر کوئی جبر روانہیںرکھا ۔ لہٰذا عیسائیوں نے فرینکس کے مقابلے میں اُن کی حکومت کوترجیح دے کراسے اپنے لئے پسندکیا‘‘۔ ۶؎
تھومس آرنالڈ(Thomas Arnold)نے بھی اسلام کے اس ممتاز رویئے پرکلام کیاہے۔لکھتے ہے :
’’عیسائیوں نے مسلمانوں کو دعائیں دیتے ہوئے یہ کہہ کررخصت کیا کہ خداتعالیٰ تمہیں پھر سے ہم پر حکومت عطاکرے،اوررومیوںپرفتح نصیب کرے۔ اگرتمہاری جگہ وہ ہوتے ،توہمیں اُن سے کچھ حاصل نہ ہوتا،بلکہ ہم سے وہ سب کچھ بھی چھین لیتے جو ہمارے پاس بچاکُچاموجودتھا‘‘۔ ۷؎
بالکل اسی نوعیت کے خیالات کااظہار اسپین کے ایک اورمشہورمؤرخ یولِک ۔آر۔ برک (Ulick R. Burk) نے بھی اپنی کتاب میںکیاہے:
’’عیسائیوں کو عربوںکے ہاتھوںکسی بھی نوعیت کی مزاحمت درپیش نہیںتھی۔دورانِ حکومت اسپین میںنہ صرف مذہبی رواداری بلکہ باہمی مساوات بھی عربوںکاخاصہ تھا‘‘۔۸؎
اسلامی حکومت کے عواقب ونتائج پر گفتگو کرتے ہوئے ایڈم سمتھ(Adam Smith)جو کہ اٹھارویں صدی کے لئے(Founding father of the modern Capitalism)کے لقب سے مشہورہے،لکھتا ہے:
’’رومن امپائر کے زوال کے فوراً بعدہی اس کے نتائج بھی سامنے آناشروع ہوئے۔ اصول وضوابط کے وہ تمام قوانین افراتفری اورتخریب کی نظر ہوگئے،جوکہ اس سے پہلے اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ قائم تھے۔ پھراس طاقتور سلطنت کے خاتمے کے بعداگرکسی نظام کے تحت لوگوںنے اُس آزادی اورطمانیت کا دوردورہ دیکھا جوکہ کسی بھی تہذیب کی ترقی میں ضروری ہوتاہے ،تووہ تاب ناک دورِ صرف اورصرف خلفاء راشدین کاہی تھا۔یہ وہ دورتھا ،جس میں قدیم یونانی فلسفہ اور فلکیات کو مشرقی دنیا میں اپنے پیرجمانے کا موقع ملا۔ آزادی اور مساوات کی تعلیم کو جس طرح اُنہوںنے اپنی پوری مملکت میں عام کیا تھا ،اُس نے انسانیت کو ایک بارپھر قدرت کے اصولوں پر چلنا سکھایا‘‘۔ ۹؎
خلیفہ المعتز ؔ (866-9CE) کے دورمیں برنارڈ دی وائز(Bernard the wise)نے ایک بار مصر اور فلسطین کا دورہ کیا ۔اس کے بعد اس نے اپنے تاثرات کا ان الفاظ میں اظہار کیا:
’’میں نے مسلمانوںاورعیسائیوںکے درمیان وہاں اس درجے کا امن دیکھا، کہ اگرمیں کسی سفرپرجارہاہوتا اور دورانِ سفرمیرا اونٹ یا خچرمرجائے، جس پر کہ میرازادِ راہ لداہو، تومیںدوسری سواری لانے کے لئے بے خوف وخطر جاسکتاہوں۔اپناسارا مال بغیر کسی محافظ کے چھوڑنے میںمجھے کوئی خدشہ لاحق نہیں۔ اورجب میں سواری لے کر واپس آؤں گا ،تومجھے پورایقین ہے کہ میرے مال میں کوئی خیانت نہیںہوئی ہوگی……..ایسا ہے امن اُس سرزمین کا‘‘۔ ۱۰؎
مذکورہ بالاتحریروں کی روشنی میں یہ دعویٰ بالکل عبث ہوجاتاہے کہ جہاد اوردہشت گردی کاکوئی تعلق بھی ہوسکتاہے۔ اب غورطلب بات یہ رہ جاتی ہیں کہ دہشت گردی کی اصل وجوہ کیاہیں؟ ،اورکن محرکات کی وجہ سے یہ جنم لیتی ہے؟
دہشت گردی کی وجوہ
دہشت گردی اورسیاسی انتقام گیری کی تاریخ پر اگرنظر ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ دراصل یہ تہذیبوں کےدرمیان کاٹکراؤ ہے ،جسے دیگر محرکات کومہمیز دے کر انتہا پر پہنچادیا گیاہے۔ اِن محرکات میں عموماً سیاسی سطح پر ناانصافی، ناجائزوجبری تسلّط یا غیروںکا لالچی تصرّف ہوتاہے۔ شکاگویونیورسٹی(Chicago University)کے ایسوسی ایٹ پروفیسر رابارٹ پیپ (Robert Pape)اپنی کتاب (Dying to Win : The Logic of Suicide Terrorism)میںایک تجزئیے کاحوالہ دیتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ خودکش حملوںاوراس جیسی دیگردہشت گردانہ کارروائیوں کو مسلمانوںکے ساتھ مخصوص نہیںکیاجاسکتا۔اس کاتعلق بنیادی طورسے انسانی جنس کے ساتھ ہے ،جسے دیگر محرکات پروان چڑھادیتے ہیں ۔ یہ محرکات عموماً سیاسی ہوتے ہیں۔ مذہبی عوامل کااِس سے کوئی لینادینا نہیں۔
اِس تجزئیے میں 1980ء سے لے کر 2004ء تک جتنے بھی خودکش حملے ہوئے ،اُن کوریکارڈمیںلایاگیا ہے۔ تجزئیے کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
٭ خودکش حملوں کی فہرست میں سری لنکا کے تمِل ٹائیگرس(Tamil Tigers) پوری دنیامیںسب سے آگے ہیں،جوکہ ایک مارکسسٹ سیکولر گروپ (Marxist Secular Group)ہے۔
٭ مسلم خودکش بمباروںمیںدوتہائی (Two-third)تعداد اُن لوگوںکی ہے جن کا تعلق ایسے ممالک سے ہیںجہاں امریکہ نے کبھی اپنی فوج بھیجی تھی یا جہاں اُن کی موجودگی اب بھی پائی جاتی ہے۔
٭ عراق میں امریکی فوج کی موجودگی نے وہاںخودکش بمباری کوجنم دیا۔ 2003ء سے پہلے جبکہ عراق میںامریکی فوج نہیں پہنچی تھی، وہاں خودکش بمباری کاکوئی واقعہ پیش نہیں آیاتھا۔
٭ اس طرح کے حملوں کے پیچھے مجموعی طورسے سیاسی ناانصافی کاہی دخل ہوتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی کارروائیوں میں ملوث افراد کوان کی انفرادی سطح پر دیکھا اور سمجھاجائے۔
پروفیسر پیپ مزیدلکھتے ہیں:
’’تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خودکش حملوں اوراسلام میں کوئی تعلق نہیں،بلکہ نہ صرف اسلام،بلکہ دنیاکے کسی بھی مذہب کودہشت گردی اورانتہاپسندی کے ساتھ نہیں جوڑاجاسکتا۔ اس کے برعکس جوچیزاِن کارروائیوں میںمشترک پائی گئی، وہ یہ ہے کہ استعماری طاقتوںکواپنے ملک سے باہرکیاجائے،کیونکہ یہ لوگ کسی بھی قیمت پراپنے وطن میں دوسرے کاعمل دخل قبول کرنے کے لئے تیا ر نہیں‘‘۔
قارئین اس تجزئیے کو تفصیل کے ساتھ ذیل میں دئے گئے لِنک پرپڑھ سکتے ہیں :
(http://en.wikipedia.org/wiki/Dying_to_Win:_The_Strategic_Logic_of_Suicide_Terrorism)
مغربی ذرائع سے پتہ چلاہے کہ برطانیہ میں 2005ء کے بم حملوںسے پہلے اُنہیں ایسی کارروائی ہونے کی دھمکی دی جاچکی تھی ۔ ایسا اس لئے تھا کہ برطانوی حکومت نے عراق پرجارحیت کے دوران امریکہ کاتعاون کیا تھا ،جس کے چلتے اس طرح کی کارروائی ہونافطری تھا۔ برطانیہ کی Centre Joint Terrorism Analysis سے اِفشا ہوئی رپورٹ میںاِن حملوں کے امکانات مذکورتھے:
’’عراق میںہورہی فوجی کارروائیاں یہاںلندن میں دہشت گردانہ حملوں کے لئے محرکات بن رہے ہیں‘‘۔
اسی طرح کے خدشات اپریل 2005ء میں Joint Intelligence Committee کی تیارکردہ رپورٹ “International Terrorism : Impact of Iraq” میں بیان کئے گئے تھے:
’’ہمیں خدشہ ہے کہ عراق میں تنازعے کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے واقعات میںتیزی پیدا ہوگئی ہے،اورمستقبل میں اِس کے نتائج بہت برے ہونے والے ہیں۔ اس سیاسی بحران نے اُن دہشت گردوں میں مغرب کے خلاف مزاحمت کومہمیز عطاکردیاہے، جوپہلے سے ہی اِس تیاری میں ملوث تھے ۔ساتھ ہی دوسرے گروہوں کوبھی اِس جانب تحریک دی ہے جوکہ ایسی کارروائیوںکے بارے میںابھی سوچ بچارکررہے تھے‘‘۔
حرف آخر
یہ با ت لائق مطالعہ ہے کہ مغرب نے کس طرح سیاسی سطح پر ایسے بحران اورافراتفری کوجنم دیا ،جس کی وجہ سے اُن کے خلاف مسلح کارروائیاں عمل میں لائی گئیں۔اورپھر اِن میںملوث افرادکوکس طرح ’دہشت گرد‘ قرار دےکر اپنے لیے احتساب کے دروازے بند کردیا۔خیال رہے کہ یہ کہہ کر میں دہشت گردی کے لئے جوازفراہم کرنانہیںچاہتا،لیکن اس پس منظر کوذہن میںرکھ کر ہی ایسے مباحث وجودمیں آسکتے ہیں،جس سے کہ ہم عصرحاضر کے سیاسی مسائل کوسمجھ سکتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ایک مخصوص مذہب کو اِس کے لئے موردالزام ٹھہرایاجائے،لازم ہے کہ موجودہ سیاسی حربوں کاتجزیہ کیاجائے ،جوایسی کارروائیوںکے لئے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
حواشی
{۱} http://www.un.org/aboutun/charter/chapter7.htm
{۲} H. Graetz, History of the Jews, London , 1892, Vol 3, P. 112.
{۳} Zion Zohar, Sephardic & Mizrahi Jewry, New York, 2005, P. 8-9.
{۴} Caliph and their non-Muslim subjects: A critical study of the covenant
{۵} U.S. Brig. General William Looney (Interview Washington Post, August 30, 1999
{۶} Reinhart Dozy, A History of Muslims in Spain , 1861 reprinted 1913, 2002), Delhi , P.235.
{۷} T. W. Arnold , Preaching of Islam, London , 1913, P. 61.
{۸} Ulick R. Burke, A History of Spain , London , 1900, Vol I, P. 129.
{۹} The Essays of Adam Smith, London , 1869, P. 353.
{۱۰} Christopher J. Walker, Islam and the West, Gloucester , 2005, P. 17.
مشمولہ: شمارہ مئی 2014