اشارات

اہلِ ایمان کو جو کردار دنیا میں ادا کرنا ہے، اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانیتِ عامہ سے بامعنی، مؤثر اور نتیجہ خیز گفتگو کریں۔ اس گفتگو کے بنیادی نکات دو ہیں:

﴿الف﴾ خالقِ کائنات کی لاشریک اور غیرمشروط بندگی ہی انسان کے لیے فلاح و کامرانی کی واحد راہ ہے۔

﴿ب﴾    ہر شخص کو حق کو قبول کرنے اور اللہ کی بندگی اختیار کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔

یہ دونوں نکات ایمان کا فطری تقاضا ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص اللہ کے نا زل کردہ دین پر اُسی وقت ایمان لاتا ہے، جب اُس پر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ یہ دین برحق ہے اورفلاح و کامرانی کا ضامن ہے۔ اِس حقیقت کا ادراک اُسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتا، بلکہ اُسے مجبور کرتا ہے کہ وہ دین کی حقانیت کا اعلان و اظہار کرے۔ یہی بات مندرجہ بالا نکتہ دوم کے لیے بھی صحیح ہے۔ جب ایمان لانے والوں کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں تو یہ اُن کا ایمان ہی ہے جو انہیں حق پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ اِس ثابت قدمی کا اظہار وہ اپنے قول و عمل سے کرتے ہیں اور اِس طرح اس بنیادی حقیقت کا ﴿بزبانِ حال اور بزبانِ قال﴾ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ کی اِس زمین پر حق کو قبول کرنے کی آزادی ہر انسان کو فطری طور پر حاصل ہے۔ چنانچہ کسی ظالم اور جابر طاقت کو اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ انسان کی اِس فطری آزادی کو سلب کرلے۔

مندرجہ بالا دوسرے نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے سید قطبؒ لکھتے ہیں:

’’یہ دین ﴿اِسلام﴾ مسلم معاشرے اور دیگر معاشروں کے باہمی تعلقات کو باقاعدہ قانونی شکل دیتا ہے۔—— یہ قانونی ضابطہ جس بنیاد پر قائم ہے وہ یہ ہے کہ ’’اسلام‘‘ ﴿خدا کی فرماں برداری اور اطاعت کشی کا رویہ﴾ ایک عالم گیر حقیقت ہے جس کی طرف رجوع کرنا انسانیت پر لازم ہے۔ تاہم اگر وہ اس کی طرف رجوع نہ کرے اور اُسے اختیار نہ کرے تو اُسے چاہیے کہ وہ اسلام کے ساتھ، فی الجملہ، مصالحت کا رویہ اختیار کرے، اور کسی سیاسی نظام یا مادّی طاقت کی شکل میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے آگے کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے۔ وہ ہر فرد کو آزاد چھوڑے تاکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اُسے اختیار کرے یا نہ اختیار کرے۔ البتہ اگر اُسے نہ اختیار کرنا چاہے تو اس کی مزاحمت بھی نہ کرے اور دوسروں کے لیے سدِّ راہ نہ بنے۔‘‘  ﴿معالم فی الطریق، باب چہارم﴾

موجودہ دنیا میں غیر اسلامی ریاستوں کے تحت رہنے والے مسلمانوں کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ ان مسائل کو عام طور پر‘‘ملّی مسائل‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان مسائل کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو دین پر عمل کرنے کی آزادی یا تو حاصل نہیں ہے یا یہ آزادی بعض امور تک محدود ہے۔ اس حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو اِن مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کا صحیح منہج ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ وہ منہج یہ ہے کہ دین کی دعوت دینے کے پہلو بہ پہلو انسانی آزادی کے مذکورہ بالا اصول کو پوری وضاحت کے ساتھ انسانوں کے سامنے رکھا جائے۔ انسانی آزادی کے اِس اصول کے مطابق روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کا — خواہ وہ کسی بھی قسم کے نظامِ حکومت کے تحت رہتے ہوں— یہ فطری حق ہے کہ وہ اللہ کے دین پر ایمان لائیں اور اُس کے مطابق زندگی کے تمام امور کو منظم کریں۔ کسی ریاست کو انسانوں کے اِس حق کو سلب نہ کرنا چاہیے۔

یہ واقعہ ہے کہ اہلِ ایمان کو انسانیتِ عامہ سے جو گفتگو کرنی ہے، اُس کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے محکم استدلال کی ضرورت ہے۔ چنانچہ گفتگو کے دونوں بنیادی نکات یعنی ’’دینِ حق کی حقانیت‘‘ اور ’’قبولِ حق کی انسانی آزادی‘‘ کے اصول کی تفہیم کے لیے پختہ دلائل پیش کرنا اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے۔ نظریات کی آماجگاہ اِس دنیا میں وہی نظریہ فتح یاب ہوسکتا ہے جس کے پیچھے دلائل کی قوت ہو اور جس کے علمبردار اُس نظریہ پر استقامت کا ثبوت دیں۔ یہ استقامت بھی بالآخر پختہ استدلال ہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ذیل کی سطور میں اُس طرزِ کلام اور طرزِ استدلال کے تعین کی کوشش کی جائے گی، جو قرآن مجید نے دین کی حقانیت کے اثبات کے لیے اور انسانی آزادی کے اصول کی تفہیم کے لیے استعمال کیا ہے۔

فلاح و کامرانی کی راہ:

قرآنِ مجید نے یہ بات بہت وضاحت کے ساتھ بیان کی ہے کہ انسان کی فلاح و کامیابی ہدایتِ الٰہی کے اتباع میں ہے۔ انسانوں کے ابتدائی گروہ کو زمین پر بھیجتے وقت انہیں یہ حقیقت بتادی گئی تھی:

قُلْنَا اہْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعاً فَاِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَo وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰ یَتِنَا أُولٰ ئِٓکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ o   ﴿البقرۃ ۳۸-۳۹﴾

’’ہم نے ﴿انسانوں کے پہلے جوڑے کو﴾ حکم دیا۔ نیچے جاؤ یہاں سے تم سب۔ پھر اگر تم کو میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے اُن پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غم گین ہوں گے۔ اِس کے برعکس جو لوگ کفر کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں۔ وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

‘خوف اور غم سے حفاظت’ فلاح و کامرانی ہی کی دوسری تعبیر ہے۔

کتابِ الٰہی کی ابتدائ میں بتایا گیا ہے کہ کتاب پر ایمان لانے والے فلاح یاب ہوں گے:

الٓمٓo ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَo والَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ أُنْزِلَ اَیْْکَ وَمَآ أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالآخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَo أُوْلٰ ئِٓکَ عَلٰی ہُدًی مِّنْ رَّبِّہِمْ وَأُوْلٰ ئِٓکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo﴿البقرۃ: ۱- ۵﴾

’’الف، لام، میم۔ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے اُن پرہیزگار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اُس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو تم پر نازل ہوئی ہے اور اُس پر بھی جو تم سے پہلے نازل ہوئی تھی اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور یہی فلاحِ پانے والے ہیں۔‘‘

قرآن مجید بتاتا ہے کہ وہ اہلِ ایمان فلاح یاب ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کو ایمان کے سانچے میں ڈھال لیں:

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکَاۃِ فَاعِلُوْنَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَo

Êِلَّا عَلٰیٓ أَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ فَ

Êِنَّہُمْ غَیْْرُ مَلُوْمِیْنَo فَمَنِ ابْتَغَی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَأُوْلٰئِٓکَ ہُمُ الْعَادُوْنَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَo أُوْلٰئِٓکَ ہُمُ الْوَارِثُوْنَo الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَo ﴿المؤمنون: ا-۱۱﴾

’’بے شک فلاح پائی ہے، ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، جو لغو کاموں سے دور رہتے ہیں۔ جو زکوٰۃ کے طریقے پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، سوائے اپنی بیویوں پر یا مملوک باندیوں پر، کہ اُن کے سلسلے میں وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں۔ البتہ جو اس دائرے کے باہر کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ اور ﴿فلاح پانے والے مومن وہ ہیں﴾ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد وپیمان کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ وارث ہیں۔ یہ میراث میں فردوس پائیں گے اور اُس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

اللہ نے صالح اہلِ ایمان سے حیاتِ طیبہ کا وعدہ کیا ہے:

مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْآ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ، حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo   ﴿النحل: ۹۶-۹۷﴾

’’جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے، کبھی ختم نہ ہوگا۔ اور ہم صبر کرنے والوں کو اُن کے بہترین کاموں کا اجر دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔ جس نے نیک کام کیے، خواہ ہو مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن تو ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ایسے لوگوں کو اُن بہترین کاموں کا اجر دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘

قرآن بتاتا ہے کہ حسنِ عمل کا نتیجہ فلاح ہے:

الّٓمٓ تِلْکَ اٰ یَاتُ الْکِتَابِ الْحَکِیْمِo ہُدًی وَرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَo الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ بِالاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ o أُوْلٰئِٓکَ عَلٰی ہُدًی مِّنْ رَّبِّہِمْ وَأُوْلٰئِٓکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo﴿لقمان:۱-۵﴾

’’الف، لام، میم۔ یہ کتابِ حکیم کی آیات ہیں۔ ہدایت اور رحمت ہے محسنین کے لیے۔ جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

ہدایتِ الٰہی کی حقانیت کے دلائل:

یہ واضح کرنے کے بعد کہ فلاح ہدایتِ الٰہی کی اتباع میں ہے قرآن مجید نے ہدایتِ الٰہی کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے متعدد دلائل پیش کیے ہیں۔ اُن میں چند مندرجہ ذیل ہیں:

﴿۱لف﴾ اللہ تعالیٰ کا علم ہر شے پر محیط ہے ۔ وہ کھلی اور چھپی ہر چیز کو جانتا ہے۔ یہ ظاہر بات ہے کہ ہدایت اُسی کی قابلِ قبول ہوسکتی ہے جو علمِ کامل رکھتا ہو نہ کہ اُن کی جو علم نہ رکھتے ہوں یا جن کا علم ناقص ہو۔

الٓمٓoاَللّٰہُ لَآ اِلٰ ہَ اِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُo نَزَّلَ عَلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیْْہِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ وَالاِنْجِیْلَo مِنْ قَبْلُ ہُدًی لِّلْنَّاسِ وَأَنْزَلَ الْفُرْقَانَ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰ یَاتِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍo اِنَّ اللّٰہَ لَا یَخْفَیٰ عَلَیْْہِ شَیْْئٌ فِیْ الأَرْضِ وَلَا فِیْ السَّمَآئِo ہُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِیْ الأَرْحَامِ کَیْْفَ یَشَآئُ لَا اِلٰہَ اِلاَّ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo ﴿آل عمران: ۱- ۶﴾

’’الف، لام، میم۔ اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ و جاوید ہے اور نظامِ کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔اُس نے تم پر یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے۔ یہ اُن کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، جو اس سے پہلے نازل ہوچکی تھیں۔ اللہ اس سے پہلے انسانوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل کرچکا ہے۔ اُس نے وہ کسوٹی اتاری ہے﴿ جو حق و باطل کا فرق واضح کردینے والی ہے﴾ بے شک جن لوگوں نے اللہ کی آیات سے کفر کیا اُن کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے۔ اللہ پر زمین اور آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تمہاری صورت جیسی چاہتا ہے بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔‘‘

﴿ب﴾     اللہ کے دین کے واجب الاتباع ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ یہی دین ساری کائنات کا دین ہے۔ اَب اگر انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کا رویہ پوری کائنات سے ہم آہنگ ہو تو اُسے اللہ کے نازل کردہ دین کو اختیا رکرنا چاہیے:

أَفَغَیْْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہُ أَسْلَمَ مَنْ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعاً وَکَرْہاً وَÊِلَیْْہِ یُرْجَعُوْنَo قُلْ آمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَیْْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلٰیاِبْرَاہِیْمَ وَاْمَاعِیْلَ وَاِسْحَاقَ وَیَعْقُوْبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوْتِیَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی وَالنَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ أَحَدٍ مِّنْہُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُوْنَo ﴿آل عمران: ۸۳-۸۴﴾

’’اب کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں جب کہ زمین اور آسمان کی ساری موجودات طوعاً یا کرہاً اللہ ہی کی فرماں برداری کررہی ہیں اور سب کو اُسی کی طرف پلٹنا ہے۔ کہو، ہم ایمان لائے اللہ پر اور اُس تعلیم پر جو ہماری طرف اتری ہے اور جو نازل ہوئی تھی ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اُس کی اولاد پر اور﴿ہم ایمان لائے اُس تعلیم پر﴾ جو دی گئی تھی موسیٰ، عیسیٰ اور سب نبیوں کو اُن کے رب کی طرف سے۔ ہم نبیوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں۔‘‘

﴿ج﴾     اللہ کا دین جن تعلیمات پر مشتمل ہے، وہ انتہائی پاکیزہ اور عادلانہ ہیں۔ یہ بھی اللہ کے دین کے برحق ہونے کی دلیل ہے:

وَاذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْْہَا اٰ بَآئ نَا وَاللّٰہُ أَمَرَنَا بِہَا قُلْ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ أَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَo قُلْ أَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَأَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کَمَا بَدَأَکُمْ تَعُوْدُوْنَo ﴿الاعراف: ۲۸-۲۹﴾

’’اور یہ ﴿منکرینِ حق﴾ جب کوئی برا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے اور اللہ نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ کہو اللہ فحش کاموں کا حکم نہیں دیا کرتا۔ کیا تم اللہ کی طرف وہ بات منسوب کرتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ہے۔ کہو میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے اور اُس کی ہدایت یہ ہے کہ ہر عبادت کے وقت اپنا رخ اُس کی طرف کرو اور اُس کو پکارو دین کو اُس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ جیسا کہ اُس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا، اُسی طرح تم دوبارہ پیدا ہوگے۔‘‘

﴿د﴾    اللہ کے دین کے علاوہ انسانوں نے جو طریقے اختیار کیے ہیں وہ خواہشات کی اتباع پر مبنی ہیں۔ اس لیے اُن میں افراط و تفریط ہے۔ اللہ کادین اس لیے واجب الاتباع ہے کہ وہ بے اعتدالی سے اور جاہلیت کے ہر شائبے سے بالکل پاک ہے:

وَأَنِ احْکُمْ بَیْْنَہُمْ بِمَآ أَنْزَلَ اللّٰہُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہْوَآئَ ہُمْ وَاحْذَرْہُمْ أَنْ یَفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَآ أَنْزَلَ اللّٰہُ الَیْْکَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ أَنْ یُصِیْبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِہِمْ وَانَّ کَثِیْراً مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُوْنَo أَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْماً لِّقَوْمٍ یُوْقِنُوْنَo﴿المائدۃ: ۴۹-۵۰﴾

’’اور یہ کہ اُن کے درمیان اُس حق کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے اور اُن کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ او رخبردار رہو کہ یہ تم کو بہکا نہ دیں کسی ایسے حکم سے جو اللہ نے نازل کیا ہو۔ پھر اگر یہ منھ موڑ یں تو جان لو کہ اللہ کی مرضی یہی ہے کہ اُن کو اُن کے کچھ گناہوں کی سزا دے دی جائے۔ بے شک انسانوں میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔ اب کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ اور اللہ سے بہتر کون فیصلہ کرنے والا ہے، اُن لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں۔‘‘

﴿ہ﴾       اللہ کا دین اِس لیے بھی قابلِ اتباع ہے کہ یہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اس میں اُن باتوں کا حکم دیا گیا ہے جو معروف ہیں ﴿یعنی فطرتِ انسانی اُن سے مانوس ہے﴾ اور اُن باتوں سے روکا گیا ہے جن کو انسانی فطرت بُرا جانتی ہے:

الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الأُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہُ مَکْتُوْباً عِنْدَہُمْ فِیْ التَّ وْرَاۃِ وَالاْج ِ  یْلِ یَأْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْْہِمُ الْخَبَآئِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اصْرَہُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْْہِمْ فَالَّذِیْنَ آمَنُوْا بِہٰ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِیَ أُنْزِلَ مَعَہُ أُوْلٰ ئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo      ﴿الاعراف: ۱۵۷﴾

’’﴿رحمتِ الٰہی اُن لوگوں کے لیے ہے﴾ جو اس رسول کی پیروی اختیار کرتے ہیں جو نبی اُمّی ہے۔ اُس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ اُن کو معروف کا حکم دیتا ہے، منکرات سے منع کرتا ہے۔ اُن کے لیے پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزوں کو حرام ٹھہراتا ہے۔ وہ اُن پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور اُن زنجیروں کو کاٹتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ پس جو لوگ رسول پر ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی حمایت اور مدد کی اور اُس نور کی پیروی کی جو رسول کے ساتھ اترا ہے تو وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘

﴿و﴾       اللہ کا دین اس لیے بھی قابلِ اتباع ہے کہ اسی دین پر انسان جمع ہوسکتے ہیں۔ انسانوں کے بنائے ہوئے ادیانِ باطلہ انسانوں کو خانوں میں بانٹ دیتے ہیں جب کہ اللہ کا دین اُن کو متحد کرتا ہے:

فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰ کِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo مُنِیْبِیْنَ اَیْْہِ وَاتَّقُوہُ وَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوا دِیْنَہُمْ وَکَانُوا شِیَعاً کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْْہِمْ فَرِحُونَo ﴿روم:۳۰ تا ۲۳﴾

’’اپنا رخ سیدھا اِس دین پر جمادو یکسو ہوکر۔ قائم ہوجاؤ فطرت پر، جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی خلق میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ یہی سیدھا دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ تم سب کے سب اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے ﴿اِس دین کو اختیار کرو﴾ اور اُس سے ڈرتے رہو اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ ﴿اُن مشرکوں کا حال یہ ہے کہ﴾ انھوں نے اپنے دین میں پھوٹ ڈال لی ہے اور بہت سے گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُس میں وہ مگن ہے۔‘‘

انسانی آزادی کا اصول:

ہدایتِ الٰہی کی حقانیت کے دلائل دینے کے بعد قرآن مجید بتاتا ہے کہ زمین اللہ کی ہے۔ انسان اُس کی بندگی کرنے کے لیے آزاد ہے۔ کسی ظالم و جابر کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ لوگوں کو اللہ کی بندگی سے روکے۔ فرعون نے ظلم و جبرکا رویہ اختیار کیا تھا اور انسانوں کو قبولِ حق سے روکنا چاہا تھا۔ اِس کا تذکرہ قرآن میں کیا گیا ہے:

وَأُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سَاجِدِیْنَo قَالُ ٓوْا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِیْنَo رَبِّ مُوسٰی وَہَارُوْنَo قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِہِ قَبْلَ أَنْ اٰذَنَ لَکُمْ اِنَّ ہٰ ذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِیْ الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِجُوْا مِنْہَآ أَہْلَہَا فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَo لأُقَطِّعَنَّ أَیْْدِیَکُمْ وَأَرْجُلَکُم مِّنْ خِلاَفٍ ثُمَّ لأُصَلِّبَنَّکُمْ أَجْمَعِیْنَo قَالُوْآ اِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَo وَمَا تَنْقِمُ مِنَّا اِلآَّ أَنْ آمَنَّا بِاٰ یَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآئَ تْنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْْنَا صَبْراً وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَo﴿الاعراف:۱۲۰ – ۱۲۶﴾

﴿حضرت موسیٰ کے معجزہ کو دیکھنے کے بعد﴾ جادوگر سجدے میں گر پڑے۔ وہ بولے :‘‘ہم ایمان لائے پروردگارِ عالم پر جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔‘‘ فرعون نے کہا:‘‘ کیا تم ایمان لے آئے میری اجازت کے بغیر۔ یہ ایک مکر ہے جو تم سب نے اس شہر میں بنایا ہے تاکہ اس کے رہنے والوں کو یہاں سے نکال باہر کرو۔ جلد تم کو معلوم ہوجائے گا۔ میں ضرور تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواؤں گا اور پھر تم کو سولی پر چڑھا دوں گا۔‘‘ وہ بولے :‘‘ہم کو تو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ تو ہم سے محض اس بات کا انتقام لے رہا ہے کہ ہم اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لے آئے جب وہ ہمارے سامنے آئیں۔ اے ہمارے رب! ہم پر صبرکا فیضان کر اور ہم کو موت دے، اِس حال میں کہ ہم مسلم ہوں۔‘‘

فرعون کے اس جبر و ظلم کے مقابلے میں موسیٰ علیہ السلام نے یہ حقیقت یاد دلائی کہ زمین اللہ کی ہے یہاں جس کو بھی اقتدار ملتا ہے مشیتِ الٰہی کے تحت ملتا ہے اور وہ ایک محدود وقت کے لیے ہوتا ہے:

قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٰ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰہِ وَاصْبِرُوْا اِنَّ الأَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثُہَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہِ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَo قَالُوْآ أُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِیْنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ أَنْ یُہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِیْ الأَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْْفَ تَعْمَلُوْنَo ﴿الاعراف: ۱۲۸-۱۲۹﴾

’’موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: ’’اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو۔ بے شک زمین اللہ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کوچاہتا ہے اُس کا وارث بنادیتا ہے۔ اور انجام کار متقیوں ہی کے لیے ہے۔‘‘ ﴿بنی اسرائیل کے﴾ لوگ کہنے لگے: ’’ہم آپ کے آنے سے پہلے بھی ستائے جارہے تھے اور آپ کے بعد بھی ستائے جارہے ہیں۔‘‘ موسیٰ نے کہا: ’’نزدیک ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنادے پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘

قرآنِ مجید میں اللہ کے رسولوں کے مخالفین کے اس عام رویے کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ اہلِ حق کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے اور اِس بات کے درپے تھے کہ اُن کو ملک سے نکال دیں۔ اس ظلم کی بنا پر یہ منکرینِ حق تباہی سے دوچار ہوئے:

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّ کُمْ مِّنْ أَرْضِنَآ أَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَأَوْحَی اِلَیْْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکَنَّ الظَّالِمِیْنَo وَلَنُسْکِنَنَّ کُمُ الأَرْضَ مِنْ بَعْدِہِمْ ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَخَافَ وَعِیْدِo ﴿ابراہیم:۱۳-۱۴﴾

’’کافروں نے اپنے رسولوں کو خطاب کرکے کہا: ’’ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال باہر کریں گے یا پھر تمہیں ہمارے دین میں واپس آنا ہوگا۔‘‘ تب اُن کے رب نے اُن ﴿رسولوں﴾ کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کردیں گے اور اُن کے بعد زمین میں تم کو آباد کریں گے۔ یہ وعدہ ہے اُس کے لیے جو میرے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اور میرے عذاب کی وعید سے خوف کھاتا ہے۔‘‘

آج ہندوستان میں بھی مسلمانوں کو بعض عناصر یہ دھمکی دیتے ہیں کہ مسلمان یا تو دینی شعائر کو چھوڑ دیں اور مشرکانہ کلچر کو اختیار کرلیں یا ملک کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ اس طرح کی دھمکیوں کے جواب میں ثابت قدم رہنے کے لیے اس حقیقت کااستحضار ضروری ہے کہ زمین ساری کی ساری اللہ کی ہے اور اس حقیقت کا بھی کہ ظالموں کا انجام تباہی ہے۔منکرینِ حق کو تنبیہ کے علاوہ قرآن مجید اہلِ ایمان کی تربیت کرتا ہے اور اُن کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کی بندگی کریں:

یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْآ اَّ أَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَاَایَ فَاعْبُدُوْنَِoکُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ثُمَّ اَیْْنَا تُرْجَعُوْنَo ﴿العنکبوت: ۵۶-۵۷﴾

’’اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو، میری زمین بہت وسیع ہے پس تم میری ہی بندگی کرو۔ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤ گے۔‘‘

اللہ کی بندگی کرنے کے لیے اگر ہجرت کرنی پڑے تو اس میں تامل نہ کرنا چاہیے اور جو لوگ ایمان کے تقاضوں پر مادی مفادات کو مقدم رکھیں انھیں قرآن نے سخت وارننگ دی ہے:

اَّ الَّذِیْنَ تَوَفَّاہُمُ الْمَلآئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ أَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِیْ الأَرْضِ قَالُوْآ أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْہَا فَأُوْلٰ ئِٓکَ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَسَآئَ تْ مَصِیْراًo     ﴿النساء: ۹۷﴾

’’جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے، فرشتے جب اُن کی روح قبض کرتے ہیں تو اُن سے پوچھتے ہیں کہ ’’تم کس حال میںتھے؟‘‘ وہ جواب دیتے ہیں کہ ’’ہم زمین میں کمزور تھے‘‘ فرشتے اُن سے کہتے ہیں کہ ’’کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اُس میں ہجرت کرتے۔‘‘ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بری پناہ گاہ ہے۔‘‘

اس وارننگ کے بعد صادق الایمان ہجرت کرنے والوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ اللہ انہیں رِزق دے گا۔ اورکشادگی عطا کرے گا:

وَمَنْ یُہَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِیْ الأَرْضِ مُرَاغَماً کَثِیْراً وَسَعَۃً وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْْتِہِ مُہَاجِراً

Êِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٰ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُہ’ عَلَی اللّٰہِ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْراً رَّحِیْماًo  ﴿النساء: ۱۰۰﴾

’’جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت جگہ اور کشادگی پائے گا۔ اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہجرت کے ارادے سے نکلے اور اُسے ﴿راستے میں﴾ موت آجائے تو اُس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے اور اللہ بخشنے والا اور رحیم ہے۔‘‘

دعوت اور دینِ حق پر عمل کی آزادی:

قرآنِ مجید کے مطابق یہ دونوں نکات ہم آہنگ ہیں ﴿الف﴾ یہ نکتہ کہ اللہ کا دین ہی فلاح وکامرانی کا ضامن ہے اور ﴿ب﴾ یہ کہ انسانوں کو قبولِ حق کی اور دینِ حق پر عمل کی آزادی حاصل ہے۔ اِس ہم آہنگی کی وجہ یہ ہے کہ دونوں نکات کا تعلق ’’ایمان‘‘ سے ہے۔ اور اس ہم آہنگی کا تقاضا یہ ہے کہ اہلِ ایمان بھی ان نکات کو باہم مربوط کرکے پیش کریں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اُسوے میں اس کی مثال ملتی ہے:

وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَہُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَآئ ہُمْ رَسُوْلٌ کَرِیْمٌo أَنْ أَدُّوا الَیَّ عِبَادَ اللّٰہِ اِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ أَمِیْنٌo وَأَنْ لَّا تَعْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِنِّیْٓ اٰتِیْکُمْ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍoوَانِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ أَنْ تَرْجُمُوْنَِo وَاِنْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا لِیْ فَاعْتَزِلُوْنِ o          ﴿الدخان: ۱۶-۱۷﴾

’’ہم اس سے پہلے فرعون کی قوم کی آزمائش کرچکے ہیں۔ اُن کے پاس ایک معزز رسول آیا۔ اُس نے کہا کہ ’’اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کردو۔ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ اور اللہ کے مقابلے میں سرکشی نہ کرو۔ میں تمہارے پاس ایک کھلی ہوئی سند لایا ہوں اور میں پناہ لے چکا ہوں اپنے اور تمہارے رب کی، اس سے کہ تم مجھے سنگ سار کرو۔ اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے پرے ہوجاؤ۔‘‘

اس مثال میں موسیٰ علیہ السلام کا جملہ قابلِ غور ہے: ’’اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کردو۔‘‘ علاّمہ شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ اِس کی تشریح یوں کرتے ہیں: ’’خدا کے بندوں کواپنا بندہ مت بناؤ۔‘‘ اس طرح یہ جملہ بیک وقت دعوت بھی ہے اور دین پر عمل کی انسانی آزادی کا اعلان بھی۔

اس مثال سے سیکھتے ہوئے موجودہ حالات میں اہلِ ایمان کو چاہیے کہ ملی مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ بات کہیں اور وہ استدلال، اسلوب اور لہجہ اختیار کریں جو دعوت الی الحق سے ہم آہنگ ہو۔ یہی اسوۂ انبیائ کے اتباع کا تقاضا ہے۔ ورنہ اگر کارِ دعوت اور ’’ملّی مسائل کے حل‘‘ کے کام کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے تو اس کا اندیشہ ہے کہ دعوت حالات سے غیر متعلق ﴿Irrelevant﴾ ہوجائے اور ملّی مسائل کے حل کی سعی دینی روح سے خالی ہوجائے۔ بقولِ اقبالؒ  :

دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت

ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ

مشمولہ: شمارہ اپریل 2011

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau