مولانا ابو الکلام آزاد اور فلسفۂ تعلیم

ثنا ناز

مولاناابوالکلام آزاد کا شمار ان نامور شخصیات میں ہوتا ہے، جنہوں نے قوم و ملت کی ترقی کے لئے اپنی پوری زندگی صرف کردی،آپ ایک عالم دین  ، مفسر اور ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ مولانا آزاد نے تعلیم سے متعلق اپنے نظریات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ انسانو ںمیں تبدیلی صرف اس تعلیم کے ذریعہ پیدا ہو سکتی ہے جو آفاقی اقدار سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو۔مولانا کا خیال تھا کہ مشرق و مغرب کی آگہی سے ہی صحیح تعلیم حاصل ہوسکتی ہے۔

 تعارف :

مولانا ابو الکلام آزاد11نومبر 1888ءکو سر زمین حجاز  مکہ  معظمہ میں پیدا ہوئے آپ کا اصل نام محی الدین احمد ،کنیت ابو الکلام اور تخلص آزاد  تھا،لیکن آپ کے والد آپ کو فیروز بخت کے نام سے پکارتے تھے، آپ کا بچپن مکہ اور مدینہ میں گزرا ۔مولانا آزاد کے والد ماجد  ایک عالم دین تھے،اور آپ کا گھر دینی تعلیم کا بہت بڑا مرکز تھا،مولانا آزاد نے اپنے گھر میں والد محترم کے زیر سایہ ابتدائی تعلیم حاصل کی،اور پھر اپنے بڑے بھائی ابو نصر غلام یٰسین کے ساتھ مکہ میں ہی آپ کے تعلیمی سلسلہ کا آغاز ہوگیا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد مولانا کے والد ہندوستان آگئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کرلی۔ مولانا آزاد نے ابتدائی تعلیم گھرمیں حاصل کی اور پھر قاہرہ کی مشہور یونیورسٹی جامعہ ازہر  چلے گئے،اور 14 سال کی عمر میں  علوم  مشرقی کا نصاب مکمل کر لیا، اور اس کے بعد درس و تدریس کا کام شروع کر دیا۔ مولانا آزاد کی والدہ مکہ کے ایک علمی  خاندان سے تعلق رکھتی تھیں  مولانا بچپن سے ہی بہت ذہین  و فطین تھے۔

پندرہ سال کی عمر میں لسان الصدق جاری کیا، اسکے بعد ’’الہلال‘‘ و ’’ البلاغ ‘‘ نکالا۔ مولانا بیک وقت مفسر، صحافی، انشا پرداز، خطیب، فلسفی، ادیب، ماہر تعلیم  قوم کے معمار اعظم  ہونے کے ساتھ کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے مختلف موضوعات پر کتابیں تصنیف کیں،22 فروری 1958ء کو آپ کا انتقال ہوا ۔

مولانا آزاد کا فلسفہ تعلیم:

مولانا  ابو الکلام آزاد اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں:

’’کسی فرد کی حقیقت و واقفیت کا آئینہ دار وہ نظام تعلیم ہے،جس کے سانچےمیں اس کے  عادات و خصائل ڈھلتے ہیں اگر تعلیم کی بنیاد حریت و انسانیت کے ہمہ گیر اصولوں پر استوار ہو تو اس کی بدولت عوام کے زاویہ نگاہ میں تبدیلی آسکتی ہے ،بلکہ قوم کی ترقی و خوش حالی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کے مواقع میسر آسکتے ہیں۔ 1؎

وہی نظام تعلیم کامیابی  و کامرانی کا ضامن ہے ،جس کے سانچے میں افراد کے عادات و خصائل استوار ہوتے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد کا محور مذہب اسلام تھا،آپ قرآن او رسنت نبویﷺ کے مطابق عمل کرتے تھے۔      مولانا آزاد نیک ،صالح دیانت دار اور دین دار شخصیت کے حامل تھے۔آپ مصلح مدبر و مفکر تھے مسلمانان ہند کا درد اپنے اندر رکھتے تھے، قوم کی فلاح و بہبود  کے لئے  جدوجہد کرتے  تھے۔ ان کے تعلیمی تصور میں مذہب،سائنس،ادب،فلسفہ اور ٹیکنالوجی سب کے لئے جگہ تھی۔مولانا کا ارادہ تھا کہ  معاشرہ میں رہنے والے افراد کی تعمیر نیک و صالح   سیرت پر کی جائے، مولانا مذہبی تعلیم کے ساتھ  ایسی تعلیم کے قائل تھے جس سے مسلمانوں کو  فائدہ حاصل ہوسکے۔

سرسید کی طرح  مولانا آزادہندوستانی عوام کو جدوجہد ا ور ترقی کا مشورہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں انہوں نے اپنی ساری زندگی اسی خواب کی تکمیل میں صرف کردی ،مولانا نے اپنی  صلاحیتوں کو اسی کام  میں صرف کر دیا کہ  ہندوستانی عوام کی تعمیر و اصلاح کی جائے، انہوں نے قوم کو تعلیم کے حصول  کے لئے تیار کیا جب تک ہماری قوم تعلیم سے روشناس نہیں ہوگی تب تک زمانے سے قدم ملا کر  چلنے کی اہل نہیں ہوگی۔    مولانا آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے،اور اس حیثیت  سے انہوں نے مرکزی اور ریاستی سطح پراہم اقدام کئے ،مولانا  نے نئے اسکولوں کالجوں اور  یونیورسٹیوں کو قائم کرنے پر  زور دیا، انہوں نے تعلیم نسواں ،پروفیشنل تعلیم اور تعلیم صنعت و حرفت کو بھی اہل وطن کے لئے ضروری قرار دیا۔ مولانا آزاد چاہتے تھے کہ ملک کی تمام یونیورسٹیاں اپنے فرائض منصبی کو بحسن و خوبی انجام دیں تو یہ ملک مستقبل میں اعلی مقام پر فائز ہوگا ۔

’’اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے کی غرض سے مولانا آزاد کی وزارت نے خصوصی اقدامات کئے یونیورسٹیوں کی نگرانی کے لیے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا قیام عمل میں آیا،یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا کام یہ تھا کہ وہ یونیورسٹیوں کی مالی اعانت کرے، اس زمانہ میں نئی نئی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں اور سارے ملک میں کالجوں کا جال بچھ گیا اور تحقیق کیلئے راہیں ہموار ہوئیں‘‘۔

مولانا آزاد کے تعلیمی فلسفہ کی بنیاد چار امور پر ہے،  ذہنی بیداری ،اتحاد و ترقی، رواداری اور عالمی اخوت،ابو سلمان شاہجہاں نپوری لکھتے ہیں:

’’تعلیمی معاملات میں انھوں نے نہایت ہی دانش مندانہ اقدام اٹھائے۔ان کا خیال تھا کہ مشرق اور مغرب کی مشترکہ آگہی سے ہی صحیح علم حاصل ہوتا ہے، ثانوی  اور اعلیٰ تعلیم کے لئے کمیشن بٹھائے اور ان کمیشنوں کی سفارشات  پر عمل کرکے ملک میں تعلیم کا معیار بلند کیا، یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن قائم کیا، اور اس کے ذریعے ملک میں یونی ور سٹیوں کا جال بچھایا  3؎

مولانا آزاد نے عورتوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی کیوں کہ تعلیم یافتہ نسل بلا تعلیم یافتہ ماؤں کے پیدا نہیں ہو سکتی،بچے کی تعلیم و تربیت میں ماں کا   اہم رول ہوتا ہے۔لہٰذا اگر ماں تعلیم یافتہ ہے تو اولاد بھی تعلیم یافتہ ہوگی۔

ارمغان آزاد میں  ہے:

’’ تعلیم کے زیور سے عورتوں کو آراستہ کرو، اور ان میں اس  کی استعداد  پیدا کروکہ وہ  اپنی اولاد کی خود عمدہ تربیت کرسکیں ۔بچپن ہی سے ان میں عمدہ اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اس کوشش  کے بعد ہندوستان میں جو نسل نظر آئے گی وہ بے شک تعلیم یافتہ قوم کے لئے  باعث فخر اور ملک کے لئے باعث شرف ہوگی‘‘۔4 ؎

مولانا ابوالکلام آزاد مفسر  قرآن ،سیرت نگار اور دیگر اسلامی علوم میں مکمل دست گاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کے خدو خال  سے بھی بخوبی واقفیت  رکھتے تھے انہوں نے ہندوستانی عوام کی خاطر تعلیمی قواعد کو منضبط کیا ۔        مولانا آزاد کے فلسفہ ٔتعلیم کا بنیادی   مقصد تھا کہ مشرق و مغرب   کے جو نظریات ہیں ان سے استفاہ   کیا جائے تاکہ انسان سائنس کا صحیح استعمال کرنا سیکھ جائے، اس سے ان مقا صد کو حاصل کر سکے جو اس کی فطرت کے بہترین تقاضوں کی ترجمانی کرتے ہیں  سائنس تو صرف ایک طاقت ہے جو بذات خود غیر جانب دار ہے اس کے انکشاف کو تعمیر اور تخریب دونوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے،انسان کونسا راستہ اختیار کرتا ہے ، یہ اس کی ذہنیت پر منحصر ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ  فلسفہ ٔتعلیم  کے ذریعے اس انداز فکر و نظر  اس کے معیار کو بدلا  جائے لہٰذا سوال  انسان کی ہر خواہش کے پورا ہونے کا نہیں  بلکہ آرزو کے نیک و صالح ہونے کا ہے۔

فکر و نظر میں مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں  لکھتے ہیں:

’’مولانا کے تعلیمی فلسفہ کا بنیادی خیال ہے کہ مشرق و مغرب  دونوں کے نظریوں کا علم جاننا ضروری ہے ، اور ان میں تال میل کے ذریعہ ہی انسان سائنس کا صحیح  استعمال کرنا سیکھ سکتا ہے،اسی کے ذریعے ان مقاصد کا حصول ممکن ہے جو انسانی فطرت کے تقاضوں کی ترجمانی کرتے ہیں ،علوم جدیدہ  کے دل دادہ ہونے کے باوجود وہ علوم قدیمہ سے بھی اپنا دامن بھر لینا چاہتے تھے۔ ‘‘۔5  ؎

مولانا آزاد کی کوشش رہی ہے کہ مشرق و مغرب کے تعلیمی فلسفوں کو ایک وسیع تر  تصور میں جمع کرکے   متوازن اور مکمل نظام تعلیم کی بنیاد ڈالی جائے،اور تعلیم کا اصل کام یہ ہے کہ وہ ایک صالح اور مربوط معاشرہ کے لئے ایسے افراد کی تربیت کرے جن کی شخصیت ہم آہنگ اور مربوط ہو۔

ذریعہ تعلیم

تعلیم کےلئے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ زبان ہے،حصول تعلیم میں زبان کا مسئلہ  اہم مسئلہ ہے اس مسئلہ کا حل پیش کرتے ہوئے مولانا آزاد فرماتے ہیں:

’’اگر کسی صوبہ نے یا کسی یونیورسٹی نے اس وقت انگریزی کو ہٹا کر ہندی لانے کا فیصلہ کر لیا تو اس نے یہ صحیح نہیں کیا،انہیں معلوم تھا کہ حکومت ہند یونیورسٹی کمیشن بنانے والی ہے انگریزی ڈیڑھ سو برس سے ہمارا ذریعہ تعلیم ہے، اس لئے جہاں تک یونیورسٹی کی تعلیم کا تعلق ہے اس میں تبدیلی کرنے کے لئے بڑے غور و خوض کی ضرورت ہے تاکہ تعلیمی سٹینڈرڈ کو نقصان نہ پہنچے‘‘۔6   ؎

زبان کے بعد تعلیم حاصل کرنے کیلئے نیک اور مخلص اساتذہ کی ضرورت پیش آتی ہے،اور اس وجہ سے استاذکو محترم شخصیت میں شمار کیا جاتا ہے مولانا آزاد کہتے ہیں:

’’تعلیم کی باگ ڈور ایسے اشخاص کے ہاتھوں میں رہی ہے جو مطلق کسی اہلیت و صلاحیت کے مالک نہیں ہیں،ہم ان کو موردِ الزام قرار نہیں دے سکتے۔اس لئے کہ ملک کی قدیم روایات کے برعکس اساتذہ کو قدرو منزلت کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا  ،ماضی میں ایک استاد کا مقام بہت بلند تھا، اگر مالی حیثیت سے کوئی استاد خوشحال نہ بھی ہوتا تو اس کا ملال نہ تھا،اور وہ اس لئے کہ سماج میں اسے  مرتبہ اور وقار حاصل ہوتا تھا ۔اس دور میں شومئی قسمت سے زمانہ کا نقشہ ہی بدل گیا،آج خصوصیات کے ساتھ ابتدائی درجات کے اساتذہ کی مٹی پلید ہو رہی ہے  میرا خیال ہے نظام تعلیم کی تجدید و احیا کی مہم شروع کرتے وقت ہمارا اولین فرض یہ ہونا چاہیئے کہ ہم اساتذہ کا معاشرتی معیار بلند کریں‘‘۔ 7؎

نصاب

زبان ،معلم اور متعلم کے بعد ایک اچھے اور مفید ماحول کیلئےیہ بات  بے حد ضروری ہے کہ تعلیمی نظام درست ہو،اور  اس نظام میں وہ تمام سہولیات مہیا کرائی جائیں  جن کا تقاضہ حالات کرتے ہیں ،اس کے علاوہ ایک عمدہ نصاب کا ہونا بھی ضروریات میں سے ہے تاکہ طالب علم اپنے محدود وقت میں ان تمام اشیاء کو بحسن خوبی سیکھ سکے جن کی ضرورت ہے اور غیر ضروری چیزوں میں وقت ضائع نہ ہو  اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:

’’ہمارے قومی بجٹ میں تعلیم کو اعلیٰ ترین ترجیح حاصل  ہونی چاہئے،اور اس  درجہ خوراک اور پوشاک کے فوراً  بعد آنا چاہئے  ان مسائل کو حل کرنے کے لئے سچ تو یہ ہے  ایک مناسب تعلیمی نظام کا ہونا ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگر ہم کامل عزم و ارادہ کے ساتھ مل کر کوشش کریں تو ہم اپنی خامیاں دور کر سکیں گے اور ہندوستان میں تعلیم کو دنیا  کے مہذب ملکوں کی صف میں لا کھڑا کریں گے۔ ‘‘8  ؎

غرض تعلیم کا مقصد ہے کہ طالب علم کو سیدھی راہ پر چلنے کے لئے تمام ممکن وسائل مہیا کریں، تعلیم کا بہتر بندوبست کریں،اور بچوں کے لئے ٹیکنیکل ایجوکیشن کا نظم  قائم کریں۔

’’مولانا کے نزدیک ہر فرد کو ایسی تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے،جو اس کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکے اور مکمل زندگی گزارنے کا اہل بنائے ایسی تعلیم کو انہوں نے ہر شہری کا حق بتایا ہے‘‘۔ 9؎

اس دنیا میں ہر فرد کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے،ایسی تعلیم حاصل کی جائے جس سے اس کی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں،اور اس سے معاشرہ کو فائد ہ  پہنچے ، مولانا کے فلسفہ تعلیم سے ہندوستان کا تعلیمی نظام  بہتر ہوا۔بہتر تعلیمی نظام سچی دینداری،عقائد کی درستگی، انسانی اخوت و ہمدردی ، عدل و انصاف  اورانسانی اقدار کی طرف خصوصی توجہ مبذول کراتا ہے :

’’ تعلیم کے لئے اس میں ایک بڑا  رہنما اصول پوشیدہ ہے، خود داری اور عزت نفس کا اصول یہ اصول انفرادی اور اجتماعی آزادی  دونوں کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے ،تعلیم میں اسکی پیروی اس طرح ہونی چاہیے کہ طالب علم کی شخصیت کا احترام کیا جائے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اسے اظہار  ذات کے مواقع  فراہم کئے جائیں  تاکہ اس کی مخفی صلاحیتیں اجاگر ہوں اسے ہمت دلائی جائے‘‘۔ 10؎

خلاصہ بحث

1۔مولانا  اردو،عربی ،فارسی کے ماہر  اور مشرقی عالم تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے انگریزی کو ملک سے جلا وطن نہیں کیا بلکہ نظام تعلیم میں اس کو  قائم رکھا۔

2۔مولانا آزاد نے ٹیکنیکل ایجوکیشن کو فروغ دیا۔

3۔بچوں کی تعلیم کا منصوبہ بنایا،اس کو آگے بڑھایا۔

4۔تعلیم نسواں پر زور دیا ۔

5 ۔یونیورسٹی گرانٹس کمیشن  تشکیل دیا۔

6۔عربی سہ ماہی رسالہ  ’’ثقافت الہند‘‘کا اجرا کرایا۔

7۔ساہتیہ اکادمی کا قیام عمل میں لائے۔

8۔انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی قائم کیے۔

الغرض مولانا کی زندگی کا زیادہ حصہ تعلیم کو فروغ دینے اور  انسانیت کی فلاح و بہبود کی سعی  میں گزرا    تاکہ  لوگ بہتر سے بہتر تعلیم حاصل کریں اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہوں۔

حوالے و حواشی

؎ 1  مرتب انور عارف،آزاد کی تقریریں ،ص276، اعلیٰ پریس ،ادبی دنیا اردو بازار دہلی ، اپریل 1961ء

2؎   ظ-انصاری،ابوالکلام آزاد کا ذہنی سفر،  ص 86،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈجامعہ نگر،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی

3؎   ابو سلمان شاہجہاں نپوری،آثار و نقوش،ص 12، مکتبہ رشیدیہ اردو بازارمقدس مسجد، ناشر ابوالکلام آزاد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ،پاکستان کراچی

4؎   ابو سلمان شاہجہانپوری،ارمغان آزاد،ص210، حصہ دوم،المخزن پرنٹرز پاکستان چوک کراچی،مکتبہ رشیدیہ قاری منزل مراراسٹریٹ،پاکستان 1990ء

5؎ خصوصی شمارہ فکر و نظر مولانا ابوالکلام آزاد نمبر، محمد قاسم صدیقی کامضمون مولانا آزاد اور تعلیم ، ص165،اگست 1989ء

6؎   آزاد کی تقریریں ص282

7؎    آزاد کی تقریریں ،ص 278ـ279

8؎   آزاد کی تقریریں،ص195ـ196

9؎    رسالہ جامعہ، ابوالکلام آزاد نمبر ،عبداللہ ولی بخش کا مضمون ’’مولانا کا نظریہ تعلیم ‘‘ص 280،ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز،جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی

10؎   ابو الکلام آزاد نمبر،  سلامت اللہ  کا مضمون ’’مولانا آزاد،تعلیمی افکار‘‘ص266

مشمولہ: شمارہ فروری 2019

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau