سولہویں لوک سبھا انتخابات کے نتائج ۱۶/مئی ۲۰۱۴ کی صبح سے آنے شروع ہوئے اور شام تک صورت حال بالکل واضح ہو گئی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئی ہیں اور وہ انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی ہے۔یہ صورت حال ملک کی سیکولر پارٹیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے لیے بڑی تشویش ناک تھی۔اگلے دن مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند نے مرکز جماعت میں ایک بڑے مجمع سے خطاب کیا۔انہوں نے انتخابات کے بعد ملکی صورت حال پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ مسلمانوں کو موجودہ حالات سے گھبرانے اور تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔مولانا عمری کے اس خطاب میں موجودہ حالات کا عمدہ تجزیہ بھی ہے اور ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کی رہ نمائی بھی ہے۔افادیت کے پیش نظر ذیل میں مولانا کے خطاب کا مکمل متن پیش کیا جا رہا ہے۔اسے ریکارڈنگ سے نقل کرنے کا کام جناب زبیر عالم اصلاحی نے کیا ہے اور اشاعت سے قبل مولانا نے بھی اس پر ایک نظر ڈال لی ہے۔ (رضی الاسلام ندوی)
کسی بھی جمہوری ملک میں انتخابات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ انتخابات میں جو پارٹی کامیاب ہوتی ہے اس کے ہاتھ میں اقتدار ہوتا ہے۔ وہ اپنا پروگرام نافذ کرسکتی ہے،اپنے منصوبوں پر عمل کرسکتی ہے اور ملک کو جورْخ دینا چاہتی ہے وہ رخ دینے کی کوشش کر سکتی ہے۔ ہمارا ملک بھی ایک جمہوری ملک ہے ۔یہاں بھی انتخابات کا طریقہ رائج ہے۔ ابھی سولہویں لوک سبھا کا انتخاب ہوا ہے۔ اس کے بارے میں بہت کچھ کہا جارہا ہے۔ جن لوگوں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ اسے اپنی کوششوں اور اپنی حکمت عملی کانتیجہ سمجھ رہے ہیں اور یہ خیال کررہے ہیں کہ ملک کی اکثریت نے ان کے حق میں ووٹ دیا ہے اور اس بات کا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ملک کو جس رْخ پر لے جانا چاہتے ہیں اس پر لے جائیں۔ اس پر وہ شادماںہیں اور جشن منارہے ہیں۔ دوسری طرف ان کے مخالفین ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہ انتخابات صاف ستھرے نہیں ہوئے، اس میں دولت کا بے دریغ استعمال ہوا ہے۔ یوں کہئے کہ ووٹر کا ذہن بنانے اور خریدنے کے لئے دولت کا بے تحاشا استعمال ہوا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ آدمی پیسہ ہی لے تب ووٹ دے۔ اس سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ذہن کو کیسے موڑا جائے، اس کے لئے پیسہ خرچ کیاجاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو پارٹی برسراقتدار آئی ہے، اس نے اس کی زبردست کوشش کی ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ یہاں دستوری لحاظ سے تو سب برابر ہیں، لیکن اس الیکشن میں خاص طور پر کوشش کی گئی کہ رائے دہندگان یا ووٹرس بٹ جائیں اور اس طرح بٹ جائیں کہ ایک پارٹی کی کامیابی یقینی ہوجائے۔ اس کے لئے انہوں نے ضروری سمجھا کہ اکثریت کو ساتھ لیا جائے ۔ کوشش کی گئی کہ ووٹر یہ فیصلہ کرے کہ امیدوار کا کیا مذہب ہے اور کون کس طبقے سے تعلق رکھتا ہے؟ اور پھر مذہبی بنیادوں پر اکثریت اور اقلیت کی تقسیم ہوجائے۔ ظاہرہے کہ کسی جمہوری ملک میں اکثریت ایک طرف ہوجائے تو وہی کامیاب ہوگی۔ بہرحال اس کی کوشش کی گئی اور اس میں کامیابی حاصل ہوئی۔ ایک طرح سے نفرت کی فضا بھی قائم کی گئی۔ کچھ لوگوں کی تصویر بگاڑی گئی اور ان کے بارے میں غلط قسم کے خیالات پھیلائے گئے۔ یہ سب باتیں جو کہی جارہی ہیں ،میرا خیال ہے کہ انہیں ہم بے بنیاد نہیں کہہ سکتے۔ آپ جانتے ہیں کہ ان میںبہرحال صداقت ہے اور وزن ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی کامیاب ہوگئی ہے۔ ملک نے اسے تسلیم کرلیا ہے، قومی اور بین الاقوامی سطح پر مبارک باد کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ دنیا نے اس کی کامیابی کو مان لیا ہے۔ اب چند دنوں میں نئی حکومت بھی بن جائے گی۔
آپ جانتے ہیں کہ یہ بہت بڑا ملک ہے۔ یہاں جو حکومت بنے گی وہ پوری آبادی پراثر انداز ہوگی، اس ملک کی آبادی ایک سو پچیس کروڑہے اور اس کے ووٹرس کی تعداد بھی ۸۱فیصد یا اس سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ بہرحال اب بی جے پی، جس کی قیادت نریندرمودی صاحب کررہے ہیں، وہ اکثریت میں آگئی ہے۔لوک سبھا کی ۵۴۳ سیٹوں میں سے اس نے ۲۸۴سیٹیں حاصل کر لی ہیں،جو حکومت سازی کے لئے مطلوبہ تعداد سے زیادہ ہیں۔ اس کی حلیف پارٹیوں کی سیٹوں کو بھی شامل کرلیں تو ان کی تعداد ۳۳۶ہوجاتی ہے، جو بہت بڑی اکثریت ہے۔ ان انتخابات کے دوران میں مودی صاحب نے کہا کہ ملک کو ترقی چاہئے۔ انہوں نے گجرات کو ماڈل کے طور پر پیش کیا۔ بہت سے لوگوں نے اس کی تردید بھی کی کہ گجرات کوئی ماڈل نہیںہے۔گجرات میں جس ترقی کا ذکر کیاجارہا ہے ایک تو یہ کہ وہ حقیقی معنوں میں ترقی نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر اسے مان لیا جائے تو وہ صرف مودی صاحب کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہے ، بلکہ اس میں سابقہ حکومتوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔تاہم ملک نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ ہمیں ترقی اور ڈیولپمنٹ کی ضرورت ہے۔ مودی صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میںتبدیلی آنی چاہئے، ایک کرپٹ اور غلط قسم کی حکومت ہماری سروں پر مسلط رہی ہے،اسے ختم ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے اس نعرے میں کشش تھی۔ یہ صحیح ہےکہ دس سال تک جس پارٹی نے حکومت کی، اس نے اس ملک کو دیا کم اور اس کااستحصال زیادہ کیا ہے،جتنی ترقی اس کے دور میں ہوئی اس سے زیادہ اس نے لوٹا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ کرپشن کے جتنے واقعات پچھلی حکومت کے دور میںپیش آئے، شاید اس سے پہلے کبھی نہیں پیش آئے۔ شاذ ونادر ہی کوئی منسٹر ہوگا جس پر اس طرح کے الزامات نہ لگے ہوں۔ کتنوں پر مقدمات چل رہے ہیں۔ بعض پارٹیاں اس بنیاد پر الگ بھی ہوئیں، بہرحال یہ بات عام ہو گئی کہ موجودہ حکومت کرپٹ ہے، اسے بدلنا چاہئے۔
الیکشن کے دوران میں مودی صاحب نے یہ کہی کہ پرانے لوگوں کو بہرحال ہٹنا چاہئے۔ نئی نسل کو آگے آناچاہئے۔ ایک لحاظ سے یہ نعرہ نوجوانوں کے لئے پُرکشش (اپیلنگ) تھا۔ کانگریس نے بھی یہ اپیل کی، راہل گاندھی بھی اس اپیل کے ساتھ سامنے آئے، لیکن ان کی اپیل میں اتنی زیادہ کشش نہیں تھی جتنی اس ادھیڑ عمر کے شخص( مودی) کی اپیل میں تھی۔ یہ مختلف اسباب تھے جن کی وجہ سے بی جے پی اقتدار میں آگئی۔ اس کااثر پورے ملک پر پڑے گا۔ یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ پارٹی سرمایہ داروں کے ساتھ ہے۔ پچھلی حکومت کے ساتھ بھی سرمایہ دار تھے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مدد سے وہ بھی چل رہی تھی اور ان کا اس پر قبضہ تھا۔ اس حکومت پر بھی انہی کا قبضہ رہے گا۔ لیکن اس کے باوجود بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے یہاں کی سیکولر پارٹیاں تشویش محسوس کررہی ہیں۔
مسلمان بھی اپنی تشویش کا اظہار کررہے ہیں کہ وہ جو تبدیلی نہیں چاہتے تھے وہ واقع ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر مسلمانوں نے یہ سوچا کہ ان پارٹیوں کو آگے آنا چاہئے جو جمہوری اور سیکولر مزاج رکھتی ہیں، جو تمام شہریوں کو برابر کا درجہ دیںاور کسی کا دستوری حق سلب نہ کریں۔ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ایسی پارٹی کون سی ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسی کوئی پارٹی نہیں ہے جو پورے طور سے صاف شفاف ہو، تاہم کچھ پارٹیاں ضرور ایسی ہیں جو اپنے دستور ،منشور اور پالیسی کے لحاظ سے سیکولر کہی جاسکتی ہیں۔ مسلمانوں کی خواہش اور کوشش رہی ہے کہ ایسی پارٹیاں برسراقتدار آئیں جو کسی خاص مذہبی گروہ کی حامی بن کر نہ کھڑی ہوں اور کسی خاص طبقے کی نمائندگی نہ کررہی ہوں، سب کو برابر دیکھ رہی ہوں۔ مسلمانوں کے درمیان بہت سے اختلافات ہیں۔ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اختلافات کو ختم کرنا بظاہر آسان نہیںہے۔ تاہم مسلمانوں کی تمام تنظیموں کا اس بات پر اتفاق رہا کہ یہاں کی سیکولر اور جمہوری طرز کی پارٹیوں کو آگے آناچاہئے۔ یہ بات الگ ہے اور اس پر بحث کی گنجائش ہے کہ اس کے باوجود ہمارے ووٹ کس طرف گئے اور کیوں منقسم ہو گئے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ جن پارٹیوں کو جمہوری یا سیکولر پارٹیاں کہا جاتا ہے وہ بھی ایک نہیں دسیوں ہیں اوربیشتر مسلمانوں کا ان میں سے کسی نہ کسی سے تعلق ہے۔ اس لئے ان کی جو کچھ بھی طاقت ہے وہ بٹی ہوئی ہے ، جب کہ ان کے مخالفین کی طاقت ان کی طاقت سے کہیں زیادہ ہے، بلکہ بہت زیادہ ہے۔
پورے ہندوستان کے اندر دیکھیں ، مسلمان اپنی طاقت کے بل پر کہیں بھی آسانی کے ساتھ کامیاب نہیں ہوسکتے،ان کی تعداد مختلف ریاستوں میں دو فیصد سے تینتس،چونتیس فیصد تک ہے۔جہاں مسلمان دوفیصد یا چارفیصد ہیں، وہاں انہیں کون پوچھے گا؟ کہیں دس فیصد ہوں تو آپ سمجھتے ہیں کہ وہاں وہ بہت بڑی طاقت ہیں۔ مثال کے طور پر آندھرا میں مسلمانوں کو بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وہ وہاں کی کل آبادی کانوفیصد ہیں، کرناٹک میں ان کی بڑی آبادی سمجھی جاتی ہے، وہاں ان کی تعداد بارہ فیصد ہے۔ وہ بھی بٹے ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ سمجھنا کہ سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے، جمہوری عمل سے ہم آہنگ بات نہیں ہے اور آسام میں مسلمانوں کا تناسب تینتیس فیصد ، بنگال میں ستائیس فیصد اور کیرل میں پچیس فیصدہے،اِن ریاستوں میں بھی مسلمان مختلف پارٹیوں میں منقسم ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں مسلمانوں نے ووٹ تو دیا، بلاشبہ انہوں نے یہ تو طے نہیں کیا کہ کسی ایک پارٹی کو سب مل کر ووٹ دیں۔ لیکن اپنی دانست میں جن پارٹیوں کو انہوں نے سیکولر سمجھا ان کے حق میں ووٹ دیا، لیکن وہ پارٹیاں برسرِ اقتدار نہ آسکیں۔ اس لئے فطری طور پر مسلمانوں کو دھکا لگا۔ شاید ابھی ہم یہ سوچنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں کہ اس میں ہماری کوتاہی کا کتنا دخل ہے۔ بہرحال یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ جو بھی ہماری طاقت تھی اسے ہم نے صحیح طریقے سے استعمال کیا یا نہیں؟ آپ کہیں دس فیصد ہوں اور بٹ جائیں تو ظاہر ہے، دو چار فیصد رہ جاتے ہیں۔
یوپی میں بعض مقامات پر مسلمان تیس فیصد ہیں، لیکن اگر تیس فیصد ، دس پارٹیوں میں تقسیم ہوجائے تووہ عملاً دو تین فیصد رہ جائیں گے۔ اس وجہ سے بھی ہمیں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ بھی ایک خام خیالی ہے کہ مسلمان تو متحد ہوں گے اور دوسرے لوگ بکھرجائیں گے ، دنیا اتنی بے وقوف نہیں ہے۔ وہ دیکھے گی کہ آپ متحد ہورہے ہیں تو وہ بھی متحد ہوگی۔ اکثر مثال دی جاتی ہے کہ یوپی میں فلاں جگہ مسلمان بیس فیصد ہیں، فلاں جگہ تیس فیصد ہیں، اگر وہ متحدہوکر کسی ایک پارٹی کو ووٹ دے دیں تو وہ پارٹی کامیاب ہوجائے گی۔ یہی تو ہمارے مخالف بھی سوچ سکتے ہیں کہ وہ ستر فیصد ہیں ،اَسّی فیصد ہیں۔ اگر وہ متحدہوجائیں تو کوئی دوسری پارٹی انہیں شکست نہیں دے سکتی۔ کبھی کبھی ہماری توقعات بہت زیادہ ہوجاتی ہیں اور کمیوں کی طرف ہمارا ذہن نہیں جاتا، جس کی وجہ سے بعد میں ہم پریشان ہوتے ہیں۔ کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا، خود بی جے پی کو بھی نہیں کہ وہ اتنی بڑی طاقت کے ساتھ سامنے آسکے گی۔ اس اندازہ کے خلاف نتائج دیکھ کر بھی لوگ پریشان ہیں کہ جس پارٹی کو ہم ہرانا چاہتے تھے، وہ اتنی بڑی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوگئی ہے۔
دوسری طرف وہ یہ دیکھتے ہیں اور یہ نفسیاتی بات ہے کہ اس بار صرف چوبیس مسلمان پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں۔ شاید اب تک کی تاریخ میں یہ مسلم ممبران پارلیمنٹ کی سب سے کم تعداد ہے۔ اس سے بھی مسلمانوں کو صدمہ پہنچاہے۔اس موقع پر یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا مسلمان ممبران پارلیمنٹ واقعتا ہماری نمائندگی کرتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ وہ نمائندگی نہیں کرتے ۔ایک دو لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ بیشتر لوگ اپنی پارٹی کی ترجمانی کرتے ہیں۔اسی کے کنٹرول میں ہوتے ہیں،اسی کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔وہ آپ کے ہمدرد نہیں ہوتے۔اس کے باوجود مسلمانوں کی یہ سائیکالوجی ہے کہ پارلیمنٹ میں ہمارا آدمی ہو۔بہت سے سینئرلیڈروں نے بھی ہم سے یہی کہا۔بہرحال مسلمان سوچتے ہیں کہ ہمارا بھائی ہو، مسلمان ہو اور ہماری قوم کا ہو۔اس الیکشن میںیہ خواہش پوری نہیں ہوئی توصدمہ پہنچاکہ ہماری تعداد بہت کم ہے۔ مزید جب ہم یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ یوپی جیسی ریاست سے ایک بھی مسلمان پارلیمنٹ میں نہیں پہنچا تو اس سے ہم کو اور بھی صدمہ ہوتاہے۔جہاں مسلمان اٹھارہ فیصد اور بیس فیصد ہیںیہ بہت بڑی تعداد ہے،لیکن اسّی نمائندوں میں سے ایک بھی نمائندہ مسلمانوںکا نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے پہلے یہ صورت حال کبھی نہیں رہی۔ ان چیزوں کو دیکھ کر بہت سے مسلمانوں کو ایک طرح سے مایوسی ہوئی ہے۔
جمہوری طرزِ حکومت میںعام طور پر حزب مخالف برسراقتدار پارٹی کی مطلق العنانی کو کنٹرول کرتی ہے۔ اسی لئے ڈیموکریسی میں حزب مخالف کو بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کے اختیارات ہوتے ہیں۔ وہ برسراقتدار پارٹی کو کوئی غلط قدم اٹھانے نہیں دیتی، لیکن اب کی بار ایساہوا ہے کہ کوئی پارٹی ایسی نہیں ہے جس کو آپ دستوری لحاظ سے حزب مخالف کہہ سکیں۔ سب سے بڑی پارٹی کانگریس ہے۔ اس کے پاس صرف چوالیس سیٹیں ہیں۔ اس صوررت حال سے مسلمان تشویش محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے خلاف غلط قدم اٹھانے والوں کو روکنے والا بھی کوئی نہیں رہا۔ اب وہ جو چاہیں گے، کریں گے۔ ظاہر ہے، یہ صورت حال ایک طرح کی مایوسی اور ڈپریشن پیدا کرتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس فضا کو بدلنا چاہئے۔ اس وقت بلاشبہ بی جے پی برسراقتدار ہے، لیکن اس سے پہلے این ڈی اے کی حکومت تھی۔ اس وقت بھی عملاً سارے کام بی جے پی ہی کرتی تھی، دوسری پارٹیاں اس کا ساتھ دیتی تھیں۔ لیکن آپ نے اس کو برداشت کیا۔ دوسری طرف آپ یہ بھی دیکھئے کہ مختلف ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے، لیکن آپ وہاں جمے ہوئے ہیں۔ ایسانہیں ہے کہ بی جے پی کی وجہ سے ہمارے ادارے ختم ہوگئے ہوں، ہم مایوس ہوگئے ہوں، ہم کوئی قدم نہ اٹھاپارہے ہوں۔ اس کی اچھی مثال کرناٹک کی ہے۔ وہاں بی جے پی کا اقتدار تھا، اس کے باوجود کرناٹک کے مسلمانوں پر تبدیلی کا کوئی بڑا اثر نہیں ہوا۔ ایسا نہیں ہواکہ ان کے ادارے ختم ہوگئے ہوں اور وہ کچھ نہ کرپارہے ہوںیا ان کے حوصلے ختم ہوگئے ہوں۔ یہی معاملہ بعض دوسری ریاستوں کا بھی ہے۔ اس طرح بڑے پیمانے پر ہم ملک کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں یقینا اس نے بعض مسائل پیداکئے ہیں۔اگر ہم سنجیدگی سے سوچیں اور اقدام کریں تو ان مسائل پر قابو پاسکتے ہیں۔
موجودہ صورتحال سے جس طرح مسلمان پریشان ہیں اسی طرح یہاں کی سیاسی پارٹیاں بھی پریشان ہیں۔ ان کے لئے بھی یہ نتائج ناقابل تصور ہیں۔ کیا کوئی شخص یہ سوچ سکتا تھا کہ یوپی میں مایاوتی کا کھاتا ہی نہیں کھلے گا اور وہ ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کر پائے گی۔ ملائم سنگھ جو وزیر اعظم بننے والے تھے، پانچ سیٹوں پر سمٹ گئے۔ بار بار ان کی پارٹی کی طرف سے اعلان ہوتا تھا اور وہ تھرڈ فرنٹ کا نام بھی لے رہے تھے۔ آپ بتائیں کہ اب وہ زندہ رہیں گے یا نہیں۔جنوب میں ایک وقت تھا کہ ڈی ایم کے کی تمل ناڈو میں حکومت تھی اور پارلیمنٹ میں بھی اس کی کافی سیٹیں تھیں۔اب وہ ایک سیٹ پر بھی کام یاب نہیں ہو سکی۔یہ توچندمثالیں دی گئیں،ورنہ مختلف ریاستوں میں مختلف علاقائی یا ریاستی پارٹیوں کا صفایا ہوگیا۔ کیا وہ پارٹیاں ختم ہوگئیں۔ سب سے بڑی مثال کمیونسٹ پارٹی کی ہے۔ وہ ملک گیر پارٹی سمجھی جاتی ہے، ایک طرح سے اس کا صفایا ہوگیا۔ کیا کمیونسٹ پارٹی ختم ہو جائے گی۔ سیاسی پارٹیاں دنیوی ترقی کے لیے کام کرتی ہیں جب وہ شکست کے باوجود ہمت نہیں ہار رہی ہیں توآپ اپنے اندر ہمت کیوں نہیں پاتے؟کیا یہ سب پارٹیاں اپنے دفاتر بند کر دیں گی ،تالا لگا دیں گی،جھنڈے اتار دیں گی۔نہیں بلکہ وہ کہیں گی : صاحب ہم سے غلطی ہوئی ہے۔پھر ٹھیک سے ہم سامنے آئیں گے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اس معاملے میں ہمیں بہت زیادہ اندیشوں میں گرفتار نہیں ہوناچاہئے۔ جو بھی صورت حال ہو اس کے مقابلے کا ہم میں عزم ہونا چاہیے۔
جنگ اْحد میں مسلمانوں کو پہلے کامیابی ملی، پھر شکست ہوئی، اس کی پوری تفصیل قرآن میں موجود ہے۔ اس موقع پر مشہور ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے۔ بہت سے صحابہؓ ہمت ہار کر بیٹھ گئے۔ سوچنے لگے جب ہمارا سردار ہی نہیں رہا، جس کے لئے جان نچھاور کررہے تھے تو کس کے لیے لڑیں اور جان کی بازی لگائیں۔ اس موقع پر قرآن نے جوتبصرہ کیا ہے وہ بڑا ہی چشم کشا اور بصیرت افروز ہے ۔یہ تبصرہ ہمارے سامنے رہناچاہئے۔ قرآن نے کہا :
اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ۰ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ (آل عمران:۱۴۰)
’’ اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب وفراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔
مطلب یہ کہ دنیا میں یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے کہ کبھی کسی قوم کو شکست سے دوچار ہوناپڑتا ہے، کبھی کوئی قوم کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہے۔
سیرت کی کتابوں میں یہ تفصیل بھی ملتی ہے کہ جنگ احد کے بعد جب مشرکین کا قافلہ واپس ہوا تو کچھ دور جاکر انہیں خیال ہوا کہ ہم نے واپسی میں جلدی کی اور ہمیں مسلمانوں کا پوری طرف صفایا کردینا چاہئے تھا۔ یہ سوچ کر وہ واپس ہونے کا ارادہ کرنے لگے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی اطلاع ملی توآپ نے اعلان فرمایا کہ ہم دشمن کے مقابلے کے لیے آگے بڑھیں گے۔جب مشرکوں نے دیکھا کہ مسلمان پوری طرح تیار ہوکر آرہے ہیں تو انہوں نے مناسب سمجھا کہ دوبارہ جنگ نہ چھیڑی جائے۔ اس واقعہ کا قرآن نے ذکر کیا ہے اور کہا :
اَلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِلہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ۰ۭۛ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِيْمٌ (آل عمران:۱۷۲)
’’جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا۔ ان میں جو اشخاص نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ان کے لئے بڑا اجر ہے‘‘۔
غزوہ اْحد کے موقع پر ابتدا میں مسلم فوج میں ایک ہزار افراد تھے۔ بعد میں ان میں سے تین سو واپس ہوگئے۔ سات سو صحابہ جنگ میں شریک ہوئے۔ ان میں بھی ستر آدمی شہید ہوگئے اور ستر سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ منظر کچھ دوسراہی تھا۔ اس نازک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ دشمن تیار ہورہا ہے۔ اس سے مقابلے کے لئے آگے بڑھو۔ چنانچہ صحابہ تیار ہوگئے۔ قرآن نے کہا:
’ جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی پکار پر لبیک کہتے ہیں ،اجر عظیم کے مستحق ہوں گے ۔‘
محترم دوستو اور ساتھیو! ہم نے اس ملک میں مختلف ادوار دیکھے ہیں۔ یہاں ہم نے تقسیم کے بعد کا دور دیکھا ہے۔ جب آدمی اپنا نام ظاہر کرتے ہوئے بھی خوف محسوس کرتا تھا۔ داڑھی رکھتے ہوئے گھبراتا تھا۔ غیر مسلموں کے محلے میں جاتے ہوئے ڈرتا تھا۔ کاروبار ختم ہوگئے تھے۔ خاص طور پر شمالی ہند میں بہت سے لوگ پاکستان جانے کی تیاری میں لگے ہوئے تھے۔ یہ دور بھی ہم نے برداشت کیا اور جمے رہے۔
ظاہر ہے کہ یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ آپ اس سے بھی بدتر حالات سے گزریں گے اور خدانخواستہ ایسی صورت حال پیش آئے تو پورے عزم وہمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیجئے۔ آپ کے اندر حوصلہ ہونا چاہئے کہ جو بھی صورت حال ہواس کا مقابلہ کریں گے۔ یہ بات ہمارے ذہن میں رہے کہ یہاں مختلف مواقع پر ہم پرآزمائشیں آتی رہی ہیں اور ہم نے استقامت کا ثبوت دیا ہے۔ ہماری کمزوریاں بھی رہی ہیں۔ اس وقت ان کمزوریوں کا تذکرہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ ایسے تمام مواقع پر آپ نے عزم وہمت کا ثبوت دیا ہے۔ اس عزم وہمت کا ثبوت آج بھی آپ کو دینا ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ ملک میں مسلمانوں کے مسائل ہیں ان میں سے بہت سے مسائل وہ ہیں جو ایک لمبی مدت سے چلے آرہے ہیں۔ وہ آج کے پیدا کردہ نہیں ہیں ،بلکہ وہ پہلے سے موجود ہیں۔ آپ ان مسائل کو حل کرناچاہتے ہیں۔ اس کے لئے آپ کی کوشش جاری رہنی چاہئے۔
تقسیم کے بعد کے پورے دور میں ایک خاص بات یہ ہے کہ مسلمان مختلف مراحل سے گزرے۔ نازک حالات میں بھی انہوں نے جذباتی رویہ اختیار نہیں کیا اور اپنے حدود سے تجاوز نہیں کیا۔ اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ایک نمایاں مثال بابری مسجد کی شہادت کی ہے۔ اتنے بڑے واقعہ کے باوجود مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس مسئلہ کا حل ہم قانون ہی کے دائرے میں ڈھونڈیں گے۔ آج بھی وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ عدالت جو فیصلہ کرے گی وہ اس کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ فریق مخالف کے پاس اس کاکوئی جواب نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ عدالت ہماری بات سن لے ، ثبوت دیکھ لے ،اس کے بعد اگر وہ فیصلہ کرتی ہے کہ بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی تھی تو ہم اس سے دست بردار ہوجائیں گے۔ اس لئے کہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی مندر توڑ کر مسجد بنائی جائے۔ ویسے ہمارے نزدیک یہ مسجد ہے اور مسجد ہی رہنی چاہئے۔ جب کہ آپ کا حریف یہ کہتا ہے کہ عدالت کچھ بھی فیصلے کرے، مندر کی بہرحال تعمیر ہوگی۔ یہ ہمارے عقیدے کا مسئلہ ہے، یہاں رام پیدا ہوئے تھے۔ یہ تاریخ کاکوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص اس بات کو سنے گا تو کہے گا کہ مسلمانوں کا موقف ہی درست ہے۔
اسی طرح پرسنل لا کا مسئلہ بھی اٹھتا رہتا ہے۔ اس کے لئے مسلمانوں نے تشدد کا راستہ کبھی اختیار نہیں کیا۔ چنانچہ ان تمام مواقع پر مسلمانوں نے اتحاد کا ثبوت دیا اور اس کا ملک پر اثر ہوا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد دہشت گرد پیداہونے لگے، لیکن دہشت گرد کون ہے؟ یہ اب تک ثابت نہیں ہوسکا۔ جن لوگوں کو دہشت گرد کہا جارہا ہے ان کے بارے میں برسوں کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں ہیں۔ وہ بری ہوتے جارہے ہیں۔ شروع میں مدارس کے فارغین کو دہشت گرد کہا گیا، پھر کالجوں کے گریجویٹس پر یہی الزام لگایا گیا اور کہا گیا کہ جدید تعلیم یافتہ لوگ اس میں مبتلا ہیں، لیکن مسلمانوں کا ہمیشہ یہی موقف رہا کہ کورٹ سے ثابت کیجئے کہ وہ دہشت گرد ہیںلیکن کورٹ سے وہ سب بری ہورہے ہیں۔ بالفرض اگر کبھی کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو کسی مسلم جماعت نے یا کسی مسلم تنظیم یا امت کی کسی نمایاں شخصیت نے اس کی تائید نہیں کی۔ فی الجملہ مسلمانوں نے امن وامان کا ثبوت دیا اور عدل وانصاف کے تقاضے پورے کئے۔ پرسنل لا کا مسئلہ ہو، جان ومال کے تحفظ کا مسئلہ ہو یا معاشی مسئلہ ہو، باوقار زندگی گزارنے کا مسئلہ ہو،تعلیم کا مسئلہ ہو، ملازمت کا مسئلہ ہو۔ مسلمانوں نے کبھی کوئی غلط راستہ اختیار نہیں کیا۔ہمیشہ حدود کے اندر رہ کراسے حل کرنے کی کوشش کی اور دستوری حق کا مطالبہ کیا ہے۔ دستور نے انہیں بھی وہ تمام حق دیے ہیں جو دوسرںکودیے ہیںاور ہر کوئی دستوری حق طلب کرسکتا ہے ۔
محترم بھائیو اور دوستو! ہماری ایک کمزوری یہ بھی رہی ہے کہ ہم نے اپنے مسائل سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی،جب کہ سیاسی پارٹیاں ہماری نہیں ہیں ،وہ اپنے مقاصد کے لیے قائم ہوئی ہیں۔ ہم ان سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ ہمارے مسائل ہیں، آپ ان میں ہماری مدد کیجئے۔ وہ وعدے بھی کرلیتی ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ وہ اپنے مفاد کے اندر ہی آپ کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گی۔ اپنے مفادات کو نقصان پہنچا کر وہ آپ کا ساتھ نہیں دے سکتیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے اپنے طور پر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے، اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سی چیزیں یقیناحکومت کے اختیار میں ہوتی ہیں ،وہ اسی کے ذریعہ عمل میں آسکتی ہیں، اس میں آپ کی مجبوری ہے کہ حکومت کو متوجہ کریں اور اس کا تعاون حاصل کریں۔ لیکن یہ آپ کے مسائل کا کُل حل نہیں ہے، یہ صِرف بعض مسائل کا حل ہے۔ اس کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے مسائل کو جہاں تک ہو سکے خود سے حل کرنے کی کوشش کریں۔جن ریاستوں میں مسلمانوںنے اس کی کوشش کی وہاں مسلمانوں کی حالت دوسری ریاستوں سے بہتر ہے۔
اب میں ایک اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔وہ یہ کہ اس وقت ایک ایسی پارٹی برسراقتدار آئی ہے جو اپنے فکر اور نظریہ کے لحاظ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اس کے نزدیک اسلام کے واحد دین حق ہونے پر اِصرار اور قرآن کو آخری کتاب ماننے کے بعد اس ملک میں امن وامان قائم نہیں ہوسکتا۔اس کاکہناہےکہ مسلمان اس ملک کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ ان کا اپنے مذہب پر قائم رہنا ملک کے لئے نقصان دہ ہے۔اب آپ کو موقع ہے اوراس موقع کو ضائع نہ کیجئے۔آپ براہ راست ان سے بات کیجئے اور بتائیے کہ اسلام کیا چاہتا ہے۔ اسلام تمام انسانوں کے لئے ہے،اسے آپ نے محض ہمارا مذہب سمجھ لیا، یہ ہمار ا بھی مذہب ہے اور آپ کا بھی۔آپ اس پر غور کریں۔ اس میں پورے ملک کی بھلائی ہے۔ پھر آپ تفصیل سے بتائیں کہ اسلام کس طرح غریبوں کی مدد کرتااور کمزور طبقات کے مسائل حل کرتا ہے؟ جو لوگ بااقتدار ہیں ان کے رویّے کو کیسے کنٹرول کرتا ہے؟ ان کے اندر اللہ کا خوف کِس طرح پیدا کرتا ہے؟ یہ بات کہنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اور آپ کے درمیان اسلام زیر بحث آناچاہئے۔ آپ کا ایک سسٹم ہے جس کے ذریعے آپ اس ملک کو چلا رہے ہیں، اس کی خامیاں سب کے سامنے ہیں۔آپ انہیں بتائیں کہ ہمارے اور آپ کے اور اس ملک کے مسائل کا حل اسلام میں ہے۔میرا خیال ہے کہ ہم نے کبھی اس کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے یہاں کی غیر مسلم آبادی کے سامنے یا حکومت سے یہ بات کہی ہو اور پوری وضاحت کے ساتھ کہی ہو۔ اس کے لئے بڑا حوصلہ اور عزم وہمت چاہئے۔ قرآن نے اپنے مخالفین سے کہا کہ میں دلائل کے ساتھ بات کر رہا ہوں تمہارے پاس کوئی دلیل ہو تو اسے پیش کرو۔ آپ ان سے کہئے کہ ہم نے الیکشن میںآپ کی مخالفت کی۔ ہمیں اندیشہ تھا کہ دستور نے ہمیں جوآزادی دی ہے، آپ اسے ختم کردیں گے۔ ہمارے حقوق سلب ہو جائیں گے۔ لیکن اگردستور کے مطابق عمل کررہے ہیں تو ہمارا آپ کو تعاون حاصل رہے گا۔ہم اسلام پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔اس کے مواقع ہمیں حاصل ہونے چاہئیں اور اس کے نقطۂ نظر پر آپ کو غور کرنا چاہیے۔
محترم بھائیو! آخری بات یہ کہ قرآن مجید میں بتایاگیا ہے کہ شکست کے بعد فتح کا راستہ کیا ہے۔ سورۂ آل عمران کاپورا پس منظر آپ کے سامنے رہناچاہئے۔ اس سورۃ کی آخری آیت ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا ۰ۣ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (آل عمران:۲۰۰)
’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لئے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ امید ہے فلاح پاؤ گے۔‘‘
اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تمہارے دشمن بھی اپنے موقف پر جمے ہوئے ہیں۔ ان سے بازی لے جاؤ۔قرآن میں ’رابطوا ‘کا لفظ آیا ہے۔ یہ اصل میں فوج میں جس طرح کا نظم ہوتا ہے اس کے لئے آتا ہے۔حدیث میں اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔محاذ جنگ پر جس طرح فوجی جمے رہتے ہیں اس طرح جمے رہو۔
میرے ساتھیو اوردوستو!یہ ملک ہمارا ہے۔اس پر ہمارا حق اسی طرح ہے جس طرح کسی بھی دوسرے فرد کا حق ہے ، ہمیں کوئی یہاں سے ہٹانہیں سکتا۔اورہم جب تک زندہ رہیں گے اسلام کے ساتھ زندہ رہیں گے۔ ہمیں ملک ہی کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو یہ بتانا ہے کہ ہم اپنے لئے بھی اسلام کو فلاح کا ذریعہ سمجھتے ہیں اوردوسروں کے لئے بھی اسی کو کامیابی کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔بہرحال انتخابی نتائج سے بہت سے مسلمانوں پر گھبراہٹ طاری ہے۔ لیکن کم از کم آپ کے اندر یہ گھبراہٹ نہیں ہونی چاہئے۔ اگر کوئی پریشان ہے تو اسے اطمینان دلایاجائے۔ حالات کاسامنا کرنے کااپنے اندر اور دوسروں کے اندرحوصلہ پیدا کیجئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتے رہیے۔مشکل حالات میں اللہ تعالی سے خصوصی طور پر ہمارا تعلق مضبوط ہونا چاہیے۔نعم المولیٰ و نعم النصیر۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2014