دور حاضر میں نظام خلافت کی معنویت

نظام خلافت یا نظام مصطفی ﷺ کوئی نیا نظام نہیں ہے۔ یہ نظام اللہ رب العزت کا بھیجا ہوا نظام ہے۔ اس نظام کو رسول ﷺ نے اپنے دور نبوت میں نافذ کیا اور آپ کے پردہ فرمانے کے بعد خلفائے راشدین نے جاری رکھا جو مکمل حالت میں 30 سال تک جاری رہا ۔ اس کے بعد دیگر خلفاء نے صدیوں اسے جاری رکھا حتّٰی کہ مصطفی کمال اتا ترک نے ترکی میں 1924 ؁ء میں اس کا خاتمہ کردیااور اب عالم اسلام میں 90 سال سے کوئی خلافت باقی نہیں رہی۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ دنیا میں اس نظام کو قائم کریں ۔ قرآن نے اس سلسلہ میں نہایت واضح حکم دیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اس نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰ  ؑ اور عیسیٰ  ؑ کو دے چکے ہیں‘ اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجاؤ۔ (سورہ شوریٰ ۔آیت:۱۳)

یہاں دین سے مراد نظام خلافت ہی ہے۔ ایک اور آیت میں مسلمانوں کا یہ وصف ظاہر کیا ہے:

’’دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو ‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘  (آل عمران : ۱۱۰)

نظام خلافت سے ہٹ کر جتنے بھی دیگر نظام ہائے حیات پائے جاتے ہیں وہ سب انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور ان میں بڑی بڑی خامیاں پائی جاتی ہیں ۔ ان خامیوں کی بناء پر وہ نظام انسانوں کے پورے مسائل کا حل نہ کرسکے اور چند دہوں میں وہ نیست و نابود ہوگئے۔ چنانچہ روس میں کمیونزم کو نافذ کیا گیا تھا ۔ اس کے ماننے والوں نے روس میں سرمایہ داروں کا قتل عام کروایا مگر یہ نظام صرف 70 سال میں ختم ہوگیا ۔ اسی روس کے شہر ماسکو میں کارل مارکس کے عظیم مجسمہ کو جو کریملن میں ایستادہ تھا گراکر ٹکڑے کردیا گیا۔ کمیونزم میں مذہب ‘ خدا ‘ عبادت ‘ ایثار و قربانی جیسے اعلیٰ انسانی صفات کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ انسان کو ایک معاشی حیوان تصور کرکے اسے صرف روٹی کپڑا اور مکان کے حصول کے لیے محدود رکھ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس نظام میں کانٹ چھانٹ کرکے سوشلزم ‘ ماؤازم ‘ نکسل ازم وغیرہ تشکیل دیئے گئے مگر وہ بھی انسانوں کے مسائل حل نہ کرسکے۔ ہندوستان میں ہندو توا کا نعرہ لگایا گیا۔ ان تمام کوششوں کے باوجود آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا ملک جرائم کا اڈہ بن چکا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ نہ خدا کو صحیح مانتا ہے نہ اس کے بھیجے ہوئے قوانین کو تسلیم کرتا ہے بلکہ باطل نظام حکومت کے علمبردار‘ اسلام کو ایک دہشت گردی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ہیں۔اسلامی نظام یا نظام خلافت جس طرح تمام مسائل میں جو رہ نمائی دیتا ہے اور بڑے سے بڑے مسائل کا حل پیش کرتا ہے اس پر غور و فکر اور اس کی افادیت اور واجبیت کے دلائل کو بے سوچے سمجھے رد کردیا جاتا ہے۔ اس رد اور انکار نے معاشرے میں مختلف قسم کی خرابیاں پیدا کردی ہیں اور عورتوں اور غریبوں کے حقوق ختم ہوگئے ہیں ۔ ایک سنگین سیاسی بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ رشوت اور بدعنوانی کا خاتمہ ناممکن ہوگیا ہے۔ ذات پات کا تعصب ‘ علاقہ واریت ‘ مذہبی منافرت ‘ معاشی استحصال ‘ سودی کاروبار ‘ مہنگائی ‘ بے روز گاری ‘ عدل و انصاف کے حصول میں ناکامی ‘ مجرموں کا تحفظ ایک عام بات ہوگئی ہے۔ سماج کا ہر طبقہ متفکر اور متردد نظر آتا ہے ۔ صرف سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کا طبقہ ہی بظاہر پر امن اور پرسکون نظر آتا ہے۔

نظام خلافت کے تعلق سے یہ تصور صریحاً غلط ہے کہ یہ صرف مسلم ممالک یا مسلمانوں کے لئے بنایا گیا ہے بلکہ یہ نظام ایک الٰہی نظام ہے جو دنیا کے تمام انسانوں اور تمام ممالک کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ یہ واحد نظام زندگی ہے جو انسانوں کے خالق اور مالک کا بھیجا ہوا اور ناقابل ترمیم ہے ۔ اسے تاقیامت محفوظ اور مامون قرار دیا گیا ہے۔ اس نظام کا حکمراں جو خلیفہ یا امیر المومنین کہلاتا ہے ‘ اپنا ذاتی قانون نہیں چلاتا بلکہ وہی قانون نافذ کرتا ہے جو قرآن اور رسول مقبولﷺ کی سنت سے ثابت ہے ۔ امیر المومنین یا ارکان شوریٰ نہ کسی حلال کوحرام قرار دے سکتے ہیں نہ حرام کو حلال قرار دے سکتے ہیں۔ جو چیزیں حرام ہیں ‘ مثلاً سود ‘ شراب ‘ جوا‘ قحبہ گری وغیرہ وہ ہر حال میں حرام اورقابل سزا جرم رہیں گے ۔ خلیفہ کو بھی قاضی اپنی عدالت میں گواہی کے لئے طلب کرسکتا ہے ۔ زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم بیت المال کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ شرابی کو درے مارے جاتے ہیں ‘ زانی کو سنگسار کردیا جاتا ہے ۔ چور کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں ۔اسلام میں قحبہ گری کی اجازت نہیں ہے۔ ان جرائم پر اسلام نے جو سزائیں مقرر کی ہیں انہیں ظالمانہ تصور کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لوگ ایسی خطرناک سزاؤں کے تصور سے ہی کانپ جاتے ہیں اور معاشرہ میں جرائم پنپنے نہیں پاتے۔ اس کے برخلاف موجودہ سست رفتار عدالتی نظام اور پولیس و حکمران طبقہ کی رشوت خوری کے سبب مجرموں کو سزا کے خوف سے زیادہ چھوٹ جانے کی امید ہوتی ہے اور وہ دھڑلے سے جرائم کا ارتکاب کئے چلے جاتے ہیں اسی کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج ملک میں ہر قسم کے جرائم اتنے بڑھ گئے ہیں کہ رشوت خوری کے خلاف نعرہ نے ایک جماعت کو حکمرانی سے محروم کردیا اور دوسری جماعت کو اقتدار تک پہنچادیا۔ خواتین پر ظلم و ستم ‘ عصمت ریزی ‘ انہیں زندہ جلادینے حتیٰ کہ ان کے ساتھ درندگی کا سلوک کرنے کے بعد قتل کرکے نعشیں درختوں سے لٹکادینے کے گھناؤنے اور انسانیت سوز جرائم تقریباً روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ایک دانش مند انسان سوچ سکتا ہے کہ کسی مجرم کو کوڑے مارنے اور برسرعام سنگسار کردینے کی سزا ظلم ہے یا ایک مجرم کو سزا دے کر معاشرے کی درجنوں بلکہ سینکڑوں خواتین کی عزت ‘ عصمت اور زندگیوں کو بچانا انسانیت پر عظیم احسان ہے۔ چنانچہ یہ سمجھنا غلط ہے کہ اسلام میں سزائیں بہت سخت ہیں بلکہ اس کے دوسرے پہلو کو اہمیت دی جانی چاہئے کہ اس کے نتیجہ میں معاشرہ جرائم سے پاک اور عام انسانوں کو امن و سکون نصیب ہوتا ہے۔

جرائم کا ایک اہم سبب حصول دولت بھی ہے۔ اسلامی نظام میں دولت کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے کہ مالدار کو اپنی دولت میں اضافہ سے نہیں روکا گیا جیسے کمیونزم کا اصول قرار پایا لیکن اس کی دولت میں غریبوں کا حصہ مقرر کرکے اس کے دل میں حرص و ہوس کے دروازے بند کردیئے گئے۔ اسی طرح اسلامی نظام خلافت میں غریبوں کو مزید غریب ہونے کے لئے بے سہارا نہیں چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ اسلام نے زکوٰۃ کی تقسیم کا نظام قائم کیا جس سے غرباء کے مسائل حل ہوتے اور ان کی مشکلات دور ہوتی ہیں۔ جب ان کی حاجت پوری ہوتی ہے تو وہ چوری جیسے جرائم کا غلط راستہ اختیار کرتے ہوئے دولت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس نظام کے نتیجہ میں غریب اور امیر کے درمیان حسد و جلن اور حقارت جیسی خصلتیں پیدا نہیں ہوتیں بلکہ غریب کے دل میں امیر کی عزت بڑھتی ہے اور امیر شخص غریبوں کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ الغرض اسلام نے صرف سزاؤں کے ذریعہ خوف کا ماحول پیدا کرکے معاشرہ کی اصلاح کا طریقہ نہیں دیا بلکہ انسانی مسائل کے حل کا ایک واجبی اور قابل قبول نظام دیا ہے جس کے فوائد سے خلافت کے قیام کے بعد ہی بہرہ ور ہوا جاسکتا ہے۔

خلافت کے نظام کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس کے معاشی نظام میں سود کا عمل دخل نہیں ہوتاہے جو دنیا کے موجودہ معاشی نظام کا ایک جز لاینفک بن چکا ہے۔ سود کی حرمت کا اصل فلسفہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو خالق ہے تمام بندوںکو جواس کی مخلوق ہے ‘ ایک کنبہ کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایک حاجت مند کی ضرورت پوری کرنے اس جیسا ہی دوسرا انسان سود کے ذریعہ اس کا استحصال کرے۔ سودی نظام سے آج کتنے ہی لوگ خودکشی پر مجبور ہوجاتے ہیں حتی کہ بڑے بڑے آئی ٹی پروفیشنل اور تاجر بھی اس نظام میں پھنس کر آفت میں مبتلا ہوجاتے ہیں ‘ زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اور کبھی تو ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ سود کے جال میں پھنسا شخص اپنے پورے خاندان کے ساتھ خودکشی کرلیتا ہے۔

اسلام نظام خلافت کے بارے میں ایک بڑی غلط فہمی غیر مسلمین کے ساتھ سلوک کے بارے میں بھی پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا میں خواہ وہ انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ ہو یا جمہوریت کا دعویدار ہندوستان ‘ اقلیتوں سے امتیازی رویہ اور ان کے ساتھ سوتیلا سلوک عام بات ہے ۔ ہندوستان میں آئے دن مختلف گوشوں سے مسلمانوں کو ہندو تہذیب اختیار کرنے ورنہ خطرناک نتائج کا سامنا کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ جبکہ اسلام میں غیر مسلمین کے حقوق مقرر ہیں۔ کسی بھی غیر مسلم کو زبردستی اسلام میں داخل نہیں کیا جاتا ۔ اس کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ غیر مسلمین سے یقینا جزیہ لیا جاتا ہے لیکن اس کے بدلے ان کے جان و مال کے تحفظ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جزیہ کا اصل فلسفہ یہ ہے کہ جو غیر مسلمین جزیہ دے کر زندگی گزارنا پسند نہیں کرتے وہ اپنی حالت کو بدلنے کے بارے میں غور کرتے ہیں اور اسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے اور غور و فکر کے بعد اس کے عقیدہ کو اختیار کرکے دنیا میں آزاد زندگی گزار سکتے ہیں اور آخرت کے عذاب سے بچ سکتے ہیں جو اسلام کا اصل مطمح نظر ہے۔

جس ملک یا علاقہ میں اسلامی نظام قائم ہوتا ہے وہاں سود پر پابندی ہونے سے ہر چیز سستی ہوجاتی ہے اور گرانی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پٹرول صرف 20 روپے لیٹر ہوجائے گا۔ گھروں ‘ سڑکوں اور گاڑیوں پر کوئی ٹیکس نہیں ہوتا۔ عوام کے لئے مفت پانی ‘ بجلی اور علاج کا انتظام کیا جاتا ہے۔ خلیفہ کے آگے پیچھے کوئی بلیک کمانڈوز نہیں ہوتے ۔ حضرت عمر ؓ نے دودھ پینے والے بچے کو اس کی ولادت کے بعد روینہ مقرر فرمایا تھا ۔ جو لوگ اس نظام پر چلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔

ایک اور سوال عام طور پر کیا جاتا ہے کہ پاکستان یا کسی دوسرے مسلم حکمرانی والے ملک میں اسلامی نظام یا خلافتی نظام کیوں قائم نہیں کیا گیا؟ بات دراصل یہ ہے کہ حکمران طبقہ اس دنیا کے عیش و عشرت اور موج مستی میں کھویا ہوا ہے ۔ وہ اپنی ذات پر کوئی پابندی دیکھنا نہیں چاہتا ۔عیش و عشرت کے ماحول سے نکلنا نہیں چاہتا ۔ اسلامی نظام حکومت میں ناچ گانے‘ جنسی بے راہ روی ‘ شراب کے استعمال پر پابندی عائد ہوتی ہے اور یہ تمام امور عیش و عشرت کے وسیلے ہیں چنانچہ مسلم حکمران بھی اسلامی طرز حکمرانی کو قبول کرنے کوتیار نہیں ہیں۔ بہرحال دنیا کو اسلامی نظام حکمرانی کی ضرورت ہے لیکن مسلم ممالک میں کسی حد تک قوانین الٰہی پر عمل آوری کی وجہ سے جرائم کی شرح کم ہے اور ایک ہندوستانی شہری کی حیثیت سے ہمارا احساس ہے کہ نظام خلافت کی سب سے زیادہ ضرورت ہندوستان کو ہے کیونکہ یہاں جس قدر جرائم پرورش پارہے ہیں وہ کسی بھی مسلم ملک سے زیادہ ہیں حتّٰی کہ یوروپی ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ نظام خلافت کی حقیقت اور اس کی افادیت یہ ہے کہ اسے خالق کی جانب سے مخلوق کی رہنمائی و بھلائی کے لئے بنایا گیا ہے ۔ چونکہ اللہ چاہتا ہے کہ زمین پر اس کا قانون چلے اس لئے اِن شاء اللہ ایک دن دنیا میں یہ نظام قائم ہوکر رہے گا۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2014

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau