مولانا آزاد اور رادھا کرشنن

مذہب کےخاتمہ اور تہذیبوں کے تصادم کے حوالے سے

جب ہم پیچھے پلٹ کر اکیسویں صدی کے حالات کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لیتے ہیں تو پاتے ہیں کہ دو اہم بیانیے ایسے ہیں جو آپس میں ہم آہنگ ہیں اور دنیا بھر میں واقع متنوع معاشروں کو گوناگوں چیلنج پیش کررہے ہیں: ان میں سے ایک “ مذہب کے خاتمہ”   کا مفروضہ ہے اور دوسرا “ تہذیبوں کے تصادم”   کا نظریہ ہے۔ یہ دونوں ہی بڑی تیزی سے سیکولر دنیا میں پنپ رہے ہیں اور دنیا میں مذہب کے ہمہ گیر کردار اور اس سے پیدا شدہ ثقافتی تنازعات کی توجیہ اور حل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے ایک دوسرے پر باہمی انحصار کو سمجھنا ان کی وجہ سے پیش آنے والے سماجی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

مذہب کے خاتمہ کا مفروضہ یہ دعوی کرتا ہے کہ جوں جوں معاشرے تعلیم، سائنس اور عقلی فکر میں آگے پیش قدمی کریں گے، مذہب کا اثر کم ہوتا جائے گا۔ اس مفروضے کے حامیوں کے مطابق سیکولر اقدار اور سائنسی فہم بالآخر مذہبی عقائد اور مذہبی روایات کی جگہ لے لیں گے۔ یہ مفروضہ ایک ایسی دنیا کا تصور کرتا ہے جہاں تنقیدی سوچ اور تجرباتی ثبوت معاشرتی ترقی کی رہ نمائی کریں گے اور ممکنہ طور پر آگے چل کر مذہبی اثر و رسوخ کے زوال کا باعث بنیں گے۔

اس کے برخلاف، سیاسی سائنس داں سیموئیل پی ہنٹنگٹن (Samuel P. Huntington) کا پیش کردہ “ تہذیبوں کے تصادم”   کا بیانیہ یہ پیشین گوئی کرتا ہے کہ مستقبل کے تنازعات بنیادی طور پر نظریاتی یا معاشی تنازعات کے بجائے ثقافتی اور مذہبی اختلافات کا شاخسانہ ہوں گے۔ ہنٹنگٹن نے دعوی کیا ہے کہ سرد جنگ کے بعد دنیا جن عالمی بحرانوں کا سامنا کرے گی ان کی بنیاد مختلف ثقافتی اور مذہبی شناختوں کے درمیان تصادم پر ہوگی۔

ہندوستان میں سیکولر روح اور عقلیت پسندی کا عروج اور ہندو قوم پرستی کا جنم تقریباً ایک ساتھ ہی ہوا ہے۔ یہ ایک اندرونی ثقافتی تناؤ پیدا کرتا ہے جو ہندو مذہبی اکثریت کو اقلیتوں کے خلاف کھڑا کرتا ہے۔

معاشرے پر مرتب اثرات

اول الذکر مفروضے اور ثانی الذکر نظریے کا واقعاتی زمین پر باہم تعامل کئی چیلنجوں کو پیش کرتا ہے۔

پولرائزیشن(Polarization): متنوع معاشروں میں درمیان بڑھتا پولرائزیشن آپسی مذاکرات اور تعاون کو مشکل بناتا ہے نیز تنازعات کو بڑھاتا ہے۔

پالیسی اور گورننس (Policy and Governance): حکومت مذہبی آزادیوں کے احترام اور سیکولر پالیسیوں میں توازن پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتی ہے، جس سے متنازعہ سیاسی ماحول اور ممکنہ عدم استحکام پیدا ہونے کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے۔

ثقافتی و تعلیمی پالیسیاں (Cultural and Educational Policies): سیکولر تعلیم پر زور دیے جانے پر حکومت کو ان گروہوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے جو مذہبی تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں۔ نصاب کے مواد اور اس میں مذہبی متن کی شمولیت، اس سلسلے میں بحث کا مرکزی محور بن جاتی ہے۔

ہنٹنگٹن نے تہذیبوں کے مابین تصادم کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ درحقیقت نہایت سطحی اور حقائق سے استخفاف پر مبنی ہے۔ یہ نظریہ ان معاشی، سیاسی اور تاریخی عوامل کو یکسر نظر انداز کرتا ہے جو ان تنازعات کو جنم دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر تنازع کو تہذیبی تصادم کے تنگ نظر مفروضے کا جامہ پہنانا دراصل وسائل کو قابو کرنے کی حرص، سیاسی جغرافیائی حکمت عملیوں اور طاقت کی حرکیات جیسے مسائل سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش کو ظاہرکرتا ہے۔ “ مذہب کے خاتمہ”   یا “ الحاد جدید”   کے نمونے اس جلتی آگ پر تیل کا کام کرتے ہیں اور ان سماجی اور ثقافتی سیاق و سباق کو نظر انداز کردیتے ہیں جن میں مذہبی عقائد کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

“ مذہب کے خاتمہ”   کا مفروضہ اور “ تہذیبوں کے تصادم”   کا نظریہ سیکولرائزیشن، الحاد جدید، سیکولر روحانیت، شناختی تنازعات اور گلوبلائزیشن کے تناظر میں باہم وابستہ ہیں۔ ان کا باہمی تعامل گوناگوں سماجی وسیاسی چیلنجوں کو اجاگر کرتا ہے اور ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ طاقت اور نظریہ کے بل بوتے پرسماجی تنازعات کس طرح تشکیل دیے جاتے ہیں۔ آج اشرافیہ دنیا پر اپنے کنٹرول کو برقرار رکھنے اور عدم مساوات سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے مذہبی وثقافتی شناختوں کو جان بوجھ کر استعمال کر رہی ہے۔ اس طرح “ مذہب کے خاتمہ”   اور “ تہذیبوں کے تصادم”   جیسے دور افتادہ قصوں کے ذریعے بیان کردہ تنازعات اکثر دوررس سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں۔

مذکورہ بالا پس منظر میں ہم ہندوستانی تہذیبی تمثیل کے دو سرخیلوں ابوالکلام آزاد اور سروپلی رادھا کرشنن پر گفتگو کریں گے۔ ان کی تحریریں اور کاوشیں جدیدیت کے دونوں نظریاتی چیلنجوں کے زہر کا توڑ کرتی ہیں۔

یہاں یہ سوال جنم لے سکتا ہے کہ آخر یہ دونوں ہی کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ ابوالکلام آزاد اور رادھا کرشنن ہندوستان کی سیاسی ودانش ورانہ تاریخ میں قابل ذکر شخصیات کے طور پر نظر آتے ہیں، یہی ان کی وہ حیثیت ہے جو انھیں تہذیبی تمثیلوں کے تقابلی مطالعہ کے لیے ایک مثالی انتخاب بناتی ہے۔ دونوں ہی اشخاص نہ صرف مذہبی فلسفے کے ممتاز اسکالر تھے بلکہ انھوں نے ہندوستانی جمہوریہ کے ابتدائی دور میں بھی اہم کردار نبھایا اور ملک کے اعلیٰ ترین سیاسی عہدوں پر فائز رہے۔

ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں ان دونوں شخصیات کے کردار قوم کے سیاسی اور سماجی منظر نامے کے تئیں ان کی گہری سمجھ بوجھ کو اجاگر کرتے ہیں۔ آزاد، انڈین نیشنل کانگریس میں ایک سرکردہ شخصیت تھے اور انھوں نے آزاد ہندوستان میں اولین وزیر تعلیم کے طور پر قلم دان سنبھالا۔ دوسری طرف رادھا کرشنن نے ہندوستان کے دوسرے صدر اور ایک مشہور فلسفی کے طور پر، جدید ہندوستان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔

اس تقابلی مطالعے کا ایک دل چسپ پہلو یہ ہے کہ ابو الکلام آزاد اور رادھا کرشنن دونوں کا سنہ پیدائش 1888 ہے، دونوں ایک ہی جنریشن سے تعلق رکھتے تھے اورملک میں رونما ہوئی تبدیلیوں کا ایک ساتھ تجربہ کر رہے تھے۔ ان کا معاصر نقطہ نظر تاریخ کے ایک نازک دور میں ہندوستانی فکر اور تہذیب کے ارتقا کو سمجھنے کے لیے ایک منفرد موقع فراہم کرتا ہے۔

مزید برآں، دونوں دانش وروں نے اپنے اپنے مذہب کے تئیں تشریح و تفہیم میں قابل لحاظ کردار ادا کیا ہے۔ آزاد نے ترجمان القرآن کے نام سے قرآن کا اردو ترجمہ اور تفسیر لکھی اور رادھا کرشنن نے اپنشدوں کے ترجمے اور تشریحات پیش کی ہیں۔ ان مذہبی متون کے ساتھ ان کی گہری وابستگی تہذیب کی روحانی بنیادوں کی کھوج اور وضاحت کے تئیں ان کے عزم مصمم کی عکاسی کرتی ہے۔

ابو الکلام آزاد اور رادھا کرشنن تہذیبی تمثیل سے متعلق موضوعات کا ایک وسیع پیمانے پر احاطہ کرتے ہیں، جس کی بدولت ان کی آواز اس مباحثہ میں ایک مستند رائے کا درجہ رکھتی ہے۔ آزاد کی تحریریں ثقافتی ترکیب اور تکثیریت کی اہمیت پر زور دیتی ہیں، جب کہ رادھا کرشنن اپنی تحریروں میں سماجی ترقی میں روحانی اور اخلاقی اصولوں کے انضمام پر زور دیتے ہیں۔

چناں چہ ابوالکلام آزاد اور سروپلی رادھا کرشنن کی مذہبی فلسفے کے تئیں مشترکہ وابستگی، ان کے بااثر سیاسی کردار، ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں ان کی شمولیت اور تہذیب کو سمجھنے کے لیے ان کی علمی شراکت اس تقابلی مطالعے کے لیے ایک عقلی جواز فراہم کرتی ہے۔ ان کی فکری میراث ہندوستانی تہذیب کی تشکیل میں مذہب، ثقافت اور سیاست کے باہمی عمل کے تئیں انمول بصیرت پیش کرتی ہے۔

ابوالکلام آزاد اور رادھا کرشنن اور تہذیبی تمثیلیں

ابوالکلام آزاد اور رادھا کرشنن ہندوستان کی فکری اور سیاسی تاریخ کی قد آور شخصیات ہیں۔ دونوں ہی نے اپنی جہد مسلسل سے ہندوستانی تاریخ پر جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں وہ اس وقت کے فلسفیانہ اور تہذیبی تمثیلوں کو سمجھنے کے لیے بے حد اہم ہیں اور ان پائیدار اصولوں کو روشن کرتے ہیں جو معاصر ہندوستانی معاشرے کی تشکیل میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے خیالات اور تحریریں بطور خاص “ مذہب کا خاتمہ”   اور “ تہذیبوں کا تصادم”   جیسے مفروضوں کے بطلان کے لیے قوی دلائل مہیا کرتی ہیں اور ثقافتی اور مذہبی ہم آہنگی کا ایک جامع اور ہم آہنگ نظریہ پیش کرتی ہیں۔

مشرق و مغرب کے تئیں فلسفیانہ عکاسی

ابو الکلام آزاد اور رادھا کرشنن فلسفے، مذہب اور ثقافت کے پیچیدہ تعامل سے برسرپیکار ہوئے۔ آزاد نے 1943 میں اپنی قید وبند کے دوران مختلف خطوط لکھے جو بعد میں “ غبار خاطر”   کے نام سے شائع ہوئے، خطوط کا یہ مجموعہ زندگی، وجود اور ابدی سچائیوں کی جستجو پر ان کے گہرے فلسفیانہ خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “ زندگی صرف ایک لمحہ فکر ہے، ایک عارضی حالت، کائنات کی عظیم منصوبہ بندی میں ایک مختصر قیام۔ پھر بھی اس مختصر عرصے میں، انسان ابدیت اور لامحدود کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ تفہیم کی یہی جستجو ہمارے وجود کو متعین کرتی ہے۔”   آزاد کی یہ فکر کلاسیکی فلسفے کو ان کی اپنی بصیرت سے ہم آہنگ کرتی ہے جس سے عمیق ترین افکار کی ایک زنجیر جنم لیتی ہے جو روحانی تحقیقات کے تسلسل اور مطابقت کو واضح کرتی ہے۔

اس کے بالمقابل، رادھا کرشنن کی تصنیف‘The Hindu View of Life’ہندوازم کو ایک متحرک اور ارتقا پذیر روایت کے طور پر پیش کرتی ہے اور اس میں شمولیت اور اس کی موافقت پر زور دیتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “ ہندو ذہن نے کبھی یکساں عقیدہ یا واحد راستہ کا مطالبہ نہیں کیا۔ اس نے مذہبی عقیدے میں آزادی کی ضرورت اور حتمی حقیقت تک پہنچنے کے مختلف طریقوں کو تسلیم کیا ہے۔”   رادھا کرشنن روحانیت کی اخلاقی جہتوں کو اجاگر کرتے ہوئے عملی زندگی کے ساتھ مابعد الطبیعات کی تلاش پر زور دیتے ہیں۔

رادھا کرشنن کی کتاب ‘Eastern Religions and Western Thought’مشرقی اور مغربی مذہبی اور فلسفیانہ روایات کے درمیان تفاعل پر بحث کرتی ہے۔ رادھا کرشنن کا کہنا ہے “ مشرقی روحانیت اور مغربی عقلیت کے درمیان تصادم نے فلسفیانہ تحقیقات کی نئی اشکال کو جنم دیا ہے۔ ایسے میں خیالات کا باہم ایک دوسرے سے میل کھانا دونوں روایات کو تقویت بخشنے کا باعث ہوتا ہے۔”   رادھا کرشنن اپنی تحریروں سے اشتراکات اور اختلافات پر روشنی ڈالتے ہیں اور ایک ایسی ترکیب کی وکالت کرتے ہیں جو حقیقت کی بہتر اور زیادہ جامع تفہیم کی طرف لے جانے میں مددگار ہو۔

مذہبی و اخلاقی گفتگو

“ غبار خاطر”   میں اسلام پر آزاد کی گفتگو سے مذہبی اور اخلاقی موضوعات کے ساتھ ان کی گہری وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ اسلامی تاریخ اور قرآن سے مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے اخلاقی برتاؤ اور اخلاقی سالمیت کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ وہ شدومد کے ساتھ کہتے ہیں کہ “ عدل و انصاف کے قرآنی احکام محض احکام نہیں ہیں۔ یہ وہ بنیادیں ہیں جن پر ایک منصفانہ معاشرہ کی تعمیر ہوتی ہے۔ ان اصولوں سے انحراف ہمارے عقیدے کے جوہر کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔”   آزاد کے افکار اسلام میں اخلاقی تقاضوں اور سماجی ترقی کے لیے ان کی مطابقت کے تئیں ایک دقیق فہم سے روشناس کراتے ہیں۔

رادھا کرشنن نے اپنی کتاب ‘Religion and Society’ میں انسانی معاشرے اور ثقافت کی تشکیل میں مذہب کے کردار کا جائزہ لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مذہب بنیادی طور پر اخلاقی رویے، سماجی ڈھانچے اور ثقافتی اقدار کو متاثر کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “ مذہب وہ مٹی ہے جس میں معاشرہ کا بیج بویا گیا ہے، یہ ہمارے اخلاقی ڈھانچے کو تشکیل دیتا ہے اور وہ اخلاقی رہ نما اصول فراہم کرتا ہے جو ہمارے تعامل کو قابو کرتے ہیں۔”   رادھا کرشنن سماجی ترقی میں مذہبی رواداری اور روحانی اصولوں کی ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ “ ان بنیادوں کو نظر انداز کرنا اخلاقی زوال کا باعث بنتا ہے۔”

آزاد کی صحافتی کاوشیں: الہلال اور البلاغ

ابوالکلام آزاد کی صحافتی کاوشوں نے سیاسی میدان میں ان کے موقف کو تشکیل دینے میں نمایاں کردار ادا کیا، خاص طور پر رسائل “ الہلال”   (1912-1914) اور “ البلاغ”   (1915-1916) کی اشاعتوں نے نظریاتی پھیلاؤ اور سیاسی تحریک کے موثر آلے کے طور پر کام کیا۔

“ الہلال”   کی بنیاد مسلم معاشرے کو برطانوی راج کے سیاسی حقائق سے آگاہ کرنے اور نوآبادیاتی جبر کے مقابلے میں اتحاد کی ضرورت اجاگر کرنے کے لیے رکھی گئی تھی۔ آزاد نے “ الہلال”   میں سیاسی بیداری، مذہبی اصلاحات اور ثقافتی احیا کے علاوہ وسیع پیمانے پر موضوعات کا احاطہ کیا۔ آزاد نے خود اقتدار کی اہمیت اور برطانوی استعمار کی ناانصافیوں کے تئیں بڑے پیمانے پر تحریریں لکھیں: “ اب وقت آگیا ہے کہ مسلم معاشرہ اپنی نیند سے بیدار ہو اور ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں اپنے شایان شان مقام کودوبارہ حاصل کرے۔ ہمارا مستقبل ہمارے اتحاد اور عزم پر منحصر ہے”   (الہلال، 1913)۔

آزاد نے اسلامی تعلیمات کی از سر نو تشریح کی بھی وکالت کی تاکہ انھیں عصری مسائل سے ہم آہنگ کیا جا سکے، مذہب کے بارے میں عقلی اور ترقی پسندانہ نقطہ نظر کی حوصلہ افزائی کی جائے: “ اسلام ترقی اور روشن خیالی کا مذہب ہے۔ ہمیں فرسودہ تشریحات کو جدید دنیا کے چیلنجوں کو قبول کرنے سے باز نہیں آنے دینا چاہیے۔”   (الہلال، 1914)۔

مزید برآں، آزاد نے مسلمانوں میں ثقافتی نشاة ثانیہ کی ضرورت پر زور دیا، انھوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ جدید کے ساتھ جڑے رہتے ہوئے اپنے ورثے پر فخر کریں: “ ہمارا گوناگوں ثقافتی ورثہ طاقت اور تحریک کا ذریعہ ہے۔ ہمیں جدید دور کی ترقی کو اپناتے ہوئے اسے محفوظ رکھنا چاہیے”   (الہلال، 1913)۔

برطانوی گورنمنٹ کی جانب سے “ الہلال”   پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد آزاد نے “ البلاغ”   کے ذریعے اپنا مشن جاری رکھا، جس نے انھی موضوعات کو آگے بڑھایا اور پہلے سے زیادہ وضاحت کے ساتھ پیغام عمل دیا۔

“ البلاغ”   میں آزاد نے اپنی توجہ قوم پرستی، سماجی انصاف اور بین المذاہب ہم آہنگی پر مرکوز رکھی۔البلاغ ہندوستانی قوم پرستی کے احساس کو فروغ دینے کا ایک پلیٹ فارم بن گیا جو مذہبی حدود سے بالاتر تھا۔ البلاغ کے ذریعے آزاد نے مسلمانوں کو حصول آزادی کی جدوجہد میں ہندوؤں اور دیگر برادریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی تلقین کی: “ آزادی کے لیے ہماری جدوجہد محض بحیثیت ایک کمیونٹی کے نہیں ہے؛ یہ ایک اجتماعی کوشش ہے جس کے لیے تمام ہندوستانیوں کے اتحاد کی ضرورت ہے، خواہ ان کا کوئی بھی عقیدہ ہو۔”   (البلاغ، 1915)۔

آزاد نے سماجی انصاف اور مساوات کے مسائل پر توجہ دی، پسماندہ گروہوں اور پچھڑے ہوئے طبقوں کے حقوق کی وکالت کی اور سماجی اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کیا: “ حقیقی آزادی صرف اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب ہر فرد کو، اس کی سماجی حیثیت سے قطع نظر، مساوی حقوق اور مواقع حاصل ہوں”   (البلاغ، 1916)۔

وہ ایک تکثیری معاشرے کی بنیاد مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بین المذاہب مکالمے اور ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیتے رہے: “ ہماری طاقت ہمارے تنوع میں مضمر ہے۔ آئیے ہم اپنی قوم کے بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے باہمی احترام اور تعاون کا جذبہ لیے اکٹھا ہوں”   (البلاغ، 1916)۔

الہلال اور البلاغ کے ذریعے آزاد نے مسلم معاشرے کے سیاسی شعور کو بیدار کرنے اور اسلام کی ترقی پسند تشریح کو فروغ دینے اور قومی اتحاد اور سماجی انصاف کے احساس کو فروغ دینے کے لیے صحافت کا کمال مہارت سے استعمال کیا۔ یہ رسالے ان کی دور اندیش قیادت اور ہندوستان کی جدوجہد آزادی سے وابستگی کا کھلا ثبوت ہیں۔

مشرق و مغرب کی خلیج کو پاٹنے کی کوشش

ایک طرف جہاں آزاد نے اپنے رسالوں کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی شعور کو بیدار کیا، دوسری طرف رادھا کرشنن اپنی علمی کاوشوں کے ذریعے ایک مختلف نوع کی تقاریر میں مشغول ہوئے جس کی بدولت وہ مشرقی اور مغربی فلسفوں کے درمیان رابطہ قائم کرنے میں کام یاب ہوئے۔

ترجمان القرآن (1931-1936)ابوالکلام آزاد کی ایک اہم کاوش ہے جو قرآن کریم کے اردو ترجمہ وتفسیر پر مبنی ہے۔ یہ متعدد جلدوں پر مشتمل ہے اور قرآنی تعلیمات کو عصری معاشرے، خاص طور پر اردو داں مسلمانوں کے لیے قابل فہم بنانے کے لیے آزاد کی جدوجہد کا روشن ثبوت ہے۔ قدیم متن اور جدید دنیا کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے ارادے سے تحریر کی گئی آزاد کی یہ تفسیر قرآن کی ایسی تشریح کرتی ہے جس سے اس وقت کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی چیلنجوں کے حل تک رسائی ہوسکے۔

ابو الکلام آزاد نے قدیم حکمت کو جدید دنیا کے مسائل سے منسلک کرتے ہوئے قرآنی آیات کی معاصر تشریحات پیش کیں۔ انھوں نے عدل، سماجی مساوات اور اخلاقی طرزعمل جیسے موضوعات پر بحث کی، جدید اخلاقی وسماجی مسائل کی رہ نمائی کے تئیں قرآنی تعلیمات کی مطابقت کو پیش کیا۔ ایک قرآنی آیت پر جس میں عدل کا ذکر ہے، بحث کرتے ہوئے آزاد لکھتے ہیں: “ قرآن میں عدل و انصاف کے اصول صرف تاریخی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ہر دور اور ہر معاشرے پر لاگو ہوتے ہیں۔ یہ زمانے اور ثقافتی حدود کو مٹاکر ایک عادلانہ اور منصفانہ معاشرے کی تعمیر کی بنیاد فراہم کرتے ہیں”   (جلد 1، صفحہ 120)۔ اسی طرح ایک قرآنی آیت میں علم کے حصول کے بارے میں تشریح کرتے ہوئے آزاد مسلسل سیکھنے اور فکری نشوونما کی اہمیت پر زور دیتے ہیں: “ قرآن علم کے حصول اور فکری تحقیق کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ جستجو صرف مذہبی علم تک محدود نہیں ہے بلکہ انسانی فلاح و بہبود کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتی ہے۔”   (جلد 2، صفحہ 210)

آزاد نے جن بنیادی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر “ ترجمان القرآن”   لکھی ان میں سے ایک فکری وروحانی نشوونما کو جلا بخشنا تھا۔ آزاد نے قارئین کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ قرآنی متن کا گہرائی سے مطالعہ کریں، یہ نہ صرف ایک دینی فریضہ ہے جو بحیثیت مومن ان پر عائد ہے بلکہ اس میں روزمرہ کی زندگی کے لیے حکمت کے موتی اور رہ نمائی کے راستے بھی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: “ قرآن ایک زندہ دستاویز ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں کے لیے رہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کی تعلیمات کے ساتھ کھلے ذہن کے ساتھ مشغول ہونا ذاتی اور معاشرتی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے”   (جلد 3، صفحہ۔ 300)۔

ترجمان القرآن کے واسطے سے آزاد نے روایتی تفسیری اصولوں کو عصری تقاضوں کے ساتھ کمال مہارت سے ہم آہنگ کیا، قرآنی حکمتوں کو جدید زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ایک روڈ میپ پیش کیا۔ ترجمان القرآن ماضی اور حال کے درمیان ایک پل کی طرح نظر آتا ہے جو قارئین کو اسلامی تعلیمات کے گہرے سمندر سے موتی نکال کر اپنے وقت کے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کی رہ نمائی کرتا ہے۔

رادھا کرشنن اپنی معرکة الآراکتاب ‘The Principal Upanisads’ میں ان قدیم ہندو متن کا علمی مگر قابل فہم ترجمہ اور تشریح پیش کرتے ہیں، جو ان کے فلسفے اور روحانیت پر کامل عبور کو واضح کرتا ہے۔ وہ اپنشدک عقائد کی لازوال مطابقت پر خاص طور پر تمام زندگیوں کے باہمی ربط اور نفس (آتمان) کی فطرت پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔

ایک دوسری تصنیف  ‘Eastern Religions and Western Thought’ میں رادھا کرشنن مشرقی اور مغربی روایات کے درمیان تعاملات کا سراغ لگاتے ہوئے ایک ایسی ترکیب کی وکالت کرتے ہیں جو باہمی افہام و تفہیم کو بڑھانے میں معاون ہو۔ وہ نہ تو استعماری موقف اپناتے ہیں اور نہ ہی مغربی افکار کو من وعن قبول کرتے ہیں بلکہ وہ مغربی روایات کی تنقیح کے لیے منفرد اسلوب استعمال میں لاتے ہیں۔

مشرقی اور مغربی فلسفوں کے مختلف راستوں کے باوجود رادھا کرشنن ان کے مشترک اہداف کو اجاگر کرنے کی کام یاب کوشش کرتے ہیں، ایک مکالماتی نقطہ نظر کو فروغ دیتے ہوئے گویا ہوتے ہیں: “ حالاں کہ مشرقی اور مغربی فلسفے اپنے الگ الگ نقطہ نظر رکھتے ہیں، تاہم ان کی آخری منزل ایک ہی ہے اور وہ ہے سچائی اور فہم کی جستجو۔ دونوں کے درمیان طریقوں میں اختلافات ہیں لیکن یہ ان کی منزل کا اختتام نہیں۔”

رادھا کرشنن مذہبی رواداری، سماجی ہم آہنگی اور ترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے مذہبی تعلیمات کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کی وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں: “  مذہب کی حقیقی روح رواداری اور افہام و تفہیم کو فروغ دیتی ہے۔ یہ انسانیت کے مشترکہ روحانی ورثے کو تسلیم کرتے ہوئے تقسیم کے بجائے متحد ہونے کے لیے کوشاں ہوتی ہے۔”

ان کاوشوں کے ذریعے، رادھا کرشنن انسانی معاملات میں مذہبی وفلسفیانہ روایات کی اہمیت کے بارے میں گہرے فہم کو فروغ دینے اور ایک نسبتا زیادہ ہم آہنگ معاشرے کو مہمیز دینےکا راستہ دکھاتے ہیں۔

ہندوستانی متنوع تہذیب کے یہ دونوں سرخیل نہ تو سائنس اور عقلیت کے بنُے ہوئے “ مذہب کے خاتمہ”   کے جال میں پھنسے اور نہ ہی “ تہذیبوں کے تصادم”   کے فریب کا شکار ہوئے۔ ان دونوں کے نزدیک مذہب انفرادی فرحت وانبساط اور مثالی ریاست سازی کے لیے ایک لازمی وسیلہ تھا۔ لیکن آج ہم پاتے ہیں کہ ان تاریخ ساز شخصیات کے نظریات کو تنگ نظر سیاسی مقاصد و مفادات کی خاطر توڑ مروڑ کر اور غلط بیانی کرکے پیش کیا جاتا ہے۔

رادھا کرشنن کے نظریات کی گم راہ کن پیش کش

یہاں ہندوتو کی حمایت کرنے والے چند مصنفین کی کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں جو اپنے نظریہ ہندتو کی تائید کے لیے دوسروں کی باتوں کو غلط انداز میں پیش کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

پہلی مثال اروند شرما کی لیتے ہیں۔ شرما کو اکثر رادھا کرشنن کے متن سے مقطوع حوالہ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، وہ ہندو فلسفے کے تئیں ان کی تعریف کو نمایاں کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کی تنقیدوں اور ہندو ازم کی موروثی تکثیریت اور شمولیت پر ان کے زور کو بڑی آسانی سے نظر انداز کردیتے ہیں۔ اس طرح کا مقطوع اقتباس رادھا کرشنن کے حقیقی خیالات کے بارے میں قاری کو غلط فہمی کا شکار کرسکتا ہے۔

کونراڈ السٹ (Koenraad Elst)ایک اور شخص ہیں جن کا تحریفانہ انداز بیدار مغز قاری کو چونکنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ایلسٹ ہندو ثقافت کی برتری کے دلائل کے حصول کے لیے اکثر رادھا کرشنن کا حوالہ دیتے ہیں لیکن اکثر اوقات رادھا کرشنن کے وسیع تر فلسفیانہ سیاق و سباق بشمول ان کی آفاقیت اور سیکولرازم کی وکالت سے دامن بچاتے نظر آتے ہیں جو رادھا کرشنن کی فکر کے کلیدی پہلو ہیں۔

ڈیوڈ فراولی (David Frawley)مغربی نژاد ہیں اور ہندو توا کے کٹر حامیوں میں سے ہیں۔ ڈیوڈ نے بھی ہندو تہذیب کی عظمت کو اجاگر کرنے کے لیے اکثر رادھا کرشنن کا حوالہ دیا ہے۔ تاہم وہ جدیدیت، سیکولرازم اور ہندو روایات کے اندر اصلاح کی ضرورت کے بارے میں رادھا کرشنن کے زریں خیالات سے اکثر پہلو تہی کرجاتے ہیں۔

اسی طرح راجیو ملہوترا ہندو مت کی انفرادیت اور فلسفیانہ گہرائیوں کے بارے میں کلام کرتے ہوئے اکثر رادھا کرشنن کا ذکر چھیڑتے رہتے ہیں۔ مگر بین المذاہب مکالمے کے لیے رادھا کرشنن کا التزام اور مذہبی بنیاد پرستی پر تنقید کا ذکر اکثر گول کرجاتے ہیں۔

ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوازم کے تہذیبی آئیکون کی تحریروں کو کس طرح چن چن کر اور تحریف کرکے گم راہ کن طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ طرز عمل ان سرکردہ شخصیات کی فلسفیانہ شراکت کے وسیع دائرہ کار کو تنگ تر کردیتا ہے۔

حرف ختام

“ مذہب کاخاتمہ”   ایک مفروضہ ہے جو جدید دنیا میں مذہبی عقیدے کے زوال کی پیشین گوئی کرتا ہے، اور اسی کے ساتھ ایک اور نظریہ “ تہذیبوں کے تصادم”   کا ہے، جو تہذیبوں اور قوموں کے مابین تصادم کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ ابو الکلام آزاد اور رادھا کرشنن اپنے افکاراورتحریروں سے ان دونوں مفروضوں کی سراسر نفی کرتے ہیں اور ایک تکثیری معاشرے میں تعلقات استوار رکھنے کے لیے راستے ہم وار کرتے ہیں جہاں مختلف مذہبی طبقے آپس میں ہم آہنگی قائم رکھتے ہوئے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ابوالکلام آزاد نے قدیم اسلامی تعلیمات اور عصری تقاضوں کے درمیان مطابقت کے لیے اسلامی تعلیمات کی ازسرنو تشریح کی جو مذہب کی پائیدار اور عملی نوعیت پر دلالت کرتی ہے۔ اسی طرح رادھا کرشنن کی مشرقی اور مغربی فلسفوں کے درمیان توافق کی تلاش اور انسانی وجود کی روحانی بنیادوں پر شدومد کے ساتھ ان کا زور دینا کسی ناگزیر تصادم کے تصور کے بالکل مغائر ہے۔ یہ دونوں ہی باہمی احترام، مکالمے اور سماجی ترقی میں روحانی اور اخلاقی اقدار کی شمولیت کا وژن پیش کرتے ہیں اور ثقافتی و مذہبی اختلافات میں ہم آہنگی اور تعاون باہمی کے امکانات کو اجاگر کرتے ہیں۔

ابوالکلام آزاد اور رادھا کرشنن کی کاوشیں تہذیبی تمثیلوں کے تئیں کافی بصیرت فراہم کرتی ہیں جنھوں نے جدید ہندوستانی فکر کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنے فلسفیانہ مظاہر، ثقافتی اور ادبی تنقید، مذہبی اور اخلاقی گفتگو اور صحافتی کوششوں کے ذریعے، دونوں نے معاشرے کے ایک جامع اور ہم آہنگ تصور کی بنیاد رکھی ہے۔ ان کی یہ کاوش ہمارے لیے حوصلہ افزائی کا باعث، رہ نمائی کا ذریعہ اور لازوال حکمت کا ماخذ ہے جو سماج میں اتحاد اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے میں مددگار بھی ہے اور فرقہ وارانہ مفروضوں پر مبنی پارینہ قصوں کے خلاف صف آرا بھی ہے۔

مراجع

[1] Azad, A. K. (1943). Ghubar-e-Khatir. Sahitya Akademi.

[2] Azad, A. K. (1919). Tazkirah. Dar-ul-Musannefin Shibli Academy.

[3] Azad, A. K. (1913). Al-Hilal.

[4] Azad, A. K. (1914). Al-Hilal.

[5] Azad, A. K. (1915). Al-Balagh.

[6] Azad, A. K. (1916). Al-Balagh.

[7] Azad, A. K. (1931-1936). Tarjuman-ul-Quran. Kitab Bhavan.

[8] Radhakrishnan, S. (1927). The Hindu View of Life. HarperCollins Publishers.

[9] Radhakrishnan, S. (1947). Religion and Society. George Allen & Unwin Ltd.

[10] Radhakrishnan, S. (1953). The Principal Upanishads. Harper & Brothers.

[11] Radhakrishnan, S. (1939). Eastern Religions and Western Thought. Oxford University Press.

[12] Sharma, A. (2000). Classical Hindu Thought: An Introduction. Oxford University Press.

[13] Elst, K. (2001). The Saffron Swastika: The Notion of ‘Hindu Fascism’. Voice of India.

[14] Frawley, D. (2001). Hinduism and the Clash of Civilizations. Voice of India.

[15] Malhotra, R. (2016). The Battle for Sanskrit: Is Sanskrit Political or Sacred, Oppressive or Liberating, Dead or Alive?. Harper Collins

مشمولہ: شمارہ اگست 2024

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223