غلطیوں کوسدھارنے میں غلطیاں

(عام طور پر ہونے والی غلطیاں)

ممکن ہے آپ نے یہ کہاوت سنی ہو کہ’’دوسروں کے سامنے نصیحت کرنا فضیحت کرنا ہے۔‘‘ واقعی ایسا کرنا فضیحت ہی ہے۔ اس لیےکہ عام طور پر انسان یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ لوگوں کے سامنے خطاکار قرار پائے۔ کسی غلطی کی اصلاح کرنی ہو تو ہم اس سے بات کرنے کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کچھ اور لوگ بھی جمع ہوں۔( جیسے آج کل سوشل میڈیا اور واٹس اپ کےگروپ، مترجم) اس طرح ہم اس کی اصلاح و درستی میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے، کیوں کہ اس طرح ہم اس کی فضیحت کرتے ہیں ۔

اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ غلطی کرنے والا ہماری اصلاح پر توجہ نہیں دیگا اور نہ ہی دوسروں کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرے گا، بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ناصح و مصلح اور غلطی کرنے والے کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو جائیں۔ لیکن وہ غلطی کرنے والے کے قریب جا کر کہے کہ ’’بھائی! آپ نے یہ اور یہ غلطی کی ہے… حالاں کہ آپ کو یہ اور یہ کرنا چاہیے تھا…‘‘، خیر خواہانہ انداز میں اس کی غلطی کا نقصان اس پر واضح کرے تو بلاشبہ وہ اپنی غلطی پر معذرت کرے گا اور اگر اس غلطی کو درست کرنا ممکن ہوگا تو فورًا اسے درست کرلے گا، یا نصیحت کرنے والے کے سامنے ان پہلوؤں کی وضاحت کر دے گا جو ممکن ہے نصیحت کرنے والے کی نظروں سے اوجھل رہ گئے ہوں۔ اس صورت میں ہوگا یہ کہ وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے مستفید ہوں گے اور ایک دوسرےکے ممنون ہوں گے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ نصیحت و اصلاح میں خوش طبعی و خوش اسلوبی اختیار کی جائے، یعنی، مثال کے طور پر، وہ اس کی جہالت و حماقت والے پہلو کو دوسروں کے سامنے بیان نہ کرے۔

اپنے باطن پر نگاہ رہے

اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔‘‘ (بخاری، ابودائود ۲۲۰۱، نسائی ۳۴۳۷ وغیرہ)

کسی مخصوص غلطی کی اصلاح سے پہلے ضروری یہ ہے کہ آپ کی نیت اللہ کے لیے خالص ہو، اور ’کسی پر طنز و تعریض‘ کرنے جیسی پوشیدہ خواہشات سے اپنے دامن کو پاک کر چکے ہوں۔ اس لیے کہ متعلقہ غلطی کے تعلق سے کسی پر طنز و تعریض کرنے کی خواہش دل میں رکھ کر بھی انسان اصلاح کے لیے اٹھ کھڑا ہو سکتا ہے۔ ایسا شخص دوسروں کو گرانے کے جذبے سے مغلوب رہتا ہے، کیوں کہ اس کی نیت خراب ہوتی ہے اور ’’اعمال کا دار و مدار نیت پر ہوتا ہے۔‘‘ حدیث میں آتا ہے:

’’اپنے بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار نہ کرو کہ اللہ اس پر رحم فرمائے اور تمھیں آزمائش میں ڈال دے۔ ‘‘(ترمذی، حدیث حسن: ۱۵۸۲، حوالہ ریاض الصالحین)

اسی طرح جو خود پسندی کا شکار ہو اور دوسروں کو کبر و تعلّی کی نظر سے دیکھتا ہو، کسی کی اصلاح کی کوشش کے پیچھے اس کی نیت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اپنی شخصیت کو نمایاں کرے اور دوسروں کو یہ بتائے کہ وہ پارسا اور غلطیوں سے پاک ہے۔ ایسےشخص سے بعید نہیں کہ بے گناہ کے اندر بھی عیب و برائی کا پہلو تلاش کر لے اور اس پر ان غلطیوں کی تہمت لگائے جو اس کے اندر ہیں ہی نہیں۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دوسروں کی باتوں میں در آنے والی لغزشوں یا بعض لوگوں کے خیالات میں پائی جانے والی چھوٹی موٹی کمیوں کو پکڑ لے، پھر دوسروں کی نظروں میں اس کی تصویر مسخ کرنے کی غرض سے ان کمیوں اور لغزشوں کے حوالے سے قصوں اور کہانیوں کا جال بُن لے۔

ایسا شخص غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتا، بلکہ اپنے نفس کی تسکین کی خاطر معصوم و بے گناہ لوگوں کی غلطیاں گھڑتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے۔ آپ اس سے اگر یہ کہیں گے کہ’’تم لوگوں کی غیبت کر تے ہو۔‘‘ وہ کہے گا، نہیں، میں تو لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتا ہوں تاکہ وہ غلطیوں سے دور رہیں۔ اس کا یہ انداز ورویہ ایک دوسرے نقطے کو جنم دیتا ہے، جس پر ہم آئندہ گفتگو کریں گے، یعنی کسی کی غلطی طے کرنے کا معیار کیا ہو۔

اللہ کے رسولﷺ لوگوں کی دل آزاری سے حد درجہ دور رہتے تھے۔ آپؐ کبھی لوگوں کے سامنے کسی کے عیوب بیان نہ کرتے اور نہ صاحبِ عیب کی فضیحت و رسوائی کرتے تھے۔ اس کے برعکس آپؐ بغیر نام لیے فرمایا کرتے تھے:

’’بعض لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی اور ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔۔۔۔ ‘‘حالاں کہ ان کی حرکتیں ناپسندیدہ اور سزا و عذاب کی مستحق ہوتی تھیں، لیکن اس کے باوجود آپؐ کبھی غلطی کرنے والے کی فضیحت نہیں کرتے تھے۔

اس لیے ضروری ہے کہ ایک مسلمان دوسروں کی غلطیاں سدھارتے وقت ایسی پوشیدہ خواہشات سے اپنا دامن بچا کر رکھے، اور نیت کو اللہ کی رضا جوئی کے لیے خالص رکھے۔ دوسروں کی دل آزاری نہ کرے اور نہ دوسروں کو یہ جتلائے کہ وہ ان سے افضل و بہتر ہے۔ اس کے برعکس دوسروں کو نصیحت کرتے وقت تواضع اختیار کرنی چاہیے اور خوش اسلوبی اور نرم گفتگو کے ساتھ نصیحت پیش کرنی چاہیے۔

تنقید کی بنیاد کیا ہے؟

دوسروں کی اصلاح کرنے والا بسا اوقات ایک بڑی غلطی کر جاتا ہے۔ وہ یہ کہ اس کے پاس دوسروں کی غلطی طے کرنے کے سلسلے میں کوئی واضح بنیاد نہیں ہوتی ہے، یا سرے سے کوئی بنیاد ہی نہیں ہوتی ہے، یا جو بنیاد ہوتی ہے وہ درست نہیں ہوتی ہے۔ ایک مسجد میں کچھ لوگوں نےآکر ظہر کی قصر نماز باجماعت ادا کی، یعنی جماعت سے دو رکعتیں پڑھیں۔ مسجد میں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، وہ اٹھا اور ان پر چڑھ دوڑا کہ دو رکعتیں کم پڑھی گئی ہیں، اس لیے نماز ناقص ہوئی۔ لوگوں نے جواب دیا کہ ہم اس شہر کے باشندے نہیں ہیں، مسافر ہیں اور ہمارے لیے چار رکعت والی نمازوں کو قصر کرکے دو رکعت پڑھنا جائز ہے۔ اس نے جواباً کہا کہ دو رکعت ادا کرنے میں کنجوسی کر رہے ہو؟ تم لوگ تو جوان ہو، صحت مند ہو۔ جس قصر نماز کی تم بات کر رہے ہو وہ تو بوڑھوں اور بڑی عمر کے لوگوں کے لیے ہے۔‘‘ اس شخص نےمزید بحث و مباحثہ شروع کر دیا اور نمازِ قصر کے وجود سے بھی انکار کر دیا۔

بر سبیلِ مثال یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس شخص کے پاس غلطی طے کرنے والی کوئی واضح بنیاد نہیں تھی۔ اس نے یہ سوچ لیا کہ نمازِ قصر کی رخصت و اجازت سے لا علمی اسے یہ جواز فراہم کرتی ہے کہ نمازِ قصر کا ہی انکار کر دے۔ اس نے عرف و عادت کو ہی اپنے انکار کی بنیاد بنا لیا۔ اور اسی بنیاد پر ان مسافروں کی نماز باطل ہونے کا فیصلہ صادر کر لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے یہ نہیں دیکھا کہ اس سے پہلے نمازِ قصر کسی نے پڑھی بھی ہے۔ پھر لا علمی کے باوجود اس کی تاویل بھی کر دی اور اپنی سمجھ کے مطابق یہ فیصلہ دے دیا کہ اگر یہ جائز بھی ہے تو ان لوگوں کے لیے ہے جو بوڑھے اور عمر دراز ہوں۔حالاں کہ اگر اس نے فقہ کی کتابوں کو پڑھا ہوتا تو اسے یہ مل جاتا کہ سفر کے دوران چار رکعت کی نمازوں کو قصر کرنا جائز و مشروع، بلکہ مستحب سنت ہے اور بہت سے علماء نے تو اس پر عمل لازمی قرار دیا ہے۔ نبیﷺ کے تعلق سے بھی ایسی کوئی روایت مطلق طور پر وارد نہیں ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہو کہ آپؐ نے سفر کے دوران کوئی نماز بغیر قصر کیے پڑھی ہے۔ سفر کے دوران نماز قصر کرنا آپؐ کا ہمیشہ کا معمول تھا۔ اسی لیے احناف نے سفر کے دوران قصر کو واجب کہا ہے، مالکیہ کہتے ہیں کہ سنت موکدہ ہے۔ مالکیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر مسافر تنہا ہو اور کوئی مسافر اس کے ساتھ ایسا نہ ہو جسے امام بنایا جا سکے تو وہ انفرادی قصر نماز ادا کرے گا۔ حنابلہ اور شافعیہ بھی سفر کے دوران نمازِ قصر کے جواز کا فتوی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چار رکعت پڑھنے سے بہتر قصر کرنا ہے۔ سفر کے دوران نمازِ قصر کے موضوع پر بحث کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے، لیکن یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بعض لوگ غلطی طے کرنے میں صحیح بنیاد کا ادراک نہیں کر پاتے اور اسی وجہ سے وہ خود بھی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ مختلف قسم کی غلطیوں کو جاننے کے سلسلے میں معتبر حوالے اور بنیاد کی بہت اہمیت ہے۔

شرعی غلطیوں کو جاننے کا ماخذ

اسلامی شریعت میں حلال و حرام اور صحیح و غلط کے تعین کا واضح اور متفق علیہ پیمانہ کتاب اللہ، احادیث صحیحہ، اور اجماع ہیں۔

یہ وہ بنیادی مصادر ہیں جنھیں شریعت کے اندر حلال و حرام اور صحیح و غلط کے سلسلے میں بنیادی حوالے اور مرجع کی حیثیت حاصل ہے۔ کوئی بھی قول جس کی بنیاد اس حوالے پر نہ ہو تو وہ قطعی حجت نہیں ہے۔ یہی حکم ان دیگر فروعی مسائل کا بھی ہے جن کے احکامات مذکورہ بنیادی دلائل سے اخذ کیے گئے ہوں۔

اسی وجہ سے علما کے درمیان مختلف فیہ امور کا انکار بھی درست نہیں ہے۔ یعنی میرے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ایسے معاملے میں کسی شخص کی نکیر کروں جس معاملے میں علما کے درمیان اختلاف ہے۔اس لیے کہ مختلف فیہ امور اکثر وہ ہوتے ہیں جن کی دلیل و بنیاد کوئی ظن و گمان یا قیاس ہوتا ہے۔

اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی شرعی معاملے میں لوگوں کی نکیر کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ واضح کر لیا جائے اور اس کا یقینی علم حاصل کر لیا جائے کہ مذکورہ معاملہ شریعت کے خلاف نہیں ہے۔کسی ایسے معاملے میں لوگوں پر اظہارِ نکیر نہ کرے جو علماء کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ اس لیے کہ ایسے امور کا تعلق اجتہادی مسائل سے ہوتا ہے۔ یہ تو جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے نقطۂ نظر کی جانب لوگوں کو دعوت دے، اپنی رائے کی طرف انھیں راغب کرے اور اس کے ثبوت میں دلائل بھی پیش کرے، لیکن دوسروں کو اس رائے کا پابند بنانا جائز نہیں ہے۔ ایسے امور جن میں علما کے درمیان اختلاف ہے، بہت سے ہیں اور قیامت تک باقی رہیں گے۔ یہ اسلام کی وسعتِ ظرفی، اس کی عظمت اور آسانی فراہم کرنے کا ایک پہلو ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

’’دین آسانی کا نام ہے، کوئی دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آکر رہے گا۔ اس لیے دین کو سیدھا رکھو، اور اس کے قریب قریبْ رہو، اور صبح و شام اور رات کی تاریکی کے کچھ حصے کو استعمال میں لاکر مدد چاہو۔‘‘ (بخاری: ۳۹)

آسانی کا مطلب اسلامی تعلیمات سے فرار اختیار کر لینا نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں، اور نہ فرائض کو بے وقعت و غیر اہم سجھنے کا نام آسانی ہے۔ فرار اختیار کرنے والوں سے جب سوال کیا جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ ’’دین آسان ہے۔‘‘ آسان ہونے کا یہ مطلب ہے ہی نہیں، بلکہ آسانی تو یہ ہےکہ اسلام کی سہولت آمیز تعلیمات اور اس کی روشن شریعت پر افراط و تفریط کے بغیر عمل کیا جائے۔ اسلام کی تعلیمات میں کمی یا اضافہ دونوں غلط ہیں۔ دین افراط و تفریط کے درمیان کی راہ ہے، جو آسان ہے، مشکل نہیں ہے۔ دین ہمارے اوپر کوئی بوجھ نہیں ڈالتا۔اس نے تو ضرورت کے وقت بعض ممنوعہ چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت دے دی ہے۔ اس نے ہمیں انہی باتوں کا مکلف بنایا ہے، جو ہمارے بس میں ہیں:

لَا یكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ: ۲۸۶)

(اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔)

ہمارا مواخدہ بھی انہی کاموں پر ہے جو ہم نے اپنے ہاتھوں سے انجام دیے ہوں گے۔ یہ سب چیزیں دین کی آسانیاں ہی ہیں۔

تربیت میں غلطیوں کی اصلاح کا معیار

تربیت کی ہر شعبے میں اہمیت ہے، لیکن کچھ شعبے اور میدان کار ایسے بھی ہیں جہاں تربیتی پہلو کی بہت اہمیت ہے۔ مثال کے طور پر تعلیم، خاندان، مسجد، مختلف نوعیت کے تعلیمی و تربیتی اداروں میں تربیتی پہلو کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ ان شعبوں کے ذمہ داران تربیت کے دوران واقع ہونے والی غلطیوں کو پہچاننے میں غلطی کر جائیں۔ مثلاً ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی ذمے دار فرد کسی طالب علم کے رویے یا عمل کے متعلق یہ فیصلہ سنا دے کہ وہ غلط ہے، اور اس کی تادیب و اصلاح کی ضرورت ہے۔ لیکن دوسرے ذمے داران اسی عمل یا رویے کے بارے میں یہ فیصلہ دیں کہ وہ درست ہے۔ اسی طرح خاندان یا گھر کے اندر بچے کی کسی مخصوص حرکت پر باپ یہ فیصلہ سنا سکتا ہے کہ اس کی یہ حرکت غلط ہے۔ اس کے بر خلاف ماں بچے کو اس قسم کے کام کرنے پر ابھارتی رہے اور اسے صحیح سمجھتی رہے۔

معیار کا یہ دوہرا پن اس وجہ سے ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے سے مختلف بنیاد کا سہارا لیا ہے۔ یعنی، مثال کے طور پر باپ اس بات کو بنیاد بناتا ہے کہ اس کے والد اس کے ساتھ اسی طرح پیش آیا کرتے تھے، اس لیےخود اس کی تربیت اسی نہج پر ہوئی ہے۔ ماں اس بات کو سہارا بناتی ہے کہ اس کی تربیت جس خاندان میں ہوئی وہاں اس طرح کے رویے اور سلوک کو کوئی جانتا ہی نہیں تھا۔ وغیرہ۔

غرض ان دونوں ہی نے خاندان، باپ اور ماں کو بنیاد و معیار بنایا۔ بچوں کی تربیت میں باپ یا ماں کا جو کردار ہوتا ہے، اس کی اہمیت کے باوجود، یہ بالکل ضروری نہیں ہے کہ ہر حال میں ماں اور باپ کو ہی معیار تربیت قرار دینا درست ہو۔ اس لیے کہ بعض اوقات ماحول کے اندر رائج بری عادتیں سماج میں اختیار کیے ہوئے رویے پر اثر انداز ہوتی ہیں، اور یہ عادات ہی سماجی رویے کے درست یا غلط ہونے کا معیار سمجھی جاتی ہیں۔ سماجی و تربیتی سلوک اور رویے کے معیارات بہت سے ہیں، جن میں سے اہم ترین یہ ہیں:

دین

تربیتی نظریات و اصول

عرف و عادات

سماجی ماحول

دین کو اولین معیار کی حیثیت حاصل ہے۔ تربیتی غلطیوں کے تعین میں یہی معیارِ اول ہے۔ تربیتی پہلو سے بہت سی احتیاطیں اسلام میں بتائی گئی ہیں، خواہ ان کا تعلق بچوں کے ساتھ پیش آنے سے ہو، یا گھر کے دائرے میں والدین کے ساتھ سلوک سے ہو، استاد و طالب علم کے درمیان رشتہ و تعلق ہو یا ان کے علاوہ مختلف قسم کے تربیتی معاملات ہوں۔ شوہر، باپ، رہنما اور معلم و استادکی حیثیت سے لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آئیں، اس سلسلے میں ہمارے پاس رسول اللہﷺ کا اسوہ حسنہ موجود ہے۔ کوئی آپؐ کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہے تو وہ ایک چشمۂ شیریں سے خود کو سیراب کرے گا۔ اسے یہاں سے بہت سی تربیتی بیماریوں کا شافی علاج مل جائے گا۔اسے یہ معلوم ہوگا کہ لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے، دوسروں کی ضرورتوں کا احترام کس طرح کیا جاتا ہے، اور مزاج و طبیعت کے مطابق الگ الگ فرد سے کس طرح پیش آیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے بہت سے عمیق تربیتی تصورات ہیں جو آپؐ کی سیرت میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔

تربیتی غلطیوں کی اصلاح کے سلسلے میں دین کو اولین و بنیادی معیار تصور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی دوسرا معیار جو دین کے خلاف ہو یا اس سے ٹکراتا ہو، اس کی نہ کوئی قیمت ہے، نہ کوئی وزن ہے۔ اسے دیوار پر دے مارنا چاہیے۔ مثال کے طور پر، بعض تربیتی تصورات ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ انسان کے لیے اپنی خواہشات و میلانات کی تکمیل ضروری ہے۔ اسے اپنی شہوات و خواہشات کو دبانا نہیں چاہیے تاکہ وہ غم گین و افسردہ نہ رہے ورنہ انجام کار اس کی سرگرمیاں معطل ہو جائیں گی اور وہ اپنی صلاحیتیوں اور تخلیقی قابلیتوں کا اپنے ہاتھوں گلا گھونٹ دے گا۔ ان نظریات و تصورات کا کوئی وزن ہے نہ قیمت۔ ان کی قیمت اس کاغذ کے ٹکڑے کے برابر بھی نہیں جس پر وہ لکھے گئے ہیں۔ اس لیے کہ یہ غلط اور نا کام نظریات ہیں اور آلودہ ذہن اور ان خبیث ذہنیتوں کی پیداوار ہیں جو پست خواہشات میں مگن رہتی ہیں اور اخلاق و اقدار سے ان کا ایک دن کا واسطہ نہیں رہا ہے۔ اس لیےتربیتی پہلو سے ان نظریات کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

اسی طرح عرف و عادات، سماجی و معاشرتی ماحول اور اسی قسم کے دوسرے معیارات کو بھی اہم سمجھا جاتا ہے۔ ان معیارات کو بھی اس کسوٹی پر پرکھا جا سکتا ہے کہ ان سے اسلام کے عام اصول و قواعد کی مخالفت نہ ہوتی ہو۔ اس لیے کہ ہر وہ رواج یا رسم جو اسلام مخالف ہو جاہلی رسم و رواج ہے۔ ضروری ہے کہ اسے ترک کرکے کوئی ایسی رسم یا عادت اختیار کی جائے جس سے اللہ نے ہمیں نوازا ہے۔ مثال کے طور پر، بچوں کی تربیت قبائلی یا خاندانی عصبیت یا اسی قسم کے ایسے روابط و تعلقات کی بنیاد پر کرنا جنھیں مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلق واتحاد کی بنیاد سمجھا جانے لگا ہو، غلط اور اسلامی فکر کے خلاف ہوگی۔ اس لیے کہ اسلام تو مسلمانوں کو عقیدے اور دین کی بنیاد پر متحد کرتا ہے، نہ کہ عصبیت، قبیلے یا خاندان کی بنیاد پر۔ اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا:

’’جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی وہ ہم میں سے ہے ہی نہیں، اور وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے جس نے عصبیت کی بنیاد پر جنگ کی، اور نہ وہ ہم میں سے ہے جو عصبیت پر رہتے ہوئے مرا۔‘‘ (ابودائود: ۵۱۲۱)

اسلام اہل خانہ، خاندان، اور قبیلہ و وطن کی محبت کا انکار نہیں کرتا، نہ اسے مسترد کرتا ہے، بلکہ اسلام میں تو ان سے محبت واجب ہے۔ البتہ وہ ترجیحات کو ان کی درست ترتیب میں رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے اصل اسلامی اخوت ہے اور عقیدۂ توحید اس کی بنیاد و اساس ہے۔ لیکن عصبیت کو ہی اخوت کی بنیاد ماننے کا تصور انسان کو حق وصداقت سے دور لے جا کر شیطانی راستوں کے قریب کر دیتا ہے ۔

خطا کار کے ساتھ سختی سے پیش آنا

ہم یہ کیوں مانیں کہ غلطی کرنے والا ہمیشہ انحراف کا ہی شکار ہوتا ہے، یا غلطی کرنے کے پیچھے اس کی کوئی بری منشا ہی تھی؟ حالاں کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غلطی کرنے والا معذور ہو، جاہل و لا علم بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیمار ہو۔ غلطی کرنے والے کے ساتھ نرمی و خوش اسلوبی کا رویہ اختیار کرنا اکثر مفید رہا کرتا ہے، جب کہ اس کے ساتھ سخت گیر یا طعن و طنز والا رویہ اس کے ڈھیٹ پن اور غلطی پر اڑے رہنے کا سبب بن سکتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے:

’’مسجد میں ایک شخص کھڑا ہوا اور پیشاب کر دیا۔ لوگ اس کی طرف طیش میں بڑھے، تو نبیﷺ نے فرمایا: ’’پیشاب کر لینے دو اور پیشاب پر ایک ڈول یا بالٹی بھر پانی بہا دو۔ تم آسانیاں پیدا کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، دین کو مشکل بنانے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو۔‘‘ (بخاری: ۲۱۱۷، مسلم: ۶۵۷)

یہ ہے علاج و اصلاح کا صحیح طریقہ کہ غلطی کرنے والے کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں، اس کے لیے عذر و معذرت کی گنجائش رکھیں، پھر صحیح بات کی طرف اس کی رہنمائی کی جائے اور اسے لعن طعن کرنے میں جلدی نہ کی جائے۔

حضرت ابو الدرداءؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’جسے اس کے حصے کی نرمی عطا کر دی گئی، گویا اسے اس کے حصے کا خیر عطا کر دیا گیا۔ اور جسے اس کے حصے کی نرمی سے محروم کر دیا گیا، گویا اسے اس کے حصے کے خیر سے محروم کر دیا گیا۔‘‘(ترمذی: ۲۰۱۳)

اس کے علاوہ مسلمان سے مطلوب یہ بھی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں صرف غلطی کرنے والوں کے ساتھ ہی نہیں، بلکہ اپنے ان دشمنوں کے ساتھ بھی نرمی کےساتھ پیش آئے جو اپنی عداوت و دشمنی کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔

غلطی سے نمٹنے میں جذباتیت اور جلد بازی

غلطی سے نمٹنے میں جلدبازی ایک دوسری غلطی ہے۔ اس جلد بازی سے اندیشہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ اور بڑی مشکلیں پیدا ہو جائیں جو اصل غلطی سے بھی زیادہ سنگین ہوں۔ عام طور پر جلد بازی اور جذباتیت کا مظاہرہ کرنے والا اپنے اعضا و جوارح پر بڑی حد تک قابو نہیں رکھ پاتا۔ اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ وہ حماقتیں کر بیٹھے، پھر ان پر نادم ہو، جب کہ ندامت کسی کام نہ آئے۔ ایسے بہت سےحادثات و واقعات ہمارے مشاہدے میں آئے ہیں جن کا سبب معمولی بات یا کوئی معمولی سی غلطی تھی، لیکن دوسرا فریق غلطی کرنے والے کی طرف جوش و جذبے کےساتھ لپکا۔ اس جذباتی جلد بازی نے اس کے مزاج کا توازن کھو دیا اور کسی نہ کسی مصیبت کا سبب بن گیا۔ اس نے ایک بڑی غلطی کے ذریعے سے ایک معمولی غلطی کو سدھارنے کی کوشش کی، یا یوں کہیے کہ اس نے غلطی کا علاج ایک ایسی مصیبت کے ذریعے کرنے کی کوشش کی جس نے تباہیاں لا دیں۔

اللہ کے رسولﷺ نے سچ فرمایا ہے:

’’پہلوان وہ نہیں ہے جو پچھاڑ دے، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے۔ ‘‘(بخاری: ۵۷۶۳، مسلم: ۶۵۸۶)

مذکورہ حدیث نبوی کا مقصد ومفہوم یہ ہے کہ مضبوط اور طاقت ور وہ نہیں ہے جو کسی آدمی کو دبوچے اور پچھاڑ کر اس پر غالب آ جائے، بلکہ مضبوط وہ شخص ہے جو غصے کے وقت اپنے اعصاب کو ٹھکانے پر رکھے۔ اس طرح بھڑک کر نہ اٹھے کہ مشکلات پیدا ہو جائیں خواہ غلطی کرنے والے نے کسی منکر و ناپسندیدہ حرکت کا ارتکاب کیا ہو۔ ضروری یہ ہے کہ غلطی کی اصلاح کے سلسلے میں ہمارے اندر ٹھہراؤ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ بھڑک کر اٹھیں اور چھوٹی سی برائی کو درست کرنے میں خود کوئی بڑی ناگوار حرکت کر بیٹھیں اور ہماری مثال اس ریچھ کی سی ہو جائے جس نے مکھی کو مارنے کے چکر میں خود اپنے مالک کی ہی جان لے لی۔ ریچھ نے دیکھا کہ ایک مکھی اس کے مالک کو پریشان کر رہی ہے۔ چنانچہ اس نے مکھی پر ایک بڑا پتھر پھینک کر مارا، جس نے خود مالک کی ہی جان لے لی۔ غلطی سدھارنے میں غلطی کا معاملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ اصلاح میں جذباتیت اور جلد بازی کا مظاہرہ کرنے والے کی غلط حرکت نہ صرف یہ کہ غلطی کرنے والے کے لیے جان لیوا ہو سکتی ہے، بلکہ اصلاح کی کوشش کرنے والے کے لیے بھی پر خطر ہو سکتی ہے۔ اصلاح و تربیت میں جلد بازی کا یہ ایک پہلو ہے۔ ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو پہلے والے سے کم اہم نہیں ہے، اور وہ ہے کوششِ اصلاح کا نتیجہ حاصل کرنے میں جلد بازی کرنا۔ بسا اوقات دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرنے والا یہ چاہتا ہے کہ غلطی کرنے والا فوری طور پر بدل جائے۔ مثال کے طور پر باپ دیکھتا ہے کہ اس کا بیٹا ایک غلطی کر رہا ہے۔ ایک بار نصیحت کرنے کے بعد وہ اسے دوسری بار نصیحت کرتا ہے اور یہ سمجھ لیتا ہے کہ محض اس نصیحت اور گفتگو کے نتیجے میں بیٹا اس غلطی سے مکمل طور پر باز آ جائے گا۔ بعض غلطیوں کے سلسلے میں ایسا ممکن بھی ہے، لیکن بہت سی غلطیاں ایسی ہو سکتی ہیں جن کا وہ عادی ہو چکا ہو۔ ایسی غلطیوں کے لیےایک ہی بار کی نصیحت سے ناممکن نہ سہی، اس غلطی سے چھٹکارا پانا مشکل ہو سکتا ہے۔ اسی لیے اصلاح کا بیڑا اٹھانے والے کے لیے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ وقت اور انتظار بھی عملِ اصلاح کا ایک حصہ ہے۔ بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی اصلاح یا ان کے اثرات سے نجات پانے کے لیے کم یا زیادہ وقت درکار ہو سکتا ہے۔ اس انتظار کی سب سے زیادہ ضرورت جن کو ہو سکتی ہے، وہ شوہر اور بیوی ہیں۔ اس لیے کہ ازدواجی زندگی میں یہ امکان باقی رہتا ہے کہ شوہر یا بیوی شادی سے پہلے کی زندگی میں کسی چیز کی عادی رہے ہوں۔ وہ عادت غلط بھی ہو سکتی ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا رفیقِ سفر اس عادت کو پسند نہ کرتا ہو۔ یہاں دونوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان کا ساتھی آسانی سے اپنی عادت نہیں بدلے گا اور نہ تبدیلی کا، یہ کام باتوں یا نصیحت وغیرہ سے انجام پا سکے گا۔جو غلطی یا غلط عادت اس کی شخصیت کا ایک جز بن چکی ہے، اس کی اصلاح کے لیے تو وقت اور انتظار درکار ہے ۔

غلطی کو اس کے اصل مقام پر نہ رکھنا

دوسروں کی غلطیاں سدھارنے کے دوران ایک غلطی میں اکثر لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں اور غلطی کی اہمیت و شدت کا اندازہ لگانے میں غلطی کر جاتے ہیں۔ یا تو بڑی غلطی معمولی غلطی سمجھ لیتے ہیں یامعمولی غلطی کو بڑی بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو غلطی کا صحیح اندازہ لگا لیں، ورنہ اکثر لوگ بڑی غلطی کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ انجامِ کار صحیح راستے سے اسے درست نہیں کر پاتے، یا یہ سوچ کر اس کی اصلاح میں لاپروائی برت جاتے ہیں کہ معمولی غلطی ہے، اس پر کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے برعکس بعض دوسرے لوگ معمولی اور چھوٹی سی غلطی کو بھی سنگین اور بڑی بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ اسی لیے اس کے سلسلے میں سخت اور نازیبا رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ حالاں کہ ایک عاقل و ہوش مند انسان کو کرنا یہ چاہیے کہ معاملات کو توازن کی عینک سے دیکھے۔ نہ بڑی چیز کو چھوٹی کرے اور نہ حقیر و معمولی چیز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے۔

اصلاح کرنے والے کے پاس اعتدال کی نگاہ ہونی چاہیے، جس کا ماخذ اسلامی اعتدال ہو۔ اس لیے کہ اسلام دینِ اعتدال ہے۔ اس میں نہ غلو و مبالغہ آرائی پائی جاتی ہے، نہ تنقیص و تقلیل۔ مسلمان معاملات پر نظر ڈالتا ہے تو انھیں اعتدال و توازن کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (البقرہ: ۱۴۳)

(اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک”امت وسط” بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو۔)

بعض غلطیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن پر ایک وقت تک خاموشی اختیار کی جا سکتی ہے، جب کہ بعض دوسری غلطیاں ہوتی ہیں جن پر کسی مداہنت کی گنجائش نہیں ہوتی اور ان کے سلسلے میں فوری طور پر کوئی واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ غلطیوں کو دھندلی نگاہ سے دیکھنے والا مسلمان غلطیوں کی حیثیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا اور اصلاح سے زیادہ بگاڑ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ گمان تو یہ کر رہا ہو کہ وہ اصلاح کر رہا ہے، حالاں کہ وہ بگاڑ کر رہا ہے۔ ایک چیز ہے جسے ’فقہ الاولویات‘ کہا جاتا ہے۔یعنی یہ جاننا کہ کس بات کو اولین اور ترجیحی بنیاد پر عمل میں لایا جائے، یا کسی کام یا غلطی کی اصلاح و درستی سے مرتب ہونے والے اچھے اور برے نتائج کے درمیان موازنہ کرکے ان کے بارے میں ترجیحی بنیاد پر فیصلہ کرنا۔

ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے :

’’رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اگر تمھاری قوم کو کفر سے باہر آئے ہوئے ابھی کی بات نہ ہوتی تو میں کعبہ کو ڈھا دیتا اور اسے حضرت ابراہیمؑ کی قائم کردہ بنیادوں پر تعمیر کرتا، کیوں کہ قریش نے جس وقت بیت اللہ کی تعمیر کی تو اس میں کمی کر دی تھی۔ میں اس کا ایک دروازہ اوربناتا۔ ‘‘ (بخاری: ۱۵۰۶، مسلم: ۱۳۳۳)

اس حدیث کی شرح کرتے ہوے امام نوویؒ نے لکھا ہے:

’’اس حدیث میں بعض احکامی اصول کی طرف اشارہ ہے، مثلاً: جب مصلحت تقاضا کرے یا ایک مصلحت اور ایک مضرت اس طرح سامنے آجائیں کہ مصلحت کو اختیار کرنا اور فساد کو ترک کرنا دونوں اہم ہو جائیں تو اختیارِ مصلحت یا ترک فساد میں سے جو اہم ہو اسے پہلے اختیار کیا جائے گا۔ اس لیے کہ نبیﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ خانہ کعبہ کو توڑنا اور اسے حضرت ابراہیمؑ کی قائم کردہ بنیادوں پر تعمیر کرنا مصلحت ہے، لیکن اس کے مقابل ایک مضرت یا نقصان بھی ہے جو مصلحت سے زیادہ بڑا اور سنگین ہے، یعنی جن لوگوں نے حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے، ان کی طرف سے فتنہ وآزمائش کا اندیشہ ہے۔ یہ لوگ خانۂ کعبہ کی فضیلت و برکت کے معتقد ہیں، اور اس میں تغیر و تبدیلی کو ایک سنگین برائی تصور کرتے ہیں۔ اس لیے آپؐ نے اس خیال کو ترک کر دیا۔‘‘( صحیح مسلم بشرح النووی: ۵: ۱۰۲، ۱۰۳)

گویا ایسی غلطیاں بھی ہیں کہ اگر انھیں زائل کرنے میں برائی یا فساد وبگاڑ پیدا ہو سکتا، یا کسی ناگہانی خطرے کا اندیشہ ہو تو یہ ممکن ہے کہ انھیں نہ چھیڑا جائے۔ یہ انسان کی ذہانت و ہوشیاری پر منحصر ہے کہ وہ اس پہلو کا ادراک کر لے۔ معاملات کی اہمیت وحیثیت کا اندازہ لگا لے اور نفع و ضرر کے درمیان موازنہ کر لے۔

اگر اس قسم کا معاملہ اس کے سمجھ سے بالاتر ہو اور فیصلہ کرنا ممکن نہ ہو تو اسے کسی اہل علم و صاحبِ بصیرت سے رجوع کرنا چاہیے۔ حق بات جاننے میں تکبر کو آڑے نہ آنے دے، اس لیے کہ بے وقوف شخص حقیقت میں وہ ہے جو لاعلم ہوتے ہوئے خود کو عالم گمان کرتا ہے، حالاں کہ اس کے پاس علم نہیں ہوتا ہے۔ یہی معاملہ اس کا ہے جو اہل علم سے علم حاصل کرنے میں خود کو چھوٹا محسوس کرتا ہے۔

غلطی کی اصلاح کے دوران عمر کی رعایت

ہم جس شخص کی غلطیاں سدھارنا چاہتے ہیں یا اس کی مشکلات کا حل نکالنا چاہتے ہیں، اس کے سلسلے میں اکثر اس کی عمر کا لحاظ کرنے میں غلطی کر جاتے ہیں۔ یہ ایک بہت سنگین بات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کی غلطیوں کی اصلاح کا عمل بالغ بچے اور بڑی عمر کے افراد کی اصلاح سے بالکل مختلف ہے۔

ہر عمر کے انسان کا مزاج اور اوصاف و امتیازات الگ الگ ہوتے ہیں۔ اگر اصلاح کے دوران ہم ان اوصاف و امتیازات کو ملحوظ رکھنے میں کامیاب نہ ہوئے، یا ان کو خاطر میں نہیں لائے تو ہم یقینی طور پر بڑی مشکلات میں پڑ جائیں گے اور اصلاح کے مشن میں نا کام رہیں گے۔

مثال کے طور پر چھوٹے بچے کی ضرورت یہ ہے کہ اس کے ساتھ محبت و نزاکت اور شفقت کے ساتھ پیش آئیں۔ ڈانٹ ڈپٹ اور حکم کے انداز میں اس کی غلطیوں کو درست کیا جائے تو اسے یہ بات پسند نہیں ہے، ورنہ بصورت دیگر وہ ضدی ہو جائے گا اور جو حکم دیا جا رہا ہے اس کے برعکس کرے گا۔ اسی طرح بچپن کے مرحلے کی بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں بڑے شاید قابل اصلاح و توجہ غلطیاں سمجھتے ہوں، لیکن وہ اس مرحلے کے اعتبار سے اس لائق نہ ہوں، نہ ان پر کسی تبصرے کی ضرورت ہو اور نہ بعد میں ان کی اصلاح کی ضرورت ہو۔

اسی طرح جب بالغ اور پختہ عمر کے بچوں کے ساتھ اس حیثیت سے پیش آیا جاتا ہے کہ گویا وہ ابھی بچے ہی ہیں۔ اس عمر کے بچوں کو جب نامناسب انداز میں حکم دیا جائے یا روکا جائے تو انھیں یہ احساس ہو سکتا ہے کہ وہ اب چھوٹے نہیں رہے۔ یہ چیز ان کے باغیانہ تیور میں اضافہ کر سکتی ہے اور ان کی نفسیاتی صحت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ عمر کا یہ مرحلہ نازک تبدیلیوں کا ہوتا ہے۔ بچہ اس مرحلے میں پہنچ کر یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ذمے دار شخص بن چکا ہے، اور اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے ساتھ کسی بچے کی طرح نہیں، بلکہ ایک بڑے کی طرح پیش آیا جائے۔ اگرچہ کم سنی میں اس کی زبان سے اس قسم کی باتیں ہمیں اس کا مذاق اڑانے یا ہنسنے پر مجبور کر سکتی ہیں، لیکن ہمیں ہنسنا نہیں چاہیے، بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ایک بڑے فرد کی طرح کا معاملہ کرنا چاہیے تاکہ اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو سکے۔ عمر کے اس خطرناک اور تغیر پذیر مرحلے میں اس سے الجھنا نہیں چاہیے۔

عمر کے اس مرحلے، یعنی بلوغت کی طرف جاتے ہوئے بچوں کے ساتھ پیش آنے کی کیفیت کو ملحوظ نہیں رکھیں گے تو ان کی غلطیوں کی اصلاح بہتر انداز میں نہیں کر سکیں گے۔

اسی طرح عمر دراز لوگوں کے ساتھ پیش آنے کی نوعیت بھی الگ ہوتی ہے۔ اس عمر کے کچھ مخصوص حالات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کے والد کی عمر کا کوئی شخص غلطی کا مرتکب ہو گیا ہو تو ضروری ہے کہ اصلاح کے لیے آپ کی مصلحانہ کوشش بہت احترام و اکرام اور ان کے مقام و مرتبے کے شایان شان ہو۔ دیکھیے حضرت ابراہیمؑ اپنے والد کو نصیحت کرتے ہوئے انھیں بت پرستی ترک کرنے کی دعوت کس طرح دیتے ہیں:

آپ دل کو موم کر دینے والے لفظ کے ساتھ اپنے والد کو نصیحت کرتے ہیں اور انھیں بت پرستی ترک کر دینے کی دعوت دیتے ہیں، تو بار بار فرماتے ہیں:یا اَبَتِ: اے میرے ابّا جان! (سورہ مریم)

اس کے برخلاف بعض لوگ اپنی عمر سے بڑے کو غلطی کا مرتکب پاتے ہیں تو فوراً جوش میں آکر سب کے سامنے اسے سختی سے ڈانٹ دیتے ہیں اور رسوا کرتے ہیں۔ اس طرح اس شخص کی نفرت مول تو لے لیتے ہیں لیکن وہ ان کی نصیحت سے کوئی فائدہ بھی نہیں اٹھاتا۔

اسباب کا علاج کیے بغیر غلطیوں کی اصلاح

دوسروں کی غلطیوں کی اصلاح کے دوران ایک اور غلطی جو ہم سے ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم غلطیوں کے اسباب سے اچھی طرح واقفیت حاصل نہیں کرتے اور غلطیوں کا علاج یہ سوچ کر کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہی اصل اسباب ہیں۔ مثال کے طور پر بچےنے چوری کی۔ والد یا استاد اس غلطی کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چوری کے علاج کے لیے ہو سکتا ہے کہ وہ سخت سزا کا سہارا لیں اور بچے کو سختی سے ڈرانے کی کوشش کریں۔ لیکن اس طرح وہ صرف غلطی کا علاج کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے کارفرما سبب یا اسباب کو تلاش نہیں کرتے جنھوں نے اسے چوری کرنے کی طرف مائل و راغب کیا ہے۔ ممکن ہے چوری کی وجہ یہ ہو کہ اسے جیب خرچ نہیں دیا جاتا یا مناسب جیب خرچ نہیں دیا جاتا۔ ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنے بڑے بھائی کو یا کسی ایسے فرد کو جس کو وہ اپنا آئیڈیل مانتا ہو، چوری کرتے ہوئے دیکھا ہو۔

بچوں کی چوری کی حرکت کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق نہیں سمجھتا ہے۔ اس میں ہو سکتا ہے غلطی والدین کی ہی ہو۔ یعنی جب بچہ ان کے سامنے دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہو تو بچے کی رہنمائی اس جانب نہ کی جاتی ہو کہ دوسروں کا حق مارنا جائز نہیں ہے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوسرا کوئی اس کا حق مار لیتا ہو۔ ابتدائی عمر میں بچوں کو دوسروں کے حقوق کے احترام کی تعلیم دینا اور یہ سکھانا ضروری ہے کہ دوسروں کے حقوق نہ ماریں یا جس کا حق ہے اس کی اجازت کے بغیر نہ لیں۔ اس طرح یقینی طور پر بچے کو یہ ادراک ہوگا کہ دوسروں کی چیزوں پر اس کا کوئی حق نہیں ہے، اسی طرح جس طرح اس کی چیزوں پر دوسروں کا کوئی حق نہیں ہے۔

خلاصہ

مختصراً یہ کہ غلطیوں کے اسباب کی درستی و اصلاح پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اس لیے کہ اسباب کا علاج عملی طور پر غلطیوں کا خیالی و فکری نہیں بلکہ حقیقی علاج ہے۔ ظاہری اعراض کا علاج نہ حقیقی علاج ہوتا ہے اور نہ مسائل کا بنیادی حل ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ غلطی کرنے والے کے لیے عذر تلاش کرنا اس سے مختلف معاملہ ہے۔ یہ اس وقت درست ہوتا ہے جب کہ غلطیوں کا صدور بلا ارادہ و بلا قصد ہوا ہو یا وہ غیر اخلاقی نوعیت کی ہوں۔ اس قسم کی غلطیوں میں تو ہم کسی نہ کسی حال میں عذر تلاش کر سکتے ہیں، لیکن جہاں تک تعلق اخلاق منافی غلطیوں کا ہے، ان میں کوئی عذر یا بہانہ تلاش نہیں کیا جائے گا۔ اس میں تو غلطیوں کے پیچھے کار فرما اسباب کو ہی تلاش کیا جائے گا اور ان کے علاج کی کوشش کی جائے گی تاکہ جڑ سے بیماری کا خاتمہ ہو جائے۔ اسی طرح بڑی عمر کے لوگوں کی بعض ایسی اخلاق منافی غلطیوں کے لیے عبرت ناک سزائیں مقرر ہیں۔ حکام و انتظامیہ کی جانب سے ان میں نرمی نہیں برتی جانی چاہیے۔کیوں کہ سزا میں نرمی فرد اور سماج دونوں کی تباہی و بربادی کا موجب ہوگی۔

البتہ بڑوں کی ایسی غلطیاں جن کی کوئی سزا مقرر نہیں ہے، مثلاً جھوٹ بولنا، تو ان کے علاج و اصلاح کے لیے مخلصانہ نصیحت اور پختہ ایمانی تربیت کو ذریعہ بنانا چاہیے۔ اس لیے ان غلطیوں کی اصلاح میں سب سے اہم ذریعہ ایمانی و اخلاقی تربیت ہی ہے۔ کاش کہ والدین بچپن میں ہی تربیت کی اہمیت اور اس سے غفلت کے نتائج وعواقب کا ادراک کر لیں۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2025

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2025

Dec 25شمارہ پڑھیں

نومبر 2025

Novشمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223