ہندوستان کا آئین دنیا کا ضخیم ترین تحریری دستور ہے جسے ملک کے بنیاد گزاروں نے اس یقین کے تحت وضع کیا تھا کہ اس کے ساتھ عہد بستگی نہ صرف ملک کا نظم و نسق منصفانہ انداز میں چلانے میں ممد ہوگی بلکہ یہ آئین جمہوریت اور سیکولر اقدار کی بقا و دوام کا ضامن بھی ہوگا۔ تاہم ہمارے آئین ساز بزرگوں کے سان و گمان میں بھی شاید یہ بات نہ رہی ہوگی کہ کوئی داخلی نظریہ ان تمام جمہوری افعال اور حقوق و آزادی کی بنیادوں کو سبوتاژ کرنے کا سبب بن سکتا ہے جن پر تکثیری سیاسیات کی بلند و بالاعمارت اٹھائی گئی ہےاور جب ایسا ہوگا تو آئین کی موجودگی بھی انحطاط کے اس سیلاب پر بند باندھنے میں کامیاب نہ ہوسکے گی۔
دلی فساد اور آزادی کے بعد ہونے والے ہزاروں فساد جن میں اقلیتوں پر ظلم ہوا، پارلیمنٹ سے این ایس اے اور سی اے اے جیسے قوانین کی منظوری جن کی زد پر اقلیتیں ہیں، دفعہ 370 کی تنسیخ، خصوصی طور پر جس طریقے سے اسے منسوخ کیا گیا اور جس طرح اس کے بعد جموں و کشمیر میں تالہ بندی کرکے تمام سرکردہ لیڈروں کو گرفتار کیا گیا، ان تمام باتوں سے کسی کو بھی اس بات میں ذرہ برابر شبہ نہ ہونا چاہیے کہ اب وطن عزیز اکثریتی راج (majoritarian state) کے مضبوط شکنجے میں ہے اور ساری سرکاری مشینری برسر اقتدار اشرافیہ کے احکام کی تعمیل اپنے تمام تر اختیارات کا استعمال کر رہی ہے۔
زیر نظر کتاب Majoritarian State: How Hindu Nationalism is Changing India میں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آخر یہ اکثریتی راج کس طرح وجود پذیر ہوا اور مستقبل میں یہ کیا صورت اختیار کرے گا؟ اس کتاب میں تاریخ، عمرانیات، سماجیات اور سیاسیات کے معروف دانش وروں نے بین علومی مطالعے کی مدد سے ہندوستانی سیاست اور اس کی جمہوری روایات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
کتاب کو تین فاضل ایڈیٹروں نے مرتب کیا ہے جو جنوبی ایشیائی مطالعات میں معاصر دنیا کے معروف ماہرین میں سے ہیں۔ انگنا چٹرجی سینئر ماہر عمرانیات اور مورخ ہیں، تھامس بلوم ہینسن ماہر عمرانیات ہیں جبکہ کرسوٹوف جیفرلوٹ علوم سیاسیات میں معروف نام ہیں۔ کتاب میں اکیس بین علومی مقالے ہیں جو ہندتوا سیاست کے نفوذ اور قریباً تین عشروں پر مشتمل عرصے کے دوران میں سیاسی غلبے، تاریخ نگاری، ثقافت، دلت اور آدی باسی تشخص کی سیاست، صنفی سیاست اور اور ریاست کے اقلیتوں اور کم زوروں کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے تجزیوں پر مشتمل ہیں۔ کتاب کا اصل فوکس اس جائزے پر ہے کہ خصوصی طور پر ملک کے تکثیری اوصاف کس طرح اکثریت پسندی کی جانب مائل ہوئے ہیں۔ مدیران کتاب کے بقول نریندر مودی کے اقتدار میں چار مخصوص اوصاف پائے جاتے ہیں، جو بعض دوسرے آمریت پسندی کا میلان رکھنے والے ممالک میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، مثلاً امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے اقتدار میں یہ خصوصیات موجود ہیں: اکثریت پسندی، عوامی مقبولیت، قومیت اور جابریت۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت دو مزید ایسی خصوصیات کی حامل ہے جو شاید ہندوستان کے علاوہ کہیں اور نہیں پائی جاتیں۔ پہلی خصوصیت اس کا وسیع تر قومی مفاد کو کارپوریٹ، بڑے بزنس ہاؤسز اور اونچی ذاتوں کے مفادات کی خاطر بھینٹ چڑھادینا ہے، اور دوسری خصوصیت عوامی اور سیاسی ڈسکورس میں اقلیت مخالف بیانیے کو فروغ دینا ہے جس کے لیے یہ ہندتوا قوم پرستی کو کام میں لاتی ہے۔
دیباچے میں مدیر ان رقم طراز ہیں:
2014 میں بی جے پی کی فتح سے دو ایسی صورتیں ابھریں جو اس سے پہلے نہ واقع ہوئی تھیں: اولاً، ہندتوا قومیت پرست تحریک نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں اس سے پہلے کبھی اتنی اکثریت حاصل نہ کی تھی، اور ثانیاً کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ یہ تحریک جو قوت کو افراد سے منسوب کرنے کو ناپسند کرتی تھی محض ایک سیاست دان نریندر مودی سے اتنی متاثر ہوجائے گی۔
مدیروں کے مطابق ان خصوصیات کو اپنانے کے بعد ہندوستان میں اکثریتی راج کا تصور کسی اتفاقیہ واردات کا نتیجہ نہیں بلکہ ہندتوا کے علم برداروں کا ایک منصوبہ بند عمل ہے جس پر نہایت سوچے سمجھے طریقے اور ترجیحات کو سامنے رکھ کر عملی جامہ پہنایا گیا ہے۔ ہرچند کہ مودی کا موازنہ دیگر ممالک کی طاقت ور سیاسی ہستیوں سے کیا جا سکتا ہے، تاہم ہندو دائیں بازو کا عروج تاریخی طور پر ہندوستان میں ایک پیچیدہ نظریاتی ارتقا کی علامت ہے۔ آر ایس ایس کا رکن اور اس کے ہمہ وقتی پرچارک ہونے کی حیثیت سے مودی ہندتوا نظریے کا علم بردار ہے بلکہ بعض ماہرین کے نزدیک وہ واحد ہندوتوا لیڈر ہے جس نے اس بات کو بخوبی سمجھا ہے کہ ہندتوا کو عقبی دروازے سے کس طرح داخل کرانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘کے نعرے کو بھی ہندتوا کے ایجنڈے کو مضبوطی سے آگے بڑھانے میں معاون ٹھہراتے ہیں۔
’’تعریف کی رو سے اکثریتی قومی عوام پسند برسر اقتدار قوت کی آمریت اور مطلق العنانی کا نام ہے کیوں کہ اس کے نزدیک وہی عوام کی اصل نمائندہ ہے، اور چوں کہ عوام ایک/یکساں ہیں، لہذا ان کے یہاں تکثیریت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔‘‘
اکثریتی راج کو عموماً عوام کی مرضی کہہ کر حق بجانب ٹھہرایا جاتا ہے، لیکن عوام کی مرضی کیا ہے؟ پیٹر ایمرسن اپنی کتاب From Majority Rule to Inclusive Politics کے صفحہ 14 پر لکھتے ہیں :
’’سیاسی مباحث میں شاذ و نادر ہی اتفاق رائے ہوتا ہے، چناں چہ یہ تصور عام ہوگیا کہ اقلیتی رائے پر اکثریت کی رائے مقدم ہونی چاہیے۔ اگرچہ یہ بات عجیب لگے گی کہ رائج نظاموں میں اکثریتی رائے کو مقدم ٹھہرانا اس واضح حقیقت کی بنیاد پر غیر منطقی ہے کہ اکثریتی رائے کو محض ووٹنگ کے ذریعے سے شناخت نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی ایک ظاہری سی وجہ یہ ہے کہ بیلٹ پیپر پر آنے سے پہلے وہ رائے پہلے سے موجود ہونی چاہیے۔ عام اعتقاد یہ ہے کہ اکثریتی رائے کو مقدم ہونا چاہیے لیکن یہ جمہوریت کی بنیاد نہیں ہے کیوں کہ جمہوریت تمام افراد کے لیے ہوتی ہے، محض اکثریت کے لیے نہیں، نیز جمہوری عمل میں گنجائش ہونی چاہیے، کشمکش نہیں۔یہ کشمکش اس وقت اور بھی شدید ہوجاتی ہے جب اکثریتی رائے کو اقلیت کے خلاف کام کرنے کے لیے حق بجانب ٹھہرایا جاتا ہے۔‘‘
زیرِ دست کتاب کے مقالہ نگار تھامس بلوم ہینسن کے الفاظ میں ’’اکثریتی راج یہ تصور ہے کہ کوئی نسلی یا مذہبی اکثریت قدرتی طور پر حق رکھتی ہے کہ کسی سیاسی ادارے یا جغرافیائی حدود پر قابض ہوکر بلا شرکت غیرے اپنے فیصلے نافذ کرے اور انھیں عوام کی مرضی قرار دے۔‘‘
مدیروں کے بقول:
’’اقلیتی/یا غیر (Othered) کو اب باضابطہ طور پر ترقی کی راہ میں روڑا، وسائل کی بربادی کا سبب، اجنبی اور سماج میں پھوٹ ڈالنے والا عنصر قرار دے گیا ہے جو ثقافتی یکجہتی کو کم زور بناتا ہے، غیرمتمدن اور دقیانوس ہے اور ماضی کی ناقابل انضمام باقیات میں سے ہے۔‘‘
تھامس بلوم ہینسن نے اپنے مقالے Majoritarianism as Democracy میں اعداد و شمار اور ایتھنوگرافی کے ذریعے تشدد کے استعمال، قانون کی طاقت اور طاقت کے قانون (law of force) کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، ان کے نزدیک ’طاقت کا قانون‘ملک کی معاصر سیاست میں بنیادی طور پر اصل قانون ہے۔ بلوم ہینسن نے دکھایا ہے کہ ہندتوا تنظیموں کے ذریعے تشدد نیز موجودہ قوانین اور پالیسیوں کا غلط استعمال کرکے اور پولیس کے ذریعے دلتوں، آدی باسیوں اور خصوصاً اقلیتوں کو نشانہ بنا کر کس طرح بی جے پی کے اقتدار میں فکری حریت اور شہری آزادی کے امکانات ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
کتاب کی دوسری فصل میں پرلے قانون گو (Pralay Kanungo)کے چشم کشا مقالے میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح آر ایس ایس ایک ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کی طرح حکومت کی پالیسیوں پر نظر انداز ہورہی ہے۔ قانون گو نے ان حرکیات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے جس میں آر ایس ایس اور مودی کے درمیان اثر اندازی کے میدانوں کی تقسیم کرلی گئی ہے۔ ان کے بقول مودی معاشی، اقتصادی، امور خارجہ اور سلامتی کا ایجنڈا طے کرنے میں خودمختار ہیں جب کہ ملک کا سماجی، ثقافتی اور تعلیمی ایجنڈا آر ایس ایس طے کرتی ہے۔مودی کے اقتدار سنبھالتے ہی آرایس ایس کے پرچارکوں اور سویم سیوکوں کو بڑے بڑے عہدے دیے گئے۔ جو سیاست میں تھے انھیں وزارتیں دی گئیں، جو صنعت کار اور تاجر تھے انھیں بڑے سرکاری اداروں کا چیئرمین بنایا گیا، جو تعلیم کے میدان میں سرگرم تھے انھیں یونیورسٹیوں میں وائس چانسلربنایا گیا، جو کچھ بوڑھے تھے انھیں ریاستوں کی گورنری سونپی گئی۔ غرض سیاست سے نوکرشاہی اور صنعت سے لے کر دانش گاہوں تک ہر شعبے میں آر ایس ایس کے لوگ بھر دیے گئے۔ قانون گو رقم طراز ہیں:
’’آر ایس ایس کو اب مزید ’ثقافتی‘ تنظیم کا مکھوٹا پہنے رکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اب آر ایس ایس کے نوکرشاہوں کے ہاتھ میں دلی سے لے کے اپنی تنظیم کے پرچارکوں اور سویم سیوکوں تک کی زمام کار ہے اور وہی ملک کی حکم رانی کا ایجنڈا طے کرتی ہے۔ بی جے پی کو بھی اب آر ایس ایس سے ’خود مختاری‘ کا ڈھونگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ اب آر ایس ایس کے رہنما پارٹی کے لیڈر اور وزرا ہیں۔‘‘
کتاب میں بعض ایسے ابواب بھی ہیں جو کسی علمی کتاب کے لیے غیر روایتی سمجھے جائیں گے، مثلاً امریکی پروفیسر عبدل آر جان محمد کا مضمون ’روہت ویمولا کی انقلابی موت‘ میں ژاک دریدا، ایڈمنڈ ہسلر اور خود جان محمد کی موت کے سیاسی اقتصادیات کے افکار کی روشنی میں علمی و فلسفیانہ پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے۔ مردو رائے کا مضمون ’ہندو راشٹر کے کشمیری عوام‘ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
کرسٹوف جیفرلوٹ نے اپنے مدلل نظریاتی مضمون میں بحث کی ہے کہ ہندوستان تیزی سے ایک حقیقی (de facto) نسلی جمہوریت (ethnic democracy) بنتا جارہا ہے، ان کے بقول اس کی تیاری آزادی کے فوراً بعد ہی سے شروع ہوگئی تھی اور پچھلے چند برسوں میں یہ مزید مستحکم ہوئی ہے۔ نسلی جمہوریت میں شہریت کی دو سطحیں ہوتی ہیں۔ اکثریت والی شہریت کو اقلیت والی شہریت سے زیادہ حقوق و مراعات حاصل رہتی ہیں۔ ایسا قانوناً (de jure)بھی ہوتا اور واقعتاً (de facto) بھی۔ اسرائیل میں یہودیوں کو زیادہ حقوق حاصل ہیں کیوں کہ یہودی ریاست سرکاری طور پر غیر یہودیوں کے مقابلے میں یہودیوں کے حقوق کو مقدم رکھتی ہے۔
جیفرلوٹ کے مطابق اگرچہ 1950 میں نافذ کیا گیا آئین اب بھی ہندوستان کی سیاسی زندگی کا حصہ ہے، اور نسلی جمہوریت قانوناً نافذ نہیں ہے، تاہم واقعتاً یہ ہرجگہ موجود ہے۔، اس کی بنیادی وجہ مذہبی اقلیتوں (اس صورت میں مسلمان) کی ریاستی اسمبلیوں میں گرتی ہوئی تعداد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں (پولیس) کی سرپرستی میں ’تحفظ امن‘ پر مامور ہتھیار بند نگران (vigilante militia) کا کردار ہے۔ ان کے مقالے میں مختلف شعبوں میں مسلمانوں کی عدم نمائندگی کا ڈیٹا دیا گیا ہے نیز یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کس طرح خود کو ثقافتی تنظیم کہنے والی آر ایس ایس ایک vigilante تنظیم کی طرح کام کرتی ہے۔
2018 میں منعقد ہونے والے ایک کنکلیو میں آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے vigilante گروپس کے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے وہاں یہ بھی کہا تھا کہ مسلمانوں کا ہندتوا میں ایک مقام ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ معاشرے میں ان کا مقام کیا ہے۔ جیفرلوٹ نے اپنے مقالے میں دکھایا ہے کہ کس طرح واضح طور پر بی جے پی کے اقتدار میں مسلمانوں کے حقوق میں گراوٹ آئی ہے۔
اترپردیش میں ہندتوا کا تجربہ ایک طویل مدت سے جاری ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی یا سیاسی لیڈر جو ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتا ہے، اسے اترپردیش جیتنا پڑتا ہے۔ مودی بھی اس بات کو بخوبی جانتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنا انتخابی حلقہ گجرات سے وارانسی کو منتقل کردیا۔ رام کی جائے پیدائش سمجھا جانے والا قصبہ اجودھیا بھی اترپردیش میں واقع ہے۔ انگنا چٹرجی نے 2013 کے مظفرنگر کے فسادات کی تحقیق کرکے ہندو راشٹر کے بننے کے عمل کا تجزیہ کیا ہے۔ اس فساد میں 63 لوگوں نے اپنی جان گنوائی تھی اور 93 شدید طور پر زخمی ہوئے تھے، خواتین کی اجتماعی عصمت دری ہوئی اور 50 ہزار لوگ بے گھر ہوئے۔ ہندوتوا تشدد پسندی کس طرح کام کرتی ہے، ان کے مقالے میں اس پر اچھی بصیرت ملتی ہے۔ انھوں نے ہندو راشٹر کے امکان پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ہر نظریاتی تحریک تاریخ کی مخصوص تعبیرات رکھتی ہے۔ ہندتوا کی دل چسپی تاریخ کی ایسی تعبیریں کرنے میں ہے جس سے سیکولر اور تکثیری سیاست کو تقویت دینے والے بیانیوں کو زک پہنچے۔ تاریخ کی تعبیرنو کرنا ان کی پہلی ترجیح ہے کیوں کہ ہندو دایاں بازو مانتا ہے کہ تاریخ کی ایسی مخصوص تعبیر کرکے جس میں ہندوؤں کو مظلوم اور مسلمانوں کو ظالم دکھایا جاسکے، نظریاتی ایجنڈے کی بیل منڈھے چڑھائی جاسکتی ہے۔
معروف مورخ تنِکا سرکار نے آر ایس ایس کے تعلیمی پروگراموں کا جائزہ لیا ہے اور تاریخ کو بدلنے اور اسے اپنے انداز میں پیش کرنے کی اس کی وجوہ پر روشنی ڈالی ہے۔ تنکا کے مطابق عوامی اعتقادات، اساطیر اور سینہ بسینہ روایات پر مبنی آر ایس ایس کی تاریخ خود کو ہر قسم کے علمی محاسبے سے آزاد چاہتی ہے۔ہندتوا نظریے کے حامل تاریخ کے اساتذہ کے کیڈر نے ہندوستان کے اہم دھارے کے لیفٹ اور سیکولر تاریخ نگاری کے اثرات کے زائل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کسی نظریاتی کشمکش کے تناظرمیں ایسا ہونا فطری ہے۔ تنکا سرکار کی رائے میں سیکولر تاریخیں اگرچہ بہترین دماغوں نے لکھی ہیں تاہم انھوں نے مقامی سماجی و ثقافتی افعال کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔ تنکا ہندتوا نوازوں کے امبیڈکر کے حوالے سے ایک اہم نکتہ پیش کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہندتوا ذات پات کے ساتھ سنگین تنقیدی رشتہ نہیں بنا سکتا۔ تاہم وہ دیگر ماہرین کے اس نکتے کو یکسر نظر انداز کردیتی ہیں کہ ہندو دائیں بازو کا امبیڈکر کو اپنانا دراصل امبیڈکر کو بھگوا کرن کرنے کی خاطر ہے۔ اس سلسلے میں بی جے پی کے دور میں مختلف تعلیمی پروگراموں اور اداروں میں ان کی سیندھ کو پہلے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
تھامس بلوم ہینسن کا شان دار مقالہ مودی دور میں گھٹتی ہوئی علمی و فکری آزادی نیز شہری آزادیوں کو درپیش خطرات کی جانب توجہ مبذول کراتا ہے۔ ان کے مطابق بی جے پی بغیر نئے قوانین وضع کیے اپنا جابرانہ/آمرانہ ایجنڈا نافذ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ نئے قوانین بنانے کے بجائے بی جے پی پہلے سے موجود قوانین کو، جن میں سے بیشتر برطانوی راج کے دور سے موجود ہیں اور ، شہری آزادی پر قدغن لگانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ ہندوستان میں نام نہاد جمہوریت کے فروغ نے لبرل جمہوری اقدار کی پامالی کے شائبے کے بغیر اکثریت کی قوت کو جواز فراہم کیا ہے۔ دلت سیاست کے جو ماہرین دلت ایمپاورمنٹ کے جھنڈے تلے جمہوریت کے فروغ کو سراہ رہے تھے، اب اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اصل میں یہ ہندتوا کا فروغ تھا۔
بلوم ہینسن نے اپنے مقالے میں ملک میں بائیں بازو اور نچلی ذاتوں کی تحریکات کی موجودگی کے باوجود اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اس سب کے باوجود ملک میں پالیسی اصلاحات، خصوصاً پولیس کی اصلاح کے لیے، جو عموماً غریبوں اور نچلے طبقوں پر غیرمناسب قوت کا استعمال کرتی ہے، کبھی کوئی خاص سیاسی ہلچل نہیں ہوئی۔ دوسری جانب، جب بھی بین الاقوامی برادری حقوق انسانی کی پامالی پر سوال اٹھاتی ہے، تو حکومت اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دے کر مسترد کردیتی ہے۔ بلوم ہینسن لکھتے ہیں:
ملک کی بیشتر سیاسی قوتوں نے جن میں اہم دھارے کا لیفٹ بھی شامل ہے، خاموش انداز میں بڑی حد تک اس پالیسی، قومی سالمیت کے نام پر انسانی حقوق کی پامالی اور ملک میں ’ملک مخالف‘ قوتوں کو کچلنے کی حمایت ہی کی ہے۔ بین الاقوامی حقوق انسانی تنظیموں یا بین الاقوامی کثیر ممالک پر مشترکہ اداروں کی جانب سے ان پالیسیوں پر نکتہ چینی اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز کو کئی دہائیوں سے حکومت ہند کی طرف سے یہ کہہ کر دبایا جارہا ہے کہ یہ ایک آزاد ملک کے داخلی امور میں بیجا مداخلت ہے۔
اس وقت ملک تاریخ کے ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جس کا ایک راستہ اکثریتی راج پر مبنی آمریت کی جانب جاتا ہے جس میں اکثریتی رائے کے نام پر اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اور انصاف کے نام پر کم زوروں کو کچلنا ہے، اور دوسرا راستہ جمہوریت کی جانب جاتا ہے جو شمولیت پر مبنی ہے اور سب کو یکساں حقوق، انصاف اور نمائندگی ملتی ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ ہم کس راستے کو چنتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2020