جماعت اسلامی ہند نے ۲۳؍اپریل سے ۷؍مئی ۲۰۱۷ تک پورے ملک میں ’’ مسلم پرسنل لا بیداری مہم ‘‘ کا اہتمام کیا ۔ اس مہم کے اختتام پر دہلی میں ۷؍مئی کومحترم امیرِ جماعت اسلامی ہند ، مولانا سید جلال الدین عمری کی صدارت میں ایک جلسہ عام منعقد ہوا ۔ مہم کے اثرات کے تذکرے اورمسلم پرسنل لا پر اظہارِ خیال کے علاوہ، اس جلسے میں ایک اعلامیہ میں بھی پیش کیا گیا ، جس کو حاضرین نے منظور کیا ۔ ہمارے مُلک کے سیاق میں ، یہ اعلامیہ اُن ضروری اقدامات کا تذکرہ کرتا ہے ، جن کے ذریعے صالح عائلی نظام کا قیام ممکن ہے ۔ مذکورہ بالا اعلامیے کے نکات کوذیل میں ’’خطوطِ کار‘‘ کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے ، تاکہ صالح معاشرت کی جانب پیش رفت کی راہیں واضح ہوسکیں۔{
اسلامی عائلی نظام اور مسلم پرسنل لا کے تعارف کی توفیق، جن اصحاب کو مِلی وہ رب کائنات کا شکر ادا کرتے ہیں، جس نے دین حق کی حیات بخش تعلیمات کے عام تعارف و تفہیم کی توفیق عطا کی اس کام میں رہ جانے والی کوتاہیوں اور لغزشوں کے لیے خالق کائنات سے معافی اور درگزر کی درخواست ہے ۔
خطوطِ کار
)۱(اصلاحی لائحہ عمل کی اساس یقین پر ہے۔ اللہ اور آخرت پر ایمان انسانوں کو یہ شعور عطا کرتا ہے کہ انسانی زندگی کی صحت مندانہ تعمیر اور حقیقی فلاح کے حصول کے لیے ہدایت الٰہی کی مخلصانہ پیروی اور کامل اتباع ناگزیر ہے۔ زندگی کے دوسرے گوشوں کی طرح نجی، خاندانی اور عائلی زندگی میں الٰہی ہدایات و قوانین، امن و سکون اور عدل و انصاف کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ فرد کی تربیت اور سماج کے استحکام کے لیے دین حق پر مبنی ان صحت بخش تعلیمات پر عمل ضروری ہے۔ خالق کائنات کا عطا کردہ دین، اللہ سے مخلصانہ بندگی کا تعلق قائم کرنے اور اس کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ انسانوں کو تاکید کرتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی انسانوں کے حقوق ادا کریں، خصوصاً ماں باپ، بچوں اور زوجین کے حقوق کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہوں۔
)۲(ہدایت الٰہی سے کامل وابستگی کی ہاد دہانی کے ساتھ ہمارے مُلک کے سیاق میں ان قوانین و ضوابط کی خصوصی اہمیت ہے جن کو مسلم پرسنل لا کہا جاتا ہے۔ یہ امر اطمینان کاباعث ہے کہ ملک کے دستور اور مسلمہ بین الاقوامی اعلانات میں افراد اور گروہوں کی مذہبی آزادی کو واضح الفاظ میں تسلیم کیا گیا ہے، جس میں پرسنل لا پر عمل کی آزادی شامل ہے۔ اس آزادی کا برقرار رہنا ضروری ہے اور اس کو سلب کرنے یا محدود کرنے کی کوشش غیر منصفانہ ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور سماج و ملک کے امن و امان میں خلل ڈالنے والی ہے۔ اس لیے اہلِ ایمان ان تمام تجاویز کو یکسررد کرتے ہیں جو بعض ناعاقبت اندیش عناصر کی جانب سے مذہبی آزادی کو مجروح کرنے کے لیے پیش کی جا رہی ہیں۔
)۳(حکومت ہندکو چاہیے کہ وہ یونیفارم سول کوڈکے نفاذ کے خیال کو ترک کر دے۔ دستور ہند کے رہنما اصولوں کی دفعہ ۴۴؎ کو ، جس میں یونی فارم سول کوڈ کا تذکرہ ہے، ایک دستوری ترمیم کے ذریعہ منسوخ کر دیا جانا چاہیے۔
)۴(دانش مندی کا تقاضا ہے کہ حکومت ِ ہند مسلم پرسنل لا میں کوئی مداخلت نہ کرے ۔ بلکہ مسلمان معاشرے کو بلا روک ٹوک، اسلامی عائلی قوانین پر عمل کرنے دے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلامی ضوابط مردوں اور عورتوں دونوں کو انصاف فراہم کرتے ہیں اور ان کے حقوق کا کامیاب تحفظ کرتے ہیں،ان قوانین میںترمیم کی کوشش غیر ضروری بھی ہے اور مضر بھی۔
)۵( تعمیر ِ نو کے لیے سعی کرنے والوں کا بنیادی کام یہ ہے کہ معاشرے میں احکام شریعت اور اسلامی اقدار سے واقفیت کو عام کریں اور نیکی اور تقویٰ کی فضا کو پروان چڑھائیں۔ تاکہ غفلت ، لاعلمی، غیر ذمہ داری یا خدا سے بے خوفی کی بنا پر لوگ شریعت کی خلاف ورزی نہ کریں۔ دین کا علم سماج میں عام کیا جانا چاہیے اور اس عمومی تعلیم کے لیے کتابوں، کتابچوں، جمعہ کے خطبات اور الیکٹرانک ذرائع سے کام لیا جائے۔ لوگوں کو عام تلقین کی جانی چاہیے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور اللہ کی مقرر کردہ حدود کو نہ توڑیں۔ جو لوگ دین کی تعلیمات کی خلاف ورزی کریں اور اس حرکت سے باز نہ آئیں ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔
)۶( مسلمانوں کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اسلامی عائلی زندگی میں والدین کے ساتھ حسن سلوک ، بچوں کی تعلیم و تربیت، زوجین کے حقوق کی ادائیگی، عفت و عصمت کی حفاظت، ستر اور حجاب کے حدود کی پاسداری، نجی زندگی کے تحفظ ، رشتے داروں کے ساتھے اچھے برتائو، نکاح کے اسلامی معیار کی ترویج ، مہر کی خوش دلی سے ادائیگی، نکاح کو آسان بنانے کی طرف توجہ اور وراثت کی درست تقسیم کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان سب امور میں اللہ اور رسول کی تعلیمات پر اخلاص کے ساتھ عمل کیا جائے ۔
)۷(تعمیرِ نو میں مصروف کارکنوں اور عام مسلمانوں کو توجہ کرنی چاہیے کہ لوگوں کی صحیح تربیت اور تنازعات کے حل کے لیے شہروں، بستیوں اور قصبات میں تصفیہ کمیٹیوں، اصلاحی اداروں، کونسلنگ مراکز ، شرعی پنچا یتوں اور دار القضا کا قیام عمل میں لائیں۔ ان کمیٹیوں اور مراکز کی طرف رجوع کی فضا کو عام کیا جائے اور تنازعات کے حل کے لیے ان اداروں کا رخ نہ کیا جائے، جہاں قانون الٰہی کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہو۔
)۸(تمام مسلمانوں کو مسائل کے حل کی تدابیر سے واقف ہونا چاہیے۔ ازدواجی زندگی میں ناخوشگواری کی صورت میں زوجین کے تعلقات کی درستگی کے لیے ترتیب کے ساتھ، وہ ساری تدابیر اختیارکی جائیں، جن کی دین نے تعلیم دی ہے۔ زوجین کے درمیان افہام و تفہیم کی کوشش ہو۔ یہ کوشش کام یاب نہ ہو تو دونوں خاندانوں سے حَکَم مقرر کیے جائیں، جو حالات کی اصلاح کے لیے کوشش کریں۔ اس سعی کے بعد بھی اگر علیحدگی ہی ضروری سمجھی جائے تو ایک طلاق پر اکتفاء کیا جائے۔ عدت گزرنے کے بعد زوجین خوش اسلوبی سے علیحدہ ہو جائیں۔ بیک وقت تین طلاق دینے کی غلطی نہ کی جائے۔
)۹( مسلمانوں کے اہلِ دانش کوملک کے ذرائع ابلاغ (میڈیا) سے ربط قائم کرنا چاہیے اورمیڈیا کومتوجہ کرنا چاہیے کہ وہ اسلامی شریعت کی صحیح تصویر پیش کرے اور اسلامی عائلی نظام کے بارے میں غلط فہمیاں نہ پھیلائے۔ اس مذہبی آزادی کا حترام کرے، جس کو ملک کے دستور نے تسلیم کیا ہے۔ اسلام کی ترجمانی کے لیے مخلص اہلِ علم مسلمانوں کی طرف رجوع کرے اور مسلمانوں کے اس متفقہ موقف کا احترام کرے کہ وہ اسلامی شریعت پر ہی عامل ہوں گے اور اس میں کسی مداخلت کو برداشت نہیں کریں گے۔
)۱۰(میڈیا کے اصحاب کو آمادہ کرنا چاہیے کہ وسیع تر سماج میں عفت و عصمت کی حفاظت اور اخلاقی اقدار کی ترویج کے لیے اسلام کے صحت مندانہ رول کو پیش کریں تاکہ سماجی مسائل حل ہو سکیں۔
)۱۱( ملک کے تمام باشندوں سے کے اندر یہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ مردوں اور خواتین کے مسائل کے حقیقی حل اور پاکیزہ معاشرے کی تعمیر کے لیے وہ ہدایت الٰہی کی طرف رجوع کریں اور انسانوں کے بنائے ہوئے غیر معتدل قوانین و ضوابط کے بجائے خالق کائنات کے عطا کردہ قانون کی پیروی اختیار کریں۔
)۱۲( تمام اصلاحی وتعمیری مساعی کا محرک یہ شعور ہے کہ مسلمان خیر امت ہیں، ان کو انسانوں کی حقیقی خیر خواہی اور رہنمائی کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ الٰہی ہدایات ، خصوصا عائلی زندگی سے متعلق تعلیمات پر مخلصانہ عمل کے ساتھ مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ تمام انسانوں کو ان کے خالق کی طرف بلائیں ، ان کو اپنے رب سے رشتۂ بندگی استوار کرنے کی دعوت دیں، ان کو درست نظام زندگی سے روشناس کرائیں ، وہ قوانین ان کو بتائیں جو حقیقی انصاف فراہم کرتے ہیں، پاکیزہ سماج کی تشکیل کرتے ہیں اور فردو معاشرہ کے اخلاقی ارتقاء کے ضامن ہیں۔ حالات خواب غفلت سے بیدار ہوجانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ قول وعمل سے اس اعلان کی ضـرورت ہے کہ
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
مشمولہ: شمارہ جولائی 2017