لیڈرشپ

اکیسویں صدی کے طلبہ کے لیے درکار صلاحیت

اکیسویں صدی کے طلبہ کے لیے جن صلاحیتوں کو حاصل کرنا ضروری ہے، ان میں سے ایک اہم صلاحیت لیڈرشپ ہے۔ عام طور پر ہمارے معاشرے میں لیڈرشپ سے مراد سیاسی قیادت ہوتی ہے، جب کہ مشرق و مغرب کی متمدن دنیا میں لیڈرشپ محض سیاست کے میدان میں اپنے جوہر دکھانے تک محدود نہیں رہی۔

ہر فرد اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں چھوٹا یا بڑا لیڈر بن سکتا ہے اور اس کا لیڈر بننا ضروری بھی ہے۔ اگر وہ لیڈر نہیں بنتا یا اپنے اندر لیڈرشپ کی خصوصیات پیدا نہیں کرتا تو وہ اپنے کردار کو مثبت اور مؤثر طریقے سے انجام نہیں دے سکتا۔ مثلاً، ایک بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے لیے لیڈر ہوتا ہے، والد خاندان کے لیے لیڈر ہوتا ہے، ماں اپنے دائرے کے اندر گھر میں لیڈر ہوتی ہے،دفتروں میں اعلیٰ عہدے پر فائز شخص بھی لیڈر ہوتا ہے۔ درمیانی سطح کے منتظمین، فرنٹ لائن یعنی نچلی سطح کے کارکن بھی لیڈر ہوتے ہیں۔ کوئی فرد بچپن میں بھی کسی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے لیڈر بن جاتا ہے۔ افراد اپنی عمر کے مختلف حصوں میں بھی لیڈر ہوتے ہیں۔ ایک گھر میں اگر دو بچے ہیں، ایک کی عمر آٹھ سال اور دوسرے کی پانچ سال ہے، تو آٹھ سال کا لڑکا پانچ سال کے لڑکے کے لیے لیڈر بن جاتا ہے اور پانچ سال کا بچہ آٹھ سال کے بچے سے متاثر ہوکر غیر علانیہ اسے لیڈر تسلیم کرلیتا ہے۔

لیڈرشپ کی صفت آج کی گلوبلائزڈ دنیا کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے بھی ہوتا ہے جس میں اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا کہ ’’ہر فرد سردار ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔‘‘ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ صرف امیر ہی لیڈر نہیں ہوتا، بلکہ ہر وہ فرد جس کے ماتحت کم یا زیادہ افراد کوئی کام انجام دے رہے ہیں، وہ لیڈر ہے۔

آج کی گلوبلائزیشن کی اس دنیا میں لیڈرشپ کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اس لیے کہ کام کی نوعیت بدل چکی ہے۔ زندگی کے مختلف کاموں میں بڑی تعداد میں افراد مصروف ہیں اور کام کرنے کا انداز منظم ہوچکا ہے۔ فرد، ٹیم اور تنظیم کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اس میں افراد کے اندر لیڈرشپ کی صلاحیت اکیسویں صدی کی ایک اہم ضرورت بن گئی ہے۔

لیڈر شپ کی تعریف

لیڈرشپ کی تعریف مختلف انداز میں کی جاتی ہے۔ عام طور پر لیڈر اسے کہتے ہیں جو ایک وژن (مقصد) کے تحت افرادی قوت کو مؤثر بنا کر اس مقصد کے حصول کے لیے رہ نمائی کرتا ہے، ان کے مسائل حل کرتا ہے اور انھیں ہمیشہ متحرک رکھتا ہے تاکہ وہ وہ وژن حاصل ہوسکے جو لیڈر، تنظیم یا جماعت نے طے کیا ہے۔ لیڈرشپ محض ایک پوزیشن نہیں ہے بلکہ افراد کو متاثر کرنے کا عمل ہے۔ لیڈرشپ مسلسل تجربوں اور لوگوں کے درمیان مختلف سطحوں پر کام کرنے کے ذریعے وجود میں آتی ہے لیکن بعض وقت بعض افراد فطری طور پر لیڈرشپ کی صلاحیتیں لے کر بھی اس دنیا میں آتے ہیں جو مشق و ممارست کرنے سے نکھر جاتی ہیں۔

کام یاب لیڈر کے لیےکچھ ضروری صلاحیتیں

لیڈرشپ کے لیے ضروری صلاحیتیں بعض افراد میں فطری طور پر موجود ہوتی ہیں، لیکن زیادہ تر حالات میں افراد محنت، تعلیم، ریاضت اور تجربے کے ذریعے ان صلاحیتوں کو حاصل کر سکتے ہیں۔

یقیناً ایک کام یاب لیڈر کی کئی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ ایک مشہور امریکی مصنف، جان سی میکسویل، نے اپنی مشہور کتاب ’’The 21 Irrefutable Laws of Leadership‘‘ (لیڈرشپ کے اکیس ناقابل تردید اصول) میں قیادت کے اصولوں کے نام سے اکیس صلاحیتوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ طلبہ کو ان اکیس صلاحیتوں کا علم ضرور ہونا چاہیے۔ ان صلاحیتوں کو طلبہ میں پیدا کرنے کے لیے اسکول بھی اپنے طور پر منصوبہ بنا سکتے ہیں۔ طلبہ ان صلاحیتوں کو مرحلہ وار، موقع، مناسبت اور اپنی استعداد کے مطابق اپنے اندر پروان چڑھانے کی مسلسل کوشش کریں۔ مسلم ملت کا نصب العین اور اس کی موجودہ صورت حال شدید تقاضا کرتی ہے کہ مسلمان طلبہ ان صلاحیتوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ مختلف میدانوں میں وہ لیڈرشپ کا مطلوبہ کردار ادا کرسکیں۔

نیچے ان تمام اصولوں کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے:

قیادت کی حد کا قانون  (The Law of the Lid)

کسی شخص کی قیادت کی صلاحیت کتنی ہے؟ اس پر اس کی کام یابی کا دار و مدار ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر کسی کی قیادت کی صلاحیت سات درجے کی ہے ہے، تو وہ کبھی اس سے زیادہ مؤثر نہیں بن سکتا۔ اپنی صلاحیت بڑھانے سے آپ اپنی ٹیم کی کارکردگی بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔

اثر و رسوخ کا قانون (The Law of Influence)

قیادت کا اصل پیمانہ اثر و رسوخ ہے۔قیادت کا مطلب صرف عہدہ یا طاقت نہیں، بلکہ لوگوں پر مثبت اثر ڈالنا ہے۔

عمل کا قانون (The Law of Process)

قیادت ایک دن میں نہیں بنتی، بلکہ روزمرہ کے مسلسل عمل سے بنتی ہے۔ قیادت کی ترقی ایک مستقل سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے کا عمل ہے۔

رہ نمائی کا قانون (The Law of Navigation)

ہر کوئی کشتی چلا سکتا ہے، لیکن صرف لیڈر ہی راستہ دکھا سکتا ہے۔ ایک اچھا لیڈر طویل مدتی منصوبہ بندی کرتا ہے اور چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔

اضافے کا قانون (The Law of Addition)

اچھے لیڈر دوسروں کی خدمت کر کے ان کی زندگی میں بہتری لاتے ہیں۔ لیڈرشپ دوسروں کے لیے فائدہ مند ہونے کا نام ہے نہ کہ صرف اپنے لیے۔

اعتماد کا قانون (The Law of Solid Ground)

قیادت کی بنیاد اعتماد پر قائم ہوتی ہے۔ اگر لوگ آپ پر اعتماد نہیں کرتے تو وہ آپ کی قیادت کو قبول نہیں کریں گے۔

احترام کا قانون (The Law of Respect)

لوگ ان لیڈروں کی پیروی کرتے ہیں جنھیں وہ خود سے بہتر سمجھتے ہیں۔ قیادت کے لیے خود کو مضبوط اور قابل اعتماد بنانا ضروری ہے۔

وجدان کا قانون (The Law of Intuition)

ایک لیڈر ہر چیز کو قیادت کے زاویے سے دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ یہ صلاحیت تجربے، مشاہدے اور سمجھ بوجھ سے حاصل ہوتی ہے۔

مقناطیسیت کا قانون (The Law of Magnetism)

آپ انھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں گے جو آپ جیسے ہوں۔ ایک لیڈر کی شخصیت اور اقدار اس کی ٹیم پر اثر ڈالتی ہیں۔

رابطے کا قانون (The Law of Connection)

لوگوں کے دلوں کو چھوئے بغیر ان کے ہاتھوں سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ ایک لیڈر کو اپنے لوگوں کے ساتھ جذباتی تعلق قائم کرنا چاہیے۔

اندرونی دائرے کا قانون (The Law of the Inner Circle)

ایک لیڈر کی کام یابی کا دار و مدار اس کے قریب ترین لوگوں پر ہوتا ہے۔ اپنی ٹیم کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں، کیوں کہ وہ آپ کی قیادت کو مضبوط یا کم زور کر سکتے ہیں۔

اختیارات دینے کا قانون (The Law of Empowerment)

صرف وہ لیڈر اختیارات دے سکتے ہیں جو خود محفوظ اور پراعتماد ہوں۔ ایک لیڈر کو چاہیے کہ وہ اپنی ٹیم کو ترقی کے مواقع فراہم کرے۔

مثال کا قانون (The Law of the Picture)

لوگ وہی کرتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں۔ ایک لیڈر کو دوسروں کے لیے عملی مثال بننا چاہیے۔

قبولیت کا قانون (The Law of Buy-In)

لوگ پہلے لیڈر کو قبول کرتے ہیں، پھر اس کے وژن کو۔ قیادت کا اعتماد جیتنا ضروری ہے تاکہ لوگ آپ کے خیالات کا ساتھ دیں۔

فتح کا قانون (The Law of Victory)

لیڈر ہمیشہ جیت کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ ایک اچھا لیڈر ٹیم کی کام یابی کو اپنی ترجیح بناتا ہے۔

حرکت کا قانون (The Law of the Big Mo)

حرکت ایک لیڈر کی سب سے اچھی دوست ہے۔ ایک بار رفتار پکڑ لی جائے تو کام یابی کا سفر آسان ہو جاتا ہے۔

ترجیحات کا قانون (The Law of Priorities)

لیڈر سمجھتے ہیں کہ ہر سرگرمی اہم نہیں ہوتی۔ ایک لیڈر کو اپنی ترجیحات درست انداز میں طے کرنی چاہئیں۔

قربانی کا قانون (The Law of Sacrifice)

قیادت کو قربانی دینی ہوتی ہے۔ بڑے مقاصد کے لیے چھوٹے مفادات کو قربان کرنا ضروری ہوتا ہے۔

وقت کا قانون (The Law of Timing)

قیادت کے لیے یہ جاننا کہ کب کیا کرنا ہے، انتہائی اہم ہے۔ غلط وقت پر کیا گیا صحیح فیصلہ بھی ناکام ہو سکتا ہے۔

دھماکا خیز ترقی کا قانون (The Law of Explosive Growth)

فالووروں کی قیادت کرنے سے قیادت ترقی پاتی ہے، لیکن لیڈروں کی قیادت کرنے سے کئی گنا زیادہ ترقی ممکن ہے۔عام طور پر ہم اپنے ماحول میں فالوروں کو قیادت کرتے دیکھتے ہیں۔ یعنی قائد وہ کرتا ہے جو فالوور چاہتے ہیں۔ اس طرح کے عمل میں ممکن ہے کام یابی حاصل ہو،لیکن دھماکا خیز کام یابی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب فالوورلیڈر کی قیادت تسلیم کرتے ہیں اور لیڈر اپنی قیادت کو روبہ عمل لاتا ہے۔ اس کیفیت میں لیڈر فالووروں کی طرف رخ کر کے حالات کا دھارا موڑتا ہے۔ یہی اصل قیادت ہے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں ملت کی بیشتر قیادت فالوروں کی قیادت بن کر رہ گئی ہے۔ ایک لیڈر کو مزید لیڈر تیار کرنا چاہیے۔

 وراثت کا قانون (The Law of Legacy)

ایک لیڈر کی اصل قدر اس کے پیچھے چھوڑی گئی میراث سے ناپی جاتی ہے۔ قیادت کا مقصد ایسا نظام یا ٹیم بنانا ہے جو لیڈر کے بعد بھی کام یابی کی منزلیں طے کرے۔

لیڈرشپ کی چند بنیادی اور اہم صلاحیتوں کو مندرجہ ذیل نکات کے تحت بھی پیش کیا جاتا ہے۔

  1. وژن: ایک لیڈر کے اندر وژن کا ہونا ضروری ہے۔ یہ وژن یا تو وہ تنظیم طے کرتی ہے جس کا وہ سربراہ ہے یا وہ ادارہ اور کمپنی طے کرتی ہے جس کی قیادت وہ فرد کرتا ہے۔ تاہم، ایسا بھی ممکن ہے کہ فرد خود ایک وژن بنائے اور اس وژن کے تحت لوگوں کو اکٹھا کرے اور اجتماعی جدوجہد کرے۔ جتنا وژن بلند ہوگا، اتنے ہی زیادہ افراد اس سے جڑیں گے اور سفر بھی دل چسپ، آسان اور معنی خیز ہوگا۔ وژن کا تعلق کبھی کبھار منفی یا سماج کے لیے نقصان دہ مقاصد سے بھی ہو سکتا ہے، مثلاً مافیاؤں کا تباہ کن وژن۔ لیکن ایک کام یاب لیڈر کا وژن مثبت اور نیک مقصد پر مبنی ہوتا ہے۔دنیا میں اعلیٰ ترین وژن کی مثال انبیائےکرام پیش کرتے ہیں۔ انبیا کا وژن اس دنیا میں اللہ کے دین کو قائم کر کے رضائے الہی کا حصول رہا ہے۔

2.منصوبہ بندی:  وژن کے بعد، اس وژن کو حقیقت میں بدلنے کے لیے منصوبہ بندی ضروری ہے۔ منصوبہ حقیقت پر مبنی اور ٹھوس ہونا چاہیے۔ یہ وقت کے لحاظ سے بھی مناسب ہو اور حالات و کیفیات کے مطابق بنایا جائے۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ منصوبہ سازی ایک فن ہے اور یہ فن طلبہ کو چھوٹے بڑے کاموں میں سکھایا جانا چاہیے۔

3.عمل درآمد: منصوبہ بندی کے بعد اس پر عمل درآمد کا مرحلہ آتا ہے۔ ایک اچھا لیڈر اپنے فالووروں اور ٹیم کے افراد کی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لیڈر ان کے انسانی اور غیر انسانی وسائل کا بہترین طریقے سے استعمال کرے۔

انسانی وسائل کے استعمال کے عموماً تین رویے ہوتے ہیں۔

تحکمانہ ( authoritarian): یہ رویہ اس وقت اپنایا جاتا ہے جب کوئی فرد اپنی پوزیشن اور اختیار (اتھارٹی) کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ سیاسی نظام میں اس کی مثال ڈکٹیٹر، بادشاہ، یا مارشل لا کے تحت صدر کی دی جا سکتی ہے۔اس رویے میں ٹیم لیڈر کی کیفیت کو کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے:

رول نمبر 1: ’’باس ہمیشہ صحیح ہے‘‘ (Boss is always right)۔ قانون کی پہلی شق یہی ہے کہ باس کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔

رول نمبر 2: ’’رول نمبر 1 کا اعادہ کریں‘‘ (Refer Rule No. 1)۔  یعنی قائد جو کہہ دے، وہی سچ ہے اور اس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔یہ رویہ نہ صرف مملکتوں میں بلکہ کارپوریٹ اداروں، این جی او، اور ملی جماعتوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ چھوٹی اجتماعیتوں جیسے گھر، دکان یا حلقۂ احباب میں بھی اس قسم کے رویے دیکھے جاسکتے ہیں۔

خود رایانہ (authoritative): اس کے اندر علم اور صلاحیت ہوتی ہے اور وہ ان صلاحیتوں کے ذریعے لوگوں سے کام لیتا ہے۔وہ ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتا ہے۔ ٹیم ممبروں کے بجائے وہ خود ہی سارے کام انجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر ٹیکنوکریٹ اس رویے کو اختیار کیے ہوتے ہیں۔ وہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے اورچاہتے ہیں کہ ہر کام ان سے پوچھے بنا نہ کیا جائے۔ ایسے لیڈر ذاتی طور پر قابل تو ہوتے ہیں تاہم ٹیم کی صلاحیتوں سے جماعت کا بھلا نہیں کرسکتے۔

ڈیموکریٹک:  یہ لوگوں کو تحریک دیتا ہے، ان کی مدد کرتا ہے اور ان کی رہ نمائی کرتا ہے تاکہ وہ اپنے وژن کو حاصل کر سکیں۔اس طرز کی قیادت میں اتھاریٹرین اور خود رایانہ طرز عمل کے مثبت نکات اختیار کیے جاتے ہیں۔ ٹیم ممبروں سے مشاورت کی جاتی ہے، ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے، مسائل کو حل کیا جاتا ہے اور افراد کی صلاحیتوں کو ہم آہنگ کیا جاتا ہے تاکہ لوگ باہمی تعاون کے ذریعے وژن کے حصول کے لیے تیز گام آگے بڑھ سکیں۔

  1. جائزہ اور قدر شناسی: ایک لیڈر کے لیے ضروری ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے کام کا جائزہ لے۔ یہ جائزہ منصوبے کی روشنی میں اور وسائل کے مطابق ہونا چاہیے۔ یہ جائزہ منفی انداز میں نہیں، بلکہ مثبت اور تعمیری طریقے سے لیا جانا چاہیے تاکہ مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے اور ٹیم کو امپاور کیا جا سکے۔
  2. مسائل کا حل: جائزے کے دوران جو مسائل سامنے آئیں، ان کا حل کرنا بھی لیڈر کی ذمہ داری ہے۔ اگر مسائل کی نشان دہی کی جائے اور ان کا حل نہ نکالا جائے تو مزید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایک کام یاب لیڈر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مشاورت کرتا ہے اور ان کے حل کے لیے اپنا تعاون پیش کرتا ہے۔ وہ اپنی ٹیم کو ایک ایسا ماحول فراہم کرتا ہے جس میں تمام افراد مل کر کام کرتے ہیں اور منصوبے کے کام یاب نتائج حاصل کرتے ہیں۔
  3. کام یابیاں اور ناکامیاں: جب لیڈر اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے، تو وہ کام یابی کا جشن اکیلے نہیں مناتا۔ کام یابی کا جشن پوری ٹیم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

کام یابی کا کریڈٹ وہ اپنے تمام ٹیم ممبروں کو دے دیتا ہے، وہ ’’میں‘‘ کے بجائے ’’ہم‘‘ کی زبان استعمال کرتا ہے۔ اور جب ناکامی ہوتی ہے، تو وہ اس ناکامی کی ذمہ داری خود لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ناکامی اس کی وجہ سے ہوئی ہے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ٹیم ممبروں کو یہ محسوس نہ ہو کہ ہماری وجہ سے پورا نقصان ہو گیا یا یہ منصوبہ حاصل نہیں ہو سکا۔ وہ دوبارہ اس منصوبے کو حاصل کرنے کے لیے تحریک پا سکتے ہیں۔ اس لیے کہ جب لیڈر کہتا ہے ’’یہ آپ کی غلطی سے نہیں، میری غلطی سے ہوا ہے‘‘ تو وہ ٹیم کو ہمت دیتا ہے اور اسے یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ دوبارہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیےکمر بستہ ہو جائے۔

یوں تو لیڈرشپ کی تقسیم ایک سے زیادہ طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ ایک تقسیم ہم نے اوپر بیان کی ہے، جب کہ ایک اور اہم تقسیم یوں ہے:

آگے سے قیادت (leading from the front)

اس طرز میں لیڈر اپنی ٹیم کی آگے سے رہ نمائی کرتا ہے، ہر معاملے میں انھیں راہ دکھاتا ہے۔ جب ایسا لیڈر سماجی زندگی میں رہتا ہے یا سماج کے کسی حصے کی قیادت کرتا ہے، تو وہ فالووروں یا عوام کے ارمانوں اور تمناؤں کے مطابق آگے نہیں بڑھتا۔ کبھی کبھار، وہ سامنے چلتے ہوئے مڑ کر اپنی قوم کو مخاطب کرتا ہے اور لہر کے مقابلے میں اپنی بات کرتا ہے۔ تو یہ ہوگا ’’لیڈرشپ فرام فرنٹ‘‘۔ اس کی خصوصیات اور فوائد ہیں، تاہم اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں۔

اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ اس انداز میں معاونین زیادہ محتاج رہتے ہیں اور وہ لیڈر کے اشاروں کااور اس کے فیصلوں کا انتظار کرتے ہیں۔

پیچھے سے قیادت (leading from the back)

یہ قیادت کا وہ انداز ہے جو سامنے نہیں بلکہ پیچھے سے ہوتی ہے۔ اوپر والی قیادت زیادہ تر سیاست اور سماجی زندگی میں پائی جاتی ہے، جب کہ یہ قیادت زیادہ تر کارپوریٹ کلچر میں، خاص طور پر تجارتی اداروں میں ملتی ہے۔ یہ ایک مشہور قیادت کا طرز ہے جو زیادہ تر جنگی حکمت عملی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

موجودہ دور میں، اکثر جنگیں اس طرز کی قیادت سے لڑی جاتی ہیں، جب کہ ماضی میں قیادت آگے سے کی جاتی تھی۔ اب مثلاً مارشل پیچھے ہوتا ہے اور ایک عام فوجی کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کا قائد اس کی پشت پر موجود ہے۔ اس طرز قیادت کو بہت سی فوجی حکمت عملیوں میں اپنایا گیا ہے، جیسے کہ امریکی فوجی حکمت عملی میں، جس میں فوجیوں کو یہ ذہن میں بٹھایا جاتا ہے کہ ان کی مدد کے لیے قائد پیچھے موجود ہے، انھیں تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔

ایک مشہور رائٹر جان ایڈیرنے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک کتاب لکھا ہےجس کا نام دی لیڈرشپ آف محمد ﷺ  (On a journey: The leader of the people is the servant) جس میں انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے کس طرح دونوں طرز کی قیادت کی۔ وہ اس بات کو بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ایک طرف سامنے سے رہ نمائی کی اور دوسری طرف پیچھے سے قیادت کی۔ جیسے ایک چرواہا اپنے ریوڑ کی قیادت کرتا ہے۔ اس میں دونوں طرز کی قیادت کی اہمیت ظاہر کی گئی ہے۔

طلبہ میں قیادت کی خصوصیات کیسے پیدا کی جائیں؟

دنیا بھر میں طلبہ میں قیادت کی خصوصیات پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے اس میدان میں ابھی بھی کم زور ہیں کیوں کہ ہماری تعلیم کا مقصد صرف طلبہ کو اچھے گریڈ حاصل کرنا تصور کیا جاتا ہے نہ کہ ان کی شخصیت سازی اور قیادت کی خصوصیات کو اجاگر کرنا۔ اگر ہمارے ادارے شخصیت سازی اور قیادت پر توجہ دیں، تو ملت کی ایک اہم ضرورت پوری کی جا سکتی ہے اور وہ ضرورت ہے مختلف میدانوں میں قیادت کی فراہمی۔

تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تنظیموں جیسے سکاؤٹ اینڈ گائیڈ، این سی سی، وغیرہ کا قیام قیادت کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جہاں یہ تنظیمیں موجود نہیں، وہاں انھیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ان تنظیموں کے علاوہ طلبہ میں مقصدیت اور اعلی اقدار کو فروغ دینے والی تنظیموں جیسے ایس آئی او(اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن)، جی آئی او(گرلس اسلامک آرگنائزیشن) اور سی آئی او (چلڈرن اسلامک آرگنائزیشن)کی شاخیں قائم کریں۔

نئی تعلیمی پالیسی کے تحت بچوں کو پروجیکٹ ورک کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے۔ اس میں بچوں کی قیادت کی صلاحیتیں بھی پروان چڑھتی ہیں۔ ایس ڈی جی (سستیبل ڈیولپمنٹ گولز) پر بھی پروجیکٹ ورک ضروری ہے، جس سے بچوں کے اندر قائدانہ صلاحیتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔

رابطے کی صلاحیت

ہمارے امتحانات کا نظام زیادہ تر ایم سی کیو (Multiple Choice Questions)پر مشتمل ہے، جس سے طلبہ کی لکھنے اور بولنے کی صلاحیت کم زور پڑ گئی ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں طلبہ کے لیے ادبی محافل، مشاعرے اور مباحثے کی سرگرمیاں فراہم کرنی چاہئیں تاکہ ان کی بولنے اورکمیونی کیشن کی صلاحیتیں بہتر ہوں۔

ڈبیٹ کلب

لیڈر کی اہم صفت اعلیٰ درجے کی گفتگو ہے۔ اپنے نقطۂ نظر کو واضح اور مؤثر انداز میں پیش کرنا لیڈر کا خاصہ ہوتا ہے۔ آج ہمارے طلبہ تکنیکی علوم تو حاصل کر رہے ہیں، تاہم زبان و بیان کے فن سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارت میں چالیس کروڑ کی مسلم آبادی میں اچھے ڈبیٹر، مقررین اور اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے والوں کی بے انتہا کمی ہے۔ مقررین ہیں بھی تو وہ اردو میں مہارت رکھتے ہیں اور روایتی قسم کے مذہبی عناوین پر اپنے جلوے بکھیرتے ہیں۔ ملک کو درپیش مسائل، سماجی، تاریخی اور نفسیاتی مسائل پر بھارت کی مختلف زبانوں میں بولنے والوں کی بے انتہا کمی ہے۔ لہٰذا مختلف سطحوں کے طلبہ کو اس صفت سے آراستہ کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں دنیا کے مشہور ڈبیٹر مہدی حسن (صحافی) کی مشہور کتاب ’’Win Every Argument‘‘ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں ڈبیٹ کلب کا قیام

اسکول پارلیمنٹ اور طلبہ کے انتخابات طلبہ کے اندر قیادت کی خصوصیات پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس طرح کی تنظیموں سے طلبہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکتے ہیں اور مختلف مسائل کو حل کرنے کی تربیت حاصل کر سکتے ہیں۔

کالجوں اور یونیورسٹیوں کو کمیونٹی کی بہتری کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کرنا چاہیے جن میں طلبہ کی شمولیت ہو مثلاً علاقے کی صفائی ستھرائی، کچرا ٹھکانے لگانے، پانی بچانے اور شجرکاری جیسے اجتماعی منصوبے بچوں کے اندر قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرتے ہیں۔

لیڈرشپ کی ایک اہم صلاحیت مسائل کو حل کرنا ہے۔ طلبہ کو یہ سکھایا جانا چاہیے کہ وہ کس طرح اپنے علاقے کے مسائل جیسے صفائی، بجلی کی بچت، یا نشے کی بڑھتی ہوئی لت کو قابو میں کرنے کے تدابیر پر کام کر سکتے ہیں۔

اختلافات کو دور کرنے کی صلاحیت بھی ایک قائد کی اہم خصوصیت ہے۔ اختلافات کو مثبت طریقے سے حل کرنے کی تربیت طلبہ کو دینی چاہیے تاکہ وہ معاشرتی مسائل پر غور کریں اور ان کے حل میں مدد کریں۔

یہ عمل اسکولوں کے ایک اہم مسئلے ’طاقت ور بچوں کے کم زور بچوں پر دھونس جمانے اور ستانے‘ (bullying) پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اختلاف کے بندوبست کی مہارت کو سکھانے والی کتابیں طلبہ کو پڑھائی جانی چاہئیں۔

اسپورٹس کلب

بچوں میں قائدانہ صلاحیت پیدا کرنے کے لیے اسپورٹس کلب ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس میں طلبہ گروپ ڈائنمکس (اجتماعی صفات ) کو سیکھتے ہیں۔ قائد اور ٹیم کام یابیوں اور ناکامیوں دونوں کا سامنا کرنے کا ہنر سیکھتے ہیں۔ ہارنے کے بعد دوبارہ جیتنے کی امنگ پیدا کرتے ہیں۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2025

مزید

حالیہ شمارے

فروری 2025

شمارہ پڑھیں

جنوری 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223