مولانا سلطان احمد اصلاحیؒ بحیثیت مترجم

(2)

علامہ قرضاوی كے افكار:

ایک داعی کے لئے قرآن مجید کے بنیادی علوم سے واقفیت ناگزیر ہے ، اس سلسلے میں ایک اہم اقتباس علامہ یوسف القرضاوی کا ملاحظہ ہو :

القرآن الکریم ہو المصدر الاول للاسلام و بالتالی للثقافۃ الاسلامیۃکل تعالیم الاسلام یجب أن ترجع فی أصولہا الیٰ القرآن: العقائد والمفاہیم والقیم و الموازین ، والعبادات والشعائ روالأخلاق  والأداب والقوانین والشرائع کل ہذہٖ قد و ضع القرآن أسَّسَہا، وأرسیٰ دعائمہا، وجاء ت السنۃ فبینّت و فصّلت، وأقامت علیہا بنیاناً شامخاً لاتبال منہ اللیالی والأیام۔ ‘‘

اس کا سلیس ترجمہ مولانا کے الفاظ میں درج ذیل ہے:

’’قرآن کریم اسلام کا مرجع اول ہے ، جس کا مطلب ہے کہ اسلامی ثقافت کی نسبت سے بھی اسے مرجع اول ہونے کا مقام حاصل ہے ۔ اسلام کی تمام تعلیمات خواہ ان کا تعلق عقائد و تصورات سے ہو ، یا اقدار اور زاویہ ہائے نظر سے ، دینی شعائر اور عبادت کا معاملہ ہو، یا اخلاق اور آداب کا یا معاملہ شرائع اور قوانین کا ہو، ان تمام دائروں میں جہاں تک ان کے اصول اور اساسیات کا سوال ہے ، ناگزیر ہے ان کو قرآن کی طرف پلٹایا جائے ۔ قرآن نے ان تمام دائروں سے متعلق بنیادیں قائم کردی ہیں ، اور ان کے ستونوں کو خوب مضبوط استوار کردیا ہے ۔ اس کے بعد نبی  ﷺ کی سنت موجود ہے جس نے اس کے ایک ایک گوشے کی وضاحت کردی اور کوئی چیز تشنہ نہیں چھوڑی ہے ۔ اس کے نتیجے میں اسلام ہمارے سامنے ایک ایسی بلند و بالا عمارت کی صورت میں آتا ہے جس کا گردش دوراں کا بڑے سے بڑا طوفان کچھ بگاڑنے سے قاصر ہے ‘‘۔(۹)

آگے علامہ قرضاوی ؒ  داعیوں کے لئے  ’’تنبیہات للداعیۃ فی المجال القرآنی‘‘ کا عنوان قائم کرکے رقم طراز ہیں ۔

وأودّ أن أنبہ الداعیۃ الذّی یرید أن یعیش مع القرآن لیأخذ منہ زاداً لقلبہ و یقبس منہ نوراً لعَقلہٖ ویستمد منہ ریّاً لروحہ، ثم یمدّ الآخرین بعد ذلک من فیض ہذا الریّ وذات النور، وذالک الزاد۔ الی عدَۃ أمور :

اس عبارت کامعنی خیز ترجمہ مولانا کے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے :

’’ اس مقام پر میں داعی كو تنبیه كرتا هوں جو قرآن کی معیت میں زندہ رہنا چاہتا ہے ، اس لیے کہ اپنے قلب کے لئے غذا فراہم کرے، اپنی عقل کے لئے روشنی حاصل کرے ، اپنی روح كی بالیدگی کا سامان کرے اور پھر دوسروں کو بھی اس غذا ، روشنی اور بالیدگی سے فیض یاب کرے، ایسے داعی کی توجہ میں چند امور کی طرف مبذول کرانی چاہتا ہوں ‘‘۔(۱۰)

احتیاط:

ایسے ہی داعیوں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اقوال ضعیفۃ وفاسد آراء سے اجتناب کریں ۔ مولانا اصلاحی ؒ  ’’ضعیف اور موضوع روایات سے اجتناب ‘‘عنوان قائم کرکے مندرجہ ذیل اقتباس کا سلیس ترجمہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

’’ ومما ینبغی أن یحذر منہ قاریٔ التفسیر: الأقوال الضعیفۃ بل الفاسدۃ فی بعض الأحیان وہی أقوال صحیحۃ النسبۃ الیٰ قائلیہا من جہۃ الروایۃ ۔

کمزور اور فاسد آراء و اقوال سے پرہیز :

’’اسی طرح تفسیر کا مطالعہ کرنے والے کے لئے کمزور اقوال و آراء سے بھی اجتناب کرنا ضروری ہے ، جس کے سبب اکثر و بیشتر بڑی گڑبڑ پیدا ہوتی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ روایت کے اعتبار سے ان اقوال کی صحت میں کچھ زیادہ کلام نہ ہو اور جن لوگوں کی طرف ان کا انتساب ہے وہ بڑی حد تک درست ہو لیکن درایت کے پہلو سے یہ کمزور اور بے بنیاد ہوتے ہیں جنہیں کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (۱۱)

ایسے ہی ایک داعی حق کے لئے سنت نبوی  ﷺ کا مطالعہ کتنا ضروری ہے اس کے لئے علامہ قرضاوی کی درج عبارت کی ترجمانی ایک ذیلی سرخی کے تحت مولانا یوں کرتے ہیں ۔

اول ہذہٖ الشبہات أن یوجہوا عنایۃ خاصۃ للجزء العلی من السنّۃ۔ وہو الذی یتعلق بسیرۃ النبی ﷺ، ویسجّل موافقۃ من شتّی الأمور، وہدیہ فی کافۃ شئون الدین و الدنیا ۔

سنت پر عمل کا اہتمام’’ اس سلسلے میں سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ سنت کے عملی پہلو کی طرف خاص طور پر توجہ صرف کی جائے سنت کا یہ وہ حصہ ہے جو آپؐ کی سیرت اور عملی زندگی سے متعلق ہے ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے سامنے پیش آنے والے مختلف معاملات و مسائل میں آپؐ نے کیا موقف اختیار کئے۔ نیز یہ کہ دین و دنیا سے تعلق رکھتے والے جملہ امور میں آپؐ کا کیا نقطۂ نظر رہا ۔‘‘(۱۲)

فقہ كی اہمیت:

’’ولا بُدّ للداعیۃ من قدر مناسب من الثقافۃ الفقہیۃ، بحیث یعرف أہم الاحکام الشرعیۃ فی العبادات والمعاملات و الآداب، و عالم یعرفہ أو یستحضرہ یکون قادراً علیً مراجعۃ حکمۃ فی مصادرہٖ مظانّہ الموثقۃ۔‘‘

ایک داعی کو قرآن و سنت کے مطالعہ کے ساتھ فقہ سے ایک گونہ مناسبت ہونی چاہئے۔ علامہ قرضاوی کی مذکورہ عبارت کی ترجمانی مولاناکے الفاظ میں ملاحظہ ہو ۔

’’ داعی كے لیے کسی حد تک فقہی ثقافت سے بھی واقفیت بہم پہنچانی ضروری ہے ۔ عبادات و معاملات اسی طرح زندگی کے عام امور و آداب کے سلسلے میں اسے شریعت کے اهم   مسائل سے بہرحال واقف ہونا چاہئے اور جن کی واقفیت نہ ہو یا وہ مستحضر نہ ہوں تو اس کے اندر اس کی صلاحیت ہونی چاہئے کہ ان کے مراجع اور امکانی مآخذکی طرف رجوع کرکے متعلقہ احکام کو معلوم کرسکے ۔ ‘‘ (۱۳)

مندرجہ ذیل اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ ہو جو سلیس اور بامعنی ہےذیلی سرخی یہ ہے ۔

الثقافۃ الادبیۃ واللغویۃ

’’ واذا کانت الثقافۃ الدینیّۃ لازمۃ للداعیۃ فی الدرجۃ الاولیٰ ، فان الثقافۃ الادبیۃ واللغویۃ لازمۃ کذلک تلزمہ لزوم الوسائل والأ دوات۔

’’ وقول الآخر :-

أخاک أخاک، انّ من لا أخاً لہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کساع الیٰ الہیجاء بغیر سلاح۔

وان ابن عم المرء فاعلم جناحہ ۔۔۔۔۔۔۔۔وہل ینہض البازی بغیر جناحٍ ؟ ‘‘

’’ اسی طرح اس کے لئے یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ زبان و ادب پر اس کی اچھی نگاہ ہو اور اس کی باریکی اور نزاکتوں کا وہ لذت آشنا ہو۔ اگر اول الذکر چیز داعی کے لئے مقصود و مطلوب کا درجہ رکھتی ہے تو دوسری اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ اس طور پر کہ اس کے بغیر مقصود و مطلوب کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘ (۱۴)

اس کے بعد مولانا نے مندرجہ بالا رباعی کا بامحاورہ ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے ۔

خبردار اپنے بھائی سے چمٹے رہو، اسے کبھی نہ چھوڑو ، اس لئے کہ جس کے بھائی نہیں وہ اس شخص کے مانند ہے جو میدان کارزار میں بغیر ہتھیار کے آجائے۔

(اسی طرح) چچازاد بھائی کو بھی نہیں چھوڑنا چاہئے ، اس لئے کہ وہ کسی انسان کا دست و بازو ہے ، بھلا جس شکرے کے پر ہی نہ ہو ںاس کے اڑنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے ؟ (۱۵)

ایک جگہ مولانا اصلاحی نے ان دعائیہ کلمات کی شان دار ترجمانی کی ہے ۔

’’ اللہم اشغل الظالمین بالظالمین واخرجنا من بینہم سالمین ‘‘

خدا یا ظالموں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ الجھائے رکھ اور ہم پر ان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی کوئی آنچ نہ آنے دے‘‘-

 خاتمہ كتاب:

کتاب کے خاتمے پر اس مؤثرپیراگراف کی کیا خوب ترجمانی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔

’’ بل یستطیع الداعیۃ أن یتلقیٰ معلوماتہ عن الواقع من مصادرہ الحیّۃ المباشرۃ  ، بلقاء الناس ۔۔۔۔۔۔ فی الحصز والسفر، فان السفر نصف العلم، ولہذا کان علماؤالأولون اکثر الناس ترحالا فی طلب العلم من أہلہٖ فی مواطنہم وقد قال الشاعر العربی

یا ابن الکرام لا تد نو فتبصرما     :           قد حدّ ثوک ، فمارائٍ کمن سمعا

(وأخردعوانا أن الحمد للہ )

’’۔۔۔۔۔۔۔۔(داعی كے لیے ضروری ہے اپنے بڑوں سے ملاقات ، ان کی صحبت ، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ان کی باتیں سننا اور ان کی معیت میں زیادہ وقت گزارنے کی کوشش کرنا ۔ اس مقصد کے لئے اگر سفر کی مشقت بھی برداشت کرنی پڑے تو اسے بھی خندہ پیشانی کے ساتھ گوارا کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ معلومات میں جو گہرائی اور مزاج میں جو پختگی ان حضرات کے ساتھ رہنے اور ان كی صحبت کا فیض اٹھانے سے پیدا ہوتی ہے کسی دوسری صورت سے اس کا حصول ممکن نہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے جو گذشتہ ادوار میں ہمارے علمائے امت کے ہاں اس چیز کا کثرت سے چلن تھا ۔ اپنی علمی پیاس بجھانے کی خاطر وہ دور دراز مقامات کا سفر کرتے اور اس کی مشقتوں کو خوش خوش انگیز کرتے تھے ‘‘۔ (۱۶)

اس کے بعد آخرمیں جس شعر پر علامہ قرضاوی نے کتاب ختم کی ۔ اس کا ترجمہ نہیں دیا گیا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ مولانا کے سامنے کوئی اور ایڈیشن رہا ہو اس میں یہ عربی کا شعر نہ رہا ہو، بعد میں علامہ القرضاوی نے دوسرے ایڈیشن میں نظر ثانی کرتے ہوئے موقع کی مناسبت سے مندرجہ ذیل شعر کا اضافہ کردیا ۔

یا ابن الکرام لا تدنو فتبصر ما   :        قد حدّ ثوک ، فمارائٍ کمن سمعا

اس شعر کا یہ ٹکڑا’’ فما رائٍ کمن سمعا ‘‘ فارسی مصرعہ کی ترجمانی معلوم ہوتاہے ۔    ع

شنیدہ کے بود مانند دیدہ

قرآن اور سائنس

مولانا سلطان احمد اصلاحیؒ نے قرآن اور سائنس کے عنوان سے ایک کتابچہ( ۶۸ صفحات)۔ (پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی  کے ساتھ )افادات سید قطب شہید ؒ کی روشنی میں تیار کیا ہے۔ بقول پروفیسر صدیقی ’’ میری تحریک پر سلطان احمد اصلاحی صاحب نے ان تینوں اقتباسات کا بھی ترجمہ کردیا ہے جو مجموعی طور پر تفسیر کے بیس صفحات پر مشتمل ہے ۔ ‘‘ (۱۷)

اوپر تفسیر سے مراد فی ظلال القرآن ہے ۔ اس کے دو اقتباس بطور نمونہ ملاحظہ ہوں ’’فأ ما شطرالآیۃ الثانی: ’’وجعلنا من الماء کل شیئٍ حیّ ‘‘   فیقرر کذلک حقیقۃخطیرۃ یعدّ العلماء کشفہا و تقریرہا أمرا عظیماً ویمجدّون (دارون) لاہتدائۃ الیہا ! وتقریرہ أنّ الماء ہو مہدالحیاۃ الأول۔ ‘‘

مندرجہ بالا عبارت کا سلیس ترجمہ مولانا اصلاحی کے الفاظ میں یہ ہے  :

’’ آیت کا دوسرا ٹکڑا وَجَعَلْنَامِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیئٍ حَیٍّ   بھی ایک اہم حقیقت بیان کرتا ہے ۔ سائنس داں اس حقیقت کی دریافت اور اثبات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں ۔ اس دریافت کا سہرا ڈاروِن کے سر باندھتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ زندگی سب سے پہلے پانی کی آغوش میں پروان چڑھی ‘‘۔(۱۸)

’’وہی حقیقۃ تیثر الانتباہ حقاً ۔ وان کان ورودہا فی القرآن الکریم لایثیر العجب فی نفوسنا ، ولا یزید نایقیناً بصدق القرآن فنحن نستمدّ الاعتقاد بصدق المطلق فی کل ما یقررہ من ایماننا بأنّہ من عنداللہ۔ لامن موافقۃ النظریات أو الکشوف العلمیّۃ لہ اقصی ما یقال ہنالک لک : ان نظریۃ النشوء والارتقاء لدارون وجماعتہ لاتعارض مفہوم النص القرآنی فی ہذہٖ النقطۃ بالذات۔

(الانبیاء فی ظلال القرآن۔ ص ۲۵)

الطبعۃ الرابعۃ ۱۹۶۸، دارالعربیۃ، بیروت

اس عبارت کی ترجمانی مولانا ان الفاظ میں کرتے ہیں :

’’ بلا شبہہ اس حقیقت کا ادراک چونکا دینے والا ہے ، مگر یہ بات کہ یہ قرآن کریم میں مذکور ہے نہ ہمارے لئے باعث تعجب ہے نہ قرآن کی صداقت کے بارے میں ہمارے یقین کے اندر کوئی اضافہ کرتی ہے ۔ کیوں کہ قرآن کے تمام بیانات کی کامل صداقت پر ہمارا اعتقاد ہمارے اس ایمان سے ابھرتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ سائنٹفک(Scientific)اکتشافات پر نظریات سے ان بیانات کی مطابقت، اس اعتقاد کا منبع نہیں ہے ۔ یہاں ہم زیادہ سے زیادہ جو بات کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ڈارون اور اس کے رفقاء کا نظریہ نشو و ارتقا ،اس مخصوص نکتہ کی حد تک نص قرآنی کے مفہوم سے نہیں ٹکراتا‘‘۔ (۱۹)

مولانا سلطان اصلاحی ؒ کے علمی ورثے میں ایک اہم کتاب ’’ا لمجتمع الانسانی فی ظلّ الاسلام للشیخ ابی زہرۃ ‘‘ کا ترجمہ بھی شامل ہے ۔ یہ کتاب کل ۲۸۷ صفحات پر مشتمل ہے ۔ ۱۹۸۱ء  میں اس کا دوسرا محقق ایڈیشن ’’ الدارالسعودیۃ لنشر والتوزیع‘‘ سے شائع ہوا ہے ۔

مولانا نے اس کا ترجمہ ’’ انسانی معاشرہ اسلام کے سائے میں ‘‘ کے نام سے کیا ہے ۔ تلاش کے باوجودمجھےیه کتاب نہیں مل سکی۔ عنوان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ  اہم کتاب ہے ۔ عصر حاضر میں  انسانیت کو برباد کرنے کے لئے نئی نئی تدبیریں اور نت نئے ہتھیار ایجاد کئے جارہے ہیں ۔ ایسے میں کتاب کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے ۔ جو ادارہ اس کو شائع کر رہا تھا توقع ہے کہ اس کو جلد دوباره شائع کرنے کی طرف توجہ دے گا تاکہ اس سے آج بھی خاطرخواہ استفادہ کیا جاسکے ۔

خلاصۂ بحث

۱۔                                    مولانا سلطان احمد اصلاحی ایک اچھے مصنف هونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب مترجم بھی تھے ۔

۲۔                                 انہوں نے ’’ثقافۃ الداعیۃ لیوسف القرضاوی‘‘، ’’ فی ظلال القرآن ‘‘کے چندسائنسی اقتباسات اور ’’المجتمع الانسانی فی ظل الاسلام لالشیخ ابی زہرۃ ‘‘ وغیرہ جیسی اہم کتابوں کا ترجمہ بڑی سلیس زبان میں کیا ہے۔

۳۔                                 مولانا کو اردو کے علاوہ عربی زبان وادب پر عبور حاصل تھا اسی بنا پر ان کے ترجمہ میں ترجمے پن کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اصل کتاب تحریر فرمارہے ہیں اور یہ ایک کامیاب مترجم کی پہچان ہے ۔

۴۔                                 کسی بھی انسانی کاوش کومکمل نہیں کہا جاسکتا بلکہ اس میں کچھ نہ کچھ خامی رہ ہی جاتی ہے اسی بنا پر جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ بعض جگہ ترجمہ میں تسامح واقع ہوگیا ہے ۔

مراجع :

۹۔                                   ایضاً                               ص   ۲۰                                                                ۱۰۔                            ایضاً                               ص   ۴۰۔ ۴۱

۱۱۔                               ایضاً                               ص  ۹۹ ۔۱۰۰                                       ۱۲۔                            ایضاً                               ص  ۱۱۲

۱۳۔                            ایضاً                               ص  ۱۶۵                                                            ۱۴۔                            ایضاً                               ص  ۲۳۷

۱۵۔                            ایضاً                              ص  ۲۴۲                                                        ۱۶۔                             ایضاً                              ص  ۲۹۲

۱۷۔                           ایضاً                               ص ۳۰۰                                                        ۱۸۔                            پروفیسر نجات اللہ صدیقی ، مولانا سلطان

احمد اصلاحی ، قرآن اور سائنس ، مرکزی

مکتبہ اسلامی نئی دہلی ص ۵ ۔

۱۹۔                              ایضاً      ص ۱۶

مشمولہ: شمارہ جون 2019

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau