صبر و استقامت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام صفات میں سے سب سے ابھری ہوئی اور نمایاں صفت داعی الی اللہ کی ہے اسی لئے جس دن سے اللہ تعالی نے آپؐ کو نبی بنایا اسی دن سے آپ نے بندگان خدا کو دعوت حق دینی شروع کردی، چنانچہ قرآن میں آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کو خطاب کرکے فرمایا :
یا ایھا البنی انا ارسلناک شاھدا و مبشراو نذیرا داعیا الی اللہ باذنہ وسراجا و منیر۔ ( سورہ احزاب ۴۵)
اور یہ دعوت و تبلیغ کا فریضہ صرف نبی پر فرض نہ تھا بلکہ تمام ان لوگوں پر جو ایمان لائے تھے دعوت وتبلیغ فرض ہوگئی، چنانچہ سورہ یوسف میں نبی کی زبان سے وحی الٰہی کہتی ہے:
اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ۰ۣؔ عَلٰی بَصِیرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی۰ۭ وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِینَ۔ (سورہ یوسف:۱۰۸)
’’میں اور جنھوں نے میری پیروی کی پوری بصیرت اور روشنی کے ساتھ اللہ کی طرف بلا رہے ہیں’’۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا جب حج کا زمانہ آتا اور عرب قبائل ہر طرف سے مکہ کے آس پاس اترتے تو آپ ایک ایک قبیلہ کے پاس جاتے اور تبلیغ اسلام فرماتے، عرب میں مختلف مقامات پر میلے لگتے تھے جہاں دور دور کے قبائل آتے تھے آپ ان میں جاتے اور اسلام کی تبلیغ فرماتے۔
ان میلوں میں سے عکاظ جواہل عرب کا قومی اور علمی دنگل تھا اور مجنۃ اور ذوالمجاز کا نام مورخین نے خاص طور پر لیا ہے۔ عرب قبائل میں سے بنو عامر ، محارب ،فزارہ، غسان، مرۃ، حنیفہ، سلیم، علس، بنونظر، کندہ، کلب، حارث بن کلب ، حارث بن کعب ، عذر، حضاریہ مشہور قبائل ہیں، ان سب قبائل میں آپ تشریف لے گئے۔ لیکن ابو لہب ہر جگہ ساتھ ساتھ جاتا اور جب آپ کسی مجمع میں تقریر کرتے تو برابر سے کہتا کہ ’’یہ دین سے پھر گیا ہے اور جھوٹ کہتا ہے‘‘۔ (۱)اس دعوت الی اللہ کے سلسلے میں کس طرح کی مصیبتیں نبی پر آئیں اور کتنے بے مثال صبرو ااستقامت کا ثبوت دیا اس سلسلے میں ایک مشھور حدیث آتی ہے جس میں مکی دور کی پوری داستان اور انتہا درجہ کی استقامت کی تاریخ کو سمیٹ کر دو جملوں میں حضور اکرمﷺ نے فرمادیا ہے:
’’اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کی وجہ سے مجھے مسلسل خوف وہراس میں مبتلا کیا گیا، ڈرا یادھمکا یا گیا، اتنا کہ کسی اور کو ڈرایا نہیں جا سکتا۔ مجھے اتنی اذیت پہنچائی گئی کہ ایسی اذیت کسی اور کونہیں پہنچائی جا سکتی ہے‘‘۔ (ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان، حسن صحیح)
اس حدیث میں بڑے ہی اختصار کے ساتھ پوری تاریخ نبوت کو سمیٹ کر بیان کر دیا گیا ہے، اب مکی دور کے کچھ المناک واقعات کا ذکر، جس سے یہ اندازہ ہو سکے گا کہ نبی اپنے دور دعوت میں کتنے صابر رہے اور آج بھی جولوگ دعوت الی اللہ کافریضہ لیکر اٹھے ہیں وہ بنی کی اس تاریخ اور اس سنت کو دہرا رہے ہیں اور وہی صبرو استقامت کی مثال پیش کر رہے ہیں۔
یوں تو ایذاء کی ابتدا آغاز نبوت سے شروع ہو چکی تھی، لیکن اس وقت طنزو مذاق ، بے کار اعتراضات اور مخالفانہ پروپیگنڈہ ہوتا تھا۔ یہ صورتحال ابوطالب آپ کے چچا کی زندگی تک رہی۔ ان کی موجودگی میں کسی کو یہ جرات نہ ہوتی تھی کہ جسمانی سزا پیغمبر کو دے۔ لیکن جب ابوطالب کا انتقال ہوگیا تب مخالفانہ سرگرمیاں تیز ہوگئیں اس سلسلے میں چند واقعات یہ ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کہیں کسی مجمع میں دعوت اسلام کا وعظ فرماتے تو ابو لہب جو آپ کے ساتھ ساتھ برابر سے کہتا جاتا کہ ” یہ جھوٹ کہتا ہے، ایک صحابی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ جب کہ میں اسلام نہیں لا چکا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بازار ذوالمجاز میں گئے اور گھس کر کہا لا الہ الا اللہکہو، ابو جہل آپ ہر خاک پھینکتا جاتا تھا، اور کہتا کہ اس کے فریب میں نہ آنا۔ یہ چاہتا ہے کہ تم لات وعزی کی پرستش جھوڑ دو‘‘۔(سیرت النبی، جلد اول، بحوالہ مسند امام احمد ، جلد ۲)
عروہ کہتے ہیں کہ ابن عباس سے پوچھا کہ مشرکین مکہ نے رسول اللہ کو سب سے زیادہ ایذاء کس وقت دی تو انھوں نے فرمایا ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم حطیم میںنماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آپ کے پاس آیا اور آپ کی گردن میں اپنی چادر ڈال کر زور سے گلا گھونٹا، جو لوگ اس منظر کو دیکھ رہے تھے انھوں نے یقین کرلیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوجائے گا۔ اسی حالت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آنکلے اور انھو ںنے عقبہ کا شانہ زور سے پکڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹایا اور کہا: اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ۔ کیا تم کسی آدمی کو اس جرم میں مار ڈالوگے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے(تفسیر القرطبی میں بخاری کے حوالے کے ساتھ)،اسی طرح دوسرے دن کا واقعہ ہے۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور دوسری طرف ابو جہل اور چھ قریش کے سردار بیٹھے ہوئے تھے۔ ابوجہل نے یہ تجویز پیش کی کہ کون ہے جو قصاب کے یہاں جاکر اونٹ کا اوجھ لائے گا، جسے محمد کے اوپر ڈالا جاسکے، تو بد بخت عقبہ تیار ہوا اور اونٹ کا اوجھ لے کر آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سجدے کی حالت میں ڈال دیا۔
ظاہر بات ہے اونٹ کا اوجھ وزنی تھا، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ممکن نہ ہو سکا کہ سر اٹھا سکیں۔ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں میں آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہاتھا، لیکن میں آپ کی مدد نہیں کر سکتا تھا۔کاش کہ اس بری حرکت کو روکنے کے لئے میرے پاس طاقت ہوتی ۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ اس منظر کو دیکھ کر ٹھٹے مارکر ایک دوسرے پر گرنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے ہی میں پڑے رہے اور سر نہ اٹھا سکے اتنے میں آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ ؓکو اس کی اطلاع دی گئی ،وہ آئیں اس وقت وہ بچی تھیںاور آپ کی پیٹھ سے اوجھ ہٹاکر پھینکیںاور تب آ پ نے سر اٹھایا۔ (فتح المنعم جلد۷)
ابن اسحاق کا بیان ہے جو گروہ گھر کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو اذیت دیا کرتا تھا وہ یہ تھا ابولہب، حکم بن ابی العاص بن امیہ، عقبہ بن معیط، عدی بن حمراء ثقفی ابن الاصداء ھذلی یہ سب کے سب آپ کے پڑوسی تھے اور ان میں سے حکم بن ابی العاص کے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہ ہوا۔ ان کے ستانے کا طریقہ یہ تھا جب آپ نماز پڑھتے تو کوئی بکری کی بچہ دانی اس طرح نشانہ بنا کر پھینکتا کہ ٹھیک آپ کے اوپر گرتی۔ چولہے پر ہانڈی ہوتی تو بچہ دانی اس طرح پھینکتے کہ سیدھے ہانڈی میں جاکر گرتی۔ آپ مجبور ہو کر ایک گھروندا بنالیا تاکہ نماز پڑھتے ہوئے ان سے بچ جائیں۔(الرحیق المختوم مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوریؒ)
ا س طرح کے واقعات احادیث کی کتابوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مکہ کے زمانہ دعوت و تبلیغ میں طائف کا اہم واقعہ بھی قابل ذکر ہے۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکی سرداروں سے مایوس ہوگئے تو آپ نے طائف جانے کا فیصلہ کیا کہ شاید وہاں حق کا بیج بویا جاسکے ،مکے کی سرزمین تو دعوت حق کے لئے بنجر ہے۔(۷) چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے اور دس دن قیام کیا اور قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے سامنے دعوت حق پیش کی، لیکن وہاں کے لوگ مکہ سے زیادہ سخت نکلے اور مان کر نہ دیا اور کہہ دیا یہاں سے نکل جاؤ، اور ان سرداروں نے اوباش لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگادیا، جدھر جاتے یہ لڑکے پیچھے سے شور ہلڑ مچاتے اور پتھر مارتے، اس سفر میں آپ کے ساتھ زید بن حارثہ بھی تھے وہ آپ کا دفاع کرتے انھیں بھی سر پر چوٹ آئی ان اوباشوں نے اتنے پتھر پھینکے کہ آپ کے پائے مبارک لہولہان ہوگئے اور ایڑی کی ایک رگ پھٹ گئی ،جس سے بہت زیادہ خون نکلا ا اخیر میں آپ نے عتبہ اور شیبہ کے باغ میں پناہ لی جو ربیعہ کے بیٹے تھے۔ انھوں نے ان اوباشوں کو دور بھگایا اور آپ نڈھال ہو کر آرام کر رہے تھے اور اہل مکہ اور طائف کے مظالم کے یاد میں ڈوب گئے اور اللہ سے مناجات شروع کردی، اس وقت جو کلمات آپ کی زبان مبارک سے ادا ہوئے وہ حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ اس وقت آپ نہایت دلسوزی کے ساتھ اپنے رب سے یو ں فریاد میں مصروف ہوگئے۔
ترجمہ:” اے اللہ! میں تجھ سے شکایت کرتا ہوں کہ میری طاقت کچھ نہیں ہے اور تدبیر بھی نہیں ہے اور لوگوں میں بے وقعت ہو گیا ہوں۔ اے ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے، تو ہی میرا رب ہے تو مجھے کس کے حوالہ کرتا ہے؟ کیا کسی اجنبی کے حوالہ کرتا ہے؟ جو مجھ سے سختی سے پیش آتا ہے، یا کسی دشمن کے حوالہ مجھکو کرتا ہے؟جسکو تونے میرے اوپر مسلط کردیا ہے۔ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو میں ان میں سے کسی مصیبت کی پرواہ نہیں کرتا۔ لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ کشادہ ہے۔ تیری ذات کے نور کو اپنی پناہ گاہ بناتا ہوں، جس کے سامنے ساری تاریکیاں روشنی میں بدل جاتی ہیں اور جسکی وجہ سے دنیا اور آخرت کے معاملات درست ہوجاتے ہیں۔ میں اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ میرے اوپر تیرا غضب نازل ہو، جب تک تو راضی نہ ہو جائے، تجھے منائے جانا ناگیز ہے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔”
ربیعہ کے بیٹوں کے دلوں میں ہمدردی کا جذبہ ابھرا اور اپنے عیسائی غلام عداس کو حکم دیا کہ جاؤ انھیں انگور کے خوشے پیش کرو پھر اس نے حکم بجا لاتے ہوئے انگور کے کچھ خوشے ایک طشت میںرسول اکرم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا تو عداس کو بسم اللہ کے کلمہ سنکر حیرت ہوئی اور کہا یہ کلمہ یہاں کے لوگ نہیں کہتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا کہ تم کس ملک کے باشندے ہو، عداس نے کہا کہ میں عیسائی ہوں اور نینوا (۹)کا رہنے والا ہوں ، تم یونس بن متی کی بستی کے رہنے والے ہو، عداس نے کہا کہ آپ یونس بن متی کو کیسے جانتے ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا وہ میرے بھائی تھے وہ بنی تھے اور میں بھی نبی ہوں یہ سنکر وہ آپ کے قدموں پر گر پڑا اور سر ہاتھ اورپیروں کو بوسہ دینے لگا۔ ربیعہ کے دونوں بیٹوں نے یہ منظر دیکھا تو کہا دیکھو اس نے ہمارے غلام کو بگاڑ دیا، جب عداس واپس آیا تو ربیعہ کے دونوں بیٹوں نے کہا تم اس کے پاتھ پیر کو کیوں بوسہ دے رہے تھے عداس نے جواب دیا اے میرے آقا اس زمیں پر اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے، یہ جس چیز کی خبر دے رہا ہے وہ صرف نبی ہی دے سکتا ہے، دونوں نے جواب دیا تمہارا برا ہو تم نے یہ کیا؟تمارا دین اس سے بہتر ہے۔ ( ۱۰)گویا وہ دونوں دین مسیح پر قائم رہنے کی ہدایت کر رہے تھے۔) (۱۰)وہاں قدرے آرام کرنے کے بعد نبی علیہ السلام روانہ ہوئے تو غم سے نڈھال اور افسرہ تھے کہ قوم کے لوگوں نے تو سنا ہی نہیں ، طائف والوں نے بھی اس دعوت کو مسترد کردیا۔ جب قرن منازل پہنچے تو جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے، اس واقعہ کو حضرت عائشہ یو ں بیان کرتی ہیں:
حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ احد سے سخت دن آپ کے لئے کونسا تھا؟ آپ نے فرمایا مجھے تمہای قوم نے بہت اذیتیں دیں اور ان میں سب سے زیادہ سخت عقبہ کا دن تھا۔ میں نے اپنی دعوت اور اپنی بات عبد یالیل بن عبد کلال کے صاحبزادے کے سامنے پیش کی انھوں نے وہ جواب نہیں دیا جو میں نے چاہا، پھر وہاں سے میں چل پڑا میں غمزدہ تھا نڈھال تھا، اور قرن ثفالب( اسے قرن منازل بھی کہا جاتا ہے جو اہل نجد کا میقات ہے) تک چلتا رہا اور مجھے آرام نہ ملا۔ میں اپنا سر آسمان کے طرف اٹھایا تو بادل مجھ پر سایہ فگن ہے، پھر دیکھا تو اس میں حضرت جبرئیل علیہ السلام موجودہیں انھوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ آپ نے جوپیغام اپنی قوم کو دیا اور انھوں نے اس کے جواب میں جو کہا اللہ نے سن لیا ہے اور اللہ تعالی نے پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ کے پاس بھیجا ہے آپ جو چاہیں اسے انکے بارے میں حکم صادر فرمائیں وہ آپ کے حکم کی بجا آوری کے لیے تیار ہیں، پھر پہاڑوں کے فرشتہ نے مجھے پکارا اور مجھے سلام کیا پھر کہا کہ اے محمد! اگر آپ حکم دیں انہیں اخشبین (مکہ کے دوپہاڑوں کے نام جو جبل قعیقعان اور جبل ابو قیس کے نام سے مشہور ہیں)کے درمیان کچل دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! میں مایوس نہیں ہوں مجھے امید ہے ان بستیوں سے ایسے افراد پیدا ہوں گے جو توحید کے علمبردار ہونگے اور شرک سے کوسوں دور رہیں گے۔(۱۲)
اس سے اندازہ ہوگا کہ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کتنے سخت حالات سے گزرے اور کس کس طرح ستائے گئے لیکن آپ صبرو استقامت کا پہاڑ اور چٹان بن کر اپنا کام کرتے رہے، یہاں تک کہ کفرو جاہلیت کا زور ٹوٹ گیا اور شرک کا چراغ بجھ گیا۔
آپ اپنی پوری زندگی بھر صبر و استقامت کا پہاڑ بن کر اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے اور کہیں بھی آپ نے اپنے صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
“اگر پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دل کی بھڑاس ہی نکالنا چاہتے تو ان کے جاں نثاروں کی بے پناہ تلواروں سے اہل مکہ کو کون پناہ دے سکتاتھا؟ حالانکہ آپ نے سب کے لئے امن عام کی منادی کرادی اور کسی کو معمولی تکلیف دینا بھی گوارا نہ فرمایا، بلاشبہ آپ نے ظالموں اور عہد شکنوں کے خلاف جہاد کیا، لیکن یہ کوئی انتقامی کاروائی نہ تھی اس کا مقصود عدل کا قیام تھا تاکہ خداکی سرزمین شرو فساد سے پاک ہوجائے۔ آپ کی پوری زندگی میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں مل سکتا جس کو ذاتی انتقام کی مثال میں پیش کیا جاسکے۔ آپ نے ہمیشہ سختی کا جواب نرمی اور بد سلوکی کا جواب لطف و محبت سے دیا ۔یہ آپ کے خلق عظیم کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو ہے۔
اگر خدا اور رسول کسی خاص کافر کی ہجو اور مذمت ہی پر اتر آتے تو اس کے سب سے زیادہ مستحق ابو جہل اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی تھے لیکن معلوم ہے کہ ان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسا کلمہ منقول نہیں ہے جس کو مذمت سے تعبیر کیا جاسکے”۔ (۱۳)
دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں رہنما اصول
قرآن مجید تین چیزوں کی ہدایت کرتا ہے، دعوت حکمت کے ساتھ دی جائے۔ عمدہ نصیحت ہو۔ اور جب کسی سے گفتگو کی جائے تو شائستہ لہجے میں۔
اُدْعُ اِلٰى سَبِیلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِىَ اَحْسَنُ۔ (سورۃ النحل)
’’ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ سے بلاؤ اور ان کے ساتھ اس طریقے سے بحث کرو جو اچھا ہے‘‘۔
اس آیت میں دعوت کے تین طریقہ کار متعین کئے گئے ہیں۔ ایک حکمت سے دعوت دی جائے دوسرے عمدہ نصیحت کے ساتھ تیسرا طریقہ یہ کہ مباحثہ کے وقت بہترین اسلوب ہو۔یہ سورہ النحل کی آیت ہے جو مکے کے آخری دور میں نازل ہوئی اور کفار کی مخالفت اپنے عروج پر تھی ایسے وقت میں یہ ہدایات بنی اور اصحاب بنی کو دی جارہی ہیں۔
مولانا مودودی ؒ اس کی تشریح میں لکھتے ہیں: یعنی دعوت میں دوچیزیں ملحوظ ر ہنی چاہئیں۔ ایک حکمت۔ دوسرے عمدہ نصیحت۔
“حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت استعداد اور حالات کو سمجھ کر، نیز موقع و محل دیکھ کر بات کی جائے۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکا جائے۔ جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے، پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہو۔
عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں ان کے لئے جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی ابھارا جائے اور ان کے برے نتائج کا خوف دلایا جائے۔
ہدایت اور عمل صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلا ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقے سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیر خواہی ہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے۔ بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔
بہترین مباحثہ کی تشریح یوں کرتے ہیں: اس کی نوعیت محض مناطرہ بازی اور عقلی کشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو۔ اس میں کج بحثیاں اور الزام تراشیاں اور چوٹیں اور پھبتیاں نہ ہوں۔ اس کا مقصود حریف مقابل کو چپ کر دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو۔ بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو۔ اعلی درجہ کا شریفانہ اخلاق ہو۔ معقول اور دل لگتے دلائل ہوں۔ مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ اور ہت دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے۔ سیدھے سیدھے طریقہ سے اس کو بات سمجھنانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پر اتر آیا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جا ئے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیاد ہ دور نہ نکل جائے”( ۱۴)
دوسرے مقام پر فرمایا:
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِینَ اِنَّا كَفَینٰكَ الْمُسْتَہْزِءِینَ۔ (سورہ الحجر:۹۴،۹۵)
’’ پس تم کو جس بات کا حکم ملا ہے اس کا اعلان کرو اور مشرکین سے اعراض کرو ۔ مذاق اڑانے والوں کیلئے تمہاری طرف سے ہم کافی ہیں۔بے کم وکاست دعوت دی جائے اور مشرکین کے بکواس پر توجہ نہ دی جائے‘‘۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیۃٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیلَ۔(الحجر:۸۵)
’’ بلاشبہ قیامت ضرور آنے والی ہے ۔ پس خوبصورتی سے درگزر کرو‘‘۔
“خوبصورتی کے ساتھ درگزر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ ان کی شرارتوں سے بد دل اور مایوس ہو، نہ ان کی بیہودہ باتوں کا جواب دو اور نہ اپنے فرض دعوت و تبلیغ سے دست کش ہو بلکہ اپنے کام میں لگے رہو، اور ان کے معاملے کو اللہ پر چھوڑو۔ اگر یہ اپنی روش سے باز نہ آئے تو یہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوں گے جس سے رسولوں کی تکذیب کرنے والی ان کی پیشرو قومیں ہوچکی ہیں”۔ (۱۵)
ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَقُلْ سَلٰمٌ۰ۭ فَسَوْفَ یعْلَمُوْنَ۔(الزخرف:۸۹)
’’اچھا ، اے بنی، ان سے در گزر کرو اور کہو سلام ہے تمہیں، عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا‘‘۔
یعنی ان کی سخت باتوں اور تضحیک و استہزاء پر نہ ان کے لیے بد دعا کرو اور نہ ان کے جواب میں کوئی سخت بات کہو، بس سلام کرکے ان سے الگ ہو جاؤ۔ (۱۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر طائف کا مشہور قبیلہ ثقیف سے حمایت اور تبلیغ دعوت کے لئے تھا ، آپ اس بات کو اچھی طرح سجھ گئے کہ قریش کے لوگ اب مان کر نہیں دیں گے اس لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے جہاں سے قریش کی طاقت کو توڑا جا سکے آپ نے ایک سوچی سمجھی اسکیم اور پروگرام کے تحت وہاں کا سفر کیا، تاکہ دوسرے قبائل کی حمایت حاصل کرسکیں۔ اس لئے کہ اگر طائف سے حمایت مل جاتی ہے تو دعوت کے مشن کو آگے بڑھنے میں تیزی آئے گی اور جو مخالفت ہے اس میں کمی آئے گی۔ چنانچہ آپ نے بنی عمر بن عمیر کے تینوں بیٹوں عبد یا لیل، مسعود ، اور حبیب کو اپنی دعوت کا مر کز بنایا جو قریش کے اتحادی اور حلیف تھے ،عرب میں قبائل کی زندگی میں اس بات کی بڑی اہمیت تھی کہ کسی ناگہانی موقع پراگر کسی کو مدد کی ضرورت پڑی تو معاہدہ کی رو سے حلیف قبیلہ کو اس کی آواز پر لبیک کہنا فرض ہوتا تھا ۔ اگر یہ قبیلہ ایمان لے آتا ہے تو قریش کے لوگ سوچنے پر ضرور مجبور ہوںگے۔ یہی وہ اہم بات تھی جس کی وجہ سے آپ نے وہاں کا سفر کیا اس کے علاوہ طائف کی دوسری استیتجک پوزیشن یہ بھی تھی:
کہ طائف مکہ کے بعد جزیرۃ العرب کا دوسرا بڑا شہر تھا او مکہ اور طائف میں دینی چشمک بھی رہتی تھی، مکہ میں حرم کے اندر ھبل بت تھا اور طائف میں دوسرا بڑا بت لات موجود تھا۔طائف اور مکہ کے قبائل میں آپس کی رشتہ داریاں بھی تھیں۔ اس استیتجک سفر میں کسی اہم صحابی کو ساتھ لے کر نہیں گئے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ خبر بہت عام نہ ہو جائے صرف اپنے ساتھ زید بن حارث کو ساتھ لے گئے اور آپ نے اتنا احتیاط کیاکہ یہ سفر پیدل کیا۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے آپ دعوت کے کام کس طرح احتیاط اور پلان بنا کر کرتے تھے ،جہاں اس کی ضرورت پڑتی تھی۔
طائف میں قریش کے بڑے بڑے لوگوں کی املاک موجود تھی اگر یہ قبیلہ اسلام لے آتا ہے تو اقتصادی لحاظ سے بڑی کامیابی بھی ہوگی۔
طائف میں دوسرا با اثر قبیلہ بنی مالک تھا جو بنی ہوازن کے حلیف اور اتحادی تھا آپ نے بنی مالک سے اس لئے رابطہ نہیں کیا کہ ابھی بنی ہوازن کے کسی فرد نے اسلام قبول نہیں کیا تھا ان تک قریش کی طرح دعوت پہنچی ہی نہیں تھی اور دعوت کا باب نہیں کھلا تھا اس میں مصلحت مانع ہوئی کہ اس طرح معاملہ بگڑ سکتا ہے۔ قبائلی اصولوں کے مطابق بنی مالک کے سردار رسول کی دعوت کو قبول کرنے کے لئے ضروری ہوتا کہ پہلے بنی ہوازن سے رائے اور مشورہ کرتے تب ہی جا کر کسی نتیجہ پر پہنچتے۔ آپ یہ خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے جو حمایت آپ کو درکار تھی وہ یہاں سے نہیں مل سکتی تھی۔ ( ماخوذ طائف کا سفر از ڈاکٹر راغب السرجانی)
(۷)فقہ السیرہ محمد غزالی
(۹)عراق کے شمال میں ایک صو بہ کا نا م ہے جس کا مرکز موصل ہے جو بغداد سے ۴۰۲ کیلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ نینوی کو حضرت عمر بن خطاب کے دورِ خلافت میں تابعی ریعی بن الافکل العنزی نے۶۳۷ء میں فتح کیا تھا اس وقت ساسانیوں کی حکومت تھی۔مزید تفصیل انسائی کلوپیڈیا میں یوں ہے۔ دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر اور موصل کے بالمقابل کھنڈروں کا ایک وسیع و عریض رقبہ، جہاں قدیم آشوری سلطنت کا پائے تخت تھا۔ قرون وسطی کے عربی ماخذ میں یہاں حضرت یونس کے مدفون ہونے کا کوئی ذکر نہیں آیا، اگرچہ موجودہ زمانے میں مسلمان زائرین کے لئے یہی خیال موجب کشش رہا ہے ۔ البتہ سابقہ عربی کتابوں میں اس کے تقدس کا باعث یہ بتا گیا ہے کہ حضرت یونس نے اپنے ہم وطن اہل نینوا کے ساتھ یہیں دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی۔ ابن بطوطہ کے زمانے تک حضرت یونس کے رہائشی حجرے اور اس محراب کی نشانی دہی کی جاسکتی ہے جہاں دعا مانگی گئی تھی۔( اسلامی انسائیکلوپیڈیا جلد دوم، سید قاسم محمود)
(۱۰) فقہ السیرہ محند غزالی
(۱۱)عداس دین مسیحی سے واقف تھے اور انھیں معلوم تھا کہ ایک نبی آنے والا ہے جسکی پیشنگوئی حضرت مسیح علیہ السلام کر چکے تھے، اسی لئے انھوں نے دل سے اقرار کرلیا کہ وہ وہی رسول موعود ہیں جس کے ہم سب منتظر تھے، عداس ان دونوں کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی اور حق پر جمے رہے اور اس بات کی گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کی خبر دے رہے ہیں وہ ایک بنی ہی دے سکتا ہے اس لئے عداس نے اقرار کیا کہ یہ نبی ہیں۔” وہ اسلام میں داخل ہوگئے اور جب عتبہ اور شیبہ نے عداس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ بدرمیں شرکت کی دعوت دی تو جواب میں عداس نے کہا کیا تم دونوں اس شخص کے بارے میں جنگ کی دعوت دیتے ہو جسے میں نے تمہارے باغ میں دیکھا تھا؟ بخدا پہاڑ بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے یہ جواب سنکر ان دونوں نے کہا تیرا برا ہو اے عداس اس کی باتوں نے تمھیں سحر زدہ کردیا ہے” (فی الدعوۃالی الاسلام بین غیر المسلمین ، محمد عزت طنطاوی)
(۱۲)صحیح بخاری باب بدء الخلق
(۱۳)سورہ لہب کی تفسیر امام حمیدالدین فراہی ؒ
(۱۴) تفہیم القرآن جلد دوم سورہ النحل حاشیہ۱۲۲۔۱۲۳
(۱۵) تدبر قرآن جلد چہارم ص ۳۷۶ مولانا امین احسن اصلاحی ؒ
(۱۶) تفہیم القرآن جلد ۴ سورہ الزخرف حاشیہ۷۱
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2014