مل جل کر رہنے کی تاریخ

دفاع و مدد

یک جہتی و ہم آہنگی کی انتہائی موثر مثال یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر غیر مسلمین اپنے مسلمان بھائیوں کو مدد فراہم کیا کرتے تھے اور مقامی یا بیرونی حکام کی جانب سے کسی کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا تھا تو اسے پناہ دے دیا کرتے تھے۔ چنانچہ اندلسی امام طالوت بن عبدالجبار المعافری ، جنھیں امام ذہبی نے ‘سیر اعلام النبلاء’ میں ‘عالم باعمل’ کہا ہے، اندلس کے اموی حاکم ‘الحَکم الاول’کی پکڑ دھکڑ سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ایک سال تک ایک یہودی کے گھر میں خود کو چھپائےرہے۔ اس کے بعد وہاں سے نکل کر وزیر ابو البسام کے گھر میں پناہ کے لیے اس کے پاس گئے ، لیکن اس نے انھیں الحکم کے حوالے کر دیا۔’’

اموی حاکم اس پر خاموش نہ رہ سکا ۔ اس نے اپنے وزیر سے کہا: ‘ان کے علمی و مذہبی مقام و مرتبے کا خیال کرتے ہوئے ایک یہودی نے تو ان کی حفاظت کی اور اپنے گھر میں پناہ دی، لیکن جب وہ تیرے پاس پناہ کی غرض سے آئے تو تو نے ان کے ساتھ غداری اور دھوکہ کیا۔’ اس کے بعد حاکم نے وزیر کو برطرف کر دیا اور اس وفادار و نیک طینت یہودی کو خلعت و انعامات سے نوازا ۔ اس واقعے میں یہ بھی مذکور ہے کہ یہودی نے اس عمدہ سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرلیا اور اس کا یہ واقعہ پورے اندلس میں ذمیوں کے ساتھ وفاداری کے لیے ضرب المثل بن گیا۔

خطیب بغدادی نے ‘تاریخِ بغداد’ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے، جسے بعد میں قاضی عیاض (م: ۵۴۳ھ/۱۱۴۸ء) نے ‘ترتیب المدارک’ میں امام دار قطنی کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ بغداد کے قاضی قضاة (چیف جسٹس) اور عراق میں مالکی مسلک کے مبلغ اسماعیل بن اسحاق مالکی (م: ۲۸۲ھ/۸۹۵ء) کے پاس عباسی وزیر عبدون بن صاعدآیا، جو کہ ایک عیسائی شخص تھا۔ قاضی قضاة نے وزیر کو خوش آمدید کہتے ہوئے کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا تو انھیں حاضرین کی طرف سے ناپسندیدگی کا احساس ہوا۔ وزیر واپس چلا گیا تو قاضی قضاة نے حاضرین سے کہا: مجھے محسوس ہوا کہ میرا اٹھ کر ایک عیسائی شخص کا استقبال کرنا تمھیں ناگوار گزرا۔ دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَا ینْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یقَاتِلُوكُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یخْرِجُوكُمْ مِنْ دِیارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ[الممتحنة: 8]

(جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا)

یہ شخص (عیسائی وزیر) تو مسلمانوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہے، وہ ہمارے اور خلیفہ کے درمیان سفیر کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ نیکی کا کا م ہے۔ یہ سن کر حاضرین خاموش ہو گئے۔

صلیبیوں کے ساتھ کشمکش کے دوران ‘عکا’ کے مقام پر مسلمانوں کے خلاف صلیبیوں کا محاصرہ شدید صورت اختیار کر گیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی (م: ۵۸۹ھ/۱۱۹۳ء) نے مسلمانوں کی مدد کے لیے اشیائے ضروریہ سے لدا ہوا جہاز روانہ کرنے کا حکم دیا۔ محاصرے کو توڑنے کی مہم میں بیروت کے مسلمانوں اور عیسائیوں نے محصورین کی مدد کی۔ یہ مددگار مسلمان اور عیسائی جہاز کو اس عمدہ حکمت عملی کے ساتھ لے کر چلے کہ صلیبیوں کی سخت ترین نگرانی کے باوجود عکا میں داخل ہو گیا۔ ابن کثیرؒ بتاتے ہیں کہ تاتاریوں نے عباسی دار الخلافت بغداد پر(۲۶۵ھ/۱۲۵۸ء) حملہ کیا تو لوگ ‘‘مسجدوں، جامع مسجدوں اور مسافر خانوں میں چھپ گئے۔ اور یہودی و عیسائی [ذمیوں] اور ان مسلمانوں کے علاوہ کوئی نہیں بچا جنھوں نے ان ذمیوں کے گھروں میں پناہ لے لی تھی۔’’

آج سے ایک صدی قبل ۱۹۱۹ء میں ایک مشہورحادثہ اس دوران پیش آیا تھا جب مصریوں نے انگریزی تسلط کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ قبطی پادری جس کا نام ‘سرجیوس’ تھا، جامع ازہر میں داخل ہوا۔ یہ جامع ازہر کی تاریخ میں پہلا مسیحی فرد تھا جو اس کے منبر پر چڑھا تھا۔ اس منبر سے بھی اور جامع احمد بن طولون کے منبر سے بھی اس نے سرکردہ مسلم علما کی موجودگی میں متعدد انقلابی تقریریں کی۔

شادی و خوشی کی تقریبات

اسلامی تہذیب کے ادوار میں ایسا نہیں تھا کہ غم و اندوہ کے مواقع پر ہی دیگر مذاہب کے ماننے والے ایک ہو جایا کرتے ، بلکہ یہ مذہبی ہم آہنگی خوشی و مسرت کے مواقع پر بھی خوب دیکھی جاتی ۔ اس کی ایک مثال وہ تاریخی استقبال ہے جس کا اہتمام عہد مملوکی کے قاہرہ میں پہلے عباسی خلیفہ ‘المستنصر’ (م: ۶۶۰ھ/۱۲۶۲ء) کی آمد پر کیا گیا تھا۔ ۸ رجب ۶۵۹ھ/۱۲۶۱ء خلیفہ مستنصر کا قافلہ پہنچا تو سلطان ظاہر بیبرس (م: ۶۷۶ھ/۱۲۷۷ء) گھوڑے پر سوار ہو کر اس سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا ۔ سلطان کے ساتھ اس کا وزیر، قاضی قضاة (چیف جسٹس)، عوام و امرا، قراء وموذنین ،نیز یہودی اپنی تورات کے ساتھ اور عیسائی اپنی انجیل کے ساتھ اس کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ۔۔۔،’’ مورخ قطب الدین الیونینی کے مطابق ‘‘ وہ دیکھنے کےلائق دن تھا۔’’

۶۹۰ھ/۱۲۹۱ء میں مملوک سلطان اشرف خلیل بن قلاوون (م: ۶۹۳ھ/۱۲۹۴ء) صلیبی تسلط سے شہر عکا کو آزادی دلانے کے بعد جب دمشق میں داخل ہوا تو ‘‘اہل دمشق کا ایک فرد بھی ایسا نہیں تھا جو (اس کے استقبال کے لیے) نکل نہ آیا ہو۔ دمشق کے علما، قاضی، خطبا، مشائخ اور یہودی و عیسائی بھی اس کے استقبال کے لیے نکل آئے تھے۔’’ سلطان اشرف خلیل کی اس کامرانی نے تاریخی اعتبار سے صلیبی حملوں کے دور کا خاتمہ کر دیا تھا۔

فقہ اسلامی کی کتابوں میں غیر مسلموں کے تہواروں سے متعلق بہت سے ایسے فتاوی موجود ہیں جن سے اشارہ ملتا ہے کہ ان تہواروں میں مسلمانوں کی شرکت عام ہو چلی تھی۔ مرد اور عورتیں سب شریک ہوتے۔ فقیہ و محتسب ابن عبدون تجیبی اندلسی (م: ۵۲۷ھ/۱۱۳۳ء) نے مسلمانوں سےاپیل کی کہ عیسائی تہواروں اور شادی بیاہ کی تقریبات کے موقع پر ‘‘مسلمان عورتیں چرچوں کے اندر نہ جایا کریں۔’’

سیاح و جغرافیہ داں اور فقیہ المقدسی البشاری (م: ۳۸۰ھ/۹۹۱ء) نے ‘‘احسن التقاسیم’’ میں یہ معلومات فراہم کی ہیں کہ ‘‘عیسائیوں کے جن تہواروں کو مسلمان جانتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیں، یہ ہیں: ایسٹر جو نوروز کے ایام میں آتا ہے، پینٹے کوسٹ جو کہ گرمیوں میں آتا ہے، کرسمس، جو کہ سردیوں میں آتا ہے، عید بربارہ، جو کہ برسات کے موسم میں آتا ہے۔’’ یہ صورت حال اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ یہ تہوار علانیہ طور پر منائے جاتے تھے اور تہوار کے سلسلے میں تقریبات منعقد کرنے کی آزادی اہل مذاہب کو حاصل ہوتی تھی، کیوں کہ تمام لوگوں کے لیے ایسا کرنا ایک عام کلچر کا حصہ تھا، بلکہ مسلمان خود ان کے ساتھ تعامل کو اپنی تاریخ میں ذکر کرتے ہیں۔

اندازہ ہوتا ہے کہ عیسائی تہواروں کے سلسلے کی یہ تاریخ کافی قدیم ہے، حتی کہ محدثین کرام بھی اس کا ذکر کرنے سے نہیں چوکے ۔ حافظ خطیب بغدادی نے امام احمد بن حنبل کے شیخ اور زبان و لغت کے عالم ابو عمرو اسحاق بن مرار الشیبانی کی وفات کا ذکر اپنی تاریخ میں اس طرح کیا: ان کا انتقال ‘‘۲۱۰ھ/۸۲۵۱ء میں عیسائیوں کے ایک تہوار ‘‘پام سنڈے’’ کے دن ہوا تھا۔’’

شادی بیاہ اور دیگر مواقع پر باہمی دعوتوں اور تحفوں کا تبادلہ عام تھا۔ امام عبداللہ بن مبارک (م: ۱۸۱ھ/۷۹۸ء) کا ایک واقعہ بہرام مجوسی کے ساتھ پیش آیا جس نے تمام مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں اور مجوسیوں کی دعوت عام کی تھی۔ مسلک احناف کے مفتی شہاب الدین حموی (م:۱۰۹۸ھ/۱۶۸۸ء) نے ‘غمز عیون البصائر’ میں شیخ الاسلام ابوالحسن سعدی حنفی کا ایک فتوی نقل کیا ہے کہ ‘‘ایک مجوسی بہت مال دار تھا اور مسلمان فقرا کے تعلق سے اس کا رویہ قابل تعریف تھا۔ بھوکے مسلمانوں کو کھانا کھلاتا اور جن کے پاس کپڑے نہ ہوتے انھیں پہننے کے لیے کپڑے فراہم کرتا ۔ ایک بار اس نے لوگوں کو دعوت پر بلایا تو کثیر تعداد میں مسلمان اس کی دعوت میں شریک ہوئے اور بعض نے تو اسے تحفے تحائف بھی پیش کیے۔’’

سیاح اور فقیہ ابن جبیر اندلسی (م: ۶۱۴ھ/۱۲۱۷ء) نے لبنانی شہر ‘‘صور’’ کا دورہ کیا تو وہاں کی بندرگاہ پر عیسائیوں کی تقریبِ شادی کا مشاہدہ کیا اور اس میں مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر شرکت کا تذکرہ کیا۔ ۱۱۵۶ھ/۱۷۴۴ء میں ریاست دمشق کے نگرانِ مالیات فتحی افندی دفتری (م: ۱۱۵۶ھ/۱۷۴۴ء) نے اپنی بیٹی کی شادی کی مناسبت سے ایک تقریب منعقد کی۔’’ یہ تقریب سات روز تک چلی جس میں ہر ایک دن الگ الگ طبقے کے لیے مخصوص تھا۔ ۔۔۔۔ تیسرا دن علما ومشائخ کے لیے مخصوص تھا، ۔۔۔۔۔ اور پانچواں دن عیسائیوں اور یہودیوں کی دعوت کے لیے مخصوص تھا۔’’

حلب شہر کے مورخ و شاعر کامل الغزی (م: ۱۳۴۹ھ/۱۹۳۳ء) آج سے سو برس قبل ، یعنی حلب شہر کے فرقہ وارانہ فساد (۲۸ فروری ۱۹۱۹ء) کے بعد پیش آنے والے واقعے کے متعلق لکھتے ہیں: ‘‘تین بڑی اقوام کے بعض سرکردہ افراد کے دل میں خیال آیا کہ ان تینوں اقوام کے درمیان جو قدیم تعلق اور دوستی پائی جاتی ہےاسے پختہ کیا جائے تاکہ مذکور بالا حادثے نے اس ربط و تعلق میں جو کدورت شامل کر دی اور دلوں میں نفرت اور کینے کی آمیزش کردی، اس کا ازالہ کیا جاسکے۔ چنانچہ تینوں اقوام کے سرکردہ و تجربہ کار افرادہفتے میں ایک بار ایک دوسرے کے یہاں باری باری اکٹھا ہوتے اور دوستانہ ماحول میں باتیں کیا کرتے ۔ نشست کے آخر میں صاحب خانہ کی جانب سے پرتکلف دسترخوان بچھایا جاتا ۔’’

صدقات و اوقاف

باہمی حسن سلوک کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے اہل خیر حضرات دوسرے مذاہب کے فقرا و مساکین پر خرچ کیا کرتے اور ان کی مدد کے لیے اوقاف بھی مختص کیا کرتے ۔ اسلامی ریاست کے غیر مسلمین کے صدقات اللہ کے رسولﷺ نے قبول فرمائے ہیں، بلکہ مسلمانوں کی تاریخ میں وقف کی جانے والی پہلی جائیداد ایک مال دار یہودی کی طرف سے تھی جو مدینے کا ہی رہنے والا تھا۔ اس نےمدینے کے دفاع میں غزہ اُحد (۳ھ/۶۲۵ء) کی جنگ میں حصہ بھی لیا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کرنے کے لیے اپنی قوم کو دعوت بھی دی تھی۔ اس نے کہا تھا: ‘‘اے قوم یہود! خدا کی قسم تم یہ جان چکے ہو کہ محمد کی مدد کرنا تم پر ان کاحق ہے۔’’ اسی طرح میثاق مدینہ/دستور مدینہ کی رو سے بھی وہ مدینے کی دفاع کے سلسلے میں انھیں ان کا فریضہ یاد دلاتا ۔

امام محمد بن اسحاق نے اپنی کتاب ‘‘السیرة’’ میں ذکر کیا ہے کہ ایک یہودی مُخَیرق النضری (م: ۳ھ/۶۲۵ء) غزوہ احد میں شریک ہوا۔ اس نے جنگ شروع ہونے سے قبل اعلان کیا: ‘‘اگر میں مارا جاؤں تو میرا مال محمد کا ہے ،وہ اس کا جو چاہیں کریں۔’’ ابن سعد نے ‘الطبقات الکبریٰ’ میں خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز (م: ۱۰۱ھ/۷۲۰ء) کی سند سے لکھا ہے کہ ‘‘نبیﷺ کے سات باغ جنھیں آپؐ نے وقف کر دیا تھا، وہ مخیرق کے ہی تھے۔’’ اس کے علاوہ ابن کثیرؒ نے ‘البدایۃ النہایۃ’ میں روایت نقل کی ہے کہ ‘یہ تاریخ میں پہلا وقف تھا۔’’ علمائے سیرت اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ مخیرق اسلام لے آیا تھا۔ گویا اس کا قتل ایک یہودی کی حیثیت سے ہوا تھا کیوں کہ مسلمان آپؐ کا ذکرکبھی صرف ‘محمد’ کہہ کر نہیں کیا کرتے تھے، جیسا کہ مخیرق نے کیاہے، بلکہ وہ محمد کے ساتھ ‘‘نبی اللہ’’ یا ‘‘رسول اللہ’’ لگایا کرتےتھے۔

ابن جبیر اپنے سفرنامے میں رحم دلانہ معاملے کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ ساحلِ شام پر فرنگی صلیبیوں کا تسلط تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ کوہ ِلبنان کے عیسائی باشندوں نے ان مسلمانوں کے ساتھ رحم دلانہ سلوک کیا جو ان کے پڑوس میں رہتے تھے۔ ابن جبیر کہتے ہیں: ‘‘حیرت کی بات یہ ہے کہ کوہ لبنان کے پڑوس میں آباد عیسائیوں نے جب مسلمانوں کے بعض عبادت گزاروں کو گوشہ نشین دیکھا تو ان کے لیے کھانے پینے کا سامان لے کر آئے اور ان کےساتھ حسن سلوک کامعاملہ کیا۔ وہ کہتے تھے: یہ اللہ عز وجل کے لیے گوشہ نشین ہیں، ان کی عبادت میں شریک ہونا چاہیے۔مذکور بالا مسلم سیاح کو اپنے زمانے کی منطق کے حساب سے یہ امتیازی شے معلوم ہوئی۔ اس لیے اس نے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا : ‘‘عیسائیوں کا معاملہ غیر قوم کے ساتھ اس طرح کا تھا تو اندازہ لگائیں کہ مسلمان دوسروں کے ساتھ کیسا معاملہ کرتے رہے ہوں گے۔’’

علامۂ شام محمد کرد علی (م: ۱۳۷۳ھ/۱۹۵۳ء) لبنان کے ‘جبل لبنان’ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں ‘‘آج بھی دسویں صدی کی تعمیر شدہ قدیم جامع مسجد ہے جسے لبنان کے ایک امیر نے تعمیر کرایا تھا۔ ‘دیر القمر’ نام کی بستی کے عیسائی باشندے آج بھی اس کی حفاظت و سلامتی کی فکر کرتے ہیں اور پابندی کے ساتھ اسے آباد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، خواہ کوئی نماز پڑھنے والا موجود نہ ہو۔’’

سماج کے مختلف عناصر کے درمیان مل جل کر زندگی گزارنے کے عجیب و غریب تہذیبی و ثقافتی، حتی کہ مذہبی نتائج سامنے آئے، بلکہ سماج کے تمام طبقات کے اوپر سے آزمائش کی گھڑی ٹالنے کے لیے عام مذہبی رسومات انجام دی جاتیں تو اس میں سب لوگ شرکت کرتے تھے۔ ‘شرح التلقین’ میں امام ابوعبداللہ المازری (م: ۵۳۶ھ/۱۱۴۱ء) میں لکھتے ہیں کہ ‘‘بعض علما نے تو یہاں تک کہا ہے کہ گرچہ یہودی اور عیسائی اپنے اپنے مذہب میں شدت پسند ہیں اور شرک کی آمیزش کر لی ہے، اس کے باوجود انھیں نماز استسقا میں شریک ہونے سے نہیں روکا جائے گا۔’’

ان فتووں نے نظریاتی و فکری دائرے سے نکل کر عملی صورت بھی اختیار کی۔ چنانچہ المازری امام اوزاعی سے نقل کرتے ہیں کہ ‘‘اموی خلیفہ یزید بن عبدالملک (م: ۱۰۵ھ/۷۲۴ء) نے اپنے گورنروں کو لکھا کہ ذمیوں کو بھی نماز استسقا پڑھنے کے لیے میدان میں آنے کی دعوت دیں۔ اس پر اس دور کے کسی ایک عالم نے بھی نکیر نہیں کی۔’’ علامہ اصفہانی کی ‘البستان الجامع’ میں آیا ہےکہ ۲۸۸ھ/۹۰۱ء میں مصر کے اندر دریائے نیل کا پانی مطلوبہ سطح سے کم ہو گیا اور زراعت کو خطرہ درپیش ہوا تو مسلمان، عیسائی اور یہودی سب نے میدان میں نکل کر نماز استسقاپڑھی۔’’

عام مذہبی و دینی سطح پر بھی اس کے نتائج سامنے آئے۔ امام تاج الدین سبکی (م: ۷۷۱ھ/۱۳۷۰ء) طبقات الشافعیہ الکبری میں لکھتے ہیں کہ فقیہ و زاہد ابو الطاہر محلّی (م: ۶۳۳ھ/۱۲۳۶ء) مصر کی جامع عمرو بن عاص کے خطیب و امام تھے۔’’ان کے زمانے کے لوگ، حتی کہ یہودی اور عیسائی بھی ان سے عقیدت رکھتے اور ان کےخط کو بابرکت سمجھتے ۔اور ان کے تعلق سے یہ بات مشہور و معروف ہے۔’’ اسی طرح مصر اور اندلس کے عیسائیوں میں ختنہ کا رواج ہو گیا تھا اور وہ بھی اپنے کتابوں کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا کرتے تھے۔ مسلمان علما کے لیے مخصوص القاب مثلاً موفق الدین، شمس الدین وغیرہ جیسے القاب سے وہ اپنے علما کو بھی نوازتے ۔

اس سلسلے کی ایک حیرت انگیز مثال وہ ہے جو فرانسیسی سیاح لوران دارفیو (م: ۱۱۱۳ھ/۱۷۰۲ء) نے اپنی یادداشتوں میں نقل کی ہے : ‘‘ہمارے زمانے میں ایک ارمن گروہ پایا جاتا تھا جو عنتاب (واقع جنوبی ترکیا) میں آباد تھا۔ اسے ‘کیز و کیز’ یعنی نصف نصف کہا جاتا تھا۔ اس گروہ کو یہ نام اس لیے دیا گیاتھا کہ وہ اسلام اور مسیحیت کا مرکب تھا۔ یہ لوگ قرآن کریم پڑھتے اور بچوں کو اس کی تعلیم دیتے۔۔ مسجدوں میں جا کر نمازیں پڑھتے۔۔ اسی طرح اپنے بچوں کو بپتسمہ بھی دلایا کرتے ، صلیب کا احترام کرتے اور عیسائی تہوار منایا کرتے ۔’’ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عیسائی گروہ تھا جو مسلمانوں کے ساتھ رہتے اسلامی ثقافت سے اس درجہ متاثر ہوگیا تھا۔

‏شرعی تحفظ

اسلام کی عملی تاریخ میں مذہبی ہم آہنگی کی ضمانت فراہم کرنے کا ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ رعایا اور خاص طور غیر مسلم رعایا کو حکام کے ظلم و جور سے نجات دلانے کےلیے مسلمان علما اور قاضی فتوے جاری کیا کرتے تھے۔ اسی طرح کے ایک فتوے کا ذکر مورخ بُلاذری (م: ۲۷۹ھ/۸۹۲ء)فتوح الشام میں کرتے ہیں کہ جبل لبنان کے بعض عیسائیوں کی طرف سے عباسیوں کے خلاف بغاوت و سرکشی کی واردات پیش آئی۔ شام کے عباسی گورنر صالح بن علی (م: ۱۵۲ھ/۷۶۹ء) نے چند عیسائیوں کے اس جرم کی پاداش میں علاقے کے عام عیسائیوں کو پکڑ لیا۔ امام اوزاعی نے ایک طویل خط لکھ کر اس پر نکیر کی اور جبل لبنان کے جن[عیسائی] ذمیوں نے سرکشوں کی کوئی مدد اور تعاون نہیں کیا تھا ان کی جلا وطنی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ انھوں نے لکھا کہ ‘‘ بھلا چند مخصوص لوگوں کے جرم کی پاداش میں عام لوگوں کو کیسے ماخوذ کیا جا سکتا ہے ، حتی کہ انھیں ان کے گھروں سے اور ان کے مال و اسباب سے الگ کر دیاگیا، جب کہ اللہ کا حکم ہے کہ ‘‘کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے؟!’’

اسی قسم کا ردعمل مصر کے مفتی اور قاضی قضاة الحارث بن مسکین مالکی (م: ۲۵۰ھ/۸۶۴ء) کی طرف سے آیا تھا۔ عباسی خلیفہ مامون (م: ۲۱۸ھ/۸۳۳ء) نے قاضی ابن مسکین مالکی سے بُشمور (شمالی مصر) کے قبطیوں کے خلاف قتال کے جواز میں فتوی طلب کیا ، کیوں کہ انھوں نے ۲۱۶ھ/۸۳۱ء) میں سلطنت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ الحارث نے خلیفہ سے یہ کہتے ہوئے ان کے خلاف جنگ دینے سے انکار کردیا کہ ‘‘آپ کے لیے [ان کا خون] حلال نہیں ہے۔ اس پر مامون نے ان سے کہا: ‘‘تم بے وقوف آدمی ہو!!’’ ابن الوردی (م: ۷۴۹ھ/۱۳۴۸ء) نے ذکر کیا ہے کہ ۷۲۱ھ/۱۳۲۱ء میں قاہرہ کے اندر فساد برپا ہو گیا، جس میں کچھ عوام نے چرچوں کو گھیر لیا۔ ‘‘اس پر سلطان غضب ناک ہوا۔ قاضیوں سے فتوی طلب کیا تو انھوں نے محاصرہ کرنےوالوں کو سزا دیے جانے کا فتوی دیا۔’’

جس زمانے میں خلافت عثمانیہ کی فتوحات اور توسیع کا سلسلہ شباب پر تھا، اسی زمانے کا واقعہ ہے کہ مفتی اعظم شیخ الاسلام علی بن احمد الجمالی نے جو کہ ‘زنبیلی علی آفندی’ کے لقب سے معروف تھے،  اپنے وقت کے طاقت ور سلطان سلیم اول(م: ۹۲۵ھ/۱۵۲۰) کے ایک فیصلے پر اعتراض کیا۔ اس فیصلے کی رو سے مملکت کے تمام عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنا بصورت دیگر انھیں ملک چھوڑ کر جانے کا حکم تھا۔’’ مفتی جمالی سے رہا نہیں گیا اور پورے عزم و جرأت کے ساتھ سلطان کے سامنے کھڑے ہو کر کہا: ‘‘یہ آپ کے لیے جائز نہیں ہے اور نہ ہمیں اس سے زیادہ کا اختیار ہے کہ جزیے اور اطاعت و فرماں برادری کے علاوہ کوئی اور مطالبہ ان سے کریں۔’’

لبنانی مفکر شکیب ارسلان (م: ۱۳۶۶ھ/۱۹۴۶ء) نے اپنی کتاب ‘‘تاریخ ابن خلدون’’ میں اس واقعے کو نقل کرنے کے بعد اس پر تبصرہ کیا ہے کہ ‘‘اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت ہی ہے جس نے اپنے عدل و انصاف اور امانت داری کے طفیل سلطنت عثمانیہ میں عیسائیوں کواس وقت تحفظ فراہم کیا جب کہ سلطان ان کے سلسلے میں اپنے ہر ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی طاقت رکھتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ترکی کے ملحدین ہمیشہ اس دلیل کے ساتھ اسلامی شریعت کو تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں کہ اسلامی شریعت ہی سلطنت عثمانیہ میں عیسائیوں کی بقا کا سبب تھی۔ اور سلطنت میں ان کی موجودگی ترکی کے کمزور پڑنے کا سبب تھی۔۔۔ اسی لیے عالمی جنگ (پہلی عالمی جنگ) کے بعد جب انھیں (ملحدین کو) غالب آنے کا موقع ملا تو انھوں نے ترکی سے تمام عیسائیوں کو باہر کر دیا۔ ترکی میں قسطنطنیہ کے علاوہ کہیں عیسائی باقی نہیں رہے ۔ اور اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ یوروپ والوں  نے عیسائیوں کو وہاں سے جلاوطن کیے جانے کی مخالفت کی تھی۔

ارسلان کی مزید دیگر باتوں سے ایسا لگتا ہے جیسے وہ آج کی بات کر رہے ہوں، جب کہ مغرب کے اندر سرکاری و عوامی دونوں سطحوں پر اسلاموفوبیا میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘‘حیرت یہ ہے کہ یوروپ والے اپنی تمام تر قوت و طاقت کے ساتھ اسی اسلامی شریعت کو نابود کر نے میں لگے ہوئے ہیں جس کے زیر سایہ اور جس کی وجہ سے، نہ کہ کسی دوسری وجہ سے، ظہور اسلام سے لے کر آج تک تمام اسلامی ممالک میں عیسائی زندہ وباقی رہے اور ان تمام حقوق سے لطف اندوز ہوتے رہے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔ ۔۔، اور یہ بھی عجیب حیرت کی بات ہے کہ اس سب کے باوجود وہ یوروپ والے اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ خواہ اسلامی حکومتیں اپنے ملکوں سے تمام عیسائیوں کو نکال باہر کریں، لیکن خود ملحد ہو جائیں ۔ اسلام کے خلاف ظلم و تعصب کی یہ انتہائی حد ہے جس کا تصور انسانی عقل کر سکتی ہے کہ وہ اسلام سے نفرت کرتے ہیں، گرچہ اس نے انھیں تحفظ فراہم کیا۔ وہ اس کا زوال پسند کرتے ہیں، گرچہ اس میں خود ان کا ہی زوال ہے۔’’

سویس مستشرق آدم مٹز (م: ۱۳۳۶ھ/۱۸۱۷ء) تو یہاں تک کہتا ہے کہ ‘‘اکثر عیسائی فرقوں کے درمیان جھگڑوں کو ختم کرنے کے لیے مسلمان پولیس کو مداخلت کرنی پڑتی تھی۔’’ اس ضمن میں بطور نمونہ دو واقعات پیش کیے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ خلیفہ مامون نے عیسائی فرقوں کو قانونی طور پر مذہبی آزادی فراہم کرنے کی کوشش کی، اگرچہ ان کے کسی فرقے کی تعداد محض دس افراد تھی۔

ایک دوسرا پہلو

آخر میں جب ہم ان مواقع و حالات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں تو اس کے اس دوسرے پہلو سے ابھی آگاہی ہوتی ہے جس میں تعاون کے بجائےبغض و کینے کا ، اور باہمی گفتگو اور مذاکرات کے بجائے جنگ و جدال کا رنگ نظر آتا ہے ۔ لیکن ہمارا یقین یہی ہے کہ ہم آہنگی اور باہم ایک دوسرے کے لیے رحم دلی کی وہ تصویریں جن کا ایک معمولی سا نمونہ تاریخ نے محفوظ کر لیاہے، وہی دراصل ان اصول و اقدار کی بنیاد و اساس ہیں جن پر اسلامی ممالک کے اندر آباد مختلف طبقات کے درمیان تعلقات وجود میں آئے تھے۔اسلامی فتوحات کا سلسلہ جزیرہ عرب کے باہرجب پھیلا تو اسی وقت سے یہ باہمی تعلقات ‘اپنے اور دوسروں کے لیے انصاف’ کے اصول اور ‘جوہمارے حقوق وہ ان کے بھی حقوق اور جو ہمارا فریضہ وہ ان کا بھی فریضہ’ کی بنیادوں پر استوار ہوئے۔

ان واقعات کے علاوہ مختلف شکلوں میں مسلمانوں کے ایک دوسرے پر ظلم و جبر کی جو تصویریں ہیں وہ تاریخ کے اس دور کی عکاس ہیں جب اصول واقدار پر عمل کمزور پڑ گیا ، اخلاقی پسماندگی آ گئی ، عملی کردارعدل وقسط کی قدروں سے عاری ہو گیا اور دینی نصوص کی اہمیت کم کردی گئی ۔ یا اس وقت کی ہیں جب کہ روز مرہ کی زندگی میں آنے والی پریشانیوں سے لوگ متاثر ہونے لگے اور سماجی زندگی میں باہم مل جل کر رہنے سے اکتاہٹ ہونے لگی ، یا پھر یہ سیاست و اقتدار کے مظالم کا عکس ہے۔

ان سب کی دلیل یہ ہے کہ ظلم، خواہ اس کا صدور مسلم کی طرف سے ہو یا غیر مسلم کی طرف سے، مسلمان و غیر مسلم سب اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ گروہ بندی اور تفریق و امتیاز کا مظاہرہ تمام مذاہب اور تمام اسلامی فرقوں نے کیا ہے ، حتی کہ خود ایک دوسرے کے خلاف کیا ہے۔ اسی طرح دشمنوں اور غیر ملکی حملہ آوروں کے ساتھ گٹھ جوڑ مسلمانوں نے بھی کیا اور غیر مسلموں نے بھی کیا۔

جہاں تک اقتدار کے ظلم کی بات ہے، تو اس  کا شکار تو سبھی لوگ ہوا کرتے تھے، حتی کہ سرکردہ علمی شخصیات بھی اس کا شکار ہوا کرتی تھیں، اس کی ایک مثال وہ واقعہ ہے جسے ابن تغری بردی نے ‘النجوم الزاہرہ’ میں نقل کیا ہے کہ ۷۹۱ھ/۱۳۸۹ء میں امیر منطاش (مقتول ۷۹۵ھ/۱۳۹۳ء) نے عیسائی پادری متاؤس کو گرفتار کر لیا اور اس پر مالی جرمانہ عائد کیا۔ یہودیوں کے سردار کو بھی گرفتار کرکے اس پر مالی جرمانہ عائد کر دیا۔۔۔۔۔ پھر منطاش نےقاضی شمس الدین محمد الرکراکی مالکی کو حاضر کرنے کا حکم دیااور انھیں مجبور کیا کہ ملک ظاہر برقوق کے خلاف بغاوت کا فتوی لکھ دیں۔ انھوں نے انتہائی سختی کے ساتھ انکار کر دیا۔ چنانچہ منطاش نے انھیں سو ڈنڈے مارے اور اصطبل میں قید کر دیا۔’’

مسلکی تعصب کے جذبے سے خود مسلمانوں کے درمیان باہمی ظلم و جبر کتنا بڑھا ہوا تھا، اس کی تصویر پیش کرنے کے لیے وہ اقوال کافی ہوں گے جو ان کے بڑے علما کی جانب سے سامنے آئے ہیں۔ یہ وہ علما تھے جن کا تعلق اس طبقے سے تھا جس کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنے احکامات کو ایک ایسی میزان سے کنٹرول کرتے ہیں جس کا ایک پلڑا علم اور دوسرا عدل ہے۔چنانچہ تاریخ بغداد (از خطیب بغدادی) کی روایت کے مطابق قاضی شریک نخعی (م: ۱۷۷ھ/۷۹۱ء) کہا کرتے تھے کہ ‘‘کوفے کے ہر ایک محلے میں ایک شراب فروش کا ہونا اس سے بہتر ہے کہ اس محلے میں ابوحنیفہ (م: ۱۵۰ھ/۷۶۸ء) کے اصحاب میں سے کوئی موجود ہو۔’’ذہبی کی ‘میزان الاعتدال’ کے مطابق حنفی عالم محمد بن شجاع ثلجی (م:۲۶۶ھ/۸۷۹ء) کا خیال تھا کہ ‘‘احمد بن حنبل کے ماننے والوں کو ذبح کر دیے جانے کی ضرورت ہے۔’’

مختلف اہل مذاہب کے ساتھ اسلامی رواداری کی اس طویل و عریض تاریخ اور ورثے ہی نے فرانسیسی مورخ گستاؤّ لی بان (۱۳۵۰ھ/۱۹۳۱ء) کو اپنی کتاب ‘‘تمدن عرب’’ میں اس نتیجے پر پہنچایا کہ ‘‘مسلمانوں نے جس ملک پر بھی غلبہ حاصل کیا ، اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا اور ان کے لیے اپنے قوانین اور عقیدے کا ورثہ چھوڑ کر گئے۔۔۔۔۔، حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی قوم عربوں کی جیسی رحم دل اور روادار نہیں جانی گئی اور نہ کوئی دین ان کے دین جیسا روادار پایا گیا۔’’ آج کےمشہور لبنانی ادیب و صحافی امین معلوف بھی اپنی کتاب ‘الہُوِّیات القاتلة’ میں بالکل اسی نتیجے پرپہنچے ہیں: ‘‘اگر میرے اجداد مسلمانوں کے مفتوحہ ملک کے عیسائی باشندے ہونے کی بجائے کسی عیسائی مفتوحہ ملک کے مسلمان باشندے ہوتے تو میں نہیں سمجھتا کہ اپنے شہروں اور دیہاتوں میں مسلسل چار صدیوں تک اپنے عقیدہ و مذہب کی حفاظت کے ساتھ زندہ رہنا ان کے لیے ممکن ہوتا۔ اب دیکھیے اسپین اور صقلیہ میں عملاً کیا ہوا؟ مسلمانوں کا آخری فرد تک وہاں سے غائب ہو گیا۔ انھیں ذبح کیا گیا، بے گھر کیا گیا یا زور و قوت سے انھیں عیسائی بنا لیا گیا۔ اسلام کے اندر – آغاز سے ہی – دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی نمایاں اور منفرد صلاحیت موجود ہے۔’’   (عربی مقالہ الجزیرہ کی ویب سائٹ پر پڑھا جاسکتا ہے)

مشمولہ: شمارہ مئی 2025

مزید

حالیہ شمارے

اپریل 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223