نقد و تبصرہ

حضرت مریم علیہا السلام

مؤلف:    مولانا سیّد لطف اللہ قادری

صفحات:    ۱۳۵  ٭قیمت:  -/۶۰ روپے

ناشر:        دارالاشاعت خانقاہِ مجیبیہ، پھلواری شریف، پٹنہ ﴿بہار﴾

مولانا سید لطف اللہ قادری تحریک ِاسلامی کے نام ور عالم دین و فقیہ حضرت مولانا سید احمد عروج قادری ﴿سابق مدیر ماہ نامہ زندگی رام پور﴾ کے فرزند اور ایک سنجیدہ عالم دین و اہل قلم ہیں۔ وہ دینی، مذہبی اور تربیتی موضوعات پر اکثر سوچتے اور لکھتے رہتے ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’’والدین کے حقوق اور صلہ رحمی‘‘ کے نام سے بہت پہلے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزسے شائع ہوچکی ہے۔ انھوںنے اپنے والد محترم حضرت مولانا سید احمد عروج قادری رحمۃ اللہ علیہ کے متعدد مضامین اور تحریری سلسلوں کو بھی یک جا کرکے کتابی شکل میں شائع کرایا ہے۔ زیرِ نظر کتاب حضرت مریم(ع) میں انھوںنے حضرت مریم علیہا السلام کے مبارک حالات وکوائف کو بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ مرتب فرمایاہے۔ اس سلسلے میں انھوںنے تفاسیر قرانِ مجید کو خصوصیت کے ساتھ واسطۂ معلومات بنایا ہے۔ زبان نہایت سلیس اور عام فہم ہے۔ اِن شائ اللہ یہ کتاب عوام وخواص دونوں کے لیے مفید ثابت ہوگی۔

تذکرہ شعراے بھیونڈی

مصنف:    رونق افروز

صفحات:    ۴۰۰        ٭قیمت: -/۲۰۰روپے

ملنے کا پتا:   رونق افروز، 659، بدر منزل، پٹیل نگر، بھیونڈی، ﴿مہاراشٹر﴾

جناب رونق افروز مشہور صنعتی شہر بھیونڈی کے ایک سرگرم و فعال خادمِ اردو ہیں۔ اردو زبان و ادب سے انھیں مخلصانہ دل چسپی ہے۔ وہ کسی صلہ و ستایش کی پروا کیے بغیر اس کے فروغ و ارتقا کے لیے ساعی و کوشاں رہتے ہیں۔ زیرنظر کتاب تذکرہ شعراے بھیونڈی کی تالیف و اشاعت ان کے اسی مخلصانہ و بے لوث دل چسپی کی مظہر ہے۔ یہ ضخیم کتاب انھوںنے کسی سرکاری و غیرسرکاری تعاون کے بغیر شائع کی ہے۔ تذکرہ شعراے بھیونڈی میں شہر بھیونڈی کے دو سوستر﴿۲۷۰﴾ شعرا کے مختصر حالاتِ زندگی اور ان کی شاعری کے نمونے پیش کیے ہیں۔ ان شعرا میںایک بڑی تعداد ان شعرا کی ہے، جن کا آبائی تعلق ضلع پرتاپ گڑھ سے رہاہے۔ ضلع جون پور، الٰہ آباداور اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والوں کی بھی اچھی تعداد ہے۔ بھیونڈی نژاد شعرا کی تعداد بہت کم ہے۔ مجھے مولانا ابوظفر حسان ندوی کی اس رائے سے کامل اتفاق ہے کہ رونق افروز نے تذکرۂ شعراے بھیونڈی لکھ کر اہلِ بھیونڈی کو ان کی متاعِ گم گشتہ سے نہ صرف یہ کہ روشناس کرایاہے ، بل کہ ان کے سپرد ان کی تہذیبی، ثقافتی اور ادبی امانت کی ہے، جو علامت ہے اس بات کی کہ انھوں نے دانہ دانہ جمع کرکے، ایک ذخیرہ ان کے سامنے رکھ دیا ہے کہ اس کا تحفظ اب ان کاکام ہے۔

جناب رونق افروز  نے تذکرۂ شعراے بھیونڈی میں درجنوں ایسے شعرا کو متعارف کرایاہے جو گرچہ گوشۂ گم نامی میں پڑے ہوے ہیں، لیکن اپنے کلام اور مہارت فن کے اعتبار سے اس لائق ہیں کہ ان کا شمارہ اپنے عہد کے اساتذہ سخن میں کیاجائے۔امید ہے کہ ان کا اشہبِ قلم اِسی طرح رواں دواں رہے گا اور آیندہ بھی وہ اپنی سعی و کاوش سے نئی نسل کو ان کی علمی و ادبی تاریخ سے روشناس کراتے رہیں گے۔

تعبیر و تشکیل

مصنف:    ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی

صفحات:    ۱۷۶         ٭قیمت: -/۲۰۰روپے

ملنے کاپتا:   الہلال بک ایجنسی، مین روڈ،بھٹکل 521230﴿کرناٹک﴾

ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی قارئین زندگی نو کے لیے غیرمعروف و گم نام نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی زندگی نو کے صفحات میں ان کی کتابوں پر تبصرے شائع ہوچکے ہیں۔ وہ ایک صالح فکر اور مستعداہلِ قلم ہیں۔ ادارۂ ادب اسلامی ہند کے نائب صدر ہیں اور اس کے نظریہ و فکر کی ترویج و اشاعت میں وہ مسلسل لگے رہتے ہیں۔ زیرنظر کتاب ’’تعبیر و تشکیل‘‘ ان کی اِسی سوچ اور سرگرمی کی نمایندگی کرتی ہے۔ اس میں انھوںنے ادب میں وابستگی کا قرآنی تصور اور اردو شاعری میں قرآنی تلمیحات جیسے مضامین کے ذریعے اس ادبی نظریے کا تعارف کرایاہے، جس کے وہ ہمیشہ سے حامی و موید ہیں۔ انھوںنے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی نثر، شبلی نعمانی، حفیظ جالندھری، حفیظ میرٹھی، عزیز بگھروی اور ابوالامتیاز مسلم کی شاعری اور جیلانی بانو اور م نسیم کے افسانے کو اپنی گفتگو کا موضوع بنایاہے اور اپنے شعری و ادبی نظریے کو مدلل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلاشبہ ’’تعبیرو تشکیل‘‘ اپنے مصنف کی فکری بصیرت اور علمی رسائی کی بھرپور نمایندگی کرتی ہے۔

صحرا میں ایک بوند

شاعر:       ناز قادری

صفحات:    ۱۷۶         ٭قیمت:  -/۳۵۰روپے

ملنے کاپتا:   مکتبہ صدف، چرچ روڈ، چندواڑہ، مظفرپور842001بہار

پروفیسر نازقادری اردو کے جانے پہچانے شاعر ، ادیب اور ناقد ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے معلم ہیں۔ مختلف دانش گاہوں میں ایک عرصے تک درس و تدریس کی خدمت انجام دینے کے بعد اب پورے طورپر شعر گوئی کے لیے یک سو ہوچکے ہیں۔ وہ نعت کے شاعر بھی ہیں اور غزل کے بھی۔ ابھی کچھ دنوں پہلے ان کی نعتوں کا مجموعہ ’’چراغ حرا‘‘ کے نام شائع ہواتھا۔ ’’صحرا میںایک بوند‘‘ ان کی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ ندرتِ بیان، معنی آفرینی اور بلندیِ فکر کے نمونے ان کی شاعری میں قدم قدم پر ملتے ہیں۔ نمونے کے طورپر تین اشعارملاحظہ فرمائیں:

دل کی دھڑکن میں صدا ہے کس کی

کوئی تو ہے جو نہاں ہے مجھ میں

یہ معرکہ تو مجھ سے کبھی سر نہ ہوسکا

گھر کی طرح ہمارا کبھی گھر نہ ہوسکا

کہاں کہاں نہیں دی ہم نے رات بھر دستک

نہ کوئی باب ہی چونکا نہ کھڑکیاں جاگیں

آپ دیکھیں گے کہ ان اشعار میں فکر کی گہرائی بھی ہے اور اسلوب کی انفردایت بھی اور فنی و لسانی رکھ رکھاؤ بھی اور ان سب کے ساتھ ساتھ مثبت و تعمیری سوچ بھی۔بلاشبہ ’’صحرا میںایک بوند‘‘ کی اشاعت سے اردو شاعری کے معیاری ذخیرے میں ایک خوش گوار اضافہ ہواہے۔ ‘‘

مشمولہ: شمارہ جون 2011

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau