کیا حرم کا تحفہ، زم زم کے سوا کچھ بھی نہیں؟
بلاشبہ کسی بھی مسلمان کی زندگی کا مقدس ترین سفر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ حج و عمرہ کا سفر ہی ہے۔ جلال خداوندی سے منوّر ’مکۃ المکرمہ ‘ اور جمال محمدی ؐسے معمور ’مدینۃ المنوّرہ ‘ سے قلبی لگاؤ ہر مسلمان کی پہچان ہوتی ہے۔ ایک مسلمان کو ہر نماز کے لیے دی جانی والی اذاں حضورؐ کی یاد دلاتی ہے تو ہر نماز کے لیے قبلہ کا رخ کعبۃ اللہ کی یاد تازہ کرتی ہے۔ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے شب و روز اللہ اور رسول ؐکے احکامات کے آئینہ دار ہوں ۔اللہ اور رسول سے تعلق ،قرآن و سنت سے تعلق کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن اور سنت کی پیروی ہمیں سرزمینِ حجاز کی یاد دلاتی ہے ،جہاں رسول اللہؐ کی بعثت ہوئی اور آپؐ کی حیات طیبہ گزری۔فطری طور پر ایک بندۂ مؤمن کے دل میں ایک تمناہوتی ہے کہ اس مقدس سرزمینِ حرمین شریفین کی زیارت کی جائے جہاں پر قرآن کریم ناز ل ہوا اور رسول اللہ ؐاور صحابہ کرام ؓکی زندگیاں گزریں۔ اسلام نے اس آرزو کی تکمیل کے لیے ’استطاعت کی شرط ‘کے ساتھ بیت اللہ کے حج اور عمرہ کو عبادات میں شامل کردیا ہے۔یقینا دور حاضر میں حج کے لیے جو استطاعت مطلوب ہے وہ ہر مسلمان کے بس کی بات نہیں ہوتی، البتہ عمرہ کے سفر کا قصد کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ سال بھر مکہ اور مدینہ معتمرین (عمرہ کرنے والوں)سے آباد رہتے ہیں۔جب رمضان آتا ہے تو عمرہ کرنے والوں کی تعدادمیں اضافہ ہوجاتا ہے ۔اس کے بعد حج کیا جاتا ہے تو اس میں بھی عمرہ ضروری ہے۔ اس تناظر میں ، میں نے یہ ضروری محسوس کیا کہ عمرہ کے مقاصد اور اس کے مناسک کی معنویت اور فلسفہ پر بطور یاددہانی روشنی ڈالوںتاکہ عازمین عمرہ (عمرہ کا عزم کرنے والوں)کے لیے یہ مشعل ِراہ ثابت ہو۔
عموماً عمرہ اور حج سے واپس آنے والے ،اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب کو تحفہ میں دینے کے لیے زم زم ، کھجور، جائے نماز ، وغیرہ لاتے ہیں۔علامہ اقبال ؔنے حج اور عمرہ کے انقلابی پیغام کے تناظر میں اپنے عصر کے مشاہدہ کی روشنی میں اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:
زائران کعبہ سے اقبالؔ یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زم زم کے سوا کچھ بھی نہیں؟
یہی شعر اس مضمون کا محرّک بنا ہے کہ امت کے روبرو حرم کا حقیقی تحفہ (بطور تذکیر)پیش کیا جانا چاہیے۔حرم کا تحفہ اس کا ’’ انقلابی پیغام ‘‘ہے، جس سے عموماً معتمرین اور حجاج غیر شعوری طور پر بے خبر ہوتے ہیں، الّا ماشاء اللہ۔ علامہ اقبالؔ نے ایک اور شعر میں عصر حاضر کے حج و عمرہ کی طرف یوں اشارہ کیا کہ :
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا!
کُند ہو کر رہ گئی، مؤمن کی تیغ بے نیام
یعنی حج اور عمرہ کا سلسلہ تو جاری ہے، لیکن حج ، عمرہ اورطواف کے ذریعے ایک بندۂ مؤمن کے اندر اللہ کی راہ میں جہاد اور قربانی کا جو جذبہ پیدا ہونا چاہیے، وہ پیدا نہیں ہورہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حج و عمرہ کے اسرار و رموز اور فلسفہ و پیغام سے ناواقفیت ہے ۔علامہ اقبالؔ نے اسی سردمہری اور روح سے خالی عبادات پر یوں تبصرہ کیا ہے کہ :
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل ، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں ،تو باقی نہیں ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ معتمرین اپنے سفر سے پہلے عمرہ کے پیغام سے بخوبی واقف ہوجائیں ، اور دوسری جانب سفر عمرہ کے منتظمین (ٹورس اینڈ ٹراولس کے ذمہ داران) بھی اپنے قافلہ والوں کو ان اہم امور سے ضرور واقف کرائیں۔
اسلام میں عبادت کا فلسفہ:
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو انسان کی زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات میں رہنمائی کرتا ہے۔اللہ کا دیا ہوا نظام ہمہ جہت اور مکمل ہے۔ اس کا ایک روحانی نظام ہے، اخلاقی نظام ہے، سماجی اور معاشرتی نظام ہے، معاشی نظام ہے، اس کا ایک قانونی نظام ہے، اور ایک سیاسی نظام بھی ہے۔ ان تمام محاذوں پر عمل کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ لفظ ’عبادت ‘ کے معنی بندگی اور غلامی کے ہیں۔ ہماری پوری زندگی اللہ کی بندگی کے لیے ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کے ادوار میں یہ تمام شعبہ ہائے حیات (معاشرت، معیشت اور سیاست)اسلام کی رہنمائی میں نافذ تھے۔ ان ادوار میں قیادت ایک تھی۔ حضورؐ امت کے ہر لحاظ سے قائد تھے۔ خلفائے راشدین نماز کے بھی امام تھے اور قوم کے بھی امام تھے۔ بعد کے ادوار میں مذہبی قیادت الگ کردی گئی اور سیاسی قیادت الگ ہوگئی۔ اسلام کے اصول خلافت کو فراموش کر دیا گیا۔ نتیجتاً اسلامی تعلیمات کو انفرادی زندگیوں تک محدود کردیا گیااور اجتماعی زندگی کی باگ ڈور غیروں کے ہاتھ میںچلی گئی ۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آج ہمیں اپنے پرسنل لا کے تحفظ تک کے لیے بھی کوششیں کرنی پڑرہی ہے۔ہم نے یہ سمجھ لیا کہ نماز ،روزہ ، زکوٰۃ اورحج کا اہتمام ، اور کچھ معاشرتی ضرورت کی حد تک نکاح و طلاق اور وراثت کے قوانین کا لحاظ کرلینا کافی ہے، اور اسلام کے ایک بڑے حصے پر عمل کو ہم نے ترک کردیا ہے۔ علامہ اقبال ؔ نے اسی صورتحال پر یہ شعر کہا ہے:
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
حالانکہ اللہ نے اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونے کا حکم دیا ہے۔(البقرۃ:۲۰۹)۔ اور اس امت کو منصب امامت پر سرفراز کر کے معاشرہ کی اصلاح اور اسلامی نظام کے قیام کی ذمہ داری ڈالی ہے۔اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ انبیاء علیہم السلام نے اپنے زمانے کی طاقتوں کو چیلنج کیا اور اسلام کو غالب کرنے کی کوشش کی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کو مخاطب کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون سے نبردآزما ہوئے۔اللہ کے رسول ؐ نے قریش کی چودھراہٹ کو للکارا، اور اسلام کے غلبہ کے لیے ہجرت کی اور جنگیں لڑیں، یہاں تک کہ اسلام غالب آگیا۔یہی انقلابی کام نبی ؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر امت مسلمہ کے حوالے کیا ۔اللہ رب العزت نے مؤمنوں کی تعریف ہی یہ بیان کی ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد دین کے غلبہ کے لیے جدوجہد کرنے والے بن جائیں’’حقیقت میں تو مؤمن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائیں، پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔وہی سچے لوگ ہیں ‘‘(الحجرات:۱۵)۔ایک اور جگہ یہ بات سمجھائی گئی کہ جہنم سے بچنے کے لیے بھی ایمان کے ساتھ جہاد ضروری ہے۔’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں ،اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔‘‘ (الصف:۱۰۔۱۱)
اس بڑے کام کو سمجھ لیا جائے تو اسلام کے فلسفۂ عبادت کو سمجھنا مشکل نہیں رہ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے عبادات کو جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے نظام تربیت کے طور پر مزین کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات کے ادراک سے ایک بندۂ مؤمن کے اندر شکرگزاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہ جذبہ اسے اللہ کی غلامی کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ نماز سے مسلمان اللہ کا ایک وفادار سپاہی بنتا ہے اور اجتماعیت سیکھتا ہے ۔ روزہ کے ذریعہ ہمارے اندر تقویٰ ،اخلاص ، قوت جہاداور عام انسانوں کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو اس کام کے لیے ناگزیر ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے اسلامی معاشرہ کی فلاح و بہبود کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، جبکہ حج کے ذریعہ ہمہ گیر تربیتی مقاصد پیش نظر ہوتے ہیں جن میں اسلام کی خاطر جہاد اور قربانی کا جذبہ پیدا کرنا سب سے نمایاں ہے۔تما م عبادات مسلمانوں کو ایک جماعت بنادیتے ہیں کہ تم سب مل کر اللہ کے دین کو دنیامیں پھیلانے اور اسے قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والے بن جاؤ۔اگر کہیں اللہ کا نظام قائم ہو جائے تو اسے قائم رکھو۔
حج اور عمرہ کی انفرادیت اور خصوصیات:
اسلام کے فلسفۂ عبادت میں حج کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔نماز اور روزہ بدنی عبادات ہیں۔ زکوٰۃ مالی عبادت ۔حج کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بدنی عبادت بھی ہے اور مالی عبادت بھی ۔حج میں نماز بھی ہے ، انفاق بھی ہے اور روزہ کی کیفیات بھی ہیں۔حج کو اللہ نے بندوں پراپنا حق قرار دیتے ہوئے کہا ہے:
’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اِس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو
وہ اس کا حج کرے۔۔۔‘‘ (آل عمران: ۹۷)
اسلام میں دعاؤں کی قبولیت کے جس طرح بعض اوقات متعین کیے گئے ہیں، اسی طرح بعض مقامات پر دعاؤں کی قبولیت کا بھی مژدہ سنایا گیاہے۔ان مقامات میں کعبۃ اللہ ، ملتزم ، حطیم ، چاہ زم زم ، صفا، مروہ، مزدلفہ، مقام جمرات، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ، مسجد قبا ،وغیرہ شامل ہیں۔ان مقامات کا تقدس یہ ہے کہ اللہ کے محبوب بندوں کی نسبت ان مقامات سے وابستہ ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ جو بھی اس کاقرب چاہتے ہیں وہ ان مقامات کی زیارت کریں اور ان محبوب بندوں کی سیرتوں کو اپنی زندگیوں میں اختیار کریں۔ظاہر ہے کہ قبولیت کے اوقات تو ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے دستیاب ہیں، لیکن مقامات کی برکت کے حصول کے لیے ان مقامات پر پہنچنا ضروری ہے۔ اسی کی ایک شکل حج اور عمرہ ہے۔
دوسری جانب اسلام کے جملہ عبادات کا اصل مرکز اللہ سے محبت ہے۔ اللہ کے احسانات کے ادراک سے بندہ کے اندرجذبۂ شکر پیدا ہوتا ہے اور یہ جذبۂ شکر بندہ کے اندر اللہ سے شدید محبت پیدا کرتا ہے۔جیسا کہ قرآن میں کہا گیا: ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘ (البقرۃ:۱۶۵)۔اس ’حُبِّ شدید ‘کے نتیجے میں بندہ ’ذکر کثیر ‘کامظاہرہ کرتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں مومن مردوں اور عورتوںکی صفات گناتے ہوئے کہا گیا: ’’اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں‘‘ (الاحزاب:۳۵) ۔اور یہ بات فطری ہے کہ جس سے محبت ہوجاتی ہے دل چاہتا ہے کہ اسے بار بار یاد کیا جائے۔اس سے ملاقات کی جائے۔ اس کے گھر کی زیارت کی جائے۔نماز کے لیے جانا اللہ سے ایک ملاقات اور گفتگو کا موقع ہے۔قرآن پڑھنا، سمجھنا ، اس پر عمل کرنا اور اسے پھیلانا اور اس کے احکامات کو دنیا میں جاری و ساری کرنا، حقیقت میں اللہ سے محبت کا مظاہرہ ہے۔ مسجد سے تعلق اللہ سے محبت کا نمونہ ہے۔اللہ کے بندوں سے محبت کرنا ، اللہ سے محبت کا نتیجہ ہے۔اللہ کے رسولؐ سے محبت بھی تعلق باللہ کا لازمی تقاضا ہے۔حج بیت اللہ ،درحقیقت اسی محبت کا ایک غیر معمولی مظاہرہ ہے۔ ایک بندۂ مؤمن اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے مال خرچ کرتا ہے، دور دراز کا سفر طے کرتا ہے۔ اعزہ اور اقربا اور کاروبار سب کچھ چھوڑ کر اللہ کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے۔ اس کے گھر پہنچ کر اس کے اطراف محبت کے جذبات کے ساتھ طواف کرتا ہے، یہ سب کیفیات اللہ سے محبت کا مظاہرہ ہیں۔
عمرہ کے مناسک کی معنویت:
جہاں تک عمرہ کا تعلق ہے، وہ حج کا بھی حصہ ہے اور اس کے علاوہ بھی اس کے اہتمام کی فضیلت ہے۔عمرہ کو حج اصغر (چھوٹا حج)بھی کہا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی حیات ِ مبارکہ میں ایک مرتبہ حج ادا فرمایا اور چار مرتبہ عمرہ ادا فرمایا۔مسند احمد اور ابو داؤد میں حضرت ابن عباسؓ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ آپؐ نے چار مرتبہ عمرہ کیا ہے،پہلا عمرہ عمرۃ الحدیبیہ تھا(۶ہجری)، دوسرا عمرہ عمرۃ القضا(۷ ہجری)، تیسرا عمرہ صحابہ کے ساتھ جعرانہ کے مقام سے ادا کیا(۸ ہجری) اور آخری عمرہ حجۃ الوداع کے ساتھ ۱۰؍ہجری میں ادا کیا۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرہ کی یہ فضیلت بیان کی ہے کہ ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے تمام (صغیرہ)گناہوں کا کفارہ ہے۔ (مسلم)
احرام کیا ہے؟
عمرہ کے لیے سب سے پہلے احرام باندھنے کا مرحلہ ہے۔ احرام باندھنے سے پہلے غسل کرنا اور بدن پر خوشبو لگانا مسنون ہے۔احرام میں صرف دوغیر سلے ہوئے سفید چادر استعمال کیے جاتے ہیں۔حاجی یا معتمراپنے معمول کے لباس اتار کر احرام میں ملبوس ہوجاتا ہے ۔ احرام کی یہ حالت بندۂ مؤمن کو اپنی موت کی یاد دلاتی ہے۔ اسے اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ جس طرح آج اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے نہتے ہو کر احرام کی حالت میں روانہ ہوچکے ہو، اسی طرح ایک دن دنیا کی مہلت عمل ختم ہوتے ہی تمہیں بھی غسل دے کر خوشبو لگا کر کفن پہنایا جائے گا،اور تم اللہ سے ملاقات کے لیے آخرت کے سفر پر روانہ ہوجاؤ گے۔احرام کی دوسری خصوصیت انسان کی اپنی حیثیت کی یاد دہانی ہے۔ ایک مؤمن خواہ وہ اپنی جگہ امیر ترین آدمی ہو، غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہو، لیکن اللہ کے دربار میں حاضری کے لیے اس کی حیثیت بس ایک انسان کی ہے۔ سارے انسان حقیقت میں ایک نوع ہیں۔سب اللہ کے بندے ہیں۔اس طرح احرام انسان کو اس کی کم مائیگی کااحساس دلاتا ہے ، اس کی ’انا ‘کو ختم کیا جاتا ہے، اور انسانیت کا سبق اسے یاد دلایا جاتا ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے جب آواز دی تو مؤمن اور مسلم کے الفاظ کے بجائے لفظ ’انسان ‘ہی کااستعمال کیاہے۔واذن فی الناس بالحج(لوگوں میں حج کے لیے منادی کرادو۔سورۂ حج:۲۷)۔ وللہ علی الناس حج البیت(لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ اس کے گھر کا حج کرے۔سورۂ آل عمران:۹۷)۔ واقعتا عمرہ کے موقع پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسانوں کا ایک سمندر ہے ، مشرق اور مغرب ، شمال اور جنوب، پوری دنیا سے لوگ کشاکش اللہ کے گھر کے اطراف جمع ہو تے ہیں۔ کالے ہیں،گورے ہیں ، کوئی چھوٹے قد کے ہیں، کوئی اونچے قد کے ہیں، علاقائی پہچان بھی الگ الگ ہے، لیکن سب کی منزل ایک ہے۔تیسری طرف احرام کی حالت میں پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں۔نہ گناہ کا خیال، نہ گناہ کا ارتکاب، نہ کسی کو کوئی تکلیف دے سکتا ہے، کوئی جوں تک نہیں مار سکتا۔ناخن نہیں نکال سکتا۔نہ شہوانی باتوں کی گنجائش، نہ کسی سے جھگڑنے کی اجازت۔ احرام کی یہ کیفیت روزہ کی کیفیت سے مشابہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کر مؤمن کو بے ضرر بنادیتی ہے۔حقیقت میں یہ پہچان مؤمنانہ زندگی کی پہچان ہے کہ اس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔
میقات کی اہمیت:
دنیا بھر سے عمرہ اور حج کے لیے مختلف جہات سے آنے والے حجاج اور معتمرین کے لیے الگ الگ ’میقات ‘متعین کیے گئے ہیں۔میقات وہ مقامات ہیں جہاں سے عمرہ کے لیے تشریف لانے والے احرام کی حالت ہی میں داخل ہوسکتے ہیں۔معتمرین میقات پہنچ کر عمرہ کی نیت کرتے ہیں اور نفل ادا کرتے ہیں۔میقات دراصل اس بات کی علامت ہے کہ یہاں سے تمام معتمرین کا رخ کعبۃ اللہ کی جانب ہوجاتا ہے۔ ہر طرف سے لوگ اللہ کے گھر کی طرف یکسو ہوجاتے ہیں، جیسے قیامت کے روز تمام انسانوں کا رخ دربارِالٰہی کی جانب ہوگا۔
لبیک کی صدائیں:
احرام کی حالت میں سب کی زبانوں پرلبیک کی یہ صدائیں گونچتی ہیں:
’’ لبیک اللھم لبیک، لیبک لا شریک لک لبیک، ان الحمد، والنعمۃ لک والمک، لا شریک لک‘‘
’’میں حاضر ہوں، اے اللہ ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک تعریف، نعمت اوربادشاہی تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں‘‘
حقیقت میں یہ صدائیں خدائے ذو الجلال کی اس دعوت ِحج کا جواب ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ عام کی گئی تھی۔
’’ اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں، تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں۔‘‘(الحج: ۲۷۔۲۸)
دوسری جانب اس لبیک کی حاضری کے الفاظ (بالخصوص ’بادشاہی تیری ہے‘)میں بندۂ مؤمن کے لیے بڑا پیغام یہ ہے کہ وہ توحیدِ خالص کو اپنی زندگیوں میں اپنائیں۔ توحید کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم ہو، اسلامی تعلیمات نافذ ہوں،اس کا دین قائم ہو۔اسی صورت میں اللہ کی حقیقی بادشاہی دنیا میں قائم ہوسکتی ہے۔
بیت اللہ کا دیدار:
مکہ پہنچتے ہی سب سے پہلی فکر یہی دامن گیر رہتی ہے کہ جلد سے جلد کعبۃ اللہ کے دیدار سے ہمکنار ہوا جائے۔ مسجد حرام کے پرکیف ماحول سے ہوتے ہوئے جب بالآخربیت اللہ پر نظر پڑتی ہے تو ہر حاجی اور معتمر کا یہی احساس ہوتا ہے’’کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر۔۔۔ کیا چیز ہے دنیا بھول گیا۔‘ ‘ زبان سے اللہ اکبر کے الفاظ نکل آتے ہیں۔کعبۃ اللہ کے دیدار سے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری مراد پوری ہوگئی۔ اللہ کے گھر کادیدار آنکھوں کو سرور اورٹھنڈک پہنچاتا ہے۔خوشی کے آنسو نکل آتے ہیں۔دل سے دعا نکلتی ہے کہ اے اللہ جس طرح تو نے اپنے گھر کے دیدار سے ہمیں نوازا ہے ، اسی طرح کل قیامت کے دن ہمیں اپنے دیدار سے بھی نواز، ہمیں اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے۔اللہ نے اپنے اس گھر کی تعریف یوں بیان کی :
’’بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں، ابراہیم کا مقام عبادت ہے، اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہوگیا۔‘‘(آل عمران: ۹۷)
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کے دوران اپنی ذریت میں سے ایک نبی اور امت مسلمہ کی بعثت کی دعا کی تھی۔اللہ نے ان کی دعا کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو امام الانبیاء اور خاتم النبیین کی حیثیت سے مبعوث کیا اور ہمیں خیر امت اور امت وسط بنا کر انسانوں کی ہدایت و اصلاح کا سامان کیا۔ حج اور عمرہ کے ذریعے وحدت امت کا عظیم پیغام یاد دلایا گیا کہ جب تمہارا قبلہ ایک ہے تو تمہیں بھی ایک ہوجانا چاہیے۔علامہ اقبال نے اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:
حرم پاک بھی ،اللہ بھی ،قرآں بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ،ہوتے جو مسلماں بھی ایک!
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
طواف کے لیے اضطباع:
طواف شروع کرنے سے پہلے حاجی یا معتمر کو اضطباع کرنا چاہیے۔ اضطباع کے معنی اپنے داہنے کندھے کو کھلا رکھنے اور چادر کو داہنے ہاتھ کے نیچے سے لیکر بائیںکندھے پر ڈالنے کے ہیں۔ احرام اور اضطباع کی حالت اللہ رب ذو الجلال کے سامنے عجز و انکساری کی علامات ہیں۔ اس حالت میں ہر مؤمن کو فخر اور تکبر سے آزاد کرایا جاتا ہے ۔کندھا کھلا ہے، سر بھی کھلا ہے اورلباس بھی انتہائی سادہ ہے، آخر اللہ کے روبرو ہماری حیثیت اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ ہم اس کے غلام ہیں۔
حجر اسود کا استلام:
طواف کے آغاز کے لیے حجر اسود کو چھونا اور بوسہ دینا مسنون ہے۔اسے استلام کہا جاتا ہے۔اکثر و بیشتر بھیڑ کی حالت ہوتی ہے۔ حجر اسود کو چھونے کے لیے لوگ دوسروں کو تکلیف دیتے ہیں، جبکہ احرام کا ایک پیغام بے ضرر ہونا بھی ہے۔ اکثر حاجی اس پہلو کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ’حجر اسود ‘وہ کالاپتھر ہے جسے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جنت سے لاکر دیا اورحضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبۃ اللہ پر نصب کیا ۔رسول اللہ ؐ نے ، جب آپؐ کی عمر ۳۵؍سال کے آس پاس تھی، سیلاب کے بعد کعبۃ اللہ کی از سر نو تعمیر کے موقع پر حجر اسود کی تنصیب کے مسئلہ کو حل کیا تھا۔ حدیث میں حجر اسود کو ’’ید اللہ علی الارض‘‘(زمین پر اللہ کا ہاتھ )تمثیلی معنی میں کہا گیا ہے۔جیسا کہ قرآن میں صحابہ کی آپؐ پر بیعت کے موقع پر یہ آیت اتری کہ ’’ید اللہ فوق ایدیھم ‘‘کہ ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ تھا۔حجر اسود کو چھونا اور بوسہ دینا درحقیقت اللہ سے اپنے عہد اطاعت کو تازہ کرنا ہے کہ اے اللہ ہم تجھ سے اس بات کا معاہدہ کرتے ہیں کہ زندگی بھرتیری پیروی پر قائم رہیں گے۔
طوافِ کعبہ کی حکمتیں:
حجر اسود کے استلام سے طواف کا آغاز ہوتا ہے۔طواف ،کعبہ کے اطراف سات چکر لگانے کو کہا جاتا ہے۔ سات کا عددایک مسلسل عمل یا لا محدود تعدادیا کُل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ہفتے کے سات دن ہیں، یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ سات بر اعظم ہیں۔سات آسمان ہیں۔انفاق کی برکت یہ بیان کی گئی کہ ایک بیج بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو سو دانیں ہیں۔اللہ کے احسانات لکھنے کے لیے سات سمندروں کو سیاہی بناکر استعمال کرنے کی تمثیل ہے۔اس طرح طواف کے لیے بھی سات چکر رکھے گئے ہیںجس میں دوام کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔طواف دائرہ کی شکل میں کیا جاتا ہے ، جس کا اختتام نہیں۔طواف کا رخ گھڑی مخالف سمت ہے۔اس کی بڑی وجہ اللہ کی کائنات کا نظام ہے۔ کائنات کی ہر چیز گھوم رہی ہے اور وہ گھڑی مخالف سمت ہی گھوم رہی ہے۔ سورج کے اطراف زمین کا چکر، زمین کے اطراف چاند کا چکر، نظام شمسی کا اپنا چکر۔۔۔سب اسی رخ پر ہیں۔ طواف کی یہ سمت ہمیں کائنات سے ہم آہنگ کردیتی ہے۔اللہ کے نظام کے تحت طواف بھی قائم ہے۔کائنات کا جو محور ہے وہ خدا کی ذات ہے۔ اس طرح طواف ہمیں خود مرکزیت سے خدا مرکزیت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔طواف اظہار محبت بھی ہے۔ جیسے تتلی پھولوں کے اطراف گھومتی ہے، پتنگے شمع کے ارد گرد گھومتے ہیں، اہل ایمان بھی اللہ کے گھر کے اطراف محبت کے جذبات کے ساتھ گھومتے ہیں۔
طواف کے دوران کی دعا:
طواف کے دوران جب معتمر رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان سے گزرتا ہے تو ’’ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ‘‘کا ورد کرتا ہے۔ ’’اے ہمارے رب ہمیںدنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا‘‘۔عمرہ کے دوران اس دعا کی بھی بڑی معنویت ہے۔ اسلام ایک فطری مذہب ہے۔دنیا ہماری ضرورت ہے اور آخرت ہمارا مقصود ہے۔اسلام میں دونوں جہانوں میں کامیابی کے لیے دعا سکھائی گئی ہے۔اس دعا کا تعلق طواف سے بھی ہے اور سعی سے بھی۔ طواف کا تعلق اللہ سے ہے اور سعی کا تعلق بندوں سے ہے۔دونوں حقوق کی ادائیگی کا نام اسلام ہے۔ سورۂ بقرہ میں حج کے مناسک کے تذکرہ کے ساتھ اسی دعا کی تلقین کی گئی ہے ۔ (البقرۃ: ۲۰۱)۔اس کی مزید تشریح آگے ملاحظہ فرمائیں۔
مقام ابراہیم :
طواف کی تکمیل پر مقام ابراہیم کے قریب یا جگہ نہ ملنے پر حرم میں کسی بھی جگہ دو رکعت نماز پڑھی جاتی ہے۔یہ نماز اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت ہے کہ :
واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی’’ اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنالو‘‘ (البقرۃ: ۱۲۵)
یہ نماز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کی یاد دلاتی ہے کہ جب جب اللہ نے انہیں آزمایا ، تب تب انہوں نے اللہ کے امتحان میں ثابت قدمی دکھائی، جس کے نتیجے میں اللہ نے انہیں امام الناس بنایا اور کعبۃ اللہ کی تعمیر کا شرف بخشا۔اس کے بعد ان کی جائے نماز کو قیامت تک کے لیے مصلی بنادیا گیا۔اللہ نے اس عمل میں ہمارے لیے یہ سبق رکھا ہے کہ اگر تم میرا قرب چاہتے ہو تو میرے قریب جو بندے تھے، ان کی زندگی کو اختیار کرو،بالخصوص حضرت ابراہیم ؑ کا طریقہ، جنہیں اللہ نے اپنا دوست قرار دیا۔دوسری جانب اس نماز میں مسنون یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون کی تلاوت کی جائے اور دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھی جائے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ ہم سورۂ کافرون کے ذریعہ شرک اور کفر کے تمام مظاہر سے اپنی برأت کا اعلان کریں اور سورۂ اخلاص کے ذریعہ توحید پر اپنے ایمان کا اظہارکریں۔
زم زم:
نماز طواف کے بعد چاہ زم زم کی طرف رخ کیا جاتا ہے۔ زم زم پیتے ہوئے پھر دعائیں کی جاتی ہیں۔زم زم کی تاریخ معروف ہے۔ زم زم دراصل اس ماں (حضرت ہاجرہ علیہا السلام)کی سعی و جہد کو یاد دلاتا ہے جو اپنی شیرخوار (حضرت اسماعیل علیہ السلام)کی پیاس کو بجھانے کے لیے کی گئی تھی۔اسی یاد کو مستحضر کرنے کے لیے معتمرین زم زم پینے کے بعد صفا اور مروہ کی طرف سعی کے لیے رخ کرتے ہیں۔
صفا اور مروہ کی سعی:
اللہ نے اپنی بندی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی قربانیوں کو اتنا بڑا مرتبہ عطا کیا کہ جن پہاڑیوں کی انہوںنے سعی کی ، ان کو اپنے شعائر میں شامل کر کے قیامت تک کے لیے حج اور عمرہ کے مناسک کا حصہ بنادیا۔ہم جانتے ہیں کہ اس بھاگ دوڑ کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم کے تحت اپنی اہلیہ اور بچے کو اس بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑدیا تھا، جس کو حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے اللہ کے حکم کی تعمیل میں برضا و رغبت قبول کرلیا۔ کھانے پینے کی چیزیںختم ہوئیں۔ بچے کو پیاس لگی، ماں حضرت ہاجرہ ؑ پانی کی تلاش میںکبھی صفا پر چڑھتیں تو کبھی مروہ پر چڑھتیں کہ کہیں سے کچھ مل جائے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام ایڑیاں رگڑتے ہیں، اللہ کے اذن سے پانی کا چشمہ ابل پڑتا ہے، اور یہی چشمہ زم زم کہلاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس پورے منظرنامے کو قیامت تک کے لیے یادگار بنادیا۔یہ واقعہ بخاری شریف (کتاب الانبیاء)میں حضرت ابن عباس ؓ سے تفصیل کے ساتھ مروی ہے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے بچے کی مادی ضرورت پوری کرنے کے لیے دوڑ لگائی تھی۔’سعی ‘کے معنی کوشش کرنے اور دوڑنے کے ہیں۔اس طرح صفا اور مروہ کی سعی حقیقت میں یہ پیغام پیش کرتی ہے کہ اپنی معاش کے لیے دوڑ دھوپ کرنا عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔ اسی لیے اس دعا کو حج اور عمرہ کا حصہ بنادیا گیا کہ اے اللہ ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطافرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما۔
حلق یا تقصیر:
عمرہ کا اختتام حلق یا تقصیر سے ہوتا ہے۔ حلق کرنا ،سر کے بال منڈوانے کو کہاجاتا ہے، جبکہ تقصیر بال چھوٹے کروانے کو کہا جاتا ہے۔حلق افضل ہے ، جبکہ تقصیر کی بھی اجازت ہے۔ اس عمل کا اصل مقصد معتمر کے اندر جذبۂ قربانی پیدا کرنا ہے۔انسانی جسم میں چہرے کے مقام اورچہرے میں سر کے بال کی اہمیت سے ہر کوئی واقف ہے۔ سر کے بال انسان کی شان ہوتے ہیں۔ انسان کی خوب صورتی اس سے وابستہ ہوتی ہے۔اسی احساس کے تحت انسان اپنے بالوں کی خوب حفاظت کرتا ہے۔ جس کے بال گرنا شروع ہوجاتے ہیں، وہ ان کو بحال کرنے اور بقیہ کومحفوظ رکھنے کے لیے کئی کئی جتن کرتا ہے۔عمرہ میں علامتی طور پر اس عزیز چیز کو قربان کروایا جاتا ہے کہ اللہ کے حکم کے سامنے اس شان و شوکت کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے۔ دوسری توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بال منڈوانا اپنی پرانی زندگی اور پرانی روش کو بھلا کر ایک نئی زندگی کا آغاز کرنے کا نام بھی ہے۔
عمرہ کا پیغام:
عمرہ درحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے گھروالوں کی ان عظیم قربانیوں کی یادگار ہے جو انہوں نے اللہ کے دین کی خاطر دی تھیں۔عمرہ کے سفر میں معتمرین ،مکہ اور مدینہ کے اہم مقامات کی بھی زیارت کرتے ہیں، جن سے آل ابراہیم کی طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے زمانے کی یاد تازہ ہوتی ہے اور ان کی قربانیاں سامنے آتی ہیں۔ مکہ کے حالات، اسلام کی دعوت، دشمنوں کی سازشیں، ایذا رسانی، ہجرت کا عظیم مجاہدانہ واقعہ، پھر اسلام کے فروغ اور غلبہ کے لیے غزوات کا سلسلہ، ایک اسلامی اسٹیٹ کا قیام، فتح مکہ کے مناظر، اسلامی شریعت کی تکمیل، یہ سارے پہلو ایک معتمر کے روبرو تذکیر کے طور پر سامنے آجاتے ہیں۔یہی وہ مشاہداتی تجربات ہیں جن سے ایک معتمر گزرتا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ اور ان کے گھر والوں کی سیرت، حضور ﷺ اور صحابہ کرام کی سیرت کے پیغام سے منور ہوکر واپس آتا ہے۔یہی جذبہ حرم کا حقیقی تحفہ ہے، جس کے ذریعہ اگر حاجی یا معتمراپنے مقام پر اللہ کے دین کا سپاہی بن جائے ، اللہ کے دین پر خودعمل کرنے والابن جائے، اس کے دین کو پھیلانے اوراپنے ملک میں اسلام کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنے لگے تو صحیح معنوں میں اس نے عمرہ کا پیغام پالیا ہے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2016