اسلام کے دور آغاز میں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان یکے بعد دیگرے چار معرکے برپا ہوئے۔ ان معرکوں کا آغاز بنی قینقاع سے ہوا، پھر بنو نضیر کےساتھ معرکہ ہوا، پھر بنو قریظہ سے معرکہ پیش آیا ۔ ان سے آخری معرکہ خیبر میں ہوا۔ اسلحوں سے لیس، قلعہ بند اور زرہ بکتر سے مامون یہودی قبائل سے یہ چار معرکے یکے بعد دیگرے ہوئے جن میں سے ہر ایک یہودیوں کی شکست اور مسلمانوں کی فتح پر منتج ہوا۔
اسلام کو اس بات سے کوئی گلہ نہیں رہا کہ یہود اس کے پڑوس میں آباد ہوں، اپنے دین پر عمل پیرارہیں، نہ انھیں نکالا جائے گا اور نہ انھیں کسی طرح کے خوف و اندیشے میں مبتلا کیا جائے گا، بشرطے کہ وہ شرافت و وفاداری کی حدود کا پاس و لحاظ رکھیں۔ لیکن جب جب انھوں نے اپنی عسکری طاقت پر اترا کر دکھایا اور اس گمان میں مبتلا ہوئے کہ اپنی اس قوت و طاقت کے بل پر اسلام کو کچل ڈالیں گے تو اسلام ان سے حالت جنگ میں اسی انداز سے بھِڑ گیا جس کی مثال پہلے گزر چکی ہے۔ پھر جب اسلام نے ان کے پنجے کاٹ دیے، ان کے دانت توڑ دیے اور جن اسلحوں کو وہ غدر و خیانت کے لیے استعمال کرتے تھے، ان سے انھیں محروم کر دیا تو اسلام نے انھیں نے جزیرہ عرب کے اندر یہودی شہری بن کر رہنے کی اجازت دے دی، کہ وہ اپنے دین پر عمل پیرا رہیں اور مسلمانوں کے ساتھ حسن معاملہ کرتے رہیں۔
امام بخاری الادب المفرد میں عبداللہ بن عمروؓ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ آپؐ کے لیے ایک بکری ذبح کی گئی تو آپؐ اپنے غلام سے یہی کہتے رہے کہ‘‘ ہمارے یہودی پڑوسی کو گوشت کا ہدیہ دیا؟ ہمارے یہودی پڑوسی کو گوشت کا ہدیہ دیا؟’’ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ‘‘جبریلؑ مجھے پڑوسی کے بارےمیں اس قدر وصیت کرتے رہے کہ مجھے گمان ہو چلا کہ پڑوسی کو وراثت کا حق دار بنا دیں گے۔۔۔’’
ایک یہودی پڑوسی نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کا ایک شاگرد آپ کی تعلیمات کے مطابق اس کی تکریم کرتا ہے۔ یہ وہ اقلیت ہے کہ جس دن طاقت و قوت کے غرور سے عاری ہو جائےگی، جس دن سرکشی اور ایذا رسانی سے باز آ جائے گی، جس دن جرائم سے پاک ہو جائے گی اور کسی کے خلاف سازشیں نہیں کرے گی، جس دن اس بات کو پسند کرلے گی کہ اپنے دین پر قائم رہے گی، تو اسی دن اسلام اس قوم کو قبول کرلے گا اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے گا!
اسلام کو دھوکہ فریب، سازش اور نیچ حرکتیں پسند نہیں ہیں۔ شاید تاریخ نے ایسا ایک انسان بھی نہ دیکھا ہو جس کا دین مختلف ہو، وہ ایک ایسے ملک میں رہتا ہو جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، جہاں اقتدار مسلمانوں کا ہے، جہاں کی حکومت مسلم ہے، اور اسی مخالفِ دین شخص کے پاس مسلم ملک کا سربراہ اور مرد اول اس سے کوئی چیز خریدنے کے لیے آتا ہے تو وہ کہتا ہے: ‘‘میں قیمت کی ادائیگی کیے بغیر نہیں دوں گا یا کوئی چیز رہن رکھو۔’’
رسول اللہﷺ کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے مدینے میں ایک یہودی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے کچھ سامان طلب کیا۔ رسول اللہﷺ اس وقت جزیرہ عرب کے سربراہ تھے، اسلام کی افواج رومیوں اور فارسیوں کو دھول چٹا چکی تھیں، یہودی عسکریت کو توڑ کر اسے چت کر دیا تھا، بت پرستی کی کمر بھی ٹوٹ چکی تھی اور اسے جائے امان تلاش کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔۔ ان حالات میں بھی وہ مردِ اول جو پورے غلبہ و اقتدار کا مالک تھا، طاقت و قوت جس کے ہاتھ میں تھی، وہ اپنے مذہبی مخالفین کو بھی ہر چیز میں ان کا پورا حق فراہم کرتا ہے۔اسی لیے مدینے، یعنی عرب کے دارالحکومت کے اندر یہودی یہ محسوس کرتا تھا کہ یہاں اس کی جان و آبرو محفوظ ہے، اس کا مال، اس کی اولاد، اس کی تمام آزادیاں اور اس کی ملکیت کی تمام چیزیں محفوظ ہیں۔ اسے اس قدر آزادی حاصل تھی کہ وہ نبی محمدﷺ سے یہ کہنے کی جرأت کر سکے کہ ‘‘اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک کہ آپؐ کوئی چیز رہن میں نہیں دیں گے۔’’ چناں چہ آپؐ اسے اپنی زرہ رہن کے طور پر عطا کرتے ہیں۔
آپؐ نے یہ رویہ اس لیے اختیار فرمایا تھا تاکہ لوگوں کو امت اسلامیہ کا مزاج و طبیعت سکھا سکیں، اور یہ بتا سکیں کہ اسلام اقلیت کا خیال رکھتا ہے بشرطے کہ وہ احسان فراموشی نہ کرے، شر نہ پھیلائے، دشمنان اسلام کی ایجنٹ نہ بنے اور اسلام تک دشمن کے پہنچنے کے لیے پل کا کام نہ کرے۔
اسلام شرافت و عزت کا دین ہے اور شرافت کو عزیز رکھتا ہے، حریت و آزادی کا دین ہےاور [دوسروں کو] آزادی فراہم کرتاہے۔ اس نے اقلیتوں کو اپنی وسیع ترین سرزمین کے اندر اتنے ناز دیے کہ انھی اقلیتوں نے اس کی معیشت کو تباہ تک کر دیا۔
مطلب یہ ہوا کہ وہ [اسلامی] جنگیں جن میں یہودی ملیا میٹ ہوئے، انھیں جبراً اسلام میں داخل کرنے کے لیے نہیں تھیں، کیوں کہ اسلام تو اپنے اندر کسی کو جبراً داخل کرنے کو ناپسند کرتا ہے۔ یہ جنگیں توبھیڑیوں کو اس بات سے روکنے کے لیے تھیں کہ وہ اپنے دھار دار جبڑوں کا استعمال پرامن عوام کو نوچنے کے لیے نہ کریں، اور ان لوگوں کو خوف میں مبتلا نہ کرنے لگیں جو سرزمین اسلام کے مختلف گوشوں میں کسی حرج کے بغیر اپنے مذہب اور اپنے ضمیر کی آزادی سے ساتھ آباد رہنا چاہتے ہیں۔
لیکن یہودی اپنی خسیس و رذیل روش پر ہی قائم رہے۔ رسول اللہﷺ نے خیبر کے اندر ان کی زراعتی زمین کے ایک حصے کو ان کے لیے باقی رہنے دیا تھا۔ ٹیکس وصول کرنے والا کارندہ فصل سے نکلنے والا مسلمانوں کا حق [بطور ٹیکس] لینے کے لیے پہنچا تو یہ یہودی اسے رشوت دینے کی کوشش کرنے لگے۔وہ اس کارندے کی ساکھ اور معتبریت کو خرید لینا چاہتے تھے۔ وہ فرد مسلم ان کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے: اے یہودی قوم! خدا کی قسم تم میرے نزدیک اللہ کی سب سے ناپسندیدہ قوم ہو۔ اور یہ چیز مجھے تمھارے اوپر زیادتی کرنے کے لیے مجبور کر رہی ہے۔ پھر جب یہودیوں نے اس شخص کی امانت داری کو محسوس کر لیا تو بولے: ‘‘یہ ہےوہ عدل و ایمان داری، جس کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں۔’’
اگر آسمان وزمین عدل پر قائم ہیں تو عدل کرتے کیوں نہیں ہو؟!
حضرت عمر بن خطابؓ مختلف طرح کی کوششوں کے بعد آخرکار اس بات کے لیے مجبور ہو گئے کہ یہودیوں کو جزیرہ عرب سے ہی جلاوطن کر دیا جائے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اس کے بعد عالم اسلام کے اندر یہویوں کی قلیل تعداد ہی رہ گئی، جنھیں کسی [مسلمان] نے کوئی گزند نہیں پہنچائی۔ لیکن یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہماری اسلامی ثقافت، ہمارے معاشرے اور ہمارے ماحول کو نقصان پہنچایا ہے۔
اس وقت ان یہودیوں پر ملامت مقصود نہیں ہے۔اس وقت ملامت کے مستحق وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک حریت و اجازت کا مطلب انارکی ہےاور جو یہ سمجھتے ہیں کہ مذاہب کو آزادی دینے کا مطلب آزادیاں عطا کرنے والے اسلام کو طرح طرح کی گندی سازشوں کا نشانہ بنانا ہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2024