گزشتہ ماہ محترم امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے مسجد اشاعت اسلام دعوت نگرمیں ایک اہم خطبہ ارشاد فرمایا۔ مولانا محترم کی نظرثانی کے بعد اسے ماہ نامہ ‘‘زندگی نو’’کے قارئین کے استفادے کے لیے شائع کیاجارہا ہے۔ ﴿ادارہ﴾
لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْراً o ﴿الاحزاب: ۱۲﴾
بزرگو، بھائیو، عزیزو اور محترم خواتین ، بہنو اور بیٹیو!
دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جو رسول آتے ہیں وہ پوری دنیا کے لیے نمونہ ہوتے ہیں، خاص طور ان کے ماننے والوں کے لیے ان کی پوری زندگی نمونہ ہوتی ہے۔ ان کی تعلیم و تلقین، ان کا اخلاق، ان کی سیرت، ان کے معاملات، دوستوں سے ان تعلقات، غیروں سے ان کے روابط، اللہ کے دین کی دعوت کے لیے ان کی تگ ودو، دین کے لیے جدوجہد اور قربانی اور اپنی تمام طاقتوں کو اللہ کے دین کے لیے لگادینا یہ سب کچھ ان کے ماننے والوں کے لیے نمونہ ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہر پہلو سے کامل بناتا ہے۔ان میں کوئی کمی نہیں رہ جاتی کہ کوئی یہ کہہ سکے کہ فلاں معاملہ میں وہ نمونہ نہیں ہیں اور ان کی پیروی نہیں کی جاسکتی۔ زندگی کے کسی مرحلہ میں یہ احساس نہیں ہوسکتاکہ اس معاملے میں ان کا اتباع صحیح نہیں تھا۔ اگر کسی وجہ سے ان سے کوئی بھول چوک یافرو گزاشت ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں فوراً ٹوک دیتاہے کہ تم دنیا کے لیے نمونہ ہو، تمھارے فلاں کام میں یہ کمی رہ گئی، اسے ٹھیک ہونا چاہیے، اور ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس کا اعلان کردیتے ہیں کہ مجھ سے یہ بھول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر ٹوک دیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں اس طرح کی بھول چوک کی مثالیں موجود ہیں۔ اسی وجہ سے ان کو معصوم عن الخطا کہاجاتا ہے۔ یعنی ایک تویہ کہ ان سے غلطی نہیں ہوتی، اور اگر کوئی چوک ہوتی بھی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوراً اس کی اصلاح کردی جاتی ہے، تاکہ دنیا ان کی پوری زندگی کو نمونہ بنائے اور اس کی اتباع کرے۔ رسول اکرم ﷺ کے بارے میں اوپر کی آیت میں فرمایاکہ جو لوگ اللہ پر اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ان کے لیے آپﷺ کی زندگی اسوہ ہے۔
آپﷺکی نمازیں اور روزے امّت کے لیے نمونہ ہیں۔ آپﷺکاحج نمونہ ہے، آپﷺکا صدقہ و خیرات نمونہ ہے۔ آپﷺکے اخلاق نمونہ ہیں۔ آپﷺکی دعوت و تبلیغ نمونہ ہے اور دین کے لیے تکلیفیں برداشت کرنا نمونہ ہے۔ فرمایاگیا کہ آپﷺکی زندگی ہر اس شخص کے لیے نمونہ ہے جسے یہ ایمان و یقین ہے کہ اللہ موجود ہے اور آخرت میں ہمیں اس کے سامنے جواب دہی کرنی ہے، جو اللہ کو بھولا نہیں ہے اور کثرت سے اسے یاد کرتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے علاوہ دیگر پیغمبروں کی زندگی کو بھی نمونہ کے طورپر پیش کیاگیا ہے:
قَدْکَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِبْرَاہِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَہ‘ ﴿الممتحنہ: ۴﴾
ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کی زندگی تمھارے لیے نمونہ ہے کہ کس طرح وہ حق پر جمے رہے اور مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کی پروا نہیں کی۔ سورہ انعام میں ایک جگہ بعض انبیائ کرام کاذکر ہے، اس کے بعد کہاگیاہے :۔
اُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَاھُمُ اللّٰہُ فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہُ۔
یہ وہ شخصیتیں ہیں، یہ وہ ہستیاں ہیں جن کو اللہ نے سیدھا راستہ دکھایا۔ اور وہ اس پر گامزن رہے۔ آپﷺبھی اس راستے پر چلیے اور اسے نمونہ بنائیے۔ دیکھیے کہ اللہ کے یہ نیک بندے دین پر کیسے ثابت قدم رہے اور اس کے لیے کیسی قربانیاں دیں۔
انسان کی فطرت کسی بھی عمل میں کوئی آئیڈیل اور نمونہ چاہتی ہے۔ قرآن نے کہاکہ اصل آئیڈیل اور نمونہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں۔ ان میں بھی آخری رسول حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ گرامی کو قیامت تک کے لیے اسوہ قرار دیاگیا۔ اس غرض کے لیے آپﷺکی تعلیمات اور آپﷺکی سیرت کو پوری طرح محفوظ کردیاگیا۔ آپﷺکی سیرت، قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے، حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ سیرت کی کتابوں میں مرتب ہوئی ہے اور اس طرح مرتب ہوئی ہے کہ گو آپﷺاس دنیا میں نہیں رہے مگر حیاتِ طیبہ کی پوری تفصیل ہم جان سکتے ہیں۔ ان ذرائع سے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ آپﷺنے نماز کن اوقات میں کس طرح پڑھی اور اس کی کیا کیفیت ہوتی تھی۔ آپﷺکی دیگر عبادات کا کیا حال تھا؟ گھر میں آپﷺکے کیا معمولات تھے۔ اہل و عیال کے ساتھ آپﷺکا رویہ کیا تھا، رشتے داروں سے اور دور و نزدیک کے لوگوں سے آپﷺکے تعلقات کیسے تھے۔ اسی طرح یہ بھی معلوم کیاجاسکتا ہے کہ دین کے لیے آپﷺنے کس طرح سعی وجہد کی اور کِس مقصد کے لیے کی۔ ان میں سے ہر چیز دنیا کے لیے اسوہ اور نمونہ ہے۔ رسول اللہ
ö کے جو سچے جانشین اور آپﷺکے جو اصل پیروکار تھے، انھوںنے کوشش کی کہ آپﷺہی کی طرح زندگی گزاریں، تاکہ ان کی عبادات، ان کے معاملات ، ان کے اخلاق اور ان کی حکومت و سیاست، سب آپﷺہی کے اسوہ کے مطابق ہوں چنانچہ وہ بھی ہمارے لیے نمونہ ہیں۔ اسی وجہ سے نبی ﷺنے ان کے اتباع کی ہدایت فرمائی۔ آپﷺکا ارشاد ہے:
عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلْفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ، عَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذ۔
مطلب یہ کہ ‘’میرے طریقے کو اختیارکرو اور میرے بعد جو خلفائ راشدین آئیں جو سیدھے راستے پر چلنے والے ہیں، ان کے طریقے کو اپناؤ، اسے مضبوطی سے پکڑو، اسے چھوڑومت‘‘۔ موجودہ حالات میں لوگ سوچتے ہیں اور بعض اوقات زبان سے کہہ بھی دیتے ہیں کہ اب دین پر عمل کرنے والے نظر نہیں آتے۔ ہمارے سامنے کوئی نمونہ نہیں ہے، اس لیے ایک عام آدمی دین پر عمل کیسے کرے؟
اس میں شک نہیں کہ دنیا کاکوئی بھی فردِ بشر ، اللہ کے رسول ﷺکی طرح معصوم عن الخطا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اصحابِ رسول ﷺجیسی اعلیٰ سیرت کی حامل اور جامع الصفات شخصیات بھی اب نہیں ملیںگی۔ لیکن اس کے باوجود ہر دور میں صالحین اور اللہ کے نیک بندے پیدا ہوتے رہے ہیں، جن کی زندگی نمونے کی زندگی رہی ہے۔ ہر انسان میں بشری کم زوریاں ہوتی ہیں، اس لیے ضروری نہیں کہ وہ ہر پہلو سے کامل ہو، اور اس کی پوری زندگی نمونہ کی زندگی بن جائے لیکن اللہ کے ایسے بندے ضرور ہی ملیںگے جن میں سے کوئی ایک پہلو سے اور کوئی دوسرے پہلو سے نمایاں ہوگا۔ کسی کی نمازیں قابلِ رشک ہوںگی، کوئی اللہ کے راستے میں بے پناہ دولت لٹا رہا ہوگا، کسی کا قرآن سے مضبوط تعلق ہوگا اور کسی کا حدیث سے غیرمعمولی شغف ہوگا، کوئی اپنے معاملات میں کھرا ہوگا، کسی کے اپنوں سے اور غیروں سے تعلقات مثالی ہوںگے، کوئی ماں باپ ، اہل و عیال اور رشتہ داروں کے حقوق بہتر طریقے سے ادا کررہا ہوگا، کوئی بیوی بچوں کی صحیح تربیت میں کامیاب ہوگا۔ کسی نے دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی ہوگی۔ ہمارے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو شخص دین کے معاملہ میں جس پہلو سے نمایاں ہو اسے بطور مثال پیشِ نظر رکھاجائے اور اس پہلو سے اپنی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کی جائے۔ موجودہ حالات میں تمام اوصاف و کمالات کے ساتھ کوئی ایک فرد شاید ہمیں نہ مل سکے۔ ہاں، دین کے کسی نہ کسی میدان میں نمایاں افراد ضرور ملیںگے، جو بہترین مثال بن سکتے ہیں۔
حدیث میں کہاگیاہے کہ دین کے معاملے میں اپنے سے بہتر آدمی کو دیکھو اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے جو کم حیثیت ہے، اسے دیکھو۔ اگر آدمی دین کے معاملے میں کسی بہتر شخص کو دیکھے گا تو اس کے دل میں یہ جذبہ پیداہوگا کہ کاش! میں بھی ایسا ہوتا۔ میرے اندر بھی وہ جذبہ و عمل ہوتا جو اس شخصیت میں نظرآتا ہے۔ جہاں تک دنیا کامعاملہ ہے ہر آدمی کو بہت سے وسائل و وذرائع حاصل ہوتے ہیں، کھانے پینے کی بہت سی چیزیں دست یاب ہوتی ہیں، لیکن اگر وہ یہ دیکھے کہ دوسرا اس سے بہتر پوزیشن میں ہے ، تو حسد میں مبتلا ہوگا اور اُس معیار تک پہنچنے کے لیے غلط طریقے بھی اختیارکرسکتا ہے۔ اس لیے کہاگیاکہ شکر ادا کرو کہ بہت سے لوگ تم سے کم دنیوی حیثیت کے ہیں۔ دنیا میں کتنے لوگ ایسے ہیںجو بھوکے رہ رہے ہیں لیکن تمھیں اطمینان سے دووقت کی روٹی مل رہی ہے۔ اس لیے اللہ کا شکر ادا کرو۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا کا ہرآدمی عیش کی زندگی گزار رہا ہو، کچھ لوگوں کو عیش حاصل ہے تو کچھ لوگ کمزور حالت میں ہیں۔ ہمارے ملک میں اور ایشا و افریقہ بلکہ مغربی ملکوں میں بھی معیارِ زندگی میں بڑا تفاوت ہے، کوئی اونچے معیار کے ساتھ رہ رہا ہے اور کسی کی حالت خراب ہے۔ اگر آدمی یہ دیکھے کہ بہت سے لوگ مجھ سے کم تر حالت میں ہیں تو وہ اللہ کا شکر ادا کرے گاکہ اللہ نے مجھے بہت سوں کے مقابلے میں بہتر حالت میں رکھا ہے۔
شیخ سعدیؒ فارسی ادب کی ایک نامور شخصیت ہیں۔ دنیابھرمیں گھومتے رہے ہیں۔ اخلاقیات پر ان کی کتابیں معروف ہیں اور اصلاح و تربیت کی بہت سی باتیں انھوں نے لکھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے ایسے حالات پیش آئے کہ پیر میں جوتے تک نہیں تھے۔ ﴿شاید سفر کازمانہ رہا ہو﴾ بڑا احساس ہوا آج جمعہ ہے اور پیر میں جوتے تک نہیں ہیں اور مسجد جانا ہے۔ خیر، مسجد چلاگیا۔ اب مسجد سے نکلتے وقت میں دیکھ رہاہوں کہ ایک شخص کی ٹانگ کٹی ہوئی ہے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیاکہ اے اللہ! میرے پاس جوتے نہیں ہیں مگر یہ شخض تو پیر ہی سے محروم ہے۔ تیرا کرم ہے کہ میرے پیر محفوظ ہیں، میری ٹانگیں محفوظ ہیں، چل پھرسکتا ہوں۔ اس طرح آدمی اپنے سے کم تر آدمی کو دیکھے گا تو اللہ کاشکر ادا کرے گا کہ ہزاروں لاکھوں میں اسے نوازا گیا ہے اور وہ بہتر حالت میں ہے۔ اس کے برخلاف دین کے معاملے میں اگر ہم دیکھیں کہ کون آگے ہے تو ہماری کوشش ہوگی کہ ہم بھی اس مقام کو پالیں بلکہ اس سے آگے بڑھ جائیں۔ ایسے افراد سے دنیا کبھی خالی نہیں ہوگی۔ ہر بستی میں، ہر جگہ ایسے لوگ ملیںگے جو کسی نہ کسی پہلو سے اللہ کے دین کے معاملے میں نمایاں ہوںگے۔ صرف دیکھنے کی ضرورت ہے، فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے، آنکھیں ہوں تو آدمی دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اگر آدمی ہر ایک کو حقیر جاننے لگے اور کسی کی اہمیت ہی محسوس نہ کرے تو اس کی نگاہ میں کوئی جچے گا ہی نہیں اور وہ کسی سے بھی فائدہ نہیں اٹھائے گا۔
اس سلسلے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ امت کی اصلاح کے لیے بہت سی کوششیں ہوتی ہیں، وعظ و نصیحت ہوتی ہے، سمجھانے والے سمجھاتے ہیں، بڑے اور بزرگ بھی غلط کاموں پر ٹوکتے ہیں اور مفید مشورے دیتے ہیں۔ کتابیں بھی موجود ہیں، لیکن اصلاح اسی وقت ہوگی جب کہ آدمی خود فکر کرے کہ مجھے ٹھیک ہوناہے، مجھے اپنی اصلاح کرنی ہے۔ اگر آدمی یہ طے کرلے کہ مجھے اپنی اصلاح کرنی ہے تو کسی کے ٹوکے بغیر بھی اس کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ اور اگر طے کرلے کہ زندگی جیسے گزررہی ہے ، گزرنے دو تو اسے کوئی ٹھیک نہیں کرسکتا۔ نہ ماں باپ اسے ٹھیک کرسکتے ہیں، اور نہ محلے کے بڑے بزرگ اس کی اصلاح کرسکتے ہیں اور نہ کوئی مرشد اور معلم ہی اسے راہِ راست پر چلاسکتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں کہاگیا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ٹھیک کرنے اور بنانے سنوارنے کی خود فکر کرے۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ‘‘وہ شخض کامیاب ہوگیا جس نے اپنے آپ کو سنوارلیا’’۔ یہ اس کی ذمہ داری تھی کہ اس نے اپنے آپ کوبنایا، سنوارا، کم زوریاں دور کیں اور خوبیاں پیدا کیں۔ یہ بات دوسرے مقامات پر بھی کہی گئی ہے کہ جس نے اپنے آپ کو بنایا سنوارا وہ تو کامیاب ہوگیا، فلاح حاصل کرلی؛ اور جو اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا وہ ناکام رہا۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّاھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاھَا۔ وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے خود کو بنایا سنوارا، اپنے اخلاق و کردار کو اور اپنی سیرت کو اوپر اٹھایا اور وہ ناکام ہوگیا جس نے اپنی شخصیت کو دبادیا، مٹی میں ملادیا۔ دسّاھا کا مطلب یہ ہے کہ اسے مٹی میں دبادیا، ابھرنے نہیں دیا، کچل کے رکھ دیا۔ اخلاقی طورپر بلندی حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس کی اسے فکر ہی نہیں ہوئی۔ اگر کبھی آمادگی ہوئی بھی تو اس کی کوشش رہی کہ اپنے آپ کو دبادے۔ آدمی اپنی اصلاح کی کوشش کرے تو اللہ کے ہاں اس کا اجر اسے ملنے والا ہے:
وَأَنْ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَاسَعیٰ۔ وَاَنَّ سَعْیَہ‘ سَوْفَ یُریٰ۔ ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزآئَ الْأَوْفیٰ۔ ﴿سورہ النجم﴾
انسان کو بس وہی ملنے والا ہے جس کی اس نے کوشش کی۔ یہ اللہ کا قانون ہے اور اس نے کیا کوشش کی، یہ بات بھی جلد سامنے آجائے گی۔ اچھی کوشش کی یا بری کوشش کی، صحیح راستے پر عمل کیا یا غلط راستے پر چلتارہا۔ اس کے مطابق اسے بدلہ بھی ملنے والا ہے۔ اس طرح قرآن نے صاف صاف بتادیاکہ انسان جو کرے گا وہ بھرے گا۔ اصلاح کی ذمہ داری ماں باپ کی بھی ہے، معلم اور استاذ کی بھی ہے۔ علمائ کی بھی اور بڑے بزرگوں کی بھی ہے، محلے کے بڑے بوڑھوں کی بھی ہے۔ انھیں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے، ورنہ وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہوںگے لیکن اصلاً آدمی کو خود اپنی فکر کرنی چاہیے کہ اپنے آپ کو سنوارے۔
اس سلسلے کی آخری بات قرآن میں یہ کہی گئی ہے کہ اہلِ ایمان کا ماحول ایسا ہونا چاہیے کہ اگر ایک آدمی سے کمزوری سرزد ہوتو دوسرا اسے ٹوک سکے۔ یہ نہ سوچے کہ فلاں جہنم میں جارہا ہے تو جانے دو، ہمارا کیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ کسی سے غلط کام ہورہاہے تو اسے ٹوکو، یہ تمھاری ذمہ داری ہے۔ اچھا کام کرے تو اس کی تائید کرو۔ سورہ والعصر میں یہی بات کہی گئی ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ سوائے اُن لوگوں کے جن کے اندر ایمان ہے اور جو اس کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک دوسرے کو حق پر قائم رہنے کی وصیت کرتے رہتے ہیں، کہ دیکھو حق پر چلو، نقصان ہوتو برداشت کرو، حوصلہ دلاتے ہیں اور صبر کی وصیّت کرتے ہیں، ایسے لوگ اس خسارے سے محفوظ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں ایسا سسٹم ہونا چاہیے ، ایسا طریقہ ہونا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی اصلاح کریں۔ کسی میں کم زوری دیکھیں تو بتائیں کہ تمھارے اندر یہ خامی ہے۔ جس کے اندر کم زوری ہے وہ اس کا بُرا نہ مانے، شکریہ ادا کرے کہ یہ شخص مجھے ٹوک تو رہا ہے ورنہ کون ٹوکتا ہے اس زمانے میں؟ ایک کم زوری ہمارے اندر یہ بھی آگئی ہے کہ کوئی ہماری غلطی پر ہمیں ٹوکتا ہے تو ہمیں بُرا لگتا ہے، حالاں کہ ہونا یہ چاہیے کہ ہم اس کا بُرا نہ مانیں، شکریہ ادا کریں کہ یہ ہماری کم زوری پر ٹوک تو رہا ہے۔
آج ہمارے اندر ایسا ماحول نہیں ہے حتّٰی کہ ماں باپ تک اولاد کو نہیں ٹوکتے کہ اولاد خفا نہ ہوجائے۔ اولاد اگر ماں باپ کے اندر کوئی کم زوری دیکھتی ہے تو حکمت و دانائی کے ساتھ اسے بھی بتانا چاہیے لیکن وہ نہیں بتاتی۔ اِسی طرح بیوی شوہر کی کم زوریوں پر خاموش رہتی ہے۔ اور شوہر بیوی کی کم زوریوں کو نہیں بتاتا کہ کہیں خفا نہ ہوجائے، حالاں کہ کامیابی کا راستہ یہ دکھایاگیا ہے کہ ایک دوسرے کو حق اور سچائی کی نصیحت کرتے رہیں۔
میرے دوستو اور ساتھیو! اسلام نے ہدایت کا راستہ بھی بتایاہے اور اس پر چلنے کا طریقہ بھی بتایا ہے کہ نمونہ بنائو اللہ کے پیغمبروں کو، ان کے بعد اُن سے جو قریب ہیں ان کو نمونہ بنائو اور ایسے لوگ نہ ملیں تو دین کے جس معاملے میں جو شخص آگے ہے، اسے نمونہ بنائو، خود کوشش کرو اپنے آپ کو بنانے کی، سنوارنے کی، اصلاح کی، اور اس کے ساتھ ساتھ تمھارا ماحول ایسا ہو، ایسی فضا بنائی جائے کہ جہاں کم زوریاں ہوں وہ دور ہوں اور کوئی ٹوکے تو سننے والا بُرا نہ مانے کہ تم کون ہو ٹوکنے والے! اسی طرح نصیحت کرنے والے کو بھی اس کاخیال رکھنا چاہیے کہ تنہائی میں نصیحت کرے اور ایسا طریقہ نہ اختیار کرے جس سے اس کی خودی مجروح ہو اور وہ سماج میں رسوا ہوکر رہ جائے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2010