عن ابی ھریرۃ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،قال : یقول اللہ عز وجل یوم القیامۃ،یا ابن آدم مرضت فلم تعدنی، قال: یا رب کیف اعودک؟ وانت رب العزۃ،فیقول: اما علمت أن عبدی فلاناً مرض فلم تعدہ، و لو عدتہ لوجدتنی عندہ، ویقول:یا ابن آدم، استطعمتک فلم تطعمنی، فیقول: کیف اطعمک وانت رب العزۃ،فیقول: اما علمت أن عبدی فلاناً استطعمک فلم تطعمہ، اما علمت أنک لو اطعمتہ لوجدت ذٰلک عندی،ویقول: یا ابن آدم استسقیتک، فلم تسقنی فیقول: ای رب،وکیف اسقیک وانت رب العزۃ؟ فیقول: اما علمت ان عبدی فلاناً استسقاک فلم تسقہ،و لو سقیتہ لوجدت ذٰلک عندی (مسلم، کتاب البر و الصلۃ ،حدیث نمبر :۶۵۵۶)
’’حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے ،نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے کہے گا۔ اے ابن آدم! میں بیمار تھا، لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی، انسان متعجب ہوکر عرض کرے گا۔ اے میرے رب تو تو سارے جہان کا پروردگار ہے تو کب بیمار تھا،اور میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کیا تجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے۔ لیکن اس کے باوجود تو اس کی مزاج پرسی کے لیے نہیں گیا۔ اگر تو اس کے پاس جاتا تو مجھے (میری رضا)وہاں پاتا۔ پھر خدائے تعالیٰ فرمائے گا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ انسان عرض کرے گا اے رب العالمین! تو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے یا د نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تو نے اسے نہیں کھلایا۔ اگر تو نے اس کا سوال پورا کیا ہوتا تو مجھے (اس کا ثواب) وہاں پاتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے ابن آدم میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھ کو پانی نہیں پلایا۔ انسان عرض کرے گا۔ اے دونوں جہاں کے پروردگار! تو کب پیاسا تھا اور میں تجھے پانی کیسے پلاتا،اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کردیا تھا۔ اگر تو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی ،تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا‘‘۔
بندوں کے حقوق
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ دین صرف چند مراسم عبودیت ادا کر دینے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے بندوں کو مشکلات سے نکالنا، ان کے دکھ درد میں کام آنا ،ان کی خدمت کے ذریعہ رب کریم کو خوش کر نا بھی دین کا تقاضا ہے۔ عقائد وعبادات کے ساتھ اسلام نے اخلاق و معاملات کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اخلاق ہی کا ایک نمایاں پہلو خدمت خلق ہے۔ یہ یاد رہے کہ اخلاق کی پستی انسان کو خدا اور خلق کی محبت سے محروم کر دیتی ہے۔ اسلام کے نزدیک خدمت خلق عبادت ہے۔ یہ سمجھنا نادانی کی بات ہوگی کہ یہ کوئی اختیاری معاملہ ہے ۔ جس دل میں خدا کی محبت موجزن ہوگی، دل خوشنودیٔ رب کا حریص ہوگا، وہ اس کے بندوں کی محبت سے خالی نہ ہوگا۔ قرآن مجید جب انسانوں کے حقوق ،ان کی خدمت، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر کرتا ہے تو اس سے متصل اللہ تعالیٰ کی عبادت، تقویٰ و نماز کا ذکر کرتا ہے۔ بیشتر مقامات پر آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجیدنماز اور زکوٰۃ کا ایک ساتھ ذکر کرتا ہے نماز میں خدا سے براہ راست تعلق قائم ہوتا ہے او رزکوٰۃ کی برکات میں بندگان خدا کی خدمت شامل ہے۔ سورہ حج کی ۷۷ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (سورۂ حج آیت ۷۷)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو اور نیک کام کرو، توقع کی جاسکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہوگی۔
آیت میں رکوع اور سجدہ سے مراد نماز ہے یہ اللہ کا حق ہے۔ اور ’’خیر‘‘ سے مراد تمام اعمالِ صالحہ ہیں جن میں حقوق العباد کی ادائیگی شامل ہے۔انفاق خدمت خلق کی ایک شکل ہے۔سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۱۵ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
يَسْلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْن۰ۥۭ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِۭ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ (سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۱۵ )
’’لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں جواب دیجئے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر،رشتہ داروں پر یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔اور جو بھلائی بھی تم کروگے اللہ اس سے باخبر ہوگا ‘‘۔
وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِہٖ شَئًا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا۔ (سورہ نساء: ۳۶)
’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ،ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ،اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے،پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو،یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پَندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے‘‘۔
خدمت خلق کے طریقے
آیت میں ایک ترتیب کے ساتھ اس بات کی بھی نشاندہی کردی گئی ہے وہ کون سے افرا د اور طبقات ہیں جو ہماری ہمدردی اور اعانت کے مستحق ہیں ان میں ماں باپ اور رشتہ دار بھی ہیں،جن سے ہمارا خونی رشتہ قائم ہے اور ایسے یتیم ،مسکین ،ہم سایہ ،مسافر اور محکوم بھی آجاتے ہیں جن سے بہ ظاہرہمارا کوئی رشتہ نہیں ہے۔اسلام نے دائرہ خدمت خلق اتنا وسیع کیا کہ افراد امت ہی نہیں بلکہ بلا لحاظ مذہب و ملت عام انسانوں کی بھی خدمت تاکید کی ہے۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں خدمت خلق کے کاموں کی ترغیب دی گئی ۔ اسے نیک بندوں کی صفات میں شامل کیا گیاہے اور خدمت انسانیت میں غفلت برتنے کے سنگین نتائج کا بھی وہاں تذکرہ ملتا ہے۔سورہ ذاریات آیت نمبر ۱۹،سورہ مدثر آیت نمبر ۴۳ اور ۴۴، سورہ معارج آیت نمبر ۲۵ اورسورہ ماعون وغیرہ کے مطالعہ سے یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
خدمت انسانیت کے بہت سے پہلو ہوسکتے ہیں ،اس کی کوئی محدود شکل نہیں ۔مالی تعاون کرنا ،قرض دینا ، روزگار فراہم کرنے میں مدد کرنا ،مظلوم کی قانونی، اخلاقی،اور معاشی مدد کرنا ،دینی کاموںمیں اپنی گاڑھی کمائی صرف کرنا۔مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں ،کچھ لوگ ایسے ہوسکتے ہیں جن کی وقتی مدد کی جاسکتی ہے۔کسی کی ضرورت کا مستقل حل نکالا جاسکتا ہے کہ وہ کسی کا دست نگر اور محتاج نہ رہے۔رفاہ عام کے کام ہوسکتے ہیں کہ فرد کی جگہ سماج اور معاشرہ کے افراد استفادہ کرسکیں۔ مساجد ومدارس اور اسکول و کالجز کی تعمیر ، شفاخانوں کا قیام،پانی کا نظم کرنا وغیرہ۔ خدمت خلق کے اداروں کے ذریعہ اس کی منظم کوششیں کی جاسکتی ہیں۔بہت سی ایسی ضروریات ہیں جو مال کے ذریعہ پوری ہوتی ہیں ۔ اس لیے دین میںاس کے خرچ کی بڑی اہمیت ہے،لیکن خدمت کا یہی ایک طریقہ نہیں ہے۔ احادیث کی کتابوں میں بہت سی روایتیں اس موضوع کا احاطہ کرتی ہیں کہ اگر مال میسر نہیں تو خدمت انسانیت کے اور بھی ذرائع ہیںراستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹادینا ،کسی کو راستہ دکھا دینا ،اس کی رہنمائی کردینا ،کسی سے خندہ پیشانی سے ملنا حتی کہ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے رک جانا بھی صدقہ ہے ۔ ایسی بہت سی باتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ لہٰذا یہ عذر کہ مال و اسباب نہیں تو ہم خدمت کیسے انجام دیں مناسب نہیں ہے۔
صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :ہر مسلمان کے لئے صدقہ ضروری ہے۔ اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم عرض گزار ہوئے کہ اگر کوئی شخص اس کی استطاعت نہ رکھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:اپنے ہاتھوں سے کام کرے جس سے اپنی ذات کو فائدہ پہنچائے اور دوسروں کوبھی فائدہ پہنچائے،لوگوں نے عرض کیا : اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو یا ایسا نہ کرسکے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ضرورت مند اور محتاج کی مدد کرے،لوگ عرض گزار ہوئے: اگر ایسا نہ کرسکے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے چاہئے کہ خیر کا حکم کرے ، لوگوں نے پھر عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کرسکے : آپ ﷺ نے فرمایا: وہ برائی سے رکا رہے۔یہی اس کے لئے صدقہ ہے۔(بخاری،کتاب الادب،باب کل معروف صدقۃ،حدیث نمبر: ۵۶۷۶۔مسلم،کتاب الزکوٰۃ،باب بیان ان اسم الصدقۃ یقع علی کل من المعروف،حدیث نمبر ۱۰۰۸)
خلقِ خدا پر شفقت
بندوں کے حقوق کی ادائیگی اور خدمت خلق کے تعلق سے بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔صحیح بخاری ؛حدیث نمبر ۵۳۵۳ میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے بیواؤں اور مسکینوں کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا مجاہد کی مانند ہے۔بخاری میں ہی حدیث نمبر ۶۲۲۲ جس کے راوی براء بن عازب ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا ان میں ایک بات یہ تھی کہ مظلوم کی مدد کی جائے۔ اس ضمن میں مزیدچند احادیث درج ذیل ہیں :
بخاری اور مسلم میں جریر بن عبد اللہ سے مروی ہے رسول ﷺ نے فرمایا: لا یرحم اللہ من لا یرحم الناس ’’جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا ،اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرتا ‘‘۔ بہیقی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : الخلق عیال اللہ فاحب الخلق الی اللہ من احسن الیٰ عیالہ ’’ تمام مخلوق اللہ کی عیال یعنی کنبہ ہے ،ان میں سے اللہ کو سب سے پیارا شخص وہ ہے جو اس کے عیال کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کا رویہ اپنائے۔ابو داؤد اور ترمذی میں عبد اللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے، نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: الراحمون یرحمھم الرحمن ارحموا من فی الارض یر حمکم من فی السماء’’ انسانوں کے ساتھ رحم کرنے والوں پر رحمن بھی رحم کرتا ہے۔ لہذا زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
مسلم شریف میں حضرت ابو ھریرہؓ سے ایک روایت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: من نفس عن مؤمن کربۃ من کرب الدنیا نفس اللہ عنہ کربۃ من کرب یوم القیامۃ ومن یسر علی معسر یسر اللہ علیہ فی الدنیا والاٰخرۃ ومن ستر مسلما سترہ اللہ فی الدنیا و الاٰخرۃ، واللہ فی عون العبد ما کان العبد فی عون اخیہ’’ جو شخص دنیا میں کسی مومن کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا، جو شخص کسی مشکل میں پھنسے ہوئے آدمی کو آسانی فراہم کرے گا اللہ دنیا و آخرت میں اس کے لیے آسانی فراہم کرے گا، جو کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی ستر پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی مدد میں رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے‘‘۔اس حدیث کے آخری کلمات بطور خاص اہل ایمان کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں ۔آج ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی نفسا نفسی کا یہ علاج ہے۔ یعنی جب تک ہم اپنے بھائی کی مدد، اس کی مشکل کے حل کے لیے کوشش کرتے رہیں گے۔ تو خود اللہ تعالیٰ ہمارے لیے آسانیاں پید اکرتا رہے گا۔
سیرت کا نمونہ
سیرت کی کتابوںمیںبہت سے واقعات درج ہیں،نبی کریمﷺ غار حرا سے واپس لوٹے اور اپنی اہلیہ حضرت خدیجہؓ سے وہاں کا واقعہ سنایا اور کہا کہ مجھے تو اپنی جان کا خوف ہوگیا ہے۔ تو اس موقع پر آپﷺ کی زوجۂ محترمہ نے جو بات کہہ کر آپ کی ڈھارس بندھائی وہ انتہائی اہم ہے کہ آپ غریبوں اور مسکینوں کا سہارا ہیں ،خدمت خلق کے کام انجام دیتے ہیں،ایسے میں رب ذو الجلال آپ کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑے گا۔نبی کریم ﷺ نے خدمت خلق سے متعلق محض زبانی تعلیم نہیں دی بلکہ آپ کی عملی زندگی خدمت خلق کی شاہدہے۔بعثت سے قبل بھی آپ خدمت خلق کے لیے مشہور تھے۔ بعثت کے بعد خدمت خلق کے جذبہ میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ مسکینوں کی داد رسی، مفلوک الحال پر رحم وکرم،محتاجوں ،بے کسوں اور کم زوروں کی مدد آپ کے نمایاں اوصاف ہیں ۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی انسانی خدمات تاریخ انسانی کا روشن باب ہیں۔ غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا، بیوہ عورتوں کی بکریاں دوہنا، بوڑھے اپاہج کا سالانہ وظیفہ متعین کرنا، اور صبح کے اندھیرے میں اندھی بوڑھی عورت کی خدمت کرنا آپ کا حسن عمل تھا۔ پھر حضرت عمر فاروقؓ ہیں جو غربا و مساکین اور ضرورت مندوں کے لیے بیت المال سے نظم کررہے ہیں اور جنھوں نے بلا لحاظ مذہب اپاہج ،اندھے ، لنگڑے ،معذور کے لئے وظائف متعین کیے۔ شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے،کنویں کھدوائے، جب عرب میں سخت قحط پڑا تو زبردست ریلیف کا کام کیا، راتوں میں گشت لگاکر رعایا کے احوال دریافت کئے۔حضرت عثمان غنیؓ کا پانی فروخت کرنے والے یہودی سے کنواں خرید کر سب کے لئے وقف کردینا تاریخ کا مشہور واقعہ ہے۔
اخلاص کا اہتمام
شروع میں جو حدیث قدسی درج کی گئی اس میںبہت ہی مؤثر اور دل نشین انداز میں خدمت خلق کے جذبہ کو ابھارا گیا ہے۔ یہ حدیث اس پہلو سے اہم ہے کہ اس میں خلق خدا کی خدمت کو خالق سے تعبیر کیا گیا ہے ۔قرآن کریم میں ’’فعل خیر ‘‘ کی جو اصطلاح استعمال کی گئی ہے ،یہ حدیث اس کی وضاحت کرتی ہے اور اہل ایمان کو اللہ کے بندوں کے حوالہ سے ذمہ داریوں سے آگاہ کرتی ہے ۔ اس حدیث کا واضح پیغام ہے کہ اللہ کو خوش کرنا ہے تو اس کے بندوں کی خدمت کرو ۔ اس کے برعکس خدمت انسانیت سے غفلت جہنم میں داخلہ کے اسباب میں سے ایک سبب ہوگی۔سورہ مدثر آیت ۴۳ اور ۴۴ میں ارشاد ہوا قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۴۴ۙ ۔جب مجرمین سے پوچھا جائے گا کہ تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی،وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔
بطور یاددہانی عرض ہے کہ اسلام میں وہی اعمال عند اللہ قابل قبول اور لائق اجر وثواب ہیں جو اخلاص و للہیت سے معمور ہوں ،جن افعال کے پیچھے نام ونمود کی طلب اور ریاکاری کے جذبات پنہاں ہوں وہ اکارت ہیں۔یہ کام جتنا اہم ہے اتنا ہی وہ اخلاص و للہیت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے بغیر رضائے رب اور اجر وثواب کی توقع نہیں جاسکتی۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2019