یہ کتاب دراصل مولانامودودی کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو مسئلہ قو میت اور اس سے متعلقہ موضوعات پر ترجمان القرآن میں شائع ہوئے تھے۔ ہندوستان میں اس مجموعے کو کتابی شکل میں پہلی بار ۱۹۶۲ء میں شائع کیا گیا، جو کہ اب بھی مسئلہ قو میت کے نام سے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع ہوتا ہے۔
کتاب میں دیباچے کے علاوہ قومیت اسلام، کلمہ جامعہ، متحدہ قومیت اور اسلام، کیا ہندستان کی نجات نیشنلزم میں ہے؟ اور اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم کے نام سے پانچ مضامین شامل ہیں۔قومیت کے مسئلے پر اہم اور اصولی بحث پہلے مضمون میں ہے۔ باقی مضامین اصل موضوع کے مقتضیات اورحامیانِ وطنی قومیت پر تنقید و تبصرے پر مشتمل ہیں۔یہاں موضوع سے متعلق اس حصہ کا خلاصہ پیش کرنا ہے جو اصولی گفتگو سے متعلق ہے۔
قوم کا مفہوم
قومیت پر گفتگو کرنے سے پہلے مولانا نے قوم کا مفہوم اس طرح متعین کیا ہے کہ مشتر ک اغراض و مصالح کے لیے یکجا ہونے والے لوگوں کا ایسا مجموعہ جہاں سارے لوگ آپس میں مل کر تعاون اور اشتراک عمل کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ لفظ قوم اگرچہ اپنے اصطلاحی مفہوم میں زیادہ قدیم نہیں ہے، لیکن اپنی ہیئت اور مفہوم کے اعتبار سے یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی قدیم بابل، مصر اوریونان وغیرہ کے تمدن ہیں۔
قومیت کے بعض خواص و اثرات جو لازمی طور پر قومیت کا نتیجہ ہوا کرتے ہیں۔اس کے تحت مولانا لکھتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی ابتدا ایک معصوم جذبے کے تحت ہوتی ہے کہ قوم کے افراد کے درمیان مشترک مفاد اور مصالح کی بنیاد پر اشتراک عمل ہو۔ لیکن جب قوم کے اندر قومیت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے تو لازمی طور پر عصبیت اس کے اندر آ جاتی ہے۔اور عصبیت کا رنگ قومیت کے جذبے کی شدت کے اعتبار سے شدید ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور آخرکار اس نتیجے پر پہنچ کر رہتا ہے کہ ایک قوم کے افراد دوسری قوم کے افراد کے ساتھ امتیاز برتنے لگتے ہیں اور دوسروں کے مفاد پر اپنے مفاد کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔یہ قومیت کی وہ خصوصیت ہے جسے اس سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
قومیت کے عناصر ترکیبی
اس بحث کے تحت مولانا نے قومیت کے ان عناصر کا ذکر کیا ہے جن کی بنیاد پر زمانہ قدیم سے لے کر آج تک قومیتیں تشکیل پاتی رہی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ کسی قومیت کے قیام میں وحدت و اشتراک کے ایک سے زیادہ پہلو ہو سکتے ہیں، یعنی کسی قوم کے اندر قومیت کی بنیا د بننے والے عناصر میں سے بیک وقت ایک سے زیادہ عناصر موجود ہو سکتے ہیں،لیکن ان کا بنیادی عنصر وہی قرار پاتا ہے جس کے اندر سب سے زیادہ قوت رابطہ و ضابطہ ہو تی ہے۔ یعنی جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایک کلمے، ایک خیال اور ایک مقصد پر جمع کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ اس اعتبار سے قومیت کے عناصر ترکیبی درج ذیل ہیں:
۱۔ اشتراک نسل: جسے نسلیت کہتے ہیں
۲۔ اشتراک مرزبوم: جسے وطنیت کہتے ہیں
۳۔ اشتراک زبان: یعنی ایک زبان بولنے والے
۴۔ اشتراک رنگ: جو ایک رنگ کے لوگوں میں ہم جنسی کا احساس پیدا کرتا ہے
۵۔ معاشی اغراض کا اشتراک
۶۔ نظام حکومت کا اشتراک، جو ایک سلطنت کے باشندوں کو مشترک نظم و نسق کے رشتے میں منسلک کرتا ہے۔
یہ قومیت کے عناصر ترکیبی ہیں یونانیت، رومیت، اسرائیلیت وغیر ہ جیسی قدیم قومیں بھی انھی بنیادوں پر قائم تھیں اور آج کی جدید قومیتیں مثلاً جرمنیت، فرانسیسیت، انگریزیت اور جاپانیت وغیرہ بھی انھی بنیادوں پر قائم ہیں۔
اس کے بعد مولانا نے قومیت کے اِن تمام عناصر ترکیبی پر الگ الگ تنقید کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس طرح جو بھی قومیتیں جنم لیتی ہیں، وہ نوع انسانی کے لیے شدید مصیبت ثابت ہوتی ہیں۔ انھی قومیتوں کا نتیجہ ہے کہ عالم انسانی کو سینکڑوں ہزاروں حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور تقسیم بھی ایسی کہ ایک قومیت دوسری قومیت کا متبادل نہیں بن سکتی۔اس کے نتیجے میں انسان کے اندر جاہلانہ عصبیت پیدا ہوئی جو ایک قوم کو دوسری قوم سے نفرت کرنے اور اس کی مخالفت کرنے پر آمادہ کرتی ہے ، اور ایک نالائق اور بدکار شخص ایک نیک اور صالح شخص پر اس لیے قابل ترجیح قرار پاتا ہے کہ پہلا ایک نسل یا قوم میں پیدا ہوا ہے اور دوسرا کسی دوسری قوم میں پیدا ہوا ہے۔
قومیت کے عناصر ترکیبی پر تنقید
نسلیت: یعنی محض خون کا اشتراک۔اس عنصر کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ ایک نسل کا ایک مورث اعلی ہے۔ جس کے نطفے سے چند خونی رشتوں نے جنم لیا اور پھر اس خونی رشتے کے دائرے نے پھیل کر خاندان پھر قبیلے اور آخرکارنسل کی صورت اختیار کر لی۔حالانکہ نسل کے مرحلے تک پہنچتے پہنچتے اس فرد واحد کی موروثیت محض ایک خیالی تصور کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتی کیوںکہ اس دوران اس میں اتنے خونی رشتے شامل ہوتے چلے جاتے ہیںکہ اسے صرف ایک مرد اور عورت سے چلنے والی نسل قرار دینا ممکن نہیں رہتا۔لیکن اس کے باوجود بھی اگر انسان اس کو یعنی نسلیت کو مادہ اتحاد قرار دے سکتا ہے تو کیوں نہ اس خون کے اشتراک کو انسانی اتحاد کی بنیاد بنایا جائے جو تمام انسانوں کو ان کے پہلے ماں باپ (یعنی آدم و حوا) سے ملاتا ہے؟ اور اس بنیاد پر کیوں نہ تمام انسانوں کو ایک ہی نسل اور ایک ہی اصل کی طرف منسوب کیا جائے؟
وطنیت: وطنیت کا تصور محض انسان کی تنگ نظری ہے۔ کیوںکہ انسان جس جگہ پیدا ہوتا ہے اس کا رقبہ ایک گز مربع سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اگر وہ اس ایک گز مربع جگہ کو اپنا وطن قرار دے تو کوئی بھی ملک اس کا وطن نہیں ہو سکتا۔ لیکن وہ اس ایک گز مربع کے ارد گرد سینکڑوں ہزاروں میل دور ایک سرحدی لائن قائم کرکے اسے اپنا وطن قرار دے کر باقی خطہ زمین سے اپنا تعلق منقطع کر لیتا ہے۔ حالانکہ جس دلیل کی بنیاد پر وہ یہ سرحدی لائن کھینچتا ہے اسی دلیل کی بنیاد پر وہ پورے کرۂ زمین کو بھی اپنا وطن کہہ سکتا ہے۔ وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں زمین کا باشندہ ہوں اور تمام انسان میرے ہم وطن ہیں۔
لسانی امتیازات: یعنی زبان کا مشترک ہونا یا ایک ہی زبان بولنے والوں کا اشتراک عمل۔زبان کے اشتراک سے باہمی تفاہم اور تبادلہ خیال میں آسانی تو ہوتی ہے لیکن محض زبان کے اشتراک کو وسیلۂ اتحاد نہیں بنایا جا سکتا۔ کیوں کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک زبان بولنے والے اپنے خیالات و افکار میں بھی متحد ہوں۔ایک ہی زبان میں مختلف خیالات ہو سکتے ہیں۔دوسری طرف ایک خیال مختلف زبانوں میں ادا ہو سکتا ہے اور زبان کے اختلاف کے باوجود یہ ہم خیال لوگ باہم متحد رہ سکتے ہیں۔اس لیے وحدت زبان سے زیادہ مضبوط بنائے اتحاد وحدت خیال ہو سکتی ہے۔
امتیاز رنگ: رنگ کی بنیاد پر برتا جانے والا امتیاز سب سے زیادہ مہمل اور لغو ہے۔ رنگ تو محض جسم کی ایک صفت ہے۔ انسان کو انسان ہونے کا شرف رنگ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ روح اور اس کے نفس ناطقہ کی بنا پر ہے۔ یعنی یہ کہ وہ بولتا اور سمجھتا ہے ۔ اور روح کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔اس لیے اس بنیاد پر انسانوں کے درمیان امتیاز برتنا انسانی عقل کی بے راہ روی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
معاشی قومیت: معاشی اغراض کی بنیادکو وجہ اشتراک بنانے کو مولانا مودودی نے انسانی خود غرضی کے ناجائز بچے سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی یہ غرض قدرت کی پیدا کردہ نہیں ہے، بلکہ انسانی خود غرضی کے بطن سے اس کا جنم ہوا ہے۔معاشی اغراض کی بنیاد پر جنم لینے والی قومیت صرف اپنے لیے رزق کے دروازے ہی کھولنا نہیں چاہتی بلکہ یہ بھی چاہتی ہے کہ یہ دروازے دوسری قوموں کے لیے بند ہو جائیں۔ اور جب اس بنیاد پربہت ساری قومیں وجو د میں آجاتی ہیں تو انسان کا عرصہ حیات تنگ ہو جاتا ہے ۔ کیوں کہ دوسروں کے لیے رزق کے دروازے بند کرنے کی فکر میں وہ اپنے رزق کی کنجیاں بھی گم کر دیتا ہے۔
اسلام کا وسیع نظریہ
اوپر جن عناصر قومیت کا ذکر کیا گیا، یہ سب مادی تفریقیں ہیں۔ علم و عرفان کی روشنی کے آگے یہ مادی پردے غائب ہو جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام نے انسانوں کے درمیان کسی مادی اور حسی فرق کوبنیادی عنصر تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس کی نظر میں تمام انسان ایک ہی اصل (من نفسٍ واحدۃ ۔ النساء)(ایک جان سے پیدا کیے ہوئے) ہیں۔ان کا جائے پیدائش و وفات کا اختلاف بھی کوئی معنی نہیں رکھتا کہ وہ سب اسی ایک کرۂ زمین کا حصہ ہیں۔نسل اور خاندان کی حقیقت بھی بتا دی کہ ’’گروہ اور قبائل کی تقسیم تو اس لیے ہے تاکہ تم آپس میں پہچانے جائو۔‘‘ نہ کہ اس لیے کہ ایک دوسرے سے بغض و اختلاف کرو اور ایک دوسرے پر فخر جتائو۔ اس سے آگے بڑھکر گروہوں میں متفرق ہونے کو عذاب قرار دیا گیا ہے: ’’یا تم کو گروہ در گروہ بنائے اور تمھیں ایک دوسرے کی قوت کا مزہ چکھائے۔‘‘ (الانعام)
اسلام کی تعلیم یہ بھی ہے کہ یہ زمین اللہ کی ہے اور پوری زمین انسان کے لیے کھلی ہوئی ہے۔’’کیا اللہ کی زمین وسیع اور کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے؟‘‘
اسلامی قومیت کی بنیاد
قومیت کی جو بنیادیں اب تک رائج تھیں ان سب کی نفی کر کے اسلام نے خالص عقلی بنیادوں پر ایک نئی قومیت کی تعمیر کی ہے۔ جس کی بنیاد نہ تو نسل، وطن اور رنگ کا امتیاز ہے اور نہ ہی کوئی دوسری مادی غرض ہے۔ بلکہ اس کی بنیاد انسان کے روحانی اور جوہری امتیاز پر ہے۔اللہ نے اس قومیت کی بنیا د ایک فطری صداقت پر رکھی ہے، جس کا نام اسلام ہے۔جو اسے قبول کر لے وہ ایک قوم ہے اور جو قبول نہ کرے وہ دوسری قوم ہے۔ اور اس قوم کے تمام لوگ خواہ وہ کسی رنگ، نسل ونسب، یا وطن سے تعلق رکھتے ہوںسب ایک امت ہیں، جسے امت وسط کہا گیا ہے۔ اس قومیت کی راہ میں معاشی اور سیاسی نظا م کا اختلاف بھی آڑے نہیں آتا کیوں کہ اس کے نزدیک انسانی سلطنت کا جھگڑا ہے ہی نہیں ۔ اس کے نزدیک تو سلطنت کا اصل مالک اللہ ہے اور دولت کی غرض بھی اس کے لیے جھگڑے کا باعث نہیں کیوں کہ اس کے لیے اصل اور اہمیت کی حامل دولت زر نہیں بلکہ دولت ایمان ہے۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2017