جنوبی ہندوستان کا اجتماع عام ۲۵ اپریل ۱۹۴۷ کو مدراس میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں شہر کے کچھ بلوائیوں نے حملہ کردیا اور اجتماع گاہ میں بہت زیادہ توڑ پھوڑ مچائی۔ اس موقع پر رفقائے جماعت کا سخت امتحان تھا کہ وہ بلوائیوں کی شر پسندی کے جواب میں اپنی اخلاقی اقدار و روایات کی پاس داری کس طرح کرتے ہیں۔ اللہ کاشکر ہے کہ اس موقع پر جب کہ آسانی سے جذبات بے قابو ہوجاتے اور ٹکراؤ کی نوبت خون خرابے تک پہنچ جاتی، رفقائے جماعت نے اپنی اعلی اقدار و روایات کی بہترین عملی شہادت پیش کی۔ اس موقع پر جو کچھ پیش آیا اور جماعت کے ذمے داروں اور کارکنوں کا جو شان دار کردار رہا، وہ ملاحظہ فرمائیں۔
اجتماع کے پہلے اجلاس میں جماعت کی سالانہ روداد سنائی جا رہی تھی کہ چاربجے شام کے قریب چالیس پچاس آدمیوں پر مشتمل ایک گروہ مسلم لیگ کا جھنڈا لیے ہوئے نعرے بلند کرتا ہوا اجتماع گاہ کے صدر دروازے پر آکررُ کا اور اس نے نعروں اور دوسرے طریقوں سے اس قدر شور مچانا شروع کیا کہ باوجود لاؤڈ اسپیکر کے مقرر کی آواز سامعین تک پہنچنا مشکل ہو گئی ۔ امیرِ جماعت نے جو اس وقت اجلاس کے صدر تھے ،قیم صاحب کو رپورٹ بند کر دینے اور شرکائے اجتماع کو بالکل خاموش اور پر امن رہنے کے لیے کہا اور اجتماع گاہ میں کامل خاموشی چھا گئی۔ باہر سے آنے والا گروہ بدستور شور کرتا رہا۔ کچھ آدمی اجتماع گاہ میں بھی داخل ہوئے اور انہوں نے ابتری پھیلانے کی کوشش کی اور کچھ لوگ اجتماع گاہ کے صدر دروازے پر چڑھ گئے اور انہوں نے دروازےپر مسلم لیگ کا جھنڈا لگا دیا۔ اس پر جماعت کے جو کارکن دروازے پر موجود تھے انہوں نے اس گروہ کے لیڈروں سے کہا کہ بھائی ، اگر یہ جھنڈا لگانے ہی کی بات تھی تو اس قدر ہنگامہ آرائی کی کیا ضرورت تھی ۔ آپ ہمیں کہتے تو ہم خود ا سے لگا دیتے ۔ اب اندر تشریف لے چلیے اور کار روائی سنیے ۔ چنانچہ یہ سب لوگ اجتماع گاہ میں بیٹھ گئے اور اجلاس کی کارروائی پھر شروع ہوئی ۔ یہاں یہ بیان کر دینا بھی مناسب ہو گا کہ اس ہنگامے کے دوران میں پولیس کی گارد نے جو اپنے انتظامات کے سلسلے میں آئی ہوئی تھی کئی مرتبہ خلل انداز ہونے کی کوشش کی لیکن ہمارے کارکنوں نے ان سے صاف سے صاف کہہ دیا کہ : اپنے اجتماع میں امن قائم رکھنے کے ہم خود ذمہ دار ہیں ، آپ سے ہم کوئی مدد نہیں لینا چاہتے، آپ ہمیں اپنے طریقے پر کام کرنے دیں۔
دوسرے اجلاس میں مولوی مظہر الدین صاحب اور اور قیم جماعت کی تقریریں تمام حاضرین نے جن کی تعداد پانچ چھ سو تھی نہایت صبر اور خاموشی سے سنیں جب قیم جماعت کی تقریر ختم ہوئی تو مسلم لیگ کے ایک سرکردہ کارکن ڈاکٹر نعمت اللہ صاحب نے حسب ذیل سوال چِٹ پر لکھ کر قیم جماعت کو دیا :
’’کیا اسلام اور مسلمانوں کی خدمت ایک وقت نہیں کی جاسکتی ۔ اگر نہیں تو کیوں ؟‘‘
اس کے ساتھ ہی ایک مسلم لیگی عالمِ دین نے جو بہت بزرگ صورت اور عمر رسیدہ تھے، حسب ذیل سوال لکھ کر قیم جماعت کو جواب کے لیے دیا : ’’اگر ہم کسی فاسق و فاجر شخص کو اپنا رہنما بنا لیں تو ہم جہنّم میں جائیں گے؟‘‘
ان دونوں سوالوں کو ہاتھ میں لے کر قیمِ جماعت مائیکرو فون پر ابھی آکرکھڑےہی ہوئےتھے کہ دوتین سو آدمی یک دم اجتماع میں کھڑے ہوگئے اور انہوں نے مسلم لیگ زندہ باد ، قائد اعظم زندہ باد ، پاکستان زندہ باد اور جمعیة العلماء مردہ باد کے نعرے بلند کرنے شروع کر دیے اور اس قدر غل مچایا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔قیم جماعت نے لاؤڈ اسپیکر کی مدد سے تمام ارکان اور ہمدرد حضرات کوتلقین کی کہ وہ بالکل خاموش اور پرامن رہیں، بلوائیوں کے کسی قول و فعل کا نوٹ نہ لیں، نہ ان کی کسی حرکت کا کوئی جواب دیں ۔ جماعتِ اسلامی دنیا میں امن وامان قائم کرنے اور فساد کو مٹانے کے لیے اٹھی ہے، فساد مچانے کے لیے نہیں اٹھی، اگر خدا خواستہ بلوائیوں کے ہاتھ سے کسی کو چوٹ بھی آجائےتو اسے اس کو صبر سے برداشت کرنا چاہیے۔ فساد کو روکنے کے لیے جان دے دینا بزدلی نہیں، بہادری ہے ۔ ہم انبیائے کرام کے مشن کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں، ہمیں دنیا کو اخلاق کا سبق دینا ہے، ہمیں اپنے پیشوا کی طرح پتھروں کا جواب دعائے خیر سے دینا ہے اس لیے اپنے جذبات پر قابورکھیے۔چنا نچہ تمام ارکان اور ہمدرد حضرات اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھے رہے اور قطعًا کوئی جوابی حرکت نہ کی۔ پھر بلوائیوں نے ا سٹیج کی طرف آگے بڑھنا شروع کیا اور ادھر اُدھر کچھ جوتے بھی پھینکے ۔ یہ دیکھ کر ڈاکٹر نعمت اللہ صاحب نے اسٹیج پر پہنچ کر بلوائیوں کو امن کی تلقین کرنی چاہی، لیکن انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو بھی برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔
اس کے بعد بلوائیوں نے پھر ہنگامہ برپا کرنا شروع کیا ، جلسہ گاہ سے نکل کر اسٹور اور کچن میں گھس گئے ، تقریبًا پچاس آدمیوں کا کھانا لوٹ کرلے گئے اور نہایت بے حیائی کے سامنے ٹھٹے مارتے ہوئے شارعِ عام پر دو رو یہ کھڑے ہوکراس لوٹے ہوئے کھانے کو کھاتے رہے۔
اس ہنگامے کے دوران میں پولیس کی ٹیم نے اپنی امداد کے لیے ایک لاری پولیس کی اور منگوالی اور بار بار چاہا کہ دخل انداز ہوں ، یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے کارکنوں کو بزدلی کا طعنہ بھی دیا اور کہا کہ تم عجیب لوگ ہو کہ تمہیں اپنی عزت کی بھی پروا نہیں ، تمہاری اس قدر تو ہین کی جارہی ہے اور تم الٹے ہمیں مداخلت سے روک رہے ہو۔ لیکن جماعت کے کارکن برابر ان سے یہی کہتے رہے کہ آپ کے دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہم آپ کو اطمینان دلاتے ہیں کہ یہاں کوئی فساد نہ ہوگا کیوں کہ فساد ہمیشہ جوابی کارروائی سے ہوا کرتا ہے اور ہم فیصلہ کر چکے ہیں کہ یہ لوگ خواہ کچھ کریں ہم ان کے جواب میں کوئی کارروائی نہ کریں گے۔ ہم اس کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں کہ اپنے بھائیوں پر آپ سے لاٹھیاں اور گولیاں چلوائیں۔
گیارہ بجے کے قریب جب بلوائی منتشر ہوئے اور بالکل امن ہو گیا اور کسی خرابی کا اندیشہ باقی رہا تب صدر اجلاس مولا نا محمد اسمعیل صاحب اور قیم جماعت اسٹیج سے اٹھے اور اپنی اپنی قیام گاہ کو چلے گئے۔ (روداد پنجم، ص ۱۲۶ تا ۱۳۲)
اگلے دن کا منظر بھی افسوس ناک تھا۔
بلوائیوں نے پورے اجتماع گاہ میں مسٹر جناح کی بیسیوں تصویریں لٹکا رکھی تھیں۔ ہر طرف ابتری مچا رہے تھے اور اوباشی کا وہ مظاہرہ کر رہے تھے کہ الامان الحفیظ۔ ان کے لیڈروں نے کوئی گھنٹہ بھر کی مسلسل جدوجہد اور ردّوکد کے بعد ہجوم کو ذرا قابو میں کیا اور ان کے جذبات کو اپیل کرنے کے لیے کچھ نعرے بلند کیے۔ ایک دو تقریریں بھی کیں اور انہیں بتا یا کہ آپ نے اسٹیج کو تو فتح کرلیا ہے اب بتائیے کہ مولانا مودودی صاحب کی تقریر سنا چاہتے ہیں یا نہیں ؟ اگر آپ چاہیں تو وہ تقریر کریں گے اور نہیں چاہیں تو نہیں کریں گے۔ اس کے جواب میں ہجوم نے جس کی تعداد چھ سات سو تھی جواب دیاکہ ہرگز نہیں سنیں گے۔ اس پر لیڈر صاحبان نے انہیں منتشر ہو جانے کے لیے کہا۔
لیکن ہجوم اس کےبعد بھی دیر تک شورمچاتا اورہنگامہ برپاکرتارہا۔ اگلے روز جب اجتماع گاہ کے سامان کا جائزہ لیا گیا تو بہت سے برتن اور چٹائیاں غائب تھیں۔ اس ہنگامے کے وقت بھی پولیس بہت بڑی جمعیت میں موجود تھی اورا س نے کافی انتظام کر رکھاتھا ، کیونکہ صبح سے ہی یہ مشہور تھا کہ آج بلوائی فساد کی تیاری کر کے آئیں گے اور اجتماع گاہ کو آگ لگائیں گے۔ لیکن پولیس کے شدید اصرار کے باوجود جماعت کے کارکنوں نے انہیں دخل انداز ہونے سے منع کیا اور ان سے کہا کہ جو لوگ جذبات کے جوش میں آکر پاگل ہو گئے ہوں اور اپنا توازن کھو چکے ہوں ان پر لاٹھیاں اور گولیاں چلا نا ظلم اور زیادتی ہے۔ ہمیں ان پرغصہ نہیں، رحم آرہا ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ ان شاء اللہ ایک روز ہم ان کی بیماری کو دور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔(روداد پنجم، ص ۱۳۶ تا ۱۳۷)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2024