روزگار کے لیے نقل مکانی

سفینہ عرفات فاطمہ

نقل مکانی اورہجرت انسانی تہذ یب و تمدن کی  تاریخ کا ایک باب ہے ۔ اپنے گھر‘اپنے شہر‘اپنے وطن سے بے حد جذبا تی وابستگی کے باوجود انسان روزگار اور ایک بہتر مستقبل کے لیے نقل مکانی پرمجبور ہوتا ہے۔ ایک ایسی نامانوس زمین پر قدم رکھتا ہے، جہاں لوگ زبان، لہجہ، ماحول اورموسم سب کچھ اجنبی اورناآشنا ہوتا ہے۔ وہاں نہ دھوپ میں سائے جیسی مہربان ماں ہوتی ہے’ نہ شفیق باپ کا سائبان ‘نہ بہن کی بے پناہ محبت ‘ نہ بھائی کا حوصلہ افزاء ساتھ، نہ شریک سفر کی تسکین بخش رفاقت، نہ تھکن سے نڈھال جسم وجاں کو راحت اور سرشاری عطاکرنے والی‘ بچوں کی موجود گی ۔

خلیج میں کام کرنے والے

خلیجی ممالک میں لاکھوں ہندوستانی  ورکرزکارکردہیں ۔ firstpost.comکے بموجب صرف متحدہ عرب امارات میں 1.8 ملین ہندوستانی کام کررہے ہیں جن میں سے 45 ہزارغیرقانونی تارکین وطن ہیں۔وقفہ وقفہ سے ان ورکرزکی روزگار سے محرومی‘ آجرکی ہراسانی‘ اجرت کی عدم ادائیگی ‘ تکلیف دہ حالات میں محنت مشقت ‘ خود کشی‘ غیر طبعی اموات‘ حادثات میں ہلاکتیں اورحراست کی خبریں پڑھنے کوملتی ہیں۔  اکنامک ٹائمز (2اگست2016 ) کے مطابق خلیجی ممالک میں مقیم 87 فیصد ہندوستانی ورکرز نے ہندوستانی سفارت خانوں سے ہراسانی اور استحصال کی شکایات کی ہیں۔

سعودی عرب میں روزگار سے محروم ہزاروں ہندوستانی ورکرز کوغذا بھی میسر نہیں ہے ۔وزارت خارجہ کی جانب سے لوک سبھا میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق پچھلے تین برسوں میںنوممالک سے ہندوستانی ورکرز کی ہندوستانی سفار ت خانو ں کو 55,119 ہراسانی اور بدسلوکی کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ان مما لک میں سعودی عرب‘قطر‘کویت اور ملیشیا شا مل ہیں۔

اجرت کی عدم ادائیگی‘ تنخواہ میںتاخیر‘کم معاوضہ ‘  لیبرکارڈ اورویزا کی عدم تجدید‘معاہدہ ختم ہونے کے بعد رخصت نہ دینا ‘ٹکٹ فراہم نہ کرنا ‘علاج ومعالجہ کا  خرچ برداشت کرنے سے آجر کا انکار ‘زبردستی پاسپورٹ تحویل میں رکھنا اورخروج اور دوبارہ آمد کی اجازت کو نامنظورکرنا جیسی شکایتیں عام ہیں۔

وزیرخارجہ سشماسوراج نے حالیہ عرصہ میں سعودی عرب میں روزگار سے محروم اورکئی مہینوں سے اجرت کی عدم ادائیگی سے پریشان ہندوستانی ورکرز کو مشورہ دیا ہے کہ وہ  اپنے وطن واپس لوٹ آئیں ۔ ہندوستانی حکومت نے سعودی عرب سے یہ خواہش کی ہے کہ بے روزگار ورکرزکو ایکزٹ ویزا اور این اوسی جاری کرے ۔ خلیجی ممالک میں ہندوستانی ورکرز کی اموات کا تناسب دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ دکن کرانیکل کی ایک رپورٹ (22مارچ2016) کے مطابق ہرسال شمس آباد ایرپورٹ حیدرآباد پر تقریبا ً500بیرون ملک برسرروزگار افراد کی نعشیںپہنچتی ہیں ۔ 2015ء میں 426 ورکرز کی نعشیں خلیجی ممالک سے حیدرآباد پہنچیں۔ خلیجی ممالک میں فوت ہونے والے زیادہ تر ورکرز کی عمر25 سے 45سال کی درمیان ہوتی ہے ‘ ان میں سے بیشترکاتعلق کریم نگر‘ نظام آباد اور مشرقی و مغربی گوداوری اور کڑپہ ضلع سے ہوتا ہے۔

مشکلات ومسائل

رپورٹ میں طبی ماہرین کے حوالے سے یہ بات کہی گئی ہے کہ ورکرز دن میں پچاس ڈگری سیلسیس درجہ حرارت میں کام کرنے اور رات کو کولر میں محوخواب ہونے سے ‘ ڈی ہائیڈریشن اور ہیٹ اسٹروک سے متاثر ہوتے ہیں ۔کھانے پینے میں بداحتیاطی کے سبب شوگر اور بی پی کی شکایات ہوجاتی ہیں۔کچھ ورکرزذہنی تنائو اور تنہائی کو جھیل نہیں پاتے اور خودکشی کرلیتے ہیں اورکچھ سڑک حادثات کی نذر ہوجاتے ہیں ۔خلیجی ممالک میں تلنگانہ کے دس لاکھ اور آندھراپردیش کے دس لاکھ افراد برسرروزگار ہیں۔ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جووہاں غیرقانونی طورپرمقیم  ہیں ۔

’’دی ہندو‘‘(14 جون2016 ء) کے مطابق خلیجی ممالک میں رہنے والے 35 لاکھ ہندوستانیوں میں سے 9 لاکھ کا تعلق تلنگانہ سے ہے۔لانگ آئی لینڈ یونیورسٹی بروکلین‘نیویارک سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسرسید علی نے اپنے مقالے ”The Culture of Migration among  Muslims in Hyderabad” میں حیدرآبادی مسلمانوں میں روزگار کے لیے نقل مکانی کے رجحان کا جائزہ لیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں: 1970ء سے حیدرآبادیوں کی روزگار کے لیے خلیجی ممالک کو نقل مکانی عام بات ہے ۔1984ء اور 1986ء میں کیے گئے random sample survey کے مطابق پرانے شہرحیدرآباد کے 21 فیصد مسلم خاندانوں میں کم از کم ایک رکن ِخاندان خلیج  میں روزگارسے وابستہ تھا ۔

خلیجی ممالک میں برسرروزگار افراد کا ترسیل زر ان کے ارکان ِ خاندان کے خرچ کے انداز کو بدل دیتا ہے۔ سماجی رتبہ میں بھی فرق آتاہے ۔سید علی کاکہنا ہے:’’اگر لڑکا migrant ہوتوجہیزکامطالبہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایک migrant لڑکا(یاپھرلڑکی )شادی کے لیے پسندیدہ ہوتے ہیں ‘حتی کہ حیدرآباد میں ‘ میںنے چند ایسی شادیاں بھی دیکھی ہیں کہ خلیجی ممالک میں لیبرکے طور پر کام کرنے والے لڑکوں کی ڈاکٹراور دیگرپروفیشنل ڈگری رکھنے والی لڑکیوں سے شادی ہوئی۔ ‘‘

حیدرآبادمیںشاید ہی کوئی ایسا خاندان ہوجس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار ’’باہر‘‘ نہ رہتا ہو‘ بیٹایا بھائی ‘ شوہریا  داماد‘ کزنز‘چاچا یا ماما‘ بھانجے یابھتیجے بیرون ملک برسرروزگارہوں گے۔اوران کی کامیابی اورناکامی کی کہانیاں بھی۔سینکڑوں افراد نے بیرونی ممالک میں ملازمت سے معاشی آسودگی حاصل کرلی‘اورکئی ناکام و نامرادلوٹ آئے۔کسی کے سماجی رتبہ میں اضافہ ہواتو کسی کے حصے میںناکام واپس لوٹ آنے کے عمر بھر کے طعنے۔کسی نے اپنی عمر کے بہترین سال صحرائوں کی نذرکردیئے‘ واپس آنے سے کبھی قرض نے روکا‘کبھی فرض نے‘ کبھی ضرورتوں نے زنجیریں پہنادیں‘کبھی سماجی دبائو نے راستہ روکا‘کبھی خواہشوں کے بھنورپائوں میں۔

سماجی اثرات

کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ضعیف بیمار ماں ‘ بستر مرگ پراپنے لخت جگرکاانتظارکرتے کرتے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موندلے اوربیٹاماں کاآخری دیداربھی نہ کرسکے۔ایک کسک ماںاپنے ساتھ لے جائے اور ایک خلش بیٹے کوتاعمر بے قرار رکھے ۔یہ بھی مشاہدہ رہا ہے کہ والدبیرون ملک برسرروزگارہواوربچوں کا کوئی مردنگران یاسر پرست نہ ہوتو وہ ماں کے کنٹرول سے باہر ہوجاتے ہیں۔اور نامناسب سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ بیشترایسی لڑکیوں اورخواتین کو جن کے شوہر بیرون ملک ملازمت کرتے ہیں اوردوتین کبھی چارپانچ برس تک تنہاء چھوڑجاتے ہیں‘ وہ چاہے سسرال میں رہ رہی ہوں یا میکے میں انہیںمتعددسماجی وجذباتی اورکبھی معاشی مسائل کاسامناکرناپڑتا ہے۔

ایک خاتون کے شوہرپچھلے پانچ سال سے بیرون ملک مقیم ہیں۔اوروہ اپنے ضعیف ساس سسر اوردیگر رشتہ داروں کے ساتھ رہ رہی ہیں‘معاشی ضرورت اور تقاضوں سے قطع نظر کیایہ درست ہے کہ بیوی کو اتنی لمبی مدت تک تنہا رہنے پرمجبورکیا جائے۔اسلامی نقطہ نظر سے بھی طویل عرصہ تک بیوی کو تنہاء چھوڑنامناسب نہیں۔ اوراگرعمررسیدہ ماں باپ کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہ ہو‘ اس صورت میں انہیں انتظار‘ تنہائی اور جذباتی اذیت سے دوچارکرنا بھی ٹھیک نہیں۔نقل مکانی کا ایک تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ بیرون ملک برسرروزگارافرادکی نجی زندگی شدیدمتاثر ہورہی ہے اورطلاق وخلع کے واقعا ت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ یاپھرخواتین ’معلقہ‘ کی حیثیت سے اپنے ماں باپ کے گھر رہ رہی ہیں۔

مسئلہ توان نوبیاہتا لڑکیوں کا بھی ہے جن کے آنگن میں طویل عرصہ تک انتظارکاموسم ٹھہرجاتا ہے ۔ اور کبھی کبھی توشوہرکے انتظارکاصلہ’’ طلاق‘‘ کی صورت میں ملتا ہے۔ایک پروفیشنل گریجویٹ لڑکی کی شادی بیرون ملک برسرروزگارلڑکے سے ہوئی‘ روایت کے مطابق ایک مہینے بعد وہ واپس لوٹ گیا‘ اورادھر چھوٹی چھوٹی باتوں پراختلافات پیدا ہونے لگے‘ بے جا پابندیاں‘سسرال والوں کانامناسب رویہ ‘ہوسکتا ہے لڑکی کی بھی غلطی رہی ہو‘وہ سسرال میں ایڈجسٹ نہ کر پائی ہولیکن جب مفاہمت کی کوشش کی گئی تو لڑکے کے والدین نے لڑکی والوں کے سامنے متعدد شرطیں رکھ دیں‘ جیسے لڑکا باہر سے لوٹ کرنہیں آئے گا‘ جوبات کرنی ہے ہم سے کی جائے‘لڑکی میکے نہیں جائے گی‘ لڑکی ماں باپ کو فون نہیں کرے گی ‘ اور اگرسسرال میں خدانخواستہ لڑ کی کو کچھ ہوجائے تو اس کے سسرال والے ذمہ دار نہ ہوں گے۔ساس سسر کے رویہ سے دل برداشتہ اس لڑکی کی اپنے شوہر سے رابطہ کی ہرکوشش ناکام ثابت ہوئی ‘ نہ اس نے فون ریسیو کیا ‘ نہ ای میل کا جواب دیا نہ ایس ایم ایس کا‘ لڑکی کے والدین نے مجبورہوکرخلع کا فیصلہ کیا لیکن لڑکی اپنے شوہرسے علیحدہ نہیں ہونا چاہتی تھی‘ وہ شوہرسے ایک باربات کرناچاہتی تھی‘ لیکن اس نے تمام رابطے منقطع کرلیے‘ اوررابطہ کیابھی تو طلاق کے ذریعہ ‘اس نے بذریعہ ڈاک بیرون ملک سے ’طلاق نامہ‘ بھیج دیا۔

بہتر متبادل

My Choices نامی غیرسرکاری تنظیم سے وابستہ سماجی جہدکارنورجہاں صاحبہ کے مطابق اکثر لڑکے شادی کے پندرہ دن یا مہینے دومہینے بعد اپنی بیوی کو چھوڑکربیرون ملک لوٹ جاتے ہیں۔اتنے کم وقت میں وہ ایک دوسرے کوسمجھ نہیں پاتے‘زوجین کی ایک دوسرے سے دوری غلط فہمیوں کوجنم دیتی ہے۔اگر گھریلو اختلافات‘شک وشبہات اورغلط فہمیاںبڑھ جائیں تو طلاق اور خلع کے واقعات رونماہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک کیس کا ذکرکیاکہ ایک خاتون کوتین بچے ہیں‘گھریلو لڑائی جھگڑوں کے سبب اس کے شوہر نے باہر ہی سے اسے طلاق دے دی‘اورتینوں بچے اس کی ساس کی تحویل میں ہیں۔

ارکان خاندان کے لیے معاشی جدوجہد ایک  پسندیدہ عمل ہے۔کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اپنے ہی شہر‘اپنے ہی وطن میں ذریعہ معاش تلاش کیا جائے‘ اگر روزگارکے لیے بیرون ملک جاناناگزیر ہو جائے یاکوئی عمدہ موقع ہو‘حالات سازگارہوں‘ارکان ِخاندان کی تمام ضرورتوں کی تکمیل کے لیے کوئی ذمہ دار موجودہو تواس موقع سے فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے‘ لیکن اس صورتحال میں جبکہ مرد کی غیرموجودگی میں گھراور گھروالوں کا کوئی مردنگران اور سرپرست نہ ہو‘ بیرون ملک جانا اورطویل قیام مناسب نہیں ۔ مرد ’قوام ‘ ہے‘ بحیثیت ’قوام‘وہ گھرکاسربراہ ‘اپنے اہل خانہ کا نگران اور سرپرست ہے۔اس کی غیر موجودگی متعدد سماجی اور اخلاقی مسائل پیداکرسکتی ہے۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2018

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau