گزشتہ 70۔80 برسوں میں جن خوش بخت لوگوں کو اسلام کے شامیانۂ رحمت میں پناہ لینے کا شرف حاصل ہوا، ان میں ایک امریکی خاتون مریم جمیلہ کا نام خاص طور پر قابلِ تذکرہ ہے۔ ان کے آباءو اجداد کا تعلق یہودی مذہب سے تھا اور ان کا اصل وطن جرمنی تھا۔ 1848ء میں یہ لوگ طلبِ معاش کے لیے امریکہ آئے اور وہاں کے شہر نیوروشیل میں سکونت پذیر ہوئے۔ وہیں 22مئی 1934ء کو ان کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی، جس کا نام والدین نے مارگریٹ مارکس رکھا۔ بچی کچھ بڑی ہوئی تو اسے اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ ابتدائے عمر میں اس کے چہرے پر متانت کے آثار نمایاں تھے، اسکول میں تمام وقت وہ پڑھنے لکھنے میں مصروف رہتی تھی اور اس کا شمار ذہین بچوں میں ہوتا تھا۔ یورپی اور امریکی معاشرے میں ناچ گانے کا جو کلچر راسخ ہوچکا ہے اور جس تہذیب نے اس معاشرے میں پنجے گاڑ رکھے ہیں‘ اُس سے اِس بچی کو آغاز شعور ہی میں نفرت ہوگئی تھی۔ عام بچوں کی طرح کھیل کود سے بھی اسے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہاں کے رواج کے مطابق کسی ہم عمر لڑکے کو اس نے اپنا دوست نہیں بنایا۔ زیادہ لڑکیوں سے بھی اس نے مراسم پیدا نہیں کیے۔ اس کی اصل مصاحب کتابیں تھیں اور ان کا مطالعہ اس کی ذہنی غذا۔
1952ء میں جب اس نے عمر کی اٹھارویں منزل میں قدم رکھا تو وہ ہائی اسکول کی تعلیم سے فارغ ہوئی۔ پھر اسی سال کے ستمبر میں یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور کچھ عرصہ ایک فیکٹری میں بھی تعلیمی قسم کی کچھ خدمات سرانجام دیں۔ امریکی معاشرے میں یہ رسم چلی آرہی ہے کہ بالغ ہوتے ہی لڑکے اور لڑکیاں اپنی معاشی کفالت کے خود ذمہ دار ہوجاتے ہیں‘ لیکن مارگریٹ مارکس کے والدین نے اپنی بیٹی کے اخراجات کے تمام معاملات اپنے ذمے لیے رکھے۔
یونیورسٹی میں اس کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا تو پہلے سمسٹر کے آغاز ہی میں ایک بیماری کی زد میں آگئی اور مجبوراً یونیورسٹی چھوڑنا پڑی اور اس کا رجحان مذہب کی طرف ہوگیا۔ کچھ عرصے کے بعد نیویاریک کے ایک کالج میں داخلہ لیا۔ کالج میں اس کا دورِ طالب علمی بہت مختصر رہا۔ 1953ء میں وہ نیویارک یونیورسٹی میں چلی گئی۔ یونیورسٹی میں اس نے اسلام اور یہودیت کا مضمون خاص طور پر دلچسپی سے پڑھا اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ یہودیت کے بھی وہ تمام گوشوں کو حیطۂ فہم میں لانے کے لیے کوشاں ہوئی اور یہودیوں کی مختلف تنظیموں سے رابطہ پیدا کیا‘ لیکن وہ اپنے اس آبائی مذہب سے متاثر ہونے کے بجائے‘ ذہنی اور فکری طور پر اس سے دور ہوگئی۔
1956ء میں اس پر پھر بیماری نے حملہ کردیا اور اسپتال میں داخل ہوگئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی رسمی تعلیم کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ یونیورسٹی چھوڑ دی اور ڈگری حاصل نہ کرسکی۔
اب یہ عمر کی 26 ویں منزل میں پہنچ گئی تھیں اور ان کے مطالعے کا اصل محور مذہب قرار پاگیا تھا۔ وہ اس ضمن میں اپنے والدین سے رہنمائی حاصل کرنے کی سعی کرتیں تو وہ بیٹی کو کوئی ایسی راہ نہ بتاسکتے جو اس کے لیے ذہنی اطمینان کا باعث ہوسکتی۔ یہودیت‘ عیسائیت‘ بہائیت وغیرہ مذاہب کی کتابوں کا انہوں نے مطالعہ کیا اور ان مذاہب کی مختلف تنظیموں کے رہنمائوں سے ملاقات کی‘ لیکن کہیں سے اطمینانِ قلب کی دولت حاصل نہ ہوسکی۔ ان مذاہب کے مطالعے کے ساتھ اسلام کا مطالعہ بھی جاری رکھا۔ علامہ محمد اسد کی کتاب روڈٹومکہ پڑھی۔ چند اور کتابیں بھی پڑھیں۔ مختلف مذاہب کی کتابوں کے مطالعے کے نتیجے میں وہ شدید نفسیاتی دبائو میں آگئیں تو ڈاکٹروں کے مشورے سے 1957ء میں انہیں نفسیاتی امراض کے ایک اسپتال میں داخل کرا دیا گیا‘ جہاں وہ دو سال (1959 ء تک) رہیں۔ ان دو سالوں میں انہوں نے اسلام اور دیگر مذاہب کا تقابلی مطالعہ جاری رکھا اور فیصلہ کرلیا کہ اسپتال سے فراغت کے بعد اسلام سے متعلق کچھ مزید معلومات حاصل کرکے اسلام قبول کرلیں گی۔ چنانچہ وہ اسپتال سے نکلیں تو نیویارک میں رہنے والے مسلمانوں سے ملنے کا اہتمام کیا اور بعض مسلمان گھرانوں کا پتا چلا تو ان گھروں میں گئیں اور وہاں کے اسلامک سینٹر میں باقاعدگی سے آمد و رفت شروع کردی۔
اب انہوں نے صرف اسلام کو اپنے مطالعہ کا مرکز قرار دے دیا۔ پہلے ایک انگریزی ترجمہ قرآن حاصل کیا۔ یہ ایک متعصب عیسائی پادری جارج گاسل کا ترجمہ تھا۔ اس ترجمے سے انہیں مترجم کے تعصب کا پتا چل گیا۔ اس کے بعد انہیں نیوروشیل پبلک لائبریری سے علامہ محمد اسد کا ترجمہ قرآن ملا۔ علامہ ممدوح نے یہودی مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا تھا اور بہت بڑے اسلامی اسکالر کی حیثیت سے شہرت پائی۔ ان کے ترجمہ قرآن سے وہ بہت متاثر ہوئیں۔ اسے بار بار پڑھا اور اپنا راہنما قرار دے دیا۔ قرآن کا یہ ترجمہ پڑھنے کے بعد وہ اچھی طرح سمجھ گئیں کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے اور اس کے تمام احکام صحیح ہیں۔
قرآن کے مطالعے کے بعد انہوں نے احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرنے کا عزم کیا۔ حسن اتفاق سے انہیں مشکوٰۃ المصابیح مل گئی‘ جس کا انگریزی ترجمہ حاجی فضل کریم مرحوم نے کیا ہے۔ مشکوٰۃ ان کے نزدیک اسلامی احکام کا ’’انسائیکلوپیڈیا‘‘ ہے۔ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپؐ کے صحابہ کرام کے متعلق کچھ جاننا چاہتیں یا روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والے کسی مسئلے کے بارے میں اسلامی احکام معلوم کرنے کا ارادہ کرتیں تو مشکوٰۃ کی طرف رجوع کرتیں اور اپنا مقصد حاصل کرلیتیں۔
مشکوٰۃ کے علاوہ انہوں نے قبولِ اسلام سے قبل علامہ محمد اسد کے صحیح بخاری کے انگریزی ترجمے کا مطالعہ کیا‘ جو اُن کے لیے انتہائی دل بستگی کا باعث بنا۔ ان دنوں نیویارک کی اسلامی کتابوں کی ایک دکان سے انہوں نے اسلامی تعلیمات سے متعلق بہت سی کتابیں خریدیں‘ جن میں علامہ محمد اسد کی دو کتابیں ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ اور ’’اسلام ایٹ دی کراس روڈ‘‘ شامل تھیں۔ پھر اس دکان سے مثنوی مولانا روم‘ ہدایہ‘ مقدمہ ابن خلدون‘ اقبال کی شاعری اور بعض دیگر کتابوں کے انگریزی تراجم خرید کر پڑھے۔
کچھ مدت سے والدین سے ان کا اختلاف ہوگیا تھا جو 1959ء میں کافی بڑھ گیا تھا‘ اس لیے کہ وہ ہر وقت اسلامی تعلیمات پر مشتمل کتابوں کے مطالعے میں مشغول رہتی تھیں اور اس سلسلے میں والدین سے بحث بھی کرتی تھیں۔ ان کی اس روش سے تنگ آکر والدین نے ان کو علیحدہ کردیا اور وہ اپنی معاشی گاڑی کو چلانے کے لیے ملازمت کرنے لگیں۔ ان دنوں انہوں نے واشنگٹن ویمن ہائوس میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ان کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ کتابوں کی خریداری اور اسلام کو ہر پہلو سے سمجھنے کے لیے لوگوں سے میل ملاقات اور مختلف اسلامی ملکوں کے اہلِ علم سے خط وکتابت میں صرف ہوجاتا تھا۔ اسلام کی معاشرتی زندگی سے آگاہ ہونے کے لیے وہ لوگوں کے گھروں میں بھی جاتیں اور ان کے رہن سہن کے طور طریقوں کا مشاہدہ کرتیں۔
اس زمانے میں جن مسلمان اصحابِ علم سے انہوں نے مراسلت کی ان میں مندرجہ ذیل حضرات شامل تھے:
٭ ڈاکٹر فاضل جمال (یہ اُس وقت اقوام متحدہ میں عراقی حکومت کے مندوب تھے)
٭ ڈاکٹر محمود ایف حب اللہ (سابق ڈائریکٹر اسلامک سینٹر واشنگٹن)
٭ شیخ محمد بشیر ابراہیمی (سابق صدر علمائے الجزائر اور فرانسیسی استعمار کے خلاف جہادِ آزادی کے رہنما)
٭ ڈاکٹر محمد حمیداللہ حیدرآبادی (مقیم پیرس)
٭ ڈاکٹر معروف دوالیبی (سابق پروفیسر آف شریعہ دمشق یونیورسٹی)
٭ ڈاکٹر سعید رمضان (سابق صدر اسلامک سینٹر جنیوا)
ان ذاتی اور قلمی روابط سے انہیں بہت فائدہ ہوا اور اسلامی تعلیمات کے بہت سے پہلوؤں سے شناسائی ہوئی۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے کس طرح متعارف ہوئیں اور یہ تعارف آگے چل کر کس قالب میں ڈھلا اور اس سے کیا نتائج نمودار ہوئے؟
مولانا مودودی کا ایک مقالہ ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ کے عنوان سے ڈربن کے ایک مجلے ’’دی مسلم ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہوا تھا جو قبولِ اسلام سے قبل مارگریٹ مارکس کی نظر سے گزرا اور انہوں نے بڑی دلچسپی سے اس کا مطالعہ کیا۔ وہ اس موضوع پر اکثر اپنے والدین اور بعض دیگر حضرات سے گفتگو کرتی رہتی تھیں‘ لیکن انہیں کسی طرف سے اس کا اطمینان بخش جواب نہیں مل رہا تھا۔ اب مولانا مودودی کا مقالہ پڑھا تو اس سے بہت متاثر ہوئیں اور اس موضوع سے متعلق ان کے تمام شکوک رفع ہوگئے۔1960ء کے آخر میں انہوں نے مولانا ممدوح سے خط وکتابت شروع کردی۔ ان کے پہلے خط کا مولانا نے جو جواب دیا اس سے ان کا حوصلہ بڑھا اور پھر باہمی مراسلت کا سلسلہ آگے چلا۔ اسلامی تعلیمات کی سچائی کے نقوش تو پہلے ہی سے ان کے دل پر مرتسم ہوچکے تھے‘ اس لیے کہ وہ اس سلسلے کی بے شمار کتابیں بھی پڑھ چکی تھیں اور متعدد لوگوں سے زبانی گفتگو میں بھی اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرلی تھیں اور قبولِ اسلام کا فیصلہ کرلیا تھا، لیکن مولانا مودودی کے مضمون اور خط نے انہیں خاص طور سے متاثر کیا۔ مراسلت کا دائرہ آگے بڑھا تو مولانا نے ان کو اسلام قبول کرکے کسی مسلم ملک میں قیام کرنے کا مشورہ دیا اور یہ بھی تحریر کیا کہ وہ پاکستان آجائیں اور اس ملک میں مستقل طور پر سکونت اختیار کرلیں۔ اس سے پہلے انہوں نے عالم اسلام کے جن اصحابِ علم سے خط وکتابت کی ان میں سے کسی نے اپنے ہاں آنے کی دعوت نہیں دی۔
اب ان کا کاروانِ زندگی آگے بڑھتا اور ایک نئی منزل میں داخل ہوتا ہے‘ جہاں وہ مارگریٹ مارکس کا بوسیدہ لبادہ اتارکر مریم جمیلہ کا خوب صورت برقع زیب تن کرلیتی ہیں۔ عیدالاضحی کے روز 24 مئی 1961ء کو اپنی دو مسلمان دوستوں خدیجہ فیصل اور بلقیس محمد کے ساتھ وہ بروکلین نیویارک کے اسلامک مشن کے ڈائریکٹر شیخ دائود احمد فیصل کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان سے دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کی درخواست کی۔ شیخ ممدوح نے ان کو بہ آوازِ بلند کلمۂ شہادت پڑھایا اور وہ اسلامی برادری کی باقاعدہ رکن بن گئیں۔ ان کا نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔ اس طرح ان کا مارگریٹ مارکس سے مریم جمیلہ تک کا کٹھن مگر دلچسپ سفر اختتام کو پہنچا اور مغرب کی فضائوں سے مستقبل کی ایک نامور مبلغۂ اسلام کا ظہور عمل میں آیا۔
قبولِ اسلام کے بعد مریم جمیلہ نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے ملنے والے یہودیوں اور عیسائیوں نے انہیں پاکستان آنے سے روکنے کی کوشش کی‘ لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہیں۔ وہ امریکہ سے ہوائی جہاز کے ذریعے پاکستان آنے کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی تھیں‘ اس لیے 18مئی 1962ء کو ایک جرمن بحری جہاز پر نیویارک سے روانہ ہوئیں جو مصر‘ سوڈان‘ صومالیہ اور سعودی عرب کی بندرگاہوں پر رکتا ہوا 26 جون 1962ء کو کراچی کے ساحل پر لنگرانداز ہوا۔ کراچی کی بندرگاہ پر جماعت اسلامی کے چند ارکان نے ان کا استقبال کیا۔ کچھ روز وہ ان کی مہمان رہیں۔ پھر 30جون کو لاہور پہنچیں۔ یہاں میاں طفیل محمد مرحوم ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے انہیں مولانا مودودی کے گھر پہنچایا۔ پاکستان آکر اس نیک بخت خاتون نے کلیۃً یہاں کی تہذیب اختیار کرلی تھی۔ باقاعدہ پردہ کرتی تھیں۔ اردو زبان بھی سیکھ لی تھی اور بے تکلفی سے اردو بولتی تھیں۔ میں نے ان کے ہاتھ کی اردو تحریر دیکھی ہے۔ صاف زبان اور اچھی تحریر۔ بول چال اور رہن سہن میں وہ پاکستان کے مسلم معاشرے کا حصہ بن گئی تھیں۔
کچھ عرصہ ان کا قیام مولانا مودودی مرحوم کے ہاں رہا۔ پھر انہیں پتوکی میں جماعت اسلامی کے ایک رکن کے ہاں بھیج دیا گیا جو اس وقت ایک قصبہ تھا‘ اب ضلع قصور کی تحصیل ہے۔ وہاں کا ماحول بالکل دیہاتی تھا اور اس دیہاتی ماحول میں انہوں نے جتنا عرصہ گزارا‘ نہایت خوشی سے گزارا۔ وہ پنجابی زبان بھی سمجھ لیتی تھیں بلکہ بول بھی لیتی تھیں۔
8 اگست1963ء کو ان کا نکاح مولانا مودودی نے چند لوگوں کی موجودگی میں محمد یوسف خاں صاحب سے پڑھایا۔ اُس وقت مریم جمیلہ کی عمر 29 سال اور یوسف خاں کی 39 سال تھی۔ محمد یوسف خاں 1924ء میں مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے اور اگست 1947ء میں ترکِ وطن کرکے لاہور آئے۔1951ء میں مولانا مودودی سے تعلق پیدا ہوا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے۔ جماعت کے یہ مخلص ترین سرگرم رکن تھے۔ طویل قامت اور سرخی مائل گورا رنگ‘ جی دار اور بے خوف شخص۔
مریم جمیلہ کے ساتھ شادی سے قبل ان کی شادی اپنے رشتے داروں میں ہوئی تھی اور وہ صاحبِ اولاد تھے۔ مریم جمیلہ اور ان کی پہلی بیوی (شفیقہ) کے درمیان ابتدا ہی میں اچھے مراسم پیدا ہوگئے تھے اور دونوں ہنسی خوشی ایک ہی مکان میں لاہور کے علاقہ سنت نگر میں رہتی تھیں۔ دونوں کے بچوں کا آپس میں بے حد پیار تھا اور وہ مریم جمیلہ کو آپا اور شفیقہ کو امی کہتے تھے۔ کئی سال اکٹھے گزارنے کے بعد پہلے شفیقہ فوت ہوئیں‘ پھر مریم جمیلہ نے وفات پائی۔
مریم جمیلہ اسلام کی مشہور اسکالر تھیں۔ اسلام کے مختلف پہلوئوں سے متعلق انہوں نے انگریزی میں چھوٹی بڑی 34کتابیں لکھیں جو ان کے محمد یوسف خاں نے شائع کیں۔ مختلف ممالک کے بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے اور اسلام کے بہت بڑے خدام کی حیثیت سے انہوں نے شہرت پائی‘ لیکن میرے محدود علم کے مطابق انگریزی زبان میں اسلام کے بارے میں جو تحریری خدمت اس امریکی نژاد خاتون نے انجام دی وہ نوعیت اور بوقلمونی کے اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2014