امت مسلمہ کو اپنی تاریخ میں تین بڑے چیلنج درپیش رہے ہیں۔پہلا چیلنج یونانی فکر کاتھا جس نے یونانی فلسفے کو مسلم فکر اور مزاج کا حصہ بنا کر مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے لیے بقا وسلامتی کا مسئلہ پیدا کردیا تھا۔ یونانی فلسفہ ایک سطح پر اعلان کررہا تھا کہ عقل وحی پر فوقیت رکھتی ہے۔ فلسفہ دوسری سطح پر واشگاف الفاظ میں دعویٰ کررہا تھا کہ یہ کائنات یا یہ عالم قدیم ہے۔ یہ صریح کفر تھا۔ اس لیے کہ قدیم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہ صریح گمراہی تھی اور اندیشہ یہ تھا کہ اگر یونانی فلسفہ سکہ رائج الوقت بن گیا تو حق و باطل کا فیصلہ کرنے والی قوت وحی نہیں انسانی عقل ہوگی۔ امام غزالیؒ کو اس فتنے کی سنگینی کا شعور تھا۔ چنانچہ وہ اس گمراہی کے سامنے کھڑے ہوئے اور انھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے یونانی فکر کے زور کو توڑ کر قیامت تک آنے والے ہر مسلمان کو گمراہی میں مبتلا ہونے سے بچالیا۔ غزالیؒ کایہ کارنامہ عظیم الشان ہے اور وہ پوری امت کے محسن ہیں۔ لیکن غزالیؒ کے عہد کا چیلنج صرف فکری تھا۔
مسلمانوں کی تاریخ کا دوسرا بڑا چیلنج یہ تھا کہ تاتاریوں نے مسلمانوں کے سیاسی مرکز بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ایک جانب مسلمانوں کو سیاسی مرکز سے محروم کردیا اور دوسری طرف عالم اسلام کے ایک بڑے حصے کو اپنا غلام بنالیا۔ اس کے نتیجے میں عالم اسلام فکری اور عملی انتشار کا شکار ہوا۔ مسلمان خود اعتمادی سے محروم ہوگئے۔ ان کااجتماعی تشخص بری طرح مجروح ہوا۔ لیکن تاتاریوں کاچیلنج صرف عملی چیلنج تھا۔ تاتاری کوئی فکری یا تہذیبی قوت نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بغداد پر قبضہ کرنے والے تاتاریوں کی دوسری نسل خود اسلام سے متاثر ہوگئی اس طرح اسلام نے فاتحین کو فتح کرلیا اور مسلمانوں کو نو مسلم تاتاریوں کی صورت میں نیا خون فراہم ہوگیا۔ اس صورتِ حال کو اقبالؒ نے بڑے دلکش انداز میں بیان کیا ہے:
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
مسلمانوں کی تاریخ کا تیسرا چیلنج عالم اسلام پر مغربی اقدار اور اقتدار کے غلبے کا نو آبادیاتی دَور تھا۔ ابتدا میں یہ چیلنج صرف ’’عملی‘‘ تھا۔ اس لیے کہ مغربی دنیا کی فتح ابتدائ میں صرف عسکری فتح تھی۔ لیکن اس فتح کے کچھ ہی عرصے بعد مغربی اقوام کے غلبے نے مسلمانوں کے لیے فکری اور تہذیبی چیلنج کی شکل اختیار کرلی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مغربی اقوام صرف عسکری قوت نہیں تھیں بلکہ وہ ایک تہذیبی قوت بھی تھیں۔ چنانچہ انھوں نے مسلمانوں کے علوم کے مقابلے پر اپنے علوم اور مسلمانوں کے فنون کے مقابلے پر اپنے فنون لاکر کھڑے کردیے۔ انھوں نے اپنی تہذیب کو اسلامی تہذیب کا ’’متبادل‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغربی طاقتوں کا چیلنج یونانی فکر اور تاتاریوں کے مجموعی چیلنج سے بڑا تھا۔ غزالیؒ کے زمانے کا فکری چیلنج صرف عالموں، مفکروں اور دانش وروں کو متاثر کررہا تھا اور عوام اس کے اثر سے محدود وقت کے لیے ہی سہی، محفوظ تھے۔ مگر مغربی فکر نے ایک جانب بالائی طبقات کو متاثر کیا تو دوسری جانب عوام بالخصوص متوسط طبقے کو متاثر کیا۔ اس صورتِ حال نے مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کو شخصیت کی دو نیمی کے عذاب یا Split-Personality Phenomenonمیں مبتلا کردیا۔ مسلمانوں کی شخصیتیں دو ٹکڑوں میں بٹ گئیں۔ ایک حصہ عقائد، عبادات اور اخلاقیات پر مشتمل تھا، دوسرا حصہ تہذیبی، سیاسی اور معاشی زندگی سے عبارت تھا۔ مسلمانوں کی شخصیت کا اوّل الذکر حصہ مذہب کے زیر اثر اور موخر الذکر حصہ مغربی فکر کے زیر اثر تھا۔ اس طرح کروڑوں مسلمان شخصیت کی اس اجتماعی اکائی سے محروم ہوگئے جو اسلام کے زیر اثر پیدا ہوئی تھی۔یہ تھا وہ منظر نامہ جس میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مغرب کے ہمہ گیر چیلنج کاہمہ گیر جواب بن کر اُبھرے۔
اس وقت بڑے بڑے علما موجود تھے مگر مولانا کو کئی پہلوؤں سے فوقیت حاصل ہے۔ اس زمانے کے اکثر علما کی مشکل یہ تھی کہ انھیں دین کے معنی مخصوص الفاظ اور مخصوص اصطلاحوں میں یاد یا مستحضر تھے اور وہ انھی الفاظ اور اصطلاحوں میں ان معنوں کو بیان کرسکتے تھے۔ الفاظ اور اصطلاحوں کے ایک مخصوص نظام کے باہر ان کی تفہیم اور ان کے بیان کی رسائی نہ تھی۔ مولانا مودودیؒ کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے دین کے معنی کو روایتی الفاظ اور اصطلاحوں کے نظام کے دائرے کے باہر دریافت کیا، سمجھا اور بیان کیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا کو دین کے معانی کس قدرمستحضر تھے اور وہ ان معانی کو بدلے بغیر مختلف الفاظ اور اصطلاحوں میں اُنھیں بیان کرنے کی کیسی قدرت رکھتے تھے۔
اکثر علمائ کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ ان کی تفہیم دین کسی نہ کسی مسلک، فکریا طبقے سے متعلق تھی۔ اس میں مقامی رنگ غالب تھا۔ مولانا کاکمال یہ ہے کہ انھوں نے دین کے معنیٰ کو مسلک، مکتب فکر یا کسی طبقے کے بجائے ’’عصر‘‘ کی سطح پر سمجھا اور بیان کیا، اور مذہبی بیان یا Religious Discourseمیں ایک آفاقیت اور عالمگیریت پیدا کی۔ یہ بیان جغرافیہ، نسل، مزاج اور زبانوں کی حد بندیوں کو عبور کرنے کی ایسی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے کہ عصری تاریخ میں اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ مولانا کی کتابیں ۷۵ سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوئیں۔ ترجمہ لفظ اور معنی کی گہرائی اور جلال وجمال کو بہت حد تک متاثر کرتا ہے، لیکن مولانا کے مذہبی بیان میں ایک ایسی ندرت ہے جو ترجمے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ باقی رہتی ہے بلکہ موثر بھی رہتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کا یہ فکری کارنامہ پوری امتِ مسلمہ کے فکری و عملی اِعتماد کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔
دوسرے علما کے مقابلے میں مولانا مودودیؒ کا ایک امتیاز یہ ہے کہ ان کے یہاں ’’حق‘‘ کی تفہیم تو تھی مگر عصر حاضر پر غلبہ رکھنے والے باطل کی تفہیم نہیں تھی۔ مولانا نے اُمت مسلمہ میں حق کا شعور بھی پیدا کیا اور حق کی روشنی میں عصر حاضر پر غلبہ رکھنے والے باطل کا شعور بھی پیدا کیا۔ انھوں نے مغربی فکر پر بھی تنقید کی اور سوشلزم پر تنقید کا حق بھی ادا کیا۔ اس طرح مولانا کے علم کلام میں ایک ایسی ’’جامعیت‘‘ پیدا ہوگئی جس کی نظیر دوسرے علمائ میں موجود نہیں تھی۔ غلامی کے ہولناک اثرات کا ایک مظہر یہ تھا کہ عوام اور علما دونوں نے دین اور دنیا کی دوئی کے تصور کو قبول کرلیا تھا۔ دین صرف عقائد وعبادات اور اخلاقیات تک محدود ہے، اور ریاست وسیاست اور معیشت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ مولانا مودودیؒ نے دوئی کے اس تصور کو چیلنج کیا اور اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پرپیش کیا۔ انھوں نے توحید ورسالت کی جو تشریحات کیں ان کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی صرف روزہ، نماز ہی میں نہیں بلکہ رسالت وسیاست میں بھی ظاہر ہونی چاہیے اور معیشت اور علوم وفنون میں بھی اس کا جلوہ نظر آنا چاہیے۔
مسلمانوں میں غلامی نے ایک شکست خوردہ نفسیاتی کیفیت پیدا کردی تھی۔ وہ اس امر کو محال سمجھتے تھے کہ اسلام کو امت مسلمہ کی اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں غلبہ حاصل ہوسکتا ہے۔ انھیں محسوس ہوتا تھا کہ اسلام مغلوب ہوگیا ہے اور یہ صورت حال معاذ اللہ دائمی ہے۔ اس فضا میں مولانا نے اسلام کے غلبے کا تصور پوری قوت کے ساتھ پیش کیا۔ انھوں نے مسلمانوں کو یقین دلایا کہ سرمایہ داری اور کمیونزم انسانوں کے خود ساختہ نظام ہیں اور یہ اپنے تضادات کا شکار ہوکر فنا ہوجائیں گے۔ چنانچہ مستقبل صرف اسلام کا ہے۔ مولانا سے پہلے یہ بات اقبال کہہ چکے تھے مولانا نے اِس دعویٰ کے دلائل بھی فراہم کیے۔ انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم پر تنقید کے ذریعہ ان کا غلط ہونا ثابت کیا۔ مولانا کی اِس جاندار تنقید سے کروڑوں مسلمانوں کا اسلام پر اعتماد بحال ہوا اور باطل نظاموں میں کوئی کشش باقی نہ رہی۔
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ بہت سے علمائ نے مولانا موددودیؒ کی فکر اور شخصیت کے سلسلے میں جو منفی طرز عمل اختیار کیا اس کی کیا وجہ ہے؟ مذکورہ حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی تین بنیادی وجوہ تھیں: ﴿۱﴾ مولانا کا علم کلام روایتی الفاظ اور روایتی اصطلاحوں میں محدود نہ تھا۔ چنانچہ علمائ کی ایک تعداد مولانا کی بات کو پوری طرح سمجھ نہ سکی ﴿۲﴾ مولانا کا علمی ذوق جدید وقدیم پہ محیط تھا اور اکثر علما کے ذوق میں یہ وسعت نہیں تھی۔ ذوق کی محدودیت نے انھیں مولانا کے سلسلے میں ترددّ پر مائل کیا ﴿۳﴾ مولانا کے کام میں اللہ تعالیٰ نے بے پناہ برکت دی اور مولانا کی تحریک بہت تیزی کے ساتھ عام ہوئی۔ اس صورت حال نے بہت سے علما کو ہم عصری کے جذبے میں مبتلا کیا۔
مولانا نے مغرب سے حاصل ہونے والی معلومات اور علم کے بڑے ذخیرے کو خود مغرب کی تردید کے لیے بڑے پیمانے پر نہایت کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔ مولانا کی معرکہ آرائ تصانیف ’’پردہ‘‘ ، ’’اسلام اور ضبطِ ولادت‘‘ اور ’’مسئلہ قومیت‘‘ وغیرہ اس کی اچھی مثالیں ہیں۔ ماضی میں اِس نوعیت کا کام امام غزالی نے کیا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ مولانا کے بعد ان کا یہ علمی کارنامہ ایک مقبول ’’علمی طرز‘‘ اور ایک معروف علمی اسلوب بن گیا۔
مولانا مودودیؒ کے اسلوب کے چار پہلو ہیں:
﴿۱﴾ وجدان ﴿۲﴾ تفہیم ﴿۳﴾جذبہ ﴿۴﴾دلیل
مولانا مودودیؒ کا علم کلام اور اس کا اسلوب اِن چار چیزوں کامجموعہ ہے۔ اس اسلوب کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ یہ محض اکتسابی یاکتابی نہیں بلکہ وجدانی ہے۔ وجدان کی موجودگی کا مظہر یہ ہے کہ انسان کم معلومات یا کم علم سے زیادہ اخذ کرتا ہے اور زیادہ بڑے نتائج برآمد کرتا ہے۔مولانا کے یہاں علم کم ظاہر ہوتا ہے لیکن اس کی تشریح اور تعبیر میں وسعت اور گہرائی بہت ہوتی ہے۔ دنیا میں کم لکھنے والے ایسے ہوتے ہیں جو محض علم کی ترسیل کے بجائے تفہیم پر قادر ہوتے ہیں۔ مولانا ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ علم مرعوب کرتا ہے لیکن تفہیم متاثر کرتی ہے۔
مولانا مودودیؒ کے علم کلام اور ان کے اسلوب میں طلوع صبح کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ یہ چیز صداقت کے ساتھ ساتھ جذبہ صادق سے پیداہوتی ہے۔ مولانا کے بارے میں یہ بات بالکل درست ہے کہ ان کے یہاں جذباتیت نہیں پائی جاتی اور نہ وہ اپنے قاری میں جذباتیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جذبے کی چاشنی کے بغیر مولانا نے ایک لفظ بھی تحریر نہیںکیا۔ جذبہ یقین محکم کا عکاس ہوتا ہے۔ جب کہ جذباتیت جزوی تاثر کامظہر ہوتی ہے۔ جذبہ تفہیم میں مدد گار ہوتا ہے اور جذباتیت عموماً تفہیم کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کے علم کلام اور ان کے اسلوب کی ایک بڑی خصوصیت اُن کااستدلال ہے۔ استدلال کا مفہوم یہ ہے کہ قوی دلیل کے ذریعہ کسی بات کو ذہن کے لیے قابل اطمینان بنادیا جائے۔ وجدان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ وجدان ذہن کو بھی متاثر کرتا ہے، لیکن اصلاً اس کا تعلق انسانی قلب سے ہوتا ہے۔ مولانا کا اسلوب ذہن اور وجدانِ دونوں کی تسکین کا سامان اپنے اندر رکھتا ہے اور عصر حاضر میں یہ ایک کم یاب خوبی ہے۔ اردو کے مشہور ناقدودانش ور سلیم احمد کی یہ رائے آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ مولانا مودودیؒ کو پڑھتے ہوئے ہمارے اندر مولانا مودودیؒ کی حمایت کے بجائے اسلام کی حمایت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ صورت حال مولانا مودودیؒ کے ’’اخلاص‘‘ کی شہادت اور اس کا ثبوت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا نے اسلام کی بالادستی اور غلبے کی جدوجہد اپنی شخصیت سے بے نیاز ہوکر صرف اللہ کے لیے کی ہے ۔ یہ بات مولانا مودودیؒ کو اپنے بڑے بڑے معاصرین سے ممتاز کرتی ہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2012