مولانا مودودی رحمة اللہ علیہ اور ان کی فکر کا شدت پسندی، انتہا پسندی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ غیر آئینی طریق کار، خفیہ کوششوں اور زیر زمین خفیہ کاموں وغیرہ کی انھوں نے کبھی اجازت نہیں دی اور وہ ان طریقوں کے سخت مخالف تھے۔ انھوں نے ہمیشہ پر امن آئینی جدوجہد اور رائے عامہ کو ہم وار کرنے کی علانیہ کوششیں کرنے کی نصیحت کی، خواہ دوسرے لوگ کیسے ہی غلط طریقے اختیار کرتے ہوں۔ زیر نظر مضمون میں مولانا مودودی ؒکے بہت واضح بیانات جمع کردیے گئے ہیں۔ یہ قیمتی مضمون ماخوذ ہے مراد علی کی کتاب ‘مولانا مودودی کا تصور جہاد، ایک تجزیاتی مطالعہ ’سے۔ مراد علی فکر مودودی کے محققین میں سے ہیں اور ان کی تازہ کتاب مولانا مودودی کے تصور جہاد کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرتی ہے۔ (ادارہ)
ذیل میں مولانامودودی ؒکی تحریروں سے وہ عبارتیں پیش کی جارہی ہیں، جن میں انھوں نے مختلف اوقات میں اپنے پیش کردہ نظریے کے عملی نفاذ کے لیے، مسلح جد وجہد، خفیہ تحریک، پر تشدد ذرائع، فوجی انقلاب جیسی تدابیر کی نفی فرمائی ہے۔ ان میں بیشتر ان کی وہ تصریحات ہیں، جو مسلح جد وجہد اور خفیہ تحریک چلانے سے متعلق سوالات کے جواب میں پیش کی گئی ہیں۔ مولانا کی یہ طرز فکر ان کی دنیا کی سیاسی تاریخ کے گہرے مطالعے اور تجزیے اور مضبوط ارادہ کا پتادیتی ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں، نظری اور عملی دونوں صورتوں میں، اپنی اس فکر سے منحرف نہیں ہوتے۔ آپ نے سیاسی عمل میں بہت سخت حالات کا سامنا کیا، لیکن کبھی بھی اپنے بتائے ہوئے منہج سے سر مو انحراف گوارا نہیں کیا۔
حکمت اور صبر
اپنی فکر کے علمی نفاذ کے لیے ہمیشہ اس بنیادی اصول پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی: ‘‘جو عظیم الشان مقصد ہمارے سامنے ہے اور جن زبردست طاقتوں کے مقابلے میں ہم کو اٹھ کر اس مقصد کے لیے کام کرنا ہے، اس کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہم میں صبر ہو، تدبر اور معاملہ فہمی ہو اور اتنا مضبوط ارادہ جس سے ہم دور رس نتائج کے لیے لگاتار ان تھک سعی کر سکیں۔ بے صبری کے ساتھ جلدی جلدی نتائج برآمد کرنے کے لیے بہت سے ایسے سطحی کام کیے جاسکتے ہیں جن سے ایک وقت ہل چل بر پا ہو جائے۔ لیکن اس کا کوئی حاصل اس کے سوا نہیں ہے کہ کچھ دنوں تک فضا میں شور ر ہے اور پھر ایک صدمے کے ساتھ سارا کام اس طرح بر باد ہو کہ مدت ہائے دراز تک اس کا نام لینے کی بھی کوئی ہمت نہ کر سکے۔’’[1]
۶؍ ذی الحج ۱۳۸۲ھ کو دنیائے عرب کی اسلامی تحریکوں کے نوجوانوں سے خطاب میں ان کے سامنے طریق کار واضح کرتے ہوئے جو نصیحتیں کیں ان میں اس پہلو کو مزید نمایاں کیا۔ ‘‘بے صبر ہو کر خام بنیادوں پر جلدی سے کوئی اسلامی انقلاب بر پا کر دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جو مقصود ہمارے پیش نظر ہے اس کے لیے بڑا صبر درکار ہے۔ حکمت کے ساتھ جانچ تول کر ایک ایک قدم اٹھائیے اور دوسرا قدم اٹھانے سے پہلے خوب اطمینان کر لیجیے کہ پہلے قدم میں جو نتائج آپ نے حاصل کیے ہیں وہ مستحکم ہو چکے ہیں۔ جلد بازی میں جو پیش قدمی ہو گی اس میں فائدے کی بہ نسبت نقصان کا خطرہ زیادہ ہو گا۔’’[2]
خفیہ، زیرِ زمین تحریک اور تشدد کی نفی
ایک موقع پر ارکان کے اجتماع میں فرمایا:
‘‘خدا کی قسم، اور میں بہت کم قسم کھاتا ہوں، کہ جماعت اسلامی نے جو یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی خفیہ تحریک کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب بر پا نہیں کرنا چاہتی، یہ قطعاً کسی کے خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ قطعاً اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی صفائی پیش کر سکیں کہ ہم دہشت گرد نہیں ہیں اور ہمارے اوپر یہ الزام نہ لگنے پائے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہو سکتا، جب تک کہ لوگوں کے خیالات تبدیل نہ کر دیے جائیں، جب تک لوگوں کے افکار، لوگوں کے اخلاق اور لوگوں کی عادات کو تبدیل نہ کر دیا جائے۔ اگر کسی قسم کے تشدد کے ساتھ، یا کسی قسم کی سازشوں کے ساتھ، یا کسی قسم کی دھوکے بازیوں اور جھوٹ کے ساتھ، انتخابات جیت لیے جائیں، یا کسی طریقے سے انقلاب بر پا کر دیا جائے، تو چاہے یہ انقلاب کتنی دیر تک رہے، یہ اسی طرح اکھڑ تا ہے جیسے اس کی کوئی جڑ نہ ہو۔’’[3]
غیر قانونی اور غیر آئینی طریقِ کار کی نفی
غیر قانونی اور غیر آئینی ذرائع اختیار کرنے کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘ میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخر کار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔انھی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین و قانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتی کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی و جمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے، مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس کے دستور کی دفعہ ۵ میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رو نما ہو۔ ہم جو کچھ کر یں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کر یں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے۔’’[4]
لندن میں مقیم عرب طلبہ نے اپنے رسالے ‘‘مجلة الغرباء’’ کے لیے مولانا سے انٹرویو لیا، جس میں ایک سوال حکومتی جبر و تشدد سے متعلق پوچھا گیا، یہ وہ زمانہ تھا جب عرب دنیا اور بالخصوص مصر میں اسلامی تحریک پر سخت مظالم ڈھائے جارہے تھے۔ سوال پوچھا گیا: ‘‘اسلامی تحریکیں اس وقت جگہ جگہ حکومتوں کے جبر و تشدد کی فضا میں سانس لے رہی ہیں۔ چناں چہ آپ کی نظر میں وہ کون سا مناسب ترین رویہ ہے جو اسلامی تحریکوں کو ان حکومتوں کے بارے میں اختیار کر نا چاہیے۔ مولانا جواب میں فرماتے ہیں: ‘‘میرے نزدیک یہ طے کرنا ہر ملک کی اسلامی تحریک کے کارکنوں اور قائدین کا کام ہے کہ جس قسم کا ظلم و استبداد ان پر مسلط ہے اس کے مقابلے میں وہ کس طرح کام کریں۔ ہر ملک میں اس کی صورتیں اور کیفیتیں اتنی مختلف ہیں کہ سب کے لیے کوئی ایک طریق عمل تجویز کر نا مشکل ہے۔ البتہ جو چیز میں ان سب کے لیے ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ان کو خفیہ تحریکات اور مسلح انقلاب کی کوششوں سے قطعی باز رہنا چاہیے اور ہر طرح کے خطرات و نقصانات برداشت کر کے بھی علانیہ، پر امن اعلائے کلمة الحق کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے، خواہ اس کے نتیجے میں ان کو قید و بند سے دوچار ہونا پڑے یا پھانسی کے تختے پر چڑھ جانے کی نوبت آجائے۔’’[5]
اوپر جو عبارت نقل کی گئی اس تقریر میں مولانا نے عرب دنیا میں مختلف اسلامی تحریکوں کے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا:
‘‘تحریک اسلامی کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحہ کے ذریعے سے انقلاب بر پا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی در اصل بے صبری اور جلد بازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے بر پا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلائیے۔ بڑے پیمانہ پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بہ تدریج جو انقلاب بر پا ہو گا وہ ایسا پائدار اور مستحکم ہو گا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کر سکیں گے۔ جلد بازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔’’[6]
۱۰؍ جنوری ۱۹۷۱ء کو لاہور میں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘انتخابات میں کام یابی کے لیے ہم ناجائز تدابیر کبھی اختیار نہیں کریں گے، خواہ ایک صدی تک کام یابی نہ ہو۔ ہم صحیح مقصد کے لیے صحیح طریقے سے ہی کام کرنا چاہتے ہیں۔اگر اس قوم کی قسمت میں ایک صحیح عادلانہ نظام کا قیام ہے تو اللہ تعالی اس طریقے سے ہمیں کام یابی عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر خدانخواستہ اس کی قسمت میں دھو کے ہی کھانا لکھا ہے، تو ہم وہ لوگ نہیں بننا چاہتے، جو اس کو دھوکا دینے والے ہوں۔ ہم اس کو بچانے والے تو بننا چاہتے ہیں، لیکن اس کو ٹھو کریں کھلانے والے نہیں بن سکتے۔
اس لیے محض انتخابات میں کام یابی حاصل کرنے کی خاطر ہم جماعت اسلامی کی ایسی توسیع کرنے،اور اسے اس طرح کی عوامی جماعت بنانے کی کوشش نہیں کر سکتے، جو ہمارے کارکن کا معیار اخلاق گرادے، اور وہ عوام کی اصلاح کرنے کے بجائے صرف کسی نہ کسی طرح انھیں بہا کر اپنے ساتھ لے آنے کے قابل بن جائے۔
جماعت اسلامی صرف انتخابی جماعت نہیں ہے، نہ اس کی حیثیت ان سیاسی پارٹیوں کی سی ہے، جو محض انتخابات کے لیے کام کرتی ہیں۔ اسے ایک پورے معاشرے کو ہر پہلو سے تیار کرنا ہے، اور یہ کام ایسا ہے، جسے سال کے بارہ مہینوں کے ۳۶۵ دن ہمہ وقت جاری رہنا ہے۔ اس کے لیے بلاشبہ ہمیں زیادہ سے زیادہ کارکنوں کی ضرورت ہے۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کارکن اس کے لیے درکار ہیں۔ مگر لازمًا، وہ ایسے ہی کار کن ہونے چاہئیں جو مخلص ہوں، بے لوث ہوں، اخلاقی لحاظ سے کھرے ہوں اور سیرت و کردار کی اتنی مضبوطی رکھتے ہوں کہ سخت نامساعد ماحول میں بھی معاشرے کی اصلاح کے لیے مسلسل محنت کرتے چلے جائیں، خواہ دور دور تک انھیں کام یابی کے آثار نظر نہ آتے ہوں۔’’[7]
۱۲ فروری ۱۹۷۲ء کو لاہور میں مرکزی مجلس شوری سے خطاب کے دوران فرمایا تھا:
‘‘جمہوریت کی بحالی ہو یا اسلامی نظام کا قیام، اس کے لیے ہم فساد کاراستہ کبھی اختیار نہیں کریں گے، کیوں کہ وہ تباہی کا راستہ ہے، جس سے کچھ تعمیر نہیں ہوتی تخریب ہوتی ہے۔اس لیے فساد کا راستہ ہم اختیار نہیں کریں گے، بالکل آئینی اور قانونی طریقے سے، بالکل سلامت روی کے ساتھ اس ملک کے حالات کو درست کرنے کی جس حد تک کو شش کر سکتے ہیں، وہ کر یں گے—جماعت اسلامی کے ساتھ تعلق رکھنے والے کسی شخص کو کسی سُستی اور تساہل و تغافل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ سُستی سے کام لیا تو اللہ کے ہاں پکڑے جائیں گے۔ پو چھا جائے گا کہ کیا عہد کر کے شامل ہوئے تھے، اور تمھارے سامنے پوری امت برباد ہورہی تھی، تم نے کیا کیا؟ یہ بہر حال نہیں کہا جاسکتا کہ ہمیں کوئی ایسا پروگرام نہیں دیا گیا جو ہنگامہ خیز ہو، ہمیشہ ہنگامہ خیز پرو گرام زیادہ عرصے تک نہیں چلا کرتے۔ جماعت کو جس بات کی تربیت دی جاتی رہی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ تعمیری کام کرے اور صبر کے ساتھ کرے۔ جماعت اسلامی ہنگامے بر پا کرنے کے لیے نہیں قائم کی گئی تھی۔ اگر ہنگامی زندگی کا آپ لوگوں کو کوئی چسکا پڑ گیا ہو تو اس کو اب دور کیجیے۔ صبر کے ساتھ اپنی قوم کی اور اپنے ملک کی اصلاح کرنے کی فکر کیجیے۔ ہم اسلامی نظریہ حیات پر ایمان رکھنے والی جماعت ہیں۔ یہ ایک جہانی اور عالمی جماعت ہے، یہ تمام نوع انسانی کی جماعت ہے۔ اس نظریے کے لیے ہم کوشش کریں گے اور آخر وقت تک کو شش کر یں گے۔ ہم میں سے ہر ایک آدمی اس کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ مت دیکھیے کہ میرے ساتھی کتنا کچھ اور کیا کر رہے ہیں۔ ہر ایک آدمی یہ دیکھے کہ میں کیا کر رہاہوں اور میرا کیا فریضہ ہے۔ اگر کوئی دوسرا اپنا فرض انجام نہ دے رہا ہو، تب بھی آپ کو اپنا فرض انجام دینا ہے۔ کوئی دوسرا کوشش نہیں کر رہا ہے تو آپ کو کرنا ہو گا۔ اگر سارے کے سارے بیٹھ جائیں تو آپ کے اندر یہ عزم ہو نا چا ہیے کہ میں اکیلا ساری دنیا کی اصلاح کے لیے لڑوں گا۔’’[8]
غیر آئینی ذرائع کی نفی پر استمرار
مولانا کسی بھی حالت میں آئینی اور قانونی جد و جہد سے مایوس نہیں ہوتے۔ چاہے حالات کیسے بھی ہوں، وہ ہمیشہ اس طرز عمل پر عمل پیرا ر ہے۔ اوپر ‘‘جد وجہد قبل از آزادی‘‘ کے تحت ذکر ہو چکا ہے کہ آزادی سے قبل بھی اسی قسم کی الجھنیں پیش آئیں کہ آئینی جد وجہد کے ذریعے مولانا کے پیش کردہ نصب العین کا حصول ممکن نہیں ہے تو کیا مسلح جد وجہد کے ذریعے اس کا قیام کیا جاناچاہیے تو مولانا نے اس کا جواب نفی میں دیا تھا۔ ایسے ہی سوالات آزادی کے بعد بھی زیر بحث آئے۔ مولانا ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
‘‘بکثرت لوگ اس الجھن میں پڑ گئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبد یلی لائی جاسکتی ہے یا نہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیر جمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ہمارے حکم رانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن ہم اس پوری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور اس کی پیدا کر دہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام جسے بر پا کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جاسکے تو وہ دیرپا نہیں ہو سکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیر جمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظام زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامة الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے انھیں ہم خیال بنایا جائے اور ان کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی رائے عامہ کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عامہ کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے، لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کر ناضروری سمجھتا ہے، کیوں کہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور ان کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک اور خواص خصوصًا کارفرماؤں میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیوں کہ اس کے بغیر اس کے اصول واحکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام و خواص کی ذہنیت، انداز فکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیوں کہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلند پایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہو سکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی جبرًا لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی، بلکہ ان میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اقدار (Values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں اور ان کو اس حد تک ابھار دیا جائے کہ وہ اپنے اوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملًا برپا کر دینے کے لیے کوئی اقدام اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہو جائے۔’’[9]
اشتراکی انقلاب پر اصولی موقف اور پر تشدد تحریک سے اجتناب کی تلقین
اشتراکی تصور ‘انقلاب’کے بارے میں فرماتے ہیں:
‘‘توڑ پھوڑ اور تشدد کے ذریعے کوئی مستحکم اور پائدار نظام حکومت قائم نہیں کیا جاسکتا۔ لاطینی امریکا اور افریقہ کے ان ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ جہاں اس قسم کی کارروائیوں کے بعد انقلاب لائے گئے اور پھر وہاں انقلاب در انقلاب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس لیے نہ ہم خود تشدد کاراستہ اختیار کریں گے اور نہ دوسروں کو اختیار کرنے دیں گے۔’’[10]
سوشلسٹ عناصر کی خفیہ تحریک چلانے کے ضمن میں مولانا سے سوال ہوا کہ وہ خفیہ طور پر اپنے کارکنوں کو فوجی تربیت دے رہے ہیں، ان حالات میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو اس طریقے پر خود کو منظم نہیں کرنا چاہیے؟ مولانا جواب میں فرماتے ہیں:
‘‘ہمارا کام خفیہ تحریک چلانا نہیں بلکہ کھلم کھلا اپنے نظریے کو پھیلانا ہے۔ کمیونسٹ کھلے طریقے سے عوام میں کام نہیں کرسکتے۔ ان کا مزاج ہی یہ ہے کہ خفیہ طریقوں سے کام کرتے ہیں اور عوام کی مرضی کے خلاف ان پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ کسی خفیہ تحریک کے ذریعے کوئی صالح انقلاب نہیں آسکتا۔ اس تحریک میں جو خرابیاں پرورش پاتی ہیں ان کا کسی کو پتا نہیں چلنے پاتا۔ اور جب وہ تحریک کام یاب ہو جاتی ہے تو یہ خرابیاں یکایک ابھر کر پورے ملک کے لیے آزمائش کا سبب بن جاتی ہیں۔اسی خفیہ تحریک کا نتیجہ تھا کہ اسٹالن جیسا ظالم آدمی روس میں بر سراقتدار آ گیا اور روس کے عوام نے ایک زار سے چھٹکارا حاصل کیا تو دوسرے زار نے ان کی گردن دبوچ لی۔’’[11]
اشتراکیت پسندوں کی متشددانہ کارروائیوں کے سد باب کے طریق کار پر فرماتے ہیں:
‘‘ہم تشدد کے مقابلہ میں تشدد اختیار کرنے کو صحیح نہیں سمجھتے، کیوں کہ اس سے وہ مقصد آپ سے آپ پورا ہو جائے گا جو خانہ جنگی کی دعوت دینے والوں کے پیش نظر رہا ہے۔ ہمارے نزدیک اسلام کی حامی طاقتوں کو مدافعت پر اکتفا کرنا چاہیے جس کا انھیں بہرحال حق حاصل ہے۔اور ان کی زیادتیوں کا جواب تشدد سے دینے کے بجائے ملک کی عام رائے کو جمہوری طریقوں سے اسلام کے حق میں ہم وار کرنے کی زیادہ سے زیادہ کو شش کرنی چاہیے۔’’[12]
متشددانہ رجحان کا حل
بڑھتے ہوئے تشدد کے رجحان کے ازالے کے بارے میں مولانا ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
‘‘ یہ صورت حال بڑی حد تک حکومتوں کی غلط روش سے پیدا ہوئی ہے۔ حکومتوں کی روش یہ رہی ہے کہ آپ معقول بات معقول دلیل سے پیش کریں تو اسے کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی اور یہ خیال کیا جائے گا کہ یہ امن پسند لوگ ہیں ان سے حکومت کے نظم ونسق کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا، اس لیے ان کی بات قابل اعتنا نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر کچھ لوگ توڑ پھوڑ اور تشدد پر اتر آئیں تو حکومت سمجھتی ہے کہ ہاں یہ لوگ وزن رکھتے ہیں۔ ان کے طرز عمل سے ملک کا امن و امان خطرے میں پڑ سکتا ہے، اس لیے ان کے معقول مطالبے تو الگ رہے غیر معقول مطالبوں کو بھی مان لو، تا کہ جان چھوٹے۔ یہ روش حکم رانوں کی نااہلی اور ان میں تدبر کی کمی کی دلیل ہے۔اگر وہ معقول باتوں کو معقول طریقوں سے مان لیں تو غیر معقول باتوں کے ابھرنے کی نوبت نہیں آسکتی۔ غیر معقول باتوں کے اٹھانے والے قوم کی اخلاقی تائید سے محروم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اگرچہ تشدد کے راستے کام یاب ہوتے نظر آرہے ہیں، لیکن میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ معقولیت کے راستے کو بالکل نہ چھوڑیں کیوں کہ بالآخر یہی چیز پوری قوم اور ملک کو تباہ کر دینے والی ہے۔ اگر آپ ملک کے مستقبل کو تباہ نہیں کرنا چاہتے تو غیر معقول راستے پر بالکل نہیں چلیں۔ان شاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ اگر ملک میں ایک گروہ معقول راستے پر چلتارہا اور اس نے کبھی اس راستے کو نہ چھوڑا تو وہ ضرور کام یاب ہو کر رہے گا۔ غیر معقولیت اسی وقت کام یاب ہوتی ہے جب معقولیت متحرک نہ ہو۔ لیکن معقولیت حرکت میں آجائے تو معقول اور نامعقول لوگوں کا تضاد کھل کر سامنے آ جاتا ہے اور قوم جان لیتی ہے کہ کون سا راستہ اسے اختیار کرنا چاہیے اور کون سا چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ راستہ اگرچہ صبر آزما ہے لیکن یہی خیر و فلاح کی منزل کی طرف جاتا ہے۔’’[13]
مولانا سے سوال پوچھا گیا: کیا موجودہ صورت حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہو گیا، کیوں کہ جن لوگوں سے ہم کو سابقہ در پیش ہے وہ خود غیر آئینی ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔ مولانا جواب میں فرماتے ہیں:
‘‘فرض کیجیے کہ بہت سے لوگ مل کر آپ کی صحت بگاڑنے میں لگ جائیں، تو کیا آپ ان کی دیکھا دیکھی خود بھی اپنی صحت بگاڑنے کی کوشش میں لگ جائیں گے ؟ بہت برا کیا گیا کہ غیر آئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے اور بہت برا کریں گے، اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیر آئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک علانیہ اور دوسری خفیہ۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ علانیہ طور پر غیر آئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہو گا، وہ زیادہ برا ہو گا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہندوستان میں تحریک آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج ۲۵ سال بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جاسکا۔ اگر خفیہ طریقے سے غیر آئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختار کل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحر یک ان ہی کی مرضی پر چلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیاجاتا ہے۔ان کی پالیسی سے اظہار بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب بر سراقتدار آئیں گے تو کس قدر بد ترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر وسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں تو خلق خدا کے لیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟ میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر و تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود حضور کا طریق کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا —آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو بھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعًا حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔’’[14]
۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی ناکامی کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوالات اٹھنا شروع ہوئے کہ جمہوریت کا راستہ طویل ہے، اس سلسلے میں مولانا سے سوال پوچھا گیا: ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے نتائج کے بعد کچھ لوگ تحریک اسلامی کے مستقبل سے مایوس نظر آتے ہیں۔ ان کی خواہش یہ ہے کہ جمہوریت کا طولانی راستہ طے کرنے کے بجائے کوئی ایسا شارٹ کٹ اختیار کیا جائے کہ ملک میں فوری طور پر اسلامی انقلاب برپا ہو جائے۔
مولانا جواب میں فرماتے ہیں:
‘‘شارٹ کٹ اگر کوئی اختیار کرنا چاہے تو وہ جماعت اسلامی کو چھوڑ کر کوئی اور جماعت بنائے اور اپنے شارٹ کٹ پر چل کر دیکھ لے۔ جماعت اسلامی نادانی کے ساتھ کوئی کام نہیں کر سکتی۔ جس راستے پر ہم چل رہے ہیں اس میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ یہ بہر حال ایک لمبا راستہ ہے، جان مار کے کام کرنے کا ہے۔’’[15]
فوری طور پر انقلاب آنے کے بارے میں مولانا ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
‘‘یہ آپ سے کس نے کہ دیا کہ اسلامی انقلاب بہت جلد آرہا ہے؟ آپ اس قسم کی غلط توقعات قائم نہ کریں۔ بے جا توقعات سے مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے پہلے بھی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کے بعد اس بگاڑ میں اور اضافہ ہوا۔ اس ساری مدت میں اصلاح کی طرف کماحقہ توجہ نہ ہوئی۔ ہمارے بس میں جو کچھ ہے وہ ہم کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل سے جو افراد دین کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں، وہ سر گرمی کے ساتھ اصلاح کے کام کا بیڑا اٹھائیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس تمام تر مساعی کے نتیجے میں حالت کب بدلے گی۔ ایک طرف شیطان اپنا کام کر رہا ہے، دوسری طرف ہم اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔
ہمارے کرنے کی جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ باقی معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔ لیکن ہمیں توقع ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔’’[16]
سوشلسٹ حضرات کے ساتھ کشاکش اول روز سے جاری رہی لیکن مولانا نے کبھی بھی اس کی سرکوبی کے لیے کوئی غیر اخلاقی اور غیر قانونی راستہ اختیار نہیں کیا۔ مولانا ایسے حالات میں بھی اس پر قائم تھے که اگر خدانخواستہ پاکستان کو ایک غیر اسلامی ریاست بنانے کے خواہش مند عناصر اپنے عزائم میں کام یاب ہو بھی جائیں تو بھی مسلح انقلاب برپا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کریں گے۔ سوال ہوا: کیا اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستوں ہی سے لانا چاہیے ؟ جب کہ دوسری ایسی نظریاتی تحریکیں موجود ہیں جنھوں نے طاقت اور ہتھیار کو بھی انقلاب لانے کا ذریعہ بنایا۔ مولانا جواب میں فرماتے ہیں:
‘‘جو بات ہم یقین سے سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ کسی مصنوعی ذریعے سے اگر کوئی انقلاب بر پا کر دیا جائے جس کے لیے معاشرہ ذہنی واخلاقی حیثیت سے تیار نہ ہو، تو وہ انقلاب کبھی پائدار نہیں ہو سکتا، اور معاشرے کو تیار کرنا ایک محنت طلب کام ہے۔ایک اچھی خاصی مدت لو گوں کو اس حق کا قائل کرنے میں صرف کرنی پڑتی ہے جس حق کو ہم قائم کر نا چاہتے ہیں۔ جب معاشرے کو ایک حد تک تیار کر لیا جائے اس کے بعد انقلاب بر پا کرنے کے لیے ہر وہ تد بیر کی جاسکتی ہے جو جائز بھی ہو اور ان حالات میں کار گر بھی ہو، جن میں ہم کام کر رہے ہیں۔ اپنے وقت اور اپنے ملک کے حالات کو نظر انداز کر کے کوئی اسکیم نہیں بنائی جاسکتی، اور اگر بنائی جائے تو یہ ناکامی پر منتج ہو گی۔’’[17]
ٹورانٹو، کینیڈا میں ۵ اگست ۱۹۷۴ء میں اسلامک سنٹر کے ہال میں منعقد ایک پروگرام کے آخر میں مولانا سے پوچھے گئے سوالات میں ایک یہ بھی تھا کہ جماعت اسلامی جمہوری طریقِ کار کیوں اختیار کرتی ہے۔ مولانا جواب میں فرماتے ہیں:
‘‘یہ بحث ایک بڑی تفصیل طلب بحث ہے۔ مگر میں اختصار کے ساتھ آپ کے سوال کا جواب دوں گا۔ جماعت اسلامی جس ملک میں کام کر رہی ہے اس کے حالات کے لحاظ سے اس نے اپنا طریقِ کار اختیار کیا ہے۔ کوئی دوسرا آدمی جو اسلامی دعوت کے لیے کسی اور ملک میں کام کر رہا ہو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ہمارے طریقے کی پیروی کرے۔ وہ اپنے ملک کے حالات کے لحاظ سے کوئی طریقِ کار اختیار کر سکتا ہے۔ ہم اس کے لیے یہ لازم نہیں کر سکتے کہ وہ ہمارے ہی طریقے کی پیروی کرے۔ ہم اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے کسی خفیہ تحریک کا طریقہ اختیار کرنا صحیح نہیں ہے کیوں کہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔ ہم اس کو بھی صحیح نہیں سمجھتے کہ کسی طرح کی سازشیں کر کے کوئی فوجی انقلاب لانے کی کوشش کی جائے اور اس طریقے سے اسلامی حکومت قائم کی جائے۔ کیوں کہ اس کا نتیجہ پھر یہ ہو گا کہ جس طرح ایک سازش کے نتیجے میں اسلامی حکومت قائم ہو گی اسی طرح دوسری سازش کے نتیجے میں اس کا تختہ الٹ کر کوئی اور حکومت قائم ہو جائے گی۔ ہمارے نزدیک صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم زیادہ لوگوں کو ایک کھلی اور علانیہ دعوت سے اپنا ہم خیال بنائیں۔ اس میں وقت کی حکومت خواہ کتنی ہی رکاوٹیں ڈالے، ہر طرح کی تکلیفوں کو، ہر طرح کے نقصانات کو، ہر طرح کی سزاؤں کو برداشت کر لیا جائے اور اپنی دعوت کو برابر جاری رکھا جائے، یہاں تک کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے ہم خیال ہو جائیں۔ جب لوگ ہمارے ہم خیال ہو جائیں گے تو ہم ان شاء اللہ جمہوری طریقے سے ہی اپنے ملک میں اسلامی انقلاب لے آئیں گے۔’’[18]
ایوب دور، ۱۲ اگست ۱۹۶۸ء میں ایک نشست میں سوال کیا گیا: ”اگر ملک میں حالات ایسے ہی رہے جیسے اس وقت ہیں، کیا سیاسی پارٹیوں کے لیے پرامن ذرائع سے تبد یلی لانا ممکن ہو گا؟ مولانا جواب میں فرماتے ہیں:
‘‘ اگر کچھ لوگ اسے ناممکن سمجھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یاتو موجودہ نظام پر راضی ہو چکے ہیں یا پھر وہ صبر و حکمت کے ساتھ پر امن کام کے قائل نہیں ہیں۔ ہم نے جس طریق کار کو صحیح سمجھا ہے اور پوری طرح سوچ سمجھ کر جس تدبیر کو مناسب پایا ہے اس کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے حالات بدل سکتے ہیں، غیر آئینی تدابیر ہمارے نزدیک غلط ہیں۔’’[19]
نتیجہ بحث
ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا مودودی اپنے مطلوبہ نظریے کے نفاذ کے لیے خفیہ تحریک، فوجی انقلاب، مسلح جد و جہد، قتل و غارت اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ مولانا مودودی کو کئی بار جیل میں ڈالا گیا، پھانسی کی سزاسنائی گئی، آپ پر ہر دور میں ارباب اقتدار نے گھیرا تنگ کیا، آپ کے قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں، آپ کی جماعت کے مجلے اور اخبارات پر پابندیاں لگائی گئیں، آپ کی جماعت پر پابندی لگائی گئی لیکن آپ نے کبھی اپنے اصول سے ذرا بھی انحراف نہیں کیا۔ دورِ ایوب مولانا کی زندگی کا دورِ ابتلا (ordeal) ہے، آپ پر ہر جانب سے غیر اخلاقی اور غیر قانونی حملے کیے گئے، اجتماعات پر پابندی لگائی گئی، آپ کے کارکنوں کو شہید کر دیا گیا لیکن آپ نے پھر بھی یہی نصیحتیں دہرائیں جو اوپر بیان ہوئیں۔
مراجع:
[1] روداد جماعت اول، ۸۸۔۱۹
[2] تفہیمات، ۳: ۳۶۲
[3] ہفت روزہ ایشیا، لاہور، ۷ اپریل ۱۹۷۴
[4] ہفت روزہ ایشیا، لاہور، ۱۷ نومبر ۱۹۶۳، بہ حوالہ تصریحات، ۸۹
[5] تصریحات، ۱۷۵۔۱۷۶
[6] تفہیمات۔ ۳: ۳۶۲۔۳۶۳
[7] شیخ افتخار احمد روداد مجلس شوری، ۳: ۳۶۳۔۳۶۴
[8] تصریحات، ۳۰۳۔۳۰۵
[9] تصریحات، ۳۰۳۔۳۰۵
[10] تصریحات، ۱۹۲۔۱۹۳
[11] مولانا مودودی کے انٹرویو، ۳۵۵
[12] تصریحات، ۲۷۱۔۲۷۲
[13] تصریحات، ۲۲۳
[14] تصریحات، ۲۴۲۔۲۴۳
[15] تصریحات، ۲۳۷
[16] تصریحات، ۳۲۲
[17] تصریحات، ۳۹۱
[18] خطبات یوروپ، ۹۱۔۹۲
[19] استفسارات، ۳: ۳۵۹
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2022