ظالموں اور ان کے گماشتوں کے بارے میں فقہا کا موقف

فقہ شافعی کی ایک کتاب کا جائزہ

عصام تلیمہ | ترجمہ : شعبہ حسنین ندوی

جو لوگ فقہی وراثت کی عظمت سے ناواقف ہیں وہ اس پر مسلسل حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود کو صاحب علم اور روشن خیال گردانتے ہیں اور خود کو بزعم خود تاریک خیال لوگوں یعنی فقہا اور فقہی وراثت کا مخالف بتاتے ہیں۔ جب بھی کبھی ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ حضرات فقہی وراثت سے ناواقف ہیں کیوں کہ انھوں نے گہرائی کے ساتھ اس علم کا مطالعہ نہیں کیا ہے تو وہ ہمیشہ ہمارے سامنے فقہ کے ایسے نمونے پیش کرنے لگتے ہیں جن کا تعلق درحقیقت فقہی جمود اور تہذیبی زوال کے دور سے ہے اور جو نمونے اسلام کے بنیادی اصولوں اور شریعت سے ہم آہنگ نہیں ہیں، بلکہ وہ ایسی مثالیں اور نمونے ہیں جو خود ان مسالک کے جلیل القدر فقہا کے اصولوں سے متصادم ہیں۔ اس طرح کے موضوعات اور افکار پر گفتگو کرتے ہوئے خود علما و فقہا نے ان پر نکیر کی ہے اور ان کی نشان دہی کی ہے۔

ظلم، ظالموں، سرکشوں اور ان کے گماشتوں کے متعلق فقہا کا موقف کیا رہا ہے اس کی بے شمار مثالیں فقہی کتابوں اور فقہا کی سوانح میں بکھری پڑی ہیں۔ ثبوت کے طور پر بہت سی کتابوں کا نام لیا جاسکتا ہے، لیکن ہم یہاں ایک اہم فقہی کتاب ’’کفایۃ الاخیار فی حل غایۃ الاختصار‘‘ کا حوالہ دیں گے جس میں فقہا کا موقف پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ یہ کتاب درحقیقت ایک جید شافعی فقیہ ابو شجاع کے ایک معتبر فقہی متن کی شرح ہے۔ ’’کفایة الاخیار فی حل غایة الاختصار‘‘ کے لکھنے والے بھی آٹھویں صدی ہجری کے معتبر شافعی عالم ابوبکر بن محمد الحصنی (وفات: ۸۲۹ھجری) ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ جس کسی فقہی مسئلہ میں انھیں واضح یا خفی طور پر ظالموں اور ان کے گماشتوں کا ذکر نظر آتا ہے وہ اس کی جانب ضرور اشارہ کرتے ہیں اور اس پر سخت نکیر کرتے ہیں۔ بسا اوقات پڑھنے والے کو لگے گا کہ اس مسئلہ کا ظالموں یا ان کے گماشتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے پھر بھی وہ اس جانب قوت کے ساتھ اشارہ کرتے ہیں تا کہ ظلم کا دروازہ بند کیا جا سکے۔

ایک دن میں اور میرے ایک دوست علامہ ابوبکر حصنی کی اس کتاب کے تعلق سے گفتگو کر رہے تھے، میں نے محسوس کیا کہ اس کتاب کے تعلق سے ہم دونوں کے احساسات یکساں ہیں کہ اس کتاب میں ظالموں اور ان کے گماشتوں پر جو گرفت کی گئی ہے اس کا تفصیلی مطالعہ کیا جانا ضروری ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ کام صرف علامہ حصنی نے ہی نہیں کیا ہے بلکہ بہت سے دیگر فقہا نے بھی اس موضوع پر کام کیا ہے۔ ہمارے ایک دوست جو تفسیر قرطبی پر اپنا ماسٹرس کا مقالہ لکھ رہے تھے انھوں نے مجھے بتایا کہ فقہا نے اپنی بہت ساری فقہی کتابوں میں ظلم، ظالموں اور ان کے گماشتوں پر شدید تنقید کی ہے۔

علامہ حصنی نے ہر زمانے خاص طور پر اپنے زمانہ کے ظالموں [یعنی حکم رانوں] اور ان کے معاونوں [یعنی قاضیوں، فقہا اور درباری صوفیوں] پر شدید نکیر کی ہے، اور اس جانب اشارہ کیا ہے کہ ظالموں کا کام بغیر گماشتوں کے جاری نہیں رہ سکتا ہے کیوں کہ ظلم و ستم کے لیے ظالم انھی گماشتوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ میرے سامنے اس کتاب کا وہ نسخہ ہے جسے قطر کی وزارت اوقاف نے شائع کیا ہے۔ میں نے ذیل کے مضمون میں صفحات کے حوالے اسی نسخہ کو سامنے رکھتے ہوئے دیے ہیں۔

سونے اور چاندی کے برتنوں کی شریعت میں حرمت پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ حصنی نے اپنے زمانہ کے حکم رانوں کا ذکر کیا ہے کہ وہ ظالم ہیں کیوں کہ وہ اپنی جہالت اور ناواقفیت کے سبب سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال کرتے ہیں حتی کہ آلات لہو و لعب کے ساتھ وہ ان برتنوں سے نشہ آور چیزیں پیتے ہیں۔ [ص ۷۷]

ظالموں اور ان کے گماشتوں کی عبادت

بہت سارے ظالم اور ان کے گماشتے یہ سمجھتے ہیں کہ تھوڑی بہت عبادت کر لینے سے ظلم کا گناہ ان کے سروں سے جاتا رہتا ہے، ظالموں کے اندر اس خیال کے پنپنے کا ایک سبب درباری علما ہیں جنھوں نے اس خیال کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ لیکن علامہ حصنی نے اس خیال کی سختی سے تردید کی ہے اور انھوں نے ظالموں کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ اپنے ظلم پر قائم ہیں تو اپنے ذکر و استغفار سے دھوکہ میں نہ رہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’اگر ظالم اپنے ظلم و ستم کے رویہ پر بدستور قائم ہے، حدود اللہ کی رعایت نہیں کرتا ہے اور اپنے عوام کو دھوکہ دیتا ہے اور ساتھ ہی زبان سے استغفار بھی کرتا رہتا ہے تو اسے بہت محتاط رہنا چاہیے، کیوں کہ وہ اپنے اس رویہ کی وجہ سے اللہ کی ناراضی اور غضب کا مستحق ہو گا۔‘‘  [ص ۲۴۲]

ایسے ظالم حکم راں اور ان کے گماشتے جو اپنے عوام سے ظالمانہ طور پر ٹیکس وصول کرتے ہیں، ان کے تعلق سے علامہ حصنی نے یہ فتوی دیا ہے کہ ان لوگوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ سفر میں قصر کریں یا جمع بین الصلاتین کریں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’قصر یا جمع بین الصلاتین کی اجازت اس سفر میں ہے جس میں کوئی معصیت نہ ہو، معصیت والے سفر میں اس کی اجازت نہیں ہے، مثلا وہ سفر جو ڈاکہ ڈالنے کے لیے ہو یا شراب اور چرس لانے کے ہو یا ایسا سفر ہو جس میں ظالم حکم راں نے کسی کو رشوت یا ظالمانہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے بھیجا ہو۔‘‘  [ص ۲۲۱]

علامہ حصنی ظالموں اور ان کے گماشتوں کو اس کی بھی اجازت نہیں دیتے کہ وہ نماز استسقا میں شریک ہوں۔ ان کا کہنا ہے: ’’نماز استسقا میں بوڑھوں، محروم و مغموم لوگوں اور بچوں کو شریک ہونا چاہیے کیوں کہ ان لوگوں کی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں۔ خبردار رہیں کہ نماز استسقا میں ایسے رشوت خور قاضی اور خانقاہوں کے صوفیا شامل نہ ہوں جو ظالموں کے مال کا استعمال کرتے ہیں اور لہو و لعب کے آلات کے ذریعے عبادت کرتے ہیں، ایسے لوگ درحقیقت فاسق و فاجر ہیں۔‘‘ [ص ۲۴۲]

ایسے ظالموں کے صدقہ کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ حصنی نے لکھا ہے: ’’ایک بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ ظالم حکم راں پہلے غلط طریقوں کا استعمال کر کے مال و دولت حاصل کرتے ہیں اور پھر ان پیسوں سے کھانا بنوا کر اسے صدقہ کرتے ہیں۔ اس طرح ان ظالموں کی نحوست غریبوں تک جا پہنچتی ہے۔ اس سے بھی بڑی خرابی یہ ہے کہ بُرے صوفیا اور علمائے سوء ایسے ظالموں کے دربار میں حاضری دیتے رہتے ہیں۔‘‘ [ص ۲۹۸]

علامہ حصنی کا کہنا ہے کہ ظالم اور اس کا معاون زکوٰة کا عامل نہیں ہو سکتا (یعنی زکوٰة کی اس مد سے فائدہ نہیں اٹھاسکتا)۔ انھوں نے تحریر کیا ہے: ’’غلام یا فاسق و فاجر مثلا شراب پینے والا یا ظالمانہ طریقہ پر ٹیکس اکٹھا کرنے والا اور ظالموں کے گماشتے زکوٰة کے عامل نہیں ہو سکتے۔ اللہ ہلاک و برباد کرے ایسے لوگوں کو جو اللہ کے اُس دین کو پامال کرتے ہیں جو اس نے اپنے نبی اور اپنی کتاب کے ذریعے لوگوں تک بھیجا ہے۔ [ص ۲۸۶]

ظالموں کے گماشتے درحقیقت ذلیل اور گھٹیا لوگ ہیں

علامہ حصنی نے اپنے زمانہ کے ظالموں اور ان کے گماشتوں کی فہرست میں ظالم قاضیوں اور درباری فقہا و صوفیا کو سرفہرست رکھا ہے۔ یتیم کی وصایت [سرپرستی] کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ’’اگر یتیم کے والد اور دادا باحیات نہ ہوں اور نہ ہی اس کا کوئی وصی [سرپرست] ہو تو اس کی حفاظت کی ذمہ داری قاضی کی ہے۔ کیوں کہ قرآن اور حدیث میں قاضی کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ یتیم اور دیگر کم زور لوگوں کی حفاظت کرے۔ اللہ تعالی برے قاضیوں کو ہلاک و برباد کرے، کتنے ہی لوگوں کی حفاظت ان کی ذمہ داری تھی لیکن انھوں نے انھیں برباد ہونے دیا۔ ایسے قاضی ان کم زور لوگوں کا مال حاصل کر کے اسے ظالم حکم رانوں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اور ان تمام حرکتوں کے بعد بھی وہ دعوی کرتے ہیں کہ انھیں اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے۔‘‘ [ص ۴۳۷]

جائز اور ممنوع وصیت پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ حصنی نے لکھا ہے: ’’وصیت کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ کسی معصیت کے کام سے متعلق نہ ہو، خواہ اس کی وصیت کوئی مسلم کرے یا کوئی ذمی۔ اگر ایک مسلمان ایسی عمارت کی تعمیر کی وصیت کرے جس میں معصیت کے کام کیے جانے ہوں یا وہ ایک ایسی عمارت کے خریدنے کی وصیت کرے جس میں ان صوفیوں کے سماع کی محفل قائم کی جائے جو صوفیا ظالم حکم رانوں سے مال و دولت حاصل کر کے اور لہو و لعب کے آلات استعمال کرتے ہوئے نوخیزوں اور خواتین کے ساتھ رقص کر کے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ایسی وصیت ناجائز سمجھی جائے گی اور اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔‘‘ [ص ۴۶۳]

جن لوگوں کی گواہی ناقابل قبول ہے ان کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ناچ گانا کرنے والوں کی گواہی بھی قبول نہیں کی جائے گی، مثلا وہ صوفیا جو ظالم حکم رانوں اور ظالمانہ طور پر ٹیکس وصول کرنے والوں کی دعوتوں میں شریک ہوتے ہیں، اور جب وہ رقص کرتے ہیں تو اپنے سروں کو ہلاتے ہیں اور اپنی داڑھیاں لہراتے ہیں۔ درحقیقت یہ سب دیوانوں کا کام ہے۔‘‘ [ص ۷۱۷، ۷۱۸]

جو لوگ ظالم حکم رانوں کے غلط کاموں کو اپنی خوب صورت باتوں کے ذریعے حلال اور جائز قرار دیتے ہیں، ان کے تعلق سے لکھتے ہیں: ’’جو لوگ شراب، خنزیر، زنا اور مردوں سے بدکاری کو حلال قرار دیتے ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ سلطان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے حلال قرار دے اور جسے چاہے حرام قرار دے، مثلا کچھ ظالم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سلطان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ جس سے چاہے ناراض ہو جائے اور جسے چاہے اپنے مال سے نواز دے۔ ایسے ہی یہ ظالم لوگ ظالمانہ طور پر ٹیکس وصول کرنے کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ سارے کام بالاجماع حرام ہیں۔‘‘ [ص ۶۴۰]

علامہ حصنی کا کہنا ہے کہ یہ درحقیقت ذلیل اور گھٹیا لوگ ہیں خواہ وہ کتنے ہی صاحب علم ہوں اور لوگوں کے درمیان کتنا ہی بڑا مقام رکھتے ہوں۔ کسی ولیمہ کی دعوت یا کسی دوسری دعوت کے قبول کرنے کے تعلق سے لکھتے ہیں: ’’اگر دعوت میں کوئی ایسا شخص ہو جس کے ساتھ بیٹھنا وہ مناسب نہ سمجھتا ہو اور جس کے ساتھ بیٹھنے میں اسے اذیت محسوس ہوتی ہو تو دعوت میں شرکت کرنے سے وہ معذرت کر سکتا ہے۔ مثلا دعوت میں گھٹیا لوگ موجود ہوں خواہ وہ لوگوں کے درمیان کتنا ہی بڑا مقام کیوں نہ رکھتے ہوں۔ ظالموں کے سفرا، رشوت خور قاضی اور خانقاہوں کے صوفیا گھٹیا لوگوں کی فہرست میں آتے ہیں جو ظالمانہ طور پر ٹیکس وصول کرنے والوں کی دعوتوں میں بلا تکلف چلے جاتے ہیں، بلا شبہ یہ گھٹیا ترین لوگ ہیں۔‘‘ [ص ۵۰۱]

ایسے لوگوں کو علامہ حصنی فاسق و فاجر بھی قرار دیتے ہیں، وہ لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں میں سب سے بڑے فاسق ایسے فقہائے سوء اور صوفیا ہیں جو ظالم حکم رانوں کے دربار میں پابندی سے حاضری دیتے رہتے ہیں، اس امید پر کہ ان ظالم حکم رانوں کے مال و دولت کا کچھ حصہ انھیں بھی مل جائے گا۔ حالاں کہ انھیں علم رہتا ہے کہ یہ حکم راں شراب پیتے ہیں، مختلف فسق و فجور کے کاموں میں ملوث ہیں، ظالمانہ طور پر ٹیکس وصول کرتے ہیں، لوگوں کو زبردستی اپنی امارت کے قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں، بلا وجہ خون بہاتے ہیں اور قرآن و سنت کی طرف دعوت دینے والوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ ان ذلیل فقہا کی حرکتوں سے دھوکہ میں نہیں آنا چاہیے۔ ہمیں اس دین کی اتباع کرنی چاہیے جس کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے۔‘‘ [ص ۵۰۱]

بد اخلاقی اور بے دینی کا ذکر کرتے ہوئے علامہ حصنی نے ظالموں کے گماشتوں کے ایک گروپ کا تذکرہ کیا ہے، جو انسانوں پر ظلم کرتے وقت اسلامی مقدسات کی بھی بے حرمتی کر گزرتے ہیں۔ یہ بات ہمیں جدید دور کے جیلروں مثلا حمزہ البسیونی کی یاد دلا دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’استہزا کی ایک شکل یہ ہے کہ جب ظالم مظلوم پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں اور مظلوم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرتا ہے تو ظالم کہتا کہ بلاؤ اپنے نبی کو کہ وہ تم کو اس مار سے بچا سکے۔‘‘ [ص ۶۳۸]

ظالموں اور ان کے گماشتوں کی گواہی

ظالموں اور ان کے گماشتوں کے ذریعے دی گئی خبروں کو علامہ حصنی قبول نہیں کرتے۔ وہ معاملات میں ایسے لوگوں کی گواہی قبول کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ حتی کہ اگر ظالم اور ان کے گماشتے یہ بتاتے ہیں کہ قبلہ کس جانب ہے تو نماز پڑھنے کے لیے ان کی اس بات کو ماننے سے بھی منع کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’قبلہ کے تعین میں کافر کی گواہی ہرگز قبول نہیں کی جائے گی، اسی طرح سے فاسق مثلا رشوت خور قاضی اور ظالم حاکم کی گواہی بھی اس سلسلے میں قابل قبول نہیں ہے۔‘‘ [ص ۱۶۵]

نکاح میں بھی ایسے لوگوں کی گواہی کو قبول کرنے سے علامہ حصنی منع کرتے ہیں، وہ ایسے لوگوں کو غیر عادل قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ولی اور عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا مقصد شرم گاہوں کی حفاظت، نکاح کی پختگی اور حسب و نسب کی حفاظت ہے۔ اگر نکاح فاسقوں مثلا رشوت خور قاضیوں کی موجودگی میں ہوتا ہے تو ایسا نکاح معتبر نہیں ہو گا۔ یہ نکاح ایسا ہی ہے جیسے کہ وہ نکاح جو کافروں یا دو غلاموں کی موجودگی میں ہو۔ نکاح کرنے والے کی توجہ اس جانب ضرور رہنی چاہیے، اسے عادل گواہوں کی موجودگی میں اپنا نکاح کرنا چاہیے، جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث میں بتایا گیا ہے۔‘‘ [ص ۴۸۲]

ظالموں اور ان کے گماشتوں کے ساتھ عدم تعاون

علامہ حصنی کا کہنا ہے کہ جب تک ظالم اور ان کے گماشتے اپنے ظلم و ستم سے باز نہ آ جائیں اس وقت تک ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعاون ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ ظالموں اور ان کے گماشتوں کو کسی طرح کا کام سپرد کرنے اور ان کی ولایت میں دینے کے تعلق سے لکھتے ہیں: ’’حکام کے لیے راست بازی بلا اختلاف شرط ہے۔ رشوت خور قاضیوں کو مذکورہ بالا لوگوں کے مال کا ولی [ذمہ دار] نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر کسی کے پاس کسی یتیم کا مال ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مال کی ہر طرح سے حفاظت کرے۔ اگر وہ اس مال کو کسی رشوت خور قاضی کے حوالے کر دیتا ہے جس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اس مال کو ظالم حکم رانوں کے سپرد کر دے گا، تو ایسا شخص نافرمان اور گنہگار ہو گا۔ کیوں کہ اس نے مال کو فاسق لوگوں کے حوالے کر کے اسے ضائع کر دیا۔‘‘ [ص ۳۶۵]

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ نماز جمعہ کے خطیب یا نماز جمعہ پڑھنے والے کو خطبہ اور نماز کے درمیان ہی بولنے کی کس صورت میں اجازت ہے، علامہ حصنی لکھتے ہیں: ’’جب وہ کسی اندھے کو کنویں میں گرتے ہوئے دیکھے، یا وہ دیکھے کہ بچھو کسی انسان کے قریب پہنچ چکا ہے یا اس کے علم میں آئے کہ کوئی ظالم مثلا بازاروں کا ہیڈ ذمہ دار یا رشوت خور قاضی کسی سے ناحق پیسوں کا مطالبہ کر رہا ہے تو اس شکل میں خطیب اور نمازی کو خطبہ اور نماز کے درمیان ہی بولنے کی بلا اختلاف اجازت ہے۔‘‘ [ص ۲۳۴]

علامہ حصنی اس بات کو غلط قراردیتے ہیں کہ ظالموں اور ان کے گماشتوں کو مال کا ذمہ دار بنایا جائے، وہ لکھتے ہیں: ’’حاکم کو مال کا ذمہ دار اس زمانہ میں بنایا جاتا تھا جب حالات بگڑے نہیں تھے اور بیت المال مکمل طور پر منظم ہوا کرتا تھا۔ ہمارے زمانے کے حاکم اور ان کے پیروکار ظالم اور غاصب لوگ ہیں۔ یہی حال ہمارے زمانہ کے رشوت خور قاضیوں کا ہے جنھیں اللہ نے قرآن کی نص کے ذریعے بہت سارے لوگوں کے مال کا امین بنایا ہے، لیکن وہ انھیں ظالموں کے حوالے کر کے ان کے فتنہ و فساد میں ان کے معاون ہوتے ہیں۔ لہذا مال ایسے لوگوں کے سپرد کرنا حرام ہے۔ اگر کوئی انھیں مال کا ذمہ دار بناتا ہے تو وہ بلاشبہ گنہگار ہو گا، کیوں کہ اللہ نے اسے جس کسی کے مال کا امین بنایا تھا وہ اسے ضائع کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اس مسئلہ میں تردد یا تو کسی بیوقوف کو ہو سکتا ہے یا کسی ضدی شخص کو۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔‘‘ [ص ۲۷۹]

ظالم حکم رانوں اور ان کے گماشتوں کا بائیکاٹ کرنے کی اجازت دیتے ہوئے علامہ حصنی لکھتے ہیں: ’’اگر قطع تعلق کسی ذاتی یا دنیوی وجہ سے کیا گیا ہو تو تین دن سے زیادہ کسی مسلمان کو چھوڑ دینا اور اس سے قطع تعلق کر لینا حرام ہے۔ لیکن اگر قطع تعلق کسی ایسے شخص سے کیا جا رہا ہو جو بدعتی ہو یا علی الاعلان ظلم و زیادتی اور فسق و فجور میں مبتلا ہو تو ایسے شخص سے قطع تعلق حرام نہیں ہے۔ اسی طرح سے وہ قطع تعلق بھی حرام نہیں ہے جس کی وجہ دینی ہو۔‘‘ [ص ۵۰۹]

مظلوموں اور ظالموں سے متعلق احکام

امام الحصنی نے اپنی کتاب میں مظلوموں اور ظالموں سے متعلق احکام بیان کیے ہیں، ان احکام کا تعلق عبادات سے بھی ہے اور معاملات سے بھی۔ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہ اگر ایک مسجد قریب ہو اور دوسری دور ہو تو جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے کس مسجد میں جایا جائے، وہ ہدایت کرتے ہیں کہ نماز کے لیے اس مسجد کو ترجیح دی جائے جس میں فاسق و فاجر، بدعتی اور رشوت خور قاضی نہ ہوں۔ انھوں نے لکھا کہ فاسق بھی بدعتی کی طرح ہیں اور سب سے بڑے فاسق وہ قاضی ہیں جو ظالم اور رشوت خور ہوں۔ [ص ۲۱۱]

امام الحصنی نے اس شخص کو نماز جمعہ چھوڑنے کی اجازت دی ہے جس کا پیچھا کوئی ظالم کر رہا ہو۔ وہ لکھتے ہیں: ’’جمعہ کی نماز مریض پر واجب نہیں ہے، اسی طرح اس شخص پر بھی جمعہ کی نماز واجب نہیں ہے جو بھوک اور پیاس کا شکار ہو یا ننگا ہو یا اسے ظالموں اور ان کے گماشتوں سے کوئی خطرہ لاحق ہو۔ اللہ ظالموں اور ان کے گماشتوں کو ہلاک و برباد کرے، ان لوگوں نے شریعت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔‘‘ [ص ۲۲۸]

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’اگر کچھ لوگ پانی کی قلت یا ظالموں کے خوف کی وجہ سے اپنی جگہ چھوڑ کر جا رہے ہوں اور ان کا ارادہ ہو کہ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے وہ واپس آ جائیں گے تو ان لوگوں پر جمعہ کی نماز واجب نہیں ہے، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ لوگ جمعہ قائم بھی نہیں کر سکتے۔‘‘ [ص ۲۳۰]

اگر ظالم حکم راں کسی مظلوم کی تلاش میں ہو تو علامہ حصنی ایسے مظلوم کو اعتکاف سے نکل جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ہلکے پھلکے مرض مثلا سر درد اور ہلکے پھلکے بخار کی وجہ سے معتکف اپنے اعتکاف سے نہیں نکل سکتا، اگر وہ اعتکاف سے نکل جاتا ہے تو اس کا تسلسل ختم ہو جائے گا۔ البتہ اگر وہ بھول کر یا مجبوری میں اعتکاف سے نکل جاتا ہے تو اس کے اعتکاف کا تسلسل ختم نہیں سمجھا جائے گا۔ اگر ظالم حکم راں کسی کو اعتکاف سے زبردستی نکال لاتے ہیں یا معتکف کسی ظالم کے خوف سے اعتکاف سے نکل جاتا ہے تو اسے مجبور سمجھا جائے گا۔‘‘ [ص ۳۰۷]

ظالم کی دعوت بدرجہ مجبوری قبول کرنے کے تعلق سے علامہ حصنی لکھتے ہیں کہ: ’’ظالم یا اس کے معاون یا ظالم قاضی کی جانب سے دی گئی دعوت میں شرکت ان کے خوف کی وجہ سے کی جا سکتی ہے، ظالم سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانے کی نیت سے یا اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے دعوت میں شرکت نہیں کی جا سکتی۔‘‘ [ص ۵۰۱]

کفایۃ الاخیار فی حل غایۃ الاختصار ایک اہم کتاب ہے جسے ’’فقہ کی سماجیات‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک فقیہ لوگوں کی زندگیوں کو فقہ اور قانون سازی سے کس طرح جوڑتا ہے۔ اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالموں اور ان کے گماشتوں کے تئیں فقہا کا موقف کیا رہا ہے۔ فقہا نیک کاموں کا حکم دیتے، برے کاموں سے روکتے اور اس راہ میں کسی کی مخالفت اور تنقید کی پراہ نہیں کرتے تھے۔ حالاں کہ حکم رانوں کے فرمان ان تک پہنچتے رہتے کہ وہ حکم رانوں اور ان کے گماشتوں سے تعرض نہ کریں۔

یہ کتاب بعض ان درباری علما کے خلاف حجت ہے جو اپنی نسبت مسلک شافعی اور دیگر مسالک کی جانب کرتے ہیں۔ مزید یہ کتاب ان دانش وروں کے خلاف بھی حجت ہے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ فقہ اور فقہی وراثت میں ظالموں اور ان کے گماشتوں کے خلاف سخت اور واضح موقف اختیار نہیں کیا گیا ہے

مشمولہ: شمارہ فروری 2022

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau