جسٹس راجندر سچر کمیٹی رپورٹ میں یہ تو عیاں کیاگیاکہ جیلوں میں مسلم قیدیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ لیکن ان قیدیوں کے حالات سے شاید ہی ہم کسی طرح کی واقفیت رکھتے ہوں گے۔ چار دیواری میں قید ان قیدیوں کی حالتِ زار دیکھنے والا کوئی نہیں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو خود ہی ان چار دیواری کے اندر موجود ہیں اور یہاں کے معاملات بڑی مُشکل سے باہر نکل پاتے ہیں۔ طبّی سہولیات کے نہ ملنے کی وجہ سے کتنے ہی قیدی موت سے ہم کنار ہوجاتے ہیں۔ ان قیدیوں کی موت پر کسی طرح کا واویلا یا کسی طرح کی بھی قانونی پکڑ نہیں ہوتی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیل میں جج صاحبان وہیومن رائٹس کے لوگوں کادورہ ہوتاہے مگر ان سے ہمیشہ حقائق کو چھپایاجاتاہے۔ خاص طور سے ایسے قیدیوں کو ہیومن رائٹس والوں سے دور رکھاجاتاہے جو کسی بھی موقع پر حقیقت کو ان کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی کبھی کبھار کوئی معاملہ اِس چار دیواری سے نکل کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ مگر صحیح قانونی مدد نہ ملنے کی وجہ سے وہ معاملہ دھیرے دھیرے ختم ہوجاتاہے۔ ظلم کرنے والوں کو جب قانون سے بھی راحت ملتی ہے تو ان کے حوصلے اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ روزنامہ اردو ٹائمز بمبئی کی ۱۱/جولائی ۲۰۱۱کی اشاعت کے مطابق ناسک جیل کا سامنے آیا ہے، جب آٹھ مسلم قیدیوں نے جیل سپرنٹنڈنٹ سواتی ساٹھے پر تعصب برتنے، جاءنمازجلانے اور نماز سے روکنے کا الزام عائد کیا۔
جون ۲۰۰۸ء میں بھی آرتھر روڈ جیل میں بم دھماکہ کیس کے مسلم قیدیوں کو بے دردی سے مارنے پیٹنے کا الزام سواتی ساٹھے پر ثابت ہوچکاہے اور ہائی کورٹ نے سواتی ساٹھے اور دیگر پولیس اہل کاروں پر کیس کرکے مناسب کارروائی کرنے کا بھی حکم دیا۔ مگر ریاستی حکومت نے سواتی ساٹھے پر کارروائی کرنے کی بجائے ہائی کورٹ کے حکم پر سپریم کورٹ سے اسٹے آرڈر حاصل کرلیا اور آج دوبارہ ناسک جیل میںسواتی ساٹھے نے مسلم قیدیوں کے ساتھ تعصب کا مظاہرہ کیا۔ (Criminal write petition no.1377 of 2008)
جیل میں قید دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں عیسائی مذہب کے ماننے والوں کی تعداد انتہائی قلیل ہے اور ان کو روزانہ مذہبی عبادت انجام دینے کی آزادی ہے۔ اس کے علاوہ ہر اتوار کو ان کے لیے باہر سے پادری کو بلایاجاتاہے اور ان کو یکجا ہوکر عبادت کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ہندو دھرم کے لیے باقاعدہ پوجا کی اجازت ہے۔ تمام ہندو برادران ایک جگہ جمع ہوکر اپنی عبادت کو انجام دیتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کے لیے اجتماعات کا انعقاد بھی کیاجاتاہے۔ مسلم قیدیوں کو پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی اور سال میں دو مرتبہ عیدین کی نماز کی ادائی کرنے دی جاتی ہے مگر ان کے لیے جمعے کی نماز کاکوئی اہتمام نہیں ہے اور نہ ہی کسی طرح کے اجتماع کی اجازت دی جاتی ہے۔ اگر کسی جماعت نے جیل کا دورہ بھی کیا تو ایسے مسلم قیدیوں کو دور رکھاجاتاہے جو حقائق کو ان کے سامنے پیش کرسکتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے تعصب کو بھی بیان کرسکتے ہیں۔ ۲۰۰۹ میں عید کی نماز کے موقع پر سابرمتی جیل میں مسلم قیدیوں کو مارا گیا اور ان قیدیوں کو گھر والوںسے ملنے بھی نہیں دیاگیا۔ مرحوم ایڈوکیٹ شاہد اعظمی اور جمعیتہ العلماء ہند کے چند نمائندوں نے جیل میں جاکر قیدیوں سے ملاقات کی تو حقائق اخبارات کے ذریعے ہمارے سامنے آئے کہ حقیقتاً ان قیدیوں کو زدو کوب کیاگیاہے۔
ہائی کورٹ کے کریمنل مینول میں درج ہے کہ انجمن اسلام ﴿ممبئی﴾ جیلوں میں قید مسلم قیدیوں کے درمیان دعوت و تبلیغ کا کام کرسکتی ہے لیکن جیل انتظامیہ ٹال مٹول کرکے دعوت و تبلیغ کے کاموں سے مسلم اکابرین کو دور ہی رکھتی ہے۔ روزہ افطار کے لیے بھی مسلم تنظیموں کو سیکورٹی کے نام پر روکاجاتاہے۔ جب کہ پنجاب، کلکتہ اور پچھلے سال اکولہ جیل میں روزہ افطار کے لیے مسلم تنظیموںکی جانب سے پھلوں کی تقسیم کی گئی تھی۔ جیل مینول کے مطابق ہر رمضان میں تیس دن قیدیوں کو ان کے خرچ سے پھل دیے جاتے ہیں مگر قیدی غریب ہونے اور پھلوں کی مہنگائی کی وجہ سے بذات خود افطار کاانتظام کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس کے لیے مسلم تنظیموں کو جیل میں موجود جیل انتظامیہ سے رابطہ قائم کرکے افطار کاانتظام کرناچاہیے، مگر مسلم تنظیمیں ان معاملات سے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتی ہیں یا پھر جان بوجھ کر ان معاملات کو نظرانداز کرتی ہیں۔
مہاراشٹر جیل مینول ۱۹۷۹ کے باب ۱۹ کے مطابق قیدیوں کے کام کاج ، تعلیم، آرام کے لیے ایسے اقدام کرنے ہوں گے کہ کسی بھی قیدی کی مذہبی عبادت میں خلل نہ ہو اور اس معاملے میں جیل آئی بی، سپرنٹنڈنٹ، جیلر، میڈیکل آفیسر وغیرہ قیدیوں کی مدد کریں گے اور باب نمبر ۲۳کے مطابق مذہبی سہولیات میں ہرممکن مدد کی جانی چاہیے۔ صفحہ ۴۳۸ پر ہے کہ ہر قیدی کو اس بات کاحق حاصل ہے کہ وہ اپنی مذہبی تعلیم کے لیے جیل میں کسی بھی ذرائع سے کتابیں، مذہبی لٹریچر وغیرہ لاکر رکھ سکتاہے لیکن جیل انتظامیہ بہت ساری کتابوں کو قیدیوں تک پہنچنے نہیں دیتی اور انہیں ضائع کردیا جاتا ہے۔ مسلم پرسنل لاء اور دستورِہند کی دفعہ ۲۵ اور ۲۶ کے مطابق کسی بھی مذہب کے پروگرام میں ہر شخص چاہے وہ قیدی ہو یا آزاد شریک ہوسکتا ہے اور اگر نہ ہونا چاہے تو اسے زور بردستی کے ذریعے مجبور نہیں کیا جا سکتا اور ساتھ ہی ساتھ تبدیلیٔ مذہب کی آزادی ہے ہر قیدی اپنی سوچ کے مطابق جس مذہب کو اختیار کرناچاہے کرسکتا ہے۔
اب اگر ہم غور کریں تو دستور ہند، مسلم پرسنل لاء اور جیل مینول کے مطابق ہر قیدی کو اس کے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہے لیکن اس کے باوجود بھی بہت ساری جیلوں میں مسلم قیدیوں کو ان کی عبادت سے براہِ راست تو نہیں لیکن بالواسطہ روکنے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے۔ جیساکہ ناسک سنٹرل جیل میں بھی کیا گیا، مگر ان قیدیوں کی ہمت کی داد ضرور دینی چاہیے کہ انہوں نے اپنے مذہبی حق کے لیے عدالت عالیہ کا دروازہ ضرور کھٹکھٹایا اور ہم یہ بات بھی جان لیں کہ عدلیہ جب کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ قانون کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ قانون تمام افراد پر لاگو کیا جاتا ہے۔ اب اِسی معاملے کو لیجیے کہ عدالت مسلم قیدیوں کے حق میں فیصلہ کرتی ہے تومسلم قیدیوں کو جماعت سے نماز پڑھنے اور دیگر عبادت کو انجام دینے میں قانون ان کی مدد کرے گا لیکن اس سے پہلے ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم عدالت کو اس بات سے مطمئن کریں کہ نماز، روزہ کی طرح جماعت سے نماز کی ادائی، جمعے کی ادائی، روزہ افطار وغیرہ بھی عبادت کا حصہ ہے اور اسے بھی پابندی سے ادا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔
مسلم اکابرین، تنطیموں، جماعتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس معاملے میں ہائی کورٹ میں ایک بہتر وکیل کھڑا کریں تاکہ وہ صحیح رخ پر ہائی کورٹ کی رہ نمائی کرے۔ تاکہ ہائی کورٹ کا فیصلہ مسلم قیدیوں کے حق میں دیا جائے اور ہر قیدی آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی فریضے کو ادا کرسکے اور اگر ہم نے اس معاملے میں سستی کا مظاہرہ کیا اور ہائی کورٹ میںاچھے طریقے پر پیروی نہیں کی تو ہوسکتا ہے کہ بعد میں ہمارے پاس پچھتانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی موجود نہ ہو۔
﴿آپ کی مدد کامنتظر ایک قیدی﴾
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2011