انعام الرحمن خاںؒ

﴿۱۹۱۲-۱۹۹۳﴾

تحریکوں اور جماعتوںمیں شخصیتیں آتی اور جاتی رہتی ہیں۔ آنے اور جانے کایہ سلسلہ بندھا رہتاہے۔ ہر شخصیت کا اپنا اپنا رنگ اور ڈھب ہوتا ہے۔ اسی کے مطابق اپنے حصّے کا کام کرکے وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتی ہیں۔ کوئی کم کوئی اورزیادہ۔ کسی کو کسی جماعت یاتحریک کے لیے ناگزیر نہیں کہاجاسکتا۔ لیکن کچھ شخصیتیں ایسی بھی ضرور ہوتی ہیں، جو اپنے اندر بعض ایسی انفرادیتیں رکھتی ہیں، جن کی وجہ سے انھیں دیرتک یاد رکھاجاتاہے۔ ہمارے بزرگ تحریکی رہ نما محترم انعام الرحمن خاں رحمۃ اللہ علیہ اپنے رنگ، ڈھب اور زندگی کے رویّے کے اعتبار سے ایک ایسی ہی شخضیت کے مالک کے تھے، جو ہمارے حافظے میں دیر تک محفوظ رہیں گے۔ ان کے انداز واطوار، رفتار وگفتار اور ان کی شفقت و محبت کو دیر تک فراموش نہ کیاجاسکے گا۔جناب انعام الرحمن خاں رحمۃ اللہ علیہ مدھیہ پردیش کے ایک معزز خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد محترم جناب فضل الرحمن خاںؒ  اپنے دیار کے بڑے کاشت کاروں میں شمار ہوتے تھے۔ اپنے علم، مذہبی رکھ رکھاؤ اور تہذیب وثقافت کی وجہ سے ان کی ایک شناخت تھی۔ان کے خاندان کے بعض افراد حضرت سیداحمد شہیدرائے بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ان کی تحریکِ جہاد میں بھی شریک تھے۔ اس سے بھی ان کے دینی تشخص کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ جناب فضل الرحمن خاںؒ  نے بھوپال کو ایک اسلامی ریاست تصور کرکے بھوپال ہی کی بودوباش اختیار کرلی تھی۔ گاؤں سے صرف کاشت کاری کی حد تک تعلق رکھا۔ البتہ گاؤں کے لوگ اپنی شادی،غمی اور لڑائی جھگڑے کے موقعوں پر ان کو یاد کرتے رہتے تھے۔ یہ سلسلہ جناب انعام الرحمن خاں کی زندگی میں بھی قائم رہا۔ بل کہ کچھ زیادہ ہی رہا۔ اس لیے کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے مسائل کو سمجھنے سمجھانے اورمعاملات کو حل کرنے کی بہترین صلاحیتوں سے نوازاتھا۔ وہ طرفین کی باتوں کو بہت توجہ سے سنتے اور حسب موقع انھیں ان کی غلطی کی طرف متوجہ کرتے تھے۔ کبھی ان کی گفتگو سے کسی فریق کی جانب داری کی بو بھی نہیں محسوس ہوتی تھی۔ اُنھیں ہندومسلمان سب اپنے معاملات میں حکم بناتے تھے۔

محترم انعام الرحمن خاںؒ  تحریکِ اسلامی کے ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں، جن کی رکنیت بانی جماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے منظور کی تھی اور انھی نے تجدید شہادت بھی کرائی۔ مولانا مودودیؒ کی مختصر سی کتاب ’اسلام کا سیاسی نظریہ‘ جماعت اسلامی یا فکرمودودی سے ان کی وابستگی کاذریعہ بنی۔ وہ تقسیمِ ہند سے متصلاً قبل ۱۹۴۶یا ۱۹۴۷ میں جماعت سے وابستہ ہوے۔ ۱۹۵۶ میں اس کی مجلس نمایندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوے۔ اس کے بعد درمیان کی ایک میقات کو مستثنیٰ کرکے تادمِ آخر وہ اِن دونوں موقر مجلسوں کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ ۱۹۷۲ میں اپنے حلقے کے امیر بھی مقرر ہوے۔ یہ سلسلہ بھی تقریباً آخر دم تک چلتارہا۔ یہ بات بھی بہ ہرحال قابل ذکر ہے کہ انھوں نے جماعت کی جو بھی خدمت کی وہ اعزازی کی۔ کبھی اس کاکوئی معاوضہ یا مشاہرہ نہیں چاہا۔ وہ جماعت کے کام کو ہمیشہ دوسرے کاموں پر فوقیت دیتے تھے۔ کیسے بھی حالات ہوں وہ جماعت کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے تھے۔ ایک بار تو ایسا بھی ہواکہ گھر میں اکلوتی بیٹی کی شادی کی تاریخ تھی، اسی موقعے پر مرکز جماعت نے کسی خاص موضوع پر ارکانِ شوریٰ کو طلب کیا۔ انھوں نے اہلِ خانہ کو معاملات کو سمجھایا اورمرکز کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔ سب نے بہت سمجھایا اور کوشش کی کہ وہ جماعت سے معذرت کرلیں، لیکن انھوں نے کسی کی نہ سنی۔ کہا: جماعت کی ضرورت اہم ہے۔ شادی کا انتظام آپ لوگ خود بہ آسانی انجام دے سکتے ہیں، جب ان کے ہونے والے سمدھی کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ ان کے پاس پہنچے اور ان کے مشورے سے آناً فاناً شادی کی دوسری تاریخ مقرر کی۔

جناب انعام الرحمن خاںؒ  ایک سے زائد بارجماعت کے لیے جیل بھی گئے۔ وہاں بھی انھوں نے ہر مکتب فکر اور مختلف مذاہب کے لوگوں کو اپنے اخلاق و کردار، محبت ومروت اور حسن معاملہ سے متاثر کیا۔ اس سلسلے کی ان کی دو کتابیں ’میساکے شگوفے‘ اور ’زندوں کے داعی‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں، جنھیں پڑھ کر ذہن و فکر کو روشنی بھی ملتی ہے اور جذبۂ دعوت و تبلیغ بھی پیدا ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انعام الرحمن خاں صاحب کو تقریر و تحریر کی بڑی منفرد اور دل آویز صلاحیت سے نوازاتھا۔ ان کی تحریروں اور تقریروں دونوں میں نرمی وحلاوت ہوتی تھی۔ قاری یا سامع پر وہ کبھی بوجھ نہیں بنتے تھے۔ ہر بات صاف، واضح اور شایستہ و شگفتہ ہوتی تھی۔ جو بات بھی کہتے یا لکھتے تھے ’ازدل خیزد و بردل ریزد‘ کا مصداق ہوتی تھی۔ دورانِ گفتگو میں مشاہیر یاگم نام شعرا کے ایسے اشعار پیش کرتے تھے کہ ایسا لگتاتھا کہ شاعر نے یہ شعر بالکل اِسی موقع کے لیے کہا ہے۔یہاں میں نمونے کے طورپر ان کی ایک تقریر کا مختصر سا اقتباس پیش کرنا چاہوںگا:

’میں اپنی ذات کے اعتبار سے نہایت درجہ حقیروکم زور وجود اور معمولی انسان ہوں۔ لیکن بنی نوع انسان کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے میں بہت بڑی چیز ہوں۔ میں وہ ہوں، جس کے لیے کتابیں نازل کی گئیں، میں وہ ہوں، جس کے لیے انبیاے کرام تشریف لائے، میں وہ ہوں، جس کے لیے ضروریات کے خزانے دے کر زمین کا فرش بچھایاگیا، میں وہ ہوں، جس کے لیے آفتاب عالم تاب گردش میں ہے۔ یہی ﴿انسان﴾ مخلوقات میں اشرف المخلوق ہے، جو اگر اپنے کو بھول جائے اور اس کی خودی سوجائے تو اپنی خواہشوں کو اور اپنی خواہشیں پوری کرنے والے آلات تک کو پوجنے لگتی ہے۔ اپنے جذبات واحساسات کو معبود بنالیتی ہے اور اگر اپنے کو پہچان لے اور اس کی خودی بے دار ہوجائے تو بول اُٹھتی ہے:

جچتے نہیں بخشے ہوے فردوس نظر میں

جنت مری پنہاں ہے مرے خونِ جگر میں

یہ ان کی اس تقریر کا ایک ٹکڑا ہے ، جو انھوں نے جبل پور میں حلقے کے اجتماع میں کی تھی۔ یہ تقریر ان کے اس مجموعۂ تقاریر میں شامل ہے، جو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نے ’کس کی چلے؟‘ کے عنوان سے شائع کی ہے۔ ان کی گفتگو کا یہی رنگ وآہنگ آپ کوان کی ان تمام کتابوں میں ملے گا، جو مکتبے سے ’انسان کا صحیح نصب العین‘، ’نجات کا واحد راستا‘، ’اسلام ایک نظامِ تربیت‘،’ یوں نہیں یوں‘، ’مکتی مارگ‘ اور ’جمہوریت اور اسلام‘ کے نام سے شائع ہوئی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ، اس کی عظمت ویکتائی اور انسان کی ذہنی وفکری تربیت کو انعام الرحمن صاحب کی تقریر وتحریر میں خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ خواہ وہ کسی بھی موضوع پر لکھیں یا بولیں، یہ چیزیں ان کے ہاں نقطۂ پرکار کی حیثیت رکھتی تھیں۔

جناب انعام الرحمن خاں ۲/اکتوبر ۱۹۱۲کو مدھیہ پردیش کے ایک گم نام قریے میں پیدا ہوے تھے۔ انھوں نے ساری تعلیم و تربیت اپنے عالم پدرِ بزرگ وار جناب فضل الرحمن خاںؒ  سے حاصل کی۔ ناظرہ قرآن مجید، اُردو اور ابتدائی فارسی انھی سے پڑھی۔ یہ سلسلہ صرف ان کی بارہ برس کی عمر تک ہی چل سکا۔

۱۹۸۰میں ڈاکٹر عبدالرحمن داعی  ﴿پروفیسر احمد وبیلویونی ورسٹی زاریا، نائجیریا﴾نے جب اصلاحِ معاشر کے نقطۂ نظر سے دیوبند سے ’الایمان‘ کے نام سے ایک ماہانہ رسالہ جاری کرنے کا فیصلہ کیاتو اس کی ادارت و اشاعت کی پوری ذمّے داری انھوں نے مجھے تفویض کی۔ اس کی توسیع اشاعت کے سلسلے میں میں نے مدھیہ پردیش کا بھی ایک سفر کیا۔ بھوپال میں میں نے محترم انعام الرحمن خاں رحمۃ اللہ علیہ کے دولت خانے کو ہی مرکز بنایا۔ وہیں سے بھوپال اور اس کے قریبی علاقوں میں جاتا رہا۔ کم و بیش پندرہ دن انھی کے زیرسایہ رہا۔ ایک روز دورانِ گفتگو میں میں نے ان کی تعلیم سے متعلق سوال کیا تو مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’تابش صاحب! میں کبھی فیل نہیں ہوا۔‘ میں نے عرض کیا: حضرت! یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ نے اب تک علمی اور قلمی طورپر جو کچھ کیاہے، وہ اس کامظہر ہے۔ ابھی میری بات پوری طرح ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ فرمایا: ’لیکن میں کبھی پاس بھی نہیں ہوا۔‘ عرض کیا: اب تو آپ کی یہ بات میرے لیے ایک معماّ بن گئی ہے۔ فرمایا: ’تابش میاں! چوں کہ میں نے کسی مکتب یا اسکول میں داخلہ ہی نہیں لیا، اس لیے نہ فیل ہوا اور نہ پاس ہوا۔‘ مجھے اپنی طرف پوری طرح متوجہ دیکھ کر فرمایا: ’میں بہ وجوہ اسکول میں داخلہ نہیں لے سکا۔ والدِ محترم نے میری بارہ برس کی عمر تک جو کچھ مجھے پڑھادیا، بس وہی میرے پاس ہے۔ آپ میرے پاس جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ سب مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا عطیہ ہے۔گفتگو کو جاری رکھتے ہوے فرمایا:

میں مولانا کی تحریر یںپڑھ کر ان سے اتنا متاثر ہوا کہ مجھے پوری دنیا میں بس مولانا مودودیؒ  ہی ایک عالم نظر آتے تھے۔ دوسرا کوئی پڑھا لکھا مجھے نظر ہی نہیں آتاتھا۔ ’ترجمان القرآن‘ میرے پاس بہت پابندی سے آتاتھا۔ میں اس کا ایک ایک حرف چاٹ جاتاتھا۔ مولانا کی ہر بات اپنے حافظے کے ٹیپ ریکارڈ میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتاتھا۔ ان کے سوال وجواب کے کالم کو میں بہت دل لگاکر اور بڑی محنت سے پڑھتاتھا۔ سلسلۂ گفتگو کو روک کر فرمایا: لفظ ’محنت‘ سے چونکیے نہیں۔ جب میں کافی دنوں تک ترجمان کامطالعہ کرچکا اور مولانا کی تحریروں سے یک گونہ مناسبت ہوگئی تو میں نے اس سے اِستفادے کا یہ طریقہ اپنایاکہ سائل کا سوال پڑھ کر رسالہ بند کردیتاتھا۔ بیٹھ کر اس بات پر غور کرتاتھا کہ مولانا مودودیؒ  نے اس سوال کا کیا جواب دیاہوگا۔ جب کچھ نہیں سمجھ میں آتاتھا، تو رسالہ کھول کر پھر سوال کو غور سے پڑھتاتھا اور رسالہ بندکردیتاتھا۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہواکہ میں سائل کے سوال کو اتنی بار پڑھتاتھاکہ وہ مجھے حرف بہ حرف یاد ہوجاتاتھا۔ پھرمیں رسالہ گھر میں رکھ کر فارم پر چلاجاتا، اس خوف سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وفور شوق میں رسالہ کھول کر مولانا کا جواب دیکھ لوں ۔ چلتے پھرتے سوال ذہن میں گردش کرتارہتاتھا۔ پھر جو جواب میری سمجھ میں آتاتھا، اُسے کاغذپر نوٹ کرلیتاتھا۔ اس کے بعد رسالہ کھول کر مولانا کاجواب دیکھتاتھا۔ اگر مولانا کابھی جواب وہی ہوتاتھا، جو میں نے سمجھاتھا اور سمجھ کر لکھ لیاتھا، تو بے انتہا خوشی ہوتی تھی۔ اگر کبھی ایسا نہیں ہوتاتھا تو بڑا تکدر محسوس ہوتاتھا۔ بس یہی میرا سرمایہ ہے۔ پھر آخر میں فرمایا: تابش صاحب! آپ کاتعلق تو دیوبند سے ہے، آپ کی باتوں سے پتا چلتاہے کہ آپ نے بہت سے بزرگوں کی صحبت بھی اختیار کی ہے۔ یہ تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ کسی سے کچھ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پورے طورپر اس کا ہوجایاجاے، اسی کو سب کچھ نہیں تو بہت کچھ ضرور سمجھ لیاجائے۔ اس کے بغیر فیضان کا سلسلہ نہیں قائم رہتا۔

محترم انعام الرحمن خاں کے صاحب زادے جناب حبیب بدر نے ایک ملاقات میں بتایاکہ ۱۹۷۸۱میں میں نے لاہور میں محترم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ  سے ملاقات کی۔ ان سے بہت سے موضوعات پر گفتگو کی۔ میری بعض باتیں ایسی بھی تھیں، جو مولانا کی باتوں سے مختلف تھیں۔ میں نے آکر اس گفتگو کی تفصیل والد محترم کو سنائی تو ان کے چہرے کا رنگ متغیرہوگیا۔ طویل خاموشی کے بعد فرمایا: تم نے کسی سے مرعوب یا متاثر ہوناتو سیکھا نہیں۔ میں تو مولانا سے اتنا متاثر یا مرعوب تھا کہ رکنیت کی منظوری کے بعد انھوں نے تجدید شہادت کے طورپر کلمہ شہادت پڑھوایا تو میں بھول بھول جاتاتھا۔ اس لیے کہ مجھے مولانا کی عظمت کابھرپور ادراک تھا۔

سنجیدگی، متانت اور خُردوبزرگ کا حسب مرتبہ پاس ولحاظ محترم انعام الرحمن خاںؒ  کی فطرتِ ثانیہ تھی۔ وہ اپنے اِسی مزاج و طبیعت کے ساتھ ہر ایک سے ملتے تھے۔ ان کا یہی رویہ مسلمانوں کے ساتھ بھی ہوتاتھا اور ہندؤں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھی۔ ان کے ہاں ہندو، مسلمان، بریلوی و دیوبندی، شیعہ وسنی یا تحریکی و غیرتحریکی کا کوئی بھید بھاؤ نہیں تھا۔ وہ جماعت اسلامی ہند کے اس طبقۂ ارکان میں تھے، جسے جماعت کے انتخابی سیاست والے فیصلے سے اختلاف رہاہے۔ وہ اپنے اِس اختلاف میں بہت شدید واقع ہوے تھے، لیکن انھوں نے اِس اختلاف کو ہمیشہ اختلاف کی حد تک رکھا۔ اِسے مخالفت کی حد میں نہیں داخل ہونے دیا۔ جماعت کے ان افراد سے بھی ان کے گہرے مراسم تھے، جو اس سلسلے میں ان کے حامی یا ہم خیال تھے اور ان لوگوں سے بھی ان کے دوستانے یا عزیزداریاں تھیں جو اس فیصلے کے نہ صرف یہ کہ حامی و مؤید تھے، بل کہ وکیل و محرک بھی سمجھے جاتے رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک اچھے اور بڑے انسان کی یہی پہچان ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کا یہ رویہ ہم سب کے لیے ایک مثالی اور نمونے کا رویہ ہے۔ اس رویے کی تعلیم ہمیں کتاب و سنت سے بھی ملتی ہے اور صحابہ کرامؓ  اور بزرگانِ دین کی زندگیوں سے بھی۔

مشمولہ: شمارہ مئی 2012

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223