قرآن حکیم اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلمانوں کے باہمی اتحاد پر بہت زیادہ زور دیاگیا ہے اور اس کے فقدان کو مسلمانوں کے لیے بے وزن ہونے کی دلیل قرار دیاگیا ہے۔ دشمنانِ اسلام نے بھی ہر دور میں مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے پر توجہ مرکوز کررکھی ہے۔ تاریخ اسلام کا جب گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارا دورِ انحطاط اسی وقت سے شروع ہوا جب ہمارا ملی اتحاد منتشر ہونا شروع ہوا۔ اسلام کے دشمنوں کے نشانے پر بھی ہمیشہ یہی ملی اتحاد رہا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے علمی، فقہی اور سیاسی اختلافات کو ہوا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ملی اتحاد کو توڑنے کے لیے ہی Nationalism کا نظریہ وضع ہوا۔ تاکہ مسلمان قومی سرحدوں میں محصور ہوکر ملت کے تصور کو خود ہی دفن کردیں۔ خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے اسباب پر نظر دوڑانے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کس طرح دشمنانِ اسلام نے عرب قومیت کے نعرے کو خلافتِ عثمانیہ کو پارہ پارہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس وقت خلافتِ عثمانیہ اسلام اور مسلمانوں کی نمایندگی کی علامت تھی۔ اگرچہ خلافت میں وہ دم خم باقی نہیں رہا تھا جس کی وہ متقاضی تھی۔
ماضی میں مسلمانوں میں موجود فقہی اختلافات جب اپنی جائز حدوں سے تجاوز کرگئے تو وہ فتنہ وفساد برپا ہوا، جس میں لوگوں کی جانیں تک تلف ہوئیں۔ ان چیزوں میں زیادہ تر ان کوتاہ بین اورنام نہاد علما کا رول رہتا ہے، جو ان فقہی اختلافات کو ہوا دے کر ایک طرف تو اپنی نام نہاد عالمانہ ساکھ کو مسلم معاشرے میں بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف دانستہ یا نادانستہ طور پر دشمنانِ اسلام کے خانوں میں رنگ بھرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ مکاتب فکر کااختلاف کوئی معیوب چیز نہیں بہ شرطے کہ یہ اپنی جائز حدوں میں رہے۔ تفرقہ اور اختلاف میں فرق ہے۔ جہاں سوچنے سمجھنے والے دماغ ہوں وہاں اختلاف ہونا لازمی ہے۔ اختلاف نہ ہونا تو جمود کی علامت ہے۔ اسلام اختلاف کی نہیں تفرقے کی مذمت کرتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اختلافات کو برداشت کیا جائے اور سینے کشادہ رکھے جائیں۔ قرآن اور احادیث مبارکہ کااگر مطالعہ کھلے ذہن سے کیا جائے اور تمام مکاتب فکر کے استنباطی اصولوں سے آگاہی حاصل کی جائے تو سارا معاملہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ مختلف فقہی مسالک میں استنباط کے اُصولوں میں فرق ہونے کی وجہ سے فقہی مسائل میں اختلاف پیدا ہوا ہے۔ اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں کہ مسلک حنفی، مسلک شافعی، مسلک مالکی، مسلک حنبلی ، مسلک اہل حدیث ﴿اہل حدیث کو بھی مسلک کہنے کی ایک بڑی وجہ ہے جو الگ مضمون کامتقاضی ہے﴾ کے اعتبار سے آپ علاحدہ علاحدہ رہیں یہ کفر اور شرک نہیں۔ یہ بات متفق علیہ ہے کہ اصل میں شارع حقیقی اللہ تبارک وتعالیٰ ہے اور اللہ عزوجل نمائندے کی حیثیت سے اللہ کا رسولﷺ ہے۔ اگر کسی نے یہ سمجھا کہ شارع کی حیثیت امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام بخاریؒ کو حاصل ہے تو وہ مشرک ہوجائے گا۔
حنفیوں ، شافعیوں، مالکیوں ، حنبلیوں اور اہل حدیث کے درمیان بہت سارے فقہی اختلافات ہیں، لیکن اب یہ سارے اختلافات سمٹ کر نماز کے چند مسائل میں محصور ہوگئے ہیں اور زیادہ سے زیادہ طلاق تک متعین ہیں یا اگر تھوڑا اور تجاوز کر جائیں تو تقلید وعدم تقلیدتک۔
کسی بھی عام حنفی بھائی سے اگر آپ پوچھیںکہ آپ کا دوسرے مکاتب فکر سے کیا اختلاف ہے تو وہ صرف یہی بتائے گا کہ ہم نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے ہیں، رفع یدین نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت کرتے ہیں، آمین بالسّر کہتے ہیں اور باجماعت نمازوں میں امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھتے۔ کیونکہ ہمارے علماء نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ایسی ہی تھی۔ ہم ابھی دین کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے ،ہم ابھی قرآن ٹھیک طرح سے نہیں پڑھ پاتے۔ ایسی صورت میں ہم اختلافی مسائل میں کیا لب کشائی کریں گے۔ اب آپ کسی عام اہل حدیث بھائی سے پوچھیے کہ آپ کا دوسرے مکاتب فکر خصوصاً حنفیوں سے کیا اختلاف ہے تو اس کا جواب کچھ اس طرح ہوگا دیکھیے جی! ہم کسی شخص یا امام کی تقلید نہیں کرتے۔ ہم تو صرف قرآن اور حدیث پر چلنے والے لوگ ہیں۔ ہم نماز میں رفع یدین تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت کرتے ہیں، آمین بالجہر کرتے ہیں، سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں اور باجماعت نمازوں میں امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ بھی پڑھتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ آپ کو احادیث بھی دکھائے گا۔ حالاںکہ یہ بھائی بھی اوپر مذکور حنفی بھائی کی طرح ابھی قرآن اچھی طرح نہیں پڑھ پاتا، قرآن اور احادیث کی زبان عربی سے واقفیت تو دُور کی بات ہے۔ اگر اسے ان احادیث کے بارے میں علمیت ہوتی جو احناف کے پاس بطور دلیل ہیں اور علم حدیث کے سمندرسے اس نے ایک گھونٹ بھی پیا ہوتا تو شاید ان تمام اختلافات کو کھلے ذہن کے ساتھ برداشت کرتا۔
جو شخص کتب اسماءالرجال پر نظر رکھتا ہے اس سے یہ بات مخفی نہیں کہ راویوں کے متعلق یہ کوئی انوکھی بات نہیں کہ ثقہ سے ثقہ راوی کو بھی بعض نے ضعیف کہہ دیا ہے اور ضعیف سے ضعیف راوی کو بھی بعض نے ثقہ کہہ دیا ہے۔ یہ بات یہاں قابل غور ہے کہ احادیث کے راویوں کی ہی بنیاد پر احادیث کے درجات طے ہوتے ہیں اور حدیث کو صحیح ، حسن ، ضعیف، موضوع وغیرہ کہاجاتا ہے۔ اسی لیے کسی راوی کے متعلق صحیح فیصلہ کرنے کے لیے تین چیزوں کی پرکھ ضروری ہے۔ ﴿۱﴾ جارح کی حیثیت ﴿۲﴾جرح کا سبب اور صیغہ جرح کا مرتبہ ﴿۳﴾تعدیل کی اور معدل کی حیثیت اور یہ وہی کرسکتا ہے جو حدیث کے متعلق علوم سے گہری واقفیت رکھتا ہے۔ نہ کہ وہ جو صرف رمضان کے مہینے میں نمازوں کااہتمام کرتا ہے اور افطار کے انتظار میں وقت گزارنے کے لیے مسجد میں بیٹھ کر ۲۰ اور ۸ رکعات تراویح کے مسئلے اور دیگر اختلافی امور پر بحث ومباحثہ کرتا رہتا ہے۔ اختلافی امور پر سب سے زیادہ لڑائیاں یہی رمضانی نمازی جیسے لوگ کرتے ہیں۔ ماہِ رمضان کے متبرک مہینے میں اور اللہ تعالیٰ کے گھر کے اندر ’’عالمانہ بحث ومباحثہ‘‘ کے دوران کبھی جوش میں آکر ایک دوسرے سے ہاتھا پائی بھی کرلیتے ہیں۔ اسی لیے بدیع الزماں نورسی ؒکا ماننا تھا کہ کسی بھی صورت میں علمی اختلاف کو عام لوگوں کے درمیان نہیں لانا چاہیے۔ بلکہ صرف علماء کے درمیان ہی رہنا چاہیے۔ قارئین کرام کی خدمت میں ایک بات ذکر کرتا چلوں کہ حنفیوں اور اہل حدیث حضرات میں جو اختلاف مرکزی حیثیت اختیار کرگیا ہے اورجو دونوں مکاتب فکر کا اب لگ بھگ علامتی نشان بن چکا ہے وہ ہے نماز میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا۔ حالانکہ دونوں طریقے سنت سے ثابت ہیں۔ اگر اختلاف ہے تو صرف راجح اور مرجوح کا۔ لیکن بے شمار کتابیں دونوں طرف سے لکھی گئی ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فریق مخالف جو حدیث اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ ضعیف ہے اور اس کے مقابلے میں وہ حدیث جس پر دوسرا فریق عمل کررہا ہے وہ قوی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سارے لٹریچر کو پڑھنے کے بعد دونوں فریقوں کو احقر کا مشورہ ہے کہ اگر واقعی کوئی جماعتی اور مسلکی تعصب سے اوپر اٹھ کر اسلام کی خدمت کرناچاہتا ہے تو مذکورہ اختلافی امور کے سلسلے میں اِن کتابوں کو زیر مطالعہ لایا جائے: رسائل ومسائل از مولانا مودودیؒ، اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، اسلام میں اختلاف کے اصول وآداب، دعوت دین کے جدید تقاضے احناف اور اہل حدیث حضرات کے بڑے بڑے علماکی مذکورہ اختلافی مسائل کے سلسلے میں جو عالمانہ رائیں ہیں، اُن کو بھی غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کس طرح وسعتِ فکر ونظر سے کام لیاہے۔لیکن اب ہم نے ان مسائل کو ناک کا مسئلہ بنارکھا ہے۔ اسی لیے رفع یدین کی سنت پر عمل پیرا مسلمان رفع یدین کی سنت پر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں سے اندرہی اندر ایسی نفرت کرتا ہے جیسے نعوذ باللہ ان سے کوئی گناہ ہوا ہے۔ اور اسی طرح عدم رفع یدین کی سنت پر عمل کرنے والا مسلمان رفع یدین کرنے کی سنت پر عمل کرنے والے مسلمانوں کے بارے میں پھبتیاں کستا ہے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت کا مذاق اڑاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ جاہل قسم کے لوگوں کا کام ہے۔ لیکن مشاہدے میںآیا ہے کہ کہیںکہیں پڑھے لکھے جاہل بھی ان چیزوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
ان اختلافات سے نکلنے کی درخواست کے ساتھ احقر کا مشورہ ان مسلم نوجوانوں کے لیے، جو جزوی اور فروعی اختلافات میں الجھنے کے بجائے اقامت دین کا جذبہ رکھتے ہیں ، یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر محمد علی ہاشمی کی کتاب ’’شخصیۃ المسلم کمایصوغہا الاسلام فی الکتاب والسنۃ ‘‘ جس کا اُردو ترجمہ ڈاکٹرمحمدرضی الاسلام ندوی نے ’’مثالی مسلمان‘‘ کے نام سے کیا ہے، ضرور پڑھیں۔ احادیث کے صحیح و ضعیف ہونے پر علماء نے جو کتابیں لکھیں ہیں اورجن کو بنیاد بنا کر اکثر کچھ جوشیلے قسم کے لوگ بحث بازی شروع کردیتے ہیں اور ان لوگوں کو ہدف کا نشانہ بنایاجاتا ہے جو اپنی علمی کم مایگی کی وجہ سے علمی معاملات میں علماء کرام کی طرف ہی رجوع کرنے کو مناسب سمجھتے ہیں، اس لیے کہ انھیں معلوم ہے کہ وہ ابھی قرآن وسنت سے براہِ راست استنباط کرنے یا احادیث مبارکہ کے متعلق وسیع علوم سے استفادہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، علامہ بدیعؒ الزماں نورسیؒ کی عالمانہ رائے کو اگر اپنایا جائے تو مسلکی تنازعوں اور جھگڑوں کاازالہ ممکن ہے۔ جو لوگ فروعی یا اختلافی امور کو لے کر زیادہ بحث بازی کرتے ہیں ان کو احقر کا مشورہ ہے کہ اس سے باز رہیں۔ کیونکہ علوم دینیہ خصوصاً احادیث کے متعلق علوم سے واقفیت حاصل کرنا اور پھر اس پر دسترس حاصل کرنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے جو صلاحیت اور محنت درکار ہے اس کے لیے عرق ریزی کرنی پڑتی ہے ۔یہ چند پمپفلٹ پڑھنے سے نہیں پیداہوتی۔ اس کے لیے طالب کو آنکھوں کی بینائی بطور تیل کے جلانی پڑتی ہے۔ یہ تو اس کے لیے ہے جو مذکورہ علوم پر مہارت حاصل کرناچاہتا ہے اب چونکہ دوسرے علوم کی تحصیل بھی ضروری ہے اور ان میں بھی ماہرین کا ہونا ملت اسلامیہ کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہوگیا ہے ۔ اسی طرح بہت سارے علوم جن میں ملت اسلامیہ کو ماہرین درکار ہیں، ملت اسلامیہ کو ڈاکٹر انجینئر، سائنس داں، کی بھی ضرورت ہے۔ یہ علوم بھی کافی وقت اور محنت کے متقاضی ہیں ۔ ایک مسلمان کے لیے جتنے علوم الفرائض اور دیگر ضروری دینی معاملات سے آگاہی ضروری ہے ان کو حاصل کرکے اسے دیگر علوم پر ہی ساری توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور جب اسے کوئی شرعی مسئلہ دریافت کرنے کی ضرورت پڑے تو اس وقت وہ ان علما کی طرف رجوع کرے ، جو صرف علوم اسلامیہ کے ماہرہیں۔ ایک عام مسلمان کو باریک دینی مسائل میں عالموں کی تقلید کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔
اِذْلَوْکَلَّفَنَا کُلُّ مُسْلِمٍ اَنْ یَّنْظُرَفِ کُلِّ مَسْأَلَۃٍ نَظَرَۃَ الْمُجْتَھِدِ فَاِنَّ الصَّنَاعَاتِ سَتَتَعَطَّلُ، مَصَالِحَ سَتُھْمَ۔ ﴿الموسوعۃ الفقیۃ الکویت﴾
عام لوگوں کو دینی مسائل کے بارے میں بولنامنع ہے ان کی آرائ کا کوئی اعتبار نہیں۔ ان کی حیثیت جو بھی ہو یااس کا تقویٰ جتنا بھی ہو۔
احقر کے نزدیک یہ ان دینی مسائل میں بولنے کے متعلق ہے جو عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ علامہ قرطبیؒ اپنی تفسیر میں درج ذیل آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
’’ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہِ راست نہ پائی ہو تو کیاپھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟‘‘ ﴿البقرہ:۱۷۰﴾
تَعَلَّقَ قَوْمٌ بِھٰذِہِ الْآیَۃِ فِیْ ذَمِّ التَّقْلِیْدِ لِذَمِّ اللّٰہِ تَعَالیٰ الْکُفَّارَ بِاِتِّبَارِعِھِمْ لِاٰبائِھِمْ فِیْ الْبَاطِلِ وَاِقْتِدَائِھِمْ بِھِمْ فِیْ الْکُفْرِوَالْمَعْصِیَتِ۔ أمَّا التَّقْلِیْدُ فِی الْحَقِّ فَأضلٌ مِنْ اَصُوْلِ الدِّیْنِ، وَعِصْمَۃٌ مِنْ عِصَمِ الْمُسْلِمِیْنَ یَلْجَأُ اِلَیْھَا الْجَاھِلُ الْمُقْصِرُ عَنْ دَرْکِ النَّظْرِ۔ ﴿تفسیرقرطبیؒ،۲/۲۱۱﴾
لوگوں نے اس آیت کو تقلید کی مذمت کے متعلق کردیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفار کی باطل ، کفر اور معصیت میں اپنے آبائ کی پیروی کی مذمت کی ہے، جہاں تک حق میں تقلید کا تعلق ہے تو یہ اصول دین میں سے ایک اُصول ہے اور مسلمانوں کے بچاؤ میں سے ایک بچاؤ ہے، پناہ لیتا ہے اس کی طرف وہ نہ جاننے والا جو انتہائی گہری بصیرت سے قاصر ہو۔
علامہ ناصر الدین البانیؒ کے متعلق عرض ہے کہ انھوں نے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت عظیم کام کیا ہے خصوصاً اپنی کتاب سلسلہ احادیث الضعیفہ میں اکثر احادیث کے متعلق انھوں نے اس فن میں ماضی کے اماموں کی آرائ کو جمع کیا ہے ،جو درجنوں کتابوں میں موجود تھیں۔ لیکن جہاں انھوں نے خود غوروخوض کرکے کسی حدیث کو ضعیف اورموضوع قرار دیا ہے ان میں سینکڑوں جگہ ان سے تسامح ہوگیا ہے۔ ان غلطیوں کی نشاندہی کرنے والی کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ لیکن اس میں علامہ ناصرالدینؒ البانی کا کوئی قصور نہیں آخر کار وہ بھی انسان تھے اور انسان سے غلطیاں ہوں گی۔
آج کل ایک طبقہ جو علامہ ناصر الدینؒ البانی کی تحقیق پر مناظرہ بازی پر اُترآیا ہے اور جس حدیث کو علامہ ناصر الدین البانیؒ صاحب صحیح قرار دیں اسے صحیح مانا جاتا ہے اور جسے وہ ضعیف قرار دیں اسے ضعیف مانا جاتا ہے۔ اس صورت حال سے ایسا لگتا ہے جیسے علامہ ناصرالدین البانیؒ سے پہلے نہ کوئی محدث تھا اور نہ شاید ان کے بعد کوئی آئے گا۔ علامہ ناصر الدینؒ البانی کی محدثانہ حیثیت اور ان کے علمی تفوق پر کسی کو کلام کرنے کی جرأت نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تحقیق کا علم کسی پر ختم نہیں ہوتا۔ اس لیے کسی کی علمی تحقیق کو بنیاد بنا کر ’’میں نہ مانوں‘‘ کی رٹ سے پرہیز کرنا چاہیے۔
وقت کی ضرورت ہے کہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلیؒ اور اہل حدیث اختلاف کو اصولی اختلاف نہ سمجھا جائے اور اس قسم کے اختلافات کو Spaceدے کر اُمّتِ واحدہ بن کر اقامت دین کی کوششوں میں اپنی توانائی صرف کرنی چاہیے۔
علامہ ابن بازؒ نے ایک فتوے میں لکھا ہے:
وأتباع الشیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ کلھم من الحنابلۃ ویعترفون بفضل الائمۃ الأربعۃ ویعتبرون أتباع المذاہب الأربعۃ أخوۃ لھم فی اللّٰہ ﴿مجموعہ فتاویٰ ابن باز۵/۲۷۲﴾
محمدبن عبدالوہابؒ کے متبعین ﴿یعنی خود علامہ ابن بازؒ ﴾ سارے حنبلی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ چاروں اماموں کے خیر کو تسلیم کرتے ہیں اور چاروں اماموں کے متبعین کو اپنے بھائی مانتے ہیں اللہ کے لئے۔
اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین اختلاف اگرچہ صرف فقہی مسائل تک محدود نہیں ہے بلکہ کئی اہم امور میں بھی اختلاف ہے لیکن یہ تمام اختلاف دائرہ اسلام کے اندر اندر ہیں۔ کیونکہ دائرہ اسلام کی حدوں کو جب تک نہ پھاندا جائے کسی کو بھی خارج از اسلام قرار نہیں دیاجاسکتا۔ امت میں اصلاح احوال کے لیے کام ہورہا ہے۔ دین اسلام کی حقیقت اور فطرت سے روشناس کرانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ لہٰذا دائرۂ اسلام کے اندر رکھنے والے اختلافات کو برداشت کرنے کا مادہ مسلمانوں کے اندر پیدا ہونا چاہیے۔ ان اختلافات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے اور شاید مستقبل میں بھی لکھا جائے گا، لیکن آج سے پہلے ۵۰۰ سال جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان کو بنیاد بنا کر آج کے اہل سنت اور اہل تشیع اگر ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں ہوجاتے ہیں تو یہ افسوسناک بات ہے۔ کیونکہ اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں کہ بہت کچھ لکھا گیا ہے جس کی کوئی اصل نہیں۔ یہ بات مشہور ہے کہ اہل تشیع قرآن کو نامکمل مانتے ہیں اور ان کے نزدیک اصل قرآن موجودہ قرآن سے زیادہ ہے۔ اگرچند شیعہ علماء نے اس طرح کی بھی بات کہی ہو یا لکھی ہو لیکن اہل تشیع کے جید علماء کا کہنا ہے کہ ’’موجودہ قرآن ہی اصل قرآن ہے اور اس میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہے۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس قرآن کا جو نسخہ تھا اس میں کہیںکہیں آیات کے ذیل میں جو اضافی عبارتیں تھیں وہ قرآن کاحصہ نہیں بلکہ ان آیات کی تشریح تھیں جو غالباً انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی ہوںگی یا اپنے فہم قرآن کے مطابق لکھی ہوں گی۔ چونکہ اس وقت تک لکھائی کے فن نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ تشریح کو foot notesمیں رکھا جاتا، اِس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آیات مبارکہ کے ساتھ ہی اس کی تشریح قلم بند کی ہوگی۔ اسی وجہ سے یہ مغالطہ ہوا کہ یہ تشریح بھی قرآن کا حصہ ہے۔
شیعہ سنی اختلافات پر معتدل اور تحقیقی نظر ڈالنے کے لیے أحقر کی رائے یہ ہے کہ مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی کتاب ’’شیعہ سنی مفاہمت اور مرحوم سید اسعد گیلانیؒ کی کتاب ’’شیعہ سنی اختلافات ملی تناظر میں ‘‘ کا مطالعہ کیا جائے ۔ شیعہ سنی اختلافات کی دوسری بڑی وجہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق زبان درازی ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں ایران کے صدر اور عالم دین جناب آیت اللہ خامنہ ای نے جو تاریخ ساز فتویٰ دیا کہ صحابہ کے بارے میں کسی بھی قسم کی نازیبا بات کرنی حرام ہے۔ یہ ایک قابل تحسین قدم ہے۔ جموں وکشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے کئی علاقوں میں ماضی قریب میں شیعہ سنی اختلافات کی وجہ سے جو سنگین صورت حال ہمیں دیکھنے کو ملی ہے اس پر مسلمانان جموں وکشمیر کو عموماً اور تحریک پسند حلقوں کو خصوصاً توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ ماضی میں بھی مسلمانوں کی تحریکوں کو مسلکی اور گروہی تصادموں سے کمزور کیاجاتا رہا ہے اور یہی کچھ جموں وکشمیر میں بھی دہرایاجارہاہے ۔ اس میں اب کچھ مسلمان ہی دانستہ یا دانستہ طور پر استعمال ہورہے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2011