(محلے کے اجتماعی نظام کی بہت سی مثالیں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ملتی ہیں۔ ہم نے بطور مثال کیرلا کے محل نظام کا انتخاب کیا ہے۔ امید ہے یہ تعارف دوسرے علاقوں میں بھی بہتر اجتماعی شکلیں اختیار کرنے میں مدد گارہوگا۔ مدیر)
اسلام نے اجتماعیت کو بہت اہمیت دی ہے اور امیر کی اطاعت کو لازمی قرار دیاہے ، جنوبی ہند خاص طور سے کیرلا کے مسلمانوں کے اندر اجتماعیت کا شعور بہت گہرا اور پختہ ہے ، میں تیس سالوں سے کیرلا میں مقیم ہوں ، یہاں کے لوگ ہر کام مل جل کر کرتے ہیں ، امیر ہو یا غریب ہر مسلمان اپنے امیر اور اولو الامر کی اطاعت کرتا ہے ۔ یہاں کا ہر اجتماعی کام مشورے سے ہوتا ہے ۔
محل کا نظام
کیرلا میں صدیوں سے قائم ایک نظام ہے جسے محل کہتے ہیں ،محل کا تصور ایک جامع مسجد اور ایک قبرستان کے بغیر ممکن نہیں ۔
محل سے مراد وہ ایک خاص علاقہ ہے جہاں کے لوگ ایک خاص قبرستان میں دفن ہوتے ہیں ۔ وہ مسجد جو قبرستان کے پاس ہو اور جہاں سے محل سے متعلق کاموں کا انتظام ہوتا ہو اسے محل مسجد کہتے ہیں۔ اس طرح کی مساجد عام طور سے سینکڑوں سال پرانی ہیں۔ اب تو لوگوں کی سہولیات اور آبادی میں اضافے کی وجہ سے ایک محل کی کئی مساجد میں نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے ۔مگر پہلے دس دس کلومیٹر کے فاصلے پر جامع مساجد ہواکرتی تھیں اور ایک محل میں ایک ہی جامع مسجد ہوتی تھی ۔ بعد میں ایک تبدیلی یہ آئی کہ آبادی کے رجحان کے پیش نظر مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کے محل ہونے لگے ، جیسے سنی محل (روایتی شافعی مکتب فکر) ، مجاہد محل (اہل حدیث مکتب فکر) اور جماعت اسلامی محل ۔
محل کے کام
محل کے ذریعے مندرجہ ذیل کام ہر مقام پر ہوتے ہیں ۔
۱۔ ہر محل میں ایک قبرستان ہوتا ہے جس کے انتظامات کی ذمے داری محل کمیٹی کی ہوتی ہے ۔
۲۔ محل کے دائرے میں آنے والی تمام مساجد کے انتظام و انصرام کی ذمے داری محل کمیٹی کی ہوتی ہے ۔
۳۔دینی شعور پیدا کرنے یا باقی رکھنے کے لیے محل کمیٹی موقع اور مناسبت کے لحاظ سے متعدد پروگرام کرتی ہے ، جیسے سنی محل کی کمیٹی ربیع الاول میں مشہور مقررین کے پروگرام رکھتی ہے ۔ بارہ ربیع الاول کے موقع پر محل کے باشندے مسجد میں جمع ہوتے ہیں بارہویں ربیع الاول کی شب میں اجتماعی شب گذاری ہوتی ہے ، بچے بوڑھے جوان سب جمع ہوتے ہیں صلوٰة و سلام کی محافل سجتی ہیں ۔ مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں اور دن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اظہار میں بڑے پر وقار انداز میں جلوس نکلتا ہے ۔کیرلا کے ہندو ہوں یا مسلمان سب اپنے سیاسی اور مذہبی جلوس بڑے پر وقار انداز سے نکالتے ہیں سڑک کے ایک طرف ہوکر تین چار آدمیوں کی قطاریں ہوتی ہیں ۔ یعنی آگے تین آدمی پھر اس کے پیچھے تین آدمی اس طرح بعض مرتبہ کئی کئی کلومیٹر کی لمبی لائن ہوجاتی ہے ، اس کی وجہ سے دوسروں کو زیادہ تکلیف نہیں ہوتی ۔
۴۔محل کا ایک کام غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور محبت کی فضا قائم کرنا اور اسے باقی رکھنا بھی ہے ۔
ویمبلور ، کڈنگلور ضلع ترشور کی محل کمیٹی نے ” مسجد ویلفیئر سوسائٹی” تشکیل دی ہے جس کے بہت سارے ممبران غیر مسلم ہیں ۔
۵۔ہر محل میں ایک قاضی صاحب ہوتے ہیں ، جو دینی رہنمائی کا کام انجام دیتے ہیں ، بعض محل میں ایک یا اس سے زائد نائب قاضی بھی ہوتے ہیں ۔
قاضی صاحب کے اہم کام یہ ہیں:
۱۔ وعظ و تقریر کے ذریعے دینی رہنمائی کرنا ۔
۲۔ محل کی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینا ۔
۳۔ اگر ضرورت ہو تو جمعہ کی نماز سے قبل یا اس کے بعد ملیالم زبان میں وعظ و نصیحت کرنا ۔
اہل حدیث اور جماعت اسلامی کے یہاں مقامی زبان میں خطبہ جمعہ بہترسمجھا جاتا ہے ، اس لیے ان کی مسجدوں میں خطبہ کے ضروری حصے عربی میں اور نوے پچانوے فیصد حصے ملیالم میں ہوتے ہیں ۔ جب کہ شوافع کے یہاں خطبہ جمعہ عربی میں واجب ہے اس لیے ان کی مساجد میں پورا خطبہ جمعہ عربی میں ہوتا ہے ۔ ان کے اکثر خطباء کتاب دیکھ کر خطبہ پڑھتے ہیں ، اور کچھ خطباء اپنا خطبہ لکھ کر لاتے ہیں ، اور اسے دیکھ کر پڑھتے ہیں ۔ یا بغیر دیکھے خطبہ دیتے ہیں ۔
۴۔ نکاح پڑھانا ، کیرلا میں ہر محل مسجد میں دفتر نکاح ہوتا ہے ، نکاح سے چند دن قبل مسجد کے ذمے داروں کو دولہا اور دولہن سے متعلق پوری جانکاری دینا ضروری ہے ، محل کے صدر اور سکریٹری دولہا اور دو لہن سے متعلق پوری جانکاری حاصل کرنے کے بعد ہی قاضی صاحب کو نکاح پڑھانے کی اجازت دیتے ہیں ، تب قاضی صاحب نکاح پڑھانے جاتے ہیں ، اور محل مسجد کے مؤذن صاحب کی ذمے داری یہ ہے کہ دفتر نکاح (نکاح کا رجسٹر) اپنے ساتھ لے جائیں ، اور نکاح کے وقت حاضر رہیں ، دولہا ،دلہن ، ان دونوں کے اولیاء ، اور گواہان سے دستخط کروائیں ، اس پورے عمل کے دوران قاضی صاحب نگرانی کرتے ہیں ۔
۵۔محل کے ہر فرد کی نماز جنازہ میں شریک ہونا ، اگر میت کے ورثاء میں سے کوئی نماز جنازہ پڑھانے کے لائق نہیں ہو یا ورثاء قاضی صاحب سے ہی نماز جنازہ پڑھوانا بہتر سمجھتے ہوں تو نماز جنازہ پڑھانا ، تدفین کا عمل شروع ہونے سے اس کے مکمل ہونے تک دعائے تثبیت اور دعائے مغفرت بلند آواز سے کرنا ۔
شانتاپرم محل ایک مثالی محل
شانتا پورم محل 132سال قبل 1892عیسوی میں قائم ہوا تھا۔ اس کا رجسٹریشن 1951 میں ہوا یہ پہلے ایک سنی محل تھا ، اس کے بعد 1950 کے آس پاس یہ جماعت اسلامی محل بن گیا، اس لیے کہ اس محل کے باشندے جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر ہوگئے ۔
محل کی مرکزی کمیٹی کا انتخاب
شانتا پورم محل کے انتظامات کے لیے ہر دو سال پر ایک مرکزی کمیٹی کا انتخاب ہوتا ہے ، اس کا انتخاب کاؤنسلر کرتے ہیں ، پورے شانتا پورم محل کے لیے پچاس کاؤنسلروں کا انتخاب عوام کے ذریعے ہوتا ہے ۔ شانتاپرم محل کو چار وارڈ ، شانتاپرم ، ملیاکرشی ، پلی کوت شمالی اور پلی کوت جنوبی میں تقسیم کیا گیا ہے ، شانتاپرم اور ملیاکرشی سے پندرہ پندرہ اور پلی کوت شمالی اور پلی کوت جنوبی سے دس دس کاؤنسلرز منتخب کیے جاتے ہیں ۔
کاؤنسلروں کے انتخابات کا اعلان ایک دو ہفتے قبل جمعہ کی نماز کے بعد کیا جاتا ہے ، کاؤنسلروں کے انتخاب میں اٹھارہ سال کے تمام مرد و خواتین سے ووٹ دینے کی گذارش کی جاتی ہے ۔ یہ انتخاب مسجد میں ہی جمعہ کی نماز کے بعد ہوتا ہے ۔ اس انتخاب میں پچاس افراد کو منتخب کیا جاتا ہے ۔ بیس نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہیں ۔
ووٹنگ کے وقت محل میں رہنے والے اٹھارہ سال کی عمر پار کرنے والے تمام مردو و خواتین کو ایک چھپا ہوا بیلٹ پیپر دیا جاتا ہے جس میں پندرہ مرد اور پانچ خواتین کا نام لکھنے کی گذارش کی جاتی ہے ، پانچ کاؤنسلر محل کے قاضی کے حکم اور مشورے سے نامزد کیے جاتے ہیں ، اس طرح کاؤنسلروں کی تعداد پچپن ہوجاتی ہے ، اور پھر ان کاؤنسلروں میں سے محل کی مرکزی کمیٹی کے ممبران کا انتخاب ہوتا ہے ۔
مرکزی کمیٹی کے ممبران
پچپن کاؤنسلروں میں سے تیس رکنی مرکزی کمیٹی کا انتخاب ہوتا ہے ۔ ان میں سے نو خواتین ہوتی ہیں اور اکیس مرد ہوتے ہیں ، قاضی صاحب اور نائب قاضی صاحبان بھی مرکزی کمیٹی کے ممبران ہوتے ہیں ، قاضی صاحب ہی اس کمیٹی کے صدر ہوتے ہیں ، یہ شانتاپرم محل کے دستور میں ہے کہ شانتاپرم محل کے قاضی صاحب ہی محل کمیٹی کے صدر ہوں گے ، قاضی صاحب چاروں وارڈ سے ایک ایک سرپرست کا انتخاب کرتے ہیں ، یہ چاروں سرپرست بھی مرکزی کمیٹی کے ممبر ہوتے ہیں ، سرپرست وارڈ کے سب سے عمر دراز اور وارڈ میں نیکی اور علم میں مقبول شخصیت کو بنایا جاتا ہے ، اس طرح فی الحال شانتاپرم محل کی مرکزی کمیٹی میں انتالیس ممبران ہیں ، تیس عوام سے منتخب ، چار سرپرست ، قاضی صاحب ، اور چار نائب قاضی صاحبان ۔
سب کمیٹیاں
شانتاپرم محل کی مرکزی کمیٹی کے علاوہ 12 سب کمیٹیاں ہیں جن کے نام یہ ہیں اور جن کے ناموں سے ہی ان کے کاموں کا اشارہ ملتا ہے ۔ ان سب کمیٹیوں میں مرکزی کمیٹی کے ممبران بھی ہوتے ہیں ، اور وہ پچیس کاؤنسلروں بھی ہوتے ہیں جو مرکزی کمیٹی کے ممبر نہیں ہیں ، اور وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو ان دونوں میں شامل نہیں ہیں ، بس شرط یہ ہے کہ شانتاپرم محل کا ہی باشندہ ہو اور اس کا اپنا گھر یہاں ہو ، اور ان سب کمیٹیوں میں سے کسی بھی کمیٹی میں کام کرنے اور اس کو ترقی دینے کا اہل ہو ۔
- تربیت کمیٹی
- زکوة کمیٹی
- ترقی کمیٹی
- ایچ آر ڈی کمیٹی
- مدرسہ کمیٹی
شانتاپرم محل میں چھ صباحی مدرسے ہیں جہاں اتوار کے علاوہ ہر دن ڈیڑھ گھنٹے دینیات کی تعلیم ہوتی ہے ۔ اس کے بعد بچے اسکول جاتے ہیں ، ان مدرسوں میں جماعت اسلامی کیرالا کی مجلس تعلیمی کا وضع کردہ نصاب پڑھایا جاتا ہے ۔
- یوتھ ونگ کمیٹی
- خواتین ونگ کمیٹی
- بلا سودی قرض دینے اور بلا سودی بینک چلانے والی کمیٹی
- ماڈل اسکول کی کمیٹی اس محل میں ایک ماڈل اسکول ہے جس کی ایک کمیٹی ہے ۔
- میرج بیورو کمیٹی
- پرواسی کمیٹی
- کلسٹرسوں (clusters) سمودھانم ( جھنڈ انتظام ) کی کمیٹی بلا سودی قرض کے نظام کو چلانے اور دیگر رفاہی ، سماجی اور دینی کاموں کے لیے شانتا پورم محل میں پندرہ پندرہ یا سولہ سولہ گھروں کے 65 جھنڈ بنائے گئے ہیں ۔
محل کے خاندان و افراد
محل میں 1080 خاندان ہیں اور ان میں تقریبا 5200 افراد ہیں اس محل کو چار وارڈ میں تقسیم کیا گیا ہے جن کے نام یہ ہیں ، شانتاپرم وارڈ ، ملیا کرشی وارڈ ، پلی کوت شمالی ، پلی کوت جنوبی ، ہر وارڈ سے پندرہ یا بیس افراد منتخب کیے جاتے ہیں جو کاؤنسلر کہلاتے ہیں۔
شانتاپرم محل کی رفاہی خدمات
- شانتاپرم محل میں 35 لاکھ تک زکوة کے پیسے ہر سال جمع ہوتے ہیں جن سے مندرجہ ذیل کام انجام پاتے ہیں ۔
- ہر سال شانتاپرم محل کے دائرے میں ایک ایک ہزار اسکوائر فٹ کے چار گھر بنائے جاتے ہیں جن میں سے ہر گھر پر ساڑھے چھ لاکھ روپے خرچ کیے جاتے ہیں ، ان میں سے ہر گھر میں دو کمرے اور باتھ روم اور ہال وغیرہ ہوتے ہیں ، اس طرح ہر سال چھبیس لاکھ روپے مکان بنانے میں خرچ ہوتے ہیں۔
- محل کے 150غریب مرد و خواتین کو ہر مہینے ایک ہزار روپے کا پنشن دیا جاتا ہے ، اس طرح ہر ماہ ڈیڑھ لاکھ پینشن پر خرچ کیے جاتے ہیں ۔
- بیماروں کی مدد میں بھی دو ڈھائی لاکھ روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔
- غریب بچوں کی تعلیمی مدد میں بھی تین لاکھ روپے تک خرچ کیے جاتے ہیں ۔
- محل کے غریبوں کے پرانے گھروں کی مرمت بھی کی جاتی ہے ، اس مد کے لیے کوئی فنڈ متعین نہیں ہے اور نہ ہی ہر سال اس فنڈ میں خرچ کیا جاتا ہے ، اس مد میں خرچ بوقت ضرورت کیا جاتا ہے ۔
- جو لوگ اپنا قرض ادا نہیں کر سکتے، قرض کی ادائیگی میں ان کی بھی مدد کی جاتی ہے، اس مد کے لیے بھی کوئی فنڈ متعین نہیں ہے اور نہ ہی ہر سال اس فنڈ میں خرچ کیا جاتا ہے ، اس مد میں خرچ بوقت ضرورت کیا جاتا ہے ۔
- غریبوں کے لیے معاش کے ذرائع اور آلات مہیا کیے جاتے ہیں جیسے کسی کو آٹو رکشہ خرید کر دیا جاتا ہے تو کسی کو آلات حرفت مہیا کیے جاتے ہیں ۔اس مد کے لیے بھی کوئی فنڈ متعین نہیں ہے اور نہ ہی ہر سال اس فنڈ میں خرچ کیا جاتا ہے ، اس مد میں خرچ بوقت ضرورت کیا جاتا ہے ۔
لڑکیوں کی شادی میں مدد
غریب لڑکیوں کی شادی میں مدد کی جاتی ہے ,اس مد کے لیے بھی کوئی فنڈ متعین نہیں ہے اور نہ ہی ہر سال اس فنڈ میں خرچ کیا جاتا ہے، اس مد میں خرچ بوقت ضرورت کیا جاتا ہے ۔ یہ سب کام زکوة کے پیسے سے ہوتے ہیں۔
غیر سودی بینک
بغیر سود کے قرض دینے والا ایک بینک بھی ہے اس سے ایک آدمی کو ڈیڑھ سال کے لیے ڈیڑھ لاکھ تک قرض دیا جاتا ہے۔
اس بینک میں زکوة کا پیسہ نہیں ہوتا ، بلکہ اس بینک میں محل کے افراد ہی اپنے پیسے جمع کرتے ہیں ، اس بینک میں پیسوں کا لین دین آئل کوٹم( پڑوسیوں کا گروپ) سسٹم کے تحت ہوتا ہے ، پورے محل میں 65 آئل کوٹم گروپ ہیں ۔ ہر گروپ میں بیس ارکان ہوتے ہیں ، اس طرح باون سو کی آبادی میں تیرہ سو افراد آئل کوٹم میں شامل ہیں ، ہر آئل کوٹم گروپ کے قائدین ہوتے ہیں اور ان ہی کی سفارش سے اس بینک سے ڈیڑھ لاکھ تک کا قرض دیا جاتا ۔
ماڈل اسکول
یہ اسکول کے جی سے چوتھی کلاس تک کا پرائمری اسکول ہے ۔ اس اسکول میں فی الحال تقریباً ڈھائی سو طلبہ زیر تعلیم ہیں ، اس اسکول کے بچے تعلیمی اور ثقافتی مقابلہ جاتی امتحانات میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
مساجد
شانتاپرم محل میں چھوٹی بڑی بارہ مساجد ہیں جن میں سے چار مساجد میں نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے ، ان چاروں میں خطباء مقرر ہیں ، اور ان چاروں مساجد کی الگ الگ کمیٹیاں ہیں ۔
صدقات فطر کی جمع و تقسیم
شانتاپرم محل کمیٹی کے ارکان صدقات فطر کے پیسے اکٹھا کرنے اور پھر ان کو تقسیم کرنے کا کام انجام دیتے ہیں ، محل کے ہرفرد سے صدقہ فطر کی رقم وصول کی جاتی ہے ، اور پھر اس رقم سے چاول اور دیگر غلے وغیرہ خرید کر اتنے کیٹس بنائے جاتے ہیں جتنے خاندان اس مد کے مستحق ہوتے ہیں ۔ اور پھر یہ کیٹس ان کے گھر پہونچایا جاتا ہے ۔ یا مستحق حضرات خود آکر لے جاتے ہیں۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم
شانتاپرم محل کمیٹی کی نگرانی میں قربانی کے گوشت کو جمع کیا جاتا ہے اور پھر اسے محل کے ہر فرد کو برا بر برابر مقدار میں دیا جاتا ہے ، قربانی کرنے والے حضرات اپنی قربانی کا دو تہائی حصہ ایک متعین جگہ پر جمع کرتے ہیں جمع شدہ تمام گوشت کو تولا جاتا ہے ، پھر یہ دیکھا جاتا ہے ایک فرد پر کتنا گوشت آئے گا ، رمضان میں صدقات فطر جمع کرنے کے وقت ہر گھر کے افراد کا ڈیٹا جمع رہتا ہے ، دس سال سے چھوٹے اور چھوٹی کو دس سال سے بڑے اور بڑی کا نصف دیا جاتا ہے ۔ اور باضابطہ ترازو سے تول کر گوشت دیا جاتا ہے ۔قربانی کے گوشت کی تقسیم کے عمل میں بیسیوں رضاکار بلا معاوضہ دن بھر کام کرتے ہیں اور تمام افراد خواہ غریب ہو یا امیر لائن لگا کر اپنے اپنے حصے کا گوشت وصول کرتے ہیں ، جس نے قربانی کی ہوتی ہے ، اسے بھی اس کا حصہ دیا جاتا ہے جس کا نام پکارا جاتا ہے وہ آگے بڑھ کر اپنا گوشت لیتا ہے ۔ گوشت کی جمع و تقسیم کا عمل چار پانچ بجے شام تک مکمل ہو جاتا ہے ۔
محل آفس شانتاپرم
دو سال قبل تقریبا ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے ایک شاندار دو منزلہ محل آفس بھی تعمیر ہوا ہے ، اس میں دو ہال اور چند کمرے ہیں ، اس آفس میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ مفید پروگرام ہوتے رہتے ہیں
مشمولہ: شمارہ نومبر 2025






