ام مسفرہ مبشرہ کھوت
اسلامی تاریخ کے مشہور ادیب وعالم جاحظ لکھتے ہیں:
’’میرے علم میں نہیں کہ کسی درخت کی حیات اتنی طویل ہے، پھل اتنے شیریں ہیں، اور انھیں توڑنا اتنا آسان ہےجتنا کہ کوئی کتاب۔ ‘‘
بچوں کی پرورش کرتے ہوئے ان کے اندر مطالعہ کے شوق کا پودا لگانا اور اس کی روز آبیاری کرنا والدین کی اہم ذمے داری ہے۔
آج کے ٹیکنیکل دور میں بچوں میں مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کے حوالے سے والدین کے دو گروہ نظر آتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے بچوں میں مطالعہ کی عادت پروان چڑھانا چاہتا ہے، دوسرا وہ جو ٹکنالوجی سے اس قدر متاثر ہے کہ خود بھی کتاب سے بے نیاز ہے اور بچوں میں اس طرح کے صحت مند شوق کی اسے فکر نہیں ہے۔ مطالعہ کے شوقین اور فکرمند والدین میں سے کچھ لوگ بس نصابی کتابیں پڑھوانا چاہتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے ساتھ تعلیمی نصاب کی کتابوں کے علاوہ بھی ایک فہرست رکھتے ہیں۔ بہرحال، بچوں میں ذوق مطالعہ بڑھانے کے تعلق سے اس صدی میں بہت سے سوالات سامنے آرہے ہیں۔
آج کے دور میں کتابوں کی اہمیت و ضرورت کیا ہے؟
بچوں میں ذوق مطالعہ کیوں پروان چڑھایا جائے؟
بچوں کی کتابوں سے دوستی کیسے کرائیں؟
نصابی و تعلیمی کتابوں سے لگاؤ کیسے پیدا ہو؟
نصاب کے علاوہ کتابوں کے مطالعہ کا کیا حاصل ہے؟
کون سی کتابوں کے مطالعہ کا شوق دلائیں؟
کیا کتابیں غیر منافع بخش بھی ہیں؟
آج کے دور میں کتابوں کی اہمیت و ضرورت
کتاب کی اہمیت کسی بھی دور میں کم نہیں ہوسکتی۔ عالمی مذاہب میں مقدس مذہبی کتابوں کا اپنا مرتبہ ہے۔ مختلف مذاہب کے پیروکار زندگی کے معاملات میں یا مذہبی مسائل کے تئیں اپنی کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہیں۔ آخری آسمانی کتاب قرآن مجید قیامت تک کے لیے ایک معجزہ ہے۔ کتاب کا اپنا ایک مقام ہے اسی لیے سب سے بڑا معجزہ الکتاب، یعنی قرآن حکیم ہے۔ جس کی پہلی نازل ہونے والی آیت کا پہلا لفظ ہی اقرأ (پڑھو) ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جسےاس بات سے خوشی ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے تو وہ قرآن پڑھے۔ اس طرح ثابت ہوا کہ کتاب کی قدر و اہمیت ناقابلِ انکار ہے۔
ذوق مطالعہ کی ضرورت کیوں؟
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب ملکہ سبا کا تخت لانے کے بارے میں پوچھا، تو قوی ہیکل جن سے بھی پہلے ایک شخص جسے کتاب کا علم تھا وہ تخت لے آیا۔ اس واقعہ میں اشارہ ہے کہ کتاب کا علم انسان کی شخصیت کو کس قدرطاقت ور اور با صلاحیت بنا سکتا ہے۔
دنیا کے مختلف میدانوں کے ماہرین میں کچھ باتیں مشترک پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک ان کی مطالعہ کی عادت ہے۔ ماہرین نفسیات، طبیعیات، تعلیم، ٹکنالوجی، نیز موجد، قلم کار، جرنلسٹ وغیرہ سبھی کا ایک اسٹڈی روٹین ہوتا ہے۔ اس وقت وہ اپنے مشغلہ اور پیشے سے منسلک کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ دنیا کے سبھی مشہور و معروف کام یاب و کامران ناموں نے کتابوں کو رفیق حیات بنایا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے کسی میدان میں باصلاحیت فرد کی حیثیت سے ترقی کریں تو ہمیں کتابوں سے ان کی دوستی کرانی ہوگی۔
جو والدین کتابوں سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مطالعہ علم میں مسلسل اضافہ کا سبب بنتا ہے اور اس سے ذہن کے افق پر بہت سے حقائق و انکشافات روشن ہوتے ہیں۔ اچھا مطالعہ ایمان کی تقویت اور روح کے سکون کا ذریعہ ہے۔ اچھی عادات کی منتقلی کے لیے فکرمند رہنے والے والدین اس کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ کس طرح بچوں میں کتابوں سے لگاؤ پیدا ہو۔
ہم یہاں چند سرگرمیوں کا ذکر کریں گے، جن سے مدد لی جاسکتی ہے۔
(الف ) گھر میں کتابیں ہوں
بچوں کی قوت مشاہدہ بہت تیز ہوتی ہے۔ وہ اپنے اطراف و اکناف کی اشیا کو غور سے دیکھتے ہیں، انھیں ہاتھ میں لےکر محسوس کرتے ہیں، چیزوں کو الٹ پلٹ کر،پٹخ کر، اوپر نیچے کرکے اور توڑ کر دیکھتے ہیں اور اسی طرح بچے سیکھتے ہیں۔ اگر بہ حیثیت والدین ہم خواہشمند ہیں کہ بچے کتب بینی کریں تو ہمیں چاہیے کہ گھر میں کتابیں ضرور رکھیں۔ اپنے شوق،پسند، دل چسپی کی مناسبت سے اور ساتھ ہی گھر کے رقبہ کے حساب سے گھر میں ایک لائبریری کا اہتمام کریں۔ لائبریری چھوٹی ہو یا بڑی بچوں کی رنگین، دیدہ زیب، خوب صورت تصاویر والی کتابیں اس کا حصہ ہوں۔ بچے بچپن سے ہی جب گھر کے کسی حصے میں کتابیں دیکھیں گے تو وہ اپنے اندرونی تجسس کے باعث کتابوں سے متعارف تو ہو ہی جائیں گے۔ ہاں البتہ یہ خطرہ لاحق ہوگا کہ کتنی کتابوں کے کون سے اور کتنے اوراق پھٹ گئے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ بہتر ہوگا کہ ان کے قد اور پہنچ کا اندازہ لگاتے ہوئے ان کی کتابیں ان کی دسترس تک رکھیں۔ مارکیٹ میں چھوٹے بچوں کے لیے پلاسٹک ورق کے ساتھ ساتھ کپڑوں کی کتابیں بھی دستیاب ہیں۔ اس طرح چھوٹے بچوں کے لیے کاغذ کی کتابوں کے علاوہ ایسی کتابوں کا انتظام کیا جانا چاہیے جن کے پھٹنے کا خدشہ نہ ہو یا کم ہو تاکہ کتابوں کو نقصان بھی نہ پہنچےاور بچے کتابوں سے مانوس بھی ہوا کریں۔
(ب)خود مطالعہ کریں
جیمز بالڈون کے مطابق ’’بچے اپنے بڑوں کی بات سننے میں اتنے اچھے نہ بھی ہوں لیکن وہ ان کی نقل کرنے میں کبھی ناکام نہیں ہوسکتے‘‘ بیشتر ماہرین نفسیات اور محققین نے بھی اسی طرز کا مشاہدہ پیش کیا ہے کہ بچے کی اپنی کوئی شخصیت نہیں ہوتی بلکہ وہ والدین اور دیگر سرپرست حضرات کو دیکھ کر ہی شخصیت میں ڈھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ جب والدین کو کتابیں مرغوب ہوں گی تب بچوں کے لیے بھی سامان دل آویزاں کتابیں ہی ہوں گی۔ بچوں کے سامنے کتابیں ضرور پڑھیں تاکہ وہ دیکھ کرسیکھیں کہ کتابوں کو کس طرح پکڑا جاتا ہے، کس طرح صفحات پلٹنے ہیں، اوراق نکالنے یا پھاڑنے نہیں بلکہ پڑھنے کے لیے ہیں۔ بچوں کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کریں تاکہ وہ تلاوت کے آداب و اطوار سے واقف ہوں اور ان میں قرآن کی تلاوت کا شوق بھی بیدار ہو۔
ہاں یہ ممکن ہے کہ بالکل ہی کم عمر بچہ کتاب چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے اور اوراق الٹ پلٹ کرنا شروع کردے جس سے والدین کو ہونے والے نقصان سے پریشانی ہو۔ اس لیے بچے کی عمر کو دیکھتے ہوئے مناسب ترکیب اختیارکی جانی چاہیے۔
(ج) انھیں پڑھنا سکھایا جائے
وکٹر ہیوگو ایک ایسے فرانسیسی شاعر اور مصنف گزرے ہیں،جنھوں نے صرف فرانس کی تاریخ یا سیاست میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ وہ کہتے تھے کہ ’’پڑھنا سیکھنا مشعل جلانے کے مانند ہے۔ ہر لفظ جس کے ہجے ہوتے ہیں چنگاری کی طرح ہے۔ ‘‘حروف شناسی پھر ہجے کرکے ان حروف کی مدد سے الفاظ بنانا اور پھر جملہ بندی سیکھنا یہ ایک دل چسپ آرٹ ہے۔ جتنا بچے اس آرٹ کو سیکھتے جاتے ہیں اتنی ہی ان کی دل چسپی پڑھنے کی جانب یا دوسرے لفظوں میں مطالعہ کی طرف بڑھتی ہے۔ کم عمری سے ہی بچوں کو پڑھنا سکھانا چاہیے تاکہ وہ اچھے قاری بن سکیں۔
ولیم جیمز، امریکی مورخ، فلسفی، ماہر نفسیات اور ماہر تعلیم تھے۔ موصوف کے مطابق ’’جو بچے روانی سے پڑھنا سیکھتے ہیں،وہ نئی دنیا میں اتنی آسانی سے پرواز کرنا شروع کر دیتے ہیں جیسے چھوٹے پرندے آسمان کی طرف جاتے ہیں۔ ‘‘ بے شک، بچے جیسے جیسے الفاظ پہچاننے لگتے ہیں یا جملے پڑھنے لگتے ہیں وہ اپنی کام یابی پر خوشی محسوس کرتے ہوئے اور پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جوش تعلیم کے ابتدائی دور میں نظر آتا ہے والدین کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
آج کل بچوں اور والدین کے لیے آن لائن ایسے کورس موجود ہیں جن میں ایک مدت تک والدین کی تربیت ہوتی ہے کہ کس طرح بچوں کو پڑھنا سکھایا جائے۔ اس دورانیہ میں بچوں کی شرکت بھی ہوتی رہتی ہے، جس میں مختلف سرگرمیوں کے ذریعے ان کی ’’پڑھنے کے لیے ‘‘ (reading) ہمت افزائی ہوتی ہے تاکہ بچے اور والدین دونوں ہی فعال رہیں۔ والدین کو اسائنمنٹ بھی دیے جاتے ہیں اور بعد ازاں بچوں کی پیش کش بھی ہوتی ہے۔ یہ پرلطف سفر کچھ ہفتوں یا مہینوں کا ہوتا ہے جس کے کارخیز نتائج رہے ہیں۔ اس طرح کے کورس مختلف زبانوں میں ہوتے ہیں، والدین جس زبان کے لیے چاہیں مدد لے سکتے ہیں۔ اس قسم کی کلاس لیتے رہنے سے والدین اپڈیٹ رہ پاتے ہیں اور نئے طریقہ کار کو روٹین کا حصہ بنا کر بچوں کو بھی جدید دور کے تقاضوں میں سہولت سے ڈھال پاتے ہیں۔
(د): پر کشش اور عمدہ سرگرمیاں
والدین کی آسانی اور بچوں کی دل چسپی کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی مہارت سکھانے کے مراحل میں انداز و اطوار کو مختلف سطحوں پر بدل بدل کر پیش کرنا ہوتا ہے۔ کوئی بچہ مطالعہ کا شوقین ہو تب بھی روزانہ متعینہ مدت کےلیے مخصوص کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ بچے سخت تعلیمی روٹین (اسکول پھر ٹیوشن اور دیگر مہارتوں کی کلاس) میں مصروف ہوتے ہیں اور تھک بھی جاتے ہیں پھر ان کی تفریح کے لیے موبائیل اور ٹی وی میسر ہوں تو وہ کتابوں سے اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے والدین کو نت نئی ترکیبوں کے لیے محنت کرنی چاہیے۔
مندرجہ ذیل چند آسان تدابیر کے استعمال سے بچوں کا جھکاؤ مطالعہ کی طرف کیا جاسکتا ہے۔
(1 ) تحقیق کے مطابق بچے جب بھی گھر سے باہر نکلتے ہیں چاہے سیر و تفریح کے لیے، کھیل کود کے لیے، سفر کے لیے وہ سیکھنے کے عمل کے لیے بالکل تیار ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا موقع ہے جب والدین کے سامنے بچے کا دماغ بالکل کھلا ہے اور وہ جو چاہیں اس میں ڈال سکتے ہیں۔ ایسے میں دکانوں، دواخانوں، ہوٹلوں کے ناموں کے بورڈ پڑھنے پر بچوں کی توجہ دلائی جاسکتی ہے۔ آیا والدین بلند آواز میں پڑھیں یا پھر ان سے بھی پوچھتے رہیں کہ کیا لکھا ہے۔ اس طرح لکھی ہوئی عبارت پڑھنے سے بھی پڑھنے کا رجحان بڑھ سکتا ہے۔ جب وہ دوران سفر یا گاڑی پر چھوٹی سی سیر کے دوران کچھ نہ کچھ پڑھنے لگتے ہیں تب انھیں پڑھنے میں مزہ آنے لگتا ہے۔ اور اس مزے کو ذوق مطالعہ بننے میں دیر نہیں لگتی۔
(2 ) والدین روزانہ اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر مطالعہ کے لیے مختص کر لیں اور بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کسی مخصوص کتاب کا مطالعہ کریں تو مطالعہ کی جانب بچوں کا شوق آسانی سے بڑھ سکتاہے۔ والدین اور بچے آپس میں مل کر کتاب طے کرسکتے ہیں اور پھر دونوں باری باری مل کر بلند آواز میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس طرح گھر میں خوشنما سرگرمیوں کی بدولت خوشگوار ماحول قائم ہوگا۔
گھروں میں فیملی اجتماعات ہونے چاہئیں۔ ایسے فیملی اجتماع میں والدین معلوماتی مضامین اور کارآمد تحریریں پڑھنے اور پڑھانے کا اہتمام کریں۔ بچوں کو اس طرز کا خاندانی نظام مہیا کرانے والے والدین دوراندیش ہوتے ہیں اور ان کی کاوشوں کے ثمرات بھی انھیں ملتے ہیں۔
(3 ) مقابلہ برائے مطالعہ: نیک کاموں میں سبقت لے جانے کو اسلام نے بھی پسند فرمایا۔ والدین بچوں میں مطالعہ کو فروغ دینے کے لیے مقابلے رکھ سکتے ہیں۔
مثلاً ہر ایک بچے کو اس کی اپنی ایک کتاب دی جائے اور ایک وقت متعین کیا جائے۔ پھر جس نے کتاب ختم کرنے میں سستی کی وہ انعام سے محروم رہا۔
اگر کتاب مشترک ہو تو کوئز کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ مقابلے کی تیاری اور انعام کی دوڑ میں مطالعہ بھی دل لگا کر کیا جائے گا۔
اگر بچے اس قابل ہوں کہ کتاب کا مختصر خلاصہ پیش کرسکیں۔ تب ہر بچہ اپنی زیر مطالعہ کتاب کا چھوٹا سا تعارف یا دوران مطالعہ تجربات اور احساسات پیش کرے۔ اس طرح مطالعہ بھی لگن سے ہوجائے گا اور تقریری صلاحیت کی بھی مشق ہوگی۔
(4 ) کتابیں بطور انعام یا تحفہ: الزبتھ ہارڈوک، جن کا شمار امریکی ناقدین میں ہوتا ہے کہتی ہیں ’’ سب سے بڑا تحفہ پڑھنے کا شوق ہے‘‘ایسے کئی سارے مواقع آتے ہیں جب بچوں کو تحائف اور انعامات دیے جاتے ہیں۔ یہ تحائف بچوں کے اندر جذبات کی نئی جوت جگاتے ہیں۔ تحفوں میں ان کی پسند کی اشیا کے ساتھ ایک اچھی کتاب کا بھی اضافہ کریں۔ بچوں کو اچھے کام کرنے پر یا اچھا امتحانی رزلٹ آنے پر انعام کی صورت میں کتابیں دی جاسکتی ہیں۔ عید کے مواقع پر یا مخصوص مقابلوں کی جیت کی خوشی میں یا چھٹیوں میں بچوں کو بطور تحفہ کتابیں دی جاسکتی ہیں۔ فطرتاً بچہ ملنے والے ہدیہ کو قیمتی سامان سمجھتا ہے۔ کم سنی سے ملنے والی کتابیں بھی اس کی نایاب اشیاکی فہرست میں شامل رہیں گی۔
یہ اور اس طرز کی دیگر سرگرمیوں کا انتظام کرکے والدین نصابی کتب کے مطالعہ میں اور دوسری کتابوں کے مطالعہ میں بھی ترغیب دلا سکتے ہیں۔
نصابی و تعلیمی کتابوں سے لگاؤ کیسے پیدا ہو؟
البتہ نصابی کتب کے حوالے سے کچھ باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
1۔ آج کل بچوں کا مطالعہ بہت محدود ہوگیا ہے۔
طلبہ و طالبات اچھے نمبرات کے لیے بالکل ہی مختصر اور اہم چیزیں جو امتحانات میں پوچھی جانی ہیں اتنا ہی پڑھنا چاہتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اسکول کے ابتدائی دور سے ہی نمبرات کا پریشر ڈالنے سے گریز کریں اور نصاب سے خلوص کا رشتہ بناتے ہوئے تعلیمی سفر کا آغاز کریں اور سیکھنے کے سچے جذبات کی وقتاً فوقتاً آبیاری کرتے رہیں۔
2۔ بچوں کے سامنے نصاب کو مشکل بنا کر پیش کرنا مناسب نہیں ہے۔ بچے کی زندگی میں تعلیمی کتابیں اولین کتابیں ہوں گی۔ اس لیے ان کی دل چسپی کے باعث مثبت رویہ اپنایا جائے۔ ایک مرتبہ انھوں نے نصابی کتابوں میں دل لگا لیا تو بعید نہیں کہ کتب بینی کا شوق ان میں پروان چڑھے۔
3۔ کتابوں میں جو کچھ پڑھنے میں آرہا ہو اس کی عملی زندگی میں بھی نشان دہی ہو۔ اس سے بچوں کو معلوم ہوگا کہ کتابیں ایسا خزانہ ہیں جو ان کو نئی دنیاؤں کی سیر کراتی ہیں، قدرت کے پوشیدہ راز بتاتی ہیں، ان کے سوالات کے جوابات دیتی ہیں۔ پڑھائی جب تجربات اور مشاہدات میں تبدیل ہوگی توکتابیں پرکشش معلوم ہوں گی۔
نصاب کے علاوہ کتابوں کا کیا حاصل ہے؟
نصاب میں سائنس، ریاضیات، جغرافیہ، تاریخ، شہریت، معاشیات، لسانیات، دو تین زبانیں جیسے مضامین شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنا کچھ پڑھنے کے بعد بھی کیا دوسری کتابوں کے مطالعہ کی گنجائش نکل آتی ہے؟
کتب بینی ایک ایسا وسیع عمل ہے جو کسی نصاب میں نہیں سما سکتا ہے۔ بے شک نصاب بہت معلوماتی ہوتا ہے لیکن بہت سی ضروری معلومات جو ہمیں اپنے نو نہالوں کو دینی ہیں، وہ ہوسکتا ہے کسی بورڈ کے نصاب میں موجود نہ ہوں۔ قرآن مجید کا فہم، سنت رسول اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم، اسلامی تاریخ کے روشن واقعات، اسلامی اخلاق و اقدار کی تعلیم، انسانی تاریخ کے روشن کردار اور وہ بہت سی باتیں جن کا جاننا ہماری نسلوں کے لیے بے حد ضروری ہے، اور جن کا اسکول کی کتابوں میں ہونا ضروری نہیں ہے۔
اس کے علاوہ والدین اپنے بچوں میں کچھ منفرد صلاحیتیں اور قابلیتیں دیکھتے ہیں جن کی ایک صحیح رخ پرنگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے جس سے بچے کی شخصیت سازی ہوتی رہتی ہے۔
کون سی کتابوں کے مطالعہ کا شوق دلائیں؟
بچوں کے اندر سب سے پہلے قرآن کی تلاوت کا شوق پیدا کرنا لازمی ہے۔ یہی ایک کتاب ہے جس کا ایک مرتبہ ہماری نسلوں میں شوق پیدا ہوجائے تو ہماری اور ان کی زندگیاں سنور جائیں۔
اس کے علاوہ ہمارے پاس دینی کتابوں کی فہرست ہونی چاہیے۔ الحمدللہ آج کے دور میں مختلف پبلشنگ ہاؤس بچوں کے لیے رنگین کہانیوں اور قصوں کی کتابیں شائع کروارہے ہیں۔
کتابوں کے سلسلے میں بچوں کے ذوق و شوق کا خصوصی اہتمام کریں۔ بچہ زبان سیکھنے میں تیز معلوم ہوتا ہے، تو اس کے لیے مطلوبہ زبان میں کہانیوں، نظموں، پہیلوں کی کتابیں یا میگزین کا انتظام کیجیے۔ بچہ سائنس پسند کرتا ہے کوئی سائنس میگزین یا جرنل اس کے مطالعہ میں ہونا چاہیے۔ جرنل نالج کی کتابیں آئی کیو کے لیے مفید ہوتی ہیں۔ لہذا بچوں کو ان سے جوڑنے کی کوشش کیجیے۔ بچوں کو فرصت کے وقت میں عمدہ سرگرمیوں میں مشغول رکھنے کے لیے کرافٹ کی کتابیں بھی ان کے ذخیرہ کتب میں شامل کیجیے۔ کتابوں پر عملدآمد کیسے کیا جائے وہ ان کتابوں سے سیکھ سکتے ہیں۔ بچہ کو تاریخ کامضمون اچھا لگتا ہو تو اس کے لیے تاریخی ناول کا انتظام کرنا مت بھولیے۔ بہرکیف، کتابیں جو بھی ہوں دنیا و آخرت میں کام یابی کا راستہ دکھانے والی ہوں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے۔
کون سی کتابوں سے دور رکھا جائے؟
بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں، کہانیاں پھر افسانے اور ناول پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ جب تک ان تحریروں سے اخلاقی اقدار کی ترویج ہوتی ہے تب تک ایسی لطف اندوزی مناسب ہے۔ لیکن عشق و محبت کی کہانیاں، فحش لٹریچر اور غیر مہذب تحریریں لڑکپن اور نوجوان نسلوں کی ذہنی اور عقلی نشوونما کے لیے سخت نقصان دہ ہیں۔ ایسی کتابیں جن سے دین و ایمان کو ذرا بھی نقصان کا اندیشہ ہو، ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔
2007 میں لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ حاصل کرنے والی معروف و نامور ایڈیٹر اور مصنفہ ایملی بشوالڈ لکھتی ہیں کہ ’’بچے والدین کی گود سے ہی مطالعہ کرنا سیکھ جاتے ہیں ‘‘ اور یہ صرف موصوفہ کا نہیں بہت سے ماہرین و محققین کا ماننا ہے کہ والدین ہی کتب بینی کا ذوق پیدا کرسکتے ہیں۔ لہذا اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے بچوں کی کتابوں سے دوستی کروائیے،اچھی کتابیں بہترین دوست ہوتی ہیں اور یہ دوستی والدین اور بچوں دونوں کے لیے راحت و فرحت کا سامان بنتی ہے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2022