میڈیا اور اخلاقی اقدار

محمد اسامہ

 علمِ اخلاق کا تعارف

’’اخلاقیات‘‘ یا ’’علم اخلاق‘‘(Ethics)درحقیقت یونانی لفظ “Ethos”سے ماخوذ ہے، جس کے معنی عادات و اطوار،طور طریقہ اوررواج وغیرہ کے آتے ہیں۔عربی زبان میں اس کے لیے لفظ ’’خُلق‘‘ آتا ہے ،جس کی جمع ’’اخلاق‘‘ ہے اور معنی انسان کی باطنی قدرت و عادت کے ہیں، جسے باطنی آنکھوں سے نہیں بلکہ چشم بصیرت سے دیکھا جا سکتا ہے ۔(1)

ارسطو (384-322 BC)علم اخلاق کی تعریف میں لکھتا ہے:

’’جس علم میں انسانی کردار پر اس حیثیت سے بحث کی جائے کہ وہ صواب وخیرہیں یا خطا و شراور اس طرح بحث کی جائے کہ یہ تمام احکامِ صواب وخطااور خیر و شر کسی مرتب نظام کی شکل میں آجائیں تو علم کو علمِ اخلاق کہتے ہیں۔‘‘(2)

مولانا محمد حفظ الرحمن نے علم الاخلاق کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے اس کے دائرے میںبنیادی طور پردو اعمال کو جگہ دی ہے:

(1)وہ اعمال جو عامل کے اختیار و ارادہ سے صادر ہوتے ہیںاور وہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے؟

(2)وہ اعمال جو عمل کے وقت بغیر ارادہ صادر ہوتے ہیں لیکن اختیار ،شعور اور ارادہ کے ذریعہ ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

(3)اخلاقیات سے مراد ہم معیارات اور اصولوں کے ایک مکمل نظام کو بھی لے سکتے ہیں۔ہر زمانے میں ایک سوال لوگوں کے ذہنوں میں قائم رہا کہ انسان کے لیے خیر کیا ہے اور شر کیا ہے؟علم اخلاق پر اگر تاریخی نظر ڈالی جائے تو اس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ مذہب کی زبان سے ہواپھر یونانی دور میں سوفسطائیوں

(4)،سقراط (469-399 BC) اور ارسطونے اسے فلسفہ کے شکل میں پیش کیا۔ عیسائیت اوراسلام کے ذریعے اس نے دوبارہ مذہب کے دامن میں پناہ لی لیکن جدید دور میں اسے ایک بار پھر مذہب سے آزاد کر نے کی کوشش ہورہی ہے۔

علم اخلاق کا میڈیا سے تعلق

علم الاخلاق کا میڈیا سے کیا تعلق ہے؟اس کے جواب کے لیے ہمیں دنیا میں رائج مختلف تہذیب و تمدن کی طرف رخ کرنا ہوگا کیوں کہ یہی وہ بنیاد ہے جس سے ہم میڈیا کے اخلاق و اقدار کے اصول طے کر سکتے ہیں ۔درحقیقت کسی قوم کے اخلاقی اقداراور اصولوں کی بنیاداس کا عقیدہ اور نظریۂ حیات ہی ہوا کرتا ہے جس کے بدل جانے سے پورا نظریہ نظامِ اخلاق تبدیل ہوجاتا ہے۔اس لحاظ سے اگر موجودہ دور کی دومشہور تہذیبوں- اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب – کا جائزہ لیا جائے تو دونوں کے درمیان درج ذیل بنیادی فرق سامنے نظر آتا ہے:

اسلامی تہذیب کی بنیاد ’’توحید‘‘ پر ہے ۔ اس نظریہ کے مطابق کائنات میں پائی جانے والی اشیاء اور بذاتِ خود انسان بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے ۔اس لحاظ سے اس کی تمام تر صلاحیتیں اللہ رب العالمین کی عطا کردہ ہیں جنہیں وہ اس کی مقرر کردہ حدود وقیود کے اندر ہی استعمال کر سکتا ہے اور اس سلسلے میں وہ وحی الٰہی کا نہ صرف محتاج ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ بھی ہے۔اسلامی تہذیب کے افکار و نظریات کا مختصراًجائزہ لیا جائے تو اس کے نمایاں نکات حسب ذیل ہیں:

٭تصورِ الٰہ

٭مخصوص عقائد

٭تصور ِانسان

٭تصور ِکائنات

٭تصورِ آخرت

اس کے برعکس مغربی تہذیب کی بنیاد ’’مادیت‘‘ پر ہے ۔اس نظریہ کے مطابق انسان کسی بالاتر ہستی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔اس کے حاملین کاماننا ہے کہ اخلاقی اصول و قوانین کا معیار انسانی عقل خود طے کر سکتی ہے ،اس میں کسی مذہب یا وحی الٰہی کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ اخلاقی قوانین دراصل سماج کے مصالح کے پیدا کردہ ہیں۔مغربی تہذیب کے افکار و نظریات کا جائزہ لیا جائے تو درج ذیل معروف نکات سامنے آتے ہیں:

٭مذہب کوفرد کا ذاتی مسئلہ قراردیا گیا۔(سیکولرزم)

٭فرد کومکمل طور سے آزادی دے کر خدا کے مقابلے میں مختار ِکل بنا دیاگیا۔(ہیومنزم)

٭دنیاوی زندگی ہی کو کل سمجھتے ہوئے تمام امیدوں اور خواہشات کا مرکزسمجھا گیا اور اس کے حصول کے لیے تمام افعال کو جائزکردیا گیا ،ایسے میں آخرت کے تصور کا خاتمہ ہوگیا۔(میٹیریلزم)

٭ وحی الٰہی اور رسالت کے تصورکا انکار کرتے ہوئے عقل،مشاہدہ اور تجربہ کو ہی صحیح و غلط کا معیار سمجھا گیا۔ (امپریسزم)

٭عورت کوآزادی کے نعروں کے جال میں پھنسا کر جنسی اباحت،فحاشی،عریانیت کا دروازہ کھولا گیا۔(لبرلزم)

٭ ڈارون کے نظریہ ’’انسان بھی جانوروںکی طرح حیوان ہے‘‘کو فروغ دیا گیا جس سے انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے تصور کا خاتمہ ہوگیا۔(ڈارونزم)

٭قانون بنانے کا غیر مشروط حق انسان کودے دیا گیا۔اب وہ جس چیزکو چاہے حرام کر دے اورجس چیزکو چاہے حلال کردے۔ (ڈیموکریسی)

٭دنیاوی زندگی کو ہی کل سمجھا گیا چناں چہ عیش پرستی کو اس کا لازمی جز کردیا گیا اوراس کے لیے دولت کا حصول بہر صورت جائز کیا گیا خواہ وہ جوئے ، سوداوراسی قبیل کے دیگر ذرائع سے ہی کیوں نہ آئے۔(کیپٹل ازم)

ظاہر ہے کہ درج بالا دونوں نظریات میں مشرق و مغرب کا فرق ہے۔ان کا اثر سائنس اور اس کی ایجادات پر بھی ہوا، چناں چہ جہاں ایک طرف مغرب کی مادہ پرست دنیا کا عمل یہ ہے کہ سائنسی ایجادات میں وہ صرف ’’ذاتی اورملکی مفادات‘‘ کا خیال رکھتی ہے،خواہ اس سے دنیا اور انسانیت کو کتنا ہی نقصان پہنچے وہیں دوسری طرف اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ سائنس کا استعمال عوام الناس کے فائدے کے لیے ہو،نہ کہ اس کے ذریعے دنیا میں فتنہ و فساد پیدا کیا جائے اور عالمِ انسانی کو تباہی و بربادی کی طرف لے جایا جائے ۔

میڈیا کے اثرات

کسی بھی ملک کی جمہوری عمارت چار ستونوں پر قائم رہتی ہے جس میںبالترتیب مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور ذرائع ابلاغ شامل ہیں۔سائنس اور ٹکنالوجی کے دور نے آخر الذکر کے دائرے کو غیر معمولی وسعت دی ہے اور اب اس سے مراد الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیااورسوشل میڈیالیا جاتا ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اب دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان اس کی بدولت عسکری یافوجی میدان میں ہی نہیں بلکہ اعصابی،نفسیاتی، ثقافتی اور تہذیبی میدان میں بھی معرکہ آزمائی ہو رہی ہے۔اس نے جہاں ایک طرف سماج میں مثبت تبدیلیاں لائی ہیں اور رائے عامہ کی تعمیر،تعلیم و تفریح کے نئے مواقع کے ساتھ  معاشرے کو متحرک بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ،وہیں دوسری طرف اس کے منفی استعمال نے معاشرے کو ذہنی و اخلاقی لحاظ سے پستی کی طرف ڈھکیل دیا ہے۔

مغربی میڈیا کی حقیقت

سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں یورپ اپنے عروج پر ہے اس لیے فطری طور پر میڈیا اور اس کی موجودہ مختلف شکلوںکی نشو ونما وترقی وہیں ہوئی ہے۔یہ ایسی قوم ہے جو’’مادیت‘‘ پر یقین رکھتی ہے اورجس نے مذہب اور اخلاق سے خود کو آزاد کر رکھا ہے۔اگرچہ اس کاماننا ہے کہ وہ بھی اخلاقیات کی قائل ہے مگر اسے وہ عقل وتجربات کی بنیاد پر خود طے کرے گی۔اسی وجہ سے ان کے یہاں خیر وشر میں تفریق کاپیمانہ صرف عقل ہے۔اس لحاظ سے خیانت ، عہد شکنی،دروغ گوئی،فریب دہی،فحاشی،جنسی انارکی اور نفاق سے اگر مادی فائدہ ہو رہا ہے تو وہ اسے ’خیر‘کا نام دیں گے۔ایسے ہی جہاں کہیں اخلاقیات و مالیات میں تصادم ہو تومالیات کو مقدم رکھا جائے گا۔اس اعتبار سے میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ کی مختلف شکلیں خواہ وہ پرنٹ میڈیا(اخبارات ورسائل وجرائد،ہینڈ بل وغیرہ) ہویا الیکٹرانک میڈیا (ریڈیو،ٹی وی،کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ) اورسوشل میڈیا(فیس بک،واٹس اپ،ٹوئیٹر،یو ٹیوب وغیرہ) ہو،سب پر اس فلسفے کی گہری چھاپ ہے ۔

میڈیا اور اس کی مختلف شکلوںپردرج بالا افکار و نظریات کے اثرانداز ہونے کے علاوہ اس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ یہودیوں نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے اورانہوں نے پوری دنیا پر حکم رانی کا جو منصوبہ(5) تیار کیا ہے ،یہ اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ میڈیا کے پچانوے(95)فیصد ذرائع پر یہودیوں کا غلبہ ہے اور وہ اس مؤثر ہتھیار کے ذریعہ پوری دنیا کو اپنے کنٹرول میں لیے ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے عالمی خبر رساں ایجنسیاں قائم کیں جن کا کام دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کو جمع کرنا تھا۔اس حوالے سے ان کے پروٹوکول نمبر بارہ(12) میں لکھا ہے:

’’ہماری منظوری کے بغیر ادنیٰ سے ادنیٰ خبر بھی کہیںپہنچ نہیں سکتی،اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہودی خبررساں ایجنسیاں قائم کریں ،جن کا بنیادی کام دنیا کے کونے کونے سے خبریں جمع کرنا ہوگا۔اسی صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کر سکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی خبر شائع نہ ہو۔‘‘ (6)

یہودیوں کی بعض نمایاں عالمی خبر رساں ایجنسیاں درج ذیل ہیں:

1.1848 The Associated Press.(AP)

  1. 1851 Reuters, Ltd.
  2. 1907 United Press Associations (UP)
  3. 1909 International News Service (INS)
  4. 1944 Agence France Presse (AFP)(7)

درج بالا نظریاتی اور عملی تصور کی بنیاد پر ہی مغربی میڈیا کا وجود ہے اور اس کے ذریعے یہودیوںنے ایک طرف تو اپنی قوم کی رہ نمائی،تعمیر وترقی،اتحاد ویک جہتی اورمضبوطی واستحکام کا کام لیا وہیں دوسری طرف انہوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنے سامراجی مقاصدکو پورا کیا ۔مزید برآںانہوں نے دیگر قوموں کی نظر میں خود ان کے ہی نظریۂ حیات،تہذیب وروایات،قومی تشخص اور اخلاقی اقدار کو بودا اور بے وقعت ثابت کردیا۔ واضح رہے کہ جو قومیں اپنی ثقافت اور فکر کے مقابلے دوسری قوموں کے تہذیب و تمدن سے متاثر ہوتی ہیں وہ اپنا تشخص کھو دیتی ہیں، کیوں کہ ثقافت اور فکر ہی دوایسی اولین بنیادیں ہیں جو کسی معاشرہ کے شعور اور روح کی ترجمانی کرتی ہیں اور جس نے ان دونوں پر قبضہ کرلیا وہ پھر اس میں کہیں پر بھی سیندھ لگا سکتا ہے۔

عالم اسلام پر مغربی میڈیا کے اثرات

عالم اسلام اور دیگر مشرقی ممالک کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے مغربی میڈیا اوراس کی دیگر شکلوں کو ان کی تمام خرابیوں اور برائیوں کے ساتھ قبول کر لیا ہے ۔مصر اور لبنان سے اس کا آغاز ہوا اور رفتہ رفتہ تمام اسلامی ممالک اس کے رنگ میں رنگتے چلے گئے۔اس کی ایک بڑی وجہ خود اسلامی ممالک کے میڈیا کا تقریباً 90% مغربی میڈیا پرانحصارکرنا ہے۔چنانچہ یہاںسے نکلنے والے عربی رسائل و جرائدخواہ وہ الوقائع المصریۃ (1828) ہو یا الأہرام(1876)، الہلال(1912)، الجمہوریۃ (1924) ، الأخبار (1938) اورالشرق الأوسط(1978) ہوں، سب ہی مغربی افکار ونظریات سے نہ صرف متاثر ہیں بلکہ ان کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔مزید برآں ان ممالک میں ٹی وی،کمپیوٹر اور ڈش وغیرہ پر چلنے والی فلمیں، ڈرامے ،سریزاور کارٹونز وغیرہ بھی مغربی میڈیا کے زیر اثر ہیں۔ان سب کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ مسلمانوں میں بھی وہ ساری اخلاقی برائیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں جو مغرب میں ہیںاوران میں لگاتار اضافہ ہی ہورہا ہے۔مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اس حوالے سے رقم طرازہیں:

’’آج کا مسلمان نوجوان ایک تلخ تجربہ اور خطرناک کشمکش سے گذررہا ہے،وہ وزارت نشریات،صحافت اور ٹیلی ویژن سے انتشار انگیز ترغیبات ورہ نمائی سے دوچار ہوتا ہے،اور ایسے نشریاتی پروگرام سنتا ہے ، جو اسلامی تربیت کے بچے کھچے اثرات کو بھی مٹا دینے پر تلے ہوئے ہیں،اس طرح وہ اس میں فکری بغاوت اور نفسیاتی اضطراب پیدا کر دیتے ہیں۔اخبارات و رسائل صبح صبح اسے متعفن ومسموم غذا فراہم کرتے اورکچھ اور پڑھنے سے پہلے جذبات کو برانگیختہ کرنے والا سامان مہیا کردیتے ہیں،چناں چہ سب سے پہلے جن چیزوں پر اس کی نگاہ پڑتی ہے،وہ شہوانی تصویریں،ہیجان پرور عنوانات،شک و شبہ پیدا کرنے والے اور ایمان و یقین کو کم زور کرنے والے مقالات ہوتے ہیں،جنہیں وہ شوق ورغبت کے ہاتھوں سے لیتا ہے،پھر اس کے ہاتھوں میں ایسی علمی کتابیں آجاتی ہیںجن کے نام اور عنوانات بھاری بھرکم اور مرعوب کن ہوتے ہیں،اور جو ان لوگوں کے قلم سے نکلی ہوتی ہیں،جن کے فضل وکمال پر اس نوجوان کا ایمان ہوتا ہے،اس طرح وہ ایسا مواد پڑھتا ہے،جو اس کے لیے دین،تاریخ اسلام،شریعت اسلامی کے بلکہ زبان و ادب کے بھی اولین سرچشموں وماخذوں کو بھی مشکوک ومشتبہ قرار دیتا ہے اور اسے اس امت کی صلاحیت،اس کے پیغام کی ابدیت اور عربی زبان کی اہلیت وصلاحیت کی طرف سے شک میں مبتلا کر دیتا ہے،وہ افکار و خیالات اور علمی نظریات کے اس عجیب وغریب ’’آمیزہ‘‘ کو پانے کے بعد ایسی حیرانی میں مبتلا ہوجاتا ہے ،جس کے مقابل کوئی حیرانی نہیں ہوتی۔‘‘(8)

دراصل اب مغربی میڈیا اور اس کے افکار ونظریات عالم اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک چیلنج بن چکے ہیں۔ غور کیا جائے تو اس کے دوبنیادی اسباب وعوامل رہے ہیں:

(1)نظریاتی سبب

مسلم ممالک خصوصاً عالمِ عرب میں اظہارِ رائے کی آزادی نہیں ہے ۔میڈیا حکومت کے کنٹرول میں ہے اور وہ اپنی مرضی سے عوام کو جو چاہتے ہیں دکھاتے ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عموماًمسلم ممالک کے حکم راں ایسے نہیں ہیں جن کا انتخاب وہاں کی عوام نے اسلام کے معروف طریقوں پر کیا ہواور وہ ان کا تقویٰ وپرہیزگاری کی وجہ سے دلی احترام کرتی ہو۔انہوں نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کیا ہے اور اب وہ عوام پر مسلط ہیںاور انہیں ان سے ہمیشہ خطرہ لگا رہتا ہے۔ ایسی صورت حال میں بھلا وہ کسی کو اظہاررائے کی آزادی کیسے دے سکتے ہیں؟

(2)عملی سبب

عالم اسلام کے پاس ذرائع ابلاغ یا میڈیاکا اپنا کوئی نظام نہیں ہے ،چند ایک ہیں بھی تو وہ مختلف وجوہ سے اتنے مؤثر ثابت نہیں ہو رہے ہیں کہ مغربی میڈیا کا مقابلہ کر سکیں۔حقیقت یہ ہے کہ مسلم ممالک نے اپنے فکری اور علمی زوال و انحطاط کی وجہ سے اس پرتوجہ ہی نہیں دی اورپھر وہ مغربی دنیا سے اس میدان میں پچھڑتے چلے گئے۔اب تو وسائل وذرائع کی کمی کا بھی رونا نہیں رویا جاسکتا کیوں کہ عرب ممالک کوتیل اور دیگر معدنیات کی شکل میں ملی ہوئی قدرتی دولت نے اس عذر کا خاتمہ کر دیا ہے۔

اسلام کا نظریۂ اعتدال

مغربی میڈیا اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد ہمارے ذہنوں میں یہ سوال قائم ہوگا کہ اس سلسلے میں اب کیا کیاجائے؟کن اقدامات سے اسے حل کیا جاسکتا ہے؟ ہمیںبحیثیت مسلمان کیا کرنا چا ہیے اور کس طریقے سے اس چیلنج کا مقابلہ کرنا چاہیے؟غور کیا جائے تو  تین موقف ہو سکتے ہیں ۔

(1)پہلا موقف یہ ہو سکتا ہے کہ مغربی میڈیا کا مکمل طور سے بائیکاٹ کر دیا جائے اور اس کی تمام شکلوں کو حرام اور ’’شجرِ ممنوعہ‘ ‘سمجھتے ہوئے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے۔ظاہر ہے کہ یہ نظریہ قابلِ قبول نہیں ہے کیوں کہ اس پر عمل کرنے کی صورت میں عالم اسلام باقی دنیا سے کٹ جائے گا ا ور زندگی کے تمام میدانوں میں صدیوں پیچھے چلا جائے گا۔ یہ رویہ عقلِ انسانی کے خلاف ہوگا ۔

(2) دوسرا رویہ مغربی میڈیا کے ساتھ یہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ اسے من وعن جوں کا توں قبول کر لیا جائے اور اس کی تمام تر فکری،نظریاتی ،اخلاقی اور مادی برائیوں کو اپناتے ہوئے اپنے ایمان،عقائد اوراخلاقی اقدار کی بڑی سے بڑی قیمت ادا کی جائے لیکن یہ عمل دراصل مذہبی ،روحانی اور ذہنی خود کشی کے مترادف کہلائے گااوراس موقف کو فطرتِ سلیم اور اسلام کو ماننے والا کبھی تسلیم نہیں کرے گا کیوں کہ وہ مغربی تہذیب و تمدن اور اس کے زیرِ اثر میڈیا کے غیر معمولی نقصانات سے بخوبی واقف ہوگا۔

(3) تیسرا موقف یہ ہوسکتا ہے کہ اسلامی میڈیا کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کے ذریعہ مغربی میڈیا اور اس کے نقصانات کو دنیا کے سامنے تنقیدی نظر سے پیش کیا جائے ۔مزید برآں اسلامی میڈیا کی ضرورت،اہمیت، فوائد اور اس کے اخلاقی اقدارکی وضاحت کرتے ہوئے بتایا جائے کہ انسانیت کی بھلائی اور کام یابی اسی کے ذریعے ممکن ہے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ مغربی میڈیا اوراس کے اثرات کو نئی نسل عمداً اور غیر عمداًبہت تیزی سے قبول کر رہی ہے جس سے ان کے اندر اخلاقی زوال وانارکی پیدا ہو رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ اب نئی نسل کو کیسے بچایا جائے ؟انہیںصرف اخلاقی نصیحتوں اوروعظ وتلقین سے نہیں روکا جا سکتا ہے،بلکہ اس کامتبادل پیش کرنا ہوگا۔

ایک شکل یہ بھی ہے کہ مغربی میڈیا کو اسلامی نقطۂ نظر سے پرکھا جائے اور اس کے مضر پہلوؤں کو نکالتے ہوئے مفید پہلوؤں سے مستفید ہوا جائے اور پھر اپنی صلاحیتوں اور ذہانتوں سے کام لیتے ہوئے انہیں اپنے ان ’’اعلیٰ مقاصد‘‘ کے لیے استعمال کیا جائے جس کے لیے امت مسلمہ کا وجود ہوا ہے۔علامہ اسد (9) نے اسی نظریہ کو اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے لکھا :

’’…میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان مغرب سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے بالخصوص صنعتی علوم وفنون کے میدانوں میں،اس لیے کہ علمی افکار و اسالیب کا اختیار کرنا درحقیقت تقلید نہیں،خصوصاً اس امت کے لیے جس کے نبیؐ نے اس کو ہر ممکن ذریعہ سے علم حاصل کرنے کاحکم دیا ہو،علم نہ مغربی ہے،نہ مشرقی،علمی انکشافات وتحقیقات ایک ایسے سلسلہ کی کڑی ہیں جس کی کوئی انتہا نہیں،اور جس میں تمام بنی نوع انسان برابر کے شریک ہیں،ہرعالم اور سائنٹسٹ،ان ہی بنیادوں پر اپنی تخلیق کی بنیاد رکھتا ہے،جو اس کے پیشروؤں نے قائم کی تھیں،خواہ وہ اس کی قوم سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی اور قوم سے،اسی طرح ایک انسان سے دوسرے انسان،ایک نسل سے دوسری نسل،ایک تہذیب سے دوسری تہذیب تک،تعمیر و اصلاح و ترقی کا کام برابر جاری رہتا ہے۔‘‘(10)

عقل سلیم اور انسانی فطرت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو آخری الذکر نظریہ ہی بہتر اور قابلِ عمل ہے ۔ ا س کے ذریعے مغربی میڈیا کے اثرات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور اسے اخلاقی اقدار کا پابند بنایا جا سکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا انسان کے ارادے ،عقل اور اخلاق کے تابع ہے اور وہی اس کو خیر اور شر بناتا ہے۔

حواشی و حوالہ جات

(1)الاصفہانی، راغب، مفردات لألفاظ القرآن،دارالقلم،دمشق ،2009، ص297

(2)ارسطوطالیس،علم الاخلاق الیٰ نیقو ماخوس،ترجمہ عربی ،أحمد لطفی سید،مطبعۃ دارالکتب المصریۃ بالقاہرۃ،سن اشاعت غیر مذکورہ،ج 01،ص171

(3)محمدحفظ الرحمن سیوہاروی،اخلاق و فلسفہ اخلاق،خالد مقبول پبلی شرز،اردو بازار، لاہور، 1976،ص06

(4)یونانی لغت میں سوفسطائی حکیم ودانا کو کہتے ہیں۔دراصل یہ فلسفہ اور خطابت کے معلموں کی پیشہ ورانہ جماعت تھی جو یونان کے مختلف علاقوں میں منتشر تھی۔ ان کا زمانہ 450-440 BC رہا ہے۔

۱۸۹۷(5)ء میں سوئزرلینڈ کے شہر”Basel”میں تین سو یہودی دانش وروں،مفکروں اور فلسفیوں نے ہرزل (Theodor Herzl,1860-1904)کی قیادت میں جمع ہوکر پوری دنیا پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایاتھا۔یہ منصوبہ اُنیس (19)پروٹوکول کی صورت میں دنیاکے سامنے آچکا ہے۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو،نذرالحفیظ ندوی،مغربی میڈیا اور اس کے اثرات،دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ، 2001 ، صفحات109-111۔اوریہودی پروٹوکولز،مترجم،محمد یحییٰ خان،ناشر وسن اشاعت غیر مذکورہ۔

(6)http://xroads.virginia.edu/~ma01/Kidd/thesis/pdf/protocols.pdf

(7)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو،News Agencies Their Structure and Operation, United Nations Educational, Scientific and Cultural Organization, 1953. PP15-17

(8)ابوالحسن علی ندوی،حجازِ مقدس اور جزیرۃ العرب امیدوں اور اندیشوں کے درمیان ،مترجم ، مولو ی شمس تبریز خاں،مجلس تحقیقات و نشریات اسلام،دارالعلوم ندوۃ العلماء،لکھنؤ، 1979، صفحات 84-85

(9)علامہ موصوف ان مشہور مستشرقین میں سے ہیں جنہوں نے اسلام کی حقانیت کے آگے اپنا سرتسلیمِ خم کردیا اور اپنی تصانیف سے اس کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ان کا سابقہ نام Leopold Weiss (1900-1992) تھا ۔یہ اقتباس ان کی مشہور کتاب “The Road to Mecca” (1954)سے لیا گیا ہے جوان کی زندگی کے اہم گوشوں پر روشنی ڈالتی ہے۔اسے محمد الحسنی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

(10)محمد اسد(سابق لیو پولڈویس)طوفان سے ساحل تک،مترجم،محمد الحسنی، تنویر پریس امینہ آباد، لکھنؤ،1961،صفحات 187-188

مشمولہ: شمارہ فروری 2019

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau